Rond di gaen kaliyan mere bagh ki by Mahasin Abdullah



روند دی گئی کلیاں میرے باغ کی

محاسن عبدالله پشاور

تپتی دوپہر کا وقت تھا۔ سورج سوا نیزے پر تھا۔ وہ بار بار دروازے کے پاس جاتی۔ دیر تک دروازے سے باہر جھانکتی اور جب آنکھیں باہر دیکھ دیکھ کے تھک جاتی تو دروازہ کھلا چھوڑ کر اندر آکر دروازے کے سامنے چارپائی پر بیٹھ جاتی۔ میں دو گھنٹوں سے لگاتار اپنے گھر کی کھڑکی سے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ رہا نہ گیا تو تجسس کے مارے کھڑکی سے ہی آواز دے کر پوچھ بیٹھی۔۔ ”باجی جی۔۔!! کیا بات ہے۔ آپ کچھ پریشان لگ رہی۔“ابھی آدھی بات میرے منہ میں تھی کہ وہ روتے ہو ئے بولی۔ ” خلود بٹیا وہ آدم بیٹا ابھی تک نہیں آیا۔ سکول سے تو بھی تو جانتی ہے نہ اس کی چھٹی ڈھیڑ بجے ہو تی ہے جب کہ ابھی تین بج کر پندرہ منٹ ہو رہے۔ بٹیا میرا بہت دل گھبرا رہا تو جا کہ اپنی ماں سے کہہ جمیلہ کہہ رہی ہے۔ جمال بھائی کو آدم کے سکول سے پتہ تو کروانے بِجوا زرا۔۔“ وہ اپنے چہرے پر تواتر بہتے آنسو صاف کرتے ہو ئے جلدی جلدی بول رہی تھی۔ آدم ان کا اکلوتا ہونہار بیٹا تھا۔ باجی ہماری پڑوسن میں تھی۔ دو سال پہلے آدم کے ابّا کسی ٹرک ڈرائیور کی لاپروائی سے ٹرک حادثے کا شکار ہو  کر اسی وقت دارے فانی کوچ کر گئے تھے۔ اور باجی جمیلہ نے جوانی میں چار سالہ ایک ہی بیٹے کے ساتھ بیوگی کی چادر اوڑھ لی تھی۔ ہم سفر کی بے وقت موت نے تو جیسے انھیں توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ سالوں وہ دنیا وما فیہا سے غافل شوہر کی ایک ایک بات یاد کرکہ سسکتی رہتی۔ یہاں تک کے اپنے بیٹے تک کو بھول گئی تھی۔ قریب تھا کے وہ مکمل طور پر زہنی مفلوج ہو جاتی اگر ہمارے محلے میں مولوی صاحب بمع اہل و عیال نہ آتے۔ مولوی صاحب کی بیوی صابرہ باجی بڑی ہی الله لوک خاتون تھی۔ جب باجی جمیلہ کا حال پتہ چلا تو دوسرے ہی دن گھر کے بار چھوڑ کر باجی جمیلہ کے ہاں آئی۔ کافی دیر تک ان کے پاس بیٹھی رہی۔ باجی اور آدم کو اپنے ہاتھوں سے خوب کھلا پھلا کہ جب وہ گھر واپس گئی تو مولوی صاحب کو باجی کے حالات بتائے۔ مولوی صاحب بھی بہت ہی رحم دل انسان تھے۔ سن کے افسردہ ہو نے کے ساتھ ساتھ صابرہ باجی کو روز وہاں جانے اور ان کی دلجوئی کرنے کی تلقین کی۔ ساتھ میں باجی کو کچھ پیسے پکڑا کر ان کے گھر راشن ڈلوانے کا بھی کہا۔ باجی صابرہ روز ان کے ہاں جاتی باجی جمیلہ کے ساتھ باتیں کرنے کی کوشش کرتی اور آدم پر توجہ دینے کا کہتی۔ باجی صابرہ کے بدولت ہی دھیرے دھیرے باجی جمیلہ صدمے سے نکلنے لگی تھی۔ ایک دن جب باجی صابرہ نے آدم کو تعلیم دلوانے کی بات ان کے کان میں ڈالی تو باجی جمیلہ بیٹے کی خوبصورت ترین مستقبل کا سوچ کر مطمئن ہو ئی۔ پھر ہم نے دیکھا آدم سکول جانے لگا تھا۔ باجی جمیلہ گھر گھر جاکر برتن مانجھتی، کپڑے دھوتی، کسی کی صفائی کرتی اور اس سے جو کچھ انھیں ملتا وہ اپنے اکلوتے لاڈلے لخت جگر پر لگاتی۔ آدم کا شمار سکول کے بہترین طالب علموں میں تھا۔ وہ ماں کی محنت و محبت دیکھتا تو مزید لگن سے پڑھتا۔ سکول کے بعد تو وہ کھیلنے کے لیے میدان میں بھی بہت کم کم نظر آنے لگا تھا۔۔ جب بھی باتوں باتوں میں کوئی دوست اس سے پوچھتا۔ ”اے آدم تو اتنا پڑھ لکھ کر آخر بنے گا کیا۔ کبھی کھیل بھی لیا کر ہمارے ساتھ۔ “اور آدم وہ ایک اداس سی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاتے ہو ئے بولتا۔ ”میں پڑھ کر ماں کا سہارا بنوں گا۔ ماں کو دوسرے گھروں میں کام کرنے جانے نہیں دوں گا۔ “اور اس جواب پہ کوئی تو خاموش نظروں سے اسے گھورتا یا پھر ہم عصر اس کے اس کو مذاق کا نشانہ بناتے۔ عمر اس کی تتلیاں پکڑنے ، پتنگ اڑانے اور ہم عصروں کے ساتھ کھیل کودنے کی تھی۔ لیکن آدم حساس تھا بہت حساس۔ وہ جب جب بیمار ماں کو تھکن سے چور جسم کے دردوں سے کراہتے ہو ئے دیکھتا۔ تب تب اس کا زندگی کے رنگوں سے دل اَڑ جاتا۔۔ وہ بس ایک مقصد ایک رنگ ”ماں“ کے ساتھ جینا چاہتا۔ لیکن آج سالوں بعد وہ حساس بچّہ ماں کی پریشانی کی پروا کیے بغیر گھر سے دو گھنٹہ غائب تھا۔ اور وجہ کسی کو معلوم نہیں تھی۔ میں باجی جمیلہ کا پیغام ماں اور ابّا دونوں کو دے کر واپس کھڑکی کی طرف آئی۔ ”خلود بٹیا وہ جمال بھائی چلے گئے آدم کے سکول یا نہیں۔؟؟ “میں جونہی کھڑکی میں کھڑی ہو ئی تو باجی جمیلہ نے مجھ پر نظر پڑھتے ہی مجھ سے پوچھا۔ جواباً میں نے انھیں تسلی دی۔ اور ابّا کے جانے کا بتایا۔ باجی جمیلہ کی حالت دیکھ کر مجھے بھی پریشانی نے گھیر رکھا۔ باجی جمیلہ لاڈلے کی سلامتی کے لیے نفل نماز پڑھنے کھڑی ہو ئی۔ جب کہ میں میں دل ہی دل میں الله میاں سے آدم کے خیریت سے گھر پہنچنے کی دعائیں کر رہی تھی۔ اچانک باجی جمیلہ کے دروازے پر دستک ہو ئی۔۔ میں نے دیکھا دستک دینے والے میرے ابّا ہی تھے۔۔ مجھے لگا شاید وہ آدم کو لے آئے ہیں۔ ابھی میں پوری طرح سے آدم کے آنے پہ خوش بھی نہیں ہو ئی تھی کی باجی جمیلہ کی درد بھری چیخیں میرے کانوں سے ٹکرائ۔ میں معاملے کو سمجھے بنا باہر کی طرف بھاگی ماں کو ساتھ لیا اور باجی جمیلہ کے ہاں جاکر ہی سانس لی۔ میں نے دیکھا ابّا دروازے پر نہیں تھے۔ باجی جمیلہ نے جیسے ہی ماں کو دیکھا۔ وہ اٹھی اور ماں سے لپٹ کر تڑپ تڑپ کر رونے لگی۔ میں بس خاموشی سے ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ سنے جا رہی تھی۔۔ وہ بول رہی تھی۔ ”رابعہ بہن تو بھی تو جانتی ہے نہ آدم کو۔۔!! وہ کبھی مجھ سے پوچھے بغیر گھر سے باہر نہیں نکلا اور آج دیکھ۔ دیکھ آج وہ چار گھنٹے سے غائب ہے۔ اور بھائی جمال بول رہے تھے کے چھٹی تو وقت پر ہو ئی تھی۔ سکول کے سب بچے چھٹی ہو تے ہی نکل گئے تھے۔ “وہ روتے ہو ئے بولتی جارہی تھی۔ محلے کی اور بھی عورتيں آنے لگی تھی۔ مولوی صاحب تک خبر پہنچی تو اعلان کرنے کے بعد محلے والوں کو اس یتیم اور بے سہارا لڑکے کو ڈھونڈنے کے لیے سکول اور گھر کے آس پاس علاقوں میں بھیجا۔ باجی جمیلہ کی حالت دیکھ کے محلے کی عورتوں کے آنکھوں میں بھی آنسو آئے۔ باجی صابرہ اور ماں دونوں مل کر باجی جمیلہ کو حوصلہ دے رہی تھی۔ لیکن ”حوصلہ“ لفظ بھی شاید ان کے درد کو سمجھتے ہو ئے دور ہو  گیا تھا۔ بہت دور۔۔ مجھ سے باجی جمیلہ کا رونا دیکھا نہیں گیا تو میں نے وہاں سے جانے میں ہی عافیت سمجھی۔ میں ابھی دو قدم آگے گئی ہی تھی کے مجھے دروازے کے پاس مردوں کا ہجوم دکھائی دیا۔  میں تھوڑا سا آگے ہو ئی تو مولوی صاحب کے ہاتھوں میں ایک پھٹا ہو ا بیگ اور ایک جوتا دکھائی دیا۔ یہ بیگ اور یہ جوتا۔؟؟ آخر یہ دونوں چیزیں ہیں کس کی اور مولوی صاحب کے ہاتھ میں کیا کر رہی۔؟ ”یہ بیگ دیکھیں آپ لوگ اور وہاں آپ سب نے وہ نشانات دیکھے تھے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے آدم کے ساتھ زبردستی کی گئی ہو  اور اسے کھینچ کر لے جایا گیا ہو ۔“ ”جی مولوی صاحب مجھے بھی یہی لگ رہا ہے یہ اغواء کا کیس ہی ہے۔۔“ اے مالک۔!! ایسا کیسے۔۔ یہ سب۔۔ اغواء۔۔ آدم۔۔ میں بیگ وغیرہ کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ مجھے مولوی صاحب کی آواز سنائی دی۔ میرا ذہن ماؤف ہو رہا تھا۔ مجھے دنیا گول گول گھومتی ہو ئی محسوس ہو  رہی تھی۔ یہ سوچ کر کہ اگر میرا یہ حال ہے تو۔ تو باجی جمیلہ ان کا تو کلیجہ پھٹ جائے گا۔ ماں اور باجی صابرہ نے مجھے ڈگمگاتے ہو ئے دیکھا تو دونوں میرے پاس آئی۔۔ ماں پریشانی سے پوچھنے لگی۔۔ ”خلود بٹیا کیا ہو ا۔ تیرا رنگ اتنا پیلا کیوں ہو  رہا ہے۔“ باجی صابرہ بھی میری طرف متوجہ ہو گئی۔۔ میں نے دیکھا میرے آنسو بہنے لگے تھے۔۔ مجھ میں یہ فلک شگاف خبر سنانے کی سکت باقی نہیں رہی تھی۔ میں نے انگلی سے دروازے کی طرف اشارہ کیا تو باجی صابرہ دروازے کی طرف بھاگی۔ مولوی صاحب جو شاید انھی کو خبر دینے کے لیے اندر بلاوا بھیج رہے تھے انھیں دیکھ کر ساری روداد سنانے لگے۔۔ باجی جمیلہ اور اماں دونوں بھی معصوم کلی کے روند جانے کی خبر سن کر رونے لگی۔۔ پیچھے سے کسی کے دڑام سے گرنے کی آواز آئی۔۔ ہم تینوں نے پیچھے دیکھا تو وہ باجی جمیلہ ہی تھی۔۔ وہ بے ہو ش ہو کر گر پڑھی تھی۔ اور وہی ان کی اصل زندگی تمام ہو ئی تھی۔ انہوں نے مولوی صاحب کی باتیں سن لی تھی۔ اور اس دن سے لے کر آج تک میں میں نے باجی جمیلہ کو کبھی زندوں کی طرح زندہ نہیں دیکھا۔ ایک زندہ لاش بن چکی ہے وہ۔ ہو ش میں ہو  تو آدم کے نام کی چیخیں محلے کی درو دیودار ہلا دیتی ہیں۔ اور دنیا سے بیگانہ ہو  جائے تو آدم بھی نامی تسبیح ان کے زبان پر جاری رہتی ہیں۔ میں سوچتی ہو ں کتنے ظالم ہو تے ہیں یہ لوگ۔ کتنے سخت جان۔ باجی جمیلہ کی طرح ایسی ہزاروں بیواؤں کی آہیں کیا ان کی زندگی پر سکون رہنے دے گی۔ آدم نے کتنی مزاحمت کی ہو گی ان بے دردوں کی۔ مجھے ماں کے پاس جانا ہے۔ وہ اکیلی ہو گی۔ ماں فکر مند ہو گی۔ ماں میرے دیر ہو نے پر رو رہی ہو گی۔ اس کی طرح کی کتنی معصوم چیخیں اس کے منہ سے نکلی ہو نگی۔ اس نے بھاگنے کے کتنے جتن کیے ہو نگے۔ اور ان بے رحم وحشی دردندوں نے شاید اس کو مارا بھی ہو گا۔ میری روح کانپ جاتی ہے جب میں آدم کے بارے میں سوچتی ہو ں۔ کہ ان بھیڑیوں نے اس معصوم کلی کا کیا ہو گا۔ آدم جیسی کتنی کلیاں ہو نگی۔ باجی جمیلہ جیسے بیواؤں کتنے گود اجڑے ہو نگے۔ لوگ کہتے ہیں باجی جمیلہ لخت جگر کی محبت میں پاگل ہو چکی ہے۔ لیکن میں سوچتی ہو ں انھیں آدم کے ساتھ ہو نے والے ظلم نے مار ڈالا۔ وہ آدم کی تکالیفوں کا سوچ کر نہ مردہ رہی نہ جی رہی۔

اللهﷻ کی پناہ حاصل کرکہ خود کو باجی جمیلہ اور اپنے اولاد کو آدم بنانے سے بچائیے۔
صبح وشام کے اذکار کا خاص اہتمام کرنے کے علاوہ بچوں کو گھر نے نکلنے کی چھوٹی سی دعاء ”بسم الله توکلت علی الله لا حول ولا قوة الا بالله (ترمذی)“ جس کا ترجمہ ہے ” اللهﷻ کے نام سے میں نے باہر قدم رکھا، اللهﷻ ہی پر میں نے بھروسہ کیا، اور اللهﷻ کے مدد کے بغیر کوئی چارہ گری اور کوئی قوت حاصل نہیں ہو سکتی۔۔
یہ چھوٹی سی دعاء آپ یقین سے پڑھ کر اور بچوں سے پڑوا کر گھر سے باہر نکلے گے۔ تو اللهﷻ کے سوا دنیا کی کوئی طاقت آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔۔

وفقکن الله

Comments

  1. Great job and speachless..
    Allah sb ki izato ki hifazat farmaye.. ameen

    ReplyDelete

Post a Comment