عنوان: خون کی بوتل
تحریر: الیاس حیدر
جمشید
جم سنٹر سے واپس موٹر سائیکل پر آ رہا تھا کہ جیب میں فون کی گھنٹی بجی۔۔
جمشید: جی کون بھائی۔
رفیق
: بھائی میں رفیق بول رہا ہوں میرے بھائی حیدر
کو O-Ve
خون چاہیے اور بہت جلدی وقت بہت کم ہے۔
جمشید
: بھائی میں ابھی نہیں دے سکتا sorry...
رفیق:
بھائی میں نے بہت لوگوں سے پوچھا ہے مگر کوئی انتظام نہیں ہو سکا خدا کے بعد آپ سے ہی امید ہے مہر بانی فرمائیں۔۔
جمشید:
یار کوئی زبردستی ہے کیا؟؟؟
اور
غصے سے کال بند کر دیتا ہے۔
اپنے
آپ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔۔ ابھی ابھی جم جوائن کی ہے اور ابھی سے خون دے دوں۔۔ میرا
دماغ خراب ہے ایسے ہی چلتے پھرتے کمزوری مول لے لوں۔ غصے میں موٹر سائیکل کی رفتار
تیز ہو جاتی ہے۔۔
رفیق
نا امید ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھا ہوتا ہے کہ فون کی گھنٹی بجی تو دیکھا
کہ جمشید کی کال آ رہی تھی رفیق نے خوش ہو
کر کال سننے لگا کہ شاید راضی ہو گیا ہے مگر ایک نا معلوم شخص کی آواز تھی اور کہ رہا
تھا کہ اس بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے اور آخری کال آپ کی تھی۔
رفیق
ایک بار پھر شدید صدمے سے دوچار سوچوں میں گم مگر کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔۔
اتنے
میں ایک تیزی سے اسٹریچر ایمرجنسی وارڈ کی جانب جاتے دیکھا۔
چند
لمحوں بعد ایک درد بھری آواز سے کسی نے بین کیا۔۔ شاید اس کی ہمشیرہ تھی۔
جمشید
اپنے خون کو شاید وہیں سڑک پر گرا آیا تھا۔
رفیق۔۔رفیق۔۔
جلدی آؤ بھائی آخری ہیچکیوں پہ ہے۔۔ رفیق کے چچازاد نے آواز دی۔
رفیق
کھبی منہ کے بل گرتا کبھی سنبھلتا بھائی کے پاس پہنچا تو وہ بھی جمشید والی گاڑی پکڑ
چکا تھا۔ ہسپتال میں جیسے قیامت سی آ گئی ہو۔
رفیق
پر بھائی کے جانے کا غم اور گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھ گیا تھا۔ پچھلے سال بھابھی
اور اس سال بھائی بھی چھوڑ گیا۔
بھائی
کی وفات کے دس دن بعد رفیق سکول پڑھانے گیا تو تمام اساتزہ نے اظہار افسوس کیا۔
چھٹی
کے بعد ہیڈماسٹر صاحب نے کہا کہ رفیق میں مس سارا کے گھر فاتح خوانی کے کیے جا رہا
ہوں آپ بھی آ جائیے۔
دروازے
پہ پہنچ کر بل دی تو ایک بچہ باہر آیا اور بولا بابا نہیں ہے وہ اللہ کے پاس گئے ہیں۔
رفیق
نے اسے پیار دیا اور بولے۔۔۔ امی سے بولو سر آئے ہیں۔
سارا
نے رفیق کی آواز سنتے ہی بیٹھک کا دروازہ کھولا اور اندر آنے کو کہا۔
فاتح
خوانی کے بعد وجہ موت دریافت کی تو بتایا کہ 14 اپریل کو ایکسیڈنٹ ہوا تھا انکا۔
14
اپریل کا سنتے ہی رفیق بولا جمشید نام تھا ان کا کیا۔
جی
ہاں۔۔ سارا آنکھیں صاف کرتے ہوئی بولی۔
جیسے
کیسے دن گزرتے رہے اور سب معمول پہ آ گیا۔ مگر 5 ماہ سے سارا سکول نہیں آ رہی تھی۔۔
ہیڈ
ماسٹر صاحب نے پیغام بھیجوایا تو سارا نے بتایا کہ وہ اب سکول نہیں آسکتی جب تک شادی
نہ ہو جائے لوگوں کی باتیں سننیں کی اب ہمت نہیں رہی۔
کانو
کان یہ بات رفیق تک ہہنچی تو اس نے ایک یتیم
بچے اور بیوہ کی زندگی کے لیے سارا کا رشتہ مانگنے اپنی بہن کو بھیجا۔
سارا
نے بڑی خوشی سے اس رشتے کو قبول کیا۔
شادی
کے بعد دونوں میاں بیوی نے سکول جوائن کیا۔ شام کو سکول کے بعدغریب بچوں کو فری ٹیوشن بھی پڑھا تے ہیں۔
اب
رفیق ہر تین چار ماہ بعد ایک فاؤنڈیشن میں بلڈ دینے جاتے ہیں۔
میں
نے اتنی باقائدگی سے بلڈ دینے کی وجہ دریافت کی تو رفیق نے بتایا کہ ایک آدمی کے خون
نہ دینے کی وجہ سے میرے بھائی کی جان گئی۔۔۔وہ خود خون کو ترستے چلا گیا۔۔۔۔ اب میرا
بیٹے کو ایسی بیماری لاحق ہے کہ خون ہی خون درکار ہے۔۔ تو میں نے سرعام کی ٹیم سے رابطہ
کیا تو وہ میرے بیٹے کو باقائدگی سے خون لگواتے ہیں۔۔ وہ میرے بچے کی زندگی میں فرشتہ
بن کر آے ہیں
میں
کیوں نہ دوسروں کے بچوں کےلیے فرشتہ ثابت ہوں۔
ایک
خون کی بوتل ظاہری طور پر ایک مریض کو لگتی ہے مگر سچ پوچھو تو وہ بوتل ایک نسل کی
رگوں میں دوڑتی ہے اس میں بزرگوں کی دعائیں ہوتی ہیں اس میں معصوم بچوں کی مسکراہٹ
ہوتی ہے۔۔ اس میں ماؤں کی محبت ہوتی ہے اس میں بہنوں کی بے پناہ اور کبھی نہ رد ہونے
والی دعا ہوتی ہے۔
تحریر
کو آگے بھیجیں۔۔ شکریہ
ولسلام جانبازِ
وطن
الیاس حیدر
Comments
Post a Comment