Gaali novel by Sayda Toqeer Batool

Gaali novel by Sayda Toqeer Batool

گالی
تحریر: سیّدہ توقیر بتول

’’ پترُ! کہاں جا رہی ہو؟ِ‘‘
ابھی میں باہر نکلنے ہی والی تھی کہ دادا جی کی آواز پر رُک گئی۔ایک نظر اپنے ہاتھوں میں تھامے سامان پر ڈالی اور گہری سانس بھر کر رہ گئی۔اب ان کو ساری تفصیل بتانی پڑے گیااور میں لیٹ ہو رہی تھی۔
’’کام سے جا رہی ہوں دادا جی واپس آ کر تفصیل سے بتاؤں گی‘‘۔اور میں جلدی سے باہرنکل گءئ مبادا وہ مجھ سے تفتیش ہی نہ شروع کر دیں۔
میں ایک سوشل ورکر ہوں اور خاص طور پر خواتین کے حقوق کے لیے بہت سے کام کر چُکی ہوں۔
اب بھی ایک تحریک شروع ہوئی تھی اس میں میرا جانا بہت ضروری تھا ۔
میں نے کالج ،یونیورسٹی کی بہت سی لڑکیوں کو اس تحریک میں شامل ہونے کے لیے موٹیویٹ کیا تھا۔میری زبان میں اللہ پاک نے ایسی تاثیر رکھی ہے کہ میں ہر کسی کو آسانی سے قائل کر لیتی ہوں۔
یہ صرف میرا خیال نہیں بلکہ میرے ماما،بابا،میری دوستیں اور میری آرگنائزیشن کی ڈائریکٹر تک اس بات کا اعتراف برملا کرتی تھیں۔
اس لئے آج اُمید تھی کہ ہم اپنی تحریک کو کامیابی سے پایۂ تکمیل تک پہنچایءں گی۔خواتین میں آگہی اور شعور پیدا کر کہ ہم اپنے مقاصد میں کامیابی سے ہم کنار ہو سکتی ہیں۔
میں جو پلے کارڈ لائی تھی وہ میڈم کو پکڑائے اور خود لڑکیوں کی طرف چلی گئی۔
پورا دن مختلف نعروں والے پلے کارڈز ہاتھوں میں تھامے پُرجوش لڑکیاں مجھے اپنے خوابوں کی تعبیر کے لئے اُمید کی کرن محسوس ہو رہی تھیں۔شام کو جب تھکی ہاری گھر پہنچی تو تقریباًسب کا ہی موڈ خراب تھا، مجھے بہت حیرت ہوئی۔
ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ میں گھر آؤں تو مجھے اس طرح کے حالات اور تیوروں کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
بحرحال بھوک لگی تھی اس لئے جلد ہی کھانے پر ٹوٹ پڑی کہ مجھے ماما کے بغیر کسی کے ہاتھ کا کھانا پسند نہیں تھا،پورا دن خوار ہونے کے بعد میں ہمیشہ گھر آکر کھانا کھاتی تھی ۔
’’کیا بات ہے ماما؟‘‘کھانا کھانے کے بعد میں نے پوچھا اُن سے اور دیکھا بابا کی طرف جو کافی پینے میں مصروف تھے ایسے جیسے اس سے زیادہ ضروری کام کوئی اور ہو ہی نہ۔
ماما نے بھی بابا کی طرف دیکھا اور کھنکھار کے گلہ صاف کیا۔
’’تم آج کہاں تھی؟‘‘اُن کا لہجہ اتنا عجیب کیوں تھا؟
میں چونک پڑی۔
’’ماما آرگنائزیشن کے کاموں میں مصروف ہوتی ہوںآپ کو پتہ ہے ناں‘‘
’’آج کہاں تھیں؟‘‘ماما نے اپنا سوال پھر سے دہرایاتو مجھے ایک دم غصہ آگیا۔
’’کہاں جانا ہے میں نے ماما؟ظاہرہے آرگنائزیشن کے ہی کاموں میں لگی رہی ہوں دن کو‘‘۔
’’تم آرگنائزیشن میں ریزائن دے رہی ہو۔اوکے۔‘‘
اس سے پہلے کہ ماما کچھ بولتیں بابا نے سخت لہجے میں آرڈر سُنایا اور اُٹھ کر چلے گئے۔
میں شاکڈ سی ماما کو دیکھ رہی تھی،بابا نے کبھی مجھ سے ایسے بات نہیں کی تھی۔
’’ماما پلیز کیا ہوا ہے ؟مجھے بتایءں تو سہی‘‘۔میں روہانسی ہو گئی۔
مجھ سے والدین کی یہ بے رُخی برداشت نہیں ہو رہی تھی۔
’’کچھ نہیں ہوا سارہ!بس تم کل جا کے ریزائن کر آؤ۔‘‘ماما کے لہجے میں اب کی بار سکون تھا۔
وہ اُٹھ کر کچن میں چلی گیءں اور میں حیرت کے سمندروں میں گھری وہیں بیٹھی رہ گئی۔
وہ ساری رات میری کانٹوں پر گزری تھی۔ظاہر ہے ایک ایسی لڑکی جس نے ہمیشہ محبتیں ہی دیکھی ہوں، کبھی کسی کے ماتھے پر بل تک نہ دیکھا ہو اپنے لیے وہ یہ سب کیسے برداشت کر سکتی تھی۔
صبح تک آخر کار میں نتیجے پر پہنچ چُکی تھی کہ مجھے بابا سے واضح بات کرنی چاہیے۔
’’بابا ! آپ نے تو ہمیشہ آگے بڑھنے کے لیے میری حوصلہ افزائی کی ہے اور میرے سوشل ورک کرنے کو آپ نے ہمیشہ اچھا سمجھا،پھر اب ایسا کیا ہو گیا ہے؟‘‘میں بابا کے کمرے میں بیٹھی اُن کے سامنے سراپا سوال بنی ہوئی تھی۔
’’ہر چیز حد میں رہ کر اچھی لگتی ہے،سوشل ورک بھی تب تک اچھا لگتا ہے جب تک اُس میں بھلائی اور خیر ہولیکن جب وہی سوشل ورک گالی بن جائے تو اس سے کنارہ کر لینا بہتر ہے۔‘‘بابا کا لہجہ رات کی نسبت بہت نرم تھا۔
’’بابا!مجھے سمجھ نہیں آئی آپ کی بات،میرا سوشل ورک گالی کیسے بن گیا؟
میں نے ایساکیا کر دیا؟
کیا صرف عورت کے حق میں آواز اُٹھانے سے میرا سوشل ورک گالی بن گیا؟‘‘میرا لہجہ آخر میں تلخ ہو گیا،مجھے کچھ کچھ اُن کی ناراضگی کی وجہ سمجھ آگئی تھی لیکن مجھے توقع نہیں تھی بابا سے اس بات پے خفا ہونے کی۔
’’بیٹا !آپ پہلے بھی عورتوں کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہو۔میں نے کبھی منع کیا؟نہیں ناں،لیکن آج حد ہو گئی ہے ۔بس زیادہ سوال جواب نہیں ،آج ہی جا کے ریزائن کر و۔‘‘
’’بابا!پلیز یہ تحریک ختم ہو جائے تو اُس کے بعد ریزائن کر دوں گی۔‘‘میں نے بابا سے التجا کی لیکن بے سود۔
بابا کی نگاہوں میں قطعیت تھی۔
وہ اُٹھ کر باہر چلے گئے اور میں وہاں بے بسی سے بیٹھی رہ گئی۔
اب کیا کروں؟میں بابا کو قائل کر سکتی تھی اگر وہ میری بات سن لیتے لیکن وہ تو اپنی کہہ کر جا چُکے تھے۔
میں آرگنائزیشن کو تحریک کے دوران نہیں چھوڑ سکتی تھی کیونکہ میں آرگنائزیشن کی روح رواں تھی اور اس تحریک کے لیے میں نے بہت کاوٗشیں کی تھیں۔
مجھے دادا جی سے بات کرنی چاہیئے۔
میر ے ذہن میں یہ خیال کوندے کی طرح لپکا تو میں بھی عجلت میں دادا جی کے کمرے کی طرف لپکی۔
’’دادا جی!دیکھیں ناں بابا بہت ظالم بنتے جا رہے ہیں،بالکل روایتی مردوں کی طرح۔‘‘میں منہ بسورے دادا جی سے شکایت کر رہی تھی۔
وہ میری بات پر مسکرائے اورہمیشہ کی طرح محبت بھرے لہجے میں بولے ۔
’’کیا ہوا پُتر؟‘‘
’’اب بتایءں بھلا کیا تُک بنتی ہے اس موقع پر ریزائن کا آرڈر کرنے کی جب کہ تحریک اپنے عروج پر پہنچنے والی ہوتو‘‘
’’ہوا کیا ہے تفصیل سے بتاو گی تو ہی میرے پلے کچھ پڑے گا ناں‘۔دادا جی میرے چہرے کا بغور جائزہ لے رہے تھے جہاں مجھے پتا ہے اس وقت صرف اور صرف ٖغصہ تھا۔
دادا جی کچھ آرگنائزیشنز نے حقوق نسواں کے لیے ایک تحریک شروع کی ہے اُن میں ایک ہماری آرگنائزیشن بھی ہے۔بابا نے شاید مجھے میڈیا پر دیکھ لیا ہے اور وہ اب غصے میں کچھ سنتے ہی نہیں ہیں بس ایک ہی بات کرتے ہیں کہ استعفیٰ دو۔‘‘
’’کیا پہلے یہ سب نہیں کرتی تھیں تم ؟‘‘دادا جی نے سوال کیا ۔
’’یہی بات تو میں بھی کر رہی تھی‘‘۔میں چمک کر بولی۔’’لیکن بابا کہتے ہیں کہ اب میرا سوشل ورک بھلائی نہیں بلکہ گالی بن گیا ہے اس لیے بہتر ہے کہ میں ریزائن کردوں۔‘‘
’’اس میں کیا نیا ہے پتُر؟‘‘چند لمحے دادا جی سوچنے کے بعد پھر سے میری طرف متوجہّ ہوئے۔’’مجھے اس کے بارے میں جاننا ہے، کچھ تو ہو گا اس میں ورنہ حسن ایسی بات کبھی نہ کرتا میں جانتا ہوں اپنے بیٹے کو ۔‘‘
میں نے گلہ آمیز نظروں سے انھیں دیکھا۔انھیں بھی میں ہی غلط لگ رہی تھی،چلو کوئی بات نہیں دکھا دیتی ہوں ان کو وڈیو۔میں نے اپنے موبائل پر ویڈیو چلائی اور اُنھیں تھما دیا۔
’’حسن واقعی ٹھیک کہتا ہے پتر‘‘۔ویڈیو دیکھنے کے بعد دادا جی گہری سانس خارج کرتے ہوئے بولے تو میں دھک سے رہ گئی۔میرا دماغ ایک دم سے گھوم گیا۔
’’کیا غلط ہے اس میں؟کیا آپ بتانا پسند کریں گے؟‘‘میرا لہجہ طنزیہ تھا۔
’’پہلے آپ بتاؤ کیا درست ہے اس میں؟‘‘انھوں نے میرے ہی انداز میں سوال کیا۔
’’عورتوں کے حقوق کی بات کرنا غلط ہے کیا؟کیا ہمیشہ عورتیں مردوں کی بے دام غلام رہیں گی؟کیا انھیں آزادی سے زندگی گُزارنے کا حق نہیں ہے؟کیا انھیں ہمیشہ اپنے چھوٹے چھوٹے خوابوں ، چھوٹی چھوٹی خواہشوں کی قربانی دینی پڑے گی؟کیا وہ کبھی بھی کھل کر سانس لینے کا حق نہیں رکھتیں؟کیوں دادا جی ؟آخر کیوں؟اس لیے کہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے۔مردوں کی راجدھانی میں جہاں عورت کہ گالی سمجھا جاتا ہے وہاں عورت کے حق میں اُٹھنے والی آواز کو کیونکر اچھا سمجھا جائے گا؟ایک منٹ!‘‘
میں دادا جی کو کچھ کہنے کے لیئے منہ کھولتا دیکھ کر پہلے سے بول پڑی
 ’’مجھے اپنی بات مکمل کرنے دیں۔ ہمارے معاشرے میں مردوں کو حکمرانی کی عادت ہو گئی ہے۔عورتیں سارا دن کولہو کے بیل کی طرح جُتی رہتی ہیں اور مرد جب گھر آتا ہے توجو اس کا جی چاہتا ہے عورت کے ساتھ سلوک کرتا ہے،آخر کیوں؟وہ عورت کا خُدا کیوں بن جاتا ہے؟اگر ہم نے یہ نعرہ بلند کیا کہ اپنا کھانا خود گرم کرو تو اس میں مردوں کو اتنی تکلیف کیوں ہو رہی ہے؟اتنا سا کام بھی خودکرتے ہوئے اُن کی شان میں کمی کیوں آتی ہے؟
عورتوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ہر کام اپنے مردوں کی مرضی سے کریں،انھیں مجبور کیا جاتا ہے حجاب لینے کے لیئے۔کیوں آخر؟یہ مرد حضرات خود چاہے جو بھی پہنیں،ہر طرح کی فضول حرکت کر لیں لیکن اُنھیں مسئلہ تب ہوتا ہے جب عورت کی بات آتی ہے۔غیرت کے نام پر سینکڑوں عورتوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔
کیوں؟مرد کو ہمیشہ عورت کی حرکت ہی گالی کیوں محسوس ہوتی ہے؟اُس کی غیرت عورت کی وجہ سے ہی کیوں جاگ جاتی ہے؟اپنی حرکتیں وہ بھول جاتے ہیں۔اس وقت اُن کی غیرت پتہ نہیں کہاں چلی جاتی ہے۔یہ ہے ہمارے نعروں کی بنیاد۔دادا جی!میں ہمیشہ سوچتی تھی کہ میرے گھر کے مرد دُنیا کے سب سے اچھے مرد ہیں،جنہوں نے کبھی اپنی عورتوں پر پابندیاں نہیں لگائی،ہر کام میں اپنی عورتوں کی خواہش کو اوّلین ترجیح دی،انھیں عزت دی۔لیکن سوری ٹو سے دادا جی!اس میں بھی آپ کا کوئی کمال نہیں ہے۔ہم عورتوں نے خود ہی آپ کو موقع نہیں دیا کچھ کہنے کا۔کبھی آپ کو نہیں محسوس ہوا کہ آپ کی راجدھانی کو ہم سے خطرہ ہے،اور نہ ہی یہ احساس ہوا کہ آپ کی یہ بے دام غلام ہاتھوں سے نکل جائیں گی۔آج آپ لوگوں کو خطرہ محسوس ہوا تو اپنی جارحیت کے ساتھ سامنے آگئے۔‘‘میرے گال غصّے سے لال تھے اور آواز بلند۔
’’بس یا کچھ اور بھی کہنا ہے؟‘‘
میں نے چونک کر دادا جی کو دیکھا وہ بے تأثر نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے ۔جیسے میں نے یہ سب ان کے بجائے کسی اور سے کہا ہو۔
’’کہنے کو بہت کچھ ہے دادا جی!لیکن اس سے زیادہ شاید آپ برداشت نہ کر پائیں،اس لیے بس۔‘‘
’’کبھی سوچا ہے پتر!ہمیشہ گالی ماں اور بہن کی ہی کیوں دی جاتی ہے؟‘‘دادا جی کی نظریں میرے چہرے پر جمی تھیں۔
’’وہی تو! اس لیے کیونکہ عورت کو معاشرے کی کمزور ترین مخلوق سمجھا جاتا ہے۔یہی بات تو میں آپ کو سمجھانا چاہ رہی ہوں۔‘‘
دادا جی میری بات پر ایسے مسکرائے جیسے کسی بچے کی بے وقوفی سے لطف اندوز ہوئے ہوں۔مجھے پھر سے غصّہ آنے لگا۔
’’پتر!کمزور تو اور بھی بہت سی مخلوق ہوتی ہے۔بے بس تو اور بھی بہت سے لوگ ہوتے ہیں،میرے نزدیک تو معاشرے میں چھوٹے بچوں اور بیمار پڑے زندگی کی گنتی پوری کرنے والے بوڑھوں سے زیادہ کمزور اور بے بس کوئی نہیں ہوتا۔تو پھر اُن کی گالی کیوں نہیں ہوتی؟‘‘ وہ رُک کر میرے تأثردیکھنے لگے۔’’وہ اس لئے پتر کہ اس مردوں کی راجدھا نی میں عورتوں کی ہم مردوں سے زیادہ عزت ہے،بلکہ ہم مردوں کی عزت بھی عورتوں سے ہی جڑی ہوتی ہے۔کوئی ہمیں لعن طعن کرے ،ہماری ذات کی دھجیاں اُڑائے تو اتنااثر نہیں ہوتا جتنا ماں یا بہن کی ایک گالی سے ہوتا ہے۔میری بھولی بیٹی!عورتوں کو تو اللہ سوہنے نے بہت عزت دی ہے۔اب اس سے زیادہ اور کیا چاہتی ہیں عورتیں؟اُن کے حقوق کی آڑ میں اُن کو اس عزت سے محروم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں جو اللہ نے اُن کو دی ہے۔ہم مسلمان ہیں، اور ہمارا ایمان ہے کہ یہ زندگی ،یہ مال و دولت،بیوی بچے سب اللہ کے دیے ہوئے ہیں اور یہ کہ ان سب پر ہمارا اتنا ہی حق ہے جتنے کی اللہ نے ہمیں اجازت دی ۔آپ آج تک جو عورتوں کے حقوق کے لیے لڑ رہی تھی ناں!وہ سب وہ حقوق تھے جو اللہ سوہنے نے عورت کو دے رکھے ہیں۔لیکن اب پتر آپ جس بات کے لیے لڑ رہی ہو یہ سراسر بغاوت ہے اللہ سے۔جو میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگاتی ہیں ناں!وہ ویسے بھی اپنی مرضی ہی کرتی ہیں۔اور جہاں تک حجاب اور کپڑوں کا تعلق ہے تو بیٹا !مرد اس لیئے پابندی لگاتے ہیں کیونکہ اُن کو اپنی عورتوں کی عزت بہت عزیز ہوتی ہے،مرد کی ساری کی ساری عزت ہی عورت کے دم سے ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ غیرت کے نام پر قتل بھی ہوتے ہیں کہ جاہل مردوں کو اپنی بے عزتی برداشت نہیں ہوتی اور وہ وحشیانہ طریقے سے خود کی ہوئی بے عزتی کا بدلہ لیتے ہیں۔
بیٹا!یہ نعرے ،یہ تحریکیں صرف اور صرف ہماری عورتوں کو بہکانے اور بھٹکانے کے لیئے شروع ہوتی ہیں،
ہمارے اسلام نے تو واضح طور پر عورتوں کے حقوق بتا دیے ہیں اور ساتھ میں مردوں کے بھی۔مرد مضبوط ہوتا ہے اس لیے اسے عورت کا سردار بنایا گیا ہے،اور پتر !عورتوں کو ان کی ہمت اور استطاعت کے مطابق کام دیا گیا،اپنے گھر کو ، اپنی راجدھانی کو سنوارنے کا۔یہ جو مرد ہوتا ہے ناں !نہ جانے کیا کیا جتن کرتا ہے اپنے گھر والوں کے لیئے رزق مہیّا کرنے کو۔آپ بھی دیکھتی ہو گی کہیں ٹنوں وزن اُٹھائے،کہیں پتھر کوٹتے ہوئے،کبھی کڑکتی دھوپ میں بغیر شکوہ مزدوری کرتے ہوئے ان مزدوروں کو،خود سوچو پتر ! یہ مرد جب گھر جائیں تو انھیں یہ الفاظ سننے کو ملیں کہ اپنا کھانا خود بناؤ ،یا گرم کرو تو پھر کیا ہو؟انہی گھر والوں کے لیئے کیا وہ دن بھر سے خوار ہو رہا ہوتا ہے،اتنی مُشقتیں اُٹھا رہا ہوتا ہے جو اسے کھانا تک گرم کر دینے کے روادار نہیں؟
 ورنہ اُس اکیلے کے لیے تو کھانا کمانا اور پکانا اتنا مشکل نہیں پتر!آرام سے بھی کمائے تودن کی دو روٹیاں اپنے لیئے مہیّا کر ہی لے گا۔
یہ نعرے بنیاد ہیں گھر توڑنے کی،معاشرے میں تباہی پھیلانے کی،جن معاشروں میں ان پر عمل ہو رہا ہے ناں کبھی جا کر وہاں غیر جانب داری سے جائزہ لو تو پتہ چل جائے گا کیا غلط ہے اور کیا صحیح۔
یہاں سے تو خیر دور کے ڈھول سہانے ہی لگتے ہیں۔‘‘وہ سانس لینے کو رُکے تو میرا ارتکاز ٹوٹا۔
’’اور پتر! زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی بیٹیوں کو دفنا دیتے تھے صرف اس لیے کہ کہیں اُن کی بیٹیوں کی وجہ سے ان کی عزت نہ خراب ہو جائے۔
اُس وقت معاشرے میں صرف اپنی بیٹی کی ہی عزت کو اپنی عزت سمجھا جاتا تھا لوگ اسے دفنا کر مطمئین ہو جاتے تھے کہ انھوں نے اپنی عزت بچا لی۔ اور پھر دوسری عورتوں کی عزتوں سے کھیلتے۔
یہ تو ہمارے نبی پاکﷺ نے آکر عورت کو گالی سے عزت بنایا۔اس کو ہر روپ میں عزت اور رحمت قرار دیااور اس کی حفاظت کی ذمہ داری مرد کو سونپ دی۔
پتر !یہ جو آج کل نعرے بلند ہو رہے ہیں ناں ،عورتوں کے حقوق کی آڑ میں تو وہ وقت دور نہیں کہ عورتیں پھر سے عزت سے گالی بن جایءں اور زمانہ جاہلیت کی طرح لوگوں کو معاشرے کے ڈر سے اپنی بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی دفنانا پڑے۔‘‘
میری سسکیوں کی آواز سُن کر دادا جی ایک دم چپ ہو گئے اور مجھے سینے سے لگا لیا۔
میں جب خوب رو کر جی ہلکا کر چکی تو پھر بولی.
’’دادا جی ! ہم عورتیں اتنی بے وقوف کیوں ہوتی ہیں؟ہر کسی کی ہر قسم کی باتوں میں اتنی جلدی اور آسانی سے پھنس جاتی ہیں۔‘‘
دادا جی مسکرائے
’’پتر!جب ھمارے جذبات کو چھیڑا جاتا ہے تو ہمارا احساس کمتری کھل کر سامنے آجاتا ہے اور پھر ہم بے وقوفانہ حرکتیں کرتے ہیں۔چلتے ہیں ناشتہ کرنے ۔حسن واک سے واپس آگیا ہو گا۔‘‘دادا جی اپنی چھڑی کے سہارے کھڑے ہوئے۔
’’آپ چلیں دادا جی!میں آ رہی ہوں‘‘۔
اُن کے جانے کے بعد میں نے میڈم کو کال ملائی اور آرگنائزیشن میں مزید کام کرنے سے معذرت کر لی کیونکہ مجھے پتہ چل گیا تھا کہ ایک مسلمان معاشرے میں عورت گالی نہیں بلکہ عزت ہے اور میں عورت کو عزت سے گالی میں تبدیل کرنے والوں کا حصّہ نہیں بن سکتی تھی۔
ہاں ان شاء اللہ !مجھے موقع ملا تو میں عورتوں کے لیئے ایسی تنظیم ضرور بناؤں گی،ایسی تحریک ضرور چلاؤں گی جس سے اُنھیں پتہ چلے کہ اُن کے اصل حقوق کیا ہیں اور ان کو عزت کیسے مل سکتی ہے۔
شکریہ دادا جی! میں سوچتے ہوئے مسکرائی اور اُٹھ کر باہر آگئی جہاں سب ناشتے کی ٹیبل پر میرا انتظار کر رہے تھے۔
بابا کا موڈ ابھی بھی ٹھیک نہیں تھا لیکن میں جا نتی ہوں عنقریب اُن کی ناراضگی بھی دور ہو ہی جائیگی۔
*********************

ختم شد

Comments