Free medical camp by Malik Muhammad Aslam Hamshira Part 1


”فری میڈیکل کیمپ“💉💊💊💊
تحریر۔۔۔۔ملک اسلم ہمشیرا
پچھلے ہفتے میں اپنے کھٹارا جمبو جیٹ موٹر ساٸیکل🚲 پر دہی لینے کے لیے جیسے ہی بازار  کی طرف مڑا تو تحصیل کے سامنے ایک کالا زنگی سا نوجوان کھٹی جینز پہنے ایک بنڈل پمفلٹ ھاتھوں میں تھامے کھڑا تھا اور  ہر آتے جاتے بندے کے ھاتھ میں ایک پرچی پکڑا رھا تھا،
میں بھی جیسے ھی وھاں سے گزرا ،وہ بھوتنی کا ایسے میرے موٹر ساٸیکل کے آگے آ گیا جیسے کند دماغ عورت سسرال سے مار پی کر خود کشی کرنے کیلیے ٹرک کا رخ کرتی ھے
آخر میں نے کمال مہارت کا ثبوت دیتے ھوٸے بریک پر چڑھ گیا،اور یوں ناصرف خود کو گرنے سے بچا لیا بلکہ اُس بد شکلے کا پیر بھی لتاڑ دیا،مگر اس نےبھی کمال ضبط کا مظاہرہ کرتے ھوٸے ناصرف خاموش رھا بلکہ ایک پمفلٹ ھی عناٸیت فرما دیا،جس کو میں نے فوراً تہہ کر کے اپنے سلوکے میں ڈال لیااور دہی لے گھر روانہ ھو گیا
رات کو جیب میں سے سارا مال ”کیا کھویا کیا پایا “کی غرض سے باہر نکالا تو وہ پمفلٹ بھی برامد ھوا ،تو باقاعدہ طور پر پڑھنا شروع کر دیا،
تو جناب یہ لکھا تھا٠٠٠٠٠
”بہاولپور کے مشہور پروفیسر ڈاکٹر محمد امجد صاحب ہر اتوار کو ھسپتال روڈ پر مفت معاٸنہ فرمایا کریں گے“
پہلےتو میں اپنے آپ کو یقین دلانے کےلیےدو منٹ  آنکھیں مکولتا رھا٠٠ کہ میرے شہر میں یہ انہونیاں کب سے شروع ھو گٸیں? کہ کوٸی مسیحا  بغیر فیس کے مدینةاولیا کے غریب باسیوں کو اپنی خدمات پیش کرے٠٠٠٠٠
تو جناب والہ بندہ ناچیز نے فوراً بستی میں اپنے بیمار چاچے منظور کو تار ملاٸی کہ کل صبح میرے گھر آ جا ،کیونکہ جہانیاں جھانگشت کی نگری میں ایک ایسے مسیحا کا ظہور ھوا ھے جو راہِ للہ علاج کرتا ھے اور صرف اور صرف رضاالہی کا متمنی ھے،
ایک تو ہم سفید پوش لوگوں کی بیماریاں بھی عجیب نسل کی ھوتی ھیں کسی مفت والے طبیب کا سُن لیں پھر یہ درجنوں کی تعداد میں موچھوں کو تاٶ دیے نمودار ھونا شروع ھو جاتی ھیں،چناچہ میری پٹھوں کی کمزوری اور مثانے کی گرمی نے بھی سر اُٹھانا شروع کردیا
صبح چُھٹی تھی اور ابھی سویا ہوا تھا کہ تقریباً سات بجے دروازے پہ ” ٹھاہ پھاہ “شروع ھو گٸ ،دروازہ کھولا تو چاچا منظور دھوتی کی لگامیں ٹاٸٹ کر رھا تھا،جیسے گیٹ کھولا مجھے گلے ملا اور اندر آ گیا،
خیر ناشتے پانی کے بعد ہم دس بجے ڈاکٹر کے کلینک پر پہنچ گٸے،ڈاکٹر صاحب کے منشی سے نمبر لیا اور ھم دونوں  بنچ پر بیٹھ گٸے، اور ڈاکٹر کی ڈگریاں پڑھنے لگے ،یقین کریں ہماری 30فیصد بیماری تو ڈگریوں کو دیکھتے ھی رفو چکر ھو گٸ کہ اتنے بڑے ڈاکٹر نے ہمارا ھاتھ دیکھنا گوارا کیا٠٠٠
 آخر دو گھنٹوں کی محنتِ شاقہ کے بعد ہماری باری آ بھی گٸ،ڈاکٹر صاحب کے حضور پیش ھوتے ھی چاچے منظور نے مصطفی قریشی کی طرح اپنی آستینیں چڑھاتےھوٸے اپنی پھولی ھوٸ رگوں والی کالی نبض پیش کی جِسں کو طبیب موصوف نے کمال بے نیازی سے دو انگلیوں اور انگوٹھے کی چپٹی میں لیتے ھوٸے اپنے کسی ماتحت سے قیمتی مسلۓ پرمحو گفتگو کرنے لگا،
بالاخر میں نے یہ کہتے ہوۓ ڈاکٹر صاحب کی توجہ مریض کی جانب منبذول کراٸی کہ ڈاکٹر صاحب میرے چاچےکو بلغم کھانسی کے علاوہ جسم میں شدید درد ہوتا ھے ،مہربانی کر کے کوٸی اچھی سی دواٸی تجویز کریں،خیر میری مداخلت پر موصوف نے اپنا اسٹیرنگ چاچے کی طرف موڑتے ھوٸے سٹیتھو سکوپ کو پیٹھ پر رکھا اور کھانسنے کاحکم صادر فرمایا،پہلی کھانسی پر ہی ڈاکٹر صاحب بیماری کی جڑھ تک پہنچ چکے تھے،چنانچہ فوراً ایک ٹیسٹ کے لیے روانہ کر دیا،میں بھی اپنا چیک اپ کروانے کی غرض سے اپنا یدِ بازو پیش کیا ،میرا ھاتھ دیکھتے ھی موصوف کے چہرے پر ایک تشویش دوڑ گٸ اور فوراً قریب موجوددکان سے الٹرا ساونڈ کروانے کا حکم صادر فرما دیا ،ماہرِ نباض کے چہرے کے تغیرات سے مجھ میں بھی تشویش کی لہردوڑ گٸ،چنانچہ فوراً پانچ سو روپے کے عوض الٹرا ساونڈ کروایا اور رپورٹ ڈاکٹر کو پیش کی تو ڈاکٹر نے دو اور ٹیسٹوں کا پروانہ جاری کر دیا اور یہ بھی نصیحت فرماٸی کہ صرف چغتاٸی لیبارٹری احمد پور شرقیہ سے ہی کروانا ھے
خدا گواہ ھے کہ ڈاکٹر موصوف نے حسبِ وعدہ کوٸ فیس نہ لی،چنانچہ میں اور چاچا اپنے اعمال نامے ہاتھوں میں پکڑے گھر آ گٸے اور ٹیسٹوں کی بابت اپنی اپنی ساٸنس لڑانے لگے،آخر میرے وجدان میں الشفإ لیبارٹری والے کا نام آ گیا جس سے اچھی خاصی واقفیت بھی تھی،چنانچہ اس نے ہزار ہزار کے بدلے ہم دونوں کے تمام ٹیسٹ کر کے رپورٹ تھما دی ،شام کو ہم رپورٹ لے کر اُسی ڈاکٹر کی دربار میں دوبارہ حاضر ھو گٸے
  تو جناب والہ ڈاکٹر صاحب نے جیسے ھی کسی انجان لیبارٹری کی رپورٹ دیکھی تو ان کا اپنا بلڈ پریشر 190 کے ہندسے کو چھونے لگا اور انھوں نے ہماری جہالت اور کم علمی پر حق نواز جھنگوی کے سٹاٸل میں ایک پرجوش تقریر کی اور ہماری رپوٹوں کو بنا دیکھے ردی کی ٹوکری کو عطیہ فرما دیا،اور طبیب موصوف نے دوبارہ چغتاٸی لیبارٹری احمد پور شرقیہ سے ٹیسٹ کرانے کاحکم نامہ جاری فرماتے ھوٸے اگلے اتوار کو حاضر ھونے کا حکم فرمایا
آخرکار طبیب دیوتا کے آگے 2500کی بلی چڑھا کر ہم سینہ کوبی کرتے گھر روانہ ھو گٸے،اگلے دن چاچے منظور نے تین کِٹے گندم بیچی اور میں نے بھی دو ہزار کی گھر سے ڈکیتی ماری اور احمد پور چغتاٸ لیبارٹری کی طرف کوچ کیا تاکہ اس ”بیماری پروگرام “کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے،دو گھنٹوں بعد ہم لیبارٹری کے اے سی روم میں تھے،ہمارے پرچی دکھانے پر وھاں موجود نوجوانوں میں عقابی روح بیدار ھو گٸ
٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠
بقیہ اگلی قسط پر

CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING



Comments