”فری میڈیکل کیمپ“💉💊💊💊
تحریر۔۔۔۔ملک اسلم ہمشیرا
دوسرا
اور آخری حصہ
چنانچہ وہ دونوں شِکرے لیبارٹری انچارج
کا اشارہِ ابرو پا کر ھم دونوں کی جانب لپکے اور ہم دونوں کے بازٶں
پر ”پوز پٹے“ باندھ کر بچا کھچا خون نوچنے لگے،چاچے کا تو باربار کھینچنے پر بھی نا
نکلا تو دو چار قطروں پر بھی اکتفإ کر لیا گیا،
تھوڑی دیر بعد پانچ پانچ ھزار کی کمپیوٹر
رسید تھما دی گٸ،جس
کو چاچے نے تو خندہ پیشانی سے قبول کر لیا ،کیونکہ ایک مشہور فلسفی کا قول ھے کہ ”لا
علمی بھی بڑی نعمت ھے“ مگر میری تو آنکھوں کے آگے تارے ناچنے لگے،کیونکہ 4999 کی رسید📄کو
میں نے پرنٹر سے نکلتےھی دیکھ لیا تھا،جیسے ھی میں نے چاچے کو بتایا کہ آپ چغتاٸی
لیبارٹری کی دربار میں پانچ ہزاری منصب پر فاٸز
ھو چکے ھیں تو انھوں نے مجھے پتلی گلی سے نکلنے کا عندیہ دے دیا،مگر اب بات صحت سے
نکل کر عزت پر آ گٸ
تھی،
سو میں نے ہمت کر کے التجا کی کہ اپنی
قانوں کی کتاب📖
میں سے کوٸی
رعاٸیت والا نکتہ نکالو ،مگر اس
نے کمال پیشہ ورانہ بے حسی کا ثبوت دیتے ھوٸے
فرمایا ”ارے او کاکے٠٠٠یہ کوٸ
سبزی یا ٹماٹر شماٹر والی دکان نہیں جہاں سے تم رعایتیں مانگ رھے ھو،یہاں فکس ریٹ ھوتے
ھیں ،
میں کبھی لیبارٹری کا پرچہ 📄دیکھتا
کبھی جیب ٹٹولتا اور کبھی چاچے کے کان👂 میں زوں زاں کرتا ،لیبارٹری
کی انتظامیہ جو کہ ھماری حرکات و سکنات کا بغور جاٸزہ
لے رھی تھی ،ان میں سے ایک خدا ترس اور معاملہ فہم قسم کا بندہ ھمارے قریب آیا اور
پوچھا کہ کیا مسلہ در پیش ھے،؟ ہم نے اصل مدعا پیش کردیا کہ ہمارے پاس تو پنتالیس سو
کی رقم ساری ھے اور دس ھزار کے ٹیسٹ٠٠٠٠٠
آخرکار اس نے وہ پر حکمت مشورہ دیا کہ
ھمارے سروں سے منوں وزن اتر گیا کہ٠٠٠جو ھیں جمع کرا دو باقی پرسوں آ کر رپورٹ لے جانا
اور رقم بقایا دے جانا،آخر کار 4500جمع کروا کر ھم لوٹ کے بدھو گھر کو آ گٸے
تین دن کے بعد ھم ٠٠٠٠لوھا ،پیپا،سکی روٹیوں
کے ٹکڑے،پلاسٹک سب بیچ کر دوبارہ لیبارٹری کی طرف لنگوٹ کس لیا، وھاں سے رپورٹ وصول
کی اور اگلے اتوار کا انتظار کرنے لگے
اگلےاتوار ھم اس قیمتی رپورٹ 📩کو
سینے سے لگاۓ
اس عظیم طبیب کی دربار میں حاضر تھے،خدا خدا کر کے ہماری باری آٸ
تو ھم دونوں نے بیک وقت رپوٹیں✉
ڈاکٹر کےحضور پیش کر دیں، جس کو دیکھ کر ڈاکٹر کی بے نور آنکھوں میں ایک خاص چمک عود
کر آ گٸ
اب ڈاکٹر صاحب کا قلم حرکت میں آ چکا تھا
اور یہ تو شکر ہے کہ دواٸ
لکھتے لکھتے صفحہ ختم ھو گیا ورنہ ڈاکٹر کے قلم نے چاچے کو معاشی طور پر صفحٸہ
ھستی سے مٹا دینا تھا
پھر میری باری آٸ
تو ڈاکڑ موصوف کا قلم ایک بار پھر حرکت میں آیا جس کی روانی کو دیکھ کر میرا حرکت قلب
بند ھونے لگا
چنانچہ بے خودی کے عالم میں یہ شعر پڑھ
دیا
”اۓ
قلم رُک جا ، شرم کا مقام ھے٠٠٠٠
آج تیری نوک سے ،استاد کا کام تمام ھے“
آخر کار ہم بغیر فیس کے اپنا چیک
اپ کروا چکے تھے ،اور فاتحانہ انداز میں میڈیکل سٹور پر پہنچ گٸے
،مگر وھاں سواٸے
ایک کے باقی دواٸیں
ندارد٠٠٠٠٠پھر اور سٹور پہ پھر کسی اور پہ پورا اُوچ چھان مارا مگر یہ گوھرِ سلیمانی
ھم کو کہیں سے نہیں مل رھا تھا
آخر میرے ایک دوست ”نصیر میڈیکل سٹور والے“
نے بتایا کہ جہاں سے چیک اپ کروایا ھے وھاں سے جوھرِ نایاب موصول ھو گا،
بالاآخر ہم ڈاکٹر کے ملحکہ سٹور پر آگۓ
، وھاں پر موجود نوجوان نے نسخہ کو دیکھا اور ایک نظر مجھے بھی٠٠٠
جیسے کہہ رھا ھوکہ
”وہ جہاں بھی گیا،آخر لوٹ کر میرے پاس ہی آیا٠٠٠٠
بس یہی بات پسند ھے مجھے، میرے ہرجاٸی
کی
جہاں سے تمام ادویات باآسانی مل گٸیں،
آخرمیں نے ڈرتے ڈرتے بِل پوچھا تو بِل سُن کر چاچا منظور تو بِل میں چھپنے لگا
جبکہ میں رقم سُن کر سُن ھو گیا،2250 ایک بندے کی دواٸ
بن چکی تھی آخر کار تین تین دن کی دواٸ
بنوا کر ٠٠٠٠ ”ویلے کو
ٹھیلہ“ دینے کی غرض سے، ھارے ھوۓ
جواری کی طرح گھر آ گٸے
تو میرے عظیم دوستو٠٠٠یہ حال تو ھے ہمارے
اعلی تعلیم یافتہ مسیحاٶں
کا،اور جاھلوں سے کیا توقع رکھیں یقین مانو میں نے ایسے جاھل لوگ بھی دیکھے ھیں جن
میں خدا ترسی کی نایاب اقدار موجود ھیں،
سبھی کا نام تو نہیں کہتا مگر کچھ ڈاکٹر
ایسے ھیں جو status concious کا شکار ھیں اور اپنی کوٹھی
کی آراٸش
اور،کار کا نیا ماڈل خریدنے میں اتنے جلدبازھوتے ھیں کہ اس دوڑ میں غریب اور بیماری
میں پِسے ھوٸے
لوگوں کو روند ڈالتے ھیں اور بڑی بڑی ملٹی نیشنل میڈیسن کمپنیاں ناصرف ان کو گاڑیاں،
گھریلو سامان اور قیمتی تحاٸف
عطا کرتی ھیں بلکہ سنگا پور،پیرس ،ملاٸشیإ
کے وزٹ بھی کرواتی ھیں کچھ مزہبی قسم کے طبیبوں کو عمرہ بھی کرواتے ھیں تاکہ سابقہ
گناہ دھوٸے
جا سکیں ٠٠٠٠
بس اللہ ☝سے دعاگو ھوں کہ اِن مسیحاٶں
کے دل کو بھلاٸ
اور نیکی کی طرف موڑ دے،کیوں کہ دلوں کو موڑنے والی وہ پاک ذات ھے ورنہ میری
اس تحریر سے ان کا ضمیر جاگنے والا نہیں٠٠٠٠٠٠ آمین
دعا گو٠٠٠٠ملک اسلم ھمشیرا
*******************
Comments
Post a Comment