ناول:"یہ راستے محبت کے"
تحریر : "ابن عبداللہ"
پارٹ 1
اس نے بائیک سائیڈ پر روکی
اور دور دہی والی دوکان کو دیکھا جہاں کافی رش تھا۔
پھر کلائی پر بندھی گھڑی ہر
نگاہیں ڈالیں جو کافی دن پہلے یہ سوچ کر لی تھی شاید کسی مہ جبین کا دوپٹا اس میں اٹکے۔
پر آج کل لڑکیاں دوپٹا اتنا
لمبا لیتی ہی نہیں ہیں کہیں اٹکے۔اس نے بد مزہ ہوکر منہ بنایا ۔
اگلی دوکان پر چلتا ہوں شاید
وہاں رش کم ہو۔بائیک سٹارٹ کرتے ہوئے اس نےسوچا ۔
اچانک دھڑم سے کوئی اس کے
پیچھے بیٹھا تھا۔
بھاگو ۔۔۔۔۔۔آواز نسوانی۔
کیوں کدرکب اور کیوں۔۔۔؟ولید
ہڑبڑیا۔
زندہ رہنا چاہتے ہو بائیک
بھگاؤ ورنہ جو میرے پیچھے ہیں وہ میرے ساتھ تمہیں دیکھ کر یہیں تمہارا قیمہ کر دیں
گے۔
مرتا کیا کرتا۔۔ولید نے بائیک
گئیر میں ڈالی اور سڑک پر بھگانے لگے۔
جانا کہاں ہے۔۔؟؟بائیک بگاتے
ہوئے اس نے پوچھا ۔
کسی بھی محفوظ جگہ جہاں کچھ
دیر بیٹھ کر سوچ سکیں۔
اس نے سر ہلایا اور بائیک
شہر سے ملحقہ ایک پرانی کھنڈر نماحویلی کی طرف موڑ دی۔
کچھ دیر بعد وہ حویلی میں
داخل ہو رہے تھے ولید نے بائیک سائڈ پر روکی پیچھے موجود اجنبی لڑکی اتر چکی تھی۔
سر سے پاؤں تک سیاہ برقعے
میں ملبوس اس کی آنکھیں بھی مشکل سے دکھائی دے رہی تھیں ۔
وہ کچھ دیر اِدھر اُھر دیکھتے
رہی پھر بولی ۔
اچھی جگہ ھے۔
جگہ تو اچھی ھے پر مجھے بتاؤ
مسئلہ کیا ھے۔۔۔؟
یہاں نہیں اندر آؤ ۔۔بتاتی
ہوں سب ۔اطمینان سے کہتے ہوئے وہ کھنڈر کے اندر چلی گئی ۔
بیٹا لگتا ھے برا پھنسنے والا
ھے تُو بھلائی اسی میں نکل لے ۔ولید نے خود سے کہا۔
پر ایسے کسی لڑکی کو اکیلا
چھوڑ کر بھاگنا بھی ٹھیک نہیں.وہ سوچنے لگا۔
اے بائیک والے کیا سوچ رہے
ڈر رہے ایک لڑکی سے۔وہ دور سے چلائی تھی۔
بیٹا اب تو تیری مردانگی کا
سوال ھے چل جو ہوگا دیکھا جائے گا۔وہ اس کے پیچھے چل دیا تھا۔
کچھ دیر بعد وہ ایک ٹوٹے ہوئے
کمرے میں تھے۔۔جا بجا سگرٹ جلے ہوئے ٹکرے بتا رہے تھے کہ یہاں نشئی لوگوں کا آنا جانا
ھے۔
ہاں بولو۔اس کے سامنے دیوار
سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے ہوئے ولید نے کہا۔
ارے سانس تو لینے دو۔لڑکی
نے برقعہ اتارا ۔
ہائیں۔۔۔ولید کے منہ سے اتنا
ہی نکل سکا تھا۔
لڑکی سجی سنواری ہوئی تھی
اور اس نے شادی کا لباس پہنا ہوا تھا۔بلا شبہ ہو غضب لگ رہی تھی ۔
ہائیں کیا۔۔؟؟وہ گھور کر بولی
تو ولید گڑ بڑا گیا ۔
کچھ نہیں.بس سوچا نہیں تھا برقعے میں ایسا ہوش ربا
طوفان بھی ہوسکتا ھے۔
اب بتاؤ مسئلہ کیا ھے۔۔؟ولید
نیچے اینٹ پر بیٹھ چکا تھا وہ بھی اس کے سامنے بیٹھ چکی تھی۔
مسئلہ کچھ خاص نہیں بس میں
شادی چھوڑ کر بھاگ آئی ہوں ۔
اس نے یوں کہا تھا جیسے گھر
میں دوپہر کے کھانے کا کسی سے پوچھ رہی ہو۔
ولید اچھلا۔۔۔کیا۔۔کیوں کیسے
اور کب۔۔یہ ٹھیک نہیں۔
مجھے پیسوں کے لالچ میں میرا
بوڑھا باپ ایک بڈھے کو بیچ رہا تھا اس لئے بھاگ آئی۔
لڑکی نے ناک سے مکھی اڑائی
جیسے۔
ٹھیک ھے آگے کیا کرنا ھے مجھے
دہی لیکر جانا ھے ورنہ اماں سے شام کے کھانے میں جوتے کھانے پڑیں گے ۔
خیر جو بھی کرنا ھے خود کرو
میری بلا سے یہاں تک لے آیا ہوں نیکی کافی ھے۔ولید نے سوال کر کے خود ہی جواب دیا۔
اب وہ ریلیکس تھا۔
کیا مطلب ہے تمہارا ۔۔؟مجھے
تم بھگا کر لائے ہو سمجھے. سب نے دیکھا ہے تمہیں. اس لئے بھاگنے کی سوچنا بھی
مت ورنہ میں سیدھا کہوں گا تمہارا اور میرا چکر تھا۔تمہارے بائیک کا نمبر مجھے یاد
ھے۔لڑکی نے اطمینان سے ولید کے سر پر بم پھوڑا۔
چکر تھا یا نہیں پر تمہارے
ارادے دیکھ کر مجھے چکر ضرور آرہے ہیں۔خدا کا خوف کھاؤ۔۔نیکی کے بدلے میں یہ کر رہی
ہو تم۔ولید اس کی بات سن کر بے ہوش ہوتے ہوتے بچا۔
جو بھی ھے جب تک میں کسی ٹھیک
مقام پر نہیں پہنچ جاتی تم ساتھ رہو گے ۔اس نے سنگ دل جج کی طرح فیصلہ سنایا اور ولید
نے بے چارگی سے اسے دیکھا ۔
کیسی لگ رہی ہوں میں۔۔۔میک
اپ خراب تو نہیں ہوا۔لپ سٹک ٹھیک ہے؟ افففو مجھے جلدی میں میک اپ کا سامان بھول آئی
ہوں میں.کتنی لاپرواہ ہوں میں
بھی۔
ولید کا دل کیا سر پیٹ۔۔مطلب
یہاں اس کی جان پر بنی تھی اور اسے میک اپ کی فکر تھی۔
اچھی لگ رہی ہو بہت ۔ولید
نے دانت کچکچاتے ہوئے کہا۔
غصہ آرہا ہے مجھ پر؟؟ ۔۔وہ
جیسے اس کی حالت سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔
وہ کیا کہتا ۔
دیکھو مجھ پر غصہ نہیں سب
کو پیار آتا ہے ۔اس نے خود کو ملاحظہ کے لئے پیش کیا۔
ولید نے اسے گھورا۔۔۔کہہ تو
ٹھیک رہی تھی کمبخت غضب کی حسین تھی۔
سنو مجھے اپنے گھر لیکر کیوں
نہیں جاتے ہو۔۔؟؟اس نے حل پیش کیا۔
مجھے بھری جوانی میں مرنے
کا شوق نہیں ہے ابا حضور کی پرانی بندوق میں ایک گولی موجود ہے اور ماں جی کا نشانہ
بھی اچھا ھے۔دہی لینے بھیجا تھا بیوی لینے نہیں ۔۔گھر کا خیال بھول کر بھی مت لانا۔ورنہ
تم نکاح سے پہلے ہی بیوہ ہوجاؤ گی۔ولید اب نارمل ہو چکا تھا اس لئے اپنے موڈ میں آرہا
تھا ۔
تو بتاؤ کیا پلان ھے پھر
۔۔۔؟وہ یوں اطمینان سے بیٹھی تھی جیسے اپنے گھر کے آنگن میں ہو۔
ولید نے سر کھجایا۔
ویسے یہاں تم بھی حسین ہو
اور میں بھی جوان ہوں۔۔کوئی آنے والا بھی نہیں۔
تو کیوں نا۔۔۔ولید نے جملہ
ادھورا چھوڑا اور چہرے پر بڑی مشکل سے خباثت اور کمینگی لایا۔
کمینی کتنے اطمینان سے تھی
اس کو پھنسا کر تھوڑا حساب تو بنتا تھا ولید کو شرارت سوجھی ۔
کیا کہنا چاہتے ہو تم۔وہ خوف
سے بدکی۔
کہنا نہیں کچھ کرنا چاہتا
ہوں کچھ ایسا جو حسین ہو۔۔نرم گرم سلگتے ہوئے دو بدن۔۔
وہ اوباشانہ انداز میں بولتا
ہوا اس کی طرف بڑھا۔
نہیں تم ایسا نہیں کر سکتے
ہو۔وہ اس کے ارادے بھانپ کر ڈر سے پیچھے ہٹی۔
میں کچھ بھی کر سکتا ہوں یہاں
تمہارے ساتھ اور مجھے تم یا کوئی بھی روک نہیں سکتا
نہیں ایسا نہ کرو وہ باہر
کی سمت بھاگی پر ولید نے اس کے ہاتھ پکڑ لیا ۔وہ دھکے سے واپس پلٹی اور سیدھی اس کی
طرف آئی۔
نہین پلیز ۔۔وہ چیخی ۔۔۔۔
ولید نے قہقہ لگایا اور اسے
چھوڑ دیا۔
وہ دیوار کے پاس گری تھی۔
اس کا وجود تھر تھر کانپ رہا
تھا .
میں مذاق کر رہا تھا لڑکی۔
اس نے سر اٹھایا۔
کاجل اس کی آنکھوں میں پھیل
چکا تھا ۔
ایسا دوبارہ مت کرنا کبھی۔۔وہ
ہولے ہولے کانپ رہی تھی۔
ولید نے اسے دیکھا ۔
اوکے نہیں کروں گا۔پر مجھے
روتی ہوئی لڑکیاں پسند نہیں۔۔ناک سرخ شوں شوں کرتی ہوئی۔۔
وہ آنسو پوچھتے ہوئے اٹھ بیٹھی۔
اچھا بتاؤ کیا کر سکتا تمہارے
لئے ۔۔تمہارا نام کیا ھے۔۔؟
ماہ جبین.اس نے کانپتے ہوئے ہونٹوں سے کہا۔
واہ اسم باسمٰی ہو۔۔جچتا ھے
یہ نام۔وہ دھیمے سے مسکرایا اور اسے دیکھا جو خود کو سنبھال رہی
ویسے کس سے شادی ہو رہی تھی
تمہاری۔؟
بالا چوہدری اس نے کہا اور
اطمینان سے بیٹھا ہوا ولید ایک بار پھر بری طرح اچھلا
بالا شہر کا نامی گرامی بدمعاش
تھا۔
کیوں نام سن کر سٹی گم ہوگئی
کیا۔ماہ جبین نے طنز کیا۔
ایسی بات نہیں ہے ۔ولید نے
منہ بنایا ۔
لگتا تو ایسا ہی رہا جیسے
اس کا نام سن کر تمہیں ہارٹ اٹیک آتے آتے رہ گیا تھا۔
تمہاری باتیں سن کر خیال آرہا
ہے اچھا ہوتا تمہاری اس سے شادی ہو جاتی۔
ولید نے آہ بھری ۔
بڈھے نے ہاتھ تو لمبا مارا
تھا پر میں بھی جبین ہوں ایسے کسی کے ہاتھ نہیں آنے والی ہوں۔ویسے بڈھے نے بھی کیا
کیا سوچ رکھا ہوگا پر افسوس۔وہ ہنسی
ولید نے اسے گھورا اور پھر
جیب سے موبائل نکالا۔
کسے کال کر رہے ہو۔۔۔؟
جو مدد کر سکے۔ولید نے نمبر
ڈائل کیا اور موبائل کان سے لگا دیا ۔
ہیلو ۔۔۔گھر ہی ہو۔۔؟
ہاں۔۔میں آرہا ہوں ایک مسئلہ
ہے ۔
نہیں نہیں۔۔وہاں آکر ہی بتاتا
ہوں۔
ہاں کچھ دیر تک .
ماہ جبین کو اس کی یکطرفہ
گفتگو سے یہی سمجھ آرہا تھا کسی کے گھر جانا ہے.
ولید نے کال کاٹ دی اور اس
کی طرف دیکھا ۔
چلو برقعہ اوڑھ لو ہم نے یہاں
سے نکلنا ہے یہ جگہ محفوظ نہیں۔
ماہ جبین نے سر ہلایا اور
برقعہ پہن کر اس کے ساتھ باہر نکل آئی.
کچھ دیر بعد وہ دنوں بائیک
پر تھے ولید نے بائیک سٹارٹ کیا اور سڑک پر لے آیا۔
ولید خاموشی سے بائیک چلا۔رہا
تھا۔
کچھ دیر گزری تو ماہ جبین
بولی ۔
بڑے نیک لڑکے ہو بریکس کا
استعمال نہیں کیا تم
اس کی آواز میں شوخی تھی۔
ولید نے کچھ کہنے کے لئے منہ
کھولا ہی تھا ایک رکشے ان کے سامنے بریک ماری ۔
غیر ارادی طور ولید کا پاؤں
بھی بریک پر گیا۔
اطمینان سے بیٹھی ہوئی ماہ
جبین ایک دھکے سے ولید سے ٹکرائی تھی۔
ولید کے بدن میں کرنٹ سا دوڑ
گیا۔
اس نے بائیک سنبھالا ۔
مشورہ اچھا لگا تمہارا مجھے۔وہ
ہنسا۔
بڑے واہیات انسان ہو تم۔
وہ تپی تھی ۔
ہاں تم سے ملنے سے پہلے تک
تو نہیں تھا پر تمہاری صحبت کا اثر لگتا ہے۔
ولید نے ترکی بہ ترکی جواب
دیا ۔
کچھ آگے جاکر ولید نے دوبارہ
بریک پر ہلکا سا دباؤ کیا پر اس بار وہ ہوشیار تھی ۔
نہ سوہنیا نہ۔۔۔ہر بار نہیں
۔
وہ ہنسی تو ولید بھی مسکرا
دیا۔
کچھ دیر بعد وہ ایک پرانی
بلڈنگ کے نیچے کھڑے تھے۔
ماہ جبین نے اتر کر اوپر دیکھا
۔
یہاں مخلتف فلیٹس ہیں یہاں
رکنا ہوگا۔
میرے پیچھے آؤ
ولید نے نیچے اترتے ہوئے کہا
۔
ماہ جبین نے اس کے پیچھے چل
دی۔
سیڑھیاں چڑھ کر وہ ایک فلیٹ
کے سامنے رکا اور بیل بجائی۔
کچھ دیر بعد دروازہ کھلا
۔
سامنے ایک اٹھائیس سالہ لڑکی
باریک نائیٹ ڈریس میں ملبوس کھڑی تھی ۔
خوش آمدید ۔۔۔ولید کو دیکھ
کر وہ مسکرائی اور پھر ساتھ کھڑی ماہ جبین کو دیکھ چونکی اور سوالیہ نظروں سے ماہ ولید
کی طرف دیکھا۔
بتاتا ہوں سب۔۔اس کی نگاہوں
کا مفہوم سمجھ کر ولید بولا ۔
اوکے اندر آؤ۔
وہ سائیڈ پر کوئی ۔
وہ دونوں اندر داخل ہوئے
۔
کچھ دیر بعد وہ صوفے پر آمنے
سامنے بیٹھے تھے۔
تعارف ہو چکا تھا اس لڑکی
کا نام صوفیہ تھا اور وہ ایک ائیر ہوسٹس تھی۔
ولید نے اسے ساری بات بتا
دی تو وہ بولی ۔
تو میں تمہارے لئے کیا کر
سکتی ہو۔۔۔۔؟۔
اس نے ایک توبہ شکن انگڑائی
لیتے ہوئے ولید کی آنکھوں میں جھانکا ۔
َبس کچھ دن اس لڑکی کو پاس
رکھنا ۔
۔اس کے بدن کی نشیب وفراز سے نگاہیں چراتے ہوئے
ولید نے جواب دیا ۔
بس اتنا ہی یا کچھ اور بھی
۔۔۔صوفیہ نے ہونٹ دانتوں تلے دبا کر معنی خیز انداز میں کہا ۔
لاحول ولاقوة
بس اتنا ہی کافی ہے۔۔۔ولید
نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔
ھاھا ٹھیک ہے جب تک مرضی چاہو
یہاں رکھو اس کو۔
ہاں کرایہ میں تم سے وصول
لوں گی وہ بھی اپنے انداز میں۔
ماہ جبین خاموشی سے ان کی
باتیں سن رہی تھی۔
میرا جانے کا وقت ہے کل ملاقات
ہوگی اب تم دنوں سے۔
صوفیہ لہراتی بل کھاتی ہوئی
اٹھی اور اپنے روم میں چلی گئی ۔
یہ لڑکی تمہاری کیا لگتی ہے۔۔؟
اس کے جاتے ہی ماہ جبین نے
پوچھا۔
گھبراو نہیں یہ میری دور کی
محبوبہ ہے۔۔
ولید نے دانت نکالے ۔
کچھ دیر بعد صوفیہ فلیٹ سے
نکل چکی اور پیچھے وہ تنہا رہ گئے تھے۔
ولید فریج سے کھانا نکال کر
لایا اور اب وہ بیٹھے ساتھ کھانا کھا رہے تھے۔
لگتا ہے کافی آنا جانا ہے
یہاں تمہارا ۔
ماہ جبین نے اسے غور سے سے
دیکھتے ہوئے کہا۔
یہی سمجھ لو۔
اس نے کاندھے اچکائے۔
سمجھ کیوں لوں ٹھیک سے بناؤ۔
لگتا ہے کچھ جل رہا ہے کہیں۔
ولید ہنسا
جلتی ہے میری جوتی ۔میری طرف
سے جہنم میں جاؤ تم میری بلا سے
ماہ جبین نے جھلا کر کہا اور
کھانا کھانے میں مشغول ہو گئی ۔
کھانا کھا کر اور برتن سمیٹ
کر ولید نے گھر کال کر بتایا کہ وہ آج رات گھر نہیں آسکتا ہے
رات چھا چکی تھی ۔
تمہیں اب سونا چاہیے
ولید نے اسے مشورہ دیا ۔
ہاں میں کچھ دن سے ٹھیک طرح
سوئی نہیں ہوں۔
ولید نے اسے کمرے دکھایا۔
تم کہاں سوؤ گے...؟
یہاں ہی سوؤں گا میں بھی۔ولید
نے اطمینان سے کہا ۔
میں تمہارے ساتھ اکیلے میں
نہیں رہ سکتی ۔
ماہ جبین نے اسے گھورا۔
مجھ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں
کچھ نہیں کرتا میں
ولید نے اسے تسلی دی۔
کیوں؟ ۔۔میں حسین ہوں، جوان
ہوں، کمرہ بھی اوپر ہے، تم اگر دروازہ بند کر دو اور کھڑکیوں پر پردے گرا دو اور میرے
منہ پر ہاتھ رکھ دو تو کسی کو کیا پتا ۔
تم مجھ سے ڈر رہی ہو یا مجھے
آگے کا پلان سمجھا رہی ہو کہ آگے کیا کرنا ہے مجھے ۔
اس کی بات پر ولید ہنسا تھا
۔
۔
آج کافی عرصے بعد ھم نے بازار
میں قدم رنجہ فرمایا تھا گھومتے گھماتے، دیکھتے اور تاڑتے ہوئے لوگوں کے درمیان چلتے
ہوئے ھم قبلہ حکیم صاحب کے مطب کے پاس جا نکلے ۔سال خوردہ بورڈ پر کچھ نئی جناتی ڈگریوں
کا اضافہ دیکھ کر ہماری رگ ظرافت پھڑک اٹھی ۔
سو پچھلی اور اگلی جملہ بیماریوں
کو چہرے پر لٹکائے ہوئے مطلب کے بوسیدہ دروازے سے اندر کو ہوئے ۔
حکیم صاحب تکیہ سے ٹیک لگائے
بلکل ساکت بیٹھے ہوئے تھے ۔
ہمارا دل سمجھا کہ وہ چل بسے
ہیں اس لئے فرط غم سے ھم نے اونچی آواز میں نعرہ تکبیر بلند کیا تو حکیم صاحب ہڑبڑا
اٹھے ۔ہمارے اس نعرے کی بازگشت مطلب سے گزر کر پیچھے مکان میں موجود ان کی بیوی کے
کانوں پر بھی دستک دے گئی تھی ۔
اس لئے ان کی پشت پر موجود
کھڑکی کے پٹ دھڑ سے کھلے اور حکیم صاحب کی بیوی ان میں سے یوں ابھری جیسے کسی ہالی
وڈ کی ہارر مووی میں کوئی بھوت کھڑکی پر کٹا ہوا چہرہ ہاتھ میں لئے بیٹھا ہو۔
کیا ہوا بچے۔ان کی کھڑکتی
ہوئی آواز کھڑکی سے اتر کر مطب اور پھر ہماری سماعتوں میں ایک ساتھ گھسی۔
کچھ نہیں تائی۔حکیم صاحب ساکت
و صامت بت بنے بیٹھے تھے ہم نے دیکھ کر سمجھا یہ تو نکل لئے اس لئے غم ہماری چیخ کی
صورت میں سنائی دیا۔
تائی نے ایک لمبی آہ بھری
اور پھر ہمیں گھورتے حکیم صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے لاپرواہی سے بولیں۔
میں سمجھی پتا نہیں کیا ہوگیا۔
ہائیں۔۔مطلب ہمارا جانا کوئی
اتنی اھم بات نہیں ۔
حکیم صاحب، اپنی زوجہ کی بے
پروائی پر افسردہ ہوتے ہوئے بولے ۔
لو کر لو گل۔تائی نے ہاتھ
نچایا۔
اب اس عمر اور کون سی ایسی
خبر تمہاری طرف سے ہمیں مل سکتی ہے بس اب اعلان ہونا ہی باقی ہوتا ہے ۔
تائی سے اس قدر سنگ دلانہ
سچائی سن کر حکیم صاحب کی چھوٹی آنکھوں میں پانی بھر آیا تو وہ بولے۔
اتنا سب کچھ تمہارے لئے کیا۔میری
جوانی تم کھا گئی اور اب یہ اناپ شناپ. کہے جارہی ہو۔اپنے سال بیتائے سالوں کا تو لحاظ
کرو۔
پر تائی کے دل پر حکیم صاحب
کے آنسوؤں نے نہ اثر کرنا تھا نہ کیا۔
ھے ہائے۔اب تم مکار عورتوں
کی طرح ٹسو مت بہاؤ
جو بیت گیا اسے کون یاد رکھتا
ھے۔اور کون سی جوانی؟
جوانی میں بھی تم ایسے ہی
تھے۔کہی مرتبہ تمہیں ہینگر سمجھ کر کپڑے تم پر لٹکا دیتی تھی۔اس لئے رہنے ہی دو تم۔
تائی کے دندان شکن جواب نےقبکہ
حکیم کی بتی گل کر دی تو وہ بغلیں جھانکنے لگے۔
کھڑکی دھماکے سے بندھ کر تائی
یہ جا وہ جا۔
حکیم صاحب غمگین نظروں سے
بند کھڑکی کو گھورنے میں مستغرق ہونے لگے تو ہم نے بولنا مناسب سمجھا اس لئے ہولے سے
ان کو پکارا تو وہ چونکے ۔
گویا وہ ہمارا وہاں ہونا فراموش
کئے بیٹھے تھے۔
میاں تم جب بھی آتے ہو مجھے
سننی پڑ جاتی ہیں۔
ہمیں دیکھتے ہوئے انہوں نے
سرد آہ بھرتے ہوئے کہا ۔
یوں کہیں حکیم صاحب کے کم
سننے کو ملتی ہیں ۔تائی ہمارا لحاظ کرتی ہیں۔
لحاظ۔۔اور تمہاری تائی۔
لفظ تائی کو انہوں نے یوں
چبا کر ادا کیا گویا دانت تلے تائی ہوں۔
اور نہیں تو کیا ورنہ تائی
کے ہاتھ میں تو ہر وقت بیلنا یا جھاڑو ہوتا ہی ہے۔
ھم نے ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ
دھرا تھا اس لئے وہ غصے سے گھورتے ہوئے بولے ۔
کہنا کیا چاہتے ہو میاں!
ھم نے کچھ کہنے کے لئے منہ
کھولا ہی تھا کہ مطب میں ایک پکی عمر کا آدمی داخل ہوا ۔اور مطب کے در و دیوار کو یوں
دیکھنے لگا جیسے قیدی پہلی مرتبہ اپنے قید خانے کو دیکھتا ہو۔
ھم نے اسے رحم بھری نظروں
سے دیکھا اور قبلہ حکیم صاحب کی تیوری پر اسے دیکھ کر بل پڑے ۔
حکیم صاب۔
میری بیوی کو افاقہ نہیں ہوا۔
پہلے سے زیادہ غصے اور سر
درد کی شکایت ہے۔
نئے آنے والے انہیں مخاطب۔
بیویوں پر دوا اور دعا کافی
وقت سے اثر کرتی ہے۔کمبخت کچھ بیویاں تو شوہر کا خون چوس کر بھی شفایاب نہیں ہوتی ہیں۔
حکیم صاحب صنف بیوی پر کچھ
زیادہ ہی برہم تھے۔
پر کچھ تو اثر ہو ۔
آدمی۔منمنایا
۔ہو جائے گا ہوجائے گا۔
حکیم صاحب نے یوں ہاتھ ہلایا
جیسے ناک پر بیٹھی مکھی اڑا رہے ہوں۔
کب ہوجائے گا۔دو ماہ سے آپ
یہی کہہ رہے ہیں۔اب تو میری بیوی رات میں سوتے ہوئے بھی سر درد سے چلاتی ہے اور مجھے
صلواتیں سناتی ہے کہ میں ٹھیک دوائی نہیں لا رہا ۔
آدمی نے دہائی دی ۔
بھائی مجھے تو لگتا یے تمہاری
بیوی ناٹک کر رہی ہے۔جو باتیں وہ ویسے تمہیں نہیں سنا سکتی وہ سر درد اور دورے کی شکل
میں سنا کر کیلجہ ٹھنڈا کرتی ہے۔
حکیم صاحب نے پر سوچ انداز
میں کہا تو آدمی نے سال خوردہ صوفے پر پہلو بدلا۔
جیسا بھی ہے آپ کچھ کیجئے
کل تو حد ہی ہوگئی۔درد کی شدت سے اس نے استری مجھے کھینچ ماری یہ دیکھیں ۔
آدمی نے ٹوپی اوپر کر کے اپنا
سر ملاحظے کے لئے پیش کیا جہاں ابھرا ہوا گومڑ دعوت نظارہ دے رہا تھا۔
حکیم صاحب نے بے مزہ ہوکر
اسے دیکھا اور پھر بولے ۔
دوائی دے رہا ہوں اس بار مقدار
زیادی کر رہا۔
جب اس کی طبعیت خراب ہو تو
احتیاط بھرتا کرو اور اس کے سامنے مت جاؤ۔یا دیکھ بھال لیا کرو کہ اس کے ہاتھ میں کوئی
وزنی چیز تو نہیں ۔
رنگ برنگی گولیوں کا ایک پیکٹ
آدمی کو پکڑا کر حکیم صاحب نے پیسے وصول کئے اور اسے چلتا کر دیا ۔
ھم نے حیرانگی سے یہ مہاجرہ
دیکھا۔
حکیم صاحب اس دن آپ نے یہی
دوائی زہنی عدم توازن کی شکایت کرنے والے آدمی کو دی۔
میاں، تو بیویوں کا توازن
کب درست ہوتا ہے؟
حکیم صاحب نے بھنا کر کہا۔
آپ بیویوں سے اتنے نالاں کیوں
ہیں۔۔؟
ھم نے ازراہ تفریح پوچھا تھا
پر حکیم صاحب تو پھٹ پڑے۔
میرا بس چلے تو اپنی کے ساتھ
پوری دنیا کی بیویوں کا طلاق دے دوں جینا حرام کر رکھا ہے۔
اچانک حکیم صاحب کسی شکاری
کی طرح چوکنے ہوئے اور دروازے کی طرف دیکھنے لگے۔
دروازے سے ایک پری جمال نے
اٹھلا کر اندر قدم رکھا تو ان کے چہرے رونق آگئی۔
ھم نے دل ہی دل میں ان کی
چھٹی حس کو داد دی۔
حکیم صاحب ۔
پری اندام نے نزاکت سے انہیں
پکارا تھا ۔
جی فرمائیں
کچھ دیر پہلے کا تلخی بھرا
لہجا اب شہد بھرا تھا اور ھم اس کایہ پلٹ ششد۔
وہ ہمیں چہرے کی خوبصورتی
کے لئے ملتانی مٹی سے بنا پیسٹ عنایت کریں گے سنا ہے آپ نے بنایا ہے۔
ضروری ضروری ھم آپ کی ہی خدمت
کے لئے موجود ہیں۔
انہوں نے فدویانہ انداز میں
کہا اور ایک پیکٹ نکال سامنے رکھا۔۔
ہماری طبیعت آج کل کچھ بوجھل
سی ہے اگر آپ نبض دیکھ کر بتا دیں تو اچھا ہوگا۔
اپسرا نے ادائے بے نیازی سے
ہاتھ آگے کیا۔جسے حکیم صاحب نے عقیدت سے تھام لیا۔
ھمیں ڈر گزرا کہ کہیں جوش
عقیدت میں وہ ہاتھ چوم ہی نہ لیں پر خیر گزری۔
حکیم صاحب نے انکھیں بند کی
اور نبض کی عمیق گہرائیوں میں اتر گئے ۔
لمحہ منٹوں میں اتر آیا تو
ہمارا صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور ہم پکارے۔
حکیم صاحب آپ بیماری ڈھونڈ
رہے ہیں یا کوئی گمشدہ بچا جو اتنا وقت لگ رہا۔
وہ ہماری فریاد پر قہر بار
ہوئے۔
میاں بیماری ڈوھونڈنے میں
وقت تو لگتا ہے منہ بند کرو میرا ارتکاز خراب ہوتا۔
ہمیں سنا کر وہ پھر سے نبض
کے بحر طلاطم میں کود گئے ۔
ایک منٹ گزرا دوسرا اور پھر
دس منٹ۔
حکیم صاحب ہمیشہ کی طرح بہت
گہرے اتر گئے تھے۔
ھم نے جب دیکھ کہ اس بار بھی
ان کا واپسی کا امکان نہیں پیدا ہو رہا تو بولے ۔
اتنے وقت تو ناسا نے نئی کہکشان
دریافت کرنے میں نہیں لگایا تھا جتنا آپ بیماری تلاش کرنے میں لگا رہے ہیں ۔
ہماری بات پر اپسرا نے ایک
سریلا قہقہ لگایا اور حکیم صاحب نے شعلہ بار نظروں سے ہمیں گھورا۔
اس سے پہلے کہ وہ ہماری عزت
افزائی کرتے ملحقہ کھڑکی کے پٹ پھر دھماکے سے کھلے اور قبلہ حکیم صاحب یوں اچھلے جیسے
کوئی بم پھوٹا ہو ۔
ان کی زوجہ محترمہ پوری آن
بان سے نمودار ہوئیں اور اپسرا کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیکھ کر ان کا مزاج ہٹلر کی
طرح بدلا ۔
حکیم صاحب نے ہاتھ یوں چھوڑا
جیسے ننگی تار کو ہاتھ لگا ہو ۔
نظروں ہی نظروں میں انہوں
مہ جھین کو نو دو گیارہ کرنے کا سگنل دیا جسے حکیم صاحب نے پک کرتے ہوئے اپسرا کو جلدی
سے کچھ ادویات دے کر رخصت کیا۔
حکیم صاحب بیماری ڈوھونڈنے
پر اتنا وقت لگاتے کے ہاتھ چھوڑتے ہیں نہیں ہیں۔
ھم نے جلتی پر تیل ڈالا۔
حکیم صاحب نے خوفناک نگاہوں
سے ہمیں دیکھا اور پھر اپنی زوجہ کو مخاطب کرتے ہوئے بھیگی بلی کی طرح بولے ۔
وہ بس سمجھ نہیں پارہے تھے۔
میں سب سمجھتی ہوں حکیم ۔
ان کی زوجہ کا پارہ چڑھا ہوا
تھا۔
ھم نے کھسکنے میں عافیت جانی۔
اور کھڑے ہوتے ہوئے حکیم صاحب
کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنا ضروری سمجھا اس لئے بولے ۔
تائی ہمیں لگتا ہے یہ بیماری
کی آڑ میں نئی بیوی تلاش کر رہے ہیں۔
نئی بیوی ۔
تائی پھنکاری اور پھر حکیم
صاحب کو گھر آنے کی دعوت عبرت دی ۔
ہم مسکراتے ہوئے مطب سے باہر
کو نکلے۔
اب حکیم صاحب کی جو درگت بننی
تھی اس کا حال ہمیں جلد پتا چلنا تھا۔۔
حکیم صاحب کا حکینامہ اور
درگت کا حال ھم جاننے پھر یہاں آتے ۔
پر اتنا جانتے تھے کہ ان کی
نبض آج کافی دیر ساکت رہنے والی تھی ۔آج کافی عرصے بعد ھم نے بازار میں قدم رنجہ فرمایا
گھومتے گھماتے، دیکھتے اور تاڑتے ہوئے لوگوں کے درمیان چلتے ہوئے ھم قبلہ حکیم صاحب
کے مطب کے پاس جا نکلے ۔سال خوردہ بورڈ پر
کچھ نئی جناتی ڈگریوں کا اضافہ دیکھ کر ہماری رگ ظرافت پھڑک اٹھی ۔
سو پچھلی اور اگلی جملہ بیماریوں
کو چہرے پر لٹکائے ہوئے مطلب کے بوسیدہ دروازے سے اندر کو ہوئے ۔
حکیم صاحب تکیہ سے ٹیک لگائے
بلکل ساکت بیٹھے ہوئے تھے ۔
ہمارا دل سمجھا کہ وہ چل بسے
ہیں اس لئے فرط غم سے ھم نے اونچی آواز میں نعرہ تکبیر بلند کیا تو حکیم صاحب ہڑبڑا
اٹھے ۔ہمارے اس نعرے کی بازگشت مطلب سے گزر کر پیچھے مکان میں موجود ان کی بیوی کے
کانوں پر بھی دستک دے گئی تھی ۔
اس لئے ان کی پشت پر موجود
کھڑکی کے پٹ دھڑ سے کھلے اور حکیم صاحب کی بیوی ان میں سے یوں ابھری جیسے کسی ہالی
وڈ کی ہارر مووی میں کوئی بھوت کھڑکی پر کٹا ہوا چہرہ ہاتھ میں لئے بیٹھا ہو۔
کیا ہوا بچے۔ان کی کھڑکتی
ہوئی آواز کھڑکی سے اتر کر مطب اور پھر ہماری سماعتوں میں ایک ساتھ گھسی۔
کچھ نہیں تائی۔حکیم صاحب ساکت
و صامت بت بنے بیٹھے تھے ہم نے دیکھ کر سمجھا یہ تو نکل لئے اس لئے غم ہماری چیخ کی
صورت میں سنائی دیا۔
تائی نے ایک لمبی آہ بھری
اور پھر ہمیں گھورتے حکیم صاحب کی طرف دیکھتے ہوئے لاپرواہی سے بولیں۔
میں سمجھی پتا نہیں کیا ہوگیا۔
ہائیں۔۔مطلب ہمارا جانا کوئی
اتنی اھم بات نہیں ۔
حکیم صاحب، اپنی زوجہ کی بے
پروائی پر افسردہ ہوتے ہوئے بولے ۔
لو کر لو گل۔تائی نے ہاتھ
نچایا۔
اب اس عمر اور کون سی ایسی
خبر تمہاری طرف سے ہمیں مل سکتی ہے بس اب اعلان ہونا ہی باقی ہوتا ہے ۔
تائی سے اس قدر سنگ دلانہ
سچائی سن کر حکیم صاحب کی چھوٹی آنکھوں میں پانی بھر آیا تو وہ بولے۔
اتنا سب کچھ تمہارے لئے کیا۔میری
جوانی تم کھا گئی اور اب یہ اناپ شناپ. کہے جارہی ہو۔اپنے سال بیتائے سالوں کا تو لحاظ
کرو۔
پر تائی کے دل پر حکیم صاحب
کے آنسوؤں نے نہ اثر کرنا تھا نہ کیا۔
ھے ہائے۔اب تم مکار عورتوں
کی طرح ٹسو مت بہاؤ
جو بیت گیا اسے کون یاد رکھتا
ھے۔اور کون سی جوانی؟
جوانی میں بھی تم ایسے ہی
تھے۔کہی مرتبہ تمہیں ہینگر سمجھ کر کپڑے تم پر لٹکا دیتی تھی۔اس لئے رہنے ہی دو تم۔
تائی کے دندان شکن جواب نےقبکہ
حکیم کی بتی گل کر دی تو وہ بغلیں جھانکنے لگے۔
کھڑکی دھماکے سے بندھ کر تائی
یہ جا وہ جا۔
حکیم صاحب غمگین نظروں سے
بند کھڑکی کو گھورنے میں مستغرق ہونے لگے تو ہم نے بولنا مناسب سمجھا اس لئے ہولے سے
ان کو پکارا تو وہ چونکے ۔
گویا وہ ہمارا وہاں ہونا فراموش
کئے بیٹھے تھے۔
میاں تم جب بھی آتے ہو مجھے
سننی پڑ جاتی ہیں۔
ہمیں دیکھتے ہوئے انہوں نے
سرد آہ بھرتے ہوئے کہا ۔
یوں کہیں حکیم صاحب کے کم
سننے کو ملتی ہیں ۔تائی ہمارا لحاظ کرتی ہیں۔
لحاظ۔۔اور تمہاری تائی۔
لفظ تائی کو انہوں نے یوں
چبا کر ادا کیا گویا دانت تلے تائی ہوں۔
اور نہیں تو کیا ورنہ تائی
کے ہاتھ میں تو ہر وقت بیلنا یا جھاڑو ہوتا ہی ہے۔
ھم نے ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ
دھرا تھا اس لئے وہ غصے سے گھورتے ہوئے بولے ۔
کہنا کیا چاہتے ہو میاں!
ھم نے کچھ کہنے کے لئے منہ
کھولا ہی تھا کہ مطب میں ایک پکی عمر کا آدمی داخل ہوا ۔اور مطب کے در و دیوار کو یوں
دیکھنے لگا جیسے قیدی پہلی مرتبہ اپنے قید خانے کو دیکھتا ہو۔
ھم نے اسے رحم بھری نظروں
سے دیکھا اور قبلہ حکیم صاحب کی تیوری پر اسے دیکھ کر بل پڑے ۔
حکیم صاب۔
میری بیوی کو افاقہ نہیں ہوا۔
پہلے سے زیادہ غصے اور سر
درد کی شکایت ہے۔
نئے آنے والے انہیں مخاطب۔
بیویوں پر دوا اور دعا کافی
وقت سے اثر کرتی ہے۔کمبخت کچھ بیویاں تو شوہر کا خون چوس کر بھی شفایاب نہیں ہوتی ہیں۔
حکیم صاحب صنف بیوی پر کچھ
زیادہ ہی برہم تھے۔
پر کچھ تو اثر ہو ۔
آدمی۔منمنایا
۔ہو جائے گا ہوجائے گا۔
حکیم صاحب نے یوں ہاتھ ہلایا
جیسے ناک پر بیٹھی مکھی اڑا رہے ہوں۔
کب ہوجائے گا۔دو ماہ سے آپ
یہی کہہ رہے ہیں۔اب تو میری بیوی رات میں سوتے ہوئے بھی سر درد سے چلاتی ہے اور مجھے
صلواتیں سناتی ہے کہ میں ٹھیک دوائی نہیں لا رہا ۔
آدمی نے دہائی دی ۔
بھائی مجھے تو لگتا یے تمہاری
بیوی ناٹک کر رہی ہے۔جو باتیں وہ ویسے تمہیں نہیں سنا سکتی وہ سر درد اور دورے کی شکل
میں سنا کر کیلجہ ٹھنڈا کرتی ہے۔
حکیم صاحب نے پر سوچ انداز
میں کہا تو آدمی نے سال خوردہ صوفے پر پہلو بدلا۔
جیسا بھی ہے آپ کچھ کیجئے
کل تو حد ہی ہوگئی۔درد کی شدت سے اس نے استری مجھے کھینچ ماری یہ دیکھیں ۔
آدمی نے ٹوپی اوپر کر کے اپنا
سر ملاحظے کے لئے پیش کیا جہاں ابھرا ہوا گومڑ دعوت نظارہ دے رہا تھا۔
حکیم صاحب نے بے مزہ ہوکر
اسے دیکھا اور پھر بولے ۔
دوائی دے رہا ہوں اس بار مقدار
زیادی کر رہا۔
جب اس کی طبعیت خراب ہو تو
احتیاط بھرتا کرو اور اس کے سامنے مت جاؤ۔یا دیکھ بھال لیا کرو کہ اس کے ہاتھ میں کوئی
وزنی چیز تو نہیں ۔
رنگ برنگی گولیوں کا ایک پیکٹ
آدمی کو پکڑا کر حکیم صاحب نے پیسے وصول کئے اور اسے چلتا کر دیا ۔
ھم نے حیرانگی سے یہ مہاجرہ
دیکھا۔
حکیم صاحب اس دن آپ نے یہی
دوائی زہنی عدم توازن کی شکایت کرنے والے آدمی کو دی۔
میاں، تو بیویوں کا توازن
کب درست ہوتا ہے؟
حکیم صاحب نے بھنا کر کہا۔
آپ بیویوں سے اتنے نالاں کیوں
ہیں۔۔؟
ھم نے ازراہ تفریح پوچھا تھا
پر حکیم صاحب تو پھٹ پڑے۔
میرا بس چلے تو اپنی کے ساتھ
پوری دنیا کی بیویوں کا طلاق دے دوں جینا حرام کر رکھا ہے۔
اچانک حکیم صاحب کسی شکاری
کی طرح چوکنے ہوئے اور دروازے کی طرف دیکھنے لگے۔
دروازے سے ایک پری جمال نے
اٹھلا کر اندر قدم رکھا تو ان کے چہرے رونق آگئی۔
ھم نے دل ہی دل میں ان کی
چھٹی حس کو داد دی۔
حکیم صاحب ۔
پری اندام نے نزاکت سے انہیں
پکارا تھا ۔
جی فرمائیں
کچھ دیر پہلے کا تلخی بھرا
لہجا اب شہد بھرا تھا اور ھم اس کایہ پلٹ ششد۔
وہ ہمیں چہرے کی خوبصورتی
کے لئے ملتانی مٹی سے بنا پیسٹ عنایت کریں گے سنا ہے آپ نے بنایا ہے۔
ضروری ضروری ھم آپ کی ہی خدمت
کے لئے موجود ہیں۔
انہوں نے فدویانہ انداز میں
کہا اور ایک پیکٹ نکال سامنے رکھا۔۔
ہماری طبیعت آج کل کچھ بوجھل
سی ہے اگر آپ نبض دیکھ کر بتا دیں تو اچھا ہوگا۔
اپسرا نے ادائے بے نیازی سے
ہاتھ آگے کیا۔جسے حکیم صاحب نے عقیدت سے تھام لیا۔
ھمیں ڈر گزرا کہ کہیں جوش
عقیدت میں وہ ہاتھ چوم ہی نہ لیں پر خیر گزری۔
حکیم صاحب نے انکھیں بند کی
اور نبض کی عمیق گہرائیوں میں اتر گئے ۔
لمحہ منٹوں میں اتر آیا تو
ہمارا صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور ہم پکارے۔
حکیم صاحب آپ بیماری ڈھونڈ
رہے ہیں یا کوئی گمشدہ بچا جو اتنا وقت لگ رہا۔
وہ ہماری فریاد پر قہر بار
ہوئے۔
میاں بیماری ڈوھونڈنے میں
وقت تو لگتا ہے منہ بند کرو میرا ارتکاز خراب ہوتا۔
ہمیں سنا کر وہ پھر سے نبض
کے بحر طلاطم میں کود گئے ۔
ایک منٹ گزرا دوسرا اور پھر
دس منٹ۔
حکیم صاحب ہمیشہ کی طرح بہت
گہرے اتر گئے تھے۔
ھم نے جب دیکھ کہ اس بار بھی
ان کا واپسی کا امکان نہیں پیدا ہو رہا تو بولے ۔
اتنے وقت تو ناسا نے نئی کہکشان
دریافت کرنے میں نہیں لگایا تھا جتنا آپ بیماری تلاش کرنے میں لگا رہے ہیں ۔
ہماری بات پر اپسرا نے ایک
سریلا قہقہ لگایا اور حکیم صاحب نے شعلہ بار نظروں سے ہمیں گھورا۔
اس سے پہلے کہ وہ ہماری عزت
افزائی کرتے ملحقہ کھڑکی کے پٹ پھر دھماکے سے کھلے اور قبلہ حکیم صاحب یوں اچھلے جیسے
کوئی بم پھوٹا ہو ۔
ان کی زوجہ محترمہ پوری آن
بان سے نمودار ہوئیں اور اپسرا کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیکھ کر ان کا مزاج ہٹلر کی
طرح بدلا ۔
حکیم صاحب نے ہاتھ یوں چھوڑا
جیسے ننگی تار کو ہاتھ لگا ہو ۔
نظروں ہی نظروں میں انہوں
مہ جھین کو نو دو گیارہ کرنے کا سگنل دیا جسے حکیم صاحب نے پک کرتے ہوئے اپسرا کو جلدی
سے کچھ ادویات دے کر رخصت کیا۔
حکیم صاحب بیماری ڈوھونڈنے
پر اتنا وقت لگاتے کے ہاتھ چھوڑتے ہیں نہیں ہیں۔
ھم نے جلتی پر تیل ڈالا۔
حکیم صاحب نے خوفناک نگاہوں
سے ہمیں دیکھا اور پھر اپنی زوجہ کو مخاطب کرتے ہوئے بھیگی بلی کی طرح بولے ۔
وہ بس سمجھ نہیں پارہے تھے۔
میں سب سمجھتی ہوں حکیم ۔
ان کی زوجہ کا پارہ چڑھا ہوا
تھا۔
ھم نے کھسکنے میں عافیت جانی۔
اور کھڑے ہوتے ہوئے حکیم صاحب
کے تابوت میں آخری کیل ٹھوکنا ضروری سمجھا اس لئے بولے ۔
تائی ہمیں لگتا ہے یہ بیماری
کی آڑ میں نئی بیوی تلاش کر رہے ہیں۔
نئی بیوی ۔
تائی پھنکاری اور پھر حکیم
صاحب کو گھر آنے کی دعوت عبرت دی ۔
ہم مسکراتے ہوئے مطب سے باہر
کو نکلے۔
اب حکیم صاحب کی جو درگت بننی
تھی اس کا حال ہمیں جلد پتا چلنا تھا۔۔
حکیم صاحب کا حکینامہ اور
درگت کا حال ھم جاننے پھر یہاں آتے ۔
پر اتنا جانتے تھے کہ ان کی
نبض آج کافی دیر ساکت رہنے والی تھی ۔۔
مطلب سے نکلتے ہی موبائل کی
بیل نے اس کے قدم روکے۔
کہاں مر گئے ہو تم میرے پیٹ
میں بل پڑ رہے ہیں۔
دوسری طرف ماہ جبین تھی۔
ہم ابھی بازار میں ہیں کچھ
دیر شکم پروری کا سامان لیکر آتے ہیں۔
ہم مطلب ؟
تمہارے ساتھ اور کون ہے۔۔؟
ماہ جبین جیسے چونکی تھی۔
ولید نے منہ بنایا۔
ہم سے مراد یعنی میں۔۔۔نستعلیق
اردو بھی کسی چڑیا کا نام ہے ۔
اوئے غالب کی اولاد بھوک سے
میرا برا حال ہے اور تمہیں اردو کی پڑھی ھے۔
اگلے بیس منٹ میں واپس نہ
آئے تو تمہیں ایسی نستعلیق قسم کی گالیاں دوں گی ڈکشنری بھی سر پکڑ کر بیٹھ جائے گی۔
ماہ جبین نے غصے کہہ کر کال
کاٹ دی تو ولید نے سرد آہ بھری ۔
بیٹا حالات خراب ہو رہے ہیں
۔لگتا ھے جلد تمہاری حالت بھی حکیم جیسی ہونی ہے ۔
اس نے بائیک کی طرف قدم بڑھائے
اور بائیک کی قریب ایک لڑکی کو کھڑے دیکھ کر چونکا ۔
اللہ کسی نئی مصیبت میں نہ
ڈال دینا۔۔دل ہی دل میں اس نے دعا کی۔
یہ آپ کی بائیک ہے۔۔؟
لڑکی نے اسے بائیک پر بیٹھتے
دیکھ کر سوال کیا۔
نہیں ۔چوری کر کے لے جا رہا
ہوں۔
ولید نے سرگوشی سے کہا تو
اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں ۔
سچ میں۔۔؟
اس کے منہ سے سر سراتی آواز
پیدا ہوئی۔
مذاق کر رہا ہوں۔۔ولید نے
مسکرا کر کہا تو اس کی جان میں جان آئی
اچھا جو بھی ہے مجھے لفٹ دیں
گے پلیز یہاں سے رکشہ نہیں مل رہا ہے اور مجھے ایک جگہ لازمی جانا ہے ۔
لڑکی نے منت بھرے لہجے میں
کہا۔
دیکھیں میں آپ کی مدد ضرور
کرتا پر مجھے گھر جانا ہے ۔
پلیز مجھے لازمی جانا ہے اگر
میں نہ پہنچی جو جاب سے جاؤں گی
میں اگر وقت سے نہ پہنچا تو
جان سے جاؤں گا آپ کچھ دیر انتظار کریں رکشہ مل جائے گا۔
ولید نے دل پر پتھر رکھ کر
دوبارہ انکار کیا ورنہ اس کے اندر کا دل پھینک انسان اسے بات مان لینے کا کہہ رہا تھا۔
دیکھیں میرے ابو ہسپتال میں
ہیں اور ان کا میرے سوا اور کوئی نہیں ہے ۔پلیز۔
ولید نے ایک نظر لڑکی کو دیکھا
اور پھر کلائی پر بندھی گھڑی پر نگاہ ڈالی
اوکے بیٹھیں۔
شکریہ ۔۔آپ بہت شریف انسان
لگتے ہیں۔
اس کے پیچھے بیٹھتے ہوئے لڑکی
نے تشکرانہ انداز میں کہا تو ولید نے سر جھٹکا۔
میں کچھ زیادہ ہی شریف نہیں
ہوتا جا رہا ہوں۔؟خود سے سوال کرتے ہوئے اس نے بائیک کو کک ماری تھی۔
بائیک کے سٹارٹ ہوتے ہی بازار
میں پولیس کے سائرن گونجنے لگے ۔
پولیس کی دو گاڑیاں اگے پیچھے
بازار میں داخل ہوئیں تھیں۔
نکلو یہاں سے پلیز ۔لڑکی نے
جلدی سے کہا۔
بیٹا لگتا ہے کوئی نئی مصیبت
گلے پڑنے والی ہے۔
موبائل پر بیل بجی تھی۔۔۔یقیناََ
ماہ جبین کی کال آرہی تھی۔
اس نے ہونٹ بھینچ لئے تھے۔
*********************
جاری ہے
CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING
Comments
Post a Comment