Yeh rasty mohabbat kay novel by Ibn e Abdullah Part 2


ناول:"یہ راستے محبت کے"
تحریر : "ابن عبداللہ"
پارٹ 2
ولید اسے لیکر مارکیٹ سے نکل آیا تو بولا۔
تم نے کوئی کارہائے نمایاں تو سر انجام نہیں دیا جس کی وجہ سے پولیس آئی تھی ۔۔؟
ارے نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہےلڑکی نے جلدی سے کہا تو ولید نے سر ہلایا ۔
پھر تم نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا یہ بتاؤ؟
میں امی کی میڈیسنز لینے آئی تھی مارکیٹ میں کچھ لڑکے مجھے چھیڑنے لگے اور میرے پیچھے چلے آئے اس لئے مجھے یہ حرکت کرنی پڑی۔
اچھا .پر ایک اجنبی انسان سے اس طرح مدد مانگنا مہنگا بھی پڑ سکتا ہے۔
ولید نے بیک مرر میں دکھائی دیتی آنکھوں میں جھانک کر کہا تو وہ آنکھیں مسکرائیں۔
آپ شکل سے شریف انسان لگتے تھے اس لئے یہ حرکت کی۔
ولید نے منہ بنایا.
ایک تو مجھے اپنے شریف چہرے سے چڑ ہو گئی ہے بہت. کمبخت کوئی لڑکی بری نگاہ سے مجھے نہیں دیکھتی ۔
ولید کی بات سن کر وہ ہنسی ۔
کچھ دیر میں وہ ایک متوسط طبقے کے رہائشی علاقے میں تھے لڑکی کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہوئے اس نے گھر کے آگے بائیک روکی۔
ولید کا سیل فون بجا۔
دوسری طرف یقیناً ماہ جبین تھی ۔
کیا مصیبت ھے کہا تو ھے آرہا ہوں میں تھوڑا انتظار کرو راستے میں ہوں۔ولید نے موبائل کان سے لگاتے ہی کہا۔
کہاں مر گئے ہو تم یہاں میرا بھوک سے برا ہال ہے ۔سچ بتاؤ کہاں ہو تم ۔سپیکر سے ماہ جبین کی آواز اس لڑکی نے بھی سن لی تھی ۔
قسم سے کھانا ہی لا رہا ہوں میں سڑک پر ٹریف بہت ہے اس لئے دیر ہو رہی ہے ۔
اچھا سویٹ ہارٹ پھر کب ملنے آؤ گے اور یہ کس چڑیل سے بات کررہے ہو۔
اس سے پہلے کہ ماہ جابین کوئی جواب دیتی ولید کے پاس کھڑی اجنبی لڑکی محبت سے اونچی آواز میں بولی۔
ولید اچھلا۔دوسری طرف ماہ جین بھی اس کی آواز سن چکی تھی۔
کمینے یہاں میں بھوک سے مر رہی ہوں اور تم کسی کے ساتھ گل چھڑے اڑا رہے ہو اور یہ چوہی ہے کون جس نے مجھے چڑیل کہا خون پی جاؤں گی میں۔
جانو اس چڑیل کو چھوڑو کچھ دیر مزید رکو نا ۔ابھی مت جاؤ کہ من ابھی بھرا نہیں ۔
ولید نے غصے سے اسے دیکھا.
ارے ایسی ویسی کوئی بات نہیں میں تو۔
چپ کرو تم اور میری اس سے بات کراؤ جس کا من بھرا نہیں ہے ایسی ایسی گالیاں دوں گی کہ من بھر جائے گا اس کمینی کا۔ماہ جبین کی پارہ چڑھ چکا تھا۔
اچھا میں دس منٹ میں میں پہنچتا ہوں پھر بات کرتے ہیں وہاں ۔
ولید نے جلدی سے فون بند کیا اور اسے گھورا.
یہ کیا حرکت تھی۔
ایسے ہی بس دل کیا کہ تھوڑا فن ہوجائے اس میں کیا ہے۔
ولید نے سر پر ہاتھ مارا۔
ویسے مجھے لوگ ارم کہتے ہیں آپ پیار سے جو کہنا چاہیں کہہ سکتے ہیں.لڑکی نے تعاف کراتے ہوئے شوخی سے کہا۔
مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے پیار سے کچھ کہنے کی سمجھی. جاؤ اب. مجھے تو اپنی عافیت خطرے میں لگ رہی ھے ۔
ولید نے بائیک سٹارٹ کی اچانک دروازہ کھلا اور ایک فربہ سی خاتون اندھی کی طرح نمودار ہوئیں اور لپک کر ولید کا گریبان پکڑ لیا۔
میری بیٹی کو چھیڑتے ہو تم کہاں گئی چپل میری ۔
ارے آنٹی میں کہاں چھیڑ رہا میں تو۔ولید اس اچانک کی افتاد سے بوکھلا گیا۔
ارے میں سب سمجھتی ہوں آج کل کے لونڈوں کی حرکتیں اکیلی لڑکی دیکھی نہیں اور لٹو ہوگئے اس پر۔بڑی اماں پورے جلال میں تھیں۔
میں ابھی لٹو نہین ہوا آنٹی۔
مطلب ابھی نہیں لٹو ہوئے پر ارادہ تھا۔۔اور یہ آنٹی کس کو بولا ہے تم نے میں آنٹی لگتی ہوں تمہیں ۔کلموہے انسان ۔خاتون نے پھنکاریں ۔
ارے نہیں آنٹی۔۔۔مم میرا مطلب۔ارم۔سمجھاؤ ان کو کہ میں تو مدد کر رہا تھا
ارم جو اس سب سے لطف اندوز ہو رہی تھی ولید کی فریاد پر چونکی.
ارے اماں جان.یہ مدد کر رہے تھے. ایسا ویسا کچھ نہیں. یہ بہت نیک اور سلجھے ہوئے انسان ہیں۔
خاتون نے اپنی بیٹی کو دیکھا اور پھر ولید کو۔اور پھر ولید کو کی گردن چھوڑی۔
اوہ معاف کرنابیٹا آج کل کے حالات ہی ایسے ہیں کہ انسان کو پتا ہی نہیں چلتا ۔
اٹس اوکے.اب میں چلتا ہوں مجھے کہیں پہنچننا ہے ۔
ارے ایسے کیسے جا سکتے ہو تم ہمارے گھر کی دروازے سے کوئی مہمان خالی منہ لوٹے یہ ممکن نہیں۔خاتون نے ایک مرتبہ پھر ولید کی گردن دپوچ لی۔
ولید کو اپنی خیریت اسی میں نظر میں آئی کہ وہ ان کی بات لے اس لئے چار و ناچار بائیک سے اترا آیا۔
یہاں سے تو وہ بچ جاتا پر ماہ جبین کے ہاتھوں اسے کون بچائے گا یہ سوچ سوچ کر اس کا دل گھبرائے جا رہا تھا۔
****************
سرحد سے ملعقہ علاقے میں ایک عالی شان حویلی اپنی پوری شان و شوکت سے کھڑی تھی ۔
دیواروں پر کیمرے اور گن برادر لوگ پہرہ دے رہے تھے اور گیٹ کی طرف آنے والی سڑک کی دونوں جانب چیک پوسٹ میں سادہ وردی میں ملبوس لوگ چوکنے کھڑے تھے۔
یہ چوہدری سخاوت کی جاگیر تھی۔
نام کے برعکس چوہدری سخاوت غصے کا تیز اور ایک جابر انسان تھا ۔
اس وقت وہ شدید غصے میں ٹہل رہا تھا جب دروازہ کھول کر رامو اندر داخل ہوا۔
بڑی بڑی پونچھوں والا رامو ایک پیشہ ور قاتل تھا جس نے چوہدری کے کہنے پر کہی لوگوں کو ابدی نیند سلایا تھا ۔رامو چوہدری کا خاص الخاص بندہ تھا جو اس کے تمام غیر قانونی دھندوں کی نگرانی کرتا تھا
کیا خبر ھے۔۔۔؟چوہدری نے اسے گھورتے ہوئے سوال پوچھا ۔
سائیں خبر ملی ھے کہ وہ لڑکی شہر کی ہے اور چھوٹی بی بی کے ساتھ ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھتی تھی۔چھوٹی بی بی نے جھوٹ بولا تھا کہ وہ کراچی کی ھے ۔
ہمارے آدمی اس کے شہر کی طرف روانہ ہوچکے ہیں کچھ دن تک ہم اسے ڈھونڈ لیں گے۔رامو نے سر جھکاتے ہوئے مؤدبانہ انداز میں کہا تو چوہدری پھنکارہ ۔
تم جانتے ہو کہ اگر وہ لڑکی نہ ملی تو کیا ہوگا۔۔؟جن لوگوں کی غفلت سے یہ سب ہوا ان میں سے کوئی ایک بھی زندہ نہیں بچے گا۔تمہارے پاس دو دن کا وقت کا۔
جی سائیں۔ رامو نے سر جھکاتے ہوئے کہا اور پھر چوہدری کے اشارے پر کمرے سے نکلتا چلا گیا۔
چوہدری کچھ دیر کمرے میں ٹہلتا رہا پھر ایک طرف بنے دروازے کی طرف بڑھ گیا ۔
دوسری طرف ایک چھوٹا سا کمرہ تھا ایک میز پر کچھ فائلیں پڑیں تھیں، اور ایک ریلوانگ چئیر میز کے پیچھے جس پر وہ بیٹھ چکا تھا۔
اچانک ہی دراز سے بیپ کی آواز سنائی دی تو وہ چونکا ۔
اس وقت کال۔وہ بڑ بڑایا اور دراز کھولا ۔
جہاں ایک سیٹ لائیٹ فون موجود تھا ۔
ہیلو چوہدری بات کر رہا ہوں ۔فون کان سے لگاتے ہوئے چوہدری نے نرم لہجے میں کہا۔
وکرم بات کر رہا ہوں، تم اپنے معاملات ٹھیک طرح سے ہینڈل نہیں کر پارہے ہو ۔
میں سمجھا نہیں۔چوہدری چونکا ۔
ہم تمہاری طرف سے غافل نہیں ہیں ،اتنا اہم معاملہ تم نے ہم سے چھپایا دوبارہ ایسی غلطی مت کرنا ورنہ۔وکرم کا لہجہ سرد تھا چوہدری کے ماتھے پر پسینہ آیا.
ایسا نہیں، میں دو دن میں یہ معاملہ نپٹا لوں گا آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔
ہمارے دو آدمی آج شام تک تمہاری حویلی پہنچ جائیں گے وہ خود یہ معاملہ دیکھ لیں گے۔وہ لڑکی اگر کسی ادارے کے ہاتھ لگی تو تم سمجھ سکتے ہو کیا ہوگا ۔اس لئے ہم جن کو بھیج رہے ان کو دیکھنے دینا سب۔
اوکے۔
دوسری طرف سے کال بند کر لی گئی تھی۔
چوہدری نے موبائل دوبارہ دراز میں رکھ لیا ۔اس کے چہرے پر فکر کے اثار پھیل رہے تھے.
****************
جل تو جلال تُو، آئی بلا کو ٹال تُو.کا ورد کرتے ہوئے ولید نے فلیٹ کی گھنٹی بجائی۔
کچھ دیر میں اندر قدموں کی آواز دروازے کی طرف بڑتی ہوئی محسوس کر کے ولید سنبھل گیا۔
دروازہ کھلا اور ماہ جبین کا غصے برا چہرہ دکھائی دیا۔
آہاں چشم بدور لگتا ھے میرا ہی انتظار ہو رہا تھا ۔ولید چہکا.
ماہ جبین نے کچھ کہے بنا اسے اندر آنے کا راستہ دیا۔اور پھر دروازہ بند کر کے اس کی برف مڑی۔
کھانا لے آیا ہوں ایسے گھور کر کیوں دیکھ رہی جیسے مجھے کچا چبانے کا دل کر رہا ہے تمہارا۔ولید نے منہ بنایا۔
کہاں مر گئے تھے تم ہاں؟وہ سخت غصے میں تھی۔۔
وہ راستے میں ایک لڑکی نے مجھ سے مدد مانگ لی تھی اس لئے دیر ہوگئی۔
لڑکی یا سویٹ ہارٹ۔۔۔؟وہ طنزیہ لہجے میں بولی۔
خیر ابھی تک تو لڑکی ہی ھے مستقبل قریب میں شاید پرموشن دیکر اسے سویٹ ہارٹ کر لوں۔
ولید نے دانت نکالتے ہوئے کہا تو ماہ جبین جو پلیٹ ٹیبل پر رکھنے لگی تھی وہی کھینچ کر ولید پر ماری لیکن وہ چوکنا تھا اس لئے نشانہ خطا گیا۔
ارے ارے اتنا غصہ کیوں کرتی ہو جان من دیر سویر ہو ہی جاتی ہے نا۔
جان من۔۔۔؟ماہ جبین نے غصے سے دوسری پلیٹ اٹھائی ۔
اچھا تمہیں جان من پسند نہیں تو سویٹ ہارٹ بھی کہہ سکتا ہوں میں تمہیں۔
ولید نے آنکھ ماری۔
ٹھرکی نہ ہو تو. خبرادر جو مجھے ایسے الفاظ سے مخاطب کیا ورنہ سر توڑ دوں گا تمہارا ۔میں مشکل میں ہوں اور تم لائن مار رہے مجھ پر منحوس انسان۔
اب کون سی مشکل ھے بھلا؟مشکل تو مجھے ہے اب ساری، ایویں مصیبت گلے پڑ گئی ہے میرے ۔ولید نے منہ بنایا ۔
میں مصیبت ہوں ۔ماہ جبین نے ہونٹ بھینچے ۔
ہاں! تمہیں کوئی شک ھے۔۔۔؟
نہین شک نہیں تو ہے پر کنفرم کرنا چاہتی تھی۔وہ یک دم ہی مسکرائی تھی ۔
پر مجھے افسوس ہے کہ ۔۔۔ولید نے سر کجھاتے ہوئے جملہ ادھورا چھوڑا۔
کہ۔۔۔؟وہ چونکی۔
کہ یہ مصیبت پریکٹیکلی میرے گلے کب لگے گی۔۔مطلب گلے کب پڑے گی۔
ولید نے بات کرتے ہی غوطہ لگایا تھا۔کیوں کے ماہ جبین نے دوسری پلیٹ اس کی طرف فائر کی تھی ۔
کمینہ انسان۔وہ چلائی۔
تعریف کے لئے شکریہ جانم۔ولید شوخی سے مسکرایا ۔
ماہ جبین کیا جواب دیتی اسے اتنا تو سمجھ آگیا تھا یہ بندہ سدھر نہیں سکتا ۔
سنو مجھے کچھ کپڑوں کی ضرورت ھے یہ میلے ہو چکے ہیں لا دو گے مجھے؟بریانی کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے اچانک ہی اسے خیال آیا تو وہ ولید کو دیکھتے ہوئے بولی ۔
ولید نے اس کی طرف دیکھا اور پھر دانت نکالے۔
گندے زہن کے آدمی دانت مت نکالو۔وہ پھر تپی تھی ۔
ولید نے قہقہ لگایا۔۔
کتنی پر اعتماد ہو تم اپنے بارے میں کہ تمہیں دیکھ کر گندے خیال ہی آسکتے ہیں ۔
اپنے بارے میں نہیں تم جیسے گندے زہن کے ْآدمی کے بارے میں۔مای جبین نے اسے گھورا۔
نہیں مجھے ایسا ویسا خیال کچھ نہیں آیا ہے بس میں سوچ رہا تھا کہ۔
ماہ جبین نے تیسری پلیٹ ہاتھ میں لی۔
ارے ارے۔۔ٹھیک ھے میں لیکر آؤں گا. کلر اور رنگ بتا دو اور برا نہ مانو تو سائز بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کپڑوں اور جوتوں کا۔بات ٹوک کر دوبارہ جوڑتے ہوئے ولید نے آنکھیں پٹپٹائیں تھیں.
بے ہودہ انسان.کل میں خود ہی تمہارے ساتھ بازار جاؤں گی اور خود ہی لے لوں کپڑے اور جوتے ۔
ولید نے سر ہلایا اور کچھ کہنے کے منہ کھولا ہی تھا ماہ۔جبین کے گھورنے پر دوبارہ بند کر لیا اور خاموشی سے اسے دیکھنے لگا۔
****************
جاری ہے


CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING



Comments