Sans abhi baqi hai novel by Rabia Ikram Episode 9

Free dpwnload Sans abhi baqi hai novel by Rabia Ikram Episode 4 pdf


"سانس ابھی باقی ہے"
از "رابعہ اکرام"
قسط 9
آپی آپ اتنی سخت کیسے ہو گئی ہیں؟؟؟؟ طارم کے دل میں بہت دنوں سے سوال تھا آج اس نے کر ہی لیا تھا
یہ دنیا ہے نا۔۔۔یہ کر دیتی ہے انسان کو سخت۔۔۔۔یہاں خود کو بدلنا پڑتا ہے کوئی کسی کے لیے نہیں بدلتا اور نہ ہی یہ دنیا بدلتی ہے بس خود بخود بدلتا ہے تو وہ ہے وقت جو کبھی ایک سا نہیں رہتا کبھی اچھا بن کر انسان کو آسمان پر پہنچا دیتا ہے تو کبھی برا بن کر اسے جینا سیکھا دیتا ہے۔۔۔۔مروہ اپنے خیالات میں مگن بولے جا رہی تھی
آپی ۔۔آپ واپس نہیں جائیں گی عمام بھائی کے پاس۔۔۔ان سب کے پاس۔۔۔
مجھے اب کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی میرے ساتھ ہے یا نہیں میں نے خود کے لیے جینا ہے اور مجھے اس کام کے لیے کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔وہ خوش ہے اور ویسے بھی تمہیں کیوں لگتا ہے کہ وہ ایک بد کردار لڑکی کو واپس اپنی زندگی میں شامل کرے گا۔۔۔۔
پتہ نہیں ۔۔۔لیکن اس دنیا میں اکیلے بھی تو جیا نہیں جاتا ۔۔۔کسی نہ کسی موڑ پر انسان کو کسی نہ کسی کی ضرورت تو پڑتی ہے ۔۔۔اور عمام بھائی نے ہمارا اس وقت ساتھ دیا تھا جب اس دنیا کے کچھ درندے نما انسان ہمارے پیچھے پڑے تھے اور آگے کوئی راستہ نہ تھا مگر عمام بھائی نے ہمیں راستہ دکھایا ۔۔۔دوبارہ زندگی کی طرف لائے ۔۔۔۔آپ بھول کیسے گئی ہیں ؟؟؟؟کہ وہ انسان ہمارے کس کس وقت میں ہمارے کام آیا ہے۔
بلکل میں کبھی بھول بھی نہیں سکتی اور میں وہ بھی نہیں بھول سکتی جو کچھ کہہ کر اس نے مجھے بد کردار کیا تھا۔۔۔۔ایک عورت سب کچھ برداشت کر سکتی ہے مگر اپنے کردار پر کوئی الزام کوئی بات وہ ہر گز برداشت نہیں کرتی۔۔۔۔طارم خاموش تھی اس میں مزید کچھ کہنے کی ہمت نا تھی
                        --------------
امی۔۔۔اب آپ کو اسمائیل کی شادی کے بارے میں  سوچنا چاہیے کب تک اکیلی رہیں گی آپ۔۔۔۔
فاطمہ اب میرے بس کی بات تو نہیں رشتے ڈھونڈنا تم ہی نظر مارو کہیں ۔۔۔
چلیں میں دیکھتی ہوں اگر کوئی اچھا رشتہ ملتا ہے تو منگنی کر دیتے ہیں ابھی بعد میں شادی کر دیں گے۔۔۔ویسے ہے کہاں اسمائیل ؟؟؟؟
ہو گا اپنے کمرے میں اور کہاں جانا ہے اس نے۔۔۔
میں آتی ہوں زرا۔۔۔آپ آرام کریں ۔۔۔وہ اٹھی تھی اور کمرے سے نکل گئی تھی
اوئے ۔۔۔۔تم کیا کر رہے ہو؟؟؟؟؟فاطمہ خاموشی سے کمرے میں داخل ہوئی تھی تو اس نے فوراً اپنا موبائل چھپایا تھا
کچھ نہیں بس ایسے ہی ۔۔۔دیکھ رہا تھا کہ کل یونیورسٹی کون کون جانے والا ہے۔۔۔ اس نے بہانہ لگایا تھا
جھوٹ !!!!! فاطمہ اس کے چہرے پر جھجھک دیکھ چکی تھی وہ جانتی تھی کہ وہ ضرور کچھ چھپا رہا ہے
نہیں آپی میں نے کیوں جھوٹ بولنا ہے۔۔۔اس نے موبائل نکل کر بند کیا تھا
بند کیوں کر دیا؟؟؟؟؟
آپ بیٹھیں چھوڑیں موبائل کو۔۔۔
امی نے تمہاری شادی کی ذمہ داری مجھے سونپ دی ہے ۔۔۔۔اگر تم کسی کو پسند کرتے ہو تو ابھی بتا دو۔۔۔۔فاطمہ سنجیدگی سے بولی تھی
واہ۔۔۔آپ کو یہ کام مل گیا ہے ۔۔۔ویسے اتنی جلدی کیا ہے ؟؟؟؟؟
بس امی کے اکیلے پن کی وجہ سے کہہ رہی ہوں ورنہ ابھی تو سوچتی بھی نہ ۔۔۔۔
میں اپنی پڑھائی مکمل کر کے ہی شادی کروں گا اس سے پہلے آپ اگر کہیں تو وہ نا ممکن ہے۔۔۔۔
اچھا میں سوچ رہی ہوں تلاش اپنے اردگرد سے ہی شروع کروں۔۔۔۔
بلکل ۔۔جیسا آپ کو بہتر لگے۔۔۔
میں ابھی تمہیں پوچھ رہی ہوں اگر کوئی پسند ہے تو بتا دو بعد میں نہ کہنا کہ پوچھا نہیں۔۔۔۔ہ جانتی تھی اسمائیل کچھ تو چھپا رہا تھا
آپی۔۔۔۔آپ بھی نہ ۔۔۔کیسی باتیں کرتی ہیں ۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے ۔۔۔مجھے تو لگا تھا کہ تم صفا کو پسند کرتے ہو مگر اب تم کہہ رہے ہو تو ٹھیک ہے میں کوئی اور ڈھونڈ لوں گی۔۔۔۔فاطمہ بولی تھی تو اسمائیل نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تھا
نہیں ایسی بھی کوئی بات نہیں۔۔۔ اگر آپ کو صفا پسند ہے تو ٹھیک ہے مجھے کوئی مسلہ نہیں ۔۔۔اس کی بات پہ وہ دونوں کھلکھلا کر ہنسے تھے
دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔۔۔۔
                       ---------------
زین میرا کام ہو گیا کیا؟؟؟؟؟عمام کو بے چینی ہو رہی تھی
ہاں نمبر تو مل گیا ہے وہ کسی دوسرے ملک کا ہے۔۔۔
کوئی بات نہیں تم مجھے بھیج دو جلدی۔۔۔۔عمام نے دیر کیے بغیر فون بند کیا تھا کچھ ہی لمہوں میں نمبر اس کی سکرین پر اُبھرا تھا اس نے انتظار کیے بغیر نمبر ملایا تھا اسے پورا یقین تھا کہ وہ ذنیرہ کا ہی نمبر تھا
اسلام علیکم۔۔۔۔۔دوسری طرف کوئی مردانہ آواز ابھری تھی
وعلیکم سلام!!!!
جی کون ؟؟؟؟؟
ذنیرہ سے بات ہو سکتی ہے۔۔۔
آپ کون؟؟؟؟
میں عمام بات کر رہا ہوں پاکستان سے۔۔۔۔
اوہ۔۔۔اچھا ۔۔ذنیرہ ۔۔۔ذنیرہ وہ اسے آوازیں دے رہا تھا دوسری طرف اب کسی لڑکی کی آواز ابھری تھی اور وہ یقیناً ذنیرہ ہی تھی
یہ ذنیرہ  عمام صاحب کا فون ہے پاکستان سے۔۔۔۔
صاحب ہمیں معاف کر دیں ہم لوگوں نے جھوٹ بولا تھا ۔۔۔وہ فون پکڑتے ہی جیسے فریاد کرنے لگی تھی
آرام سے بتائیں۔۔۔۔عمام اس کی ہڑبڑائی ہوئی آواز سن کر بولا تھا
میرا بیٹا بہت بیمار ہے تو مجھے اس کے علاج کے لیے پیسے چاہیے تھے ۔۔۔میں نے دفتر میں بات کی تو میرے باس نے کہا کہ آپ سے جھوٹ بولوں کی مروہ کا کسی اور کے ساتھ چکر تھا اور وہ بھاگنے والی ہے تا کہ آپ اسے طلاق دے دیں اور وہ مروہ سے شادی کر لے۔۔۔۔۔ہم مجبور تھے صاحب۔۔۔۔ہم یہاں تو آ گئے ہیں اس کے علاج کے لیے مگر ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوا اور نہ ہی سکون ملا ہے ۔۔۔۔
عمام کو جس بات کا شک تھا وہ ہی ہوا تھا مروہ سچی تھی مگر اس نے ایک نہ سنی بس اپنی ہی سناتا رہا تھا
آپ کی وجہ سے ایک گھر اجرنے والا تھا آپ جانتی ہیں ۔۔۔کس اذیت سے گزری ہیں ہم۔۔۔۔نہیں آپ کو اندازہ ہو بھی نہیں سکتا کبھی خود کو اس کی جگہ رکھ کر دیکھا ہوتا ۔۔۔۔
صاحب معاف کر دیں ہمیں ۔۔۔۔اگر آپ معاف نہیں کریں گے تو ہم سکون سے نہیں رہ پائیں گے۔۔۔۔ہم جانتے ہیں اس وقت ہم نے کسی کا نہیں سوچا ۔۔۔
عمام نے جھٹکے سے فون بند کیا تھا اور  فوراً کمرے سے نکلا تھا
                       ---------------
تو میری جان ہے
تو مجھ سے دور ہے لیکن
تجھ میں میری ہر پناہ ہے
تو مجھ کو چھوڑ گیا یوں
جیسے ملا ہو نہ کبھی
تجھے میں یاد ہوں
یا بھول گئی ہوں میں
مگر میری تو سانسوں میں
آج بھی تو چلتا ہے
تو بے جان و بے خبر ہے
میں کتنا تڑپتی ہوں
تو نہیں جانتا
تو میری جان ہے۔۔
بے شک تو بے جان ہے
مگر پھر بھی تو میری جان ہے
تو میری جان ہے۔۔۔
اس کے چہرے پر آنسو پھسل رہے تھے اور پھسل کر اس ڈائری کے صفحے جن پر وہ لکھ رہی تھی بھیگتے چلے جا رہے تھے مگر اب اس کے رونے میں وہ شدت نہ تھی باقی تھی تو بے بسی۔۔۔۔۔وہ پین کو بند کر کے ڈائری کے ساتھ رکھ رہی تھی اس کے ہاتھ میں عمیر کی شرٹ تھی جسے وہ سونگ رہی تھی
کیوں تم نے اپنی ماں کو تنہا چھوڑ دیا ہےاس ظالم دنیا کے آگے۔۔۔۔زرمیل کی طرح بے وفائی کی ہے تم نے بھی میرے ساتھ ۔۔۔۔تم تو میرا ساتھ دیتے ۔۔۔۔یاد تو وہ اسے ہمیشہ رہتا تھا مگروہ آج بہت عرصے بعداتنی بے بس ہوئی تھی تنہائی اسے کاٹ کھانے کو دوڑتی تھی طارم بھی اپنی پڑھائی میں مصرروف رہتی تھی اس کے فائنل اگزیمز ہونے والے تھے
                         -------------
طارم!!! کیا کہتی ہو؟؟؟؟؟ پھر کیا جواب دوں میں آنٹی کو۔۔۔۔
مجھے کیا پوچھ رہی ہیں آپی ؟؟؟؟ مجھے ابھی شادی نہیں کرنی ۔۔۔۔۔آگے آپ کی مرضی ۔۔۔۔
اچھا ۔۔۔اتنی جلدی تو تمہاری شادی میں خود بھی نہیں کرنا چاہتی اتنی جلدی تمہارے سر پر اتنی بڑی ذمہ داری نہیں ڈالوں گی میں۔۔۔۔میں جانتی ہوں کہ زندگی کیا ہو جاتی ہے اس سب کے بعد اور میں اپنے جیسی ایک اور مروہ پیدا نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔
شکریہ آپی ۔۔۔۔آپ نے میرے لیے اتنا سوچا۔۔۔
طارم!!! اب یہ نوبت آ گئی ہے کہ تم مجھے شکریہ کہو گی ۔۔۔اپنی بہن کو بھی تم شکریہ کہو گی ۔۔۔۔آئندہ یہ الفاظ نہ میرے سامنے کہنا تم۔۔۔ورنہ میں تمہیں چھوڑوں گی نہیں ۔۔۔۔
یہی تو میں چاہتی ہوں۔۔۔۔کہ آپ مجھے کبھی نہ چھوڑیں ۔۔۔۔آپ نے میرے لیے عمام بھائی سے  شادی کر لی ہر چیز فیس کی میری وجہ سے ۔۔۔۔
چلو اب زیادہ نہ بنو تم ۔۔۔۔پیپرز کی تیاری اچھی سی کرو تا کہ تمہیں یونیورسٹی میں ایڈمیشن آسانی سے مل جائے ۔۔۔۔
جی انشااللہ۔۔۔بس آپ دعا کرتی رہا کریں۔۔۔۔ 
بے شک ۔۔وہ تو میں کرتی رہوں گی۔۔۔۔چلو اٹھو اور کھانا کھاؤ مجھے ایک کام ہے میں کچھ دیر میں آتی ہوں۔۔۔۔وہ اٹھ کر کمرے میں گئی تھی اور چادر کے ساتھ ساتھ بیگے کر باہر نکلی تھی
دروازہ بند کر لو۔۔۔۔
جی۔۔۔طارم اس ک پیچھے پیچھے دروازے تک آئی تھی اور دروازے کو بند کیا تھا
                       --------------
آپ ایف آئی آر لکھیں میں آپ کو پروف دوں گی بہت جلد۔۔۔۔وہ پولیس سٹیشن میں کھڑی تھی اس تپتی دوپہر میں وہاں چہل پہل نہ ہونے کے برابر تھی
میڈم!!! آپ بیٹھیں میں لکھتا ہوں مگر آپ کو پروف پکا والا دینا ہو گا اس کےبغیر آپ کی ایف آئی آر کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔۔مروہ سمجھ گئی تھی کہ اب اسے کس چیز کی ضرورت ہے
آپ کو سب مل جائے گا ابھی پروف بھی اور وقت بھی مگر اس شخص کو سزا ضرور ملنی چاہیے ۔۔۔۔اگر آپ لوگوں نے ایکشن نہ لیا تو پھر میں خود ہی دیکھ لوں گی آپ سب کو۔۔۔۔اس کے لہجے میں سختی تھی وہ جیسے اسے دھمکی دے رہی تھی
وہ رپورٹ درج کروا کر نکلی تھی اور وہاں سے اس نے قبرستان کی راہ لی تھی ابھی تک وہ قبرستان جاتی تھی  وہاں جا کر اسے سکون سا ملتا تھا کوئی احساس کوئی اپنائیت تھی اس قبرستان میں جو اس کے اندر اٹھتی ہر آہ کو روک دیتا تھا اسے دن بدن اور مضبوط کر رہا تھا
وہ دونوں قبروں کے درمیان بیٹھی تھی اس کی زبان جیسے رک سی گئی تھی وہ بولتی بھی تو کیا بولتی ؟؟؟؟ وہاں کون تھا جو اس کی بات سنتا۔۔۔۔وہ پتھر کی مانند وہاں بیٹھی تھی
زرمیل ۔۔۔عمیر۔۔۔امی ۔۔۔وہ روئے تو کس کس کو روئے کوئی ایک وجہ بھی نہ تھی اس کے پاس رونے کی ۔۔وہ ہاتھ قبر پر رکھے یونہی پتھر سی بیٹھی تھی
                        --------------
آپی ۔۔۔آپ آ گئیں ۔۔۔طارم نے پہلی دستک پر ہی دروازہ کھولا تھا مگر وہ ایسے عجیب سوال تو کبھی نہ کرتی تھی
ہاں میں آ گئی ۔۔۔کیوں نہیں تھا آنا مجھے؟؟؟؟؟وہ اسے وہیں چھوڑتے ہوئے اندر داخل ہوئی تھی
آپی کھانا دوں آپ کو؟؟؟؟؟ طارم نے اسے بڑھتے ہوئے دیکھ کر کہا تھا
نہیں میں خود لے لوں گی تم پڑھو ۔۔۔۔ابی کچھ دیر میں لیٹوں گی سر بہت درد سے پھٹ رہا ہے۔۔۔وہ چادر کو اتار کر ہاتھ میں پکڑ کر کمرے میں گئی تھی اور اس کے قدم وہیں پر جم گئے تھے طارم اسی لیے اسے روک رہی تھی مگر وہ نہ رکی تھی اور اب وہ دروازے کے بیچ میں کھڑی تھی اسے سمجھ نہ آ رہی تھی کہ وہ اندر قدم بڑھائے یا واپس موڑ لے مگر اب واپسی کا راستہ اس نے چننا چھوڑ دیا تھا وہ اب پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں تھی اس نے اپنے قدم بڑھائے تھے اور کمرے میں داخل ہوئی تھی وہ اسے دیکھتے ہی کھڑا ہو چکا تھا
اسلام علیکم!!!!!وہ جھجھکتے ہوئے بولا تھا
کیا کرنے آئے ہیں آپ یہاں؟؟؟؟؟؟ مروہ نے آغاز کیا تھا
اپنی بیوی کو لینے ۔۔۔آیا ہوں ۔۔
کونسی بیوی ؟؟؟؟؟ جسے بدکردار کے ٹائٹل سے نواز کر آپ نے جانے کو کہا تھا ۔کیا کریں گے آپ ایسی بیوی کا ؟؟؟؟؟ مروہ کا لہجہ سرد تھا مگر اونچا ہر گز نہ تھا
مروہ!!!! میں تمہیں لینے آیا ہوں پرانی باتیں چھوڑ دو پیچھے ہی ۔۔۔مجھے بہت بڑی غلط فہمی ہوئی تھی میں بہت پچھتایا ہوں ایک ایک پل میں نے اس وقت کو کوسا ہے جب میں نے اس کی بات کا یقین کیا تھا۔۔۔۔اس کے لہجے میں درد تھا جو شاید مروہ محسوس نہ کرنا چاہ رہی تھی
میں پرانی باتیں تو چھوڑ سکتی ہوں مگر اپنے کردار پر لگے داغ کیسے صاف کروں ؟؟؟؟
میں تم سے معافی مانگتا ہوں ۔۔۔پلیز مجھے معاف کر دو مروہ ۔۔۔۔۔۔
جا سکتے ہیں آپ یہاں سے۔۔۔۔وہ چہرہ موڑتے ہوئے بولی تھی
مروہ بات تو سنو میری ایک دفع۔۔۔۔
کیا سنو میں ؟؟؟؟؟؟ کہنے کو کچھ باقی رہ گیا تھا ۔۔۔۔اور ہاں شکریہ مجھے احساس دلانے کا کہ مرد کبھی وفادار نہیں ہوتے ۔۔۔شکریہ مجھے بتانے کا کہ میں ایک کمزور لڑکی تھی ۔۔۔شکریہ مجھے ہر اس بات کے بتانے کا جو میری کمزوری تھی کیونکہ اگر آپ مجھے اس سب کا احساس نہ دلاتے تو میں آج یہاں تو ہر گز نہ ہوتی ۔۔۔۔میں بھی ان سب کی طرح اپنی زندگی سے بے وفائی کر جاتی ۔۔۔اور بے وفاؤوں میں میں کبھی بھی شامل ہونا پسند نہ کرتی ۔۔۔۔
مروہ میں سب کچھ ٹھیک کر دوں گا تم چلو میرے ساتھ ۔۔۔۔دیکھو کیا حال بنا لیا ہے تم نے اپنا؟؟؟؟؟ اگر تم نہیں مانو گی تو میں کیا کروں گا؟؟؟؟؟ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے مروہ حیران تھی کیونکہ اس نے کبھی کسی مرد کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھے تھے
جا سکتے ہیں آپ؟؟؟؟؟؟ مروہ اپنی بات پر قائم تھی اور اس نے اس سب کے بعد بھی جو عزت کا رشتہ ان دونوں کے درمیان تھا وہ قائم رکھا تھا
مروہ۔۔۔۔
پلیز لیو۔۔۔۔مروہ مڑی تھی اس کی آنکھوں میں آنسو تھے جنہیں وہ چھپا رہی تھی اس کے لہجے کو دیکھتے ہوئے عمام دروازے کی طرف بڑھا تھا
میں دوبارہ آؤں گا۔۔۔۔تم یہ مت سمجھنا کہ میں ہار گیا ہوں ۔۔۔میں پھر آوں گا اور بار بار آؤں گا ۔۔۔وہ باہر نکلا تھا اور دروازے کی زور دار آواز آئی تھی مروہ نے دروازے کو بند کرتے ہی اپنے آنسؤوں کو نکلنے کا راستہ دیا تھا
آپی کھولیں دروازہ۔۔۔طارم پریشانی سے دروازہ بجا رہی تھی
طارم ۔۔مجھے اکیلا چھوڑ دو کچھ وقت کے لیے میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔مروہ نے ادھر سے ہی جواب دیا تھا طارم واپس چلی گئی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ دروازہ نہیں کھولے گی
کیوں آیا تھا واپس وہ؟؟؟؟؟؟ مرد کبھی نہیں بدلتے ۔۔۔۔وہ منہ سے تو بول رہی تھی مگر اس کے آنکھوں میں بار بار وہ آنکھیں آ رہی تھیں جن میں آنسو تھے اور وہ آنسو اس کی سچائی کا عکس تھے مگر مروہ کے دل میں اب ہر شخص کے لیے نفرت بھر چکی تھے اسے مرد ذات سے نفرت تھی جسے اس نے پایا اسی نے اس سے بے وفائی کی تھی کوئی ایک بھی تو نہیں تھا اس کے پاس اس کے ساتھ وفادار۔۔۔
پہلے اس کا باپ ۔۔پھر اس کا شوہر پھر اس کا بیٹا اور پھر جب عمام زندگی میں آیا تو وہ بھی ۔۔سب کے سب اسے چھوڑ کر چلے گئے تھے مگر ایک شخص پلٹا تھا اس کے لیے پلٹا تھا وہ ۔۔۔۔۔
میں واپس نہیں جاؤوں گی ابھی تو حالات بہتر ہوئے تھے اس کی زندگی کے۔۔۔۔ ابھی تو مضبوطی آئی تھی اس میں اب ہی تو وہ اس دنیا کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوئی تھی اب وہ واپس نہیں مڑ سکتی تھی اس کا راستہ اب آگے کو تھا
                       --------------
صاحب جی!!!! کھانا کھا لیں رات ہو گئ ہے ۔۔۔دروازے پر دستک سے اس کی آنکھ کھلی تھی
نہیں مجھے بھوک نہیں ہے تم جاؤ۔۔۔۔میرا سر درد ہو رہا ہے ۔۔۔۔وہ تھکا ہوا معلوم ہوتا تھا
جی ٹھیک !!!! وہ وہیں سے واپس ہو گئ تھی
باجی ۔۔۔وہ عمام صاحب کی طبیت نہیں ٹھیک آپ زرا دیکھ لیں ۔۔۔۔
کیا ہوا اسے ؟؟؟؟ وہ تو کافی دیر کا آیا ہوا ہے گھر ......
جی وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کا سر درد ہو رہا ہے مگر مجھے وہ کچھ پریشان لگے تھے۔۔۔
اچھا میں دیکھتی ہوں ۔۔۔وہ اٹھی تھیں اور اس کے کمرے میں چلی گئی تھیں
عمام!!!!! انہوں نے ہلکے سے دروازہ کھولا تھا کمرے میں ہر طرف اندھیرا تھا انہوں نے آگے بڑھ کر کمرے کو روشن کیا تھا وہ سر پر بازو رکھے لیٹا تھا
عمام!!!! کیا ہوا ہے طبعیت کو؟؟؟؟؟ وہ اس ک سر پر ہاتھ رکھتی ہوئی بیٹھی تھیں
امی ۔۔۔۔۔اس نے سر سے بازو ہٹایا تھا اس کی آنکھوں میں نمی تھی
کیا ہوا عمام؟؟؟؟؟ وہ اسے یوں دیکھ کر پریشان ہوئی تھیں
امی ۔۔۔۔وہ ان کے گلے لگ کر رو دیا تھا ان کی پریشانی مزید بڑھی تھی
عمام میرے بیٹے کچھ تو بولو۔۔۔۔کیا ہوا ہے؟؟؟؟؟
امی میں غلط تھا ۔۔۔میں نے مروہ پر جو سب الزام لگائے تھے وہ غلط تھے ۔۔۔میں غلط تھا امی۔۔۔۔وہ بچوں کی طرح رو رہا تھا
عمام ۔۔۔ابھی دیر نہیں ہوئی تم چلو میرے ساتھ ہم اسے واپس لے آئیں گے ۔۔۔۔وہ اس کے آنسو پونچھتے ہوئے بولی تھیں
نہیں امی وہ نہیں آئے گی ۔۔۔۔وہ بہت بدل گئی ہے امی ۔۔۔۔میں گیا تھا اسے لینے مگر اس نے انکار کر دیا ۔۔۔وہ واپس آئے بھی تو کیوں ؟؟؟؟میں نے ہی تو اسے اتنا بے عزت کر کے نکالا تھا اب اسے حق ہے کہ وہ جو چاہے کرے ۔۔۔۔۔
وہ تمہاری بیوی ہے عمام ۔۔۔اور نکاح کا رشتہ بہت مضبوط ہوتا ہے ۔۔۔ان چند بولوں میں بڑی طاقت ہوتی ہے عمام تم فکر نہ کرو وہ مان جائے گی۔۔۔۔
نہیں مانے گی وہ ۔۔۔۔میں جانتا ہوں وہ نہیں مانے گی۔۔۔
منا لیں گے ہم اسے تم کھانا کھاؤ پھر میڈیسن لینی ہے دیکھو کتنا تیز بخار ہے تمہیں ۔۔۔۔
امی۔۔۔۔مجھے نہیں کھانا ۔۔۔وہ بچوں کی طرح ضد کر رہا تھا اور وہ اسے دیکھ کر پریشانی سے اپنا سر پکڑا تھا
                        --------------
اسلام علیکم !!!!!آنٹی کیسی ہیں آپ ؟؟؟؟
میں ٹھیک ہوں بیٹا  ۔۔۔۔تم سناؤ کیسی ہو؟؟؟؟؟
دیکھ لیں اچھی بھلی ہوں مجھے کیا ہونا ہے۔۔۔۔وہ اسمائیل کو دیکھ کر مڑنے ہی والی تھی کہ آنٹی کی نظر اس پر پڑی تھی جس کی وجہ سے وہ آ گئی تھی
اللہ نہ کرے کچھ ہو تمہیں ۔۔۔۔بیٹھ جاؤ کھڑی کیوں ہو؟؟؟
جی وہ جھجھکتی ہوئی بیٹھ گئی تھی
امی میں جاؤں پھر۔۔۔۔اسمائیل اٹھ کھڑا ہوا تھا
تم کہاں جا رہے ہو چائے تو پی لو۔۔۔۔بیٹھو ابھی ۔۔۔فاطمہ چائے کی ڑرے تھامے لاؤنج میں داخل ہوئی تھی
آپی جانے دیں چائے پھر کسی دن پی لوں گا۔۔۔۔کیوں مجھے مروانا ہے آپ نے ۔۔۔۔اس نے سرگوشی کی تھی
نہیں ۔۔۔اب بنی ہوئی ہے تو پی کر ہی جانا فاطمہ نے اسے بازو سے پکڑ کر بٹھایا تھا اور خود بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئی تھی
صفا میں آج تم لوگوں کی طرف آؤں گی ۔۔۔۔وہ ابھی بولی ہی تھیں کہ اسمائیل کی دھڑکن نے سپیڈ پکڑ لی تھی
دیکھ لیں آپی۔۔۔۔مجھے تو لگتا اماں نے یہیں نکاح پڑھوا دینا۔۔۔۔فاطمہ ہنسی تھی تو سب نے اسے دیکھا تھا
مروہ اور عمام کی شادی پر بھی نہیں آ سکی میں تو سوچا کہ اب ہوتی جاؤں ۔۔۔۔اسی بہانے مروہ سے بھی مل لوں گی فاطمہ بڑی تعریفیں کرتی ہے .
جی آنٹی ضرور آئیں ۔۔۔مگر مروہ بھابھی تو گھر نہیں ہیں وہ زرا آج کل اپنے میکے گئی ہوئی ہیں۔۔
چلو اس سے پھر ملاقات ہو جائے گی ۔۔۔کب تک آئے گی وہ ؟؟؟؟؟
ایک دو دن میں آ جائے گی۔۔۔۔وہ بھرپور کوشش کر رہی تھی کہ وہ اسے نظر نہ آئے مگر یہ کیسے ممکن تھا وہ سامنے ہی تو بیٹھا تھا
                       --------------
طارم!!!!!!اس نے آواز دی تھی وہ کالج سے نکلتے ہی تیزی سے چل دی تھی اس کی آواز پر مڑی تھی
آ جاؤ میں چھوڑ دیتا ہوں۔۔۔۔
میں چلی جاؤوں گی آپی میرا انتظار کر رہی ہوں گی وہ کہہ کر دوبارہ پلٹی تھی
بات کرنی تھی تم سے۔۔۔۔۔آ جاؤ میں نے بھابھی کو بتا دیا تھا کہ تم میرے ساتھ آؤ گی ۔اس نے جیسے فرار کے سارے رستے ختم کیے تھے وہ اب خاموشی سے اس کی گاڑی میں بیٹھ چکی تھی
ہم گھر نہیں جا رہے ؟؟؟؟؟؟وہ راستہ بدلتے دیکھ کر بولی تھی
چائے پی کر چلتے ہیں ۔۔۔آرام سے بات بھی کر لیں گے۔۔
مجھے کوئی بات نہیں کرنی تمہیں پتہ نہیں کونسی باتیں رہ رہ کہ یاد آتی ہیں۔۔۔۔
مجھے تو بھولتی ہی نہیں تو یاد کیسے آئیں گی۔۔۔۔طارم اس کی بات سن کر خاموش ہوئی تھی دس منٹ کے راستے میں باقی ساری خاموشی تھی یا کھڑکی کے باہر نظریں
عصام نے گاڑی سے نکل کر اس کی طرف کا دروازہ کھولا تھا
شکریہ!!!!!!
طارم۔۔۔۔چائے آنے کے بعد وہ بولا تھا اس کے لہجے میں ڈر تھا
ہاں بولو۔۔۔۔
صفا بتا رہی تھی کہ تمہارے لیے کوئی رشتہ آیا تھا۔۔۔۔
صفا کے پیٹ میں ہضم نہیں ہوئی یہ بات ۔۔۔۔ہاں آیا تھا اور بلکہ ابھی بھی پینڈنگ ہے
اچھا تو تم انکار کر دو۔۔۔۔وہ بےدھڑک بولا تھا
ارے بھائی کیوں؟؟؟؟؟
یہ بھائی مت کہو مجھے ۔۔۔۔
کیوں نہ کہوں میں تمہیں بھائی تم نے اتنا خیال رکھا ہمارا ۔۔۔ہمیں تو کبھی محسوس ہی نہیں ہوا کہ ہمارا کوئی بھائی نہیں ہے ۔۔۔۔طارم نے ہنسی دبائی تھی
یار بس کرو اب یہ بھائی بھائی کھیلنا۔۔۔۔
اچھا تو تم بتانے والے تھے کہ میں انکار کیوں کر دوں ۔۔۔۔وہ یاد کرتے ہوئے بولی تھی
اس لیے کیوں کہ تم مجھ سے شادی کرو گی۔۔۔۔اس نے مشکل سے ہی مگر بول دیا تھا اب وہ اس کے ری ایکشن کا منتظر تھا
یہ تم سے کس نے کہا کہ میں تم سے شادی کروں گی ؟؟؟؟؟؟
کسی نے نہیں کہا ۔میں خود کہہ رہا ہوں کہ تم مجھ سے شادی کرو گی
واہ کیا کانفیڈینس ہے تمہارا عصام مگر مجھے ایسے مزاق ہر گز پسند نہیں ۔۔۔
تمہیں ابھی بھی مزاق لگ رہا ہے میں نے اپنی آدھی جان لگا دی ہے اتنی سی بات کرنے میں اور تم مزاق سمجھ رہی ہو ۔۔۔۔وہ سر پکڑ کر بولا تھا
ہاں میں مزاق ہی سمجھ رہی ہوں ۔۔۔کیونکہ یہ حق میرے پاس نہیں ہے کہ میں فیصلہ کروں کہ میں کیا کروں گی ۔۔۔۔میری آپی کی جو مرضی ہو گی ہو گا وہ ہی ۔۔۔۔پلیز مجھے آئندہ لینے مت آنا۔۔
طارم تمہاری زندگی ہے تمہیں فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔۔۔
یہ میری زندگی ہے۔۔۔۔اور اسے زندگی کس نے بنایا ہے۔۔۔۔میری زندگی کو زندگی بنانے کے لیے میری اس بے رنگ زندگی میں رنگ بھرنے کے لیے میری آپی نے اپنی زندگی کے سارے رنگ ختم کر دیے ۔۔۔کیوں ؟؟؟؟؟کوئی فائدہ تھا انہیں ۔۔۔نہیں تھا کوئی مفاد ان کا عمام بھائی سے شادی کرنے میں۔۔۔مگر انہوں نے یہ بھی نہ سمجھا۔۔۔۔تم ابھی بھی کہتے ہو کہ مجھے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق ہے۔۔۔ اس کا صاف ستھرا چہرہ اب آنسوؤوں سے دھل رہا تھا
سوچنا ضرور۔۔۔۔۔اور اگر یہ حق بھابھی کے پاس ہے تو میں ان کے پاس جاؤں گا۔۔۔۔
تمہیں کیا لگتا ہے وہ عمام بھائی کے پاس دوبارہ جائیں گی۔۔۔۔وہ سب رشتے ختم ہوتے جا رہے ہیں اور تم چاہتے ہو میں ان تم سے رشتہ جوڑ لوں۔۔۔تا کہ آپی کو ہمیشہ اذیت ملتی رہے۔۔۔۔
طارم رؤو مت ۔۔۔پلیز چپ ہوجاؤ۔سب دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔اس نے جھوٹ بولا تھا کیونکہ کیفے میں اتنا شور تھا کہ کوئی دوسرے کو بلانے میں دشواری ہو رہی تھی
اگر چاہتے ہو کہ ہم دوست رہیں تو پلیز یہ بات دوبارہ مت کرنا۔۔۔۔بلکہ مجھے ملنے کی بھی ضرورت نہیں ۔۔۔اس نے اپنی آنکھیں ٹشو سے صاف کرلی تھیں وہ اٹھی تھی اور باہر کو نکل گئی تھی
طارم چلو۔۔عصام نے گاڑی کا دروازہ کھول کر کہا تھا
تم نے آپی کو نہ بتایا ہوتا تو میں کبھی بھی تمہارے ساتھ نہ بیٹھتی۔۔۔۔
چلو شکر ہے کسی کی تو پرواہ ہے تمہیں۔۔۔۔
اس کی آواز پر طارم نے اسے گھورا تھا
                        -------------
آپی۔۔۔وہ دروازہ کھول کر اندر تو آگئی تھی مگر اندر گھر میں کوئی بھی نہ تھا وہ مروہ کے کمرے کی طرف ہوئی تھی اس کی چیزیں وہیں پڑی تھیں اس کا بیگ اور چادر وہیں تھی اور وہ چادر کے بغیر کہیں جاتی بھی نہ تھی اس کا فون بھی یہیں تھا
وہ کمرے سے نکل کر کچن میں آئی تھی وہاں بھی سب کچھ ویسا ہی تھا جیسے وہ دونوں صبح چھوڑ کر گئی تھیں وہ ابھی کچن کے دروازے میں تھی کہ مروہ کے فون پر بیل ہوئی تھی
کس کا فون آ گیا ہے؟؟؟؟؟ وہ کمرے میں بھاگی تھی اسے وہ سب بھول چکا تھا جو کچھ وہ کیفے میں کہہ کر آ رہی تھی
عمام سکرین پر لکھا ابھرا تھا اس نے فوراً فون اٹھایا تھا
جی عمام بھائی میں طارم ہی ہوں۔۔۔۔آپی گھر پر نہیں ہیں وہ کل تھانے میں رپورٹ لکھوا کر آئیں تھی اور آج جب میں گھر آئی ہوں تو وہ گھر پر نہیں ہیں جبکہ ان کی تمام چیزیں یہیں ہیں۔۔۔۔
کیا کہہ رہی ہو طارم؟؟؟؟؟؟کہیں اور بھی تو جا سکتی ہے نہ وہ۔۔۔۔
جی لیکن کہاں ؟؟؟؟؟؟؟آپ فون بند کریں میں کسی اردگرد والے سے پوچھتی ہوں ۔۔۔۔
وہ فون کو ہاتھ میں پکڑے ہی باہر نکلی تھی باہر ایک دکان والے کے علاوہ لوگ نہ ہونے کے برابر تھے تو وہ سیدھا اس دکان پر ہی گئی تھی
آپ نے مروہ آپی کو دیکھا ہو کہیں آتے جاتے۔۔۔۔وہ اس دکان والے کو بچپن سے جاتی تھی
وہ ۔۔۔۔کام سے آئی تھیں تو ایک صاحب گاڑی میں آئے تھے اور وہ انہیں زبردستی گاڑی میں بٹھا رہے تھے مجھے لگا آج کل ان کی اپنے شوہر سے کچھ اچھی نہیں چل رہی تو ہو سکتا ہے وہ ہی ہو۔۔۔۔
یا میرے خدایا ۔۔۔۔یہ کیا نئی آزمائش ڈال دی ہے تو نے۔۔۔۔وہ سر پکڑ کر رہ گئی تھی اس نے ایک دم سے عمام کا نمبر ملایا تھا
عمام بھائی آپی کو وہ ہی لے کر گیا ہے۔۔۔۔میں کیا کروں ؟؟؟؟؟؟؟وہ پریشانی سے بولی تھی
تم گھر جاؤ ۔۔۔۔۔میں عصام کو بھیجتا ہوں تم اس کے ساتھ گھر چلی جانا اکیلے رہنا ٹھیک نہیں اور تم فکر نہ کرو میں دیکھتا ہوں اسے ۔۔۔۔۔اس نے بات مکمل کر کے فون کاٹا تھا
 یا میرے مالک آپی کو اپنے خفظ و امان میں رکھنا۔۔۔۔۔وہ درندہ بہت خطر ناک ہے اس سے بچا لینا یا رب۔۔۔۔میں تجھ سے اور کچھ نہیں مانگتی میرے مولا تو بس میری یہ فریاد سن لے۔۔۔۔۔۔وہ صحن میں بیٹھی آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے فریاد کر رہی تھی اسے اپنے رب پر پورا یقین تھا اس کے سوا کون تھا جو اس کی مدد کر سکتا تھا وہ رب تو سب بہتر جانتا ہے اور وہ ہی بہترین کرنے والا ہے
تو تو جانتا ہے نہ میرے رب کہ ہم کیا ہیں ۔۔۔میں تیرے سوا کہاں جاؤوں ؟؟؟؟؟؟؟ تجھے تیرے حبیب کا واسطہ تو میری فریاد سن لے ۔۔۔۔وہ مسلسل دعا کر رہی تھی اور وہ جانتی تھی کہ وہ ضرور اس کی فریاد سنے گا
***************
جاری ہے


CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING




Comments