"سانس ابھی باقی ہے"
از "رابعہ اکرام"
آخری قسط
"چھوڑو مجھے ۔۔۔۔اپنے گندے ہاتھ دور رکھو
مجھ سے تم۔۔۔"وہ چیخ رہی تھی مگر اس نے اس کا بازو نہ چھوڑا تھا۔
"تمہارا بازو چھوڑنے کے لیے تو نہیں پکڑا
میں نے۔؎۔اور کیوں چھوڑوں میں تمہیں۔۔ اتنی مشکل سے تو ہاتھ آئی ہو۔۔۔۔مجھے جیل میں
ڈلوانے چلی تھی ۔۔ہونہہ"
"مجھے چھوڑ دو۔۔۔"وہ چیخی تھی ۔
"چیخ لو جتنا چیخنا ہے یہاں کوئی نہیں آئے
گا تمہیں بچانے۔ اور ویسے بھی تمہارے پیچھے آئے گا بھی کون؟؟؟؟ تمہارا شوہر جو تمہیں
چھوڑ چکا ہے یا پہلا شوہر جو مر چکا ہے۔۔ ہا ہا ہا ۔۔۔کوئی نہیں آئے گا۔۔۔۔"وہ
قہقہے بھر بھر کر ہنس رہا تھا جیسے اس نے مروہ کو شکست دے دی ہو۔
اس نے مروہ کو زمین پر پٹخا تھا ۔
"آہ۔ہ۔۔۔"
وہ اسے پٹخ کر باہر نکلا تھا اور کسی سے فون پر بات کر رہا
تھا، مروہ نے اردگرد نظر دوڑائی تھی وہ جانتی تھی یہ جگہ شہر میں داخل ہونے والے راستے
کے قریب ہے مگر وہ اس کا کیا کرے، وہاں کچھ بھی تو نہ تھا جس سے وہ مدد مانگتی یا کچھ
کر پاتی۔۔۔
اس کا سانس بند ہو رہا تھا، وہاں گھٹن تھی سردی کے باوجود
وہاں سانس بند ہو رہا تھا ہوا کے کراس ہونے کے لیے کوئی راستہ نہ تھا وہ اب کرتی تو
کیا کرتی ۔۔۔۔۔
-------------
"طارم چلو۔۔۔۔"وہ ہڑبڑایا ہوا تھا اس
نے گھر کا دروازہ کھولتے ہی پہلی بات کی تھی۔
"تم کیوں آئے ہو؟؟؟؟؟"وہ یہی کہنا چاہتی
تھی مگر اس وقت وہ مجبور تھی اسے اس کے ساتھ جانا ہی پڑنا تھا کیوں کہ اس کے پاس کوئی
دوسرا راستہ نہ تھا، اس نے فوراً اٹھ کر چادر لی تھی اور چند ضرورت کی چیزیں اپنے بیگ
میں ڈالیں تھی ۔
"لاؤ میں کرتا ہوں۔۔۔۔"وہ دروازے کو
تالا لگا رہی تھی مگر ہڑبڑاہٹ کی وجہ سے اس کے ہاتھ ساتھ نہ دے رہے تھے اس نے فوراً
تالا اسے تھمایا تھا۔
"طارم!!!!!! پلیز چپ ہو جاؤ ۔۔۔کچھ نہیں
ہو گا بھابھی کو۔ "وہ جب سے گاڑی میں بیٹھی تھی، تب سے ہی روئے جا رہی تھی مگر
اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا، وہاں سے گھر تک اس کے آنسو نہ رکے تھے اور اس کی آواز
نہ نکلی تھی، وہ اسی طرح خاموش اندر داخل ہوئی تھی، سب بیٹھے انہیں کا انتظار کر رہے
تھے ۔
"اسلام علیکم!!!!!!" اس نے رسماً سلام
کیا تھا۔
"وعلیکم سلام!" جعفر صاحب نے اس کے
سر پر اپنا شفقت بھرا ہاتھ رکھا تھا۔
"کیسی ہو تم میری بیٹی؟؟؟"ان کے لہجے
میں شفقت تھی جس سے طارم کی آنکھیں پھر سے نم ہوئیں تھی۔
"امی روک لیں اسے،ورنہ سیلاب تو پکا آ ہی
جانا ہے، پہلے ہی میری گاڑی کو پانی پانی کر کے آئی ہے یہ۔۔۔۔۔" وہ اس کے آنسو
دیکھ کر بولا تھا۔
"سچی!!!!!طارم ایسا کیا تم نے۔۔۔۔؟"انہوں
نے ماحول نارمل کرنا چاہا تھا۔
اس نے جواب میں سر کو ہلکی سے ہاں میں جنبش دی تھی تو وہ
سب کھل کرمسکرائے تھے
"آپی۔۔۔کو لے تو آئیں گے ناعمام بھائی۔۔۔؟"اس
نے جعفر سے پوچھا تھا۔
"کیوں نہیں۔۔ وہ میری بیٹی کو کچھ نہیں کر
سکتا، میں نے عمام کے ساتھ پولیس کو بھیجا ہے، وہ اسے ضرور ڈھونڈ لیں گے ۔۔۔۔"
"ابو ابھی تک تو بھائی کو کچھ پتہ نہیں چلا
کہ وہ کہاں لے کر گیا ہے بھابھی کو۔۔۔" عصام باہر سے فون سن کر واپس آیا تھا۔
---------------
وہ کمرے سے نکلا ہی تھا کہ مروہ نے بمشکل کرسی کے پاس میز
پر موجود موبائل اٹھایا تھا اور تیزی سے نمبر ملانے لگی تھی، اسے اپنے نمبر کے علاوہ
کوئی نمبر یاد نہ تھا ۔
دوسری ہی بیل پر فون اٹھا لیا گیا تھا۔
"طارم۔۔۔۔میں اس وقت لاہور میں داخل ہونے
والی موٹروے کے ساتھ موجود ویران جگہ پر کسی چھوٹے سے مکان میں ہوں ۔۔۔۔۔ہلکا بھورا
رنگ تھا اس کا باہر سے۔۔۔۔"
"آپی ۔۔۔۔آپ ٹھیک تو ہیں؟؟؟؟"وہ پوچھ
رہی تھی کہ فون بند ہو گیا تھا۔
"تو میرے ساتھ چالاکی کھیلے گی لڑکی ۔۔۔۔کیا
سمجھی تھی مجھے پتا نہیں چلےگا،اب تو میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔۔۔۔"اس نے زور
دار تھپڑ مروہ کے منہ پر رسید کیا تھا اس کا منہ دوسری طرف ہوا تھا۔
"دیکھ اب تو میں تیرے ساتھ کیا کرتا ہوں۔۔۔۔یہ
گن دیکھی ہے تو نے ۔۔۔اس کے اندر موجود گولیاں میں تیرے اندر اتاروں گا۔۔۔پھر جا کے
ملنا اپنے ماں، بیٹے ، شوہر سے ۔۔۔۔۔"
"مار دو مجھے ۔۔۔مری تو میں پہلے کی ہوں،
تمہاری گولی سے صرف یہ روح ہی نکلے گی نا ۔۔۔نکال دو اسے بھی ۔"
"مجھے ایموشنل بلیک میل کرو گی ۔۔۔چلوکرلو
۔۔دیکھتا ہوں کہ میں بلیک میل ہو جاتا ہوں یا نہیں ۔۔۔۔"وہ اس کے سامنے کرسی رکھ
کر بیٹھا تھا مروہ کچھ نہ بولی تھی۔
"دیکھ اب کیوں تیری بولتی بند ہو گئی ہے۔۔۔"وہ
غصے سے اٹھا تھا اور اس بار اس کے تھپڑ کی شدت پہلے والے سے زیادہ تھی، مروہ کے منہ
سے خون بہنے لگا تھا مگر وہ پھر بھی کچھ نہ بولی تھی اور خاموشی سے سر ایک طرف کر کے
آنکھیں بند کر لیں تھیں۔
----------------
"اسلام علیکم۔۔۔۔"وہ بڑے پرتپاک لہجے
میں بولی تھیں مگر ہال میں سناٹا تھا وہ انہیں دیکھ کر ایک دم اٹھی تھیں۔
"وعلیکم سلام ۔۔۔۔آپ؟؟؟؟؟ "
"صفا نے نہیں بتایا کہ میں آنے والی ہوں۔۔۔۔کیوں
صفا؟؟؟؟؟؟"وہ صفا کی طرف دیکھ کر بولی تھیں۔
"اوہ۔۔۔۔سوری مجھے یاد نہیں رہا بتانے کا۔۔۔"
"چلو کوئی بات نہیں ۔۔۔۔آپ بیٹھیں کھڑی کیوں
ہیں؟؟؟؟؟؟"
طارم اور صفا وہاں سے اٹھ کر صفا کے کمرے میں چلی گئی تھیں
تو عصام بھی فوراً ان کے پیچھے ہی چلا گیا تھا۔
"صفا۔۔۔آنٹی خیریت سے آئی ہیں؟؟؟؟"وہ
انہیں یوں اچانک دیکھ کر حیران ہوا تھا۔
"لگتا تو کچھ ایسے ہی ہے ۔۔۔۔مجھے کہہ رہیں
تھی کہ میں آؤں گی شادی پر بھی نہیں آ سکی ۔۔۔"
"اچھا!!!!! چھوڑو یہ باتیں، عمام بھائی کا
نمبر ٹرائی کرو کہاں ہیں وہ ؟؟؟ان کو وہ جگہ ملی بھی ہے یا نہیں ۔۔۔۔؟"طارم ان
دونوں کو ٹوکتی ہوئی بولی تھی ۔
"ہاں ۔۔۔۔"عصام نے فون جیب سے نکالا
تھا اور نمبر ملایا تھا مگر دوسری طرف فون سوئچ آف آ رہا تھا۔
"بھائی کا فون بند ہو گیا ہے ۔۔۔شاید بیٹری
ختم ہو گئی ہو۔۔۔"عصام نے اندازہ لگایا تھا۔
"اگر آپی کو کچھ ہو گیا تو میں کیا کروں
گی ۔۔۔۔میں تو جیتے جی مر جاؤں گی ۔۔۔میرا تو ان کے سوا کوئی ہے بھی نہیں۔۔۔"
"پہلی بات بھابھی کو کچھ نہیں ہو گا ۔۔۔اور
دوسری بات ہم ہیں نا تم اکیلی ہر گز نہیں ہیں۔۔۔"
"ہاں ہم بھی تو ہیں تمہارے ساتھ ۔۔۔۔"عصام
بھی دبا کر بولا تھا۔
"میں نماز پڑھنے جا رہی ہوں ۔۔۔۔"وہ
اٹھی تھی اور باہر نکل گئی تھی ۔
----------------
اس نے دروازہ کھولا تھا وہ بے ہوش پڑی تھی کرسی پر ۔۔اس
کے منہ سے خون کے قطرے زمین پر جم رہے تھے ۔
"مروہ !!!!!"وہ آگے بڑھا تھا جبکہ اس
شخص کو پولیس گرفتار کر چکی تھی اب وہ بالکل مخفوظ تھے۔
"مروہ ۔۔۔۔ہوش کرو۔۔۔۔"وہ اس کے چہرے
کو ہلا رہا تھا مگر مروہ نے کوئی حرکت نہ کی تھی، اس نے اسے کرسی سے آزاد کیا تھا اور
اسے بازؤوں میں اٹھا کر باہر گاڑی تک لایا تھا۔
"آپ ان کے ساتھ پیچھے ہی بیٹھیں، یہ آفیسر
آپ کو گھر تک چھوڑ دیتے ہیں، آپ کی طبعیت ٹھیک نہیں اور اکیلا جانا سیف نہیں ہے۔۔۔"
عمام نے مروہ کو پچھلی سیٹ پر بٹھایا تھا اور خود بھی اس
کے ساتھ پیچھے ہی بیٹھ گیا تھا
"مروہ۔۔۔۔"وہ اسے ہوش دلانے کی کوشش
میں تھا مگر وہ ناکام رہا تھا اس کے منہ سے خون مسلسل بہہ رہا تھا، اس نے تین چار ٹشو
پیپر پکڑ کر اس کے منہ کے قریب رکھے تھے، وہ ہر شے سے لاپرواہ تھی مگر عمام کے چہرے
پر سکون تھا جو اسے اس کی وجہ سے ہی ملا تھا۔
"دیکھو۔۔۔میں تمہیں لے آیا ہوں ۔۔۔میں نے
کہا تھا نا کہ میں اتنی جلدی ہارنے والا نہیں ہوں، دیکھ لو تم میرے ساتھ ہو ۔۔۔اب میں
تمہیں کہیں نہیں جانے دوں گا۔۔۔"وہ مروہ کا ہاتھ پکڑے اکیلا ہی بولتا جا رہا تھا،آفیسر
اس کو شیشے سے دیکھ کر مسکرایا تھا تو عمام فوراً خاموش ہوا تھا۔
---------------
وہ کمرے میں اندھیرا کیے لیمپ کی روشنی میں بیٹھی کاپی پر
پینسل پھیر رہی تھی کہ دروازہ کھلا تھا اس نے مڑ کر دیکھا تھا وہاں عصام تھا۔
"آ سکتا ہوں۔۔۔۔؟"وہ بولا تھا مگر طارم
نے کوئی جواب نہ دیا تھا وہ پھر بھی آ گیا تھا اور اس کے قریب آ کر کاپی پر دیکھنے
لگا تھا۔
"دیٹس گریٹ۔۔۔۔"وہ نوٹ بک پر بنا سکیچ
دیکھ کر بولا تھا۔
طارم کا ابھی بھی کوئی جواب نہ آیا تھا۔
"کب سے کرتی ہو تم سکیچنگ؟؟؟؟؟ہاں یاد ہے
مجھےجب تم مجھے بک شاپ پر ملی تھی ۔۔۔"وہ دوبارہ بولا تھا ۔
"مجھے اب یہ سب کچھ بے معنی لگتا ہے۔۔۔۔دیکھو
کتنا وقت ہو گیا ہے اور آپی کا کچھ پتا نہیں ۔۔۔۔"
"طارم تم نے بھائی کو لوکیشن بتا دی تھی
نا، اب فکر نہ کرو وہ کہیں سے بھی بھابھی کو ڈھونڈ لائیں گے، وہ کون سا سکون میں تھے
اس دن سے ۔۔"عصام بولا تھا کہ طارم نے اس کی طرف دیکھا تھا۔
"تم خود دیکھ لینا بھائی کتنے ویک ہو گئے
ہیں۔۔۔۔وہ تو ہاسپٹل بھی نہیں جا رہے کئی دنوں سے۔۔۔۔آج بھی انہیں بہت تیز بخار تھا
مگر تمہاری کال ریسیو کرتے ہی وہ کسی کی سنے بغیر نکل گئے ۔۔۔۔۔یہ محبت بھی کتنی عجیب
ہے نا، انسان سے کچھ بھی کرواتی ہے۔۔۔کچھ بھی۔۔۔۔"
"طارم!!!!! بھائی آ گئے ہیں اور بھابھی بھی
ان کے ساتھ ہی ہیں ۔۔۔"صفا نے دروازہ کھولا تھا وہ اپنی ہی دھن میں بول گئی تھی
مگر عصام کو دیکھ کر فوراً خاموش ہو گئی تھی طارم اس کی طرف دیکھے بغیر باہر بھاگی
تھی ۔
عمام اسے بازؤوں میں اٹھائے کمرے میں لے گیا تھا اس کے پیچھے
سب بھاگے تھے ۔۔۔۔
"آپی کو کیا ہوا ہے؟؟؟؟؟"طارم اسے بے
ہوش اور اس کے منہ سے نکلے ہوئے خون کو دیکھ کر بولی تھی ۔
"پریشان مت ہو ٹھیک ہے بس بے ہوش ہو گئی
ہے ۔۔۔۔کچھ دیر میں ہوش آ جائے گا اسے۔۔۔"اس نے سب کے اڑے ہوئے رنگ دیکھ کر تسلی
دی تھی ۔۔
"عمام ۔۔۔تم نے اپنی حالت دیکھی ہے، چلو
تم بھی بیٹھو میں ابھی کسی ڈاکٹر کو بلاتا ہوں۔۔۔۔"جعفر فون نکال کر بولے تھے
۔
"ابو رہنے دیں ۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔۔۔فریش ہو
کر میڈیسن لے لوں گا، آپ فکر نہ کریں ۔۔۔۔"سب کے پریشانی سے چہرے اترے ہوئے تھے
۔
"عصام تم وہ دراز سے فرسٹ ایڈ باکس تو پکڑاؤ
ذرا۔۔۔۔"وہ الماری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا تھا۔
"شکر ہے اللہ کا کہ آپی ٹھیک ہیں ۔۔۔۔میری
تو جان نکلنے والی تھی۔۔۔۔"طارم آسمان کی طرف دیکھ کر بولی تھی۔
"تم لوگ آرام کر لو کچھ دیر ،مروہ کو ہوش
آئے گا تو تب اس کی خیریت معلوم کر لینا، میں ذرا ان کے لیے سوپ بنوا کر لاتی ہوں۔۔۔۔۔"وہ
کمرے سے نکلی تھیں سب اپنے اپنے کمرے کو نکل گئے تھے ۔
--------------
"صفا !!!!!تمہیں پتا ہے وہ آنٹی کیوں آئی
تھیں۔۔۔"طارم اب پر سکون بیٹھی تھی تو اسے یاد آیا تھا۔
"نہیں ۔۔۔۔ویسے ہی آئی تھیں شاید۔۔۔"
"اچھا ۔۔۔جب میں نماز پڑھنے اپنے کمرے میں
جا رہی تھی تو میں نے اپنے گنہگار کانوں سے سنا کہ وہ اسمائیل کے لیے تمہارا ہاتھ مانگنے
آئی تھیں۔"
"ہیں۔۔۔یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟"صفا نا
سمجھی سے بولی تھی ۔
"ہاں ۔۔۔قسم سے یہی کہہ رہیں تھیں، آنٹی
سے پوچھ لینا تم بے شک ۔۔۔۔"
"اسی لیے آج جب میں صبح ان کے گھر گئی تو
آنٹی مجھے کہہ رہی تھی کہ وہ آئیں گی اور ہاں اسمائیل بھی بھاگ رہا تھا وہاں سے، ورنہ
وہ تو ڈھیٹ بن کر بیٹھا رہتا ہے ۔۔۔۔"
"ہا ہا ہا ہا!!!!! دیکھ لو کیا کچھ ہو رہا
ہے اور تمہیں کوئی خبر ہی نہیں ۔۔۔"
"یار میں ابھی شادی نہیں کروں گی، مجھے ابھی
پڑھنا ہے اور ویسے بھی ابھی کوئی میری عمر ہے شادی کرنے کی ۔۔۔۔"
"تو اور کیا، میں نے بھی آپی سے یہی کہا
تھا کہ مجھے ابھی شادی نہیں کرنی۔۔۔۔"
"شادی تو کرنی پڑے گی تم دونوں کو۔۔۔"عصام
دروازے کے پیچھے سے نکلا تھا۔
"اچھا تم سے کسی نے پوچھا ہے کہ ہم شادی
کریں یا نہیں ؟ تمہیں شرم نہیں آتی چھپ کر ہماری باتیں سن رہے تھے تم ۔۔۔"
"ہاں نہیں آتی مجھے شرم ۔۔۔۔اور میں امی
سےاورمروہ بھابھی کو بولوں گا کہ تم دونوں کی شادیاں کر دیں ۔۔۔۔"
"اچھا تو پھر میں بھی انہیں مشورہ دوں گی
کہ تمہاری بھی کر دیں لگے ہاتھ ۔۔۔کام ہی ختم ہو شادیوں والا ۔۔۔۔"
"جب طارم کی شادی ہو گی تو میری بھی تو ہو
گی نا ۔۔۔کہ اس نے اکیلے ہی شادی کرنی ہے۔۔۔"وہ بولا ہی تھا کہ طارم اور صفا نے
اس کا منہ دیکھا تھا اور وہ فوراً نکل گیا تھا۔
---------------
مروہ نے آنکھیں کھولی تھیں ہر طرف کمرے میں اندھیرا تھا،
لیمپ کی روشنی میں وہ عمام کو دیکھ سکتی تھی، وہ اس کے قریب پڑی کرسی پر بیٹھا سو رہا
تھا، اس کا ہاتھ مروہ کے ہاتھ کے اوپر تھا، مروہ نے ہلکے سے اپنا ہاتھ نکالا تھا تو
وہ فوراً اٹھا تھا۔
"تم۔۔۔۔اٹھ گئی مگر بستر سے اترنے کی کوشش
مت کرو۔۔"وہ اسے اٹھتا ہوا دیکھ کر بولا تھا۔
"مجھے کون لایا ہے یہاں؟؟ مجھے اپنے گھر
جانا ہے طارم اکیلی ہو گی۔۔" اس کے چہرے پر پریشانی تھی ۔
"میں لایا ہوں تمہیں یہاں ۔۔اور اب میں جانے
نہیں دوں گا تمہیں ۔۔۔"
"میرا جواب آپ پہلے سے جانتے ہیں تو کیوں
یہ بلا وجہ کی ضد۔۔۔۔کیوں؟؟؟"
"اگر میں کہوں کہ مجھے کینسر ہے اور لاسٹ
اسٹیج پر ہے تو کیا پھر بھی تم مجھے چھوڑ کر چلی جاؤ گی ۔۔۔۔میری آخری خواہش بھی پوری
نہیں کرو گی ۔۔۔۔؟"عمام نے چہرے موڑا تھا۔
"عمام !!!! یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ ؟ کر دی
آپ نے بھی بے وفائی والی بات ۔۔۔ مجھے چھوڑ دیں گے آپ بھی۔۔ اسی لیے ۔۔۔۔اسی لیے میں
نے خود کو اکیلے رہنے کی عادت ڈالی ہے، میں جانتی تھی کہ میری قسمت کہاں کہ مجھے کوئی
وفادار ہمیشہ ساتھ چلنے والا ملے جو یونہی ہر کسی کی بات پر یقین کرکے مجھ پر الزام
نہ لگائے۔۔۔۔"
"مروہ مجھے معاف کر دو ۔۔۔کیا تم مجھے معاف
نہیں کرو گی ۔۔۔۔؟میں جانتا ہوں سارا کا سارا قصور میرا ہے جو میں نے اس لڑکی کی بات
پر یقین کیا۔۔۔۔"عمام نے اس کے ہاتھ پکڑے تھے ۔
"میں نے معاف کیا ۔۔۔۔اور میں تو شاید کبھی
ناراض تھی ہی نہیں آپ سے کیونکہ یہ سارا قصور تو میری زندگی کا ہے شاید ۔۔۔۔اور اب
میں نے اس بات کو تسلیم بھی کر لیا ہے۔"
"شکر ہے تم نے مجھے معاف کیا، ورنہ مجھے
یہ کینسر والا ڈرامہ پتہ نہیں کب تک کرنا پڑتا۔۔۔"وہ اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا
تھا تو مروہ نے فوراً اس کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھ نکالے تھے ۔
"یہ کیا بد تمیزی ہے؟؟؟؟؟"
"بدتمیزی نہیں بیگم، اسے منانے کا فن کہتے
ہیں جو ہر کسی کو نہیں آتا ۔۔۔اور میں تو تمہاری جان چھوڑنے والا نہیں ہوں۔۔بے فکر
رہو۔۔۔۔پلیز غصہ مت کرنا۔۔۔۔۔" وہ اس کے سخت تاثرات دیکھ کر بولا تھا۔
-------------
دروازے پر دستک ہوئی تھی تو مروہ کی آنکھ کھلی تھی، عمام
اس کے دوپٹے کے اوپر سو رہا تھا۔ مروہ نے ہلکے سے کوشش کی تھی نکالنے کی مگر ناکام
رہی تھی اس بار اس نے زور سے دوپٹہ کھینچا تھا تو عمام نے آنکھیں بند کیے ہی اس کو
دوپٹے کو دوبارہ پکڑا تھا۔
"چھوڑ دیں کوئی آیا ہے دروازہ تو کھولنے
دیں۔۔۔۔"وہ جان گئی تھی کہ عمام نے جان بوجھ کر پکڑا ہوا تھا دوپٹہ۔۔۔
"اوں ۔۔ہوں۔۔۔"اس نے سر نفی میں ہلایا
تھا۔
"ٹھیک ہے میں کوئی اور لے لیتی ہوں ۔۔۔۔"وہ
بیڈ سے اتری تھی اور اس نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تھا باہر طارم کھڑی تھی ۔
"آپی!!!!"وہ اسے دیکھتے ہی اس سے لپٹ
گئی تھی ۔
"آرام سے، میرے بازو میں درد ہے۔۔۔۔"
"جی ۔۔۔۔۔آپ ٹھیک تو ہیں ۔۔۔؟مجھے فکر ہو
رہی تھی آپ کی ۔۔۔۔"
"ہاں میں بالکل ٹھیک ہوں ۔۔۔۔تم آ جاؤ۔۔۔"اس
نے رستہ دیا تھا۔
"نہیں میں چلتی ہوں، آپ ناشتے پر آئیں گی
۔۔۔۔؟"
"دیکھتی ہوں پہلے میں فریش ہو جاؤں ۔۔۔گھن
آ رہی ہے مجھے ان کپڑوں سے ۔۔۔"
"جی ٹھیک ہے ۔۔۔۔"وہ وہیں سے چلی گئی
تھی ۔
--------------
"صفا کے لیے ایک رشتہ آیا ہے۔۔۔۔"وہ
لاؤنج میں بیٹھی سب کے درمیان میں بولی تھیں۔
"اچھا ۔۔۔۔کون ہے لڑکا؟؟؟؟"عصام نےفوراً
پوچھا تھا۔
"فاطمہ نہیں اپنی ۔۔۔۔اس کا بھائی ہے نا
اسمائیل، اسی کا ۔۔۔۔"
"اچھا ۔۔۔"عصام حیران ہوا تھا مگر اس
میں حیرانگی والی کوئی بات نہ تھی ایسا ہو سکتا تھا ۔
"ہاں ۔۔۔تم تو جانتے ہو اسے اچھا لڑکا ہے
۔۔۔۔"
"امی !!!!مجھے ابھی شادی نہیں کرنی، آپ پڑھنے
تو دیں مجھے ۔۔۔۔"
"ہاں وہ ہی تو اس کی امی بھی کہہ رہیں تھیں
کہ تم پڑھ لو پھر شادی کرنی ہے،ابھی تو صرف نکاح ہو گا۔۔۔۔کیونکہ مجھے اور تمہارے ابو
کو منگنی والے رشتے میں کوئی پاکیزگی دکھائی نہیں دیتی ۔۔۔"
"لو جی اس کا مسلہ حل ہو گیا اب کوئی بہانہ
نہیں چلے گا۔۔۔۔امی ایک مشورہ دوں۔۔۔۔؟"عصام ہی سب میں مسلسل بول رہا تھا۔
"ہاں دے دو، اگر ماننے والا ہوا تو مان لوں
گی ۔۔۔۔"
"امی طارم کا بھی نکاح کر دیں ۔۔۔۔مجھے یہ
ہر گز اچھا نہیں لگتا کہ کوئی نا محرم میرے اردگرد رہے ۔۔۔۔ لڑکی۔" اس نے بے دھڑک
کہا تھا اور طارم کی دھڑکن تیز ہوئی تھی۔
"واہ کیا بات ہے عصام صاحب کی، پہلے جب رہتی
تھی تو تب تو کوئی مسئلہ نہ تھا تمہیں ۔۔۔"عمام بولا تھا۔
"بھائی دراصل میں نے مسئلہ اب سنا ہے اس
کے متعلق۔۔۔۔"
"اچھا تو پھر مروہ وہ رشتہ جو آیا تھا ان
کو ہاں کر دو ،ہم صفا کے ساتھ ہی اس کا بھی نکاح کر دیں گے۔۔۔۔۔"
"امی ۔۔۔۔۔"وہ اتنی لمبی تفصیل کے بعد
بھی اپنی بات سمجھانے میں ناکام ہوا تھا۔
"امی اصل میں اس کا مطلب ہے کہ آپ طارم کا
اس سے نکاح کروادیں ۔۔۔۔ آپ نہیں جانتی بڑا تیز ہے یہ۔۔۔۔"
عصام نے اسے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تھا۔
"کیا ہے اگر میں نہ بولتی تو یہ مشکل کیسے
آسان ہوتی تمہاری۔۔۔۔۔"وہ خاموش نہ رہی تھی، اندر سے عصام رب کا شکر ادا کر رہا
تھا کہ اس کا کام ہو گیا۔
----------------
"آج تو بڑے غضب ڈھائے جا رہے ہیں، کسے مارنے
کا ارادہ ہے ۔۔۔۔؟"عمام طنز کر کے بولا تھا۔
"لوگ پہلے ہی مرے بیٹھے ہیں، مجھے کسی کو
مارنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔۔"وہ اترائی تھی ۔
"اچھا جی چلیں اب۔۔۔۔باقی کی خوش فہمیاں
بعد میں ڈال دوں گا۔۔۔۔"
مروہ نے غصے سے دیکھا تھا۔
"چلیں اب۔۔۔۔"مروہ اسے وہیں کھڑا دیکھ
کر بولی تھی۔
باہر سب کے سب تیار گاڑیوں میں بیٹھ رہے تھے ۔
"عصام صاحب کیا بات ہے بڑے اچھے دن چل رہے
ہیں آپ کے تو۔۔۔۔"وہ طارم کو اس کی گاڑی میں بیٹھے دیکھ کر بولا تھا۔
"آپ کے تو میرےسےبھی اچھے چل رہے ہیں اور
اچھے دن تو سب کےآتے ہیں ۔"
"جی آپ کے کچھ جلدی ہی آ گئے ہیں۔۔"
"بھائی بس اب اتنا بھی حسد نہ کریں۔۔۔۔"
"میں کیوں حسد کروں گا تم سے، چلو جاؤ تم،
لیٹ نہیں ہونا ہمیں ۔۔۔۔"وہ واپس مڑا تھا اور گاڑی کا دروازہ کھول کے مروہ کو
بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا وہ مسکرا کر گاڑی میں بیٹھ گئی تھی ۔
"مروہ تم جانتی ہو آج میں کتنا خوش ہوں۔۔۔۔۔"
"بالکل ۔۔مجھے اندازہ ہے اس بات کا، پہلے
آپ نےدھوکےسےمجھ سے معافی حاصل کی اور اب یہ کامیابی تو خوش تو ہوں گے ہی ۔۔۔۔"
"چلو مان لیتے ہیں ۔۔۔۔۔"
"تم جانتی ہو میرا خواب تھا ڈاکٹر بننا اور
ڈاکٹر بن کر انسانیت کی خدمت کرنا۔۔۔۔ مگر تم سے ملنے کے بعد مجھے یہ احساس مزید ہوا
کہ بہت سے لوگ ہیں جو پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو کھو دیتے ہیں ۔تو
پھر یہ میری زندگی کا مقصد بن گیا جو آج پورا ہوا۔۔۔۔۔"
"یہ ہی کافی ہے کہ آپ کو انسانیت کی فکر
تو ہے ورنہ آج یہ دنیا انسان ہونے کے باوجود ،بغیر کسی طاقت یا قدرت کے خود کو خدا
سمجھنے لگتی ہے اور دوسروں کو اپنی پیروں کی جوتی۔۔۔۔"
"تمہارا کیا خواب ہے زندگی کا؟؟؟؟؟؟"عمام
نے اس کا پریشان چہرہ دیکھ کر بات بدلی تھی ۔
"میراکوئی خواب نہیں تھا زندگی کا ۔۔۔مجھے
زندگی نے کبھی موقع ہی نہیں دیا کہ میں سوچ سکوں کہ میری زندگی کا مقصد کیا ہے اور
یہ کس طرح میں دوسروں کے لیے استعمال کر سکتی ہوں اپنی زندگی۔۔۔۔۔"
"مگر اب تو زندگی موقع دے رہی ہے، تم کھل
کر جی سکتی ہو، جو تمہارا دل چاہے کر سکتی ہو ۔۔۔۔"
"ایک بات بتاؤں۔۔۔۔؟"
"ہاں بولو۔۔۔۔"
"مجھے یہ زندگی کبھی اپنی لگی ہی نہیں ۔۔۔۔جب
ہوش سنبھالا تو میں کہا کرتی تھی کہ کس گھر میں آگئی ہوں، نہ کھانے کو روٹی ہے نہ پہننے
کو کپڑا مگر یہ سب شکایتیں میں نے خود تک محدود رکھیں ۔۔۔اس کے بعد میں بڑی ہوئی، اماں
نے میری شادی کر دی اور خود میری ذمہ داری سے فارغ ہو گئیں مگر میرے سر پر سارے جہان
کا بوجھ ڈال دیا ۔۔۔۔میری زندگی کا مقصد زرمیل اور اس کے گھر والوں کو خوش رکھنا بن
چکا تھا، پھر اچانک ایک دن زرمیل نے بھی منہ پھیر لیا مجھ سے اور جا سویا زمین کی گود
میں۔۔۔۔"اس کی آنکھوں میں آنسو تھے جو باہر نکلنے کو بے تاب تھے ۔
"زرمیل نے چھوڑا تو ذمہ داری بڑھ گئی میری
۔۔۔اس کی جگہ خرچہ لانے کے لیے مجھے گھر سے نکلنا پڑا ۔۔۔۔پھر تھوڑے ہی عرصے بعد عمیر
میری زندگی میں آیا ۔مجھے زندگی سے سارے شکوے بھول گئے، میں بھول گئی کہ میرے پاس کیا
ہے اور کیا نہیں۔۔۔۔کتنے کام مجھے کرنے پڑتے ہیں مجھے کسی چیز کی پرواہ نہ تھی، اچھی
خاصی زندگی گزر رہی تھی کہ عمیر نے میری گود میں آتے ہی بیماری سے دوستی کر لی اور
اسے اس بیماری سے دوستی ہی لے ڈوبی تھی وہ اسے اپنے ساتھ لے گئی اور وہ بھی زرمیل کی
طرح زمین کی بانہوں میں جا گھسا۔۔۔۔مجھے اس دنیا میں تنہا چھوڑ کر ۔۔۔۔میں اکیلی تھی،
میں نے پوری کوشش کی کہ میں اپنی ذمہ داری نبھاؤں مگر پھر میرے کردار پر جھوٹے الزام
لگا کر مجھے اس گھرسےآدھی رات کو نکال دیا گیا، مجھے بے سہارا چھوڑ دیا گیا تھا ۔۔۔کچھ
نہ تھا میرے پاس سوائے چند کپڑوں کے۔۔۔۔
اماں۔۔۔۔اماں بھی میرے ساتھ نہ نبھائی۔۔۔۔وہ بھی مجھے چھوڑ
کر چلی گئی پھر میری زندگی میں۔۔۔۔۔۔"
"میں آیا اور میں نے بھی تمہیں دکھ دیئے،
اذیت دی ۔۔۔۔تمہیں سمجھ تو چکا تھا مگر اس زمانے کے لوگوں نے مجھے گمراہ کیا تا کہ
میں تمہیں ایک بار پھر تنہا چھوڑ دوں۔۔۔"
"اور پھر ایسا ہی ہوا ۔۔۔۔آپ آئے اور میں
نے طارم کے مستقبل کے لیے آپ کو زندگی میں شامل کر لیا، مجھے لگا کہ محبت نہ سہی مگر
ہمدردی تو کرنے والا ہے کوئی ۔ مگر ابو، امی ،صفا ،عصام سب نے مجھے بتایا کہ اس دنیا
میں کچھ لوگ ابھی ایسے باقی ہیں جو دوسروں سے جڑے ہیں ۔۔۔۔میں نے بار بار زندگی کو
ختم کرنا چاہا مگر ہر مرتبہ میرے رب نے کہا میری رحمت سے مایوس مت ہونا۔۔۔۔"
"بے شک مروہ وہ رب ہر کسی کو دیکھ رہا ہے
اور وہ جانتا ہے کہ میرے بندے کو کس چیز کی ضرورت ہے، مگر وہ بعض اوقات ہمارا امتحان
لیتا ہے تا کہ ہم اس کی آزمائش پر پورا اتر سکیں اور پہلے سے بھی زیادہ مضبوطی سے زندگی
کو گزاریں ۔۔۔"
"بالکل پھر ایسا ہی ہوا، آپ نے بھی الزام
لگاکر نکال دیا مجھے ۔۔مگر اس بار مجھے نقصان نہیں ہوا ۔۔۔کبھی کبھار ایک ٹھوکر انسان
کو سکھا دیتی ہے کہ کیسے سر اٹھا کر چلنا ہے، کیسے زندگی میں آنے والی مصیبتوں کو مات
دینی ہے ۔۔۔۔اور مجھے آخری سانس تک لڑنا ہو گا کیونکہ سانس ابھی باقی ہے ۔۔۔۔"
"بالکل اسی طرح ہاسپٹل میں آنے والے مریضوں
کو یہ یقین دلانا ہو گا کہ کیسے مشکلوں کو مات دینی ہے اور دوبارہ زندگی کا دامن تھامنا
ہے ۔۔۔۔اور اس کام کوہم سب مل کر کریں گے ۔۔۔۔"عمام نے اس کا ہاتھ تھاما تھا مروہ
نے سر مثبت ہلایا تھا اس کی اس جنبش میں یقین تھا۔
----------------
"طارم تم خوش تو ہو نا ۔۔۔۔ایسا تو نہیں
کہ تم ان کے احسانوں کی وجہ سے ۔۔۔۔؟"
وہ گھر میں بیٹھے تمام لوگوں سے ہٹ کر لاؤنج میں آئی تھی
جہاں اب سب جمع ہونے والے تھے، طارم اور صفا سفید جوڑوں میں سجی بیٹھی تھیں، وہیں براجمان
تھیں۔
"نہیں آپی! کیسی باتیں کر رہی ہیں ۔۔۔۔میں
نے اپنی مرضی سے یہ نکاح کیا ہے ۔"
"صفا تم بتاؤ خوش تو ہو نا۔۔۔۔؟"
"بھابھی ۔۔۔۔آپ کیوں فکر کرتی ہیں، میں خوش
ہوں ۔۔۔"
"بھابھی اٹھیں یہاں سے۔۔ اب یہاں بیٹھنے
کی باری ہماری ہے ۔"
"اچھا جی تم دونوں کی بیویاں ہونے سے پہلے
یہ میری بہنیں ہیں ۔۔۔۔"
"اچھا۔۔بھابھی یہ دونوں آپ کی بہنیں تو کتنے
عرصے سے تھیں لیکن ہماری بیویاں تو ابھی ابھی بنی ہیں نا تو اب ہمیں بیٹھنے دیں۔۔۔"
"مروہ بیٹھنے دو انہیں نہیں تو جان نہیں
چھوڑیں گے یہ۔۔۔۔"
"یہ تو میں جانتی ہوں کہ کس قدر ڈھیٹ ہیں
یہ دونوں۔۔۔"
"طارم اٹھو مجھے ایک چیز دکھانی ہے تمہیں
۔۔۔۔"اس نے اسے بازو سے پکڑا تھا۔
"یہی کیڑا سانس نہیں لینے دے رہا تھا اسے
اور تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔"
"بھابھی بس پانچ منٹ ۔۔۔۔"
"جاؤ بھئی تمہاری بیوی ہے مجھے کیا کہتے
ہو۔۔۔۔"
وہ اجازت ملتے ہی اس کا ہاتھ تھامے لاؤنج سے نکلا تھا سب
نے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔
"ہوا کھانے گئے ہیں باہر کی ۔۔۔۔"مروہ
نے سب کے حیران چہرے دیکھ کر کہا تھا۔
"جاؤ تم دونوں بھی چلے جاؤ۔۔۔"اس نے
اسمائیل کی طرف دیکھا تھا۔
"بھابھی ۔۔۔۔"
"جاؤ۔۔"مروہ نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے
کہا تھا تو وہ دونوں بھی نکل گئے تھے۔
-------------
"آنکھیں نہ کھولنا۔۔۔"وہ اس کی آنکھوں
پر ہاتھ رکھ کر دروازہ کھول رہا تھا۔
"کیا ہے عصام چھوڑ دو میری آنکھیں، نہیں
کھولتی میں ۔۔۔۔"اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کا ہاتھ پیچھے کیا تھا اس کی آنکھیں کھلی
تھیں وہ عصال کے کمرے کی دیوار کو دیکھتی جا رہی تھی ۔
"یہ سب کہاں سے ملا تمہیں ؟؟؟؟؟؟"
"بس مل گیا تھا کہیں سے ۔۔۔۔"
"تم نے میری چیزوں میں سے چوری تو نہیں کیا
۔۔۔ہاں ضرور وہیں سے چوری کیا ہے تم نے ۔"
"یار چوری تو مت کہو ۔۔۔۔میں نے بس نکال
کر یہاں لگائے ہیں سارے سکیچ، کوئی لے کر بھاگ تو نہیں گیا۔۔۔۔۔"
"شکریہ ۔۔۔۔تم جانتے ہو یہ میرا سب سے پسندیدہ
کام ہے ۔۔۔۔"
"ان کی تعداد دیکھ کر اندازہ ہو ہی گیا ہے۔۔۔۔"
"تمہیں اس کمرے میں کوئی تبدیلی چاہیے تو
بتا دو۔۔۔۔جو چاہوکردینا۔۔۔"
میں نے تو یہاں رہنا ہی نہیں ۔۔۔۔میرا آنٹی سے وعدہ ہوا
تھا کہ رخصتی میری پڑھائی مکمل ہونے کے بعد ہی ہو گی ۔۔۔۔نکاح تو اس لیے کر لیا ہے
کیوں کہ تمہیں نامحرم لڑکی کے ساتھ رہنا اچھا نہیں لگتا تھا ۔۔۔"وہ مسکرائی تھی
۔
"یہ کیا بات ہوئی ؟؟؟؟؟؟؟"
"اگر تم نے اب ضد کی تو میں آپی کو کہہ کر
اپنے گھر شفٹ ہو جاؤں گی۔۔۔۔۔"
"میں تمہیں جانے ہی نہیں دوں گا۔۔۔۔"اس
نے آنکھ دبائی تھی اور اس کا ہاتھ پکڑا تھا، طارم کا چہرہ شرم سے سرخ ہوا تھا۔
--------------
"مروہ بھابھی آپ کو ملنے کوئی آیا ہے۔۔۔۔"وہ
کمرے میں لیپ ٹاپ پر جھکی کچھ کر رہی تھی ۔
"کون آیا ہے مجھے ملنے؟؟اچھا میں آتی ہوں۔۔۔"
"مجھے نہیں معلوم ۔۔۔آپ خود ہی دیکھ لیں
۔۔۔۔"صفا وہیں سے واپس ہوئی تھی ۔
مروہ لیپ ٹاپ کو بند کر کے باہر آئی تھی تو ڈرائنگ روم میں
جاتے ہی اس کی آنکھیں حیرت سے پٹھی کی پٹھی رہ گئی تھیں۔
"اسلام علیکم!!!!!"
"مروہ۔۔۔۔مجھے معاف کر دو۔" وہ اس کے
قدموں میں گِری تھیں۔
"کیا کر رہی ہیں آپ؟؟؟؟؟"
"میں تم سے معافی مانگنے آئی ہوں، میں نے
تمہیں ذلیل کر کے گھر سے نکالا تھا، آج میری بیٹی کو جب ذلیل کر کے اس کے گھر سے نکالا
گیا تو مجھے تمہارا خیال آیا۔۔۔۔"
"آپ نے جب مجھے نکالا تھا شاید آپ بھول گئی
تھیں کہ آپ کے گھر میں بھی بیٹی ہے ۔۔مگر نہیں آپ نے تو مجھے قاتل بنا دیا تھا۔"
"معاف کر دو مجھے ۔۔۔۔"
"اٹھیں یہاں سے مجھے شرمندہ مت کریں آپ۔۔۔۔"اس
نے انہیں اٹھایا تھا۔
"تیرا ظرف بہت بڑا ہے، تیرا ظرف بہت بڑا
ہے مروہ۔۔۔۔۔"وہ پلٹ گئی تھیں۔
مروہ وہیں کھڑی تھی کہ عمام اندر آیا تھا۔
"مروہ ۔۔۔ذنیرہ کا کچھ پتا چلا کب آ رہی
ہے واپس وہ اپنے بیٹے کو لے کر ۔۔۔۔؟"
"جی۔۔۔جلد ہی ۔۔۔۔میرا مطلب پرسوں آ جائے
گی وہ ۔۔۔۔"مروہ کا لہجہ بہت مدھم تھا ۔
"کیا ہوا ؟؟؟؟؟تمہاری طبعیت تو ٹھیک ہے ۔۔۔؟"عمام
نے آگے بڑھ کر اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھا تھا۔
"جی۔۔۔۔اب ہی تو میری طبعیت ٹھیک ہوئی ہے
۔"
"کون آیا تھا؟؟؟؟" عمام کو یاد آیا
تھا کہ وہ یہاں کسی سے ملنے آئی تھی ۔
"کچھ لوگ اپنے گناہوں کی معافی مانگنے آئے
تھے۔۔۔۔"
"چلو آؤ۔۔۔۔"عمام نے اس کا ہاتھ پکڑا
تھا۔
"کہاں؟؟؟"
"چلو تو ۔۔۔"وہ اسے لے کر باہر نکلا
تھا اور اسے گاڑی میں بیٹھنے کو کہا تھا۔
"ہم کہاں جا رہے ہیں؟؟؟"
"نہیں معلوم ۔۔۔۔لیکن کہیں نہ کہیں تو پہنچ
جائیں گے ان ظالموں کو پیچھے چھوڑ کر ۔۔۔ان تمام دکھوں کو کہیں بہت پیچھے چھوڑ دیتے
ہیں اور کھل کے جیتے ہیں زندگی کو۔۔۔۔
کیوں کہ سانس ابھی باقی ہے ۔۔۔۔۔"
اتنا ظلم
نہ کر اے آدم
نہ کر تو
مجھے اتنا پریشان
وہ ذات ابھی
باقی ہے
وہ ساتھ ابھی
باقی ہے
یہ دکھ تو
دے گا تو لے گا ضرور
کیوں کہ خدا کی عدالت میں
انصاف ابھی
باقی ہے
جی رہی ہوں
جیتی رہوں گی
تیرے ظلم
و ستم کے گھونٹ پیتی رہوں گی
کچھ آس ابھی
باقی ہے
کیوں کہ سانس
ابھی باقی ہے
***************
ختم شد
Comments
Post a Comment