Badtameez ishq novel by Radaba Noureen Episode 14

Badtameez ishq novel by Radaba Noureen



بدتمیز عشق
قسط : 14
ردابہ نورین
......................................
"سنا ہے سٹوڈنٹ ویک سٹارٹ ہونے والا ہے. "عثمان نے یوسف سے پوچھا جو ناشتے کے ساتھ خوب انصاف کر رہا تھا..
"جی بھائی دو دن بعد اس کا پیپر ہے.." یوسف ابھی بھی مگن تھا.
"تو پھر میں امید رکھوں.. کہ تم پیپر کلیر کر لو گے.. ؟"
"نہیں بھائی... "
یوسف کی بات نے سب کو چونکا دیا تھا..
"میرا مطلب ہے آپ اس بات پہ یقین رکھیں کہ میں یہ کمپیٹیشن جیت جاؤں گا." یوسف نے اپنی بات کی وضاحت کی تھی وہ جانتا تھا کہ پاپا کچھ بولتے نہیں ہیں پر انھیں اس سے بہت امیدیں ہیں.
"گڈ... تو پھر تم نے کوئی پارٹنر سوچا اپنے لئے.. ع؟"ثمان کو ساری خبر تھی.
"نہیں بھائی! ابھی تو نہیں ویسے بھی اصل صورتحال تو تبھی پتا چلے گی جب انٹری ٹیسٹ کا رزلٹ آئے گا. کون ان کون آوٹ..."
"ہمم یہ بھی ہے..." عثمان نے اس کی بات سے ایگری کیا تھا. "ویسے آل دا بیسٹ. "
"تھینک یو بھائی... "
"اگر تمہیں دیر نہیں ہو رہی ہو تو یونیورسٹی ساتھ چلتے ہیں. "عثمان کی بات نے یوسف سمیت باقی دو لوگوں کو بھی حیران کیا تھا.
"بھائی یونیورسٹی کیوں؟ خیریت ہے... ؟کہیں کوئی لڑکی تو....؟" یوسف اپنی بات ادھوری چھوڑ کر ہلکا سا ہنسا تھا.
"ہاں - خیریت ہے... تمہیں کیوں ڈر لگ رہا ہے ؟؟ ویسے بات تو لڑکی کی ہی ہے. "عثمان نے جان بوجھ کر بات اس طرح شروع کی تھی وہ سب کا ریکشن دیکھنا چاہتا تھا. جبکہ سب ناشتہ چھوڑ اس کی طرف ہی متوجہ ہو گئے تھے. ریکشن اس کے اندازے کے مطابق تھا.
"ارے آپ سب ایسے کیوں دیکھ رہے ہیں، مجھے بس شانزے کے بارے میں کچھ انفارمیشن چاہیے تھی. "عثمان نے مسکراتے ہووے فوک کی مدد سے چیز آملیٹ کا ٹکڑا منہ میں ڈالا تھا.
یوسف کا گلاس کی طرف بڑھتا ہاتھ رک گیا تھا. اس کو کچھ عجیب لگا تھا..
 لیکن اس سے پہلے حسین بولے تھے.
" کیوں ؟؟"
"پاپا اصل میں اس اسلم نے ابھی تک کوئی رابطہ نہیں کیا تو میں نے سوچا ہمیں کچھ اور طریقہ اختیار کرنا چاہیے. پھر مجھے یاد آیا کہ آپ نے کہا تھا کہ شانزے کی شکل زینب پھوپھو کی کاپی ہے، اس دن میں اتنا اپسیٹ تھا کہ سوچ ہی نہیں   پایا لیکن پھر بعد مجھے لگا کہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے وہ ان کی بیٹی ہو۔۔ تو یونیورسٹی سے ہم اس کے پیرنٹس کی ڈیٹیلز لے سکتے ہیں.. اس کا ایڈریس لے سکتے ہیں.. "عثمان اپنی دھن میں بولے جا رہا تھا. جبکہ اس کی باتوں نے یوسف کا روم روم سوچوں میں ڈوبو دیا تھا.
"نہیں اس کی ضرورت نہیں ہے، "حسین کی آواز میں دکھ تھا۔
 تبھی یوسف چونکا تھا (تو کیا پاپا سب جانتے ہیں...)
"لیکن کیوں پاپا؟ ہو سکتا ہے ہمیں کوئی کلیو مل جائے.. "عثمان نے بات جاری رکھی تھی. 
 "بیٹا میں پتا کرا چکا ہوں.. "
عثمان کو حیرت ہوئی تھی اس نے باری باری پاس بیٹھے دونوں لوگوں کو دیکھا تھا. لیکن ماما اور یوسف کا سکون برقرار تھا.
" لیکن کب پاپا ؟؟ "عثمان کی حیرت برقرا تھی.
"میں گیا تھا.. جب شانزے گھر آئی تھی اسکے فوراً بعد... مجھے لگا تھا کہ وہ زینب کی بیٹی ہے لیکن شاید یہ بس ایک اتفاق ہے.کیونکہ اسکے ماں باپ کا نام کچھ اور تھا وہاں کہیں بھی زینب کا یا اس کے شوہر کا نام نہیں تھا..."
یوسف کے چہرے پے ایک سایہ سا آکر گزرہ تھا. (کیا پاپا کو بتا دوں کہ شانزے... یہ وقت ٹھیک نہیں ہے اور پھر مجھے تو خود ابھی تک کچھ نہیں پتا تو...  نہیں نہیں وقت سے پہلے یہ سب ٹھیک نہیں ہے اور پھر اگر سچ میں شکل ملنا اتفاق ہوا تو... شانزے پہ کیا بیتے گی، پہلے ہی اس کو کتنا سننا پڑا تھا... نہیں میں اسے تکلیف نہیں پہنچا سکتا.) 
"اوہ – "عثمان کے منہ سے سرد آہ نکلی تھی.. جیسے اس کی تلاش بھی ختم ہو گئی ہو. جبکہ یوسف کے لئے سوچ کے نئے دروازے کھول گئے تھے. بہت کچھ یاد آنے لگا تھا... اس کی کالی آنکھیں جو ہمیشہ اسے کھنچتی ہیں... اس پہ ہمیشہ رعب جماعتی ہیں... پہلی دفعہ جب اس نے شانزے کو دیکھا تھا تو دیکھتا تبھی اس کی آنکھوں کے رنگ نے ہی اسے متوجہ کیا تھا کالا رنگ اتنا گھیرا تھا جیسے ہر چیز اپنے اندر ڈبونے کی صلاحیت رکھتا ہو اور پھر بلا ارادہ ہی اس نے اپنے پرینک کے لئے اس کو سلیکٹ کیا تھا. لیکن آج اسے احساس ہوا تھا وہ ویسی ہی ہے جیسی حسین اور کلثوم کی ہے بچپن میں کتنا شوق تھا اسے کہ اس کی آنکھیں بھی ایسی ہوتیں گہری کالی پر اس نے اور عثمان نے آنکھوں کا رنگ شاہینہ سے لیا شہد رنگ... لیکن شانزے، اس نے شاید اپنی ماما سے رنگ لیا تھا وراثت میں. وہ بہت کچھ کہنا چاہتا تھا پر رک گیا تھا.
.......................................
شانزے یونیورسٹی پہنچی تو پتا چلا وارث پریشان ہے کچھ ہوا تھا شاید لیکن کیوں ہے یہ پتا نہیں چلا تھا. اور فی الحال وہ پتا لگا بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ وہ خود کلاس کے لئے لیٹ ہو رہی تھی.
" شکرہے سر نہیں آئے ابھی تک.." اس نے صبا کے برابر بیٹھتے ہوئے کہا تھا...
"شکر... تم آگئیں میڈم... کیونکہ سر ابھی کچھ دیر پہلے ہی باہر گئے تھے. وہ محسن کا مسئلہ حل کرنے..." صبا نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا تھا.
"اوہ ہاں - کیا ہوا ہے میں نے دیکھا وہ کافی اپ سیٹ تھا. "شانزے کو یاد آیا.
"کچھ نہیں یار بس وارث کا فائنل پروجیکٹ کا پیپر ورک کہیں مس ہو گیا ہے بس اسی کو ڈھونڈ ڈھونڈ کے پاگل ہو گیا ہے بیچارہ کیونکہ کل جمع کروانے کی لاسٹ ڈیٹ ہے. ابھی شاید سر سے بھی یہی بات کر رہا تھا تاکہ اس کو تھوڑا ور ٹائم مل جائے ."
"وہاٹ... ؟یہ کب ہوا...؟" شانزے کو جھٹکا لگا تھا. فائنل پروجیکٹ کا پیپر ورک مس ہو جانے کی اہمیت وہ جانتی تھی.
"کل ہوا ہے... آئی ڈی میں جانے سے پہلے شاید..." صبا نے مزید انفارمیشن فراہم کی تھیں.
"اوہ -  یہ تو برا ہوا۔۔ بیچارے کی ساری محنت گئی... "شانزے کو سچ میں دکھ ہوا تھا.
"ہاں... پر بیوقوف کو سوفٹ کاپی رکھنی چاہیے تھی." صبا نے عقلمندانہ مشورہ دیا تھا. 
"ہاں یہ تو ہے... پر اب کیا کیا جا سکتا ہے... اور یہ دونوں کہاں گیئں ان کا بھی کچھ گم ہوگیا ہے کیا... ؟"شانزے کا اشارہ مہک اور زارا کی طرف تھا جو دیکھائی نہیں دے رہی تھیں.
"ان کا کچھ گم نہیں گیا، خراب ہو گیا ہے." صبا نے جل کے کہا تھا.
"کیا ؟ "شانزے کو حیرت ہوئی تھی.
"دماغ اور کیا..." صبا نے منہ بناتے کہا تھا.
جب کہ شانزے کو ہنسی آئی تھی.
سر مستنصر کلاس میں آگئے تھے اس لئے وہ دونوں ان کی طرف متوجہ ہو گئیں تھیں.
"سر کچھ پتا چلا؟" آگے بیٹھی صفیہ نے سر کو مخاطب کیا تھا.
"نہیں ابھی تو کچھ نہیں.." سر مستنصر کچھ پریشان تھے.
"آپ کو کیا لگتا ہے. کسی نے جان بوجھ کر کیا ہے ؟؟"  اب کی بار ایک دوسرے سٹوڈنٹس کی طرف سے کیا گیا تھا.
"میرا نہیں خیال کوئی سٹوڈنٹ جان بوجھ کر ایسا کرے گا. "سر مستنصر کے لہجے میں بولتے یقین نے کو کافی تسلی دی تھی.
"سر ہو سکتا ہے کسی کی شرارت ہو.."
"سر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کسی نے وارث سے بدلہ لینے کے لئے ایسا کیا ہو.. وی آل نون ہز ریکارڈ از ناٹ ٹو گڈ."
مختلف سٹوڈنٹس اب اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے جب کہ شانزے کے ١٠٠ کی سپیڈ میں بھاگتے دماغ کو اب بریک لگا تھا.
"شرارت... بدلہ... "
"اوہ - تو یہ تم ہو... تمہارے علاوہ کوئی ہو بھی کیسے سکتا ہے. یہ بات میں کیسے بھول گئی. "شانزے نے زیر لب بڑبڑایا تھا غصے کی ایک لائن اس کے ماتھے پہ ابھری تھی. خیالوں میں اس نے یوسف کی ہڈیاں چبا ڈالیں تھیں.
"چلیں...؟؟؟ "صبا نے اسکے سامنے چٹکی بجائی تھی.
"کہاں... ؟"شانزے نے حیرت سے صبا کو پوچھا.
"کلاس ختم ہو گئی ہے... "صبا نے گھورا تھا...  
"کیا... ؟سر گئے... ؟"
"میڈم بیہوش آپ ہو کے بیٹھیں تھی۔۔ سر نہیں ۔۔سمجھیں... "وہ دونوں چیزیں اٹھاتی کلاس سے نکلی تھیں.
"تم چلو میں آتی ہوں.." شانزے سوچنے والے انداز میں بولا تھا.
"کہاں...؟" صبا پہ بیزاری چھائی تھی.. پہلے زارا اور مہک اور اب شانزے....
"کہا ناآتی ہوں، "شانزے کہتی چلی گئی تھی.
.......................................
"یوسف تمہیں پتہ ہے وارث کا فائنل پروجیکٹ کا کورس ورک گم ہو گیا ہے. "یوسف جو ابھی پہنچا تھا، رانیہ نے اپنی طرف سے بریکنگ نیوز دی تھی.
"ہاں پتہ ہے." یوسف نے انتہائی اطمینان سے جواب دیا تھا. لیکن رانیہ اور محسن دونوں کچھ مشکوک ہوئے تھے.
"تمھیں کیسے پتہ ؟؟ تم تو ابھی آئے ہو نا؟"رانیہ کا انداز ابھی کچھ عجیب سا ہی تھا.
"یار ابھی  اس وقت یہ یونیورسٹی کی ہاٹ نیوز ہے. باہر سٹوڈنٹس بات کر رہے تھے سن لیا." یوسف کا اطمینان برقرار تھا.
"اوہ - آئی سی... "رانیہ نے سکھ کا سانس لیا تھا.
"ویسے جس نے بھی کیا اچھا نہیں کیا. ایک سٹوڈنٹ ہو کر دوسرے سٹوڈنٹ کو نقصان پہنچانا یہ تو اچھی بات نہیں. "محسن نے بات کو جاری رکھا تھا.
"ہاں تم کہہ تو ٹھیک کہہ رہے ہو، لیکن دیکھنا جس نے بھی کیا ہے وہ بھی کامیابی حاصل نہیں کر سکے گا، ارے نکمے ہوتے ہیں پڑھا جاتا نہیں ہے تو دوسروں کے نوٹس اور چیزیں چراتے ہیں. لیکن اینڈ میں ہوتا یہی ہے فیل ہو جاتے ہیں اور اپنا سا منہ لے کے یونیورسٹی میں سے نکل جاتے ہیں. تم دیکھنا یہ جو کوئی بھی کامیاب نہیں ہو سکے گا."
"شٹ اپ رانیہ.. "یوسف غصے سے جھنجلایا تھا." تم یہ کیا بی گریڈ موویز کی ہیروئن کی طرح بددعائیں دے رہی ہو. ہو سکتا ہے وہ خود کہیں چھوڑ آیا ہو، یا پھر کسی نے مذاق کیا ہو... ؟"یوسف نے بری طرح اس کو جھڑکا تھا۔
 رانیا کو شاک لگا تھا پر اس سے پہلے وہ کچھ کہتی محسن بول پڑا تھا.  
"اچھا کون کرے گا ایسا مذاق یہ بھی بتا دے.؟"  اس کی سوال کرتی آنکھوں نے یوسف کی بولتی بند کر دی تھی. اور محسن کو ایک سیکنڈ سے بھی کم ٹائم لگا تھا جاننے میں کے اس سب پیچھے کون ہے.
"یوسف میر...." اسے اپنے پیچھے سے آواز آئی تھی. اور آواز کسی اور کی نہیں شانزے حسان کی تھی.
رانیہ اور محسن دونوں کو شاک لگا تھا. لیکن یوسف کے سارے تنے ہوے اعصاب ڈھیلے پڑ گئے تھے اور ایک فاتحانہ مسکراہٹ اس کے چہرے پہ پھیل گئی تھی. جو اس کی جیت کا علان کر رہی تھی.
"ایکسکیوز می... تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہمارے بیچ بولنے کی..؟؟" رانیہ کو آگ لگ گئی تھی شانزے کو دیکھ کر۔۔ وہ جتنا یوسف کو شانزے دور رکھنا چاہ رہی تھی اتنا ہی اس کا انٹرسٹ شانزے میں بڑھتا جا رہا تھا. لیکن وہ دونوں ہی اس کو نظر انداز کر گئے تھے.
یوسف اور شانزے قدم قدم ایک دوسرے کی طرف بڑھ رہے تھے، محسن کو لگا آج پھر کوئی ہنگامہ ہونے والا ہے. اس لئے محسن اور رانیہ بھی دونوں یوسف کی طرف بڑھے تھے.
"مجھے تم سے بات کرنی ہے." شانزے نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھا تھا. جب کے یوسف کی آنکھیں مسکرا رہی تھیں. 
"بولو... "یوسف کی ڈھیٹائی عروج پہ تھی.
 "مجھے اکیلے میں بات کرنی ہے." شانزے ہونٹ بھینچے تھے.
"کیوں؟ ایسی کیا بات ہے جو تم یہاں نہیں کر سکتیں.؟" رانیہ نے خونخوار نظروں سے اسے دیکھا تھا جس کا کوئی بھی اثر ان دونوں پہ نہیں ہوا تھا.
"شٹ اپ ... تمہاری ہمت کیسے ہوئی ہمارے بیچ بولنے کی." شانزے نے اس کے ہی الفاظ لوٹا دیے تھے.
اور اب کی بار نہ صرف یوسف کو بلکہ محسن کو بھی جھٹکا لگا تھا. لیکن شانزےکا اطمینان برقرار تھا.
"کیا ہم بات کر سکتے ہیں..؟" شانزے نے دوبارہ پوچھا تھا..
"شیور..." یوسف کہتا اس کے پیچھے چل پڑا تھا اس بات کو بالکل نظرانداز کرتا کہ رانیہ نے اسے روکنے کی کوشش کی. وہ دونوں اب کینٹین سے باہر جا رہے تھے. محسن اگرچہ کچھ حد تک سمجھ گیا تھا پر رانیہ وہ ہر بات سے انجان ان کو ہی جاتا دیکھ رہی تھی. اس کے دل کی حالت اس کی آنکھیں بہت صاف انداز میں بیان کر رہی تھیں پر یہاں فکر ہی کسی کو تھی. جس کے لئے وہ اپنا آپ جلا رہی تھی اس کو تو رتی بھر پرواہ بھی نہیں تھی.رانیہ کی نظروں نے تب تک دونوں کا پیچھا کیا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گئے.
.......................................
وہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے تھے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے. ایک کی نظروں میں پیار ہی پیار تھا، تو دوسری کی نظریں فی الحال شعلے برسا رہی تھیں کیوں وہ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا. پر پھر بھی انجان بنتے بولا.
"کیسی ہو. ؟؟"
جواباً شانزے نے اسے بھر پور انداز میں گھورا تھا.
"اوہ -  آنکھیں تو بتا رہی  ہیں ٹھیک ہو "یوسف نے آرام سے لائبریری کے پاس بنی چھوٹی دیوار پہ بیٹھتے کہا تھا.
جبکہ شانزے ابھی تک اس کو ویسے ہی گھور رہی تھی.
"جانتا ہوں ہینڈسم ہوں اور ڈارک بلیوکلر مجھے سوٹ بھی کرتا ہے،  تو اس کا مطلب یہ بھی نہیں کے تم دیکھتی رہو. "اس نے خالص لڑکوں کے سے انداز میں شرٹ کی سلوز کو کہنیوں تک فولڈ کیا تھا. وہ واقعی بہت ہینڈسم لگ رہا تھا.
"اب بولو بھی کیا بات ہے یا صرف دیکھنے کے لئے ...؟"
"وارث کی پروجیکٹ رپورٹ دو. "شانزے نے اسے بات مکمل نہیں کرنے دی تھی. وہ جانتا تھا کہ وہ اس بارے میں پوچھے گی لیکن اس کے یقین سے بھرے انداز نے یوسف کو جھٹکا دیا تھا.
"تمہیں کیا لگتا ہے، میں نے وارث کا پروجیکٹ چھپایا ہے...؟ "یوسف نے نہایت معصوم شکل بنائی تھی.
"نہیں.. مجھے لگتا نہیں ہے.." شانزے نے اپنے مطمئن انداز میں بات شروع کی تھی. اور یوسف نے اپنا کالر جھاڑا تھا..
"مجھے پورا یقین ہیں کہ یہ تم نے ہی کیا ہے.. "شانزے نے بات مکمل کرتے ہوئے  ہاتھ اس کے آگے پھیلایا تھا. لیکن اس کے  یقین سے بھر پور انداز پہ یوسف کا منہ حیرت سے کھل گیا تھا.
لیکن دوسرے ہی لمحے وہ اپنے انداز میں لوٹ آیا تھا.
"چلو ایک بات تو ثابت ہوئی ہم دونوں ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح سے جان گئے ہیں.. کیوں ؟؟" یوسف کی شوخیوں بھری نظروں نے شانزے کا احاطہ کیا تھا.
"یوسف میں اس وقت مذاق کے موڈ میں نہیں ہوں. "اس کے لہجے میں ناراضگی اتری تھی.
OMG" شانزے... سیم ہیئر.. میں بھی بہت سیریس ہوں.. "یوسف اب واقعی بہت سنجیدہ لگ رہا تھا.
"مجھے وارث کا پروجیکٹ چاہیے.. "
"سوری وہ میں نہیں دے سکتا.."
"کیوں یوسف... ؟کیوں تم اس کی محنت برباد کر رہے ہو ؟" شانزے چڑ گئی تھی.
"میں نہیں تم کر رہی ہو.." یوسف نے دوبدو جواب دیا تھا.
"میں..؟ میں نے کیا کیا ہے.. ؟"شانزے کچھ حیران ہوئی تھی..
"اوہ -  واؤ... پوچھا تھا نا تم سے کیا کہہ رہا ہے وارث۔۔؟" اب وہ اپنے بیگ میں کچھ تلاش کر رہا تھا۔" اور تم نے ہی کہا تھا کہ پتا لگا لوں.. تو پتا لگا لیا..."اب وہ اس کے سامنے وارث کی فائل لہرا رہا تھا.
"تم... تم نے اتنی سی بات کے لئے اتنا ہنگامہ کیا..؟؟ سوچا ہے اگر یونیورسٹی میں کسی کو پتہ چل گیا تو تمہارے خلاف ایکشن لے سکتے ہیں یا تمہیں نکالا بھی جا سکتا ہے... ؟"شانزے الجھی تھی.
"نکال دیں... "یوسف نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں دیکھ کے کہا تھا جو اس کے لہجے کی حمایت کر رہی تھیں.
"وہ صرف خیریت پوچھ رہا تھا. سوری کر رہا تھا اپنے کیے کی. "شانزے نے افسوس سے اسے دیکھا تھا.  
"ہمم... بات تو اتنی سی ہی ہے..." یوسف نے شانزے کا ہاتھ پکڑا تھا. "پر شانزے حسان تم سے جڑی کوئی بات میرے لئے اتنی سی نہیں ہوتی. "اس نے وارث کی فائل اس کے ہاتھ میں تھما دی تھی اور خود وہاں سے چلتا بنا تھا. اور شانزے نے وہ فائل سچ میں اپنے سر پہ دے ماری تھی.
.......................................
"مس کلثوم !آپ کو کیا لگتا ہے. وارث سچ بول رہا ہے. ؟"ڈین موئن زبیری جو پچھلے آدھے گھنٹے سے مس کلثوم اور چانسلر حماد طاہر کے ساتھ میٹنگ میں تھے آخرکار اپنے اندر اٹھتے سوال کو پوچھ ہی بیٹھے تھے.
"کیوں ڈین صاحب آپ کو کوئی شک ہے.؟" چانسلر نے مخاطب کیا تھا.
"سر ہم سب جانتے ہیں وارث کو ۔۔۔اس کے کارنامے کسی سے بھی چھپے نہیں ہیں. اور ہو سکتا ہے یہ بھی کچھ ایسا ہی ہو."
"اور مس کلثوم آپ تو اچھی طرح جانتی ہیں لاسٹ ٹائم بھی اس نے کچھ ایسا ہی کیا تھا شانزے والا معاملہ تو آپ کو یاد ہو گا نا.. "اب کے موئن صاحب نے باقی دو لوگوں کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تھا..
حماد صاحب تو سچ میں لاجواب ہو گئے تھے.
"لیکن ڈین صاحب اگر وہ سچ کہہ رہا ہوا تو ؟ اور ویسے بھی ہم اساتذہ ہیں ہمارا کام سٹوڈنٹ کو سیکھ دینا ہے. اور اس کی بات نہ سن کر کے ہم اسے کیا سیکھ دیں گے ؟ ایک بار وارث سے بات کر کے دیکھتے ہیں اگر کوئی حل نہیں نکلا تو ہم اسے وقت دے سکتے ہیں ایک ہفتے کا ۔۔اس میں وہ اپنا پیپر ورک کمپلیٹ کر سکتا ہے."
"میرا خیال ہے مس کلثوم ٹھیک کہہ رہی ہیں. آپ وارث کو بلوائیں. "حماد طاہر نے ان کے جواز کو سراہا تھا.
"سر میں بلوا چکی ہوں. "مس کلثوم نے کہا ہی تھا کہ وارث آگیا .
"آئیے وارث بیٹھے ۔۔"مس کلثوم نے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا تھا.
.......................................
"کیا کہ رہی تھی وہ ؟"رانیہ کا صبر جواب دے چکا تھا.
"کچھ خاص نہیں بس ایسے ہی..."یوسف نے بات ٹالی تھی. اس کے الفاظ اور انداز ایک دوسرے سے میل نہیں کھا رہے تھے.
" اچھا تو پھر ایسی کون سی بات تھی جو وہ یہاں سب کے سامنے نہیں کر سکتی تھی. ؟"رانیہ کا انداز بگڑا تھا.
"اس کی ہمت دیکھی مجھے تمہاری بیسٹ فرینڈ کو کہتی ہے بیچ میں نہ بولوں اور تم.... تم نے ایک دفعہ بھی اسے کچھ نہیں کہا. "
"یار رانیہ! تم بھی نہ بات کو کہاں سے کہاں لے جا رہی ہو. تھی اس کی پرسنل بات وہ نہیں کرنا چاہ رہی تھی کسی کے سامنے اس میں بڑی بات کیا ہے ؟ اور تم ہمیشہ اس کے ساتھ زیاتی کرتی ہو پر میں نے تمہیں کچھ بولا ؟؟ اور بھی فیلوز ہیں جن سے میں بات کرتا ہوں پر تم تب تو ایسے ریکٹ نہیں کرتیں پھر شانزے پہ کیوں ؟ کیا ہو گیا ہے تمہیں.؟" یوسف کا یہی مسئلہ تھا وہ بولنے پہ آتا تو اپنی ساری بھڑاس نکل دیتا تھا یہ لحاظ کیے بغیر کے سامنے والے پہ کیا گزرے گی.
"مجھے نہیں تمہیں کچھ ہو گیا ہے.. دیکھ رہی  ہوں آج کل بہت سائیڈ لینے لگے ہو اس کی ؟ کہیں ایسا تو نہیں تمہارا بیسٹ فرینڈ بدلنے کا ارادہ ہو ؟؟ "رانیہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے.
 یوسف کو شرمندگی ہوئی تھی اس کا مقصد اس کا دل دکھانا نہیں تھا .
" رانیہ پلیز میرا یہ مطلب نہیں تھا..." وہ مزید کچھ کہتا پر وہ وہاں ٹھری نہیں چلی گئی...
"رانیہ پلیز میری بات سنو...."
"کیا ہوا اسے؟ یہ کہاں گئی ؟؟" محسن یوسف کو سٹنگ کا کین پکڑایا تھا..
"کچھ نہیں ناراض ہو گئی ہے.. "
"اب کیا کیا تو نے...؟" محسن اس کے ساتھ بیٹھا تھا،
"یار کیا مطالب کیا کیا تو نے ؟؟ تم سب کو کیا لگتا ہے سب کچھ میں ہی کرتا ہوں ؟" یوسف ناراض ہوا تھا.
"نہیں میرے بھائی لگتا نہیں ہے یقین ہوتا ہے. "اس نے اپنے کین سے سپ لیا تھا.
 "یہ تو شانزے کی زبان مت بولا کر پلیز.." یوسف نے ہاتھ جوڑے تھے.
"میں کیوں بولنے لگا اس کی زبان... مجھے نظر نہیں آتا کیا۔۔ پہلے وارث پھر شانزے اور اب رانیہ... چل کیا رہا ہے یہ سب.. ؟"محسن نے سیدھی سیدھی بات کی تھی.. جب کہ یوسف کی آنکھیں حیرت سے پھٹی تھیں.
"ایسے مت دیکھ میں جانتا ہوں ... اس وقت ہی جان گیا تھا جب شانزے تیرے پاس آئی تھی. کیوں کیا تو نے ایسا ؟؟"
"کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا.. اور پھر شانزے بھی تو مجھے چڑا رہی تھی، تو میں کیا کرتا جو سمجھ آیا کر دیا.. "یوسف نے کوئی انتہائی درجے کا فضول جواب دیا. کم از کم محسن کو یہی لگا تھا.
"یہ سوچے بغیر کے کسی کو پتا چلا تو کیا ہو گا ؟؟ تیری کمپلین ہوگئی تو ؟؟"
"مجھے انجام کی پرواہ نہیں ہے.. "یوسف بھی ڈھیٹوں کا ڈھیٹ تھا.
"محسن، یوسف... پروجیکٹ... پروجیکٹ مل گیا وارث کا... "عمر نے ہانپتے ہوئے بولا...
"وہ شانزے ہے نا اس کو.. وہ لے کے گئی ہے مس کلثوم کے پاس.."عمر نے اٹک اٹک کے بات پوری کی تھی.
جبکہ یوسف اور محسن نے ایک دوسرے کو دیکھا... جہاں محسن کی آنکھوں میں صاف لکھا تھا۔
 " لے بھگت اب".  
.......................................
"وارث میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں."
"جی میم... "
"آپ کو پورا یقین ہے کہ پروجیکٹ مس ہو گیا ہے ؟"
"جی میم مجھے پورا یقین ہے. "وارث کچھ پریشان ہوا تھا.
"کہیں ایسا تو نہیں کسی نے جان بوجھ کر نکل لیا ہو ؟؟ میرا مطلب ہے آپ کو کسی پے شک ؟؟ ماشاللہ سے آپ کے کافی خیر خواہ ہیں..." موئن صاحب نے وارث کو ٹوکا تھا نہ جانے وہ کیا جاننا چاہ رہے تھے.
"نہیں سر ایسا کچھ نہیں ہے میرا نہیں خیال کسی نے  ایسا کچھ کیا ہو گا. اور سر جو آپ کہنا چاہتے ہیں میں سمجھ رہا ہوں پر مجھے نہیں لگتا.. "وارث شاید کچھ اور بھی کہتا پر وہ بھی باقی لوگوں کی طرح شانزے کی آواز پہ چونک گیا تھا.
"سر میں کچھ کہنا چاہتی ہوں آپ سب سے.." شانزے نے اندر آتے کہا تھا.
سب لوگ پوری طرح سے اس کی جانب متوجہ تھے.
"پروجیکٹ میرے پاس ہے۔" شانزے نے ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر کہا تھا،
جبکہ سامنے بیٹھے سارے لوگوں پہ اس کے الفاظ بم کی طرح گر رہے تھے.. سب کے چہروں پہ مختلف سوال تھے۔
"آپ کے پاس ؟؟ پر کیسے ؟؟" مس کلثوم نے پوچھ  ہی لیا.
جبکہ شانزے اسی کشمکش میں تھی کہ وہ سچ بولے یا نہیں... اور جھوٹ بولنا تو ہمیشہ اس کے اصولوں کے خلاف رہا ہے تو پھر اب کیسے وہ اپنے اصول توڑ دے وہ بھی یوسف کے لئے...
.......................................
"شانزے بولئے آپ چپ کیوں ہیں. ؟"مس کلثوم نے اس سے شش وپنج میں دیکھتے ہوئے کہا..
"میم مجھے وارث کا پروجیکٹ کل لائبریری میں ملا تھا. میں وہاں بکس لینے گئی تھی تو وارث بھی وہاں تھا.  تبھی شاید اس کے بیگ سے گر گیا تھا.
جب میں واپس آئی تو وارث وہاں نہئں تھا اس لئے میں نے اٹھا لیا. پر میں دینا بھول گئی.
ابھی پتا چلا کہ اس بات کو لے وارث کافی پریشان ہے. تو میں اسے دینا چاہتی تھی پر وہ یہاں آپ لوگوں کے ساتھ تھا.
اس لئے میں آپ کے پاس آگئی." شانزے نے فائل ٹیبل پہ رکھی تھی جسے وارث نے آگے بڑھ کے اٹھا لیا تھا.
"تھینک یو شانزے... تم نے مجھ پہ احسان کیا ہے. تم نہیں جانتی میں نے کتنی محنت کی ہے اس پہ. " وارث اپنی دھن میں بولے جا رہا ہے خوشی کے تاثرات اس کے چہرے پہ واضح تھے.
"شانزے یو آر سچ آ نائیس اینڈ اونیسٹ  سٹوڈنٹ. آئی ایم رئیلی پاروڈ آوف یو." ڈین صاحب نے شانزے کو سراہا تھا.
وہ سب ہی اب شانزے کو مختلف انداز میں سراہا رہے تھے.
جب کہ شانزے کو لگا وہ سارے تعریفی الفاظ اس کے دل کے آر پار ہو رہے ہیں.
اس نے یوسف کو بچانے کے لئے جھوٹ بولا تھا. اور کتنی آسانی سے سب نے یقین کر لیا تھا.یہ بات اسے بے سکون کرنے کے لئے کافی تھی.
" میں چلتی ہوں سر میری کلاس کا وقت ہو رہا ہے. "شانزے نے جان چھڑانے کے لئے سب سے آسان بہانہ بنایا تھا.
.........................................
"شانزے... شانزے..."
شانزے آفس سے باہر نکلی تھی کے ا سے اپنے پیچھے سے آواز آئی تھی. آواز کس کی تھی وہ بہت اچھی طرح جانتی تھی. لیکن اس وقت وہ اس سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی. جھوٹ تو بول لیا تھا پر اب ضمیر کی عدالت میں خود ہی مجرم  بن بیٹھی تھی اور فلحال یہی گلٹ اسے مختلف کیفیت سے دوچار کر رہا تھا. جس میں سب سے زیادہ نمایاں غصہ تھا. اور یہی وجہ تھی کہ ابھی وہ اس سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی. وہ تیز تیز قدم لے آگے بڑھنے لگی تھی پر تبھی اس نے اکر راستہ روکا تھا.
"میں..... میں تم سے ہی بات کر رہا ہوں......" یوسف نے ہانپتے ہوے کہا تھا تیز چلنے سے اس کی سانس کافی خراب ہو رہی تھی.
"بچانے کے لئے تھینکس... پر اس کی کوئی ضرورت نہیں تھی. "وہ دونوں اب ساتھ ساتھ چل رہے تھے.
"جانتی ہوں میں... "شانزے کا غصہ برقرار تھا.
"تو پھر کیوں بچایا ؟؟" یوسف نے روانگی میں بولا تھا.
"اچھا بننے کی ایکٹنگ کر رہی تھی... دیکھنا چاہتی تھی اچھے لوگ ایسا کیا کرتے ہیں جو دنیا ان کے گن گاتی ہے..." شانزے نے غصے سے دیکھا تھا اسے. یوسف کو ہنسی تو بہت آئی تھی پر فی الحال وہ ہنسنا افورڈ نہیں کر سکتا تھا.
"تم جانتی ہونا تمہارے سکریو ڈھیلے ہیں. "یوسف کی آنکھیں مسکرائی تھیں.
"میرے تو ڈھیلے ہیں، تمہارے تو ہیں ہی نہیں.." وہ بھی شانزے تھی.
"اوہ -  واؤ... سمیلڑٹی ہاں..!! تو پھر فرینڈز..؟" یوسف نے جھک کے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا...
"فرینڈز... وہ بھی تم اور میں... نو... نیور..." شانزے نے ٹکا سا جواب دیا تھا. 
"تو پھر دشمن... ؟"یوسف نے حیرت سے دیکھا تھا...
"نہ دوست... نہ دشمن... میں تم سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتی.. سمجھے" شانزے پاؤں پٹختی چلی گئی تھی.
اور یوسف وہیں کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا تھا-
....................................
شانزے دندناتے ہوے گھر میں گھسی تھی. اس کا پارہ ابھی تک چڑھا ہوا تھا،  کمرے میں آتے ہی اس نے بیگ بیڈ پہ پٹخا تھا. اور اب واش بیسن میں خوا ہ مخوا ہ ہی پانی بہا رہی تھی.
"شانزے باہر آجاؤ یار کیا کر رہی ہو. "اریزے جو اس کا ویٹ کر رہی تھی تنگ اکر بول پڑی.
"کیا ہے کیوں شور کر رہی ہو..؟؟ "شانزے نے ٹاول سے منہ صاف کرتے ہوے پوچھا.
"شور میں نہیں تم کر رہی ہو. یہ کیا طریقہ ہے نا سلام نا دعا سیدھا کمرے میں گھس گئیں کبھی چیزیں پٹخ رہی ہو تو کبھی پانی بہا رہی ہو... اس یوسف کا غصہ ہم پہ کیوں نکال رہی ہو." اریزے کے اتنے صحیح اندازے پر شانزے کا منہ کھل گیا تھا.
"منہ تو بند کر لو ورنہ مکھی چلی جائے گی."
"تم گئیں نہیں آج ؟؟" شانزے نے بات بنائی تھی.
"نہیں گئی... "
"کیوں ؟"
"بس ایسے ہی دل نہیں چاہ رہا تھا... "
"اوہ - دل نہیں چاہ رہا تھا یا عثمان نے نہیں آنا تھا... ؟"شانزے نے اٹیک کرنے کی ناکام کوشش کی تھی.
OMG" - میری کیٹ مجھ پہ اٹیک...  اور ویسے بھی تم باس کا نام لے کے بات بدل نہیں سکتیں سمجھیں،" اریزے نے اسے پاس رکھا  کشن کھنچ کے مارا تھا."  چلو شاباش جلدی بتاؤ کیا کیا یوسف نے... "اریزے نے مزے لیتے ہوئے کہا.
"اریزے تم کتنی خراب ہوتی جا رہی ہو نا... اور یہ تم کسی کی سائیڈ ہو میری یا اس کی... ؟"شانزے نے رونی شکل بنائی تھی.
"او... مائی لو... تمہاری سائیڈ پہ پر... چلو اب بتا بھی دو."
 اور شانزے اسے آج کے کارنامے سے آگاہ کرنے لگی..
"بس...؟؟" اریزے نے حیرت سے پوچھا...
"کیا بس...؟؟؟ تمہارا کیا مطلب ہے وہ وارث کو اٹھا لیتا اتنی سی بات کے لئے، ؟"شانزے کو شاک لگا تھا.
"ارے نہیں یار میرا وہ مطلب نہیں تھا... "
"تو پھر کیا مطلب ہے..؟؟"
"یہی کہ اتنا سب ہونے کے بعد جسٹ فرینڈز...؟؟؟ مجھے تو اس کی انسکیورٹی سے لگا کہ ڈائریکٹ شادی کے لئے ہی پرپوز کرے گا.. "اریزے نے اطمینان سے کہا..
"کیا شادی... تم پاگل تو نہیں ہوں گئیں..؟؟؟ وہ اور میں کبھی نہیں.." شانزے چیخی تھی....
"ہاں شادی... جب ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے ہو تو شادی بھی تو ہو گی نا ۔۔دیکھو یہ پاکستان ہے اور الحمدوللہ ہم مسلمان ہیں.. تو ہمارے ہاں شادیاں ہی ہوتی ہیں.  "
"اریزے تم بھی نا کچھ بھی بولتی رہتی ہو بنا سوچے سمجھیں... اس نے بس میری ہیلپ کی تھی اور کچھ نہیں. "
"اور اس لئے تم نے اس کے لئے جھوٹ بولا ٹھیک ؟؟ "اریزے نے گہری نظروں سے دیکھا تھا..
"کیوں دھوکہ دے رہی ہو؟خود اس کے لئے تمہارا دل بدل چکا ہے یہ بات تم بھی جانتی ہو میں بھی پھر مان کیوں نہیں لیتی؟ کب تک تم دونوں ایک دوسرے سے یونہی آنکھ مچولی کھیلتے رہو گے.. "اب وہ شانزے کو سمجھا رہی تھی.
"ایسا کچھ نہیں ہے جیسا تم سوچ رہی ہو... ورنہ وہ کچھ تو بولتا کبھی، بتا دیتا ویسے بھی وہ کون سا کسی سے ڈرتا ہے.. "شانزے کا لہجہ اداس ہو گیا تھا آخرمیں.
"ہمم بات تو تمہاری ٹھیک ہے... کچھ نہیں بولتا یہ تو مجھے بھی حیرت ہے بٹ جہاں تک اشاروں کا تعلق ہے تو یہاں تم غلط ہو یہ وارث والا معاملہ تو سیدھا سیدھا اشارہ ہے.. لیکن اگر تم خود نہیں سمجھنا چاہ رہیں تو پھر اس میں وہ تو قصور وار نہیں ہے نا... "اریزے نے اس کے سر پہ ہلکے سے ہاتھ مارا تھا..
"اف اریزے پہلے وہ اور اب تم پلیز مجھے معاف کر دو.. اور پڑھنے دو کل سٹوڈنٹ ویک کمپیٹیشن کے لئے انٹری ایگزیم ہے. اور اگر میں فیل ہو گئی نا تو گئی اسکالر شپ میرے ہاتھوں سے...."
"اچھا چلو پڑھو میں کچھ کھانے کو لاتی ہوں ٹھیک ہے..."اریزے کہتی چلی گئی تھی.
......................................
اریزے کہاں جا رہی ہو بیٹا.. می جانی نے فکر مندی سے پوچھا تھا.
"اف می جانی آفس اور کہاں... "
"آفس... پر باہر موسم تو دیکھو آج تو بارش ہوئی کی ہوئی... ایسا کرو آج تم آف کر لو۔" می جانی مشورہ دے ڈالا تھا.
"اوہو۔۔ می جانی یہ بدل کراچی ہیں کہ برسنا ان کی قسمت میں کہاں... آپ یونہی پریشان ہو رہی ہیں. اور ویسے بھی میں نے کل آف کیا تھا، تو پھر آج دوبارہ کیسے کر لوں ؟؟" اریزے نے اپنا بیگ اٹھاتے کہا...
"جاؤ.... تم بھی جاؤ... پہلے شانزے اور اب تم... "می جانی نے ناراض ہوتےہوئے کہا تھا..
"آپ فکر نہ کریں میں وجی بھائی کو بلالوں گی ٹھیک ہے..."   اریزے نے لاڈ سے گلے میں ہاتھ ڈالے تھے. "آپ کو پتا ہے نا آپ دنیا کی سب سے پیاری ماں ہیں..."
"بس بس... زیادہ مکھن مت لگاؤ... اب دیر نہیں ہو رہی تمہیں... چلو جاؤ شاباش اور دھیان سے جانا اچھا...."
"اوکے موم.... شام کو ملتے ہیں..."
...........................................
"بس کرو شانزے کتنا پڑھو گی یار ایک کمپیٹیشن ہی تو ہے.. "زارا اکتا گئی تھی پچھلے ٣ دن سے وہ ایسے ہی مصروف تھی. انٹری ٹیسٹ کی وجہ سے بہت سے سٹوڈنٹ اس میں پارٹیسییپٹ نہیں کر رہے تھے اور جو کر رہے تھے وہ سب ایک دوسرے کے لئے بہترین کومپیٹیٹر ثابت ہونے والے تھے. جن لوگوں نے حصہ نہیں لیا تھا ان میں سے ایک گروپ شانزے کا بھی تھا.شانزے کے علاوہ کسی کو بھی ان سب میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا.
"مجھے پتا ہے لیکن یہ میرے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے اس لئے میں یہ کمپٹیشن ون کرنا چاہتی ہوں.."  اس نے کتاب پہ نظریں رکھے ہوئے کہا.
"شانزے آل موسٹ یونی کا ہر سٹوڈنٹ اس میں پارٹیسییپٹ کر رہا ہے لیکن جیتیں گے صرف دو لوگ  تو کیوں تم خود ہلکان کر رہی ہو.. اور ویسے بھی تمہارا ایڈمشن تو ١٠٠% اسکالرشپ پہ اور کیا چاہیے تمہیں۔۔۔ اتنا لالچ اچھی بات نہیں ہوتی.." زارا نے تو کمال صاف گوئی دکھائی تھی.
"زارا میں لالچی نہیں ہوں.. جو اسکالر شپ مجھے ملی ہے وہ ایک NGO نے دی ہے.. جو عام طور پر لوگوں کے ڈونیشن  سے دی جاتی ہیں. جبکہ یہ یونیورسٹی کی اپنے فنڈ سے ملے گی. یہ کمپٹیشن جیتنے کے بعد میں NGO کی  سچولورشپ کسی دوسرے سٹوڈنٹ کو ڈونیٹ کر دوں گی اور ویسے  بھی میں نہیں چاہتی کوئی مجھے مس چریٹی بولے..."
"اوہو تو یہ مسئلہ ہے اور ویسے تمہیں کب سے رانیہ کی باتوں کا اثر ہونے لگا...؟؟؟ دیکھو شانزے ہر سٹوڈنٹ یہی خواہش رکھتا ہے کہ وہ جیتے.. اور پھر سوچو اگر تم ہار گئی تو ؟؟ "اب کی بار مہک نے سمجھانے کی کوشش کی تھی..
"نہیں ایسا نہیں ہے کہ رانیہ مجھ پہ اثر انداز ہو رہی ہے. پر کبھی کبھی کچھ باتیں آپ کے دل کو لگی ہی جاتی ہیں یونہی بےوجہ... اور ویسے بھی موت کے ڈر سے کیا ہم جینا چھوڑ دیتے ہیں ؟؟ نہیں نا...  تو پھر ہار کے ڈر سے کمپیٹیشن میں پارٹیسییپٹ کرنا کیوں بند کر دیں ؟؟ ہار اور جیت تو الله کے ہاتھ میں ہے... ہاں... میں کوشش ضرور کروں گی مجھے پورا یقین ہے الله پہ۔۔ وہ مجھے مایوس نہیں کرے گا... انشاللہ... "
OMG" شانزے تم کیسے اتنا دور تک کا سوچ لیتی ہو۔۔ یقین کرو میں اگر لکی ون میں جو ڈاٹ پہ کھڑی ہوں نا تو ال کرم تک کا نہیں سوچ سکتی.. "زارا نے اپنے بال شولڈر سے پیچھے کیے تھے. زارا ایسی ہی تھی برانڈ کونشیس..
"مس برانڈڈ کبھی ان سے باہر آکر بھی دیکھو دنیا میں بہت کچھ ہے دیکھنے کو... "شانزے کو ہنسی آئی تھی...
"ہاں تم ٹھیک کہہ رہی ہو... دیکھ تو رہی ہوں..."مہک نے پیچھے کھڑے یوسف کو دیکھتے ہوئے کہا تھا جو جانے کب وہاں آگیا تھا. شانزے نے بھی پیچھے مڑ کے دیکھا تھا.
"تم... ؟شانزے کے تیور چڑھے تھے..
"کیوں؟ تم کسی اور کا انتظار کر رہی تھیں..؟" یوسف اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ اور اس کا انداز خاصا چڑانے والا تھا اور شانزے چڑ بھی گئی تھی. ویسے ہی وارث والے حادثے کو لے اس کا موڈ اب تک خراب تھا.
"تمہیں اس سے مطلب... تم اپنا بتاؤ کیوں آئے ہو..؟"  شانزے نے تڑخ کے جواب دیا تھا. اپنی کالی گہری آنکھوں سے یوسف کو گھورا تھا. غصے سے اس کی ناک لال ہو رہی تھی اس کی سانولی رنگت میں گھولتی لالی یوسف کو اپنی طرف کھنچ رہی تھی. وہ اسے گھنٹوں ایسے ہی دیکھ سکتا تھا پر ابھی وہ جس وجہ سے آیا تھا وہ زیادہ اہم تھا.
"تمہیں بتانے کے لئے۔۔ آڈی کھل گئی ہے اور سب لوگ اپنا انٹری نمبر لے کے پہنچ بھی گئے ہیں بس ایک آپ ہی ہیں جو یہاں خوش گپیوں میں مصروف ہیں.." یوسف نے تینوں پہ چوٹ کی تھی اور جواباً ان سب نے اسے گھورا تھا. 
"اوہ - شٹ... "شانزے نے گھڑی دیکھی تھی.. اور اب جلدی جلدی چیزیں سمیٹنے لگی.
"پانچ منٹ لیٹ ہو چلو اب جلدی.."  یوسف اس کی پھیلی ہوئی بکس اس کو دیتا پہلے ہی بول پڑا تھا..
"اوکے میں تم لوگوں سے بعد میں ملتی ہوں.. "شانزے نے اپنے گروپ کو کہا اور چلتی بنی. 
"تھینکس... "شانزے نے شکریہ ادا کیا تھا... وہ دونوں اب ساتھ ساتھ چلتے آڈی کی طرف جا رہے تھے.
"نو نیڈ... ٹو سے ایور..." یوسف نے اترا کر کہا تھا..
"کیوں ؟؟ تم نے میری ہیلپ کی ہے...؟" شانزے دوبارہ سوال کیا تھا..
"میں نے تمہاری نہیں بلکہ اپنی ہیلپ کی ہے..."
"مطلب... ؟میں سمجھی نہیں... "شانزے کچھ حیران ہوئی تھی..
"مطلب یہ کہ مس شانزے حسان ایک آپ ہی تو ہیں جو اس کومپٹیشن میں مجھے ٹکر دینے والی ہیں. ورنہ تو جیتنا میرے بائیں ہاتھ کا کام تھا. لیکن میں نہیں چاہتا کہ  مقابلہ کے بغیر ہی میں جیت جاؤں سمجھیں..  "
"مطلب کچھ بھی... خواہ مخواہ... نہیں ؟؟" شانزے آنکھیں مسکرائیں تھیں.. "خیر ٹیسٹ کے لئے آل دا بیسٹ..."
"آل دا بیسٹ ٹو یو ٹو... "یوسف نے جواباً اسے کہا تھا. وہ دونو ں اپنی اپنی سیٹ پہ بیٹھ چکے تھے. سیٹس نزدیک تھیں پر اتنی بھی نہیں... لیکن پھر بھی وہ شانزے کو صاف دیکھ سکتا تھا...
"کچھ بھی... خواہ مخواہ... "وہ زیرِ لب مسکرایا تھا...
......................................
"اوکے سٹوڈنٹس... ناؤ لسن ٹو می ویری کیئرفلی.. دس ٹیسٹ ٹوٹلی بیسڈ اون ملٹیپل چوائس کوئیشین - MCQ ٦٠ ان ٣٠ منٹ اونلی... ٣٠ میٹس کے بعد آپ کو کوئی ٹائم نہیں دیا جائے گا... بحث کرنے کی وجہ سے آپ کا ٹیسٹ منسوخ بھی کیا جا سکتا ہے. ٹاپ ٢٠ جونیئرز سے اور ٹاپ ٢٠ سٹوڈنٹس سینئرز سے لئے جائیں گئے..  مارکس کی اناوسمینٹ کل صبح یہاں آڈی میں ہی کی جائے گی. اور مارکس کی بیس پہ ہی آپ لوگوں کی ٹیم بنائی جایئں. اس دیٹ کلیئر؟؟ "مس کلثوم نے پوری اناؤسمنٹ کرنے کے بعد سٹوڈنٹس سے کنفرمیشن کی تھی..
"یس میم... "پورے ہال میں سٹوڈنٹس کی آواز گونجی تھی.
"ناؤ اسٹارٹ یور ٹیسٹ.. آل دا بیسٹ ٹو آل آوف یو... "مس کلثوم اسٹیج سے اتر گئیں تھیں اور ہال میں بیٹھے سارے سٹوڈنٹس اپنی پوری توجہ سے ٹیسٹ کرنے میں جت گئے تھے.
.....................................
ٹائم ختم ہو گیا تھا. سٹوڈنٹس اب باہر نکل رہے تھے. یوسف شانزے سے بات کرنا چاہتا تھا پر وہ کہیں بھی نظر نہیں آرہی تھی. تبھی رانیہ نے یوسف کو آواز دی تھی.
"یوسف... یوسف..."
اس کی دوسری آواز پر یوسف نے اسے دیکھ لیا تھا."کیسے ہو ؟؟ "
"میں ٹھیک ہوں تم کیسی ہو ؟؟"
 "میں بھی ٹھیک ہوں... ناراض ہو مجھ سے ؟؟" رانیہ پوچھ بنا ءنہیں رہ پائی تھی.
"نہیں کیوں ناراض ہوں گا تم سے ؟؟"
"تو پھر مجھ سے ایک بھی بار بات کیوں نہیں کی ؟؟"
"تم جانتی ہو نا ٹیسٹ کے لئے بزی تھا... اور ویسے بھی تم نے کون سا مجھ سے بات کی ؟" یوسف کے لہجے میں نہ چاہتے ہوے بھی ناراضگی امڈ آئی تھی.
"مجھے لگا تم مجھ سے خفا ہو بس اس لئے..  لیکن مجھے اپنے الفاظ کا افسوس ہے.. اس لئے کل کے لئے سوری مجھے خیال کرنا چاہیے تھا.."
"رانیہ میں تم سے خفا نہیں ہوں۔۔ نہ ہو سکتا ہوں ۔۔ہم دوست ہیں بچپن سے۔۔ ایک دوسرے کو جانتے ہیں. تم سے معافی منگوانا میرا  مقصد نہیں تھا. لیکن میری دوست کسی کے لئے غلط الفاظ استعمال کرے یہ بھی مجھے پسند نہیں اور جس رانیہ کو میں جانتا ہوں وہ ایسی تو کبھی نہیں تھی، ہاں تھوڑی پاگل ضرور ہے پر.... "یوسف اپنے رنگ میں لوٹ آیا تھا...
جبکہ رانیہ کو غصہ آیا تھا..
"تم تم مجھے پاگل کہہ رہے ہو.... "
"ہاں تو آج تک پاگلوں کو پاگل ہی کہا گیا ہے... "
"تم کبھی نہیں سدھر سکتے... "رانیہ نے غصے سے کہا تھا..
"ہاں وہ تو ہے.. "یوسف خود تو وہاں تھا پر اس کی نظریں تو کہیں اور ہی تھیں..
"کیا ہوا ؟کس کو ڈھونڈ رہے ہو...؟"
" کچھ نہیں وہ شانزے کو دیکھ رہا تھا.. پتا نہیں کہاں چلی گئی ہے۔۔ تم رکو میں ذرا اس کو دیکھ کے آتا ہوں.. "
یوسف بنا ءرانیہ کا ریکشن دیکھ وہاں سے چلا گیا تھا.. اور رانیہ کی اب سے کچھ دیر والی کیفیت بھانپ بن کر غائب ہو گئی تھی.
......................................
"کیا ہوا کس کی  ہڈیاں چبا رہی ہو...؟" رانیہ کینٹین میں بیٹھی سنکس کھا رہی تھی جب عمر نے آکر پوچھا تھا...
"کسی کی نہیں... "
"کسی کی توہے... تمہارے انداز سے تو ایسا ہی لگ رہا ہے..."
"عمر... پلیز یار میرا موڈ پہلے ہی بہت خراب ہے.. اس وقت نہیں..."
"تو یقیناً یہ کریڈٹ بھی یوسف کو جاتا ہو گا ہے نا...؟؟؟"
رانیہ نے کچھ کہا نہیں تھا پر جن نظروں سے دیکھا تھا.. وہ ہی کافی تھیں۔
"تم کیوں یوسف کے پیچھے خود  کو ختم کر رہی ہو رانیہ؟"عمر نے اپنا راستہ صاف کرنے کی کوشش کی تھی..
"میں خود ختم نہیں کر رہی... وہ شانزے مجھے ختم کر رہی ہے۔۔ جب سے وہ یوسف کی زندگی میں آئی ہے. یوسف پوری طرح سے بدل گیا ہے اس کی ہر بات میں شانزے شانزے... میں تنگ آگئی ہوں اس سے... اسے خود سے زیادہ ۔۔۔مجھے سمجھ نہیں آتا کب اور کس وقت وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آگئے.."
"شاید اس دن جب یوسف نے اسے... "عمر کسی اور ہی سوچ میں تھا جب اس کے منہ سے نکلا... "خیر چھوڑو.."
"یوسف نے اسے کیا؟؟؟" لیکن رانیہ نے اس کی بات پکڑ لی تھی..
"کچھ نہیں یار بس ایسے ہی..." عمر نے ٹالنا چاہا تھا..
"عمر میں تم سے کچھ پوچھ رہی ہوں... کیا کیا یوسف نے... ؟"رانیہ اب کی بار کافی شکی لہجے میں پوچھا تھا.
"کچھ نہیں یار بس اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا تو یوسف نے اسے ڈاکٹر کے ہاں دکھایا تھا.. اور پھر گھر چھوڑنے گیا تھا... "عمر نے جان چھڑانے والے انداز میں جلدی جلدی بات مکمل کی تھی...
"وہاٹ گھر چھوڑا تھا...کب.. کس دن ؟؟"  رانیہ نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا تھا...
" بس کرو بتا تو دیا ہے... تم بھی نہ کتنا شک کرتی ہو یار..."
 لیکن رانیہ کا انداز ابھی تک مشکوک سا تھا...
..................................................   
شانزےیوسف کا انتظار کر رہی تھی وہ جانتی تھی وہ ضرور آئے گا. لیکن موبائل کی ٹون بار بار اسکا دھیان بتا رہی تھی.
تنگ آکر اس نے فون نکالا جہاں سکرین پہ پرائیویٹ نمبر چمک رہا تھا. شانزے نے کال پک  کر لی تھی.
"اسلام وعلیکم... آپ شانزے بات کر رہی ہیں.. ؟"بھاری بھرکم آواز میں کہا گیا..
"جی... لیکن آپ کون ؟؟" شانزے نے کچھ پریشان ہوتے پوچھا تھا.
"میں کون ہوں...اس بات سے زیادہ انٹرسٹڈ آپ یہ بات جانے میں ہوں گی کہ آپ کا کڈنیپ کس نے کیا تھا.؟"
لفظ تھے یا بم.. شانزے کو اپنے کانوں پہ یقین نہیں آرہا تھا...
جب کہ کال کرنے والے نے شانزے کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ انڈیلنا شروع کر دیا تھا...
شانزے کو وہ لمحہ لمحہ زمین میں دھنس رہی ہے...
"کیا ثبوت ہے کہ آپ سچ بول رہے ہیں... ؟"شانزے نے کمزور سی آواز میں احتجاج کیا تھا.
"اس سے بڑھ کے ثبوت کیا ہو گا کہ شانزے حسان جس کے لہجے کی مضبوطی سے پوری یونیورسٹی واقف ہے. اس کا لہجہ اس وقت خود اس کے لئے انجان ہوگیا..."
تابوت میں آخری کیل ٹھوک دی تھی...
شانزے وہیں زمین پے بیٹھتی چلی گئی تھی...
اس کا اعتماد... اس اعتبار سب خاک ہو گیا تھا.    
................................................
جاری ہے



CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING



Comments