Badtameez ishq novel by Radaba Noureen Episode 15

Badtameez ishq novel by Radaba Noureen



بدتمیز عشق
قسط : 15
ردابہ نورین
......................................
"آپ جھوٹ بول رہے ہیں.. "شانزے نے کمزور آواز میں کہا تھا.
"کبھی سوچا ہے آپ نے.. کہ شہر کی سب سے بڑی یونیورسٹی سے کڈنیپ ہونا.. کتنی اہمیت رکھتا ہے.. یہ کام صرف وہ کر سکتے ہیں جو یونیورسٹی سے اچھی طرح واقف ہوں.. یا پھر وہ جن کے تعلقات یونیورسٹی انتظامیہ تک اچھے ہوں.. بہرحال میرا کام صرف بتانا تھا.. منوانا نہیں... 
اگر اب بھی میری بات پہ یقین نہیں ہے تو پھر اس سے پوچھ لیں کہ اس دن وہ کون سا حسین اتفاق تو جو اسے وہاں لے آیا تھا.. "یہ آخری وار تھا جو بھر پور طریقے سے کیا گیا تھا..." مجھے یقین ہے آپ کو جواب ضرور ملے گا.."
لائن کٹ چکی تھی، شاید تبھی آواز آنا بند ہو گئی تھی.
لیکن شانزے کے دل و دماغ میں ایک طوفان برپا تھا... آوازوں کا طوفان مختلف لوگوں کی آوازیں...
وہ زمین پہ بیٹھی تھی.. اپنے آس پاس کے لوگوں سے بےخبر دل و دماغ کی جنگ میں مبتلا..
دل تھا کہ اس کے خلاف کچھ بھی سننے کو تیار نہ تھا.... اور دماغ دل کی کسی وضاحت کو تسلیم نہیں کر رہا تھا..
وہ رونا چاہتی تھی پر شدت غم آنسو جم گئے تھے شاید...
چیخنا چاہتی تھی پر آواز کہیں اندر ہی گھٹ رہی تھی...
ابھی تو اعتبار کرنا سیکھا تھا... اور پہلے مرحلے میں ہی وہ منہ کے بل گر گئی تھی.
...............................................
"اوے کہاں پھر رہا ہے... گھر نہیں جانا کیا...؟ "محسن جو بہت دیر سے یوسف کو ڈھونڈ رہا تھا اس کو گوشمالی کرتے دیکھ کر پوچھ بیٹھا.
"کہیں نہیں یار... بس شانزے کو ڈھونڈ رہا تھا.. پتا نہیں کہاں گم ہے مل ہی نہیں رہی.. "
"تجھے اور کوئی کام نہیں رہ گیا کیا..؟؟ جب دیکھو ناکام آوارہ عاشقوں کی طرح شانزے شانزے کرتا رہتا ہے... شرم تو تجھے دو ٹکے کی نہیں ہے.. لڑکی ہے وہ... جانتا ہے لڑکیوں کی عزت کتنی نازک ہوتی ہے.. اگر کسی نے سن لیا تو وہ کیا اثر لے گا..؟؟ سوچا ہے کبھی ؟؟ اس بیچاری کی عزت کا خیال کر لو تھوڑا.. ہر وقت شانزے شانزے... "محسن نے عجیب تپے ہوئے انداز میں کہا تھا..
"وہاٹ... ناکام ہارا ہوا عاشق.... تیرا دماغ ٹھیک ہے.. بھول مت تو یوسف میر سے بات کر رہا ہے.. اور میں نے آج تک کبھی ہار نہیں مانی تو محبت میں تو سوال ہی نہیں اٹھتا. اور ویسے بھی بڑی بیچاری لگ رہی ہے اب تجھے، اس وقت وہ بیچاری نہیں تھی جب تونے اس کا نام مس مرچی پاؤڈر رکھا تھا."
"دیکھ یوسف بات مت گھما وہ پہلے کی بات تھی... جب ہماری شانزے سے..."
"او بس کر دے بھائی.... پہلے کی بات اوراب کی بات.... مجھ سے زیادہ تو، تو اس کا نام لے رہا ہے دو منٹ کی بات میں ٥ دفعہ اس کا نام لیا ہے اور بول مجھے رہا ہے... تو میری GF کی طرح انسیکور ہو رہا ہے..؟؟"یوسف کو ہنسی آگئی تھی.. جبکہ محسن کا منہ بن گیا تھا...
"اوکے... دیکھ لی یار ہم نے تیری یاری... آج کے بعد میں تجھ سے بات نہیں کروں گا... "محسن نے جذباتی ہوتے کہا تھا..
"چل کوئی نہیں آج تو کر لے گا نا.. "یوسف نے اس کے گلے کا ہار بنتے کہا تھا.. اور محسن کو ہنسی گئی تھی۔
"ہنسا تو مطلب پھنسا.." یوسف نے اس کے گال میں انگلی ٹھونسی تھی...
"آؤچ... کیا کر رہا ہے..." محسن اس کو پیچھے دھکیلا تھا...
"خزانہ دریافت کر رہا تھا۔" یوسف نے ڈھیٹوں کی طرح ہنستے ہوئے کہا...
"مجھے اگر ایک خون معاف ہو جائے نا تو یقین کر یوسف میں وہ صرف تیرا کروں گا..."
وہ دونوں ہنسنے میں مصروف تھے جب پاس سے جاتی صبا کو دیکھا، کافی جلدی میں تھی،اور چہرے سے ہی کافی پریشان لگ رہی تھی..
"کیا ہوا صبا، سب خیریت ہے..؟؟؟" یوسف نے اس کو آواز دی تھی..
"ہاں... وہ شانزے پتا نہیں کہاں ہے کب سے ڈھونڈ رہی ہوں مل کے ہی نہیں دے رہی..." وہ عجلت میں کہتی آگے بڑھ گئی تھی.. 
"وہاٹ.. ایک منٹ... رکو ۔"یوسف نے اسے روکا تھا.. "آخری بار کب ملی تھی تمہیں ؟ "
"یار ٹیسٹ سے پہلے تمہارے سامنے تو بول رہی تھی... کہ واپس آکر ملے گی ہم کب سے انتظار کر رہے ہیں.. پر آئی نہیں... ابھی تک ۔۔اب تو زیادہ تر اسٹوڈنٹس جا بھی چکے ہیں.." صبا کی آواز میں پریشانی نمایاں تھی. 
"اوکے ریلیکس... ہم کینٹین کی طرف دیکھتے ہیں، تم لائبریری کی طرف دیکھو،کہاں جائے گی بس یہیں ہو گی... "اس نے صبا کو تسلی دی تھی.. جبکہ اندر سے وہ خود بھی ڈر رہا تھا.
....................................................
کینٹین کے علاوہ وہ اور بھی جگہ دیکھ چکے تھے.. پر کہیں بھی شانزے کا کوئی نام و نشان نہیں تھا اور اسے کسی نے دیکھا بھی نہیں تھا..  یوسف اب سچ میں کچھ پریشان ہوا تھا.
"میرا خیال ہے شانزے لائبریری میں ہی ہو گی اور ہو سکتا ہے صبا کو مل بھی گئی ہو وہیں چلتے ہیں۔" محسن نے مشورہ دیا تھا اور وہ دونوں لائبریری کی طرف بڑھ گئے تھے.
صبا چاروں طرف عجیب نظروں سے دیکھ رہی تھی. جب سامنے سے آتے دونوں دکھائی دیئے.
"کیا ہوا ملی ؟؟؟" اس نے یوسف پوچھا.
"نہیں..... "یوسف نے مختصر جواب دیا تھا.
"ہو سکتا ہے وہ گھر چلی گئی ہو.. "محسن نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا.
"نہیں، ایسا نا ممکن ہے.. "صبا نے اس کی بات کاٹی تھی." وہ صرف فون لے کے گئی تھی.اس کا بیگ میرے پاس ہے ،اس کی سب چیزیں میرے پاس ہیں.. کیسے جا سکتی ہے.. "
"فون... ؟تم نے اسے فون کیا..؟؟ "
"ہاں یوسف پر وہ نہیں اٹھا رہی ،کتنی بار میں نے ملایا یہ دیکھو.. "اس نے اپنا فون یوسف کو تھمایا تھا جہاں کوئی ٢١ مرتبہ کال ملائی گئی تھی..
یوسف اب اس کے فون میں سے نمبر نکال کر اپنے فون سے ملا رہا تھا. جب کہ محسن صبا کو تسلیاں دے رہا تھا.
تبھی فون بجنے کی آواز نے صبا کو چونکایا تھا.
" یہ... یہ تو شانزے کے فون کی رِنگ ٹون ہے.. "
"آواز وہاں لائبریری کے پیچھے سے آرہی ہے.. آؤ دیکھتے ہیں۔" صبا آگے بڑھی تھی. جب کہ یوسف نے اور محسن ایک دوسرے کی شکل دیکھی تھی ،یہ وہی جگہ تھی جہاں سے انہوں نے شانزے کو.... وہ دونوں اب صبا کے پیچھے گئے تھے.
 "شانزے........ "جب صبا کی آواز نے ان کو ٹھٹکا دیا تھا.
"شانزے کیا ہوا ہے.. تم.. یہاں ایسے کیوں بیٹھی ہو... ؟"صبا شانزے کو سنبھال رہی تھی، 
جب کہ وہ دونوں اپنی جگہ ساکت تھے.. خطرے کا الارم بجنے لگا تھا..
"کیا ہوا ہے شانزے کچھ تو بولو پلیز.. تم یہاں کیا کر رہی ہو.. تم نے تو... "صبا بولے جا رہی تھی جبکہ شانزے نے اب تک ایک لفظ نہیں بولا تھا.. "پلیز شانزے کچھ کہو تم بول کیوں نہیں رہیں... کیا ہوا ہے کسی نے کچھ کہا ہے کیا.. ؟کسی نے کچھ کیا...؟" بولتے بولتے صبا کی آواز بھرانے لگی تھی۔ اس کی پیاری دوست زمین پہ بیٹھی مٹی کا ڈھیر ہی لگ رہی تھی.. جیسے ایک ہلکا سا ہاتھ لگا ور وہ بکھر جائے گی..
یوسف کے دل میں ایک ہوک اٹھی تھی.. پر اس پہلے کہ کوئی کچھ بولتا شانزے کو جیسے ہوش آیا تھا.. وہ اپنی جگہ سے اٹھتی یوسف کی طرف بڑھ رہی تھی۔
 (اس میسنی کے لئے رو رہی ہو. جو جانے کہاں چھپی بیٹھی ہے اور یہاں ہمیں تھانے اور پولیس کے چکروں میں پھنسا رہی ہے.. تائی جان کی آواز کانوں میں گونجی تھی) اس کی آنکھیں اتنی سفاک تھیں جیسے ہر رشتے ہر احساس سے عاری ہوں...
"شانزے کچھ بولو تو..." صبا نے پیچھے سے آواز دی تھی پر وہ ایک خواب کی سی کیفیت میں یوسف کی طرف بڑھ رہی تھی..
(ایک بار پھر کانوں میں آواز گونجی تھی - تم لوگ خواہ  خوا ہ پریشان ہو رہے ہووہ جہاں گئی ہے اپنی رضامندی سے گئی ہے، اس لئے ہم پولیس میں نہیں جا سکتے کیا منہ دکھائیں گے پورے شہر کو)۔
یوسف کو لگا اس کی جزا و سزا کا وقت شرو ہو گیا ہے وہ یہ تو نہیں جانتا تھا کہ کیا ہوا ہے پر کچھ تھا جو یوسف ہولا رہا تھا.. اس کی طرف بڑھتی ہوئی شانزے اسے بہت اجنبی سی لگی تھی..
جب کہ شانزے کے دماغ میں ہونے والے شور نے اس کو پوری طرح سے کنٹرول کر لیا تھا. اسے کچھ یاد تھا تو صرف وہ باتیں جو اس دن اس نے اپنے لئے سنی تھیں..
 (وہ دو ٹکے کی لڑکی کیسی کالک مل رہی ہے ہمارے منہ پہ، جانے کس کا گندا خون ہے۔ تایا جان کے الفاظ اس کے کانوں سے ٹکرائے تھے).
یوسف اور شانزے اب ایک دوسرے کے مقابل کھڑے تھے.. نا جانے کیا تھا اس کی آنکھوں میں جس نے یوسف کو نظریں جھکانے پہ مجبور کر دیا تھا..
"ابھی تو میں نے بات شروع بھی نہیں کی اور تم نے..." شانزے طنزیہ مسکرائی تھی....
"ایسا کیا کیا ہے تم نے جو تم نظریں چرا رہے ہو..؟؟   "
 "شانزے یہ تم کیا بولے جا رہی ہو.." صبا نے مداخلت کی تھی. جس کا شانزے پہ کوئی اثر نہیں ہوا تھا...
اس کے کانوں میں پاپا کی آواز گونجی تھی ( بیٹی ہے وہ میری.. میرے دل کا سکون ہے.. )
"کیا کر رہے تھے اس دن تم وہاں..؟؟: شانزے نے پورے اعتماد سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھا تھا..
یوسف اپنی جگہ ساکت تھا..نہ بتانے کی ضرورت تھی کہ وہ کسی دن کی بات رہی ہے، اور نہ پوچھنے کی ضرورت تھی.. وہ بہت اچھی طرح جانتا تھا کہ کس دن کی بات کر رہی ہے.. سیکنڈ کے ہزرویں حصے میں وہ سمجھ گیا تھا کہ شانزے کی اس حالت کی وجہ وہ سچ ہے جو وہ اسے چھپا رہا تھا... اہ کتنے دل سے چاہتا تھا وہ کہ شانزے کو کبھی خبر نہ ہو اس کی حرکت کی.. آخر کیا منہ دیکھائے گا وہ شانزے کو.. لیکن کسی نے صحیح  کہا ہے جھوٹ کی عمر لمبی نہیں ہوتی تو پھر  اس کے جھوٹ کی عمر کیسے لمبی ہو سکتی تھی... عجیب سی کیفیت نے یوسف کو جھکڑاکیا تھا ندامت.. افسوس... دکھ... وہ کون سا تاثر تھا جو نہیں تھا پر فی الحال شانزے کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا..
"بولو یوسف تم وہاں کیوں تھے...؟؟؟" شانزے دبی دبی آواز میں چلائی تھی لیکن غصہ صاف ظاہر تھا.
"دیکھو شانزے ہم آرام سے بات کر سکتے ہیں... تم جو سمجھ رہی ہو وہ.." محسن، یوسف کی صفائی کے لئے آگے بڑھنا چاہ  رہا تھا جب یوسف نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا تھا...
"یوسف لیکن... "محسن کچھ بولتا اس سےپہلے اس نے اسے  ہاتھ کے اشارے منع کیا تھا.
"یہ سب کیا ہے... "صبا کچھ پریشان تھی... وہ کچھ بولتی لیکن محسن نے اس کو چپ رہنے کو کہا تھا.
"شانزے میں مانتا ہوں میں نے تمہیں کڈنیپ کیا تھا... پر میرا مقصد تمہیں... "
"بس... "وہ کچھ بولتا شانزے نے ہاتھ اٹھا کے اسے روکا تھا. "کیوں کیا تم نے ایسا؟ تم جانتے ہو کیا کچھ ہو سکتا تھا؟وہ کتنے گندے تھے... جانتے ہو وہ کیا کرنا چاہتے تھے...؟؟؟"
"شانزے... میں معافی مانگتا ہوں.. مجھے انداز نہیں تھا بات اتنی بگڑ جائے گی.."
"تمہیں اندازہ نہیں تھا..؟ لیکن کیوں؟ ایک سوچے سمجھے پلان میں تم نے یہ پہلو کیوں نہیں سوچا تھا... یا پھر یہی تمہارا ارادہ تھا... پر بد قسمتی تمہارے ساتھ تم سے پہلے اپنا حصہ وصول کرنے پہنچ گئے..."اس کی آنکھوں میں نفرت تھی..
"اسٹاپ اٹ.. شانزے پاگل ہو گئی ہو کیا ،میں کبھی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا... تم نے کیسے سوچ لیا کہ میں اتنا گر سکتا ہوں..." اس نے شانزے کو دونوں بازوں سے پکڑ کے جھنجوڑا تھا..
صبا اور محسن دونوں ہی ڈر گئے تھے لیکن ان دونوں میں ہی اتنی ہمت نہیں تھی کہ کچھ بولتے...
"سوچا تو میں نے یہ بھی نہیں تھا کہ اس سب کے پیچھے تم ہو گے.." شانزے اس کا کالرپکڑا تھا.. "لیکن تم ہو یوسف... کیا کیا تھا میں نے جو تم نے یہ سب پلان کیا... کیوں یوسف تم نے ایک بار یہ نہیں سوچا کہ میرے ساتھ کیا ہو سکتا تھا..
تم نے ایک بار یہ نہیں سوچا کہ کسی رسوائیاں میرے حصے میں آسکتیں تھیں..
کیوں یوسف.. کیوں کیا تم نے... ؟تم نے سنا تھا اس دن سب کچھ... کیسے کیسے خطاب دئیے گئے تھے مجھے۔۔ سوچو اگر کچھ ہو جاتا تو ؟؟ میں کیا منہ دکھاتی کسی کو ؟؟ "شانزے رو پڑی تھی..اس کی تکلیف کا اندازہ اس کے آنسوؤں سے لگایا جا سکتا تھا یوسف صدمے سے بول نہیں پا رہا تھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ شانزے کو کیسے یقین دلائے جو اس کا کالر پکڑے سراپہ سوال بنی تھی...
 "پلیز شانزے مجھے معاف کر دو، مجھ سے..."
"نہیں یوسف... کبھی نہیں ،،،میں نے بنا غلطی کے کتنا کچھ سنا...تم جانتے ہو کتنے تکلیف دہ  الفاظ تھے وہ... میری ذات کی کس قدر دھجیاں اڑائیں گئیں، تم سب سنتے رہے، ایک بار تم نے نہیں کہا کہ یہ سب تمہارا کیا دھرا ہے، صرف تمہاری وجہ سے.. معافی مانگنے کا حق تم کھو چکے ہو.. میں تمہاری شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی... تو پلیز آج کے بعد میرے سامنے مت آنا..." وہ کہتی آگے بڑھ گئی تھی.. اور یوسف میں اتنی ہمت نہ تھی کہ اسے روک سکتا...
...............................................
"کیا بات ہے...؟" اریزے نے شانزے سے پوچھا تھا.. لیکن وہ اپنی پوزیشن میں ہی لیٹی رہی تھی. جیسے سو رہی ہو...
"شانزے میں بیوقوف نہیں ہوں.. مجھے پتہ ہے تم جاگ رہی ہو... تو پلیز بنو مت۔۔ سیدھی طرح  شرافت سے اٹھو.. اور بتاؤ منہ شریف کیوں سوجا ہوا ہے." اس نے شانزے کی اوڑھنے والی چادر کھنچی تھی. وہ جانتی کہ کچھ بات ضرور ہے. صبح تک  اس کا موڈ کافی فریش تھا اور وہ کافی ایکسائڈیڈ تھی پر جب سے واپس آئی تھی. ایسا کچھ بھی نہیں تھا.. وہ کافی سیریس دکھائی دے رہی تھی اور چپ چپ بھی.. اور یہی بات اریزے کو پریشان کر رہی تھی.  
"اریزے جاؤ یہاں سے مجھے کوئی بات نہیں کرنی..  "شانزے نے چادر سر تک کھنچتے کہا تھا..  
"یہ تو مجھ پتہ ہے کہ پھر یوسف نے کچھ کیا ہو گا. پر کیا، یہ تو بتا دو ورنہ مجھے ساری رات  نیند نہیں آئے گی.". اریزے اپنی دھن میں تھی. اس لئے اسے احساس نہیں ہوا کہ معاملہ کافی سیریس ہے.
"اپنا منہ نا بند رکھو اور کوئی ضرورت نہیں اس بدتمیز، جاہل، بیہودہ انسان کا نام لینے کی.. آج کے بعد اگر تم نے اس کا نام لیا نا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا.. "وہ جو اٹھ بیٹھی تھی دوبارہ دھپ سے تکیے پہ لیٹ گئی تھی.
"وہ تو اب بھی کوئی نہیں، چلو پھر بتاؤ مجھ کیا ہوا.. "شانزے کی رونی صورت دیکھ کے اس سے اندازہ تو ہو گیا تھا بات کافی بگڑی ہوئی ہے لیکن وہ جانتی تھی کہ ابھی اس نے اپنا دل ہلکا نہ کیا تو وہ ایسے ہی خود کو تکلیف دیتی رہے گی..
"پلیز اریزے مجھے کچھ بات نہیں کرنی بس..."
"اوکے مت بتاؤ... میں بھی نہیں بتاؤں گی کہ میں کتنی اداس ہوں.. مجھے تو لگا تھا ہم اپنا دکھ شیئر کر سکتے ہیں لیکن ٹھیک ہے اگر تم نہیں بتانا چاہتی تو مجھے بھی کیا ضرورت پڑی ہے. لوگوں کی بہنیں ان کی بیسٹ فرینڈز ہوتی ہیں اور ایک میری بہن ہے..." اریزے کے لہجے سے اداسی صاف ظاہر تھی..
"کیا ہے یار کبھی تو سمجھا کرو میرے جذبات کو.. بندہ سچ میں پریشان ہو سکتا ہے دکھی ہو سکتا ہے پر یہ تمہاری فضول قسم کی کامیڈی اسے تو اگلے کی اور ہٹ جاتی ہے." شانزے نے بیٹھتے ہوئے کہا تھا۔
"اب کیا کروں جو ہے بس یہی ہے گزارا کر لو اس سے ہی.. "اریزے نے اس کا منہ چوما تھا.
"اچھا اب بس کرو زیادہ پیار مت دکھاؤ." شانزے نےبناوٹی غصے سے بولا تھا..
"ٹھیک تو پھر بتاؤ جلدی.. کیا ہوا ہے..."
"اوکے پہلے تم ایک کپ چاے پلاؤ اچھی سی.. "شانزے نے فرمائش کی تھی..
"واہ کیا موڈ خراب ہے میڈم کا.. اس سے تو اچھا تھا تم لیٹی ہی رہتیں.. "اریزے تپ گئی تھی. "کوئی ایسا غم نہیں ہے جس میں تم چائے پینا چھوڑ دو... "وہ پاؤں پٹختی اٹھ گئی تھی.
"اوپر لے آنا..." شانزے نے پیچھے سے کہا تھا اور پھر وہ بال لپٹتی چھت کی طرف بڑھ گئی تھی.
.........................................................
چاے صرف بہانہ تھی اریزے سے تھوڑی دیر کے لئے جھٹکارہ پانے کے لئے... کیوں ابھی تک تو وہ خود اس بات کو تسلیم نہیں کر پا رہی تھی کہ یہ سب سچ ہے یا جھوٹ... تو پھر وہ اریزے کو کیا بتاتی.. لیکن یوسف نے خود مانا ہے اس بات کو کیسے نظر انداز کر سکتی تھی...
" کیوں کیا اس نے ایسا، کیا وہ اتنی نفرت کرتا ہے مجھ سے... تو پھر وہ سب کیا ہے جو میں نے اس کی آنکھوں میں محسوس کیا.. کیا مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ا سے پہچاننے میں...
ابھی تو بھروسہ کرنے لگی تھی اس پہ اور اس نے... "ایک آنسو اپنی حدود سے باہر نکل گیا تھا.. شانزے بڑی بے رحمی سے اسے صاف کیا تھا...
"یہ لو گرم گرم چائے..." اس نے ایک کپ شانزے کو تھمایا تھا. اور دوسرا خود لے کر بیٹھ گئی تھی۔
"کتنی ٹھنڈی ہوا ہے نا... جانتی ہو ہر مشکل اپنے ساتھ آسانی لاتی ہے ویسے ہی الله جی نے دن کے ساتھ رات بنائی تاکہ جب بندہ دنیا کی خود غرضی اور بے مروتی سے تھک ہار جائے تو رات کو اس کی آغوش میں اپنے سارے درد چھپا دے..   اکثر جب دن بہت گرم ہوتا ہے نا تو رات الله جی ٹھنڈی کر دیتے ہیں... تا کہ ان کے بندے اس سے سکون حاصل کریں..
دیکھو کتنی ٹھنڈی ہوا ہے نا،" اریزے شانزے کو پکارا تھا.. اور وہ صرف ہاں میں سر ہلا سکی تھی.. جبکہ چہرہ ہنوز اترا ہوا تھا. اریزے کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کہاں سے بات شروع کرے اگرچہ بات کا اس کو علم نہیں تھا پر اس کی سنگین نوعیت کا علم ضرور ہو گیا تھا.
"اریزے مجھے یوسف نے کڈنیپ کیا تھا.." شانزے کی آنکھوں سے آنسو ٹپکے تھے.. جبکہ وہ کپ کو منہ لگاتے لگاتے   رک گئی تھی اس نے شانزے کو دیکھا تھا جیسے وہ ابھی کہے گی کہ مذاق کر رہی ہے پر وہاں ایسے کوئی آثار نہیں تھے.
"شانزے ہو سکتا ہے تمہیں کوئی..."
"کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی، اس نے خود مانا ہے میرے سامنے.. "شانزے رونے لگی تھی..
"پلیز شانزے.. رو مت.. تم نے پوچھا کیوں نہیں کیوں کیا اس نے ایسا.. ؟وہ تو تم سے.. "
"نفرت کرتا ہے وہ مجھ سے اور اس سے مجبور ہو کے اس نے یہ سب کیا.. "
"نہیں... جتنا تم نے مجھے بتایا اس میں کوئی بات ایسی نہیں جو اس کا حال دل بیان نہ کرے.. ہو سکتا ہے اس نے غلطی سے... "
"غلطی سے.. تمہیں سچ میں لگ رہا ہے..؟؟ یہ ایک سوچا سمجھا پلان تھا.. پوری تیاری کے ساتھ کیا گیا پلان.. تم نہیں جانتی وہ کیسے لوگ تھے.. کیا کرنا چاہتے تھے میرے ساتھ.. اور تمہیں یاد ہے نا گھر میں کتنا ہنگامہ ہوا تھا اس روز.. اور سب اس یوسف کی وجہ سے.. اور وہ سب کے سامنے کتنا اچھا بنتا رہا... پاپا می جانی سب کتنا شکر گزار تھے...  
میں بیوقوف تھی جو سمجھ نہیں پائی.. میرے دماغ پہ پردہ پڑ گیا تھا اور کون ہو سکتا ہے جس سے میری یونیورسٹی میں دشمنی ہو.."
"شانزے تمہیں اس سے بات کرنی چاہیے تھی ایک بار... تم اس سے.." اریزے نے بات سنبھالنے کی کوشش کی تھی.
"بات... سیریسلی...؟؟ کیا بات کروں اس سے وہ سب کچھ مان چکا ہے میرے سامنے.. اس کے پاس کچھ نہیں کہنے کے لئے سوائے سوری کے.. "
"شانزے پلیز ٹھنڈے دل سے سوچو میں مانتی ہوں اس نے بہت بڑی غلطی کی ہے.. لیکن ہو سکتا ہے جذبات میں آکر یا غصے میں اس نے یہ سب کر دیا ہو... اور تم یہ بات کیسے نظر انداز کر سکتی ہو کہ اس نے تمہیں ان لوگوں سے بچایا اور خود گھر چھوڑا.
"میں اس کی وجہ سے مصیبت میں پھنسی تھی، کوئی احسان نہیں کیا اس نے یہ سب کر کے..
شانزے اگر وہ سچ میں نقصان پہنچانا چاہتا تو تمھیں بچاتا ہی کیوں ؟"
"پلیز اریزے بس کرو، میں کچھ نہیں سنا چاہتی... اس نے میرا بھروسہ توڑا ہے.. اس کی وجہ سے میرے ماں باپ نے کتنا کچھ سنا اس دن.. اس کی وجہ سے میں نے وہ وقت کتنی اذیت سے گزارا ہے تم نہیں جان سکتی کبھی... جب وہ آدمی میرے پیروں کو چھو رہا تھا تو کتنی اذیت ہو رہی تھی مجھے.. ان کی گندی نظریں کتنی تکلیف دے رہی تھیں مجھے... کوئی نہیں سمجھ سکتا.." وہ رونے لگی تھی.. "نفرت کرتی ہوں میں اس سے... "
اریزے نے اس سے گلے لگایا  تھا وہ جو کہہ رہی تھی غلط نہیں تھا.. کوئی بھی لڑکی اپنی عزت سے بڑھ کے کسی کو نہیں چاہ سکتی.. لیکن پھر جانے کیوں دل یوسف کو پوری طرح سے قصوروار نہیں مان رہا تھا..
" شانزے  پلیز خود کو سنبھالو.. جذبات میں کوئی ایسا فیصلہ مت کرنا کہ بعد میں پچھتانا پڑے.. "
.........................................
"چل یار گھر چلتے ہیں، بہت دیر ہو گئی ہے... "محسن نے یوسف کو ہلایا تھا جو بہت دیر سے ایک ہی پوزیشن میں بنا کچھ کہے بیٹھا تھا. پچھلے پانچ گھنٹوں سے وہ سمندر کی خاک چاہنے میں مصروف تھے.. اور بلآخر تھک کے ایک قدرے سنسان جگہ پہ بیٹھ گئے تھے.
"بس کر یوسف... کیا ہو گیا ہے تجھے.. "محسن سچ میں پریشان تھا یوسف کی حالت اس سے دیکھی نہیں جا رہی تھی۔
"کیوں خود کو تکلیف دے رہا ہے ہم بات کریں گے نا شانزے سے.. "
"کیا بات.. ؟؟ بات کرنے کو اب بچا ہی کیا ہے سب ختم ہو گیا.. "محسن کو لگا اس کی آواز کسی کھائی سے آئی ہو..
"نفرت کرتی ہے وہ مجھ سے... میری شکل تک نہیں دیکھنا چاہتی...اس نے مجھے صفائی دینے کا ایک موقع تک نہیں دیا.. وہ سمجھتی ہے وہ آدمی میرے بھیجے ہوئے تھے کیسے سوچ سکتی ہے وہ یہ سب کچھ.."
"دیکھ یوسف یہ سب اس کا سوچا ہوا نہیں ہے... جتنی پراعتماد وہ لگ رہی تھی اس سے صاف ظاہر ہےکہ وہ سب جانتی تھی.. لیکن اگر وہ سب جانتی تھی تو پہلے کبھی کچھ کیوں نہیں کہا، اس کا مطلب اس سے کسی نے کچھ کہا ہے یا بتایا ہے.."
"پر کس نے...؟؟ "یوسف حیران ہوا تھا۔
"یہی تو پتا لگانا ہے..اور یہ صرف شانزے بتا سکتی ہے کہ کس نے اسے کیا کہا ہے۔"
"اور وہ... وہ تو مجھ سے بات تک نہیں کرنا چاہتی.. میں کیسے یقین دلاؤں ا سے کہ میرا دل بدل گیا ہے اس کے لئے..
کیسے بتاؤں اسے کہ میں خود کو کبھی معاف نہیں کر سکا اس حرکت کے لئے... کیسے بتاؤں اسے کہ ان لوگوں کو میں نے نہیں بھیجا تھا... کیسے بتاؤں کہ جب ان لوگوں اسے پکڑا تھا تو کتنی موتیں مرا تھا میں.. کیسے بتاؤں ا سے سب کیسے... کچھ سمجھ نہیں آرہا.... مانتا ہوں کہ میں نے غلطی کی پر وقت رہتے ا سے سدھارنے کی پوری کوشش کی میں نے، میں نہیں جانتا تھا کہ وہ سب ہو گا، کیسے بتاؤں میں خود اب تک معاف نہیں کر سکا اس سب کیلئے.."
"دیکھ میری بات سن.." محسن نے دونوں ہاتھ اس کے کندھے پہ رکھے تھے.. "میں ہوں نا، پہلے بھی کہا تھا اب بھی کہتا ہوں شانزے صرف تیری ہے اور تیری رہے گی.. کیسے اور کیا کرنا ہے تو مجھ پہ چھوڑ دے اتنا تو یقین ہے نا مجھ پہ... "
محسن نے بہت محبت سے اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا ور یوسف وہ صرف سر ہلا کے رہ گیا تھا.
..........................................
شانزے یونی آگئی تھی لیکن اس کا دل کہیں نہیں لگ رہا تھا. کبھی لگتا یوسف ہنس رہا ہے، تو کبھی اس کے پاس سے گزرنے کی آہٹ محسوس ہوتی.. تو کبھی لگتا اس کی آواز آرہی ہے.. پوری رات اس کی کشمکش میں کٹ گئی تھی. کبھی دل چاہتا کہ ایک بار اس کی بات سن لے تو کبھی دل چاہتا کہ اس بےایمان کی ایک نہ سنے.. پر مصیبت یہ تھی کہ دونوں صورتوں میں تکلیف اسے بھی برداشت کرنی تھی. خود سے لڑتے لڑتے وہ تھک  گئی تھی. 
آج اگر ٹیسٹ کا رزلٹ نا آنا ہوتا تو وہ کبھی نہ آتی.. اس وقت یوسف کا سامنا کرنا اسے دنیا کا مشکل ترین عمل لگ رہا تھا. لیکن بہرحال اب اس سے کرنا ہی تھا..
وہ آڈی کے باہر بیٹھ گئی تھی ابھی رزلٹ نہیں لگا تھا اور بہت سے سٹوڈنٹ بھی وہاں انتظار کر رہے تھے جب صبا اس کے پاس آئی تھی.
"تم ٹھیک ہو...؟"
"مجھے کچھ ہوا تھا؟" شانزے نے حیران ہوتے پوچھا تھا...
"ارے کل وہ..." صبا نے بات بیچ میں چھوڑی تھی.
"وہ کل کی بات تھی.. "شانزے کا لہجہ سپاٹ تھا..
"میں مانتی ہوں اس نے غلط کیا پر شانزے مجھے لگتا ہے تمہیں ایک بار یوسف کی بات سننی چاہیے.."
"مجھے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنی.. "شانزے نے دو ٹوک جواب دیا تھا.
"پلیز شانزے اتنی سخت دل نہ بنو ،ہم انسان ہیں ،غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں.. اس سے بھی ہو گئی، پر اسے معافی مانگنے کا ایک موقع تو دو.. "
"صبا تم میری دوست ہی ہو نا..؟؟" شانزے نارضگی سے پوچھا تھا..
"شانزے تم کیسی بات کر رہی ہو..؟؟" صبا اس کے انداز پہ حیران ہوئی تھی..
"کیونکہ اس وقت اس کی وکیل زیادہ لگ رہی ہو.." شانزے نے ٹکا کے جواب دیا تھا.
تبھی آڈی کھلنے کی اناؤنسمنٹ ہوئی تھی. وہ اپنا بیگ لیتے وہاں سے اٹھ گئی تھی. اس کا غصہ ابھی تک برقرار تھا..
صبا نے اسے دکھ سے جاتے ہوئے دیکھا تھا..
.............................................
وہ آڈی میں داخل ہوئی تو تقریباً پوری آڈی فل تھی... آڈی میں ٹیسٹ کے رول نمبر کے حساب سے بیٹھایا گیا تھا اور فی الحال  صرف ایک سیٹ خالی تھی اور وہ سیٹ اس کے دشمن کے ساتھ والی تھی، اسے یقین نہیں آیا تھا کہ قسمت ایسے بھی امتحان لیتی ہے. تبھی آڈی میں کھڑے پیون نے اس سے اس کے رول نمبر کی سلپ لی تھی اور اس کی سیٹ کی طرف اشارہ کیا تھا.. اور وہ وہی سیٹ تھی جس پہ بیٹھنے کا وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی. یوسف کے برابروالی ۔۔غصہ تو شانزے کو بہت آیا تھا پر فی الحال وہ کوئی رسک نہیں لینا چاہتی تھی.. تبھی مرے مرے قدموں سے چلتی یوسف کی برابر آ بیٹھی تھی.    
دل میں پورا ارادہ کیے کہ اگر یوسف نے ایک لفظ بھی بولا تو وہ بنا لہٰذ کیا اسے کھری کھری سنا دے گی. شانزے انتظار کرنے لگی کہ کب وہ بولے...  لیکن خلاف توقع اس نے کچھ نہیں کہا تھا.. اور یہ بات اسے مزید غصہ دلا رہی تھی.
مائک میں مس کلثوم کی آواز آرہی تھی...
"اب سے کچھ دیر میں رزلٹ سکرین پہ آپ رزلٹ دیکھ سکیں گے اور وہی رزلٹ نوٹس بورڈ پہ بھی لگایا جائے گا. تا کہ جو سٹوڈنٹ آج نہیں آئے وہ بآسانی اپنا رزلٹ دیکھ سکیں. جیسے کہ ہم نے پہلے ہی کہا تھا کہ ٹاپ 40 سٹوڈنٹ چنے جائیں گئے 20 سینئرز اور 20 جونیئرز... ور یہ چالیس سٹوڈنٹ مل کے ٹیمز بنائیں گے یعنی کہ کوئز میں پرفارم کریں گی ٢٠ ٹیمز جن میں سے اگلے راؤنڈ میں صرف  جتنے والی١٠ ٹیمز ہی پرفارم کریں گی...  "
سٹوڈنٹس کا جوش دیکھنے والا تھا پورا ہال تالیوں سے گنج رہا تھا..
ایک بار پھر مس کلثوم کی آواز ابھری تھی...
"وعدے کے مطابق سرپرائز کا وقت آگیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اگلا ٹاسک یعنی کوئز آپ ایزآٹیم پرفارم کریں گے اور ٹیم نہ آپ بنائیں گے نہ ہم۔۔ یہ ٹیم بنائیں گے آپ کے مارکس. جن دو لوگوں کے مارکس ایک جیسے ہوں گے وہ ایک ساتھ ایک ٹیم کے طور پہ پرفارم کریں گے. ہر ٹیم میں ایک سینئر اور ایک جونیئر سٹوڈنٹ شامل ہو گا.."
 ہال میں تالیاں گونجنے لگیں تھیں،،
سکرین پہ رزلٹ چلنا شروع ہو گیا تھا پہلے سینئر سٹوڈنٹ کا نام آتا اور پھر رولنگ کے بعد جونیئر سٹوڈنٹ کا.. رزلٹ کو  انوکھے انداز میں شو کیا جا رہا تھا جس نے تمام سٹوڈنٹس کی توجہ اپنی جانب کھنچ لی تھی. ہر شخص اپنی جگہ سانس روکے اپنے نام کا منتظر تھا.. اب صرف چھ نام باقی تھے.. سب سے پہلے نام ابھرا تھا شاہنواز کا... جس کے مارکس اتنے زیادہ تھے کہ سب حیران تھے کہ فرسٹ آنے والے سٹوڈنٹ کے مارکس کتنے زیادہ ہوں گے.. سکرین کے دوسرے حصے پہ ماریہ کا نام ابھرا تھا دونوں کے سیم مارکس تھے.. تھرڈ پوزیشن لیتے ہوئے دونوں ایک ٹیم کی طرح پرفارم کرنے والے تھے حال میں تالیوں کا شور گنج رہا تھا.. لیکن شانزے کے دل پہ عجیب مایوسی چھا رہی تھی وہ جانتی تھی کہ اتنے ٹف کمپیٹیشن میں پوزیشن لینا کافی مشکل ہے.. جب کہ یوسف نہایت سکون سے بیٹھا تھا. جیسے وہ رزلٹ پہلے سے جانتا ہو.. اور اس کا یہی اطمینان شانزے کا غصہ بڑھا رہا تھا.
سکرین پہ دوبارہ نام ابھرا تھا.. نام اس دفعہ وارث کا تھا جس نے دوسری پوزیشن گین کی تھی.. سکرین کے دوسرے حصے میں نام ابھرنے لگا تھا... حال میں بیٹھے دو لوگوں نے دعا کی تھی شانزے نے اپنا نام آنے کی...
اور یوسف نے اس کا نام نہ آنے کی...
سکرین پہ نام ابھرا تھا اور دونوں حیران ہو گئے تھے، دونوں میں سے ایک کی دعا قبول ہوئی تھی.. وہ دونوں اب ایک دوسرے کی شکل دیکھنے میں مصروف تھے ،ہال میں تالیاں بج رہی تھیں.. فرسٹ پوزیشن کا رزلٹ اناؤنس ہوا تھا.. تبھی مس کلثوم نے مائک میں پوچھا تھا...
" اینی گیس...؟؟"
اور پورے حال میں صرف ایک نام گونجا تھا..
"یوسف... یوسف... یوسف... "سٹوڈنٹ کا شور بڑھ رہا تھا..
جبکہ یوسف صرف شانزے کو دیکھ رہا تھا... اور شانزے یوسف کو...
وہ دونوں اس بات سے بےخبر تھے کہ سکرین پہ  یوسف کا نام چمک رہا ہے.. جبکہ یوسف کو اس بات کی اب کوئی فکر نہیں تھی کہ سکرین پہ آنے والا نام کس کا ہے.
.........................................................
جاری ہے


CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING



Comments