Badtameez ishq novel by Radaba Noureen Episode 16

Badtameez ishq novel by Radaba Noureen



بدتمیز عشق
قسط : 16
ردابہ نورین
......................................
وہ دونوں مسلسل ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے.
اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ یہیں پاس میں کوئی ہے جو ان دونوں کو ساتھ بیٹھا دیکھ کے خوش نہیں ہے..
جلن کی.. حسد کی.. آنچ اتنی زیادہ تھی کہ نہ چاہتے ہوئے بھی درد آنسو بن کر رانیہ کی آنکھوں سے بہہ نکلے تھے.
کیوں وہ نہیں جانتی تھی.. لیکن جب بھی وہ دونوں کو ساتھ دیکھتی تو اس کی حالت ہی ایسی ہی ہوجاتی تھی.
بنا مقصد ہی وہ اپنا مقابلہ شانزے سے کرنے لگی تھی.
کیا تھا اس میں ہر لحاظ سے وہ رانیہ سے کم تھی، نہ فیملی بیک گراؤنڈ... نہ کلاس.. نہ کوئی سوشل سرکل...
عام سے کپڑے..نہ فیشن سینس... کچھ بھی نہیں تھا اس میں کہ وہ یوسف جیسے ہینڈسم بندے کو ڈیزرو کرتی...
اور حیرت تو اسے یوسف پہ ہوتی تھی، کتنی لڑکیاں تھی جو اس پہ فدا تھیں، اس کی ایک نظر پانے کے لیے مری جاتیں تھیں.پر اس  نے کبھی انھیں لفٹ تک نہ کرائی تھی...
اور اب کرائی بھی تو کسے شانزے حسان کو...
ایک انتہائی عام لڑکی کو، سانولی رنگت، عام سا حلیہ، پھر بھی یوسف اس کو دیکھ کر سب بھول جاتا تھا.
یہی وجہ تھی کہ وہ شانزے سے حسد کرنے لگی تھی..
اس بات سے بالکل بے خبر کہ "حسد ایک ایسا سانپ ہے جو جس کے اندر پلتا ہے.. سب سے زیادہ اسی کو ڈستا ہے"..
"تو کیا لگتا ہے آپ سب کوکون ہے جو یوسف کی ٹیم کا دوسرا ممبر بننے والا ہے... ؟"
مس کلثوم کی آواز نے رانیہ کی سوچوں کا تسلط توڑا تھا.
ایک بار پھر حال میں بیٹھے دو لوگوں نے دعا کی تھی...
ایک نے شانزے کا نام آنے کے لیے اور ایک نے نام نہ آنے کے لئے...
جگہ وہی... حالات وہی... دعا وہی... لیکن اس بار وہ دو لوگ رانیہ اور یوسف تھے...
قبولیت کا وقت آکر گزر گیا تھا. دعا قبول ہو گئی تھی.. وہ دونوں جو پچھلے ٢:٣٠ منٹ سے ایک دوسرے کو ایک ہی پوز میں دیکھ رہے تھے بلا آخر ان میں ہلچل ہوئی تھی..
اور یہ ہلچل یوسف کی مسکراہٹ نے کی تھی.. شانزے نے کچھ حیرانگی سے اسے دیکھا تھا...
( ہے ہی کوئی نفسیاتی انسان )شانزے نے جل کے دل میں بولا تھا.
ویسے ہی اسے دکھ تھا وارث کے ساتھ نام نہ آنے کا اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہی تھا کہ وہ اس کمپیٹیشن سے آؤٹ ہے.... اوپر سے یوسف کی جان لیوا مسکراہٹ... اف...
لیکن وہ تو ہنسے گا ہی نہ کیونکہ ہمیشہ کی طرح اس کا نام جو آگیا ہے.)      
سکرین پے یوسف کی ٹیم کے سیکنڈ ممبر کا نام اب چمک رہا تھا لیکن اس بار بھی دونوں کو کوئی فکر نہیں تھی..
کیوں شانزے ناامید تھی. جبکہ یوسف کے چہرے پہ سکون ہی سکون تھا.
جیسے وہ جنتا تھا کہشانزے کا نام نہیں آنے والا.
شانزے کا دل چاہا وہ اٹھ کر کہیں بھاگ جائے صحیح کہا تھا سب نے... وہ دل میں خود کو کوس رہی تھی...
جبکہ ہال میں بیٹھا ہر شخض حیران تھا..
لیکن شانزے کو فکر تھی تو صرف یوسف کی بےوجہ کی ہنسی کی...
وہ کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی،
تبھی یوسف نے اسٹیج کی طرف انگلی سے اشارہ کیا تھا اور عین اسی وقت مس کلثوم کی آواز مائک پہ آئی تھی ۔
" فرسٹ پوزیشن گوز ٹو مس شانزے حسان"....
اور شانزے پہ حیرتوں کا پہاڑ گر پڑا تھا...
وہ بے یقینی کے عالم میں کبھی سکرین کی طرف دیکھتی تو کبھی یوسف کو...
تو کیا یوسف پہلے سے جانتا تھا... یہ تو ممکن ہی نہیں تھا... تو پھر کیا اس سے مجھ پہ...
نہیں یہ نہیں ہو سکتا یہ تو اس نے خود نہیں سوچا تھا کہ وہ فرسٹ پوزیشن لے سکتی ہے...
وہ تو سکرین پہ وارث کے ساتھ صفیہ کا نام دیکھ کر ہی امید ہار چکی تھی.
صفیہ اچھی کومپیٹیٹر تھی پر اتنی اچھی یہ نہیں سوچا تھا اور فرسٹ پوزیشن تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی.. لیکن قسمت نے بھی عجیب دوراہے پہ لا کھڑا کیا تھا...
اس وقت اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ ہنسے یا روئے...
وہ اپنی کامیابی کی خوشیاں منائے یا پھر یوسف کی ٹیم میں ہونے کا سوگ...
تبھی سپیکر میں مانوس سی آواز گونجی تھی۔
"مجھے یقین ہے کہ آپ سب بہترین طلبہ ہیں. آپ میں سے کوئی کسی سے کم نہیں ہے، اس لیے میں آپ سب کی شکر گزر ہوں. کیونکہ آپ لوگوں  کے پیار اور محبت سے ہی ہم یہ کمپیٹیشن ارینج کرنے جا رہے ہیں. مجھے امید ہے آپ سب بھرپور طریقے سے شامل ہوں گے...
اور جو اب اس کمپیٹیشن کا حصہ نہیں ہیں وہ اپنے ساتھیوں کو خوب سپورٹ کریں گے... اب سے ٹھیک دو دن بعد آپ کو یہیں کوئز کمپیٹیشن کے لیے آنا ہے۔جیتنے والی ١٠ ٹیمز ہی آگے موو کریں گی. اور اگلا سرپرائز بھی آپ کو کوئز رزلٹ کے بعد بتایا جائے گا۔"
آووووو کے شور کے ساتھ ہی حال میں تالیاں بجنے کا شور بھی شامل ہوا تھا.
جب مس کلثوم آناونسمنٹ پوری کر کے نیچے اتر رہی تھیں.   
.....................................
 "مبارکاں... مبارکاں..."مہک، ذرا ور صبا نے ایک ساتھ کہا تھا جبکہ صبا نے محبت سے شانزے کو گلے لگایا تھا.   
 "تھینک یو صبا.. "شانزے کو شرمندگی ہوئی تھی کل جیسے اس نے صبا کو جھاڑا تھا.
اسے بالکل امید نہیں تھی کہ صبا آج اس سے بات بھی کرے گی.
لیکن اس کے رویے سے کہیں بھی کوئی ناراضگی  ظاہر نہیں تھی.
"واہ - شانزے مان گئے تم نے جو بولا وہ کر دکھایا، وی رئیلی پراوڈ اوف.." زارا نے چہکتے ہوئے کہا تھا.
"ہاں بھئ سچ میں تم نے تو کمال کر دیا نہ صرف ون کیا بلکہ پوزیشن بھی لی، اور نہ صرف پوزیشن لی بلکہ یوسف کے ساتھ ٹیم بنانے میں بھی کامیاب ہو گئی. اور اب تو کوئی بھی تمہیں جیتنے سے نہیں روک سکتا آخر کو یوسف جو تمہارا پارٹنر ہے. "
مہک نے کافی پرجوش انداز میں کہا تھا کیوں کہ وہ یوسف کے مداحوں میں سے ایک تھی.
اور یہ بات ان تینوں سے ڈھکی چھپی نہیں تھی.
شانزے کے منہ کا نقشہ بگڑ گیا تھا. یوسف کے نام سے،
اور یہ صبا نے خوب محسوس کی تھی، لیکن فی الحال وہ ذارا اور مہک کے سامنے کچھ بھی کہنا نہیں چاہتی تھی،
اس لیے صبا نے دوبارہ سے ٹریٹ کا پوائنٹ ریز کیا تاکہ شانزے کی جان چھڑائی جائے...
اور وہ اس میں کامیاب بھی ہو گئی تھی کیونکہ وہ تینوں سب کچھ بھول بھال کے اس سے ٹریٹ مانگ رہیں تھیں.
"چلو میری بہنوں چلو" شانزے نے ہار مانتے ہوئے کہا تھا، اس لیے وہ سب کینٹین کی طرف چل دیں تھیں.
..................................
"کونگریچولیشنز... "رانیہ نے آگے بڑھ کے مبارک بعد دی تھی یوسف کو..
اس کے بعد محسن اور عمر نے بھی روایت کو دھرایا تھا.
"اب یہ بتاؤ ٹریٹ کہاں دو گے..؟" رانیہ نے کینٹین میں یوسف کے برابر بیٹھتے ہوے کہا.
"ٹریٹ؟ کس بات کی ٹریٹ ؟؟؟" یوسف نے مصنوئی حیرانگی سے پوچھا.      
"بنو مت۔۔ تم اچھی طرح جانتے ہو..." رانیہ نے اس کے بازو پہ مکہ مارا تھا.
"ارے یار آرام سے... جان لو گی کیا.."
"ہاں لے لوں گی.. اگر تم نے ٹریٹ نہ دی تو....." اب کی بار رانیہ نے بال بگاڑے تھے...
"اف تم بھی نہ بچوں کی طرح ضد کرتی ہو، ساری محنت تو میں نے کی ہے تم نے کیا کیا ہے ؟ "
یوسف نے رانیہ کے ماتھے پہ انگلی سے نوک کیا تھا.    
"میں نے تمہارے جیتنے کے لیے دعائیں کی اور کیا...   "
 "واہ - مجھے نہیں پتا تھا آج کل دعائیں برائے فروخت ہیں... ویسے پھر تو تم اپنا کاروبار شروع کر سکتی ہو- نہیں ؟   
"آؤ آؤ دعایئں لو بدلے میں ٹریٹ دو... "یوسف نے کافی پروفیشنل انداز میں آواز لگائی تھی.
وہ مسلسل رانیہ کی ٹانگ کھنچ رہا تھا..
"اوکے - نہیں دینی مت دو کنجوس کہیں کے، بات نہ کرنا اب مجھ سے ۔"وہ غصے میں جانے لگی تھی۔
تبھی یوسف نے اس کا ہاتھ پکڑ کر روکا تھا.
"تم بھی نہ آج کل چھوٹی چھوٹی باتوں پہ ناراض ہو جاتی ہو.
چلو آج شام کو تمہاری یہ خواہش پوری کر دی جائے گی خوش ؟؟؟؟ "
"میں نہیں ماننے والی ایسے.." رانیہ نے منہ پھلایا تھا. وہ اور یوسف بچپن کے دوست تھے.
وہ جانتی تھی ناراضگی یوسف کی کمزوری ہے جب کوئی اس سے ناراض ہوتا تو اسے اس وقت تک سکون آتا جب تک وہ اسے منا نہ لے.. اور اس وقت وہ اس بات کا پورا فائدہ اٹھا رہی تھی.
کیونکہ اس نے سامنے سے آتے شانزے اور اس کے گروپ کو دیکھ لیا تھا.
اور یہی سب سے بہترین موقعہ تھا شانزے کو اپنی اہمیت جتلانے کا تبھی اس نے معصومانہ اندازسے بولا۔
" ٹھیک ہے، پہلے تم کان پکڑ کر سوری  بولو.."
"اوکے – ٹھیک ہے یہ لو سوری،" یوسف نے کان پکڑے تھے.
اسی دم یوسف کی نظر شانزے پے پڑی تھی جو جانے کب کینٹین میں آئی تھی اور خلاف توقع اس کو ہی دیکھ رہی تھی.
جانے کیا تھا شانزے کی آنکھوں میں جو یوسف نے پل بھر میں ہی رانیہ کا ہاتھ چھوڑ دیا تھا.
لیکن شانزے منہ موڑ چکی تھی، اور اس بات نے کافی حد تھا رانیہ کو تسکین پہنچائی تھی،وہ جو کرنا چاہتی تھی بہت مہارت سے کر گزری تھی.
اور فی الحال اس کے لئے یہی بہت تھا کہ شانزے یوسف کا منہ تک نہیں دیکھنا چاہتی تھی.
"ٹھیک ہے میں چلتی ہوں، شام میں ملتے ہیں۔"رانیہ نے اپنا بیگ اٹھایا تھا اور چل پڑی تھی.
وہ سب باہر کی طرف بڑھے تھے...
عین اسی وقت شانزے کا گروپ بھی کینٹین سے باہر جا رہا تھا۔
"مبارک ہو ۔"رانیہ نے شانزے کی طرف ہاتھ بڑھایا تھا..
"تھینک یو..." نہ چاہتے ہوئے بھی شانزے نے اس کا بڑھا ہاتھ تھاما تھا...
"ویل - تم نے کافی اچھا سکور گین کیا ہے.. "رانیہ نے اس کی تریف کی تھی لیکن شانزے کو وہ ہضم نہیں ہو رہی تھی.
کیوں کہ وہ رانیہ کو جتنا جانتی تھی اس حساب تو اس وقت رانیہ کو آگ برسانی چاہیے تھی لیکن یہاں تو موسم بہار تھا...
 "تھینک یو سو مچ... "اس بار شانزے نے کافی ہمبلی جواب دیا تھا.
"کافی محنت کی ہو گی ناتم نے اس کمپیٹیشن کے لیے۔۔ لیکن اب بےفکر ہو جاؤ.. کیوں کہ یوسف جو ہے تمہارے ساتھ اور وہ کبھی کسی کومپیتیشن میں نہیں ہارا... "رانیہ نے مسکراکے شانزے کی طرف دیکھا تھا..
جانے کیوں پر شانزے کو اس کی ہنسی زہر لگی تھی...
"مجھے یہ کمپیٹیشن جیتنے کے لیے کسی کی ضرورت نہیں ہے اور یوسف کی تو بالکل نہیں...
انفیکٹ میں اس کے ساتھ اس میں تو کیا کسی بھی کومپیٹیشن میں شامل نہیں ہونا چاہتی...    "
"چلو آل دا بیسٹ.." رانیہ آگے بڑھ گئی تھی.. اس نے یوسف کو قریب آتے دیکھ لیا تھا.
"شانزے کونگریچولیشن....  "پیچھے سےآتے یوسف نے کہنا چاہا تھا پر شانزے پاؤں پٹخ کے چلی گئی تھی.
یوسف نے افسوس سے اسے جاتے دیکھا تھا..
........................................
اسلم کمرے میں یہاں سے وہاں پھر رہا تھا، چہرے سے کافی پریشان معلوم ہوتا تھا...
اماں اور آمنہ بہت دیر سے اسے دیکھ رہے تھے جو یہاں سے وہاں چکر کاٹ رہا تھا. وہ دونوں جانتی تھیں کہ وہ کیوں پریشان ہے. لیکن کسی نے بھی اس کو بلانے کی کوشش نہیں کی تھی. تبھی وہ تھک ہار کے ان کے پاس آبیٹھا تھا.
"اماں... اماں میں بہت پریشان ہوں۔" اس نے خود ہی ماں کو پکارا تھا..
اماں اور آمنہ دونوں اب اس کی طرف متوجہ تھیں..
"اماں کچھ تو بول کیا کروں. میں بہت پریشان ہوں...
صاحب تو بڑا سیدھا آدمی تھا میری باتوں میں آجاتا تھا. پر اس کا بیٹا ۔۔وہ بہت چالاک نکلا..
مجھے لگا تھا تنگ آکر خود ہ آجائیں گئے پر دیکھ آج دو ہفتے ہو گئے نہ وہ آئے اور نہ فون آیا.."
"دیکھ اسلم ًپہلے بھی کہا تھا ابھی کہتی ہوں بتا دے سچ.. نہ دے دھوکہ.."اماں نے کہنا شروع کیا تھا."ایسا نہ ہو ہمیں بڑی بھاری قیمت چکانی پڑے.."
"اماں میں نے کب دھوکہ دیا ہے..؟" اسلم نے کمزور آواز میں کہا تھا
"بیٹا لیکن تونے سچ بھی تو نہ بتایا، کیا یہ دھوکہ نہ ہوا ؟؟ "اماں نے اسلم کے سر پے ہاتھ پھیرا تھا..
جو اس نے بری طرح جھٹکا تھا..
"اماں تو کیوں نہیں سمجھتی ۔۔بہت ہے اس کے پاس، اسے کچھ کمی نہیں ہو گی.. اماں تو میری بات ماں جا..."
"دیکھ بیٹا انسان جو بوتا ہے اس نے کاٹنا بھی وہی ہوتا ہے،  آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے کیکر بویا ہو اور اس کی جگہ آم کھایا ہو"...   تو نے دھوکہ دیا ہے وہ ایک نہ ایک دن تجھ تک لوٹ آئے گا..
بیٹا حرام کرنے سے اولاد حرام کی نہیں ہوتی بلکہ حرام کی کمائی کھانے سے اولاد حرام کی ہوتی ہے...
تو کیوں بھول جاتا ہے ہمارے پیارے نبی محمد صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم نے کہا تھا.
 " وہ ہم میں سے نہیں جو دھوکہ دے۔"      
"دیکھ اماں میں مانتا ہوں یہ سب باتیں.. لیکن آج کے زمانے میں یہ سب نہیں ہوتا ،کوئی مکافات ِعمل نہیں ہوتا...تو دیکھ لوگ کتنے کالے کام کر کے پیسہ کما کے کہاں سے کہاں پہنچ گئے.."
"بیٹا الله کی لاٹھی بے آواز ہے.. بیٹا دیر سویر ہو سکتی ہے پر مکافات کا عمل ٹل نہیں سکتا..
کبھی کبھی کچھ چیزیں بہت دیر میں پلٹتی ہیں..
لیکن وہ لوٹ کر آتی ضرور ہیں جیسے کسی مظلوم کو دیے جانے والا دھوکہ.... "
"بس اماں... میں آخری بار کہتا ہوں اگر تونے میری بات نہ مانی تو میں اپنی جان دے دوں گا... "
اماں نے تاسف سے اپنے اکلوتے بیٹے کو دیکھا تھا.. اور سوچا تھا کہاں کمی رہ گئی تھی ان کی پرورش میں. جو وہ ایسا ہو گیا ہے۔۔ انہوں نے تو کبھی حرام کا ایک نوالہ نہیں کھلایا تو پھر کہاں سے اس کے خون میں یہ سب شامل ہوا.. 
..............................................
"میم کیا میں اندر آسکتی ہوں.. ؟"شانزے نے مس کلثوم کے روم کے دروازے سے پوچھا تھا..
"جی جی شانزے آئیں..."انہوں نے بہت محبت سے شانزے کو پکارا تھا..
"میم آئی تھنک آپ بزی ہیں، میں بعد میں آجاؤں گی۔"شانزے نے سر مستنصر کو وہاں دیکھ کر کہا..
"نہیں شانزے ایسی کوئی بات نہیں ہے آپ بولیں.. "
ان کا لہجہ اتنی شفقت لئے ہوئے تھا کہ شانزے کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کرے..
"میم وہ درصل.. "وہ ہچکیچائی تھی...
"کیا ہوا بھئی اتنی ہونہار سٹوڈنٹ کو چپ کیوں لگ گئی ہے... "
سر مستنصر نے اس کا حوصلہ بڑھایا تھا وہ جانتے تھے، کچھ بہت پریشان کن بات ہے اس لیے وہ کنفیوز ہو رہی ہے..
"میم میں پارٹنر چینج کرنا چاہتی ہوں.. میں یوسف کے ساتھ اس میں پارٹ نہیں لینا چاہتی.. "
شانزے ایک لائن میں بات مکمل کی تھی اور وہاں بیٹھے دونوں لوگوں کو صدمہ لگا تھا...
"لیکن کیوں شانزے ؟آپ دونوں سے تو ہمیں کتنی امیدیں ہیں... "سر مستنصر نے اس سے بولا تو وہ کچھ شرمندہ ہوئی تھی..
"سر بس میں یوسف کے ساتھ..." اس نے بات بیچ میں ہی چھوڑ دی تھی..
"شانزے یوسف ایک اچھا سٹوڈنٹ ہے۔۔ میں مانتا ہوں اس کی سرگرمیاں کبھی کبھی پریشانی کا باعث بنتی ہیں، لیکن پھر بھی وہ میرے بہترین طلبہ میں سے ایک ہے.. اگر صرف وہ وجہ ہے تو یقین کرو اس کی پوری زمہ داری میں لیتا ہوں. "سر مستنصر نے بڑے مان سے کہا تھا.
شانزے کو رشک آیا تھا یوسف پہ۔
" کتنا لکی ہے نا.. کتنا چاہتے ہیں سب اسے...... "اس نے دل میں سوچا تھا...
"نہیں سر ایسی کوئی بات نہیں ہے... بس میری اور اس کی ٹیم نہیں ہو سکتی... ٹیم میں انڈرسٹینڈنگ ہونا ضروری ہے... اور مجھے نہیں لگتا کہ ہم دونوں ایک ساتھ ایک اچھی ٹیم کی طرح کام کر سکتے ہیں.. "
"شانزے لیکن اس بارے میں تو ہم یوسف سے بات کر سکتے ہیں..." میم کلثوم پوری بات میں پہلے دفاع بولیں تھیں..
"نہیں میم مجھے نہیں لگتا اس کی ضرورت ہے..." شانزے کو کہتے ہوئے بہت دکھ ہوا تھا..
میم کلثوم اور سر مستنصر سے اسے خاص عقیدت تھی..
"ٹھیک ہے شانزے! لیکن پارٹنر چینج نہیں ہو سکتے، بصورت دیگر آپ کو ڈیسقولیفائے ہونا پڑے گا.. "سر مستنصر نے کافی دکھ بھرے لہجے میں کہا تھا...
"ٹھیک ہے سر !مجھے منظور ہے..." سامنے بیٹھے دونوں لوگ حیران رہ گئے تھے.
"شانزے آپ اچھی طرح سوچ لیں اور پھر کل تک انفارم کر دیں..." مس کلثوم نے اس سے کہا تھا..
میں جانتی ہوں کہ آخری فیصلہ آپ کا ہی ہو گا... اور وہ ہمارے لئے قابل قبول اور احترام بھی ہے...
آپ پہ کوئی زور زبردستی نہیں ہے.. آپ ایک اچھی سٹوڈنٹ ہیں... اورمیں نہیں چاہتی ہوں کہ کسی اختلاف کی بنا پر آپ یہ چانس مس کریں... "اپنی بات کے آخر میں وہ اپنے مخصوس سٹائل میں مسکرائیں تھیں...
"تھینک یو میم..." وہ روم سے سے باہر نکل گئی تھی...
جب سر مستنصر نے کسی کو کال ملائی تھی...
...................................................
"شانزے... شانزے... رکو پلیز... "یوسف اس کے سامنے کھڑا ہوا تھا..
"شانزے پلیز میں تم سے بات کرنا چاہتا ہوں۔"وہ دوبارہ بڑھنے لگی تھی.. یوسف نے پھر اس سے روکا تھا...
"لیکن مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی.." شانزے نے منہ بنا کے بولا تھا..
"پلیز شانزے مجھے معاف کر دو ،میں مانتا ہوں مجھ سے غلطی ہو گئی، میں شرمندہ ہوں..".
"اچھا... کس کس غلطی کی معافی مانگو گے یوسف..؟؟؟؟؟؟؟"
"کس کس غلطی کی مطلب ؟؟" وہ حیران ہوا تھا..
"زیادہ معصوم مت بنو، تم سب جانتے ہو.."
"میں کچھ نہیں جانتا ،تم بتاؤ. "
"او - اچھا پر میرے پاس  وقت نہیں ہے.. تو پھر الله حافظ.." وہ کہتی آگے ہوئی تھی...
"شانزے پلیز یار بتاؤ مجھے کہ کیا ہوا ہے.." یوسف کا سر سچ مچ چکرایا تھا ابھی تو ایک مسئلہ حل نہیں ہوا تھا..
"تم نے جان بوجھ کے میرے جیسا سکور کیا تاکہ میں اور تم ایک ٹیم میں ہوں.. "
اس نے انتہائی بےتکی بات کی تھی کچھ پل یوسف اس کا منہ دیکھتا رہ گیا تھا۔
"وہاٹ... ارے یو ان سینسس ؟؟؟ میں یہ سب کیوں کرنے لگا..؟؟ اس لیے تم اپنا پارٹنر چینج کرنے گئیں تھیں.."
"وہ... مجھے نہیں پتا ،پر یہ تمہاری سازش ہے..." شانزے کو جھٹکا لگا تھا جسے اس نے کوور کیا تھا..
"ہاں ہاں میں تو امریکہ ہوں.. سب کچھ میں ہی تو کرتا ہوں.. "یوسف نے جل کر کہا تھا۔
"اور تم ٹھہری بیچاری پاکستان....
جس کی اپنی تو کوئی عقل ہے نہیں، کسی نے کچھ بھی کہا اور مان لیا..." یوسف نے چوٹ کی.
جبکہ شانزے گھبرائی تھی...(کیا یوسف جانتا ہے کہ مجھے کسی نے...اس نے دل میں سوچا تھا.)
"دیکھو یوسف  بکواس مت کرو ،مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی... "اس نے یوسف کو کراس کرنے کی کوشش کی تھی..
لیکن یوسف نے جھٹکے سے اس کا ہاتھ پکڑ کے اپنی طرف کھنچا تھا،
شانزے اس کے لئے تیار نہیں تھی اس لئے اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی...
جبکہ یوسف نے دونوں بازوؤں  سے پکڑ کے اسے دیوار کے ساتھ لگایا تھا...
"مسئلہ کیا ہے تمہارے ساتھ... آرام سے بات نہیں سن سکتیں... "یوسف کو کچھ غصہ آیا تھا..
شانزے کے سارے طبق اچھی طرح روشن ہو چکے تھے... شکر ہے اس حصے میں سٹوڈنٹ کا رش نہیں تھا ورنہ...
"مانتا ہوں غلطی کی.. جو تمہارے ساتھ کیا غلط کیا... تم ہزار بار کہو گی تم سے معافی مانگ لوں گا..
تمہارے آگے ہاتھ جوڑ سکتا ہوں.. کہو تو پاؤں پکڑ سکتا ہوں... کہو تو جینا چھوڑ سکتا ہوں...
جو تم کہو گی کروں گا... تم جو بولو مانوں گا... لیکن تم سے بات نہ کرنا ،یہ میرے بس سے باہر ہے شانزے حسان...
اس لیے بھول جاؤ کہ تم ایسا کر سکتی ہو... تم جس راستے جاؤ گی مجھے پاؤ گی...
کیونکہ میں اپنا راستہ جدا نہیں کر سکتا...
تم چاہے اسے جو بھی نام دو لیکن میں تم سے..."  یوسف کہتے کتے روک گیا تھا..
جبکہ شانزے آنکھیں پھاڑے اسے دیکھنے میں مصروف تھی...
"جہاں تک بات ہے سکور کی تو ایک بات اپنے چھوٹے سے دماغ میں اچھی طرح بیٹھا لو...
رزلٹ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا....
سواے مس کلثوم... سر مستنصر... اور ڈین صاحب کے... تو بولو اب تمہیں ان تینوں میں سے کس پہ شک ہے؟"  
شانزے نظریں چرائی تھیں، وہ جانتی تھی کہ وہ تینوں ہی اپنے پروفیشن سے کتنا ایماندار ہیں..
"شانزے مجھے پورا یقین تھا تم پہ،تمہاری قابلیت پہ، کہ تم اچھا سکور کرو گی...
کیا تمہیں  یقین نہیں تھا ؟ جو تم نے یہ سب سوچا ؟؟
شانزے ہر رات کی صبح ہوتی ہے... ایسے ہی ہار غلطی کی معافی ہوتی ہے..
بس سامنے والے کے دل میں آپ کے لئے گنجائش ہونا چاہیے...
تو کیا میں یہ سمجھوں میرے لیے تمہارے دل میں کوئی جگہ نہیں بن پائی...؟"
یوسف کی آنکھیں اس کی سچائی بول رہی تھی.. اس کی شرمندگی، اس کی تڑپ اس کی آنکھوں سے صاف ظاہر تھی..
لیکن اتنا کچھ بول کے شانزے سچ کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی....
اس کا غصہ... اس کی ضد آڑے آرہی تھی..
یوسف اس کا جواب جان گیا تھا... اس لئے اس کے ہاتھ چھوڑ دیئے تھے...
"شانزے میں جانتا ہوں معافی مانگنا آسان ہے... معاف کرنا مشکل...
پلیز ایک بار اپنے دل سے پوچھو کیا وہ مجھے معاف کرنے پہ تیار نہیں ہے ؟؟؟"
یوسف رکا نہیں تھا چل گیا تھا.. اس سے زیادہ وہ بردشت نہیں کرسکتا تھا.
وہ نہیں چاہتاتھا  کہ اس کی نم آنکھیں شانزے کے سامنے اس کے جذبات کااعلان کر دیں...    
شانزے تھکے تھکے قدموں سے گھر کی طرف چل دی تھی...........
.............................................
جاری ہے


CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING



Comments