"بدتمیز عشق"
قسط : 13
ردابہ نورین
...................................
وارث صرف شانزے کا حال چل پوچھنے کے لئے آیا تھا، کیونکہ
شانزے کافی دن کے بعد آئ تھی. وہ برائٹ سٹوڈنٹ تھی اس لئے تقریبن سب ہی اسے جانتے تھے.
بہت کم ٹائم میں اس نے تقریبن سبھی ٹیچرز کی توجہ حاصل کر لی تھی.وہ صرف ٹیچرز کی ہی
نہیں بلکے سٹوڈنٹس کی بھی فیورٹ تھی. پچلے دنوں اس کے نہ آنے کو بہت سارے لوگوں نے
محسوس کیا تھا. بس وارث بھی اس لئے آیا تھا. کہ خیریت لے سکے اور پھر بات تھوڑی لمبی
ہو گئی وہ اپنے پچھلے رویے پہ شرمندہ تھا اور اس لئے ہی معذرت کر رہا تھا. جسے شانزے
کھلے دل سے قبول کر لیا تھا . وارث اپنی بات کر کے جا چکا تھا. شانزے کلاس کے لئے پلٹی
ہی تھی اس نے سامنے یوسف کو کھڑا پایا. جس کے تیور خاصے تشویشناک تھے.
"کیا کہہ رہا تھا وہ ؟؟" یوسف نے بغیر
کسی لاگی لپٹی کے پوچھا تھا۔
جبکہ شانزے بغیر جواب دیے اسے نظرانداز کرتی آگے بڑھ گئی
تھی.
"ہیلو... لسن... "یوسف نے اس کا راستہ
روکا تھا.
"جی... آپ مجھ سے کچھ کہہ رہے تھے ؟؟؟"سوالیہ
نظروں سے دیکھا گیا تھا...
اور یوسف وہ تو حقا بقا رہ گیا تھا اتنے صاف نظر انداز کیے
جانے پہ...
"نہ تو مجھے عادت ہے .نہ ہی مجھے شوق ہے
ہواؤں سے باتیں کرنا کا.. "اس نے جل کر کہا تھا...
"اوہ - میرا اندازہ صحیح تھا.. آپ کسی دماغی
مرض کا شکار ہیں. ویسے مفت مشوره دوں، ابھی علاج کرا لو ورنہ مرض بڑھ گیا تو مشکل ہو
گی.. مفت مشورہ ہے لینا ہے تو لو... ورنہ تمہاری مرضی... "
وہ دونوں اب برابر چل رہے تھے.
"یار تم یہ بتاؤ وہ کیا کہہ رہا تھا...؟؟؟"
یوسف نے فلحال محبت کو سائیڈ میں رکھا تھا..
"کیوں بتاؤں تمہیں... میں آئی تھی تم سے
پوچھنے جب تم رانیہ سے خوش گپیوں میں مصروف تھے... "شانزے نے بھی ٹکا سا جواب
دیا تھا.
کتنی دیر تو یوسف کو اپنے کانوں پہ یقین نہیں آیا تھا...
اور پھر جو اس نے ہنسنا شروع کیا تو ہنستا ہی چلا گیا...
OMG" ، شانزے تم.... ہاہاہا.... تم... ہاہاہا... شانزے تم رانیہ سے
جل رہی ہو... ہاہاہا "وہ پیٹ پکڑ کے ہنسنے لگا تھا...
شانزے کو لگا وہ پوری زندگی ایسے ہی بنا پلکیں جھپکائے اسے
ہنستا دیکھ سکتی ہے لیکن یہ یونیورسٹی تھی، پاس سے گزرنے والے سٹوڈنٹ انھیں غور غور
سے دیکھ رہے تھے. تو مجبوراً اسے یوسف کو ٹوکنا پڑا...
"جلتی ہوں... وہ بھی میں.... ؟وہ بھی اس آدھا پاؤ انگریز
سے... ؟؟؟ جلتی ہے میری جوتی... اور وہ بھی وہ جو میں پہننا پسند نہیں کرتی... "
شانزے کے بگڑتے تیور دیکھ کر یوسف نے خود کو کنٹرول کیا
تھا...
"اچھا ٹھیک ہے اب ایسے عجیب منہ تو نہ بناؤ... اور
ویسے بھی تمہیں اس سے جلنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.."
"کیوں...؟؟" شانزے کے منہ سے بےختیار
نکلا تھا... اپنے کہے الفاظ پہ وہ خود ہی ٹھٹک گئی تھی.
جبکہ یوسف نے بھی حیرت سے دیکھا تھا... دونوں کی ہارٹ بیٹ
مس ہوئی تھی. کچھ لمحوں کے لئے وقت روک گیا تھا.
یوسف شانزے کے سامنے کھڑا تھا... وہ دونوں ایک دوسرے کی
آنکھوں میں براہ راست دیکھ سکتے تھے.
"تمہیں رانیہ کیا کسی بھی لڑکی سے جلنے کی
کوئی ضرورت نہیں ہے."یوسف کی لو دیتی آنکھیں شانزے کی برداشت سے باہر تھیں اس
کی دھڑکن اتنی تیز تھی مانودل کانوں میں ہی آگیا ہو...
"جانتی ہو کیوں...؟؟"یوسف نے کچھ اور
گہری نظروں سے دیکھا تھا اتنی کہ شانزے کو اپنا آپ پگھلتا ہوا محسوس تھا.
شانزے کی نظریں جھک گئیں تھی.. قوس و قزاح کے سارے رنگ اس
کے چہرے بکھرے تھے...
"کیوں کہ تم پہلے ہی سانولی ہو... ایسے جلتی
رہیں تو کالی ہو جاؤ گی اور پھر تمہیں "پھوپو کا بیٹا" ملے گا. "یوسف
کے ہونٹوں پہ خوشنما سی مسکراہٹ تھی.
"یو آر امپوسسبل... "شانزے بیچارگی
سے کہتی آگے بڑھ گئی تھی...
"وہ تو میں ہوں... "یوسف نے فخر سے
کہا تھا.
وہ دونوں اب ساتھ ساتھ چل رہے تھے..
"اور اب تم مجھے بتاؤ کیوں آیا تھا وہ وارث... ؟"یوسف
کی سوئی ابھی تک وہیں اٹکی تھی.
"کیوں تم جل رہے ہو...؟؟"شانزے نے اس
کے الفاظ اسے ہی واپس کیے تھے.
تبھی یوسف پھر سے شانزے کے سامنے کھڑا ہوا تھا. اب سے کچھ
دیر پہلے کی مسکراہٹ غائب تھی. آنکھوں کے تیور اور لہجے کا انداز بدلہ سا تھا...
"یوسف کسی سے نہیں جلتا... اور مس شانزے حسان جو میں
نے پوچھا ہے سیدھی شرافت سے وہ بتاؤ صرف... "ایک ایک لفظ اس نے چبا چبا ک بولا
تھا...
وہ بھول گیا تھا کہ مقابل شانزے ہے اتنی آسانی سے ہار کہاں
ماننے والی ہے وہ. اور کچھ یوسف کے انداز نے اسے چڑا دیا تھا. پہلے تو شاید بتا بھی
دیتی پر اب.. نا ممکن...
"بہت سمارٹ سمجھتے ہو نا خود کو تو جاؤ پتہ
کر لو... "شانزے کہہ کر کلاس کی طرف بڑھی تھی.
یوسف نے قدرے ناراضگی سے دیکھا تھا اسے. شانزے کے بڑھتے
قدم روکے تھے. اس نے پلٹ کر یوسف کو دیکھا جو ابھی تک اسی انداز میں کھڑا تھا جیسے
پورا یقین ہو پلٹے گی...
"وہ کہنا یہ تھا کہ... جلنا بند کرو ورنہ
"پھوپو کی بیٹی" بھی نہیں ملے گی... "وہ بھی شانزے تھی.. اگر ہار یوسف
کو پسند نہیں تھی تو اس سے کون جیت سکا تھا کبھی..
"ٹھیک ہے شانزے... پتہ تو میں لگا ہی لوں
گا... لیکن اب جو ہو گا اس کی ذمہ داری تمہاری ہو گی... "یوسف نے اس کو کہا تھا.
اور پھر وہ رکا نہیں تھا. اور شانزے سر جھٹکتی کلاس میں آگئی تھی.
...................................................
یوسف کے تن بدن میں آگ لگی ہوئی تھی وہ کینٹین کے مختصر
حصے میں کوئی ہزار کے قریب چکر تو لگا ہی چکا تھا. پر نہ تو اس کا غصہ کم ہوا تھا اور
نہ ہی وہ بیٹھا تھا. محسن جو کافی دیر سے اسے دیکھ رہا تھا اب اکتا گیا تھا. اس لئے
یوسف کودونوں بازوں سے پکڑتے ہوئے چیئر پہ بٹھایا تھا.
"یار یوسف بس کر مجھے چکر آنے لگے ہیں کچھ بتا تو ہوا
کیا ہے..."
"یہ لڑکی نا میری سمجھ سے باہر ہے... پتا
نہیں کیا سمجھتی ہے خود کو. کوئی بات کرو سیدھے منہ جواب ہی نہیں دیتی..اور اس وارث
سے تو بڑی ہنس ہنس کے باتیں کر رہی تھی. "یوسف کی بےبسی انتہا پہ تھی.
معاملہ کچھ کچھ محسن کو سمجھ آگیا تھا.
"اوہ - تو یہ مسئلہ ہے... "محسن نے تشویش کا اظہار
کیا تھا.
"یقین کر... وارث اگر ہائی سکور کرتا تو
مجھے اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی اسے شانزے سے بات کرتا دیکھ ہو رہی تھی."
"تکلیف نہیں جلن... جلن کہتے ہیں اسے.. "محسن
نے پر سکون انداز میں کہا تھا...
"جلن.. "مجھے"... نہیں... کبھی
نہیں... اور تو کیا یہ شانزے کی زبان بول رہا ہے. "
"دیکھ یہ کوئی بڑی بات نہیں... سارے عاشق
ایسے ہی ہوتے ہیں رقیب سے جلنے والے تو کچھ انوکھا نہیں کر رہا تو پلیز اپنے "کول"
رہنے والے امپریشن اپنے پاس رکھ اور یہ بات اپنے اس دماغ میں بیٹھا لے کہ تیرا صرف
ایک مسئلہ ہے اور وہ شانزے ہے تو پھر اس بات کو جتنی جلدی مان لے گا.. تیرے لئے اچھا
ہو گا. اور پھر مسئلہ کیا ہے تو جا کے صاف صاف بول کیوں نہیں دیتا اسے کہ تو اسے چاہتا
ہے. جس آگ میں تو خود کو جلا رہا ہے اس کی آنچ شانزے کے دل تک تو پہنچنی چاہیے نا.
تو نہیں جانتا پر اس رستے پہ اکیلے سفر نہیں کیا جا سکتا.. "محسن نے اسے عقلمندانہ
مشورہ دیا تھا.
"یار ڈر لگتا ہے... ڈر لگتا ہے اس کے ریکشن
سے، غصہ تو ہر وقت اس کی ناک پہ رہتا ہے. مجھے دیکھتے ہی جانے اسے کون سے بدلے یاد
آجاتے ہیں.. پتہ نہیں کون سی جنگ ہے جو ختم نہیں ہو رہی... اگر مسلمان نہ ہوتا ناتو
مجھے لگتا پچھلے جنم میں ضرور میں نے اس کا کچھ بگاڑا ہو گا جس کا بدلہ وہ اب لے رہی
ہے. "یوسف چیئر پہ لیٹنے والے انداز میں بولا تھا..
جبکہ محسن کی ہنسی چھوٹ گئی تھی.
"تو... یعنی یوسف.... تو ڈرتا ہے.. وہ بھی شانزے سے..."OMG
مجھے یقین نہیں آرہا کہ یوسف کسی سے ڈر سکتا ہے۔"محسن اس کے
برابر میں بیٹھتے ہوئے بولا تھا.
یوسف نے اس نارضگی سے دیکھا تھا...
"ہاں میں ڈرتا ہوں شانزے سے... مجھے ڈر لگتا ہے.. کہیں
وہ انکار نہ کر دے... مجھے ڈر لگتا ہے کہیں میری محبت اس کے لئے متعبر نہ ہوئی تو....
ہاں مجھے ڈر لگتا ہے... کہیں میں اسے کھو نہ دوں.. "یوسف کے آخری الفاظ میں جانے
کیا تھا جس نے محسن کو چونکا دیا تھا.
یہ بات تو وہ ہمیشہ سے جانتا تھا کہ جب بھی وہ کسی کو چاہے
گا اسی کا ہو جائے گا. کیوں کہ یوسف ان لڑکوں میں سے نہیں تھا جو ہتھیلی پہ دل لئے
لڑکیوں کی پیچھے پیچھے پھرتے ہوں. اس کے باوجود کے کتنی ہی لڑکیوں نے خود اس کی طرف
پیش قدمی کی تھی، جسے باری سہولت سے اس نے ٹھکرا دیا تھا. لیکن وہ اس قدر ٹوٹ کے محبت
کرے گا یہ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا محسن کو اس پپ فخر ہوا تھا. وہ اپنی سوسائٹی کے
لڑکوں کی طرح نہیں تھا جو محبت کے نام پہ ڈرامہ کرتے پھرتے ہیں. جو لڑکیوں کو ٹشو پیپر
سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے. بلکہ وہ تو ان لوگوں میں سے تھا جو صنف نازک کی عزت و احترام
کا خیال کرتے ہیں. کسی سے محبت کرتے ہیں تو پھر اسے آخری دم تک نبھاتے ہیں. اس سے اپنی
زندگی میں شامل کر کے عزت کا مقام دیتے ہیں. بے جا لاڈ پیار نے اگر چہ اسے تھوڑا ضدی
اور اکڑو بنا دیا تھا لیکن پھر اپنے والدین سے ملنے والی تربیت اس کی ذات میں صاف نظر
آتی ہے. اپنی تم تر شرارتوں میں بھی اس نے کبھی کسی کا کوئی نقصان نہیں ہونے دیا تھا.
محسن نے مسکرا کے اسے گلے لگایا تھا.
"فکر نا کر یار شانزے صرف یوسف کی ہے."
.............................................
اس دن کے بعد سے اریزے کچھ کترانے لگی تھی عثمان سے. وہ
زیادہ تر اپنے کام سے کام رکھتی تھی، یہی وجہ تھی پہلے کی نسبت اس کی غلطیوں میں بہت
کمی آگئی تھی. لیکن بہرحال ابھی بھی اسے بہت کچھ سکھانا تھا. اریزے نے خود کو پوری
طرح مصروف کر لیا تھا. وہ ہر ممکن کوشش کرتی کہ عثمان کے سامنے کم سے کم آئے اور یہ
بات عثمان نے محسوس کی تھی پر فی الحال وہ اریزے سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا جس
سے کہ وہ انکنفرٹیبل فیل کرے.
وہ نیچے پروڈکشن میں تھا جب اس کی نظر اریزے پہ پر پڑی جو
جانے پروڈکشن مینیجر کو کیا انسٹرکشن دے رہی تھی. بلیو کلر کے سوٹ میں اس کی رنگت صاف
شفاف لگ رہی تھی. بہت عام سے انداز میں، سر پہ سلیقه سے دوپٹہ جمائے، ہر طرح کی بناوٹ
سے پاک وہ اسے آج کل کی لڑکیوں سے بہت مختلف لگی تھی.اس وقت وہ کہیں سے بھی ڈری سہمی،
بیوقوف سی اریزے نہیں لگ رہی تھی. وہ جانے کتنی دیر اسے یونہی دیکھتا رہا خیال تب آیا
جب وہ نظروں سے اوجھل ہو گئی. دل بیچارا نہ چاہتے ہوئے بھی دیدارِ یار کو تڑپ گیا تھا.
اتنے دنوں سے باندھے گئے بندھ ایک ایک کر کے ٹوٹنے لگے تھے. اس کے قدم خود بخود اریزے
کی طرف بڑھ گئے تھے.
اریزے اپنے آس پاس کے تمام حالات سے بےخبر اپنی ہی دھن میں
تھی. اس نے بہت سی فائلز اٹھا رکھیں تھیں اتنی کہ اس سے سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا.
اب وہ فائل دیکھ رہی تھی اور رخ اوپر آفس کی طرف جانے والی سیڑیوں کی طرف تھا. دنیا
و مافیا سے بےخبر وہ اتنی مصروف تھی کہ یہ بھی نہ جان سکی کہ کوئی اس کے قدم سے قدم
ملا کر سیڑھیاں چڑھ رہا ہے. احساس ہوا تو اس وقت جب اس کی گرتی ہوئی فائلزکو کسی نے
سنبھالا تھا. بڑی مانوس سی خوشبو آئی تھی جسے وہ سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں بھی پہچان
گئی تھی. اریزے کے لئے نظریں اٹھانا مشکل ہو رہا تھا. جبکہ عثمان اب اس سے فائلز لے
رہے تھے. کچھ دیر کے لئے اریزے کا دل دھڑکنا بھول گیا تھا. عثمان کی نظروں کو وہ اپنے
چہرے پہ بخوبی محسوس کر رہی تھی. جبکہ عثمان کا دل چاہا تھا کہ وہ اس کا ایک ایک نقش
حفظ کر لے.
"کیسی ہو تم؟" عثمان کے لہجے میں اتنی
بےچینی تھی کہ اس نے اریزے کو بھی بےچین کیا تھا.
"جی ٹھیک ہوں... "اس نے پل بھر کو نظریں
اٹھائیں تھیں اور پھر جھپکنا تک بھول گئی تھی.
عثمان کی آنکھوں میں جذبات کی شدت اتنی تھی کہ اریزے کو
لگا وہ آنکھوں کے زریعے ہی اس کی روح میں سما جائے گا.
"آپ ان فائلز کے ساتھ... آئی مین کوئی آفس
بوائے نہیں تھا ؟؟"عثمان کو غلطی کا احساس ہوا تھا تبھی اس نے اوپر کی جانب بڑھتے
ہوئے بولا.
"وہ اصل میں، میں چاہ رہی تھی کہ میٹنگ سے
پہلے ایک بار سب دیکھ لوں تا کہ کوئی کمی نہ رہ جائے اور کوئی تھا نہیں تو میں خودہی
لینے آگئی... "جانے کیوں وہ اس نے اتنی تفصیل سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا.
اریزے اب اس کی پیروی کر رہی تھی. اس کے ساتھ ساتھ چلنا
نہ جانے کیوں کنفیوز کر رہا تھا.
"اوہ - اچھا... لیکن آگے سے خیال کریں اگر
فائلز کے چکر میں آپ کو کچھ ہو جاتا تو.. "وہ اب پھر براہ راست اس کی آنکھوں میں
دیکھ رہا تھا اس کی آنکھیں اس کے دل کی چغلی کھا رہی تھیں.
وہ وہاں رکا نہیں تھا سیدھا اپنے روم میں چلا گیا تھا.
اریزے کو جانے کون سی چپ لگا گئی تھی اسے سمجھ ہی نہیں آرہا
تھا کہ وہ کیا کہے تبھی سر جھک دیا تھا جیسے عثمان کے کہے الفاظ اس کے لئے حکم کا درجہ
رکھتے تھے اور سر تسلیم خم کر دیا گیا تھا.
.................................................
یوسف کو ابھی تک چین نہیں آیا تھا وارث اس کے دماغ سے چپک
گیا تھا. وہ شانزے سے بات کرنا چاہتا تھا پر شانزے اپنی کلاس میں نہیں تھی. بس اسی
لئے وہ واپس پلٹ گیا تھا. تبھی نظر وارث پر پڑی وہ غالباً لائبریری جا رہا تھا. یوسف
کا دماغ ١٠٠ کی سپیڈ میں دوڑ رہا تھا. وہ بلا مقصد وارث کے پیچھے چلنے لگا..
"کیا کروں ایسا کہ، پتہ چلے وارث آخرکیوں ملا شانزے
سے... "وارث اب ایک ٹیبل پہ اپنی بک اور نوٹس رکھ کر بک شیلفس کی طرف بڑھا تھا.
اور یوسف باہر لائبریری سے کوئی بک تلاش کرتا دیکھ رہا تھا. تبھی اس کی نظر چیئر پہ
لٹکے بیگ پہ پڑی. ایک پر سکون مسکراہٹ اس کے لبوں پہ پھیلی تھی.
"تو مس شانزے حسان مل گئی چابی اس وارث کا منہ کھلوانے
کی ۔۔اب یہ تو کیا اس کے اچھے بھی بولیں گے. "
لائبریری میں اس وقت کوئی نہیں تھا بڑی ہوشیاری سے یوسف
وارث کے بیگ میں سے مطلوبہ چیز نکالی تھی اور وارث اپنی کتاب ڈھونڈنے میں مصروف تھا
اس بات سے بےخبر کہ یوسف اپنا کام کر کے نکل چکا ہے...
وارث واپس اپنی چیزیں اٹھانے آیا تھا اسی وقت شانزے بھی
لائبریری میں آئی تھی.
"کیسی ہو شانزے... "وارث نے اسے دیکھتے
ہوئے کہا...
"میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ کیسے ہو...؟؟؟ "
"میں بھی ٹھیک۔۔ تم یہاں اس وقت لائبریری
میں، تمہاری کلاس تو ختم نا.. "وارث نے اگلا سوال کیا.
"ہاں بس جا رہی تھی. تب پتہ چلا کہ اوڈی
میں سب کو بلایا ہے تو بس سوچا کچھ بکس ایشو کرا لوں تب تک. مجھے نوٹس بنانے ہیں آگے
ایگزمز ہیں پھر... "
" اوہ اچھا... چلو پھر بات ہوتی ہے میں چلتا
ہوں. نوٹس میں ہیلپ چاہیے ہو تو موسٹ ویلکم.. "وارث واپس چلا گیا تھا. اور شانزے
اپنی مطلوب بک تلاش میں مصروف تھی.
.................................................
کلاسزز ختم ہو گئی تھیں سب سٹوڈنٹس کو آڈیٹوریم میں بلایا
گیا تھا تاکہ سٹوڈنٹ ویک کا باقاعدہ علان کیا جا سکے. ویسے تو سبھی سٹوڈنٹس جانتے تھے
پر کچھ تھا جو نیا تھا ہر سال سے ہٹ کے..
سب سٹوڈنٹس آگئے تھے. انتظار تھا تو چانسلر ، دینز اور ڈیپارٹمنٹ
ہیڈ کا.
یوسف جس رؤ میں بیٹھا تھا وہاں اب صرف ایک سیٹ خالی تھی.
سامنے سے آتی شانزے کو دیکھ اس نے دل سے دعا کی تھی کہ شانزے وہاں بیٹھے.
شانزے کی نظریں اپنے گروپ کوڈھونڈنے میں مصروف تھیں لیکن
اسے کوئی بھی نظر نہیں آیا تھا. شانزے کو نزدیک ترین صرف وہی سیٹ نظر آئی تھی.کچھ دیر
سوچنے کے بعد وہ یوسف کی جانب بڑھ رہی تھی. یوسف کولگا وہ قدم قدم بڑھتی اس کے دل میں
اتر رہی ہے. یوسف اور شانزے کے درمیان کچھ فٹ کا فاصلہ تھا. اسے یقین نہیں آرہا تھا
کہ شانزے اس کے برابر میں بیٹھنے لگی ہے... اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ قسمت ایسے بھی
مہربان ہوتی ہے. لیکن اس سے پہلے کہ شانزے وہاں بیٹھتی رانیہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کے
کھینچا اور خود جلدی سے یوسف کے برابر میں بیٹھ گئی.
"سوری ہاؤس فل.. "اس نے ہنستے ہوئے
کہا تھا. اس کی ڈھٹائی پہ شانزے کا پارہ آسمان سے لگا تھا.برا یوسف کو بھی لگا تھا
لیکن اس کے بولنے سے پہلے ہی شانزے بول پڑی تھی.
"اسے ہاؤس فل نہیں چیٹنگ کہتے ہیں.. "غصہ
اس کے لہجے میں صاف ظاہر تھا.
"اسے چیٹنگ نہیں اکٹیونیس کہتے ہیں... یو
نو... فرسٹ کم فرسٹ گیٹ... اور ویسے بھی تمہارا اس کمپیٹیشن میں کیا کام، دس کمپیٹیشن
فوردا وینرز نوٹ فور لوزرز... مس چیریٹی .... "رانیہ کے لہجے کی حقارت نے یوسف
کو حیران کیا تھا.
"اچھا تو پھر اس لحاظ سے تمہیں اس کمپیٹیشن
میں تو کیا اس یونیورسٹی میں بھی نہیں ہونا چاہیے تھا... اوہ سوری میں بھول گئی تھی
کہ تم جیسے لوگ میریٹ پہ کچھ کرتے ہی کہاں ہیں... بس باپ کی پھینکی ہوئی بھیک ہی کافی
ہوتی ہے.. پھر معاملہ ایڈمشن کا ہو یا... کمپیٹیشن کا ہو.... "شانزے نے منہ توڑ
جواب دیا تھا.
یوسف حقہ بقہ رہ گیا تھا. جبکہ رانیہ کو تو پینگے لگ گئے تھے. اس لئے وہ غصے میں یہ بھی لحاظ نہ کر سکی
کے اس وقت وہ کہاں اور کس کے ساتھ بات ہے.
ایک گالی اس کے منہ سے نکلی تھی.
you
bitch ..... "
"شٹ اپ رانیہ... "یوسف کی آواز ہلکی تھی پر اتنی
سخت تھی کہ کچھ دیر کے لئے شانزے اور رانیہ کو حیران کر گئی تھی..
"تم ہوش میں تو ہو.. یہ کیسے لفظ استعمال کر رہی ہو...
"یوسف کو رانیہ پہ شدید غصہ آیا تھا. جب رانیہ تو ابھی تک یہ حیران تھی کہ وہ
اس سے ایسے بات کیسے کر سکتا ہے.
یوسف کو تاسف نے گھیر لیا تھا وہ مزید کچھ کہتا جب اسے اپنے
پیچھے کی کسی رؤ سے آواز آئی تھی.
"شانزے کیا ہوا یار یہاں آجاؤ.... "آواز
صبا کی تھی جو غالباً پہلے سے موجود تھی. لیکن سٹوڈنٹ کی وجہ سے شانزے دیکھ نہیں پائی
تھی.
شانزے وہاں سے جا چکی تھی.. اور یوسف نے کھا جانے والی نظروں
سے رانیہ کو دیکھا تھا. جب رانیہ اس کے ریکشن پہ حیران تھی. اس کو یوسف کا اتنا سا
لفظ بھی بہت انسلٹنگ لگا تھا.
"تم مجھ سے ایسے بات کر رہے ہو... ؟؟"
اس سے پہلے کچھ کہتا مائیک میں چانسلر کی آواز گونجی تھی.
"اسلام وعلیکم.... اینڈ گڈ آفٹرنون سٹوڈنٹ..
آپ سب جانتے ہیں کہ ہم یہاں سٹوڈنٹ ویک سے ریلاٹڈ کمپیٹیشن کے بارے میں انفارمیشن دینے
آئے ہیں.. اس سال ہم نے سٹوڈنٹس ویک میں انٹری کے لئے ٹیسٹ رکھا یعنی صرف وہی سٹوڈنٹ
شامل ہوں گے جو ٹیسٹ کلیر کریں گے... لاسٹ ائیر بہت سے سٹوڈنٹ کو کمپلین تھی کہ ٹیچرز
نے اپنے فیوریٹ سٹوڈنٹ کو آگے کیا ہے تو دیس ٹائم نو فیوریٹزم... پھر آپ سب لوگوں کو
دو دو کی ٹیم میں رکھا جائے گا اور اسکے بعد کمپیٹیشن کا آغاز ہو گا...
پہلا - کوئز کمپیٹیشن، دوسرا - اردو ادب اور تیسرا - سپورٹس
اور آخری ڈیپٹ کمپیٹیشن...
ہر کمپیٹیشن میں کچھ پوائنٹس دیے جائیں اور ان کی بیس پہ
ہی وننر ٹیم آناونس کی جائے گی...
باقی معلومات کے لئے میں امم کلثوم سے ریکویسٹ کرتا ہوں
کہ وہ آئیں اور اس اسٹیج کو شرف بخشیں۔"
حال میں تالیاں
گونجنے لگیں تھی سارے سٹوڈنٹس کافی جوش میں تھے.
"جیسے کہ چانسلر پہلے ہی کافی معلومات آپ
کو دے چکے ہیں. اب مزید کی کوئی گنجائش نہیں ہے.. بس سرپرائز ہے جو ہم نے پلان کیا
ہے اور اس کے لئے آپ کو تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ وہ ہم بتائیں گے ٹیسٹ رزلٹس
کے بعد۔۔ ابھی کے لئے اتنا کے اس سال دو وینرز ہوں گے ایک سینئرز سے اور دوسرے نیو
کمرز سٹوڈنٹس سے اور جیتنے والے دونوں ہی سٹوڈنٹس کو سکالرشپ دی جائیں گی...
آپ کا ٹیسٹ آج سے ٹھیک چار دن بعد آپ کے ہی ڈیپارٹمنٹ میں
لیا جائے گا. اینڈ آئی ہوپ بیسٹ ٹیم ویل وینز.... "مس امم کلثوم اسٹیج سے نیچے
اتر رہیں تھیں... ہال پھر سے تالیوں سے گنج اٹھا تھا.
.....................
میٹنگ کے لئے سب ہال میں جمع ہو چکے تھے انتظار تھا تو عثمان،
عمیر اور اریزے کا..
وہ دونوں اپنے روم سے کچھ ڈسکس کرتے ہوئے نکل رہے تھے. جب
دونوں کی نظر اریزے پہ پڑی جو فائل میں نہ جانے کیا کر رہی تھی پر اس کے منہ پہ صاف
لکھا تھا کہ کوئی پریشانی ہے. نہ چاہتے ہوئے بھی دونوں رک گئے تھے. لیکن عثمان سے پہلے
عمیر پوچھ چکا تھا.
"وہاٹ ہاپپنڈ اریزے؟" عمیر نے اس کی
طرف کچھ فائلز بڑھائیں تھیں.
"نتھنگ سر" اریزے نے فائلز پکڑ لیں
تھیں...
"اوکے تو پھر یہ فائلز ساتھ لے کے آجائیں میٹنگ شروع
کرتے ہیں۔" عمیر اپنائیت سے کہتا چل گیا تھا وہ ہمیشہ ایسے ہی بات کرتا کبھی کبھی
تو اریزے کو لگتا عمیر نہیں وجی بھائی بات کر رہے ہیں. جبکہ عثمان رک گیا تھا.
اریزے ابھی بھی فائل میں ہی کچھ کر رہی تھی.. عثمان کافی
دیر تک تو اسے دیکھتا رہا تھا. اس وقت پریشانی اورمعصومیت کے ملے جلے تاثرات لئے بہت
حسین لگی تھی. اسے دیکھنا عثمان کو ہمیشہ بہت اچھا لگتا تھا. کبھی کبھی تو دل کرتا
کہ وقت رک جائے اور وہ بس یونہی اسے دیکھتا رہے. لیکن مجبوری یہ تھی کہ یہ آفس ہے اور
یہاں وہ ایسا کچھ افورڈ نہیں کر سکتا تھا. پھر جب رہا نہیں گیا تو پوچھ لیا.
"کیا ہوااریزے کچھ پریشان ہیں...؟"
"نہیں سر بس یہ کچھ پپرز ہیں... آگے پیچھے
ہو گئے ہیں بس انھیں ہی ارینج کر رہی ہوں."
"اوکے پر اب تو میٹنگ کا ٹائم ہو گیا ہے
آپ آجائیں یہ بعد میں کر لینا."
"سر... وہ... دراصل یہ فائل ابھی اندر میٹنگ
میں شو کرنی ہے... "اریزے کے چہرے پہ واضح طور پر پریشانی لکھی تھی.
عثمان نے کچھ غور سے اس کے چہرے کو دیکھا اور پھر گود میں
رکھی فائلز کو کوئی ٢٥٠ کے قریب پپرز تھے جنھیں وہ ارینج کرنے میں لگی تھی. اس کے چہرے
پہ مسکراہٹ پھیلی تھی جبکہ اریزے کچھ خفیف سی اسے دیکھنے لگی..
"سر میں نے جان بوجھ کے نہیں کیا ہے، میں
یہاں رکھ کہ گئی تھی پر نہ جانے کیسے یہ اڑکے نیچے گر گئے.. "وہ اب اپنی صفائی
دے رہی تھی.. اور عثمان کو اس پریشانی میں بھی وہ بہت پیاری لگ رہی تھی.
"ریلیکس اریزے... آپ ڈسکارڈ مشین اون کریں...
"عثمان جو دیوار سے ٹیک لگاتے کھڑا تھا بڑے پرسکون انداز میں بولا.
"جی... ڈسکارڈ مشین...؟؟"اریزے کو اس
کی دماغی حالت پہ شک ہوا تھا..
"جی ڈسکارڈ مشین... اتنے امپورٹنٹ پیپرز
ہم ایسے تو یہاں نہیں رکھ سکتے نا۔۔انہیں ری یوز کر سکتے ہیں۔"عثمان نے آرام سے
اس کے ہاتھ سے پیپر لے لئے تھے... اور اب انھیں ڈسکارڈ کر رہا تھا..
اریزے کا شک یقین میں بدل گیا تھا یہ فائل آج کی میٹنگ کے
لئے بہت امپورٹنٹ تھی. اور عثمان نے وہ ہی ڈسکارڈ کر دی تھی. وہ اپنے خیالوں میں مگن
تھی، جاگی اس وقت جب عثمان اس کے سسٹم پہ جھکا کچھ فائلز کھول رہا تھا اور ماؤس چلتے
ہوئے اس کا ہاتھ اریزے کے ہاتھ سے مس ہوا تھا. اریزے نے چونک کر دیکھا تھا. وہ اس کے
اتنے نزدیک تھا. کہ اریزے کے ہوش اڑنے کے لئے کافی تھا.
"مس اریزے! ضروری نہیں ہے کہ آپ اس فائل
کو ٹھیک کرنے میں اتنا ٹائم صرف کرتیں۔۔ آسان حل تھا کہ یہ پپرز ڈسکارڈ کر کے اپ نیا
پرنٹ لے لیتیں۔۔۔ اس سے ٹائم بھی بچتا اور آپ پریشانی سے بھی بچ جاتیں. "
اریزے کو لگا اس پہ کسی نے گھڑوں پانی گرادیا ہو. اگرچہ
نظریں سکرین پہ تھیں، پھر بھی وہ اریزے کے چہرے پہ چمکنے والے جذبات سے خوب واقف تھا.
اس کے پرفیوم کی خوشبو اریزے کی سانسوں کو مہکا رہی تھیں
اور اریزے اسے یک ٹک دیکھے جا رہی تھی جواب پرنٹ دے رہا تھا.
"لیجئے ہو گیا مسئلہ حل.. "عثمان نے
مسکرا کے دیکھا تھا.
لیکن وہ مسکرا نہیں سکی تھی. اریزے کچھ شرمندہ نظر آرہی
تھی اس لیے وہ اس کو مزید شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔۔ فائل اس کو دیتا وہ بورڈ روم
کی طرف چل گیا تھا.
اریزے پپرز لے کے آگئی تھی... میٹنگ شروع ہو گئی تھی سب
اپنے اپنے پوانٹس بتا رہے تھے. اس لئے اریزے کا ہاتھ بہت تیزی سے چل رہا تھا. پروجیکٹر
کی روشنی اس کے چہرے پہ پڑ رہی تھی جس سے اس کا روپ کچھ اور نکھر گیا تھا. سب کی توجہ
پروجیکٹر پہ تھی جہاں کمپنی کے کچھ نیو پروجیکٹس باری باری چلائے جا رہے تھے. لیکن
عثمان اس وقت اپنی الگ ہی دنیا بسائے ہوئے تھا. اس بات سے بےخبر کہ یہ میٹنگ آنے والے
دنوں کے لئے بہت ضروری ہے... اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ جس کا ہر انداز اس کی توجہ کھینچتا
ہے وہ خود اپنی پوری توجہ اس میٹنگ کی طرف لگائے ہوئے ہے....
...............................................
"کہاں تھیں... دیر کر دی. "می جانی
نے اسے اندر آتے دیکھ پوچھا تھا.
"جی می جانی یونیورسٹی میں سٹوڈنٹ ویک اسٹارٹ
ہو رہا ہے تو بس اس کی ڈیٹیلز کے لئے سب سٹوڈنٹ کو روکا ہوا تھا. "شانزے نے آرام
سے بستر پہ لیٹتے ہوئے کہا.
"اچھا چلو پھر فرش ہو جاؤ میں کھانا لاتی
ہوں.. "می جانی نے پیارسےکہا تھا..
"نہیں می جانی رہنے دیں اب رات میں ہی کھاؤں
گی ایک ساتھ... آج تو بس آپ گرم گرم چائے کے ساتھ پکوڑے کھلا دیں۔ دیکھیں موسم بھی
کتنا اچھا ہو رہا ہے... " شانزے نے حسب عادت اپنے کمرے کی کھڑکی کھولتے ہوئے کہا
تھا... جہاں سے باہر پڑنے والی پھوار آسانی سے دیکھی جا سکتی تھی...
"ارے لو یہ کب ہوا... ؟یہ کراچی کا موسم
بھی نا سمجھ سے باہر ہے ابھی دوپہر تک تو اچھی خاصی دھوپ تھی اور اب یہ پھوار... شانی
تم اوپر چھت سے کپڑے اتار لو میں تب تک تمہارے پکوڑوں اور لاتی ہوں تب تک اریزے بھی
آجائے گی پھر ساتھ میں کھائیں گے۔" می جان نے پورا پروگرام بتاتے ہوئے کہا تھا
.
"اوکے می جانی.... کیا یاد کریں گی آپ کس
سگھڑ بیٹی سے پلا پڑا ہے..."
........................................
شانزے چھت سے کپڑے اتار کر لا رہی تھی. جب تائی جان اور
عنیقہ سے اس کا سامنا ہوا وہ دونوں اپر جا رہی تھیں شاید موسم انجوائے کرنے. اس دن
کے بعد سے اگر چہ تائی جان کے رویے میں بہتری آگئی تھی انہوں نے بات بے بات اس پہ طنز
کرنا چھوڑ دیا تھا۔
"ارے تم کب آئیں پتہ ہی نہیں چلا. "
"بس کچھ دیر پہلے تائی جان آپ شاید تایا جان کے پاس
تھیں.."
وہ مختصر جواب دیتی نیچے چلی گئی تھی.اس کے لئے تائی جان
کا بدلتا لہجہ کافی تشویشناک تھا
لیکن وقت سے پہلے کچھ بھی کہنا نہ مناسب تھا.
"تم کب آئیں.... ؟"وہ نیچے کمرے میں
آئی تو اریزے پہلے سے موجود تھی... لیکن وہ کہیں اور ہی مگن تھی اس لئے اسے شانزے کے
آنے کا بھی پتہ نہیں چلا... شانزے کافی ٹائم سے نوٹ کر رہی تھی اریزے کچھ بدل گئی تھی
گرچہ پہلے بھی وہ زیادہ باتیں نہیں کرتی تھی پر پھر بھی وہ شانزے کو سننے میں اس کا
پورا ساتھ دیتی تھی... اس کی الٹی سیدھی حرکتوں میں ساتھ دینا اور پھر اسے بچانا...
اریزے کا پسندیدہ مشغلہ تھا، لیکن اب کافی ٹائم سے شانزے اس کا بدلہ بدلہ انداز محسوس
کر رہی تھی کئی بار سوچا کہ بات کرے لیکن کوئی سرا ہاتھ ہی نہیں آرہا تھا. ابھی بھی
جب وہ کمرے میں آئی تو وہ کسی اور جہاں میں گھوم تھی.
"کیا ہوا اریزے.... ؟"شانزے نے بہن
کو سوچوں میں گھوم دیکھا تھا تو اسے کندھے سے ہلا کربولا...
"سر میں ٹھیک ہوں... "اریزے نے بولا...
اور پھر عقل پہ ماتم کرنے کا دل چاہا.... وہ تو بھول ہی گئی تھی کہ اب گھر آگئی ہے
عثمان اس پہ اتنا حاوی ہو گیا ہے کہ وہ جاگتے میں بھی اس کے خواب دیکھنے لگی تھی...
وہ اٹھ کے جانے لگی تھی تبھی لیکن شانزے نے اس کا ہاتھ پکڑ
لیا تھا..
"اریزے سب ٹھیک ہے نا آج کل تم کچھ کھوئی
کھوئی سی رہتی ہو. "شانزے کے لہجے میں فکر تھی.
اریزے کو دل بھر کے اپنی بہن پہ پیار آیا تھا جو اس کے لئے
اتنی فکر مند تھی...
" کچھ نہیں بس ایسے ہی کبھی کبھی دل کرتا ہے ناایسے
ہی اکیلے... اپنے ساتھ بیٹھنے کو... تم بھی نا بس کیا کیا سوچنے لگتی ہو۔"اس نے
اس کے سر پہ ہلکی چپت لگائی تھی...
"ہمم... تم میری بہن ہو اریزے... تمہارے
دل کی ہر دھڑکن پہچانتی ہوں میں... تم کب خوش ہو... کب اداس ہو سب پتہ چلتا ہے مجھے
ویسے ہی جیسے تم میرے دل کا راز پا لیتی ہو.. اور تم مجھ سے اپنی پیاری سویٹ انوسینٹ
بہن سے باتیں چھپا رہی ہو.. "شانزے نے مصنوئی ناراضگی سے بولا..
"اف.. شانزے... تم سے کیا چھپانا.... تم
جانتی ہونا تم صرف میری بہن نہیں میری دوست بھی ہو.. اور اس حوالے سے تم کچھ بھی پوچھ
سکتی ہو سمجھیں.... "
"اچھا تو پھر جلدی بتاؤ یہ سر کون ہیں جن
کے خیالوں میں میڈم اتنی گم تھیں...؟" شانزے کو سنہرا موقع ہاتھ لگ گیا تھا.
"میرے باس عثمان... "اریزے نے نظریں
جھکائی تھیں... حیا کے سارے رنگ اس کے چہرے پہ اتر آئے تھے...
"تو کیا تم ان سے.... ؟"اریزے نے چونک
کے دیکھا تھا. اور شانزے کی بات بیچ میں رہ گئی تھی.
"دیکھو سچ سچ بتانا... ورنہ میں ناراض ہو
جاؤں گی... "شانزے نے اسے وارن کیا تھا.
"پتہ نہیں.." اریزے کے جواب میں اداسی
تھی..
"پتہ نہیں۔۔ کیا مطلب... ؟"شانزے نے
حیرت کا اظہار کیا تھا..
"پتہ نہیں مطلب پتہ نہیں...."
"تو پھر کیا پتہ ہے تمہیں... ؟"شانزے
نے گھورا تھا..
"یہی کہ ان کو دیکھتے رہنا، ان کو سوچتے
رہنا، ان کو سننا... بہت اچھا لگتا ہے.. حالانکہ وہ جب بھی سامنے آتے ہیں تو پتہ نہیں
کہاں کھو جاتی ہوں میں... اور جب سامنے نہیں ہوتے تب بھی ان کو اپنے پاس محسوس کرتی
ہوں... ان کو ہی سوچتی رہتی ہوں... ان کے خیال ہی گھیرے رکھتے ہیں.... "
Omg
اریزے مجھے یقین نہیں آرہا یہ تم ہو.... لگتا ہے اب تو ملنا ہی پڑے
گا... آخر کون ہے جس نے میری بہن کو مجھ سے چرانے کی کوشش کی ہے۔"
اس نے اریزے کو گلے لگایا تھا.
"پاگل ہو تم.... "اریزے نے مسکرا کے
کہا تھا...
جبھی می جانی کی آواز آئی تھی۔
"شانزے... اریزے... آجاؤ دونوں چائے اور پکوڑے ٹھنڈے
ہو جائیں گے..."
وہ لوگ چھت پہ چلےآئےتھے... تائی جان اور عنیقہ ابھی تک
وہیں تھیں..
می جانی سب کو سرو کر رہیں تھیں.. ہلکی پھلکی باتیں چل رہیں
تھی...
"ارے واہ پکوڑے.. وہ بھی اس موسم میں...
"وجی جو نہا کے نکلا تھا اس وقت بھی بالوں کو ٹاول سے رگڑنے میں مصروف تھا. اس
نے جیسے ہی ہاتھ بڑھایا شانزے نے جھٹ پلٹ اٹھا لی تھی. کیونکہ باقی سب اپنے اپنے حصے
سے انصاف کر چکے تھے لیکن عادت سے مجبور شانزے مزے لے کے کھانے کے چکر میں پیچھے رہ
گئی تھی.
"سوچنا بھی نہیں وجی بھائی یہ میرے ہیں...
"
"اچھا چلو بھئی ٹھیک ہے تم نہ دو پکوڑے..
ہم غریب لوگ آئسکریم پہ ہی گزارا کر لیں گے.. "
شانزے کو منہ کیطرف بڑھتا ہاتھ روک گیا تھا...
"سچ میں؟ آئسکریم کون لایا...؟"
"میں لایا تھا سوچا تھا اپنی بہنوں کے ساتھ
موسم انجوائے کروں گا لیکن کہاں ہماری ایسی قسمت.... "وجی اس کی کمزوریوں سے واقف
تھا تبھی بڑی خوبصورتی سے اس سے اپنی باتوں میں پھنسا لیا تھا.
"اف وجی بھائی سچ میں.. ؟"پوری دنیا
کے سامنے عقلمند بننے والی جانے کیسے وجی کی باتوں میں آجاتی تھی...
"اور نہیں تو کیا میں جھوٹ بولوں گا تم سے۔۔جاؤ
خود جا کے دیکھ لو.. "وجی نے پلٹ سنبھالی تھی جب کہ شانزے نیچے گئی تھی... لیکن
جب اس نے فریج میں دیکھا تو وہاں آئسکریم تو کیا وہاں آئسکریم کا خالی ڈبہ تک نہیں
تھا... غصے میں لال پیلی ہوتی شانزے جب واپس آئی تو پلٹ صاف تھی... اس کا غصہ مزید
بڑھ گیا تھا..
"وجی بھائی میں آپ کو چھوڑوں گی نہیں۔" وہ اب
بچوں کی طرح اس کے پیچھے بھگ رہی تھی اور وجی خود کو بچانے کی کوشش کر رہا تھا باقی
سب ان کے بچپنے کو دیکھ کر ہنس رہے تھے... خلاف توقع تائی جان اور عنیقہ بھی اور می
جانی کے لئے تو یہی بہت تھا کہ گھر کا ماحول بدل رہا تھا.. اس بات سے بےخبر کہ طوفان
آنے سے پہلے اکثر خاموشی ہو جایا کرتی ہے.
.............................................
جاری ہے
CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING
Comments
Post a Comment