بدتمیز عشق
قسط
: 18
ردابہ نورین
......................................
اریزے باہر نکلی تو اس کے ہوش اڑ گئے...
بارش اتنی تیز تھی اس کا تو اندازہ ہی نہیں ہوا تھا
اسے....
لیکن بہر حال ٹائم ختم ہو چکا تھا اور گھر بھی جانا
تھا...اس لئے وہ قسمت آزمائی کرنے لگی..
ایک دو رکشہ
والوں کو پوچھا تو انہوں نے جانے سے منع کر دیا..
اور پھر ایک رکشہ رکا تو اس میں جلدی سے آدمی چڑھ کے
بیٹھ گئے..
اریزے پہلی دفعہ ایسی مصیبت میں پھنسی تھی...
وہ بار بار وجی کا نمبر ملا رہی تھی۔
پر ہر بار یہی جواب آتا کہ " آپ کا مطلوبہ نمبر فی
الوقت بند ہے... برائے مہربانی کچھ دیر بعد کوشش کیجئے"...
اریزے کی آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا تھا...
وہ پچھلے ڈھیڑگھنٹے سے کھڑی تھی اور ابھی تک اپنے لیے
کچھ بھی نہیں کر پائی تھی...
پاپا کو فون نہیں کر سکتی تھی.. وہ پریشان ہو جاتے...
اور پھر ان کا آفس تو بالکل ہی الگ سائیڈ پہ تھا.
"یا الله میں کیا کروں... میری مدد کریں
الله جی.." اریزے کی موٹی موٹی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے تھے..
لیکن ایسا کیسے ہو سکتا ہے کوئی مدد کے لئے اپنے پاک
پروردگار کو پکارے اور اسے مدد نہ بھجی جائے...
اریزے کو بھی مدد بھیج دی گئی تھی...
...................................
کالے بدل گھِر کے آرہے تھے... بجلی چمکنے نے اس منظر کو
خوب خوفناک بنایا تھا۔
جیسے جیسے گھٹائیں خوب گرج چمک کے ساتھ آسمان کی وسعتوں
میں پھل رہی تھیں۔
ویسے ویسے اس کے اندر بےچینی بڑھ رہی تھی..
شانزے نے اپنی سپیڈ بڑھا دی تھی...
اتنی ہی تیزی سے کالی گھٹائیں بھی بڑھ رہیں تھیں... اوران لڑکوں نے بھی رفتار بڑھا دی
تھی......
بارش کی رفتار پہلے سے بہت زیادہ... بوندوں کا تانابانا
ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا...
وہ لڑکے اب زور زور سے ہنس رہے تھے.. اور اس پہ باتیں
اچھال رہے تھے،
کوئی
اور موقع ہوتا تو وہ اب تک حساب برابر کر چکی ہوتی لیکن اس وقت اس کے لئے یہ سب
آسان نہیں تھا... وہ بار بار پیچھے پلٹ کر دیکھ رہی تھی..
اور ہر بار وہ اسے اپنے پیچھے ہی نظر آتے... تبھی اچانک
وہ کسی سے ٹکرائی تھی...
شانزے کے منہ سے چیخ نکلی تھی... دل دہلا دینے والی
چیخ...
..................................
عثمان اپنے روم سے نکلا تو اریزے وہاں نہیں تھی.. اسے
تسلی ہو گئی تھی کہ وہ جا چکی ہے....
وہ نیچے پارکنگ میں اپنی گاڑی کی طرف چلا گیا تھا جس کا
درواز پچھلی سائیڈ کھلتا تھا..
گاڑی میں بیٹھ کر اسے خیال آیا کہ بارش بہت تیز ہے.. تو
گارڈ کو بول دے کہ وہ بھی چلا جائے..
اس نیت سے وہ بلڈنگ کے فرنٹ سائیڈ پہ آیا تھا...
روڈ کے دوسری سائیڈ گاڑی رکی تو اس کی نظر اریزے پہ
پڑی..
"اریزے..." اس نے آواز دی تھی...
اور ساتھ میں ہارن بھی بجایا تھا..
لیکن وہ اتنی گھبرائی ہوئی تھی کہ اس نے دیکھا ہی
نہیں..
لیکن گارڈ نے دیکھ لیا تھا.... تبھی وہ چھتری لے گاڑی
کی طرف بھاگا آیا تھا..
"صاحب آپ... "
"ہاں وہ میں کہنے آیا تھا کہ اب تم
جاؤ.. اتنی بارش میں یہاں رکنا ٹھیک نہیں ہے..."
"یہ اریزے ہیں نا... ع؟"ثمان نے
اپنی بات کی تصدیق کرنا چاہی تھی...
"جی صاحب دو گھنٹے سے کھڑی ہیں.. "
"ان کی گھر کی طرف کوئی رکشہ والا جانےکےلئےنہیں
مان رہا ،کہہ رہے ہیں وہاں کافی پانی بھرا ہے.... "
"اوکے..." عثمان باہر نکل تو گارڈ
نے جلدی سے چھتری اس پہ کی تھی۔
وہ فوراًروڈ کراس کرتا اس کے پاس پہنچا تھا.
"آئیں اریزے..." اس پہلے کہ وہ اسے
دیکھ کر رو پڑتی... عثمان نے اس سے مخاطب کیا تھا...
اور اریزے اس کے پیچھے چل پڑی تھی.. اس سے پہلے کہ وہ
بارش میں بھیگتی عثمان نے گارڈ کے ہاتھ سے چھتری لے لی تھی... اور اب اس نے وہی
چھتری اریزے اور اپنے اوپر کی تاکہ وہ بھیگنے سے بچے رہیں.
وہ دونوں گاڑی تک پہنچ گئے تھے... عثمان نے فورنٹ ڈور
اوپن کر کے اریزے کو بٹھایا تھا...
اور خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی تھی.. عثمان کو شدید غصہ
آیا تھا...
"آپ تو گھر سے کسی کو بلانے والی تھیں..
"عثمان سے اب برداشت نہیں ہوا تھا..
"وہ نمبر بند جا رہا تھا تو میں نے
سوچا... "
"کیا سوچا آپ نے...؟؟" غصہ اس کے
الفاظ میں شامل تھا...
"کہ میں خود... "اریزے بات پوری
نہیں کر پائی تھی۔
"میں خود کیا اریزے... ملی کوئی کنوینس
؟؟"
اریزے صرف نہ میں سر ہلا سکی تھی...
"حد ہے غیر زمہ داری کی، آپ واپس آفس
آسکتیں تھیں... اس طرح سے نیچے کھڑے رہنے کی کیا ضرورت تھی..
پچھلے دو گھنٹے سے آپ نیچے کھڑی ہیں... آپ نے نیچے رکنا
پسند کیا، لیکن اوپر آکر بتانا گوارا نہیں کیا..."
"مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ اتنی غیر زمہ
دار ہیں..."
اریزے کو حیرت ہوئی تھی اتنی کریکٹ انفارمیشن پہ...
"اریزے... اس وقت بارش کی وجہ سے آپ کسی
مصیبت میں بھی پھنس سکتیں تھیں اس کے بارے میں سوچا آپ نے ؟؟"
آپ لڑکیوں کا یہی مسئلہ ہوتا ہے... جاب کرنا شروع کرتی
ہیں تو کسی کی مدد لینا ناگوار گزرتا ہے... خود کو بہت بہادر سمجھنے لگتی ہیں... "اب
وہ ٹھیک ٹھاک اریزے کو سنا رہا تھا..
جب جواب نہ آیا تو اس نے اریزے کی طرف دیکھا اور وہ
دیکھتا رہ گیا..
بنا آواز کے بارش کیسے ہو تھی ہے یہ آج پتہ لگا تھا
اریزے کو دیکھ...
اسے افسوس ہوا تھا، غصے میں کافی کچھ کہہ گیا تھا.
" اچھا سوری... مجھ آپ کو ڈانٹنا نہیں چاہیے تھا.."
قدرے نرم لہجہ تھا پر اریزے کا رونا ابھی بھی جاری
تھا...
تبھی عثمان نے جیب سے رومال نکال کر دیا...
"یہ لیں... "
اریزے نے چپ چاپ ہاتھ میں پکڑ لیا تھا...
"چلیں اب اچھی لڑکیوں کی طرح رونا بند
کریں... اور اپنے گھر کا راستہ تو بتائیں تاکہ میں آپ کو ڈراپ تو کر سکوں..."
وہ اپنے آنسو صاف کرنے میں مشغول تھی، اس کے رونے میں
کمی آگئی تھی...
....................................
شانزے نے ڈر سے آنکھیں بند کر لیں تھی.. سامنے کا منظر
وہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی...
اب کون سی مصیبت اس کے گلے ڈالنے والی ہے یہ سوچ کے ہی
وہ حواس باختہ تھی..
یوسف نے بہت غور سے اس کو دیکھا تھا.. جو جلدی جلدی
شاید آیات الکرسی پڑھنے میں مصروف تھی...
درد کی ایک لہر یوسف کے جسم میں پہلی تھی، اس سے اس دن
والی شانزے یاد آئی تھی.. ڈری، سہمی،
اس نے دونوں بازوں سے شانزے کو تھاما تھا... جانا
پہچانا سا احساس پا کر شانزے نے آنکھیں کھول کے دیکھا تھا...
اس کی آنکھوں میں خوف صاف واضح تھا.
یوسف نے اسے اپنے پیچھے کیا تھا اور خود ان لڑکوں کے
سامنے دیوار کی طرح کھڑا تھا...
"شانزے گاڑی میں بیٹھو..." یوسف کی
آواز میں غصہ تھا.. وہ اپنی آستیں کو فولڈ کرتے ہوئے بولا...
"پر یوسف..." شانزے کچھ کہنا چاہتی
تھی پر اس سے پہلے ہی یوسف پھر دھاڑا...
"سنا نہیں تم نے، گاڑی میں بیٹھو..."
وہ اتنی زور سے چیخا تھا.. شانزے کے ساتھ وہ تینوں لڑکے بھی ڈر گئے..
"اگر تم میں سے کسی نے اس کی طرف دیکھا
بھی تو یقین کرو میں اس کی آنکھیں پھوڑ دوں گا..."
یوسف بولتا ہوا ابھی ایک قدم ان کی طرف بڑھا تھا کہ وہ
تینوں ڈر کےبھاگ گئے تھے....
اب الله جانے اس کے چیخنے کا اثر تھا یا پھر اس کے قد
کاٹھ اور جسامت کا...
گاڑی میں بیٹھ کر اس نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی تھی..
کار میں سلو آواز میں مائک ڈی' انجیلو کا انگلش ٹریک بج
رہا تھا..
شانزے کی پریشان صورت دیکھ کر ا سے کچھ ہوا تھا...
Oh
baby, I
Think
that I’m falling in love with you
I’m
lifting my entire heart to you, who are so important
You
are the one
I
am asking you to stay
To
stay like this forever
To
stay like this forever
وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اس کو دیکھ رہی تھی.. اس کی
حالت اتنی غیر تھی کہ وہ کچھ بول نہیں پا رہی تھی..
یوسف
نے شانزے کے سر پر ہاتھ رکھا تھا..
"ڈرو نہیں،
میں ہوں نا"... اس نے اس کی کالی گہری آنکھوں میں دیکھا تھا.
اور شانزے کے صبر کا بندھ ٹوٹ گیا تھا.... وہ دونوں
ہاتھوں میں چھپا کے رونے لگی تھی..
یوسف کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے چپ کرائے تبھی
اس نے شانزے کا سر اپنے کندھے سے لگایا تھا...
You
make me feel good
İnside,
every time you turn towards me
When
you give me your smile
You
know you make me tremble
اب وہ اسے تسلیاں دے رہا تھا... شانزے کے رونے میں کمی
آئی تو یوسف کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا...
"تم جانتی ہو روتے ہوئے تم اس دنیا کی
سب سے بدصورت لڑکی لگتی ہو..."
اس نے شانزے کو آہستہ سے خود سے الگ کیا تھا... اور
گاڑی چلانا شروع کر دی تھی...
"ہاں میں تو لگوں گی ہی نا، کیونکہ آج
تک تم نے خود کو تو روتے ہوئے شیشے میں دیکھا نہیں ہو گا.."
"رونا اور میں... نیور... "یوسف نے
اس کے سر پہ ہلکا ہاتھ ٹکایا تھا..
"ویسے بھی میں کیوں رونے لگا، روئیں
میرے دشمن... "یوسف نے اترا کے کہا تھا..
"ہاں وہ جن کا نام " W " سے شروع ہوتا ہے.." شانزے نے جل کے کہا تھا...
"ہاہاہاہا.... "یوسف نے قہقہہ
لگایا تھا. "ویسے تمہیں رونا کس بات کا آرہا ہے. ؟میرے آنے کا... یا اپنے ان
بھائیوں کے جانے کا.. کہو تو واپس بلا دوں ؟؟"
"بھائی ہوں گے تمہارے... سمجھے... ویسے بھی میں نے تمہیں نہیں بلایا تھا... "شانزے
چڑ گئی تھی،
اور رہا سہا بھی رونا بھول چکی تھی...
"ہاں تو.. میں ہمیشہ خدمتِ خلق کے لیے
تیار رہتا ہوں..."
"تمہاری خدمت خلق میں اچھے سے جانتی
ہوں.. جو رانیہ کے پک اینڈ ڈراپ سے شروع ہو کے اس پہ ہی ختم ہوتی ہے.." شانزے
نے غصے سے کہا تھا..
یوسف کو وہ اس وقت ایک معصوم بچے جیسی لگی تھی،
جو اپنا پورا حق اس پہ جتا رہی تھی.. اور اس بات کو ماننا
بھی نہیں چاہ رہی تھی... اس کے معاملے میں خاصی کنجوس ثابت ہونے والی ہے... اس کا
اندازہ اسے اچھی طرح ہو گیا تھا..
تبھی یوسف کے ہونٹوں پہ ہنسی پھیلی تھی،
"ہنس کیوں رہے ہو...؟؟ "شانزے نے
سوالیہ نظروں سے دیکھا تھا..
"کچھ نہیں" اب وہ اس سے کیا بتاتا
کہ وہ ساری زندگی اسے یہ سروس دینے کے لئے تیار ہے...
کیا بتاتا کہ ساری زندگی بغیر پلکیں چھپکے بنا اسے دیکھ
سکتا ہے...
I
want to tell you that you are so cute, what should I do
But
ı
am probably not good enough for you
I
want to give you my heart
but
I don't know if you'd accept it
کار میں ایک بار پھر مائک کی آواز گونجی تھی.... گانے کے الفاظ نے یوسف کو مسکرانے پہ مجبور کیا
تھا...
"تم نا پاگل ہو..." اس کو مسکراتا
ہوا دیکھ کر شانزے سے رہا نہیں گیا تھا...
"ہاں تمہارے لئے... "یوسف نے بھی
جھٹ جواب دیا تھا...
شانزے اس کا منہ دیکھتی رہ گئی تھی، پر وہ گاڑی چلاتا
سامنے دیکھنے میں مصروف تھا...
کار کا AC
بہت تیز تھا اور بھیگنے کی وجہہ سے شانزے کو سردی لگ رہی تھی وہ بار بار اپنے بازوؤں
پہ ہاتھ پھیرتی...
سردی سے بچنے کی کوشش کر رہی تھی ، بھلا سردی بھی رکتی
ہے ایسے...
یوسف بہت دیر سے اس سے نوٹ کر رہا تھا... تبھی اس نے
پچھلی سیٹ پہ پڑا اپنا کوٹ اس کی طرف بڑھایا...
"شانزے... یہ لو پہن لو.."
شانزے جو ونڈو
سے بھر دیکھ رہی تھی.. چونک گئی تھی...
"پر کیوں..؟؟" وہ حیران تھی... اس
نے تو کچھ نہیں کہا تھا. تو یوسف نے کیسے...
"وہ کیا ہے نامجھے بہت سردی لگ رہی
ہے..."
یوسف کے کہنے پہ
اسے ہنسی آئی تھی..
"اٹس اوکے میں ٹھیک ہوں... اچھوں... "ساتھ
ہی اسے چھینک آئی تھی... اور پھر ایک کے ایک بعد کئی آئیں....
یوسف نے اسے گھورا تھا نتیجتاً شانزے نے چپ چاپ کوٹ پہن
لیا تھا...
I
love the way you call my name, oh Babe
Every
time I am near you, I go crazy
I
want to love you with all of my heart
I
just want to give you my love
کوٹ سے اٹھتی بھینی بھینی پرفیوم کی خوشبو نے عجیب سحر
طاری کیا تھا..
مائک کی آواز اس سے اپنے دل سے آتی لگی تھی... وہ یک ٹک
یوسف کو دیکھے جا رہی تھی...
"کیا ہوا ایسے کیا دیکھ رہی ہو؟"جب
بہت دیر تک وہ کچھ نہ بولی تو یوسف نے ہی مخاطب کیا تھا...
"ہم کہاں جا رہے ہیں..." شانزے کو
کچھ سمجھ نہیں آیا.. اسے لگا چوری پکڑی گئی..
"حیدرآباد..." یوسف نے
اطمینان سے جواب دیا تھا...
"کیا... لیکن کیوں ؟؟" شانزے
پریشان ہوئی تھی..
"ریلیکس یار تمہارے گھر ہی جا رہے
ہیں..."
"وہ... وہ... اصل میں راستہ سمجھ نہیں
آیا تھا.. "شانزے شرمندہ ہوئی تھی..
تبھی یوسف نے پیٹرول پمپ کی طرف گاڑی موڑی تھی..
" کیا ہوا... ؟"اس نے دوبارہ پوچھا تھا...
"کچھ نہیں، بس دو منٹ میں آیا، تم گاڑی
میں بیٹھو... "
تھوڑی دیر میں ہی وہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا تھا.. پمپ
پہ خاصا رش تھا.. بائیک والے...
پیدل چلنے والنے بارش سے پریشان پمپ پے پناہ لینے پہ
مجبور تھے...
کتنے بائیک والے بائیک بند ہو جانے کی وجہ سے وہاں کھڑے
تھے...
کیونکہ روڈ پے پانی بھر چکا تھا... لیکن کوئی پرسانِ حال نہ تھا... انتظامیہ کہاں تھی کچھ نہیں پتا
تھا...
شہری اتنی پریشانی میں بھی مسکرا رہے تھے.. اور دوسرے
کو مدد کی پیش کش کرتے نظر آرہے تھے...
یہ ہے کراچی اور ایسے ہیں یہاں کے لوگ، ہر پریشانی کا
مقابلہ کرنے والے...
شانزے نے دل سے اپنے شہر کے لئے دعا کی تھی...
...........................................
یوسف نے کچھ اسنیکس لئے اور کافی کاؤنٹر پہ آیا جب اس
کی نظر عثمان پے پڑی۔
جو فیول فل کرا رہا تھا، غالباً کسی لڑکی کے ساتھ تھا...
لڑکی کون تھی وہ دیکھ نہیں پا رہا تھا.. وہ جلدی جلدی
سامان لیتا باہر نکلا تھا پر اسے پہلے ہی عثمان جا چکا تھا...
ایک شرارتی مسکراہٹ یوسف کے ہونٹوں پہ پھیلی تھی...
کچھ بھی تھا، کچی ڈور ہی سہی پر یوسف کے ہاتھ آہی گئی
تھی...
وہ سامان لے کے گاڑی میں آگیا تھا...
اور اب کافی اور اسنیکس شانزے کی طرف بڑھایا تھا...
شانزے کچھ جھجکی تھی... لیکن پھر اس نے کافی لے لی...
گاڑی میں ایک بار پھر مائک کی آواز آئی تھی...
Oh
Baby I
Think
that I'm falling in love with you
I’m
lifting my entire heart to you, who are so important
You
are the one
I
am asking you to stay
To
stay like this forever
اس بار دونوں کو اپنے دل سے آتی محسوس ہوئی تھی....
اب سے کچھ دیر پہلے جو موسم اسے خوف میں مبتلا کر رہا
تھا... اب وہی اسے حسین اور خوشنما لگ رہا تھا...
ہر چیز نکھری نکھری محسوس ہو رہی تھی... دل سے تمام شکوے
دھل گئے تھے...
نئی امنگوں نے دل میں انگڑائی لی تھی.
...........................................
"چلو بھئی... گھر آگیا تمہارا... "یوسف
نے گاڑی روکتے ہوئے کہا تھا...
بارش اب کافی ہلکی ہو گئی تھی...
شانزے فوراً گاڑی سے اترنا چاہتی تھی جب یوسف کی آواز
نے اسے رکنے پہ مجبور کیا تھا......
"کتنی بد لحاظ ہو تم... بندہ کوئی شکریہ... کوئی تھینکس بول
دیتا ہے... "یوسف نے بناوٹی انداز میں بولا.
"تھینکس وہ بھی تمہیں... ؟؟؟"
شانزے نے الٹا سوال کیا تھا..
"ہاں بالکل...." یوسف نے ڈھٹائی
دیکھائی تھی...
"کبھی نہیں..." شانزے کون سا کم
ڈھیٹ تھی...
"اچھا چلو مت بولو... لیکن اتنا تو کہ
دو کہ اب تم نے مجھے معاف کیا.... "یوسف نے اصل مدعہ بیان کیا تھا...
"اووو.... تو یہ بات ہے ۔"شانزے دل
میں کہتی اس کی طرف مڑی تھی...
"نہیں، کبھی نہیں... "شانزے نے ا
سے چڑایا تھا..
"پھر کیا کروں تمہیں منانے کیلئے...؟"
یوسف نے بےبسی سے سر اسٹیئرنگ میں مارا تھا...
"وہ سامنے درخت دیکھ رہے ہو... "شانزے
نے روڈ کی دوسری طرف لگے گھنے درخت کی طرف اشارہ کیا تھا..
شانزے نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا تھا...
یوسف نے ہاں میں سر ہلایا تھا..
"اور وہ اس کے نیچے جو وائٹ سمنٹیڈ بینچ
ہے وہ..." شانزے نے پھر پوچھا تھا اسے ہنسی روکنا مشکل ہو رہا تھا...
"ہاں یار...." یوسف چڑ گیا تھا..."
تم کیا میری آئی سائٹ چیک کرنے بیٹھ گئی ہو... بولو کرنا کیا ہے.."
"کچھ نہیں، بس وہاں بیٹھ کر صبح تک میرا
انتظار کرنا ہے.. "
"وہاٹ...آر یو سیریس...؟" یوسف کو
چار سو چالیس والٹ کا جھٹکا لگا تھا...
"بالکل..."شانزے نے ہاں میں سر
ہلایا تھا... وہ گاڑی سے اتر گئی تھی...
"شانزے میں صبح تک کروں گا کیا... ؟"یوسف
حیران ہوتا خود بھی گاڑی سے اترا تھا..
"میرے معاف کر دینے کا انتظار... "شانزے
نے اطمینان سے کہا تھا.. ہاتھ باندھتے ہوئے اس کے سامنے کھڑی ہوئی تھی.
"اور ویسے بھی تم نے تو کہا تھا جو میں
کہوں گی تم کروگے... تو میں سمجھوں تم نے ہار مان لی...؟"
شانزے کہہ کے پلٹی تھی، جب یوسف نے اس کا ہاتھ پکڑ کے
روکا تھا....
"اگر میں بارش میں بھیگ کر بیمار ہو گیا
تو... ؟"یوسف نے اس کی کالی گہری آنکھوں میں دیکھا تھا...
"تو پھر میں تمہارے لیے کوفی بنا کر
لاؤں گی... "شانزے اپنے گھر کی طرف بڑھی تھی..
جبکہ یوسف اسے مسکرتا ہوا جاتے دیکھ رہا تھا، پھر گاڑی
میں بیٹھ کر گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا....
....................................
"ارے اریزے بیٹا تم تو پوری بھیگ گئی
ہو... "می جانی فکر مند ہوئی تھیں۔
"میں ٹھیک ہوں می جانی فکر نہ کریں..."
اور ساتھ ہی اسے چھینک آئی تھی...
"دیکھو دیکھو... تمہیں فلو ہو گیا، جاؤ
شاباش جلدی سے چینج کرو میں چائے لاتی ہوں تمہارے لئے... "
"می جانی میں ٹھیکککک... اچھوں...
ہوں... اف...." شانزے کا سر چکرا گیا تھا.. اتنی چھینکیں..
وہ روم میں آئی تو سب سے پہلے کھڑکی سے باہر جھانکا...
شانزے کو ہنسی آئی تھی کیوں کہ درخت کے نیچے یوسف تو
کیا اس کا بھوت بھی نہیں تھا...
دل ہی دل میں مسکرائی تھی ایک اور بات جو مل گئی تھی
یوسف کو چڑانے کے لئے..
وہ جب پلٹی تو سامنے بیٹھی اریزے کو دیکھ کے ٹھٹکی...جو
ہاتھ میں رومال لئے بیٹھی تھی...
اور خوب مسکرا مسکرا کے اسے دیکھنے میں مصروف تھی.. اس
کے چہرے پہ بکھرے رنگ اس بات کو بتانے کے لیے کافی تھے کہ رومال کس کا ہے... لیکن
اصل مسئلہ تو یہ تھا کہ وہ رومال یہاں تک پہنچا کیسے...
تبھی شانزے دبے پاؤں اس کے پاس گئی اور ہاتھ سے رومال
کھنچ لیا... اپنے خیالوں میں گم اریزے بھی ہوش کی دنیا میں لوٹ آئی تھی...
"شانزے تم... تم کب آئیں...؟؟" اس نے حیران
ہوتے کہا تھا..
"میں بس ابھی جب اپ اس رومال میں گم
تھیں ۔"اس نے اس کے منہ پہ لہرایا تھا...
"شانزے پلیز واپس کرو یہ..." اریزے
نے ہاتھ بڑھایا تھا..
"اگر نہ کروں تو... ویسے ایسا بھی کیا
ہے اس میں...؟؟ رومال نہ ہوا سلیمانی ٹوپی ہو گئی.. " شانزے نے رومال
لہرایا...
"شانزے.. واپس کرو نہیں تو..."اریزے
نے رونے جیسی صورت بنائی تھی...
"نہیں تو کیا... "اب شانزے ضد پہ
آگئی تھی..
"مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا... "اریزے
نے جذبات میں کہا تھا..
"تم سے برا کوئی ہو بھی نہیں سکتا.. "شانزے
نے چڑایا تھا...
"شانزے پلیز نا.. یہ انہوں نے دیا
تھا... "اریزے نے التجا کی تھی...
OMG" - انہوں نے دیا تھا... "اس نے بیڈ پہ گرنے والے انداز
میں کہا تھا..
"چلو اب جلدی بتاؤ... کب ، کہاں ، اور
کیسے...؟؟ "
"اگر نہ بتاؤں تو ؟؟" اریزے نے اس
کو گھورا تھا....
"تو یہ کہ میں... "وہ کچھ بولتی اس
سے پہلے اسسے چھینک آگئی تھی.. اور شانزے نے رومال اپنے منہ کے قریب کیا..
"نہیں پلیز... بتاتی ہوں... "اریزے
اس کا ارادھ بھانپتے ہوے بولی تھی...
اریزے آہستہ آہستہ ا سے ساری بات بتانے لگی تھی...
"ارے واہ لانگ ڈرائیو ہاں... "شانزے
نے خوش ہوتے کہا تھا...
"کہاں لانگ ڈرائیو.... میں اتنی نروس ہو
رہی تھی کہ کچھ بولا ہی نہیں گیا۔" اریزے روانگی میں بول کے پھنس گئی تھی...
"اوہو - تو جناب کو دکھ ہو رہا ہے... تو پھر بلا لیتے
ہیں.. کیوں ؟؟"شانزے نے چھیڑا تھا...
"اف ایک تو تم نا ہر بات کو کہاں سے
کہاں لے جاتی ہو، مجھے چھوڑو یہ بتاؤ تم کیسے آئیں...
پریشانی ہوئی ہو گی نا بہت... "اریزے فکرمند ہوئی
تھی اسے یاد آیا تھا، وہ وقت جب وہ اسٹاپ پہ کھڑی تھی..
"نہیں نہیں پریشانی کیسی میں تو یوسف کے
ساتھ آئی ہوں... "شانزے اپنی ٹون میں بول گئی تھی...
پھر
دانتوں میں زبان دبائی تھی وہ جانتی تھی اب اریزے اس کو چھوڑنے والی نہیں ہے....
"ہمم تو میڈم مجھے چھیڑ رہیں تھیں... اب
اپنے بارے میں کیا خیال ہے..؟؟ "
"کس بارے میں کیا خیال ہے.. ؟"تبھی
می جانی اندر آئیں تھیں۔
"بس یہی کہ آپ دنیا کی سب سے خوبصورت
ماں ہیں... "شانزے نے لاڈ سے گلے میں بازو ڈالے تھے...
"چلو چائے پی لو.. "می جانی
مسکرائیں تھیں...
...........................................
وہ دونوں ہارر مووی دیکھ کے فری ہوئیں تو رات کا
تقریباً ٢ بج رہا تھا.. اس وقت بھی بارش ہو رہی تھی...
ساتھ ساتھ بجلی بھی چمک رہی تھی.. شانزے جلدی سے اپنے
بستر پہ لیٹ گئی تھی..
اریزے جب روم میں آئی تو شانزے نے اسے آواز دی تھی...
" اریزے.."
"ہاں.."اریزے نے جواباً کہا تھا...
"ڈر لگ رہا ہے..؟" شانزے نے جان
بوجھ کر پوچھا تھا وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اریزے ڈرتی ہے...
"نہیں.. نہیں تو..." اریزے نے اپنی
آواز کی کپکپاہٹ پے قابو پانے کی ناکام کوشش کی تھی...
"پکا نا... ؟"شانزے نے تصدیق چاہی
تھی..
"ہاں بالکل.." اریزے نے بستر سنبھالا
تھا...
"اچھا تو پھر ٹھیک ہے، تو کھڑکی بند کر
دو مجھے تو بہت ڈر لگ رہا ہے... ایسا نہ ہو کوئی بھوت کھڑکی میں بیٹھا ہو...اور وہ
اندر آجائے.... "شانزے نے جان بوجھ کر اسے سر ڈرایا تھا...
"چھوڑو شانزے دیکھو نا کتنی اچھی ہوا
آرہی ہے... "اریزے کو ڈر لگا تھا..
"ہاں ابھی تو ہوا آرہی ہے، کچھ دیر بعد
بھوت، چڑیلیں بھی ارہے ہوں گے." شانزے نے ڈراتے ہوئے کہا تھا..
"ایسا نہیں ہوتا.. "اریزے نے کمزور
دلیل دی تھی..
"اچھا مت مانو ،جب آئیں گے نا تب پتا
چلے گا، ہو سکتا ہے ابھی بھی کوئی بھوت نیچے کھڑا ہو... "
شانزے نے ہنسی روکی تھی..
"اچھا ٹھیک ہے بکو نہیں زیادہ... "اریزے
اٹھ کر کھڑکی میں آئی تھی...
اور سامنے کے منظر نے اس کے چودہ طبق روشن کر دیئے
تھے...
سامنے سچ میں کوئی تھا کالے سیاہ کپڑوں میں... جو یہاں
سے وہاں چلتا کھڑکی طرف ہی مڑتا تھا...
خوف سے اریزے نے شانزے کو آواز دی تھی..
" شانزے شانزے..."
"ہاں کیا ہوا، آجاؤ یار سوئیں اتنا ٹائم
ہو رہا ہے، کل میرا کوئز ہے..." شانزے کو نیند آئی تھی...
"شانزے... وہاں کوئی ہے..." اریزے
نے باہر دیکھتے ہوئے کہا تھا...
"کہاں یار.... کون ہو گا اتنی رات
میں...؟" شانزے چڑ گئی تھی..
"وہاں سامنے... شاید کوئی بھوت ہے..."
اریزے نے ڈرتے ہوئے جواب دیا تھا...
شانزے کا دل چاہا وہ اپنا سر پیٹ لے اس نے سوچا بھی
نہیں تھا، کہ اس کا مزاق اس پہ اتنا اثر کرے گا...
"اچھا تو کیا کر رہا ہے تمہارا بھوت...؟ "
"وہ ڈانس کر رہا ہے..." اریزے کی
آواز میں ابھی بھی ڈر واضح تھا..
شانزے کا صبر جواب دے گیا تھا، وہ اپنی جگہ سے اٹھتی
کھڑکی کی میں آئی تھی...
"تم پاگل ہو گئی ہو...بھوت وت نہیں ہوتے... اور
ڈانس... یہ تو حد ہی ہو گئی، کہاں ہے بھوت دکھاؤ.. "وہ باہر دیکھنے لگی جب
سامنے کے منظر نے اسے پوری آنکھیں کھولنے پہ مجبور کر دیا تھا... سامنے روڈ کے پار
درخت کے نیچے بلا شبہ وہ یوسف تھا..
"یوسف..." شانزے نے زیرِلب کہا تھا
پر پھر بھی اریزے نے سن لیا تھا...
"یوسف... کیا مطلب ہے... وہ بھوت نہیں
ہے...؟" اریزے پریشان ہوئی تھی...
"مطلب یہ کہ میں نے اس سے کہا تھا کہ اگر وہ ساری رات وہاں
کھڑے رہ کر میرا انتظار کرے گا، تو میں صبح اس سے معاف کر دوں گی."
"اف یہ لڑکا پاگل ہے... "وہ کہتی
باہر کی طرف بھاگی تھی... اور اریزے نا قابلِ یقین نگاہوں سے دیکھ رہی تھی...
...........................................
وہ تقریباًبھاگتی ہوئی اس کے پاس آئی تھی...
"تمہارا
دماغ ٹھیک ہے... تم پاگل ہو... "شانزے اس پہ بری طرح چیخ رہی تھی...
"تو پھر تم نے مجھے معاف کیا...؟؟؟"
یوسف ہنسا تھا...
شانزے کچھ پل کے لئے ساکت ہو گئی تھی، وہ کیا کہہ رہی
تھی اور یوسف کیا جواب دے رہا تھا...
"نہیں... "شانزے نے اکڑ کے کہا
تھا...
"کیوں...؟میں نے وعدہ پورا کیا ہے،
تمہارے آنے تک کھڑا رہا ہوں... "یوسف نے بے یقینی سے دیکھا تھا...
"کیوں کہ تم نے کان نہیں پکڑے..."
شانزے کی آواز میں شرارت تھی...
یوسف کو کچھ دن
پہلے کینٹین میں ہونے والا سین یاد آیا تھا...
وہ اب زمین پہ بیٹھ رہا تھا... گھٹنوں کے بل...
شانزے اپنی جگہ جم گئی تھی.. یوسف نے دونوں ہاتھوں سے
کان پکڑے تھے... شانزے نے نظریں جھکائیں تھی...
"تو مس شانزے حسان میں دل سے آپ سے
معافی مانگتا ہوں،جو تکلیف میں نے آپ کو دی، اس کے لئے میں آپ سے تہہ دل سے معافی کا طلب گار ہوں... تو کیا آپ مجھ
ناچیز کو معاف کر سکتی ہیں...؟؟؟" یوسف اب کی طرف دیکھ رہا تھا...
شانزے کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا بولے... ایک بار
پھر بارش ہو رہی تھی وہ دونوں اس میں بھیگ رہے تھے...
"بولو بھی میرے گھٹنوں میں درد ہونے لگا
ہے اب تو... "یوسف نے معصوم شکل بنائی تھی...
"بس ابھی سے تھک گئے ،جاؤ معاف نہیں
کرتی۔" وہ پلٹی تھی...
یوسف نے اس کا ہاتھ پکڑ کے کھینچا تھا...
" اب مجھے ضرورت بھی نہیں ہے... "
یوسف نے کہا تو شانزے حیران رہ گئی تھی...
"کیونکہ میں جان گیا ہوں کہ شانزے حسان
مجھ سے خفا نہیں ہے..." یوسف نے اس کے کان میں کہا تھا...
اس کی گرم سانسیں شانزے کان سے ٹکرائیں تھیں...
"پلیز گھر جاؤ اپنے..."
وہ وہاں رکی نہیں تھی، اگر ایک پل بھی وہاں رکتی تو وہ
شرم سے پانی ہو جاتی...
"تم وعدہ توڑ رہی ہو، کافی کہاں ہے
میری....؟" یوسف پیچھے سے چلایا تھا...
اریزے کھڑکی سے یہ منظر دیکھ کے مسکرائی تھی... اسے
یقین تھا کہ یوسف اس کی بہن کے لیے ہی بنا ہے...
..............................................
وہ سب ناشتے کی ٹیبل پہ تھے... شاہینہ بیگم سب کو ناشتہ
صرف کر رہی تھیں.. جب حسین نے یوسف سے پوچھا تھا.
"کل رات بڑی دیر سے گھر آئے آپ...؟؟"
"بس کچھ نہیں پاپا... وہ ایک دوست کو
چھوڑنے گیا تھا... "یوسف کچھ گھبرایا تھا..
"کون سا دوست...؟؟ "حسین مشکوک ہوئے
تھے...
"ہے ایک دوست پاپا آپ نہیں جانتے.."
یوسف نے بات ٹالی تھی..
"ایسا کون سا دوست ہے جو ہمیں نہیں
پتا... "عثمان نے بھی حصہ ڈالا تھا،" ماما نظر رکھیں اپنے لاڈلے پہ..."
"ہے نابس ایک دوست... اور پاپا کیا آپ
مجھ سے پوچھ تاچھ کر رہے ہیں...
بھائی سے بھی تو پوچھیں وہ کل کس کے ساتھ تھے..."
یوسف نے ایک دم ہی دھماکہ کیا تھا..
عثمان جو چاہے پینے لگے تھے گرم پیالی سے اپنا منہ جلا
بیٹھے تھے...
"میں کس کے ساتھ تھا مطلب.. ؟میں ٹائم
سے گھر آیا تھا..."
"اوہ... اچھا نکلے تو ٹائم سے پہلے
تھے..؟؟ "وہ بھی یوسف تھا عثمان بھول گئے تھے..." ماما نظر رکھیں نظر..."
یوسف نے انگلیوں سے وی بنایا تھا اور پہلے اپنی آنکھوں
کی طرف اشارہ کیا اور پھر عثمان کی طرف....
"ویسے بھائی کل آپ شاہراہ فیصل پہ تھے نا...
؟"یوسف نے آئی برو ا چکائیں تھیں...
"نہیں... نہیں تو، میں وہاں کہاں... "عثمان
نے چھوڑ لہجے میں کہا تھا..
"اوہ -
مجھے لگا..." یوسف نے مسکرا کے جواب دیا تھا...
"ویسے بیگم میرا خیال ہے آپ اپنے دونوں
لاڈلوں پہ نظر رکھیں... "حسین جو بہت دیر سے دونوں کی تکرار سن رہے تھے
بلاآخر بولتے ہووے ناشتے کی ٹیبل سے اٹھ گئے تھے.. جب کہعثمان اور یوسف ایک دوسرے
کو دیکھ کر ہنس پڑے تھے...
..........................................
وہ یونیورسٹی آگئی تھی اور کافی دیر ہو گئی تھی، لیکن
یوسف نہیں آیا تھا..
حالانکہ اس نے خود نو بجے کا ٹائم دیا تھا.. شانزے اب
پریشان ہونے لگی تھی..
"کہیں وہ بیمار تو...
نہیں نہیں ایسا ہوتا تو کسی کو تو پتا ہوتا...
ہو سکتا ہے اچانک طبیعت خراب ہو گئی ہو...
پھر بھی اس کو بتانا تو چاہیے تھا، پر ہو سکتا ہے راستے
میں ہو۔" شانزے نے دل کو تسلی دی تھی...
"محسن سے پوچھتی ہوں... "شانزے
محسن کو دیکھ رہی تھی، جب سامنے سے یوسف آتا دکھائی دیا..
"یہ ٹائم ہے تمہارے آنے کا.. "شانزے
اس کے منہ کے آگے گھڑی کی تھی...
"وہ کیا ہے نا کل رات میرے پیچھے ایک
چڑیل پڑ گئی تھی...تو بس اس وجہ سے میں بہت دیر سے گھر پہنچا تھا تو دیر سے سویا
اور پھر دیر سے اٹھا... "یوسف نے ڈیٹیل بتائی...
"اچھا تو کس نے کہا تھا چڑیل کے چکر میں
پڑو سیدھے گھر جاتے نا... "شانزے نے جل کے کہا تھا...
"اب کیا کرتا چڑیل تھی ہی اتنی پیاری..." یوسف نے معصومیت سے کہا
تھا جب کہ شانزے نے پاؤں پٹخا تھا...
"ہو گیا تمہارا... ؟؟؟؟ اب کوئز کے بارے
میں بات کریں...؟" شانزے نے چڑ کر کہا تھا..
"ابھی تو میں نے شروع بھی نہیں کیا..."
یوسف نے اس کو کنکھیوں سے دیکھا تھا..
"میرا مطلب ہے... کوئز ۔۔چلو آؤ بات
کرتے ہیں..."
.............................................
"اسلم بیٹا یہ تو کیا کر رہاہے... پھینک
دے میں کہتی ہوں... مان جا میرے بچے کہیں لگ جائے گا...
دیکھ میں تیرے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں، نہ کر میرے بچے اس
عمر میں اپنی ماں کو یہ کیسا دکھ دینا چاہتا ہے۔"
امان نے روتے ہوئے اسلم سے کہا تھا جو بڑا سا چاقو اپنی
گردن پہ رکھے کھڑا تھا...
"اماں اگر تجھے اتنا خیال ہوتا تو، تو
میری بات مان جاتی...میں نے کہا تھا تجھے تو نہیں مانی تو میں خود کو جان سے مار
دوں گا.."
میرے بچے یہ کیسی ضد تو نے لگا لی ہے... کیوں خود کو
لالچ کی آگ میں جھونک رہا ہے، ایک بار میری بات ٹھنڈے دل سے سن ۔"اماں نے پھر
سے ایک کوشش کی تھی...
"نہیں اماں.. تو میری بات سن آج تجھے
میرا فیصلہ کرنا ہو گا یا تو، تو مجھے
زینب کے لکھے خط دے گی یا پھر میں خود کو مار لوں گا... سوچ اماں سوچ میں
وہ خط دے کر صاحب سے ١٠ لاکھ روپے لے سکتا ہوں...
ہمارے دن بدل جائیں گئے اماں... میرا بیٹا بھی اچھے
اسکول میں جائے گا...میری بیوی بھی اچھا کپڑا پہنے گی اور تو.. تو اماں تیرا میں
اچھا علاج کراؤں گا...
ورنہ تو میرا بچہ یتیم ہو جائے گا..
میری
بیوی بیوہ ہو جائے گی...
اور
تو سوچ تیرا اکلوتا بیٹا تیری آنکھوں کے سامنے لاش بن جائے گا..."
اسلم اس وقت کچھ سننے کی حالت میں نہ نہیں تھا.. اس کا
جنون بڑھتا جا رہا تھا..
"اماں مان جا... "اب کی بار آمنہ
نے بولا تھا..
اماں
نے اس کی طرف شکوہ کناں نگاہوں سے دیکھا تھا...
"میں جانتی ہوں اماں یہ غلط ہے... لیکن
میں نہیں چاہتی میرا بچہ یتیمی کی زندگی گزارے۔" وہ اب رو رہی تھی..
ا سے دیکھ کر منا بھی رونے لگا تھا...
اماں بے بس ہو گئیں تھیں...
"ٹھیک ہے..." اماں کی ہاں نے تین
لوگوں کو زندگی بخشی تھی..
جب اماں کو لگا وہ مر گئی ہیں آج..
انہی مرے مرے قدموں سے اپنے صندوق کی طرف بڑھی تھیں...
اور ان میں سے نکال کر کچھ خط اسلم کی طرف بڑھائے تھے..
اسلم یک دم ہی ٹھنڈا پڑا تھا اس کا اس کی آنکھوں میں
چمک آگئی تھی...
......................................
"شانزے..." بہت دیر سے یوسف کو سن
رہی تھی وہ مختلف چیزیں سن رہا تھا اور سمجھا رہا تھا..
"میرا خیال ہے اب بس بہت ہو گیا ہے..
ورنہ برڈن ہو جائے گا.. باقی ہم دونوں سنبھال لیں گے ٹھیک ہے نا... "
یوسف نے مسکرا کر دیکھا تھا... لیکن شانزے کچھ پریشان
تھی..
"کیا ہوا سب ٹھیک ہے نا...؟"
" ہاں بس مجھے تھوڑا ڈر لگ رہاہے... "
"کیوں مجھ پہ بھروسہ نہیں ہے...؟"
یوسف نے بہت سنجیدہ ہو کر پوچھا تھا..
"یوسف ہے پر... اگر میں نے کچھ گڑبڑ کر
دی تو... ؟"شانزے کی پریشانی برقرار تھی..
"مجھے تم پہ پورا بھروسہ ہے..."
یوسف نے اس کو بہت سنجیدگی سے دیکھا تھا..
کچھ لمحے خاموشی سے سرک گئے... شانزے اس کی نگاہوں کی
تپش برداشت نہیں کر پائی تھی..
تبھی بات بدل کر بولی تھی...
"چلو اب بتاؤ کیا پلان ہے..؟؟؟ کوئز کے
لئے..؟؟" شانزے پوچھا تھا...
"پلان یہ ہے کہ.... کوئی پلان نہیں
ہے... "یوسف نے چیئر کی بیک سے ٹیک لگائی تھی...
"وہاٹ... "شانزے نے اس کی طرف غصے
سے دیکھا تھا..
"چلیں اب ٹائم ہو گیا ہے..."
........................................
"صاحب... میں اسلم... آپ کی زینب کا پتا
مل گیا ہے...میرے ١٠ لاکھ لے کر آجائیں..."
........................................
جاری ہے
CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING
Comments
Post a Comment