Badtameez ishq novel by Radaba Noureen Episode 12

Badtameez ishq novel by Radaba Noureen



بدتمیز عشق
قسط : 12
ردابہ نورین
......................................
"جس لڑکی سے مجھے پیار ہو گا وہ دنیا کی حسین لڑکی ہو گی۔" اس کی اپنی آواز کانوں میں گونجی تھی. "جب وہ میری طرف دیکھےگی تو تو ہوا میں خوشبو پھیل جائے گی..." اسے لگا ہر طرف خوشبو بکھر رہی ہے، شانزے کی سانسوں کی خوشبو وہ ہوا میں محسوس کر سکتا تھا. یوسف نے اس کے چہرے پہ آتی لاٹوں کو کان کے پیچھے کیا تھا اسے ان لاٹوں کی مداخلت بہت زہر لگی تھی. اس نے بغور شانزے کے چہرے کو دیکھا تھا، کھلا کھلا چہرہ، غصے اور معصومیت کے ملے جلے احساس لئے اسے بہت پیارا  لگا تھا. ایک عجیب دلکشی تھی اس چہرے پہ، بلا شبہ وہ خوبصورت لوگوں میں شامل ہوتی تھی. لیکن ایسا بھی نہ تھا کہ وہ آخری حسین لڑکی ہو لیکن کچھ تھا اس میں جو اسے خاص بناتا تھا... ہاں..!!! اس کی کالی سیاہ مقناطیسی آنکھیں جو دیکھنے والوں کو سحرزدہ کرتی تھیں. یہی اسے دوسروں سے منفرد کرتی ہیں ،اتنی کالی آنکھیں تو اس نے کبھی نہیں دیکھیں تھیں. وہ جب بھی انھیں دیکھتا تھا ایک عجیب احساس اس جکڑ لیتا تھا. جیسے  یوسف کی نظریں تھیں کہ جم کے رہ گیں تھیں، جبکہ شانزے کی نظریں جھک گئیں تھیں. یوسف کو جلدہی اپنی حالت کا احساس ہوا تھا. اپنے جذبات پے قابو پاتے ہوئے مصنوعی غصے سے شانزے سے بولا.
"تمہارے دماغ کے سکریو ڈھیلے ہیں یہ تو مجھے پتا ہے لیکن یہ ہیڈ لائٹ جیسی آنکھیں کیا ان کے سارے سکریو بھی تمہارے دماغ کی طرح ڈھیلے ہیں ؟ ہر بار بچانے نہیں آؤں گا سمجھیں. "اس نے اپنا کالرجھاڑا تھا.
"ایکسکیوز می...!!! میں نے تمہیں انویٹیشن نہیں بھیجا تھا کہ مسٹر یوسف میر میں مصیبت میں پڑنے والی ہوں او اور آکر مجھے بچاؤ، تم خود آئے تھے..." وہ کہہ کر لائبریری کی طرف بڑھ گئی تھی.
شانزے کو کتنی دیر یقین نہیں آیا تھا اپنی آنکھوں پر لیکن یوسف کی باتوں نے تو جیسے آگ ہی لگا دی تھی، اس لئے شانزے نے ساری مروت سائیڈ میں رکھتے ہوئے کہا تھا. حالانکہ کتنے دن سے وہ سب جملے رٹ رہی تھی جو اس نے یوسف کو کہنے تھے پر اس کو دیکھتے ہی جیسے وہ سب بھول بھال گئی تھی گجنی کے عامر خان کی طرح اس لئے چپ چاپ کھسکنے میں ہی عافیت جانی...
یوسف کے ہونٹوں پہ ہنسی پھیلی تھی اس سے پہلے کہ وہ لائبریری میں داخل ہوتی وہ اس کے سامنے آکھڑا ہوا تھا.
"کیا مسئلہ ہے اب...؟؟؟ "شانزے اکتائی تھی.. دراصل وہ نہیں چاہتی تھی کہ یوسف اس کے دل کا راز پا لے.
"لسن... کیا ہم بغیر لڑے، سکون سے دو منٹ بات کر سکتے ہیں..؟؟؟" یوسف کی آنکھوں میں محبتوں کے رنگ پھیلے تھے.
اور شانزے کے لئے ان سے بچنا مشکل ہو رہا تھا، وہ جتنا گریز کر رہی تھی اتنا ان کی نظریں تک رہی تھیں.
"کر سکتے ہیں اگر تم اپنا یہ دی گریٹ والا ایٹیٹیوٹ سائیڈ میں رکھ دو تو..."
"اوکے تو رکھ دیا... "یوسف نے مثنوی انداز میں بولا. 
اس کے انداز پہ ہنسی آئی۔
" اب  بولو بھی... "شانزے مزید ان میں دیکھ نہ سکی اس لئے نظریں چرا گئی تھی جبکہ یوسف کو اس کا نظریں چرانا بڑا دلکش لگا تھا. وہ کیا کہنا چاہتا تھا شانزے کی مسکراہٹ دیکھ کر سب بھول گیا تھا.
"بولو بھی کیا ہوا۔"شانزے نے اس کے سامنے ہاتھ لہرایا تھا..
"ہاں..!! وہ...!! کیسی ہو تم..؟؟ کہاں تھیں اتنے دن سے ؟؟ "یوسف کو بات کرنے کے لئے اس سے اچھا جملہ نہیں ملا تھا.
"واہ کیا انداز ہے جناب کا... بڑی جلدی خیال آگیا۔" شانزے نے دل میں سوچا.
" میں ٹھیک ہوں اور ویسے آپ کی معلومات میں اضافہ کر دوں کہ میں کل بھی آئی تھی پر آپ غائب تھے... "آخر کے لفظ کافی چبا کر ادا کیے گئے تھے..
"اوہ - تو تم مجھے مس کر رہی تھیں...؟" یوسف نے جان بوجھ کر مس کا ورڈ یوز کیا تھا.. جب کہ خود دیوار سے ٹیک لگائے اطمینان سے آس پاس کے نظارے کر رہا تھا.
"یو نو وہاٹ... انسان بلی پال لے پر خوش فہمی نہ پالے... "وہ لائبریری کی طرف بڑھی تھی.
"اچھا تو پھر صبح سے ڈھونڈنے کی کوئی خاص وجہ؟ابھی کچھ دیرپہلے شاید کچھ ایسی آواز آرہی تھی یہیں کہیں سے... "وہ بھی ڈھیٹ ابن ڈھیٹ تھا اتنی آسانی سے ہار کیسے مان لیتا...
شانزے کو بریک لگا تھا، اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یوسف سب سن چکا ہے. تو کیا وہ اس کا انتظار کر رہا تھا اور یہ انکشاف شانزے کے اوسان خطا کرنے کے لئے کافی تھا...
" وہ اصل میں... میں... "شانزے کے لفظ اس کا ساتھ نہیں دے پا رہے تھے..
"کیا ؟؟؟" یوسف نے اس کی کالی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا تھا. شانزے کی ایسی حالات دیکھ کر اسے کافی مزہ آرہا تھا. کیونکہ اب سے کچھ دیر پہلے والی شانزے کہیں غائب ہو گئی تھی. اس کا سارا اعتماد ہوا ہوگیا تھا. اس کے چہرے پہ اعتراف لکھا تھا...
"وہ اصل میں... میں اس دن کے لئے تمہیں تھینکس بولنا چاہ رہی تھی. "شانزے نے بلاآخر اپنی بات مکمل کی تھی.
"اوہ.... تو اب بول دو..." یوسف نے بظاہر لاپرواہی سے کہا تھا. لیکن شانزے کی ہارٹ بیٹ مس ہوئی تھی. کچھ پل کے لئے تو لگا کہ یوسف اس کے دل کا راز پا گیا ہے..
"کیا...؟؟؟  "بہت ہمت کر کے شانزے نے جھجکتے ہوئے کہا تھا.
"وہ جو شانزے حسان کہنا چاہتی ہے پر کہہ نہیں پا رہی... "یوسف وہاں رکا نہیں تھا وہ جو جاننا چاہتا تھا جان چکا تھا وہ جو کہنا چاہتا تھا بنا کچھ کہے بھی کہہ گیا تھا،  اور شانزے اسےتب تک دیکھتی رہی تھی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گیا تھا،تو بلاآخرآگہی کا لمحہ آکر گزر گیا تھا.. خاموشی سے... اور نئی داستان کی بنیاد رکھ دی گئی تھی. دو دلوں کی داستان... محبت کی داستان..   
..............................................
 "کیا ہوا اسلم ؟کس بات کے لئے پریشان ہے. ؟کیوں ادھر سے ادھر غصہ کرتا پھر رہا ہے؟" اماں نے اسلم کو ٹوکا تھا جو چیزیں یہاں سے وہاں پٹخ رہا تھا.
" اماں تو چپ کر جا۔۔ تو نہیں سمجھے گی کیا مسئلہ ہے، "
"ماں ہو ں تیری ۔۔ایسے نہیں تجھے اتنا بڑا کیا." اماں نے لاڈ سے اس کے سر پہ  ہاتھ پھیرا تھا۔
" وہ صاحب ہے جو زینب کا پتا کرنے آتا ہے اس نے کل آنا تھا پر نہ تو وہ آیا اور نہ اس کا کوئی فون آیا ۔۔اتنے مہینوں میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا، کہیں ایسا تو نہیں اس کو سب پتا چل گیا ہو۔۔ میرے سونے کا انڈا دینے والی مرغی میرے ہاتھ سے نکل گئی ہو." اسلم نے پریشانی کے علم میں اماں کو بولا تھا. جبکہ اماں ہکابکا سی رہ گئیں تھیں. ان کا بیٹا لالچ کے دلدل میں پھنسا تھا یہ تو وہ جانتی تھیں پر اس حد تک یہ تو انہوں نے کبھی غور ہی نہیں کیا تھا.
"دیکھ اسلم بیٹا اتنا لالچ اچھا نہیں ہے. تو بتا کیوں نہیں دیتا سب کچھ اس کو ۔۔۔مجھے تو بڑا بھلا آدمی لگتا ہے. بڑا ترس آتا ہے بیچارے پر۔۔۔ کیا بیتے گی اس پہ جب اسے پتہ چلے گا. "
"اوہو اماں اب تو اپنا سبق نہ شروع کر دینا. ہزار دفعہ کہا یہ تیرے سبق آج کل نہیں چلتے. آج کل صرف پیسہ چلتا ہے پیسہ "اسلم ماں کی بات سے متفق نہیں تھا.
" میں جانتی ہوں سبق پرانا ہے۔۔ پر بیٹا ہرزمانے کے لئے دیا گیا سبق ہے یہ، نئی بنیادیں وہی لوگ رکھتے ہیں جو اس راز سے واقف ہوں کہ ماضی میں بیٹھ جانے والی بنیادوں کی کیا وجہ تھی. دیکھ بیٹا الله کی لاٹھی بےآواز ہے ،کسی کا صبر نہیں آزماتے میرے بچے، صبر کرنے والا صبر کر کے اگربھول بھی جائے لیکن الله کسی کا صبر رائیگاں نہیں جانے دیتا ۔۔وہ سب یاد رکھتا ہے. دکھی دل سے نکلی آہ تو سیدھا عرش پہ پہنچتی ہے."
" اماں یہ دیکھ میں تیرے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں ۔۔"اس نے سچ میں ہاتھ ہی جوڑے تھے." اس کا صبر پڑے نہ پڑے پر تیری چیکچک ضرور پڑ گئی ہے، تبھی صاحب نہیں آیا. اور یاد رکھنا اماں اگر وہ نہ آیا نا تو ہم سب بھوکے مریں گے. "اس نے تقریباًماں کو دھکہ دیا خود باہر نکل گیا تھا. اماں اور آمنہ دونوں ہی ایک دوسرے کا منہ دیکھتی رہ گئیں تھیں.
" میں ڈرتی ہوں آمنہ کہیں اس کا لالچ ہمارے آگے ہی نہ آجائے. تو سمجھا اسے بیٹا. "انہوں نے پاس بیٹھی بہو کو بڑے مان سے کہا تھا جو ان کی ہی طرح پریشان تھی  ۔
"جانتی ہوں اماں پر وہ آپ کی نہیں سنتے تو میری کہاں سنیں گے. لیکن پھر بھی میں بات کرنے کی کوشش کروں گی.." اس نےپاس بیٹھے اپنے بیٹے کے منہ میں آخری نوالہ ڈالا تھا.     
..................................................
عثمان ناشتے کے لئے آیا تو حسین بھی وہاں موجود تھے. شاہینہ اور حسین شاید کسی اہم موضو ع پہ بات کر رہے تھے تبھی دونوں کافی سیریس نظر آرہے تھے کیوں یہ بات وہ اب بہت اچھی طرح جانتا تھا.
"خیریت ہے پاپا آپ گئے نہیں ابھی تک ؟؟ "عثمان نے چیئرکھنچ کر بیٹھا تھا.
"ہاں.. بس نکل رہا تھا. وہ آج مجھے اسلم سے ملنے جانا ہے. کافی دن سے جا نہیں پایا."
"اسلم ؟؟ کون اسلم پاپا ؟؟" عثمان نے چاے کا کپ منہ سے لگایا تھا.
"بیٹا وہی تو ہے جو مجھے زینی کے بارے میں تھوڑی بہت انفارمیشن دے پایا ہے. "انہوں نے اس کی بات کی وضاحت کی تھی صاف ظاہر تھا وہ نہیں چاہتے پھر کوئی غلط فہمی ہو. حسین کی آواز میں اتنی بیچارگی تھی کہ عثمان چاہ کر بھی نظر انداز نہیں کر پایا. اسے پاپا سے شرمندگی ہوئی تھی.یہی وجہ تھی کہ وہ مزید کچھ کہہ نہیں پا رہا تھا. 
"پاپا مجھے آپ سے کچھ بات کرنی تھی. "حسین آفس کے لئے نکل رہے تھے کہ عثمان نے آواز دی.
"آجاؤ- ساتھ میں چلتے ہیں بات بھی ہوجائے گی. "حسین دروازہ سے باہر نکل گئے تھے.
عثمان پیچھے چل پڑا تھا. اسے پہلے کہ ڈرائیور اپنی سیٹ سنبھالتا عثمان ڈرائیونگ سیٹ پہ براجمان تھا. "رحمان آپ میری گاڑی لے کے آفس آجائیں، آج کے لئے میں ہی پاپا کا ڈرائیور ہوں۔" اس نے پاپا کو مسکرا کر دیکھا تھا۔" کیوں پاپا ٹھیک ہے نا.؟"
وہ دونوں اب شہر کی مصروف ترین شاہراہ پہ موجود تھے۔
"تمہیں کچھ بات کرنی تھی ۔"حسین اپنے بیٹے کی مشکل آسان کرتے ہوئے بولے.
"پاپا میں آپ سے زینب آئی مین زینب پھوپھو کے بارے میں بات کرنا چاہ رہا تھا. "عثمان نے جھجکتے ہوئے کہا تھا. وہ ایک ایک لفظ سنبھال سنبھال کے ادا کر رہا تھا، پہلے ہی وہ کافی تکلیف دے چکا تھا اب مزید کوئی دکھ پہنچے یہ اس کو گوارہ ہی کب تھا.
"ہاں بیٹا ضرور بولو کیا بولنا چاہتے ہو. "حسین نے اسے حوصلہ دیا تھا.
"پاپا میں چاہتا ہوں کہ میں بھی آپ کے ساتھ اسلم سے ملنے چلوں، اگر آپ کو اعتراض نہ ہو پاپا میں چاہتا ہوں کہ ہم مل کے پھوپھو کو ڈھونڈیں۔۔ پلیز پاپا.."
حسین کے لب ہی نہیں بلکہ آنکھیں بھی مسکرائیں تھیں ایک سکون تھا جو ان کے چہرے پہ پھیل گیا تھا. اور وہی سکون عثمان نے اپنے اندر بھی محسوس کیا تھا اسے اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا.
.............................................
"کہاں تھے تم ؟؟ کل بھی غائب رہے اور آج بھی جب سے آئے ہو غائب ہو." رانیہ نے یوسف کو کڑے تیوروں سے دیکھا تھا..
"کہاں ہونا تھا... بس یہاں ہی ہوں.. کچھ کام تھا اس لئے کل نہیں آسکا... اور ابھی بس لائبریری تک ہی گیا تھا، لیکن تم تو ایسے پوچھ تاچھ کر رہی ہو جیسے پولیس میں ہو گئی ہو اور میں کوئی فرار مجرم." یوسف نے تپے ہوئے انداز میں جواب دیا تھا.
رانیہ کو ہنسی آگئی تھی۔
" نہیں میرا وہ مطلب نہیں تھا.. اصل میں کافی دیر سے تمہیں ڈھونڈھ رہی تھی لیکن تم مل نہیں رہے تھے."
"ہاں کیوں کہ میں نے سلیمانی ٹوپی پہن لی تھی... "یوسف کا انداز ابھی بھی کافی تپا ہوا تھا.
"اچھا موڈ ٹھیک کرو- تمہیں کچھ بتانا ہے، سنا ہے اسٹوڈنٹ ویک سٹارٹ ہو رہا ہے  اس کے بعد فائنل پیپرز ہیں اس کے بات گرینڈ پارٹی اور پھر ہم یونیورسٹی سے آزاد ۔۔"رانیہ نے گول گھومتے ہوئے دونوں بازو ایسے پھیلائے تھے جیسے کھلے آسمان پہ کوئی پرندہ اپنے پر پھیلا رہا ہو.
"ارے واہ سٹوڈنٹ ویک - پارٹیسپٹ کرنے کی لاسٹ ڈیٹ کیا ہے.؟" اس کی اتنی لمبی لسٹ میں یوسف کو صرف ایک یہی بات قابلِ غور لگی تھی.جس سے اس کا موڈ بھی بحال ہو گیا تھا.
"وہ تو میں نہیں جانتی پر سنا ہی ایک دو دن میں اناؤسمینٹ کر دی جائے گی آڈیٹوریم میں. "
"خبر لائیں وہ بھی آدھی ادھوری.." یوسف نے کمینٹ پاس کیا تھا..
"یوسف میں تمہاری دوست ہوں جاسوس نہیں ہوں... "اب کی بار رانیہ کو برا لگا تھا.
"اچھا چلو خیر ہو گئی... دیکتے ہیں پھر کون کون ہیں کمپیٹیشن میں۔۔" یوسف نے کچھ سوچتے ہوئے کہا تھا..
"کوئی بھی ہو مجھے یقین ہے جیتو گے صرف تم... "رانیہ کے لہجے میں بے پناه محبت تھی اس کی لو دیتی آنکھیں کسی کو بھی چونکا دیتیں، پر یوسف تو جیسے اندھا ہو گیا تھا اسے یہ سب نظر کہاں آتا تھا، یا پھر وہ جان کے بھی انجان تھا اور اب  شانزے کے ہوتے ہوئے تو سوال ہی نہیں ہوتا کہ  وہ کسی اور کی طرف توجہ دے پھر چاہے وہ رانیہ ہی کیوں نہ ہو. پر رانیہ کو اس سب کی خبر ہی کہاں تھیں. وہ دونوں ہی خیالوں میں گم تھے وہ الگ بات ہے کہ یوسف شانزے کے اور رانیہ ، یوسف کے خیالوں میں گم تھی.
...........................................................
عثمان اور حسین دونوں اسلم کے دروازے پہ کھڑے تھے، عثمان پہ حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹا تھا کہ اس کی پھوپھو یہاں ایسے کسی علاقے میں ہو سکتی ہیں. لیکن فی الحال خاموشی کے علاوه کوئی چارہ نہ تھا.
بار بار دروازہ بجانے پر اسلم نے دروازہ کھولا تھا اور وہ عثمان کو دیکھ کر گھبرا گیا تھا کیوں کہ آج سے پہلے حسین ہمیشہ اکیلے آتے تھے.
"صاحب یہ اپنے ساتھ کس کو لائے ہو.؟"اسلم نے ڈرتے ہوئے پوچھا تھا.
"گھبراؤ نہیں یہ میرا بیٹا ہے." حسین اس کی گھبراہٹ بھانپ گئے تھے.
"کیا صاحب آپ نے اتنے دن لگا دیے آنے میں۔۔" اسلم نے بات شروع کی تھی.
"ہاں وہ کچھ مسئلے تھے. تو ان کی وجہ سے مصروف رہا. تم بتاؤ کوئی خبر ہے، زینب ملی تمہیں ؟؟ "حسین کی آواز میں بےچینی تھی.
"خبر تو ہے میرے پاس... پر آپ تو جانتے ہو نا جب تک پیٹ میں کچھ نہ جائے تو.... خبر نکلتی نہیں ہے مجھ سے..." اسلم نے کمینگی سے کہا تھا..
"دیکھو اسلم... میں تمہیں پہلے ہی اتنے پیسے دے چکا ہوں لیکن آج تک تم مجھے ایک بھی ڈھنگ کا ثبوت نہیں دے سکے سوائے اس کی چند پرانی چیزوں کے۔۔۔ آخر کب تک میں تمہیں ایسے ہی پیسے دیتا جاؤں... اگر تم جانتے ہو تو آخر بتاتے کیوں نہیں کہ وہ کہاں ہے.؟"
"صاحب میرا کام کرنے کا یہی سٹائل ہے بنا پیسوں کے مجھ سے کام نہیں ہوتا..آپ امیروں کا بھی عجیب ہے پہلے تو اپنی عورتیں سنبھلتی نہیں ہیں پھر انھیں یوں گلیوں بازاروں میں ڈھونڈتے پھرتے ہو... اور صاحب آپ کو تو معلوم ہونا چاہیے نا کے گھر سے بھاگی عورت کو ڈھونڈنا اتنا آسان نہیں ہوتا ۔۔وہ تو راہ چلتے پھول کی طرح ہوتی ہے جس کو آتا جاتا ہر شخص سونگھتا ہے.." اسلم نے اپنی ساری حدیں پار کر دی تھیں.
جانے خون کا اثر تھا یا کیا ، عثمان جس نے ایک بار بھی پاپا اور اسلم کے درمیان مداخلت نہیں کی تھی اس کے ایسے الفاظ برداشت نہیں کر سکا اس نے بڑھ کر اسلم کا گریبان پکڑا تھا۔
"  منہ سنبھال کے بات کرو ورنہ تمہارا منہ توڑدوں  گا سمجھے.."
"میں نے کچھ غلط نہیں کہا صاحب.. آپ خود ڈھونڈھ رہے ہو اسے... "
بات بگڑتی اس سے پہلے ہی حسین نے عثمان کا ہاتھ پکڑا تھا وہ اب دونوں کو الگ کر رہے تھے. "بھاگی نہیں تھی میری بہن... بھاگی نہیں تھی وہ..." حسین کی آواز اتنی سخت تھی کہ عثمان کے ساتھ اسلم ہی حیران رہ گیا تھا اس نے آج تک حسین کو التجا کرتا ہی دیکھا تھا.
"ٹھیک ہے صاحب بھاگی نہیں تھی ، اگر ملنا ہوتا تو وہ خود آسکتی تھی۔" اسلم نے اپنی بات جاری رکھی تھی." اب ان حالات میں ڈھونڈنا تھوڑا تو مشکل ہے نا۔"اس نے پینترا بدلا تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ بات بگڑے اور وہ پیسوں سے ہاتھ دھو بیٹھے.
"کتنے پیسے چاہیے تمہیں ؟؟" عثمان سے اس کی بات کاٹی تھی۔
"ایک لاکھ روپے.." اسلم کے لئے تو یہ سنہرا موقع تھا.
"ٹھیک ہے، میں تمہیں دس لاکھ دوں گا... "حسین نے روکنا چاہا تھا پر عثمان نے کچھ بھی کہنے سے روک دیا تھا۔
"دس لاکھ... "اسلم نے زیرِ لب دھرایا تھا..
"ہاں دس لاکھ۔۔ لیکن ان کا پتا ملنے کے بعد... پتا بتاؤ اور دس لاکھ لے لو... ورنہ ایک روپیہ بھی نہیں... "عثمان گاڑی کی طرف چل دیا تھا اور حسین نے اس کی پیروی کی تھی.
وہ جانتے تھے کہ ان کا بیٹا چال چل گیا تھا انتظار تھا تو اس بات کا کہ اسلم اس میں کب پھنستا ہے... کیونکہ یہ بات تو وہ جانتے تھے کہ آج نہیں تو کل اسلم اپنے لالچ کے ہاتھوں اس چال میں پھنس ہی جائے گا... اور ایسا ہوا بھی تھا اسلم کو صرف ایک ہی آواز سنائی دے رہی تھی... دس لاکھ....
....................................
اریزے نے دل لگا کر بہت محنت سے شیٹ تیار کی تھی اور کوئی دس بار وہ اس شیٹ کو دیکھ چکی تھی. اب جلدی تھی تو اس بات کی کہ کب عثمان آئے اور وہ اس کو دیکھائے. اسے پورا یقین تھا کہ اس بار تو عثمان اس کی محنت کو ضرور سراہے گا. پر عثمان تھا کہ آہی نہیں رہا تھا. ٣ دن گزر گئے تھے. اور تین دن میں نجانے کتنی بار وہ اس شیٹ پہ کام کر چکی تھی اور اب وہ ہر لحاظ سے پرفیکٹ تھی کسی غلطی کی کوئی گنجائش نہیں تھی اس میں. لیکن مشکل یہ تھی کہ جس کے لئے محنت کی تھی وہ جناب آج بھی غائب تھے اور آنے کا کوئی آثار نظر نہیں آرہا تھا. 
اور مصیبت یہ تھی آج عمیر بھی نہیں آیا تھا، اس لئے وہ کافی بور ہو رہی تھی کیوں کہ جب دونوں باس نہیں ہوتے تھے تو آفس میں کام نا ہونے کے برابر ہوتا تھا. اس لئے وہ اپنی چئیر پہ براجمان بڑے شوق سے گلاس ونڈو سے باہر کے نظاروں میں مصروف تھی آج کل موسم خوش گوار تھا. تقریباً روز شام میں پھوار پڑ جاتی تھی جس نے موسم کی دلکشی بڑھا دی تھی. ہر چیز نکھری نکھری سی لگتی تھی. قدآورکھڑکی سے نیلا آسمان دیکھنا بڑا بھلا لگتا تھا. اس لیے وہ جب بھی فارغ ہوتی تو وہاں باہردیکھنے لگتی. کبھی تو دل کرتا کہ وہ بھی آسمان میں پرندوں کے کسی جھرمٹ میں شامل ہو کر ان کی طرح پر پھیلائے اڑنے لگے... سورج کی کرنوں سے آنکھ  مچولی کھیلے.... بادلوں کی نرمی کو محسوس کرے... یا پھر آسمان کا نیلا رنگ اپنے اوپر اوڑھ لے... اسے ہمیشہ ہی آسمان کا نیلا رنگ اپنی طرف کھنچتا تھا، اور اس وقت تو بات ہی الگ تھی... آفس میں بیل بجنے کی آواز نے اسے چونکا دیا تھا. اس کا مطلب تھا کہ عثمان یا عمیر میں سے کوئی آفس آگیا ہے. تو کیا وہ اتنی بےخبر تھی کہ اسے احساس ہی نہیں ہوا. اریزے کا دل چاہا کہ اپنی حالت پہ ماتم کرے لیکن بہرحال اب فائدہ نہیں تھا سوائے اس کے ، کہ وہ دعا کرے عثمان نہ ہو. ورنہ کتنی بےعزتی ہو گی اس کی. ابھی تو وہ لاسٹ ٹائم والی ہی نہیں بھولی تھی. وہ لاحول پڑھنے لگی تھی.
"میڈم آپ کو سر بلا رہے ہیں." پیون نے آکر اطلاع دی تھی. جس کا مطلب تھا عمیر آیا ہے، کیوں کہ عثمان کسی کو بھی بلانے کے لئے انٹرکام استعمال کرتا تھا یا پھر خود جاتا تھا پاس.
 اریزے کا رکا ہوا سانس بحال ہوا تھا. وہ دروازہ نوک کرتی اندر داخل ہوئی تھی. لیکن اندر بیٹھا شخص  اس کے ہوش اڑنے کے لئے کافی تھا. اریزے کا رنگ اوڑھ گیا تھا فل اےسی میں بھی اسے پسینہ آرہا تھا. عثمان نے اس کی بدحواس ہوتی شکل کو غور سے دیکھا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے چہرے پے ہنسی پھیل گئی تھی.
"اریزے.. آر یو اوکے ؟ "
"جی سر... آئی یم... پر آپ یہاں ؟؟ کیسے ؟؟؟ میرا مطلب کیوں آئے... نہیں میرا مطلب کب آئے ؟؟" اریزے کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا بولے، اور ہمیشہ ایسا ہی تو ہوتا تھا نہ جانے عثمان کے سامنے ہی کیوں اس کا دماغ کام کرنا بند کر دیتا تھا.
جبکہ عثمان کو اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہو گیا تھا.
"کیوں اریزے آپ کسی اور کو ایکسپیکٹ کر رہی تھیں ؟؟"
"سوری سر... میرا یہ مطلب ہرگز نہیں تھا." اریزے کو شرمندہ ہوئی تھی اور دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگی تھی.
"اٹس اوکے، اریزے آپ شیٹ لے آؤ تاکہ آج اسے فائنل کر لیں. "اس کا اترا اترا چہرہ عثمان کو بالکل اچھا نہیں لگا اس لئے اس نے بات بدلی تھی.
"جی سر۔" وہ جانے کے لئے پلٹی تھی جب عثمان کی آواز نے اسے روکا تھا.
"ویسے میں اس وقت آیا تھا جب آپ دور کہیں آسمانوں میں اڑ رہیں تھیں. "وو بظاہر ایک فائل میں مصروف ہوتے بولا. انداز بہت عام سا تھا لیکن اریزے کو چونکا گیا تھا.
"تو کیا سر سوچیں بھی پڑھ لیتے ہیں.. "وہ سوچتی آفس سے نکل گئی تھی.
عثمان اب بھرپور انداز میں مسکرایا تھا کیوں کہ فائل میں دیکھنے کے بعد بھی وہ جانتا تھا اریزے کا چہرہ کیسا دکھ رہا ہو گا. اور پھر وہ اسے کیا بتاتا کہ وہ لمحہ اس کے لئے کتنا قیمتی تھا. کتنا نکھرا چہرہ تھا اس کا. معصوم دنیا بھر کی سنجیدگی لئے. کتنا سکون تھا اس کے چہرے پہ، کتنے رنگ دیکھے تھے اس نے اریزے کے چہرے پہ. اس کا دل چاہا تھا وہ لمحہ تھم جائے اس لئے اس نے اس لمحے کو محفوظ کر لیا تھا. پر وہ اتنی بےخبر تھی کہ یہ بھی نہ  جان نہیں پائی کپ عثمان کے فون میں قید کر لی گئی ہے.
دروازے پہ دستک دیتی وہ اندر آئہ تھی.
"سر شیٹ۔۔" اس نے عثمان کے آگے رکھی.
"بیٹھیں... "عثمان نے چئیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا.
اب بہت غور سے وہ شیٹ دیکھ رہا تھا. اریزے نے سکھ کا سانس لیا. اسے یقین تھا کہ ہر چیز پرفیکٹ ہے.
"مس اریزے آپ غلطی جان بوجھ کر کرتی ہیں یا ہو جاتی ہیں.؟" انداز استہزائیہ تھا.
"یا الله رحم... اب کیا ہو گیا..." اریزے کو لگا کسی نے منوں پانی انڈیل دیا ہو.
"کام کے وقت بھی آپ کا دھیان نہیں ہوتا. آپ نے اس پہ سگنیچر تو کیے ہی نہیں ہیں تو کیسے پتا چلے گا کہ یہ شیٹ کس نے بنائی ہے اور اگر آپ اپنی عادت نہیں بنائیں گی تو کوئی بھی آپ کا نام استعمال کرسکتا ہے.  "
اس کا لہجہ سخت نہیں تھا. پر پھربھی اریزے کو صدمہ پہنچا تھا کتنی محنت کی تھی اس نے.
"سر آپ نے تو کہا تھا کہ غلطیاں کیجئے انسان اس طرح سیکھتا ہے." اتنا بےتکا جواز اریزے نے حد ہی کر دی تھی. نہایت معصومیت سے کہا گیا تھا اتنا کہ تھوڑی دیر کے لئے تو مقابل کو حیران کر گیا تھا. نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ہنس پڑا تھا.
"بالکل لیکن یہ بھی تو کہا تھا کہ اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنا چاہیے۔" وہ اریزے کی خوبصورت آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا تھا. اریزے اس کی نظروں سے گھبرا گئی تھی اس لئے نظریں جھکا لیں تھیں.
" غلطی کرنا غلطی نہیں ہوتی بلکہ اپنی غلطی کو دوہرانا یا پھر اس کو نظرانداز کرنا غلطی ہوتی ہے. " اس نے شیٹ اریزے کی طرف بڑھائی تھی.
"میں خیال رکھوں گی۔" اریزے نے شیٹ اپنی طرف کھنچ لی تھی.
"ایک منٹ اریزے۔" وہ سائن کرنے لگی ہی تھی کہ عثمان نے اسے روک دیا تھا.
وہ اپنی سیٹ سے اٹھ کر اس کے پاس آیا تھا۔
" یہاں یہاں سائن کیجئے ۔"وہ شیٹ کی طرف جھکا تھا، ایک ہاتھ اریزے کی چئیر پر اوردوسرے سے شیٹ پہ وہ اریزے کو پوائنٹ آؤٹ کرنے لگا تھا.
وہ اس کے اتنا نزدیک تھا وہ کہ آرام سے اس کی پرفیوم کی خوشبو اپنی سانسوں میں شامل ہوتی محسوس کر رہی تھی۔۔ اریزے نے چور نظروں سے دیکھا تھا. بلیک کلر کے تھری پیس میں اس کی شاندار پرسنیلٹی اور بھی شاندار لگ رہی تھی.
اس نے سائن کرنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تھا لیکن ہاتھ میں پکڑا پین لرز گیا تھا.
"کیا ہوا ؟؟ "عثمان نے اس کی ہاتھوں کی جنبش محسوس کی تھی.
دونوں کی نظریں کچھ لمحوں کے لئے ملیں تھیں. اس کی گھبراہٹ میں چھپا احساس محبت کا خوبصورت اعتراف عثمان سے چھپ نہیں پایا تھا. عثمان کے ہونٹوں پہ بڑی دلخیز مسکراہٹ پھیلی تھی. یہ بات تو روز اول سے طے تھی کہ میدان چاہے کامیابی کا ہو یا محبت کا ۔۔جیت اس کا مقدر ہو گی. یک ٹک اریزے کو دیکھ رہا تھا جو اب اس کے بتائے ہوئے کالم میں سائن کر رہی تھی. عثمان کو لگا اچانک ہی ماحول بدل سا گیا تھا جیسے ہر طرف رنگوں اور خوشبو کی بارش ہو... اسے یوسف کی کہی بات یاد آئی تھی.. لیکن جلد ہی اس نے اپنی جذبات لٹاتی آنکھوں کو قابو میں کیا تھا کچھ بھی تھا یہ اس کا آفس تھا اور جذبات لٹانے کے لئے جگہ کچھ موزوں نہیں تھی. اور اریزے سائن کرتے ہی وہاں سے چلی گئی تھی وہ جانتی تھی اس کے دل نے جرمِ محبت کا اعتراف کر لیا ہے... عثمان اس کی کیفیت سمجھ سکتا تھا اس لئے اس کو روکا نہیں.
....................................
یوسف یونیورسٹی آیا تو موڈ بہت خوشگوار تھا.. وہ اپنے گروپ سے مل چکا تھا.. اب انتظار تھا تو شانزے کا پر وہ آس پاس کہیں نظر ہی نہیں آرہی تھی.. اس لئے وہ ڈیپارٹمنٹ کی طرف چال دیا تھا. جب وہ کلاسزز کی طرف جانے لگا تو شانزے کی ہنسنے کی آواز اس کانوں میں ٹکرائی.... "جس لڑکی سے مجھے پیار ہو گا نا وہ اس دنیا کی سب سے حسین لڑکی ہو گی... جب وہ ہنسے کی تو ہوا میں پھول بکھر جائیں گے...." یوسف اپنے کہے لفظ یاد کر کے ہنس پڑا تھا... پر سامنے کا منظر دیکھ کر تو اس سے آگ ہی لگ تھی...
 سامنے شانزے تھی پر وارث کے  ساتھ اور وہ دونوں کسی بات پر بڑے کھل کے مسکرا رہے تھے. یوسف کو لگا غصہ اس کی نس نس میں لہو بن کے ڈور رہا ہے... اس کا دل چاہا وہ وارث کو اٹھا کر نیچے گراؤنڈ فلور پہ  پھینک دے. اور ایسا تو ممکن ہی نہیں ہے نہ کہ پیار ہو اور کھو جانے کا احساس نہ ہو، پیار ہو اور جلنے کا احساس نہ ہو، جب انسان کسی سے محبت کرتا ہے تو یہ سارے احساس تو نہ چاہتے ہوئے بھی آپ میں آہی جاتے ہیں.. تو پھر کیسے ممکن تھا کہ یوسف محبت تو کرتا لیکن ان احساسات سے بچ جاتا. اس سے برداشت نہیں ہوا تو وہ بھاری بھاری قدم اٹھاتا وہ وہ ان دونوں کی جانب بڑھ رہا تھا..  
…………………………………………..
جاری ہے


CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING



Comments