Badtameez ishq novel by Radaba Noureen Episode 10

Badtameez ishq novel by Radaba Noureen



بدتمیز عشق
قسط : 10
ردابہ نورین
..................................
"میرے ساتھ آؤ عثمان ،اندر چل کے بات کرتے ہیں.." حسین کہتے لائبریری میں چلے گئے تھے وہ جانتے تھے ایک نہ ایک دن تو سب کو بتانا ہی ہو گا پر ایسے یہ نہیں سوچا تھا... وہ تو چاہتے تھے کہ زینب کا پتا چل جائے تاکہ ہر چیز خوش اسلوبی سے ہو، پر وہ یہ بھول گئے تھے ہر چیز آپ کی خواہش کے مطابق ہو یہ ضروری تو نہیں ہے..
"کیوں پاپا وہاں کیا مسئلہ ہے... ؟کس کا ڈر ہے آپ کو..؟ نوکروں کا..؟؟ ایسا کیا چھپا رہے ہیں آپ...؟" عثمان پاپا کے پیچھے لائبریری میں آیا تھا.
عثمان کی آواز اتنی تیز تھی کہ خود اس کو بھی یقین نہیں آیا تھا...
پاپا نے بے بسی سے اس کی طرف دیکھا... عثمان کے دل کو کچھ ہوا تھا پر اس نے نظر انداز کر دیا...
"بتائیں پاپا... آخر کون سا راز ہے جو آپ ہم لوگوں سے چھپا رہے ہیں.. کون ہے یہ زینب..؟ پاپا پلیز بولیں اگر آپ نہیں بولیں گے... اگر آپ نہیں بولے تو یقین کریں میں پاگل ہو جاؤں گا... میں خود کو کچھ کر لوں گا پاپا... "
حسین کو لگا ان کا دل حلق میں آگیا ہو، دوسری طرف شاہینہ بھی حیران رہ گئیں تھیں اپنے ٹھنڈے مزاج بیٹے کو شعلہ بنتا دیکھ...
"عثمان یہ کیسے بات کر رہے ہو اپنے پاپا سے.." شاہینہ نے بیچ میں مداخلت کی تھی..
"بس ماما آپ کچھ نہیں بولیں گی یہ پاپا اور میری بات ہے.. آپ نہیں جانتیں کہ ہمارے پیٹھ پیچھے کیا ہو رہا ہے اس گھر میں... بتائیں پاپا کون ہے زینب، کیا رشتہ ہے آپ کا اس سے... ؟"عثمان مسلسل سوال کر رہا تھا... جبکہ حسین کو چپ لگ گئی تھی.. اور شاہینہ بیگم عثمان کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہی تھی، حالانکہ وہ جانتی تھیں کہ ساری کوششیں بیکار ہیں...
"یہ کیا ہو رہا ہے.... "یوسف کی آواز نے سب چونکا دیا تھا... عثمان یوسف کے سامنے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تھا.. اس لئے اس نے یوسف کے جانے کے بعد بات کی تھی. یوسف کا فائنل سیمسٹر تھا وہ نہیں چاہتا تھا کہ یوسف ان سب باتوں سے متاثر ہو. پر بد قسمتی کے گاڑی میں بیٹھ کر اسے یاد آیا کہ وہ اپنا فون لینا بھول گیا ہے. اور جب وہ لینے آیا تو اندر سے آنے والی آوازوں نے اس کے قدم روک لئے...
"آپ سب خاموش کیوں ہو گئے پلیز بتایئں یہ سب کیا ہے..؟ بھائی کس کے بارے میں بات کر رہےہیں... کون ہیں زینب...؟"
 یوسف نے دیکھا پاپا کے قدم لڑکھڑا گئے ہیں، اس نے آگے بڑھ کر انھیں سہارہ دیا تھا.  کمرے میں مکمل خاموشی تھی.. قبرکی خاموشی... حساب کتاب کا عمل شروع ہو گیا تھا...
"کیا ہو گیا ہے عثمان یہ بات آرام سے بھی کی جا سکتی ہے کیوں اتنا تماشا بنا رہے ہو... پلیز کچھ ایسا مت کہنا کہ بعد میں اپنے کہے الفاظ پہ پچھتانا پڑے..." ماما کی آواز نے کمرے کی خاموشی کو ختم کیا تھا...
"پچھتا تو رہا ہوں میں ماما اس دن سے.. جب پہلی بار میں اپنے باپ کا جھوٹ پکڑا تھا.... جب پہلی بار میں نے انھیں فون پہ کسی سے بات کرتے سنا تھا... آپ نہیں جانتی ماما.... میں بہت دن سے پاپا کو فالو کر رہا ہوں... ہر بار ہر بار پاپا مجھ سے جھوٹ بولتے رہے پر میں ان دیکھا  کرتا گیا لیکن اب پانی سر سے گزر گیا ہے...
ہر وقت... ہر وقت مجھے یہ احساس ستاتا ہے کہ میرا باپ جو میرے لیے رول ماڈل تھا اس نے خود اپنا یہ تصور ختم کر ڈالا، میرا باپ جو ہم سے سب کچھ شیر کرتا تھا اس نے اپنی زندگی کا ایک پہلو ہم سے چھپا کے رکھا ہے،  ہر وقت مجھے یہ احساس مارتا ہے کہ میرے باپ کی زندگی میں میری ماں کے علاوہ کوئی دوسری عورت...."
اس سے پہلے کہ عثمان اپنی بات پوری کرتا شاہینہ کا زناٹے دار تھپڑ عثمان کا منہ بند کرا گیا تھا..
"ماما پلیز یہ آپ..."
" بس یوسف چپ رہو تم..." شاہینہ نے یوسف کی بات کاٹی تھی جو بھائی کی ہمدردی میں آگے بڑھا تھا...
"بہت بڑے ہو گئے ہو نا تم... جو منہ میں آرہا ہے بولے جا رہے ہو... بنا سوچے سمجھے بنا کوئی لحاٰظ کیے، بنا پوچھے ہی اپنے پاپا پے شک کیا تم نے.... ایک بار یہ بھی نہیں سوچا کہ اگر وہ کچھ چھپا رہے ہیں تو اس میں کچھ مصلحت ہو گی. ایک بار پوچھا ہوتا یوں تماشا کرنے سے پہلے...  جس عورت کے بارے میں تم اتنی حقارت سے بات کر رہے ہو وہ کوئی راہ چلتی عورت نہیں ہے، تمہارے باپ کی چھوٹی بہن ہے... وہ بہن جس کو انہوں نے اپنی اولاد سے زیادہ چاہا... ہاں عثمان بہن.. کان کھول کے سن لو عثمان... زینب... زینب میر... کوئی گئی گزری نہیں بلکہ تمہارے باپ کی بہن ہے." شاہینہ کے الفاظ عثمان کے کانوں پہ بم کی طرح گرے تھے...
 حسین کی آنکھوں سے اپنے دل کا درد لاوا بن کر بہنے لگا تھا.. وہ لاوا جو وہ پچھلے 20 سالوں سے اپنے دل میں دبا کے بیٹھے تھے.عثمان نے حیرت سے باپ کودیکھا، پہلی بار اسے حسین پہ رحم آیا تھا شرمندگی سے وہ نظریں جھکا گیا تھا. اسے  کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا.. کہ وہ کیا بولے، بولنے کے لئے بچا ہی کیا تھا... وہ کیا سوچ رہا تھا اور بات کیا تھی... عثمان کے ذہن میں اس کے اپنے جملے گھومنے لگے لیکن آواز کہیں پستی سے آرہی تھی اتنی کہ وہ ٹھیک سے سن نہیں پا رہا تھا... جبکہ یوسف کچھ سمجھنے اور نہ سمجھنے کی کشمکش میں مبتلا تھا....
..........................................
شانزے یونیورسٹی آگئی تھی.. لیکن کہیں بھی اسے یوسف نظر نہیں آرہا تھا، لاشعوری طور پہ وہ یوسف کی منتظر تھی اسے لگا تھا کہ یوسف اس کا انتظار کر رہا ہو گا لیکن... یہاں تو جناب کا پتا ہی نہیں تھا... یہ دل بھی نہ کیسی کیسی خوش فہمیاں پال لیتا ہے. غصہ تو اسے بہت آیا تھا پر کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا سوائے انتظار کے... اس لئے وہ کلاس میں جانے کے بجائے کلاس کو جاتی سیڑھیوں پہ بیٹھ گئی تھی.. وہی سیڑھیاں جہاں کل تک یوسف بیٹھا انتظار کر رہا تھا... شانزے نے دیوار سے سر ٹکا کر آنکھیں بند کر لی تھیں... اسے اپنے گرد کسی کی مضبوط بازوں کے لپٹنے کا احساس ہوا تھا...
"تھام لو یقین کرو گرنے نہیں دوں گا۔" یوسف کی آواز کی سرگوشی اس کے کانوں میں گونجی تھی، آواز اتنی نزدیک سے آئی تھی کے شانزے نے جھٹکے سے آنکھیں کھولیں پر وہاں کوئی نہیں تھا...
" توبہ مجھے کیا ہو گیا ہے... میں کیوں سوچ رہی ہوں اس کو اتنا ،بس کچھ بھی ہو آج شکریہ ادا کر کے قصہ یہیں ختم کر دوں گی..." اس نے دل کو تسلی دی تھی اس بات سے بےخبر کے دل نے کب کسی کی مانی ہے... تو پھر چاہے وہ شانزے حسان ہی کیوں نہ ہو.. 
 کلاس کا ٹائم ہونے والا تھا سب سٹوڈنٹس اپنی کلاسوں کی طرف جا رہے تھے.. اور شانزے ابھی تک وہیں بیٹھی تھی.. محسن اور رانیہ دونوں ہی اس کو وہاں بیٹھا دیکھ ٹھٹک گئے تھے...
" تم... تم یہاں کیوں بیٹھی ہو...؟؟؟"رانیہ کے منہ سے بےاختیاری میں جملہ نکلا تھا...
دراصل اسے یوسف کا نہ ہونا اور شانزے کا یہاں بالکل اسی انداز میں بیٹھنا برا لگا تھا.. کیوں یہ تو وہ خود نہیں جانتی تھی پر کچھ تھا جو رانیہ کہ اندر آگ لگا گیا تھا.....
"جہاں تک مجھے یاد ہے یہ جگہ بھی ڈیپارٹمنٹ کے اندر ہی آتی ہے... اور یہاں بیٹھنے پہ یونیورسٹی کی طرف سے کوئی پابندی بھی نہیں ہے... لیکن اگر مجھے پتا ہوتا کہ آج کے لئے یہ جگہ تم نے بک کرائی ہے تو میں یہاں کبھی نہ بیٹھتی..."
"لسن... مس چیرٹی "رانیہ نے شانزے کی اسکالرشپ پہ چوٹ کی تھی... "یہ یونیورسٹی میں نے بک کی ہے کیونکہ  مائی فادر پے فور اٹ... یو انڈراسٹینڈ..."
"سچ کہا تم نے کیوں کہ تمہارے فادر شاید جانتے تھے کہ تم میں اتنے گٹس نہیں ہیں کہ اپنے بل بوتے پہ یہاں ایڈمشن لے سکو... "شانزے کے تیور بھی ایک دم ہی بدل گئے تھے...
رانیہ کو کچھ سمجھ نہیں آیا، اس لئے وہ پاؤں پٹختی چلی گئی تھی...
"تم پلیز اس کی باتوں پہ توجہ مت دینا... وہ دراصل ٹائم ہو گیا ہے کلاس کا تو بس یونہی پوچھ لیا تھا ، تم بتاؤ تمہاری طبیعت کیسی ہے... ؟"محسن کے آخری سوال نے شانزے کی زمین کھنچ لی تھی... اسے لگا تھا کہ یوسف نے اپنے گروپ کو کچھ نہیں بتایا ہو گا.. وہ تھوڑی سی پریشان ہوئی تھی اور اس کی پریشانی محسن نے بھانپ لی...
"وہ تم اتنے دن سے آئیں نہیں تو مجھے لگا شاید بیمار ہو... "محسن کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا اس لئے اس نے اپنے پاس سے بات بنائی تھی ،وہ یوسف کے جذبات جانتا تھا اور اس حوالے سے شانزے کو ریسپیکٹ دینا اب اس کا فرض تھا..
"ہاں میں ٹھیک ہوں.. بس وہ میں... اصل میں... "شانزے کو سمجھ نہیں آرہا تھا وہ کیا کہے.. 
تبھی سامنے سے آتی صبا، نظر آئی تھی... وہ میں صبا کا ویٹ کر رہی تھی...
"اوہ  اچھا... چلو ٹھیک ہے میں چلتا ہوں... "وہ کہتا اوپر چل گیا تھا جبکہ شانزے جو اس سے یوسف کے بارے میں پوچھنا چاہتی تھی نہیں پوچھ پائی...
صبا، شانزے کو دیکھ کے بہت خوش ہوئی تھی....
"کہاں غائب تھیں کوئی آتا پتا نہیں تمہارا... اور فون تک نہیں لگ رہا تھا تمہارا... بندہ کچھ خیر خیریت ہی دے دیتا ہے اپنی لیکن نہیں... موصوفہ کا تو کچھ پتا ہی نہیں تھا... "وہ ایک ہی سانس میں بولے جا رہی تھی.. 
"اف... بس بھی کرو تم کتنے سوال کرو گی... سب بتاتی ہوں موقع تو دو... "اور پھر اپنے ایکسیڈنٹ کی وہی سٹوری  سنائی جو اس نے گھر میں سب کو سنا کے مطمئن کیا تھا...   لیکن جانے کیوں وہ یوسف کے بارے میں چھپا گئی تھی.
"او گاڈ شانزے تم نے ہمیں اطلاع کیوں نہیں دی..."
میں نے سوچا تم لوگ ایویں ہی پریشان ہو جاؤ گے..."
"کیا ہم دوست نہیں ہیں...؟" صبا کے اندز میں بلا کی سنجیدگی چھپی تھی...
"اب اس میں یہ بات کہاں سے آگئی..؟" شانزے کو جواب نہیں آیا تھا..
"کیوں کہ دوستوں کو تو حق سے پریشان کیا جاتا ہے..." صبا کی سنجیدگی برقرار تھی...
"اچھا میری ماں... معاف کر دو غلطی ہو گئی آئندہ خیال رکھوں گی... "شانزے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے تھے...
اس کے انداز پہ صبا کھل کے ہنسی تھی..
 "اب چلیں کلاس لینے یا تم نے بھی یوسف کی  طرح جوگ لینا ہے.. ؟"صبا نے کھڑے ہوتے پوچھا تھا...
"کیا مطلب.. ؟"شانزے حیران ہوئی...
"ارے کچھ نہیں... وہ یوسف پچھلے کچھ دنوں سے کافی پریشان ہے، جب دیکھو یہاں سیڑھیوں میں بیٹھا رہتا تھا... آج شاید آیا نہیں ہے... ورنہ... "
"ورنہ کیا..؟" شانزے جھجھکتے ہوئے پوچھا جیسے اس کی چوری پکڑی جائے گی..
"ورنہ کیا.. تم دونوں یہاں بیٹھنے کے لئے لڑ رہے ہوتے سمپل..."
صبا کی بات پہ شانزے مسکرائی تھی،
"چلو کلاس میں چلتے ہیں......"
......................................
وہ سب اپنی اپنی جگہ ساکت تھے... کوئی دکھ سے... کوئی حیرانگی سے... تو کوئی اپنے کیے پہ شرمندگی سے... چاروں شاید اس کشمکش میں تھے کہ کون بولے گا پہلے.... لیکن شاید کسی میں بھی ہمت نہیں تھی.. پر بات تو مکمل کرنی ہی تھی... کیونکہ چاہے باتیں ہو یا پھر رشتے اگر ادھورے رہ جائیں تو بڑی تکلف دیتے ہیں... اور پھر حسین کی آواز نے خاموشی طویل دورانیہ ختم کیا تھا... وہ آہستہ آہستہ بولنا شروع ہوئے تھے...
"ہم تین بہن بھائی تھے... سب سے بڑا میں حسین میر.. مجھ سے چوٹی کلثوم میر... اور سب سے چوٹی زینب میر...
وقت کی ستم ظرفی کے زینب کے پیدا ہونے سے پہلے ہی بابا دنیا سے رخصت ہو گئے.. اور جب زینب پیدا ہوئی تو اماں بھی ملک حقیقی سے جا ملیں... میں نے اپنی دونوں بہنوں کو اولاد کی طرح پالا... دن رات محنت کر کے یہ بزنس کھڑا کیا... سوچا ماں باپ نہیں رہے تو کیا ہوا مجھے ہی اپنی بہنوں کا ماں باپ بنا ہے، ان کی ہر خواہش کو پورا کرنا ہے... پھر تمہاری ماں میری زندگی میں آئی... ہر لمحہ ہر مشکل میں اس نے میرا ساتھ دیا.. پھر تم آئے عثمان ،مجھے لگا زندگی سے سرے گلے شکوے ختم ہو گئے ہیں اور پھر یوسف تو مجھے لگا اب زندگی مکمل ہو گئی.... کتنا خوش تھے ہم سب ،میرا گھر خوشیوں سے بھر گیا تھا... کلثوم بڑی تھی سمجھدار تھی ،ہر چیز کا خیال کرنے والی، مجھے کبھی اس کی کوئی فکر نہیں ہوئی، میں جانتا تھا میری بہن اچھا برا سمجھ سکتی ہے... پر زینب وہ تو بچی تھی ناسمجھ اور اسی نا سمجھی میں اس نے غلط فیصلہ کیا، ایک ایسا فیصلہ جو ہم سب کی زندگیوں میں زہر گھول گیا.." حسین کے آخری الفاظ اتنے ہلکے تھے جیسے وہ خود کلامی کر رہے ہوں...
 عثمان کچھ اور پچھتاوے میں ڈوب گیا تھا پر اب کرتا بھی تو کیا غصے میں وہ خود پہ قابو نہیں رکھ پایا تھا... اس کا غصہ آندھی کی طرح آیا تھا ہراور طرف طوفان مچا گیا تھا جس کے نتائج ابھی دیکھنے باقی تھے...
......................................
"چلو جی کینٹین چلتے ہیں..." مہک نے سر کے کلاس سے جاتے ہی فل ولیم میں علان کرتے ہوئے کہا..
"ہاں...!!! بھوک تو مجھے بھی لگی ہے.. پر... "صبا نے بات ادھوری چھوڑی تھی..
 "پر کیا ؟؟ کینٹین جانا ہے... جہاد پہ نہیں جو تم اتنا سوچ رہی ہو... "مہک نے کمنٹس پاس کیے تھے..
"اف ایک تو تمہاری یہ بی گریڈ باتیں نا،میرا مطلب تھا کہ شانزے، شاید وہ نہ جانا چاہے یوسف کی وجہ سے... اس کی کلاس بھی ختم ہوئی ہے تو شاید وہ وہیں ہو...  "صبا نے اصل مدعا بتایا تھا..
"تو کیا فرق پڑتا ہے ہم نے کون سا ان لوگوں کے پاس بیٹھنا ہے... یار "مہک کچھ چڑ گئی تھی..
"اوہ - بس کرو دونوں مجھے بھوک لگ رہی ہے... "شانزے ان کو دونوں کے درمیان کھڑے ہوتے کہا تھا... جبکہ وہ تینوں حیرت سے اسے دیکھ رہی تھیں کیونکہ آج سے پہلے وہ کبھی خود سے کینٹین نہیں جاتی تھی ہمیشہ کھینچ کے لیجانا پڑتا تھا...
" کیا ہوا ایسے کیوں دیکھ رہی ہو چلو مجھے بھوک لگی ہے۔" شانزے نے صفائی دی تھی... وہ کینٹین کی طرف چل پڑی تھی اب وہ انہیں کیسے سمجھاتی کہ وہ آخری جگہ ہے جہاں یوسف کے ہونے کے کچھ چانسزہیں...
"بدلے بدلے سے سرکار نظر آتے ہیں..."
 زارا جو بہت دیر سے ساری کروائی دیکھتے ہووے بھی چپ تھی کہے بنا نہ رہ سکی..
" لگتا ہے چوٹ کا اثر سیدھا پیٹ پہ ہوا ہے... "
ان تینوں کا قہقہہ بلند ہوا تھا اور شانزے گھورے بنا نہیں رہ سکی تھی...
...................................
وہ تینوں کینٹین میں بیٹھیں اپنے آرڈر کا ویٹ کر رہی تھیں... جب یوسف کا گروپ بھی وہاں آن پونچھا لیکن خلاف توقع ان میں یوسف نہیں تھا.. شانزے کو مایوسی ہوئی تھی پر وہ تھا کہاں... وہ سوچوں میں مصروف ہوتی تبھی عمر نے رانیہ سے بولا۔
" یہ یوسف بھی نا کہاں غائب ہو گیا ہے، صبح سے کال کر رہا ہوں مگر مجال ہے ایک کال کا بھی جواب دیا ہو... اس کے بغیر بالکل مزہ نہیں آتا.... "
"مزہ تو اب آئے گا ۔"رانیہ نے تالی ماری جس میں عمر نے اس کا ساتھ دیا...
جبکہ شانزے کی اس کے کال نہ اٹھانے والی بات پہ ہی اٹک گئی تھی... کیا بات ہو سکتی ہے... وہ کیوں نہیں آیا ہو سکتا ہے کوئی پریشانی ہو... پر اگر ایسا ہوتا تو محسن کو کچھ تو پتا ہوتا.. شانزے کینٹین والے لڑکے کی آواز پہ چونکی تھی.
" باجی آپ کا آرڈر...؟" کینٹین والے لڑکے نے ان کے سامنے آرڈر رکھا..
"کیا ہوا آج پیسے نہیں لینے کیا...؟؟ "مہک نے اسے جاتا دیکھ کے حیرت سے پوچھا...
"نہیں بل تو پے ہو گیا... "لڑکے نے مہک کو اطلاع دی...
"کیا... پر کس نے کیا...؟؟؟ "ان چاروں کو جھٹکا لگا تھا کیوں ان میں سے کسی نے بھی بل پے نہیں کیا تھا تو پھر کس نے کیا کیوں کہ وہ کسی کہ بھی اتنا قریب تو نہ تھی... لڑکے نے سامنے بیٹھے یوسف کے گروپ کی طرف اشارہ کیا تھا...
"مس چیرٹی دس ٹائم فرام مائی سائیڈ... وہ کیا ہے نا میں نے بھی چیرٹی کرنے کا سوچا ہے تو کیوں نا اپنے آس پاس سے ہی شروع کروں... "رانیہ کی آواز میں بلا کا غرور تھا شانزے سمیت باقی تینوں بھی تپ کے رہ گئیں تھی ایسی انسلٹ... تو کوئی بھی برداشت نہیں کر سکتا... تبھی شانزے ان کی طرف بڑھی...
کینٹین میں بیٹھے اسٹوڈنٹ ان کی طرف متوجہ ہو گئے تھے... جب کہ وہ تینوں بھی شانزے کے پیچھے تھیں... محسن کچھ پریشان سا تھا.. وہ سچویشن کیسے سنبھالے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا...
"تم نے کیوں چھیڑا اس مرچی کو، پتا بھی .." عمر نےرانیہ کے کان میں بولنا شروع کیا لیکن اس سے پہلے کہ وہ بات مکمل کرتا... شانزے ان کے سر پہ کھڑی تھی... اس کا چہرہ ہر طرح کے تاثرسے پاک تھا بالکل ویسا سفاک چہرہ جیسے لاسٹ ٹائم  یوسف کے منہ پہ مرچیں پھنکتے ہوئے تھا... شانزے کے گروپ سمیت باقی سب سٹوڈنٹس کو بھی یہی لگا کہ آج پھر شانزے اس کے ساتھ کچھ ایسا ہی کرے گی جیسے پہلے بھی اس نے یوسف کے ساتھ کیا تھا.... اور سب کا خیال اس وقت سچ ہونے لگا جب شانزے نے اپنا ہاتھ اس کے چہرے کے پاس کیا..
اور ایک خوفناک چیخ اس کے منہ سے نکل کر ہوا میں پھیل گئی.. اور وہاں کھڑے ہر شخض کا منہ کھلا رہ گیا تھا.
.........................................
 "زینب کی کہانی ایسی کوئی دنیا سے ہٹ کے بھی نہیں تھی.. وہ بھی عام لڑکیوں جیسی لڑکی تھی.. کچی عمر کی... کچے ذھن کی... آنکھیں کھولی تو ماں باپ سر پہ نہ تھے... جب بابا کا انتقال ہوا توحسین اس وقت 14 سال کے تھے ماں اور بہن کی زمہ داری ان کے کندھوں پے آگئی تھی.. لیکن کچھ مہینے بعد ہی اماں دونوں بہنوں کو ان کے سپرد کر کے خود بھی چلی گئیں.. وقت گزرتا گیا حسین کامیابی کی منزلیں پار کرتے بڑے بزنس مین بن گئے، لوگ انھیں دیکھتے تو عش عش کر اٹھتے.. وہ مثالی بیٹے اورمثالی بھائی بن گئے تھے سب کے لئے...اگرچہ کلثوم کو بھی حسین نے ہمیشہ لاڈ پیار سے رکھا لیکن زینب جو ان سے کئی سال چھوٹی تھی اس کو وہ بیٹی سمجھنے لگے تھے. وہ زینی کو ہمیشہ ویسے ہی ٹریٹ کرتے جیسے ایک باپ اپنی بیٹی کو کر سکتا تھا. وہ اس کا اتنا خیال کرتے اتنی پرواہ کرتے کہ کبھی کبھی لوگ بھی یہی سمجھ بیٹھتے کہ شاید وہ ان کی بیٹی ہیں..   پیار کرنے والے بہن بھائی نے زینب کو بہت محنت سے پالا تھا وہی کل دنیا تھے اس کی.. حسین نے ہمیشہ اس کو ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھا.. اس کی ہر جائز نا جائز کو مانا. منہ سے نکلنے سے پہلے ہر خواہش کو پورا کیا جاتا اور یہی بات کلثوم کو ڈرانے لگی تھی وہ کبھی کسی بات سے مانا کرتی تو زینب سیدھا حسین کے پاس شکایات لے کر پہنچ جاتی. اور حسین بنا کسی تاخیر اس کی بات مان لیتے. بے جا لاڈ پیار نے اس میں بہت سے کمیاں پیدا کر دی تھیں... جن میں جب سے بڑی کمی احساس کمتری کی تھی.. اور اس کا پہلا وار تب ہوا جب حسین نے شاہینہ سے شادی کی، اگرچہ یہ شادی کوئی عشقی ماشقی والی نہ تھی لیکن پھر بھی اس میں حسین کی رضامندی شامل تھی. شاہینہ ان کی پرانی محلے دار ہونے کی حیثیت سے وہ سب انھیں جانتے تھے. جب شادی کا مرحلہ آیا تھا تو کلثوم نے شاہینہ بیگم کا نام لیا جو ان کی دوست، دکھ درد کی ساتھ تھیں.. اس پہ زینی کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا، اس لئے اس مرحلے میں بھی حسین نے اپنی بہنوں کی پسند کو اہمیت دی.. شادی سے پہلے زینب بھابھی آنے کے خیال سے بہت خوش تھی لیکن شادی کے کچھ دن بعد ہی شاہینہ اور زینب میں اختلافات شروع ہو گئے.. جس کی واضح وجہ حسین کی بٹی ہوئی توجہ تھی. لیکن شاہینہ بیگم نے کمال ضبط کا مظاہرہ کیا اور ثابت کیا کہ ان انتخاب کسی لحاظ سے بھی گھاٹے کا سودا نہیں ہے. وہ زینب کی ہر غلطی کو نظر انداز کرتی گئیں. اگر کبھی کلثوم یا حسین کچھ کہنا بھی چاہتے تو بچی ہے آہستہ آہستہ سنبھل جائے گی کہہ کے ٹال دیتی. شاہینہ نے اس کی ہر بری اور خراب عادت کو ناسمجھی کہہ کر ٹال دیا اور انکی یہی خوبی حسین کے دل میں ان کی محبت اور گہری کرتی چلی گئی.. لیکن پھر ایک وقت آیا کہ یہی چھوٹی چھوٹی غلطیاں جو نظر انداز کر رہے تھے جمع ہوتے ایک پہاڑ کی شکل اختیار گر گئیں تھیں.. جسے نہ نظرانداز کیا جا سکتا تھا اور نہ ہی نظروں سے اوجھل کیا جاتا سکتا تھا... پھر انہی دنوں عثمان دنیا میں آیا حسین کو لگا انکی  دنیا مکمل ہو گئی ہے.. سب کچھ تھا ان کے پاس گھر... بیوی...بیٹا... بہن اور ان کی لاڈلی بیٹی...  لیکن وہ نہیں جانتے تھے ان کی بیٹی   جیسی بہن دل میں نفرتوں کا لاوا لئے بیٹھی ہے... اگرچہ عثمان میں تو زینی کی جان بستی تھی لیکن اس حوالے سے بھی وہ شاہینہ کوئی اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں تھیں.. وہ جتنا زینی کی حرکتوں کو نظر انداز کرتیں، زینی اتنا ہی ان سے بدتمیزی کرنے لگتی... گھر کا ماحول دن ب دن خراب ہو رہا تھا اور اب وقت آگیا تھا کہ زینی کو احساس دلایا جائے پر وہ جب بھی اسے سمجھانے کی کوشش کرتے وہ پہلے سے زیادہ بگڑ جاتی... پھر ایک بعد ایک کئی مرحلے آئے جہاں زینب خود کو اکیلا سمجھنے لگی خاص طور پہ کلثوم کی شادی کے بعد کیونکہ جب بھی اسے حسین کی عدم موجودگی کا غم گھیرتا وہ کلثوم کے پاس جا پہنچتی لیکن اب وہ بھی ممکن نہیں رہا تھا اور اس معاملے میں بھی وہ قصوروار شاہینہ کو ہی سمجھتی تھیں.. پہلے حسین سے اور اب کلثوم سے دوری نے اس زندگی کو جھنجوڑ کے رکھ دیا.. وہ خود کو تنہا سمجھنے لگی تھی اس لئے ہر چیز سے کٹ کے رہ گئی تھی.. اور تنہائی نے اس کے دماغ کو شیطان کا گھر کر دیا تھا...   "
.........................................
رانیہ نے ڈر سے آنکھیں میچ لیں تھیں جبکہ شانزے کے چہرے پہ ہنسی پھیلی... باقی سب لوگ جو سانس روکے منظر میں گم ہو گئے تو واپس حال کی طرف لوٹے... ہر طرف شور کی آواز تھی تقریباً سب ہی لوگ رانیہ کے ڈر جانے کا مذاق اڑا  رہے تھے. رانیہ نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں اور سامنے کھڑے لوگوں کو دیکھ کر اسے انتہائی صدمہ لگا تھا..
جبکہ شازنے نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑا اور اس میں آرڈر کی جانے والی چیزوں کے بل کے پیسے پکڑائے تھے...
"چیرٹی کرنے کا اتنا شوق ہے تو پہلے کمانا سیکھو، باپ کے پیسوں پہ عیاشی ہوتی ہے چیرٹی نہیں، سمجھیں مس ڈرپوک ...  "شانزے نے اس کی تھوڑی دیر پہلے والی کیفیت پہ چوٹ کی تھی..
رانیہ کا دماغ بھک سے اوڑ گیا تھا.. اتنے لوگوں کے سامنے اس کی بےعزتی جو ہوئی تھی... لیکن ابھی وہ کچھ کہنے کی کنڈیشن میں نہیں تھی.. اور شانزے وہاں سے یہ جا وہ جا ہوئی تھی...
اس نے ہاتھ میں پکڑے پیسوں کو مروڑا تھا...
"تمہیں تو میں دیکھ لوں گی شانزے سمجھتی کیا ہو خود کو.  "
......................................
"زینب کی تنہائی پسندی سے یہ ہوا کہ گھر میں رہنے والی ہر وقت کی نوک جھونک ختم ہو گئی تھی. وہ سارا وقت اپنے کمرے میں بند رہتی.. انہی دنو ں گھر میں یوسف کی آمد ہوئی، اگر چہ زینی عثمان کی طرح یوسف کو بھی بہت چاہتی تھیں ،پر اس سے بھی ان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی. اور یہ بات مسٹر اینڈ مسزز حسین کے لئے خوشگوار نہیں تھی، وہ دونوں ہی اس کی طرف سے پریشان تھے. کہ کیسے وہ زینی کو کسی ایکٹیویٹی میں انوولو کریں کیوں کہ وہ جب بھی کوئی آؤٹنگ پلان کرتے تو وہ کالج کا بہانہ کر کے منع کر دیتی... پر جیسے ہی ایگزمز ہوئے حسین اپنے ساتھ اسے فیکٹری لیجانے لگے... وہ جب تک فیکٹری میں رہتے وہ ساتھ ہی رہتی، ادھر سے ادھر گھومتی پھرتی... آہستہ آہستہ اس کا انداز بدلنے لگے تو پہلے کی طرح ہنسنے بولنے لگی، اگرچہ ابھی بھی وہ شاہینہ کو اہمیت دینے کے لئے تیار نہیں تھی پر پھر معاملات قدرے بہتر تھے دوسری طرف شاہینہ جو اس پہ قطعی رازمند نہیں تھیں کہ وہ ایسے فیکٹری جائے اس میں اتنی مثبت تبدیلی کے باعث خاموش ہو گیں... وہ اتنی پر کشش تھی کہ کوئی بھی اس کی طرف آسانی سے اٹریکٹ ہو جاتا گورا رنگ... کالے بال اور کالی سیاہ آنکھیں جو دیکھنے والو کو سحرزدہ کر دیتیں اور بات شاہینہ کو فکر میں مبتلا کرتی تھی ایک تو کچی عمر اوپر سے کچی سوچ.... پھرانہی دنوں ایک حیرت انگیز واقعی پیش آیا، زینی کے لیے رشتہ آیا تھا. اور تب پہلی بار سب کو احساس ہوا کہ وہ بھی اس عمر میں داخل ہو گئی تھی جب نازک کلیاں کھلنے لگتی ہیں اوران  کی مہک دور دور تک پھل جاتی ہے... رشتہ نہایت ہی مناسب تھا حسین اور شاہینہ کو اس پہ کوئی اعتراض نہیں تھا پھر جب انہوں نے کلثوم سے بات کی تو وہ بھی فوراً راضی ہو گئیں. رشتہ نہایت ہی موزوں تھا. پر حسین کو جھٹکا تب لگا جب زینی نے رشتے سے انکار کیا بلکہ خود اپنی پسند سے بھی آگاہ کر دیا...
حسین روایتی بھائی نہیں تھے لیکن رشتہ اتنا اچھا تھا کہ وہ جواب بھی نہیں دینا چاہتے تھے لیکن زینی بھی اپنی ضد پہ اڑ گئی تھی.. حسین سمیت سبھی نے اس کو سمجھایا پر وہ نہ مانی.. بلاآخر حسین کو ہی رشتے والوں کو جواب دینا پڑا کیوں کہ وہ زینی کا دل نہیں توڑنا چاہتے تھے. مجبوراً وہ زینی کے بتائے ہوے رشتے پہ رضامند ہوئے... وہ حسین کی فیکٹری کے ساتھ بطور ڈیلر کام کر رہا تھا..
لیکن اس سے مل کے ان کے پیروں تلے زمین نکل گئی تھی... وہ آدمی عمر میں حسین سے سے بھی بڑا تھا، پہلی بار انھیں اپنی بہن کی دماغی حالت پہ شک ہوا تھا انہوں نے اس رشتے کو قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا اور جب یہ بات زینب کو پتا چلی تو اس نے عجیب طوفان بد تمیزی برپا کر دیا تھا."
...................................
 "زینی... بیٹا تم میری بات سمجھ نہیں رہی ہو... وہ شخض تمہارے قابل نہیں ہے میری بچی.."حسین اس کی منت کی تھی...
"کیا سمجھوں بھائی صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ آپ مجھے خوش دیکھنا ہی نہیں چاہتے، آپ چاہتے ہیں کہ میں ہمیشہ اپ کی غلام بن کے رہوں جو آپ کہیں وہ میں کروں... وہ میرے قابل ہے یا نہیں اس فیصلہ کرنے والے آپ کون ہوتے ہیں..."
"شٹ اپ زینی یہ کیسے بول رہی ہو تم بھائی ہیں ہمارے... ہمارا اچھا برا اور کون سوچے گا..." کلثوم کو جھٹکا لگا تھا وہ جانتی تھیں کہ ہمیشہ سے زبان کی کڑوی رہی ہے پر وہ زہر اگلتی ہے اس کا احساس اب ہوا تھا.
"باجی... پلیز آپ ان معاملات سے دور رہے ہیں تو بہتر ہے... بھائی کے پاس ان کی بیوی ہےوہ اس کا اچھا بھلا سوچیں.." زینی نے شاہینہ کو خام خواہ لتاڑا تھا. وہ جو پاس ہی عثمان اور یوسف کو لئے بیٹھیں تھیں.
"اور ویسے بھی میں نے شادی کا فیصلہ کر لیا ہے... یہ میری لائف ہے اور میں اپنا اچھا برا بہتر سمجھ سکتی ہوں. "
"ہاں.. بیٹا تم ٹھیک کہہ رہی ہو پر وہ تمہارے لائق نہیں ہے."
"اوہ - تو آپ کو میری خوشی چاہیے ہی نہیں..."
"ایسا نہیں ہے بیٹا.. اگر وہ اچھا انسان ہوتا تو میں ہرگز انکار نہ کرتا... وہ لالچی انسان ہے تم نہیں سمجھ پارہیں.."
"اچھا - تو اصل بات تو آپ نے اب کی ہے... آپ مجھے کچھ نہیں دینا چاہتے، نہ دیں، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا،لیکن میں اس کے بغیر ہرگز زندہ نہیں رہ سکتی..."
زینی بھاگتی ہوئی لان کی طرف گئی تھی اور خود پہ جلدی جلدی پیٹرول ڈالنے لگی لیکن اس پہلے کہ وہ خود کو آگ لگاتی، کلثوم اور شاہینہ پہنچ گئے تھے وہ دونوں اسے روکنے کی کوشش کر رہی تھیں...
"پاگل ہو گئی ہو زینی ہوش میں آؤ کیا کر رہی ہو یہ..." کلثوم نے اسے کندھوں سے پکڑ کے جھنجوڑا تھا...
"نہیں آنا مجھے ہوش میں... کیا کروں گی ہوش میں آکر ،نہیں ہیں وہ میرے بھائی ،نہیں ہیں آپ میری بہن، آپ سب دشمن ہیں، میرے چلی جائیں یہاں سے ،چھوڑ دیں مجھے، میں مر جانا چاہتی ہوں... یہ سب آپ کی وجہ سے ہوا ،آپ نے چھن لیا ہے مجھ سے سب کچھ میرا.. "وہ اپ پاگلوں کی طرح شاہینہ پہ چیخ رہی تھی...
"بس کرو زینی کیا ہو گیا ہے... تم کیوں کچھ تو خیال کرو اپنا نہیں تو ہمارا خیال کرو... "کلثوم بولتے بولتے رو پڑی تھیں...
"کیوں کروں میں آپ کا خیال... کسی نے میرا خیال کیا ہے... باپ کہتے ہیں ناوہ خود کو میرا، تو باپ بن کے دکھاتے، وہ تو بھائی بھی نہ بن سکے... جلتے ہیں میری خوشیوں سے... نہیں ہیں وہ میرے کچھ بھی..." زینب آپے سے باہر ہو رہی تھی اس کا سمبھالنا شاہینہ اور کلثوم کے بس کی بات نہیں تھی... دروازے میں کھڑے حسین بہت دیر اس کو دیکھ رہے تھے پھر جیسے وہ ایک فیصلے پہ پہنچ گئے انہوں نے آگے بڑھ کر زینی کو اپنے سینے سے لگا یا تھا..
"نہیں ہیں آپ میرے بھائی... نہیں ہیں.."
"ہاں ٹھیک ہے... نہیں ہوں تمہارا بھائی.. بس اب چپ.. بالکل چپ.." ان کی آنکھوں سے آنسو نکلے تھے اور کلثوم کو لگا ان کا دل بھائی کے آنسوؤں میں ڈوب رہا ہے...
"  بھائی جان" وہ بس اتنا ہی بولیں تھیں... اس سے زیادہ کی ہمت کہاں تھیں ان میں..
"نہیں ہیں آپ میرے بھائی... "زینی ابھی بھی ایک ہی بات بولے جا رہی تھی..
"ہاں نہیں ہوں تمہار بھائی ٹھیک ہے... "حسین اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھاما تھا ۔"اب میری بات غور سے سنو"انہوں نے اس کے آنسو صاف کیے تھے... زینب نے ہاں میں سر ہلایا تھا...
"میں نے تمہیں بہت سمجھایا... بہت کوشش کی کہ تم مان جاؤ پر تم نہیں مانیں... اب وہ ہو گا جو تم چاہو گی... ٹھیک ہے... "حسین نے اس کا چہرہ اوپر کیا... زینی نے پھر ہاں میں سر ہلایا تھا...
"لیکن...!!! لیکن...!! اس کے بعد کی ہر زمہ داری تمہاری ہو گی... اپنا اچھا برا... سکھ اور دکھ تم خود دیکھو گی... "حسین کے الفاظ نے باقی دو لوگوں کی سماعتوں پہ گویا بم گرایا تھا...
"حسین آپ کیا کہہ رہے ہیں، بچی ہے ناسمجھ ہے، ہم بات کر سکتے ہیں.... "شاہینہ نے آگے بڑھ کر کہنا چاہا پر حسین نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں روک دیا تھا...
"بس... تم لوگ شادی کی تیاری کرو...  "
.........................
جاری ہے




CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING



Comments