بدتمیز عشق
قسط
: 11
ردابہ نورین
......................................
شاہینہ اور کلثوم نے کتنا سمجھایا تھا حسین کو پر اس معاملے
میں انہوں نے کسی کی ایک نہ سنی اس لئے نہ چاہتے ہوئے بھی دونوں نے شادی کی تیاری
مکمل کر لی تھی. اگرچہ حسین اس شادی کے لئے دل سے رضامند نہیں تھے پر زینی کی ضد
نے انھیں مجبور کر دیا تھا. آج تک اس کی کوئی ضد ٹالی نہیں گئی تھی تو اب کیسے
ممکن تھا کہ انکارہو جاتا...
پر زینی اس بات سے لاعلم تھی کہ اس بار جو خواہش اس نے
کی ہے اسے پورا کرنے میں حسین ہلکان ہو گئے تھے...
رسم دنیا نبھانے کے لئے گھر میں نکاح کی تقریب رکھی تھی
اور بہت خاص لوگوں کو بلایا گیا تھا. حالانکہ اپنی شیزادی جیسی بہن کے لئے انہوں نے شہزادے کے خواب دیکھے
تھے، محلوں کا، جشن سوچا تھا. لیکن کچھ خوابوں کی قسمت صرف خواب رہنا ہی ہوتا ہے.
جیسے کہ زینب کے معاملے میں ہوا تھا. نکاح کی تیاریاں مکمل کر لی گئی تھیں. تقریب چھوٹی تھی پر پھر بھی ہر لحاظ
سے مکمل تھی. کمی تھی تو صرف ان ارمانوں کی جو حسین کے دل میں رہ گئے تھے. اور اس
کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا کہ ان ارمانوں کو دل کے کسی کونے میں ہمیشہ کے لئے
دفن کر دیا جاتا...
اور پھر وہ وقت بھی آکر گزر گیا جس نے زینی کو سب سے پرایا
کر دیا تھا.
ہلکا کام والا
لال جوڑے اور ہلکے ہلکے میک اپ میں بھی اس کا روپ چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہا
تھا. جس کی روشنا نے دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا تھیں. سب لوگ اس کے سجے سنورے
روپ کو دیکھ کر عش عش کر رہے تھے. اپنی خواہش کے پوراہو جانے پہ اس کا چہرہ مزید
نکھر گیا تھا. ڈھیروں سکون وہ اپنے اندر پھیلا محسوس کر رہی تھی جس کا اندازہ اس
کی آنکھوں سے بخوبی لگایا جا سکتا تھا. دیکھنے والوں کی نظریں تو مانو اس پہ جم کے
رہ گئیں تھیں پر نہیں دیکھا تو حسین نے ،اور دیکھتے بھی کیسے جسے اتنے نازوں سے
پالا ہو اس کو اس طرح سے رخصت ہوتے وہ کیسے دیکھ سکتے تھے.
پر زینی کو اب پرواہ بھی کہاں تھی. اس کے لئے تو اپنی
خواہش کا پورا ہو جانا ہی بہت تھا. لیکن وہ یہ بھول گئی تھی کہ اپنوں کا دل دکھا
کر کب کون خوشی سے جی پایا ہے.
رخصتی کے وقت
کلثوم اس سے مل کر رو پڑیں تھیں نہ چاہتے ہوئے بھی شکوہ زبان پے آگے تھا. "زینی
تم نے ہمارے ساتھ ہی نہیں بلکہ اپنے ساتھ بھی ظلم کیا ہے. "
شاہینہ بیگم ملنے کے لئے آگے بڑھیں پر زینی نے انھیں
نظر انداز کر دیا، وہ آج بھی سب کا زمہ دار ان کو ہی سمجھتی تھی. وہ آہستہ آہستہ
چلتی حسین کے پیچھے آکھڑی ہوئی تھی. کتنی دیر وہ انتظار کرتی رہی ،پر حسین نے اس
کی طرف رخ نہیں کیا وہ جو سمجھی تھی کہ رخصتی کے وقت بھائی سے مل کے اپنا دل ہلکا
کر لے گی مگراس کا ارمان دل میں رہ جانے والا تھا.
"بھائی جان..." زینی نے حسین کو
پکارا تھا. اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی حسین نے کچھ پیپرز اور ایک بیگ زینب کی طرف
بڑھایا تھا.
"یہ کچھ پراپرٹی کے پیپرز ہیں اور کچھ
چیزیں جو میں نے تمہاری شادی کے لئے لیں تھیں... کچھ کمی ہے تو بتاسکتی ہو.. میں
تمہاری ہر ضرورت پوری کروں گا.. میں امید کرتا ہوں کہ تم اپنی آنے والی زندگی میں
اتنی ہی خوش رہو گی جتنا تم نے سوچا ہے... زندگی میں کبھی کوئی ضرورت پڑے تو بلا
جھجک کہنا... میں ہمیشہ تمہاری ضروریات پوری کروں گا. "کہہ کے حسین رکے نہیں
تھے. پر زینی کو لگا کسی نے اس کے کانوں میں سیسہ انڈیل دیا ہے اس نے کیا سوچا تھا
اور کیا ہو گیا تھا... اس کو تو لگا تھا وہ حسین کو منا لے گی پر نہیں... وہ اکیلی
ہو گئی تھی اور اب گھر کی دہلیز اکیلے پار کرتے پہلی دفعہ اسے احساس ہوا تھا کہ وہ
کیا چھوڑے جا رہی ہے...
......................................
وہ چلی گئی یہ جانے بغیر کہ میرے دل پر کیا قیامت گزری
ہے... اس نے کبھی پلٹ کر نہیں دیکھا کتنا انتظار کیا میں نے اس کا پر وہ نہیں آئی...
اور اس کا خیال کبھی اس دل سے گیا ہی نہیں.. " حسین کی آنکھوں سے آنسو بہہ
نکلے تھے پر کس میں بھی اتنی ہمت نہ تھی کہ آگے بڑھ کر انھیں صاف کر دے عثمان کی
حالت تو ایسی تھی کہ کاٹو تو خون نہ نکلے....
شاہینہ اور یوسف الگ فکرمند تھے... جبکہ حسین اپنی دھن
میں تھے... برسوں سے درد سینے میں قید کر رکھا تھا آج آنسوؤں اور الفاظوں میں اس
کا بیان ہو جانا ہی بہتر تھا..
"وہ چلی گئی پھر کبھی واپس نہ آنے کے
لئے... وہ جانتی تھی میں ناراض ہوں پر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ کچھ بھی ہو جائے اگر
وہ مجھے منائے گی تو میں ماں جاؤں گا... پر وہ نہیں آئی کتنا ڈھونڈا میں نے اس
سے... پر وہ نہیں ملی... شانزے کو دیکھا تو لگا میری زینی کھڑی ہو گئی ہے میرے
سامنے... وہی رعب جماتا انداز، وہی غصہ بھری آواز، وہی نہیں نقش ، میں قابو نہیں
رکھ سکا خود پہ اس لئے اسے ڈھونڈنے لگا... پرکہاں ڈھونڈو ں میں اس کو....
روز... ہر روز یہ بات ستاتی ہے میری بہن میری جان... جسے میں نے زمانے کے گرم
سرد سے بچا کے رکھا... اس نے خود کو جلتی آگ میں دھکیل دیا ۔
اور میں بے بس تماشائی بن گیا. اپنی بیٹی کو روک نہیں
سکا... اسے نہیں بتا سکا کہ میں اس سے بہت محبت کرتا ہوں..
لیکن غلطی اس کی نہیں تھی غلطی میری تھی...میں اپنی ذمہ
داری نہیں نبھا سکا. میں وہ سب نہیں کر سکا جو کوئی باپ اپنی اولاد کے لئے کرتا
ہے... میں ایک اچھا بھائی نہیں بن سکا...." حسین کے آنسوؤں میں روانی آگئی
تھی..
شاہینہ نے ان
کی طرف بڑھنا چاہا تھا تبھی اپنے پیچھے کلثوم کی آواز سنائی دی تھی.
"نہیں بھائی جان آپ بہت اچھے بھائی ہیں.."
کلثوم جو جانے کب آئیں تھیں اور کیا کیا سن چکی تھیں... حسین کے گھٹنوں پہ سر رکھ
کے رو پڑیں تھیں." آپ ایسا نہ کہیں بھائی جان بس وہ وقت ہی ایسا تھا.. آپ کی
غلطی نہیں ہے... آپ نے تو باپ سے بڑھ کرہمیں پلا ہے.. ساری خواہشیں پوری کی دن رات
کی پرواہ کے بغیر... "
حسین نے انھیں اپنے سنے سے لگایا تھا... جب کہ کلثوم ان
کی آنکھوں سے آنسو صاف کر رہی تھی.. "آپ جانتے ہیں آپ اس دنیا کے سب سے اچھے
بھائی ہیں.. پریشان نہ ہوں بھائی وہ مل جائے گی ہم سب ہیں ناآپ کے ساتھ..."
ماحول بدل رہا تھا تھوڑی دیر پہلے جو صف ماتم بچھا تھا
اب وہ سمٹ رہا تھا. عثمان خود کو کافی حد تک کمپوز کر چکا تھا اس لئے حسین کے پاس
آیا..چہرے پہ شرمندگی کے اثرات اتنے واضح تھے کہ ایک نظر میں پڑھے جا سکتے تھے.
"پاپا کیا آپ اپنے نکمے بیٹے کو معاف کر
سکتے ہیں...؟" عثمان کا سر جھک گیا تھا...
حسین تڑپ گئے تھے اس کے انداز پہ وہ تو ہمیشہ ان کے لئے
باعث فخر رہا ہے تو پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ان کے سامنے سر جھکا کے کھڑا ہوا
تھا... جبکہ یوسف کو بھی شدید جھٹکا لگا تھا. حسین نے اپنے بیٹے کو گلے لگایا
تھا... اور یہ تو ان کی ذات کی خوبی تھی معاف کر دینا... وہ بڑی سے بڑی بات یہ کہہ
کے معاف کر دیتے تھے کہ الله راضی رہتا ہے
ان لوگوں سے جو دوسروں کو ان کی غلطیوں پہ معاف کرتے ہیں...
عثمان باپ کے گلے لگ کے رو رہا تھا...
" پاپا پلیز مجھے معاف کر دیں میں نے آپ کو غلط
سمجھا... پر مجھے نہیں پتا تھا کہ آپ کسی تکلیف سے گزر رہے ہیں... مجھ سے غلطی ہو
گئی پاپا... مجھے آپ کو سمجھنا چاہیے تھا.. پلیز مجھے معاف کر دیں... "
"بس میرا بچہ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں
لیکن اچھا یہی ہے کہ معافی مانگ لی جائے اور معاف کر دیا جائے ،اس سے پہلے کہ بہت
دیر ہو جائے... "اور یہ بات عثمان بہت اچھی طرح جان گیا تھا کہ وہ کس دیر کی
بارے میں بات کر رہے ہیں...
"نہیں بابا ابھی اتنی بھی دیر نہیں
ہوئی، ہم سب مل کے ڈھونڈیں گے چھوٹی پھوپھو کو..."
"اور انھیں گھر لیں آئیں گئے. "یوسف نے بات میں ٹکڑا
جوڑا تھا کلثوم اور شاہینہ دونوں کے چہرے پہ اطمینان تھا...
"ویسے پاپا ایک بات پتا ہے آپ کو بھائی
نے کتنی چالاکی سے میری جگہ لینے کی کوشش کی ہے.."
"میں نے... ؟؟؟ میں نے کب کوشش کی؟"
عثمان جو اس حملے کے لئے تیار نہیں تھا.... حیران رہ گیا...
"بس بس بھائی...زیادہ معصوم نہ بنیں
ابھی آپ نے کہاں نہیں "نکما بیٹا"... تو زیادہ فری مت ہوں، پاپا کا نکما
بیٹا میں ہوں اور ہمیشہ میں ہی رہوں گا... آپ تو پاپا کے اچھے بیٹے ہیں نا... "یوسف
کی بات پے سب ہنس پڑے تھے وہ ایک اداسی جو محول پہ طاری تھی ختم ہو گئی تھی...
"اور ہاں بھائی ایک بات اور "یوسف
نے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا..." وہ میں سوچ رہا تھا کہ آپ کی بارات
لیجانے کے بجائے بلوا کر آپ کی رخصتی کر دیں گے وہ کیا ہے نا آپ آج کل لڑکیوں سے
زیادہ اچھا روتے ہیں.... "وہ شرارت سے کہتا اوپر بھاگا تھا... جب کے عثمان
بھی تیزی سے اس کے پیچھے گیا تھا...
اور باقی تینوں انھیں مسکراتا دیکھ کر ہی خوش ہو رہے
تھے اور یہ تو اس گھر کی روایت تھی ایک کی خوشی میں سب خوش... اب اگر اس منظر میں
کمی تھی تو صرف زینب کی.
....................................
"دیش انسان کہاں تھا تو... ؟"محسن
نے اس سے پین کھنچ کے مارا تھا...
"او... محسن... ہائے..." یوسف اس کو دیکھ بولا....
"تیرے ہائے کی تو... ایسی تیسی... یہی
ابھی تجھ پے پڑے گی..." محسن کے ارادے خاصے مشکوک تھے... اس لئے یوسف پیچھے
ہوا تھا...
"دیکھ میں تجھے سب سمجھاتا ہوں... "یوسف نے
پھر سے کوشش کی...
"تو سمجھائے گا مجھے.... تو سمجھ.... کہ
تیرے لئے میں نے اتنا بڑا رسک لیا..." اس نے دوسرا پین مارا تھا....
"یار رک تو... میری بات تو سن "یوسف
نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا ہی تھا محسن نے بورڈ مارک اس کی طرف پھنکا....
"منہ بند رکھ اپنا اور تو میری بات سن.... تیرے
لئے میں نے ایڈمن بلاک میں گھس کر اسے فون کیا.... اسے آنے کے لئے منایا....
پوری رات تو نے میری بیکار کی پوچھ پوچھ کے وہ آئے گی
یا نہیں...اور صبح کو تو خود نہیں آیا... " ساتھ ہی اس نے اپنی نوٹ بک کھینچ
کے ماری تھی... جبکہ یوسف اس بار بھی اس کے حملے سے بچ گیا تھا... پتا نہیں وہ
نشانہ صحیح نہیں لگا رہا تھا یا پھر یوسف ہی اتنا اچھا ڈیفنڈر تھا کہ ہر بار بچ
جاتا تھا...
"اچھا بابا معاف کر دے غلطی ہو گئی...
کچھ مسئلہ ہی ایسا ہو گیا تھا..." یوسف نے کان پکڑتے بولا تھا...
یوسف کے چہرے پے کوئی لہر آکر گزری تھی...
"توجانتا ہے کل کتنا ہنگامہ ہوا تھا
یہاں.... تیری والی اور رانیہ کل دوبار آمنے سامنے ہوئی... ایک بار وہاں تمہارے
حجرے میں ۔۔"اس کا اشارہ سیڑیوں کی طرف تھا... اور دوسری بار کینٹین میں محسن
کافی سیریس تھا...
"تو پھر....؟" یوسف نے غور سے
دیکھا تھا...
"تو پھر یہ کہ چراغوں میں روشنی نہ
رہی...." محسن نے تپ کے جواب دیا تھا...
"ارے یار وہ تو تیری اس عجیب صورت پہ
بڑا بڑا لکھا ہے یہ بتا چراغ کسی کے تھے... "یوسف جھنجلایا تھا...
"مقابل اگر شانزے حسان ہو تو چراغ کس کے ہو سکتے ہیں...؟؟؟" محسن نے الٹا
سوال کیا..
وہ دونوں تالی مار کے ہنسے تھے...
...............................................
شانزے یونیورسٹی آگئی تھی، اور اب ہر اس جگہ بہانے سے
جا رہی تھی جہاں یوسف ہو سکتا تھا پر یوسف آج بھی کہیں نظر نہیں آرہا تھا... اسے
شدید غصہ آرہا تھا پر بیکار تھا... صبا جو کافی دیر سے اسے نوٹ کر رہی تھی بول
پڑی...
"کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ...؟؟ ہو سکتا
ہے یوسف آج بھی نہ آیا ہو..."
شانزے کا منہ حیرت سے کھل گیا تھا اس نے تو ایک لفظ بھی
نہیں بولا تھا تو پھر کیسے صبا نے سب جان لیا تھا.
"نہیں میں یوسف کو کیوں ڈھونڈوں گی ؟؟"
شانزے نے کمزور آواز میں کہا...
"دیکھو شانزے میں بچی نہیں ہوں... اور
الله کے کرم سے میری آنکھیں بھی کام کرتی ہیں. کل بھی تمہاری نظریں یوسف کو ڈھونڈ
رہی تھیں.. اور آج بھی تم ہر جگہ جا چکی ہو جہاں وہ ہو سکتا تھا پر.. اب مجھے بتاؤ
ماجرا کیا ہے..." صبا نے کڑے تیور سے اسے دیکھا تھا.
"کچھ نہیں لمبی کہانی ہے پھر کبھی ۔۔"شانزے
نے بات ٹالی تھی۔
"کوئی بات نہیں میرے پاس بھی بہت وقت
ہے.." صبا نے ڈھٹائی کی انتہا کو چھوا تھا. اور مجبوراً شانزے کو اپنی
کڈنپینگ سے لے کر بعد تک کی ساری بات اسے بتانی پڑی....
" بس یہی قصہ ہے میں اس کا شکریہ ادا کر کے اس قصے
کو یہیں ختم کرنا چاہتی ہوں..." پریشانی اس کے چہرے پہ صاف ظاہر تھی..
صبا کو اپنی معصوم لڑاکا دوست پی بےتحاشا پیار اور ترس
آیا تھا... کیونکہ جس قصے کو ختم کرنے کی وہ بات کر رہی تھی وہ نہ شروع اپنی مرضی
سے ہوتا ہے اور نہ ختم.... لیکن فی الحال کچھ بول کے وہ شانزے کو پریشان نہیں کر
سکتی تھی. اور بہتر یہی تھا کہ وہ خود اپنی کیفیت کو پہچانے..
"اچھا تم پریشان مت ہو، یہ بھی تو ممکن ہے کہ یوسف
آج آیا ہی نہ ہو." صبا نے اسے ریلکس کرنے کی کوشش کی..
"نہیں وہ یونیورسٹی آیا ہے... "شانزے
اس کی بات سے انکار کیا تھا.
"تمہیں کیسے پتا..؟؟؟ "صبا کو تجسس
ہوا تھا.
"وہاں پارکنگ میں اس کی سویک کھڑی ہے..."
شانزے نے پارکنگ کی طرف اشارہ کیا..
"شانزے ، وہاں اور بھی سویک کھڑی ہیں،
تمہیں کیسے پتا وہ اس کی ہے... ؟"سب کو حیرت ہوئی تھی..
'گاڑی کے نمبر سے.. APA
321 اس کی ہی گاڑی کا نمبر ہے.. "شانزے نے
نمبر بتایا تھا...
سیریسلی..!!! شانزے یو ار امپاسبل...."صبا کا حیرت
سے برا حال تھا.
"میں نے ایسا کیا کر دیا..؟؟ "
"تمہیں اس کی گاڑی کا نمبر تک یاد ہے..."
"ہاں..!! تو اس میں کون سی بڑی بات ہے.
اتنی بار اس کی گاڑی پہ نظر پڑتی ہے، رہ گیا یاد ؟؟ " شانزے کچھ الجھی تھی.
"تو یہ کہ شانزے حسان، اس یونیورسٹی کے
کتنے لوگوں کی گاڑیوں کے نمبر تمہیں یاد ہیں، سب چھوڑو ،مس کلثوم تو تمہاری فوریٹ
ہیں ان کی گاڑی کا نمبر بتا دو... "صبا نے اٹھتے ہوے کہا...
جبکہ شانزے دل ہی دل میں مس کلثوم کی گاڑی کا نمبر یاد
کرنے کی کوشش کرنے لگی..
..........................................
"کیا ہوا آج بڑی مصروف ہو؟" ماہرہ
نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
"بس یار ایک فائل ہے اس پہ ہی کام کر
رہی ہوں، سنا ہے آج عثمان باس آرہے ہیں تو سوچا ہر چیز پہلے سے کر لوں، وہ کب کیا
مانگ لیں کچھ پتا نہیں ہے. "اریزے نے
فائل پے جھکے ہوئے ہی جواب دیا.
"ہاں..!! یہ تو ہے عمیر کی نسبت عثمان
باس کافی مشکل پسند ہے. ہزار کیڑے مکوڑے نکل کر کوئی چیز اوکے کرتے ہیں..."
ماہر نے اس انداز سے کہا اریزے کو ہنسی آگئی..
"لگتا ہے ابھی تک نہیں آئے ورنہ ہنسی کی
آواز پہ بھی غصہ آجاتا... "اریزے نے ہنستے ہوئے کہا.
"نہیں آگے ہوں گئے بس تمہاری طلبی نہیں
ہوئی ہے ابھی تک. بڑے پنچوئل ہیں نہیں آتے تو نہیں آتے اور جب آتے ہیں تو ٹائم پہ...
تم بغیر گھڑی دیکھے بھی وقت کا پتا لگا سکتی ہو.. "
اب وہ دونوں ماہرہ کی بات پے ہنس رہی تھیں اور وہ ایسی
ہی تھی سب کو ہنسانے والی لیکن قسمت کی خرابی عین اس وقت عثمان اپنے روم سے
نکلا...
اریزے کی ہنسی اتنی دلکش تھی کہ وہ اس کو روک کے دیکھنے
پہ مجبور ہو گیا تھا. جب کہ ماہرہ وہاں سے کھسک گئی تھی اوراریزے کی ہنسی کو بریک
لگا تھا. لاسٹ ٹائم ہوئی عزت افزائی اسے اچھی طرح یاد تھی. جبکہ عثمان اس کا جائزہ
لینے میں مصروف تھا، کچھ تھا اریزے میں جو اسے ہمیشہ متوجہ کرتا تھا.ایسا نہیں تھا
کہ اس نے کوئی خوبصورت لڑکی نہیں دیکھی تھی، جس کلاس سے ان کا تعلوق تھا وہاں ایسی
شکلیں عام تھیں اور جن کی نہیں ہوتی تھیں وہ تراش خراش سے بنوا لیتی تھیں پر پھر
اریزے سب سے مختلف تھی.
"سر کچھ چاہیے آپ کو ؟"اریزے نے
بلاآخر پوچھ ہی لیا تھا..
"جی... میرے روم میں آئیں.. "عثمان
کو اپنی حالت پہ شدید غصہ آیا تھا..
"چلو اریزے مادام... U
& U کارپوریشن اور اس کے مضافات میں تمہاری پیشی
کا وقت ہوا چاہتا ہے... "اس نے خود کلامی کی تھی. اور دھڑکتے دل کے ساتھ
دروازے پے دستک دی..
"کم ان..." اپنی رعب جماعتی بھاری
آواز میں اجازت دی تھی.
"مس اریزے مجھے امید ہے آپ کی ورکنگ
کمپلیٹ ہو گی تو پلیز مجھے فائل دے دیں تا کہ میں دیکھ سکوں.."
اس نے آیات لکرسی کا ورد کرتے ہوے فائل عثمان کو پکڑائی
تھی. اور اب وہ بغور اس کا جائز لینے میں مصروف تھا.
اریزے کو لگا جیسے جیسے وہ فائل کو دیکھ رہا تھا اس کا
موڈ آف ہوتا جا رہا تھا. اسے اپنا سانس رکتا ہوا لگا آج پھر اس کی کلاس پکی تھی.
"آپ کا فورمیٹ اچھا ہے، پرآپ کی اور آل
ورکنگ میں مسٹیکز ہیں، کہیں پہ اسٹاک آوٹ ہوا ہے تو ان نہیں ہو رہا اور جہاں ان
ہوتا نظر آرہا ہے وہاں پے آوٹ کا کوئی ذکر نہیں، ایسے تو پتا نہیں چلے کا رمیننگ
کونٹیٹی کتنی ہے. گریڈز کی نمبرنگ بھی آپ
نے منشن نہیں کی تو پتا کیسے چلے گا کہ کون سے گریڈ کی بات ہو رہی ہے. "
"مارے گئے، "وہ سر نیچے کیے
انگلیاں مڑوڑ نے میں مصروف تھی جیسے فائنل ایگزم کے رزلٹ کے وقت فیل ہونے والے بچے
کھڑے ہوتے ہیں.
"لوٹس نمبرز بھی مسنگ ہیں، آرڈر لیتے ہوئے
اگر آپ کے پاس لوٹس نمبر نہیں ہیں تو پھر آپ کو کیسے یاد رہے گا کہ کون سی لوٹس سے
میٹریل جائے گا. "
اب وہ شرمندگی سے ہونٹ بھینچ رہی تھی.
"ایئرلی پلاننگ کی بات کریں تو آپ کی
شیٹ کی سب سے بڑی مسٹیک یہ ہے کس کسٹمر نے کس سیزن میں کتنا کنزیوم کیا پتا ہی
نہیں چل رہا. تو پھر اپ کمینگ سیزن کے لئے فورکاسٹنگ کیسے ہو گی. اور اس کے بغیر
یہ قطعی بےکار ہے."
"اف الله..." اریزے کو اپنی
حماقتوں پہ چکر سا آیا تھا، اور ساتھ اپنی بےعزتی پہ رونا آیا، آفٹر آل یہ اس کی
پہلی پروفیشنل بےعزتی تھی.
عثمان نے بھرپور نظر اس پہ ڈالی. اور پھر تشویش بھری
نظروں سے دیکھتے ہوئے فائل اس کی طرف بڑھائی..
"امیزنگ... اگر کام میں غلطیاں ہو تو
کیا ایسے بدحواس ہو جاتے ہیں ؟؟" عثمان نے گہری سانس لی تھی.
"دیکھو اریزے... کوئی بھی ایک دن میں
کچھ نہیں سیکھ لیتا، محنت کرنی پڑتی ہے، اپنی غلطیوں سے سیکھنا پڑتا ہے۔
غلطیاں کرنا کوئی غلطی نہیں ہوتی بلکہ اپنی غلطیوں سے
نہ سیکھنا غلطی ہے. اس لئے آپ غلطیاں ضرور کیجئے لیکن ان کی اصلاح بھی کریں اور جب
کوئی آپ کی غلطیوں کی نشاندہی کرے تو اس کو غور سے سنیں. تاکہ اگلی دفعہ کسی کو کچھ کہنے کی ضرورت نہ
پڑے."
"میں اب جاؤں ؟؟" اس نے ابھی تک نظریں جھکائی ہوئی تھی
وہ بار بار پلکیں جھپک رہی تھی جیسے آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کر رہی ہو.
"جی ضرور... مگر آخری غلطی بھی سنتی
جائیں، جب کبھی کوئی رپورٹ آپ بنائیں تو
اس پہ اپنے نام کے ساتھ سگنیچر کا کالم بھی بنایا کریں."
"اف.. "بےاختیار اس کے منہ سے نکلا
تھا جبکہ عادت سے مجبور ہو ہاتھ ماتھے پہ مارا تھا. "میں خیال کروں گی سر
اگلی دفعہ آپ کو کوئی شکایات نہیں ہوگی."
"اوکے.." عثمان نے اپنی مسکراہٹ
دباتے ہوے کہا تھا. جبکہ اریزے تیزی سے روم سے باہر نکل گئی تھی اسے ڈر تھا کہ
کہیں پھر کوئی غلطی اس کے آڑے نہ آجائے.
......................................
شانزے تھک ہار کے اپنی مخصوس جگہ کی طرف چل دی تھی،
اتنا تو وہ جانتی تھی کہ یوسف آیا ہے تو پھر کہاں چھپ کے بیٹھاہے.. وہ اپنے خیالوں
میں چل رہی تھی یہ الگ بات ہے کہ اس کے خیال اتنے زور دار تھے کہ دوسرے لوگ بھی
آسانی سن سکتے تھے..
"گھر کیا چھوڑا احسان کر دیا مجال ہے
ایک بار پلٹ کے خبر بھی لی ہو... کوئی حد نہیں ہے اس لڑکے کی..کوئی ایسا کرتا ہے
کیا.. ایک نمبر کا بدتمیز انسان ہے.. اپنے علاوہ کسی کی کوئی پرواہ نہیں... مجال
ہے جو کہیں نظر آیا ہو، پتا نہیں کہاں چھپ کے بیٹھ گیا ہے، صبح سے ڈھونڈھ رہی
ہوں..." وہ اپنے آپ سے باتوں میں مصروف تھی تبھی فرش پہ گرا پانی نہیں دیکھ
پائی اس لئے سلپ ہوئی لیکن اس سے پہلے گرتی اس نے خود کو کسی کے مضبوط حصار میں
پایا تھا...
ایک منٹ کو وہ پلکیں جھپکنا بھول گئی تھی، وہی تھا دشمن
جان جسے صبح سے ڈھونڈ رہی تھی.. دونوں کی نظریں کچھ پل کے لئے ایک دوسرے پہ جم گئی
تھی. شانزے کو جلدی اپنی غلطی کا احساس ہوا وہ خود کو اس کی بازوؤں کے احصار سے نکالے کی کوشش کرنے لگی جبکہ یوسف اسے اپنی
پرسنل پراپرٹی سمجھتے ہوئے چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھا.
.....................................................
جاری ہے
CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING
Comments
Post a Comment