Badtameez ishq novel by Radaba Noureen Episode 03

Badtameez ishq novel by Radaba Noureen


"بدتمیز عشق"
قسط 3
ناول نگار:     "ردابہ نورین"

آج پھر اس کا موڈ خراب تھا. تبھی وہ سیدھا اپنے کمرے میں آگئی تھی. بستر پے لیٹی نا جانے کس دنیا میں گم تھی. جب اریزے اس کے پاس آئی۔
 تم ٹھیک ہو ؟ شانزے نے پیار سے اپنی بہن کو دیکھا اور بدلے میں صرف ہاں بول سکی. وہ اکثر ایسا ہی کرتی تھی جب کسی گہری سوچ میں ہوتی تو اس سے بولا نہیں جاتا تھا. لیکن اس کا چہرہ اس کے دل کی کفیت کی ہمیشہ چغلی ہی کرتا تھا یہی وجہ ہے اریزے ایک لمحے میں سمجھ گئی تھی کہ کوئی بات ضرور ہے. لیکن وہ کیا سوچ رہی ہے اس کا اندازہ لگانا نا ممکن کی حد تک مشکل تھا.
 اچھا.... تو آج پھر کچھ ہوا؟؟ اریزے اب اس کی چیزیں سمیٹ رہی تھی. اس یوسف نے کچھ کہا کیا.. ؟؟ کچھ تھا جو شانزے کی آنکھوں میں چمکا تھا شاید آنسو اریزے کو تو یہی لگا تھا.
 تم نہیں جانتی اس کو وہ نہایت ہی کوئی بدتمیز گھٹیا انسان ہے. جانتی ہو اگر مجھے ایک خون معاف ہو جائے تو میں اس یوسف کا کروں گی.
omg کتنی انتہا پسند ہو گئی ہو تم شانزے..
 میں انتہا پسند اور وہ کیا ؟؟ معصوم بٹیر....؟؟ وہ غصلے لہجے میں بولی. جبکہ اریزے کو اس کی بات پے ہنسی آگئی تھی.
 پتا ہے تمہارا انداز بلکل تائی اماں جیسے ہو گیا ہے.
 بس اب میں اتنی بھی بری نہیں ہوں شانزے نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے گھورا تھا.
بری بات بڑوں کو ایسے نہیں کہتے. اس کا انداز ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا. نہایت نرم جو سامنے والے کا دل موہ لے. ویسے اس نے کیا کیا ہے ؟ اریزے نے تجسس سے پوچھا.
اس نے جو کیا وہ چھوڑو اور جو میں اس کے ساتھ کرنے والی ہوں وہ پوچھو. شانزے منہ پے ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی. اس لیے اریزے نے خوفزدہ ہوتے پوچھا ۔
تم کیا کرنے والی ہو ؟؟؟
وہ میں نے ابھی سوچا نہیں. شانزے نے نہایت سکون سے جواب دیا.
 شانزے تم کیوں اس سے الجھتی ہو چھوڑ دو اس سے الجھنا وہ بڑے لوگ ہیں ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے. اریزے نے بغور شانزے کو دیکھا وہ جانتی تھی کہ ضرور وہ کوئی پلان بنا چکی ہے اور وہ یہ بھی جانتی تھی کے اس وقت اسے ٹھنڈا نا کیا گیا تو وہ اندر ہی اندرکوئی نیا علان جنگ کر دے گی جس کو روکنا مشکل ہو جائے گا. مگر وہ شانزے ہی کہاں جو آسانی سے دل کا حال بول دے.
 ..............................................
اوے.. چور... شانزے فریج میں میں سے آئسکریم لے کے دبے پاؤں کمرے کی طرف بڑھی ہی تھی. کہ پیچھے سے آواز آئی...
کیا ہے وجی بھائی.. دس دفعہ بولا ہے نفرت ہے مجھے اس لفظ سے...
 اور تمھیں بھی دس دفعہ بولا ہے نفرت ہے مجھے تمہارے اس طرح چوری سے کھانے پینے کی عادت سے... تمہارا اپنا گھر جب چاہے جہاں چاہے کھاؤ...
آپ نہیں جانتے ایسے جو مزہ ہے وہ ویسے کہاں اس نے منہ میں آئسکریم ڈالتے ہوے کہا...
 اس لئے کہا چور.....
 وجی بھائی، اس نے رونے جیسا منہ بنایا....
اچھا چور کو چور نہ بولوں تو اور کیا بولوں...؟؟ وجی نے اس کے ہاتھ آئسکریم کا باؤل لیتے ہوے بولا...
فور یور کاینڈ انفارمیشن اپنے گھر میں.. اپنے فریج سے... آئسکریم کھانا چوری نہیں ہوتا... شانزے نے باؤل واپس لیا تھا...
 ناؤ... فور یور کاینڈ انفارمیشن... اپنے گھر میں.. اپنے فریج سے... سے کسی اور کی لائی آئسکریم... اسے بغیر بتائے کھانا چوری ہوتا... وجی نے اس کے ہاتھ سے باؤل لینا چاہا...
 اچھا ٹھیک ہے... آدھی آپ کی اورآدھی میری ٹھیک ہے...؟؟؟؟ شانزے آنکھوں سے اشارہ کرتے ہاتھ آگے کیا....
اوکے ڈن.. وجی نے اس کی بات مانتے اس کا ہاتھ تھاما... وہ دونوں آئسکریم کھا رہے تھے تبھی عنیقہ آگئی...
اوہو... تو یہ تم ہو چور کہیں کی.... شرم نہیں آتی ایسے کسی کی چیز چراتے...؟؟؟
 شٹ اپ عنیقہ بکواس بند کرو میں چور نہیں ہوں.. نہ میں نے چرایا ہے...
 اچھا تو پھر یہ کیا ہے...؟؟ اس نے آئسکریم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کھا...
یہ... یہ تو میں نے فریج سے لیا ہے....نہایت معصومیت سے کہا گیا تھا...
 تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری چیز کو بغیر مجھ سے پوچھے ہاتھ لگانے کی... عنیقہ بھی شانزے سے کم نہ تھی...
 اوہ.. سوری وہ... کیا ہے کے اس پے تمہارا نام نہیں لکھا تھا... اس نے باؤل کو گول گھما کر دکھایا...
شٹ اپ... یو... اس نے شانزے کو گالی دی تھی.. اور یہ کوئی پہلی بار ہوا تھا ویسے وہ گالی نہیں دیتی تھی پر... شانزے کو گالی دینا اولین فرض سمجھتی تھی. جبکہ جواباً شانزے نے ایک زور دار تھپڑ اس کو رسید کیا تھا... اب وہ پاگلوں کی طرح چیخ رہی تھی..
 ماما.... ماما... جلدی آیئں.... دیکھیں اس چور نے کیا کیا ہے....
 چپ ہو جاؤ عینی.... کیا ہو گیا تم دونوں کو کیوں لڑ رہی ہو... میں لایا تھا یہ باؤل... وجی نے بات ختم کرنے کی کوشش کی...
بس کریں بھائی آپ کو تو دوسروں کی نخرے اٹھانے سے فرصت ملے تو آپ کو بہن نظر آئے...
 ارے کیا ہو گیا کیا ہنگامہ کیا ہوا ہے... تائی اماں نے ہانپتے ہوے پوچھا... ساتھ میں می جانی بھی تھیں... اماں اس نے ایک تو میری آئسکریم کھائی اوپر سے مجھ پے ہاتھ اٹھایا....
ارے غضب خدا کا اب یہ دن بھی آنا تھا... ہمارے گھر میں رہتی ہے ہمارا کھاتی ہے... اور ہمیں ہی مارتی ہے...
 می جانی نے شانزے کا بازو کھنچا ۔
کیوں شانزے کیوں مارا تم نے بہن کو....
 یہ چور میری بہن نہیں ہے عینی نے ماں کو دیکھتے ہوے کہا...
می جان اس نے مجھےگالی...
بس چپ شانزے تنگ آگئی ہوں میں تم سے... کبھی تو جھگڑا مت کیا کرو...
ارے لو کیسے نہ کرے جھگڑا... یہ تو اس کے خون میں شامل ہے... تائی امی کی زبان نے شعلے برساے تھے..
می جان نے اسے ملامتی نظروں سے دیکھا تھا.
 ماما پلیز.. وجی نے ماں کو روکنے کی کوشش کی.. میں نے کیا غلط کہا..؟؟؟
 نجانے کن چوروں کا خون ہے.. ہمارے تو خاندان میں کسی کو یہ عادت نہ تھی...
 ماما بس کریں نیچے چلیں آپ، وجی اپنی ماں بہن کو کہہ کر نیچے چلا گیا تھا...
چور... لیکن جاتے جاتے عینی نے چنگاری پھر سے بھڑکا دی تھی... ...............................................
مغرب ہونے والی تھی وہ بہت دیر سے چھت پے جانے والی سیڑیوں پے بیٹھی تھی. بچپن سے لے کہ آج تک یہ اس کی مخصوص جگہ تھی. وہ جب بھی پریشان یا اداس ہوتی تو یہاں اکر بیٹھ جاتی. شام کافی گہری ہوتی جا رہی تھی. سورج کی پیلی روشنی رات کی سیاہی کو نگلنے میں ناکام ہو رہی تھی. پرندے اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ رہے تھے.اور اپنی سوچوں میں گم ہوتی جا رہی تھی . وہ نہیں جانتی تھی کہ کب اس گھر میں آئی، جانتی تھی تو صرف اتنا کہ جب ہوش سنبھالا تو خود کو اس گھر میں پایا... می جان.. پاپا... دادی اماں.. تائی اماں.. تایا ابو.. وجی بھائی... عنیقہ اور اریزے کے ساتھ. سب نے اس پے بھر پور محبتیں نچھاور کیں. سوائے تایا اور تائی کے..
 دادی جان مضبوط اور روب دار شخصیت کی ملک تھیں. دادا جان کے بعد بھی ان کی حکمرانی یا روعب و دبدبے میں کوئی فرق نہیں پڑا بلکے شخصیت میں پہلے سے زیادہ نکھار آگیا تھا. انہوں نے گھر، کاروبار، اپنے دونوں بیٹوں رضوان محمود اور حسسان محمود اور اپنی اکلوتی بیٹی روبینہ کی زمیداری پوری ایمانداری سے اٹھائی. شادیوں ک فرائض بھی انہوں نے بڑی خوش اسلوبی اور سمجھداری سے ادا کے. اپنے بیٹوں کے لیے اپنے بھائی کی دونوں بیٹیاں لی تا کے اپنے گھر کو خاندانی جھگڑوں سے بچا سکیں. روبینہ کی شادی بھی ان ہوں نے خاندان میں کی تھی پر شادی کے بعد وہ اپنے شوہراور اکلوتے بیٹے کے ساتھ لندن چلی گیں. شروع میں وہ ہر سال آتی تھیں پھر آہستہ آہستہ یہ فاصلہ بڑھتا رہا. لیکن دادی امی کے لیے یہی کافی تھا کہ ان کے تینوں بچے اپنے زندگی میں خوش و خرّم تھے. پر خدا جانے ان کے گھر کو کس کی نظر لگ گئی. جب اچانک ایک دن حسان کہیں سے ننی سی گڑیا اٹھا لائے اور لا کے حنا کی گود میں ڈال دی جسے انہوں نے بنا کسی نوک جھونک کے سینے سے لگا لیا. ساری دنیا کو حیرت تھی حالانکہ حسان کو خود بھی الله نے بیٹی کی نعمت سے نوازا تھا. تو پھر کیوں وہ کسی بچی کو گھر لے آئے یہ بات دنیا والوں کو ہضم نہ ہوتی تھی کچھ لوگ تو یہاں تک کہتے کہ یہ حسان کا ہی کوئی گناہ ہے. جو باتیں لوگ گھر سے باہر کر رہے تھے وہی باتیں گھر میں بھی ہو رہی تھیں. تائی اماں اور تایا ابو کو بھی یہی لگتا تھا کہ یہ بچی حسان کی کسی حماقت کی نشانی ہے. اس لیے ان کو یہ بات بالکل نہیں منظور تھی کوئی سڑک پے پڑی بچی ان کے گھر میں ان کے بچوں کے ساتھ پل کر ان کے بچوں کا حق کھائے. جبکہ حسان نہ صرف اسے گھر میں رکھنے پے بضد تھے بلکہ اس سے اپنا نام بھی دینا چاہتے وگرنہ دوسری صورت وہ اس گھر میں میں نہیں رہیں گئے. تایا ابو نے اپنی بیوی جو کے حنا کی بڑی بہن بھی تھیں ان سے بات کی تا کہ وہ سڑک پے پڑی بچی کو وہیں پہنچا دیں. بلکہ باتوں باتوں میں تائی امی نے اپنے دل کی بات بھی بہن سے کہ ڈالی کہ یہ بچی کہیں حسسان کی تو نہیں تبھی وہ اسے اپنے سے دور کرنے پے راضی نہیں ہے. لیکن حنا نے اس معاملے میں صرف اپنے شوہر کا ساتھ دیا. اور یہ کہہ کر کے انہی اپنے شوہر پے پورا بھروسہ ہے پوری دنیا کا منہ بند کرا دیا. لیکن وہ ایک بات بھول گئی تھیں کہ شکست اکثر اپنوں کے ہاتھوں ہی ہوتی ہے. دادی جن کے دباؤ میں آکر اگرچہ بچی کو گھر میں رہنے کی اجازت مل تھی پر تایا ابو اور تائی امی نے اسے دیکھنا تک گوارا نہیں کیا. لیکن باقی سب نے اسے کھلے دل سے تسلیم کیا تھا. دادی جان نے بڑے پیار سے اسے شانزے نام دیا تھا. شانزے بچپن میں بڑی خاموش طبیعت اور فرمابردار بچی تھی ہر کہنا مانا اس پے فرض تھا. جب کے عنیقہ اس کی نسبت کافی جھگڑالو اور طوفان بلاخیز تھی. یہ سب تایا اور تائی امی کے بےجا لاڈ کا نتیجہ تھا. اور کیوں نہ ہوتا تایا جان سخی اتنے کے اپنی ثقافت پے آیئں ہاتم تائی کو بھی مات دے دیں. ان کی عنایتوں اور کرام نوازیوں سے ہر شخص اپنا حصہ پورا پورا وصول کرتا تھا. ان کے خزانے میں اگر کسی کے لیے کمی آتی تو اس ننھی جان شانزے کے لیے جو انہیں ایک آنکھ نہ بھاتی تھی. دستے شفقت دوئ کی بات انہوں نے کبھی اس سے دو پل روک کر دیکھنا بھی پسند نہیں کیا تھا. ان کے خیال میں وہ گندگی کا ڈھیر تھی جس سے جینے کا کوئی حق نہیں تھا اور وہ بڑے استحقام سے ان کا سر ںیم چرا بیٹھی تھی. ماں باپ کی آنکھوں سے جھلکتی نفرت اور حکارت عنیقہ نے وراثت میں لی تھی یہی وجہ تھی کے وہ بھی شانزے کو پسند نہیں کرتی تھی. لیکن وجی تو اس پے جان چھڑکتا تھا اس ک لیے تو وہ گڑیا تھی ہنسنے رونے والی. شرارتیں کرنے والی... شرواعات میں حالات اتنے خراب نہ تھے اگر چہ تایا ابو اور تائی اماں کچھ خاص پسند نہ کرتے تھے پر دادی جان کی وجہ وہ اس بات کا کھلم کھلا اظہار بھی نہیں کر سکتے تھے لیکن دادی جان کے انتقال کے بعد تو جیسے ہر حد پار ہو گئی تھی. وہ تایا اور تائی اور عنیقہ کی پرچھایوں سے بھی دور رہتی تھی پر شعور کی آگاہی نے اس کے ڈروخوف کو مقابلے کی راہ دکھا دی تھی اور یہی وجہ تھی کے شانزے کی زبان اور دل میں کڑواہٹ بھر گئی تھی جسے می جانی.. بابا اور اریزے مل کہ بھی ختم نہیں کر پا رہے تھے. نہ جانے کتنی دیر وہ اس طرح ہی ماضی کی ستمزرفیوں میں گم رہتی جب اریزے نے اسے آواز دی.
 شانی... شانی... شانی.... کون سا چللہ کاٹ رہی ہو یار... شانی...
کیا ہے.. شانزے نے کچھ چڑتے ہوے نیچے جھانک کر کہا.. سخت چڑ تھی اسے نام بگاڑنے سے پر اریزے جب بھی موڈ میں ہوتی تو وہ ایسے ہی اس کا نام بگاڑتی تھی.
 جلدی نیچے آؤ تمہیں کچھ دکھانا ہے...
 اوہو - آرہی ہوں ذرا تو صبر کرو ہمیشہ ایسے چلاتی ہو جیسے قارون کا خزانہ مل گیا ہو.. پر ملتی کیا ہے تائی امی کی ڈانٹ... شانزے نے منہ بناتے کہا. پر اریزے کو دیکھ کر وہ ٹھٹک گئی وہ کچھ گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی تمھیں کیا ہوا ایسے منہ کیوں بنایا جیسے اس بدتمیز یوسف کو دیکھ لیا ہو.
اریزے نے اس کے سامنے موبائل کیا...
 تو کیا کروں اس کا دس بار دیکھا ہے. شانزے نے چڑتے ہوا کہا،
 تم چپ کرو گی دو منٹ میں تمہیں موبائل نہیں یہ وڈیو دکھا رہی ہوں. اور ویڈیو دیکھ کے شانزے کو لگا کا اس کی نسوں میں خون کی جگہ غصہ ڈور رہا ہے وہ بھی ١٠٠٠ کلو میٹر پر سیکنڈ کی سپیڈ سے. شانزے نے اپنا پرس اٹھایا اور باہر کی طرف چلدی جب کے اریزے اسے آوازیں دیتی رہ گئی. ...............................................
یوسف کافی دیر سے XBOX پے IGN کھیلنے میں مصروف تھا لیکن ہر بار ایک خاص پوانٹ پے جا کے وہ اپنی گاڑی الٹا رہا تھا۔ عثمان جو کافی دیر سے یہ سب نوٹ کر رہا تھا بلاآخر پوچھنے لگا۔
 کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ۔ ...
 کیا مسئلہ بھائی۔؟ یوسف نے سکرین سے نظر ہٹاے بغیر جواب دیا۔
یہ میں نے سوال کیا تھا شاید.... عثمان نے سیدھے ہوتے پوچھا۔
 ہاں بھائی.... پر کیوں کیا تھا۔ تبھی یوسف نے ایک بار پھر کار الٹا دی تھی۔
 سکرین پے نظر آنے والی گاڑی اب اگ کی نظرتھی۔ سی..... اس پوچھا..... عثمان نے سکرین کی طرف اشارہ کیا۔
کچھ نہں بھائی بس ایسے ہی موڈ خراب ہے۔ یوسف برابر میں بیٹھتے بولا۔
کیوں موڈ خراب ہے میرے شیر کا ؟؟؟
 او ہو بھائی آج کے بعد نہ مجھے یہ شیر نہ کہنا۔ یوسف کا انداز چڑ جانے والا تھا۔
 کیوں یار ایسا کیا ہوا ہے ؟ عثمان نے نہ سمجھنے والے انداز میں پوچھا اصل میں وہ کنفیوز تھا کیونکہ وہ ہمیشہ سے یوسف کو ایسے ہی بلانے کا عادی تھا اور اس سے پہلے یوسف نے کبھی منع نہیں کیا تھا۔
کیوں یار ہوا کیا ہے عثمان نے پھر سے پوچھا اتنا تو وہ اندازہ کر چکا تھا کہ کوئی بات ضرور ہے۔
 بھائی کتا ہو یا شیر کیا فرق پڑتا ہے رہے گا تو جانور ہی نا۔۔۔۔ ہا ہا ہا ہا۔۔۔ یوسف نے اتنی معصومیت سے پوچھا کہ عثمان اپنی ہنسی کو روک نہ پایا۔ بھائی.... یوسف نے منہ بنایا۔
 تو اور کیا کرو اچھا ویسے یہ بتایا کس نے ہے تمھیں مرچوں والی نے ؟ یوسف کی خاموشی نے اس کا جواب دے دیا تھا۔ یار پہلے تو تم یہ بتاؤ کہ تم دونوں پڑھنے جاتے ہو یا لڑنے ؟ دیکھو بیٹا میرا خیال ہے اب تم دونوں کو صلح کر لینی چاہیے اگر ایسے لڑتے رہے تو محبت ہو جائے گی تم لوگوں کو......
واٹ ؟ محبت وہ بھی اس شانزے حسان سے ؟ نا ممکن... جانتے ہیں وہ دنیا کی آخری لڑکی بھی ہوئی تو میں اس سے شادی کرنے سے بہترمیں مرنا پسند کروں گا. جانتے ہیں جس لڑکی سے مجھے پیار ہو گا ناوہ اس دنیا کی سب سے حسین لڑکی ہو گی۔ اور جب وہ میری طرف دیکھے گی تو ہوا میں خوشبو پھیل جائے گی۔ جب وہ بولے گی تو آسمان سے بارش برسے گی۔ جب وہ ہنسے کی تو ہوا میں پھول بکھر جائیں گئے. آس پاس بیٹھے لوگ غائب ہو جائیں گے....... اورپتا نہیں کیا کیا ہو گا.... لیکن سب بہت بہت حسین ہو گا... اور شانزے... اس کو دیکھ کر جانتے ہیں کیسا لگتا ؟؟ جیسے ہم دونوں میدان جنگ میں ہوں فل اصلحے سے لیس۔ جیسے ہر طرف گولیاں چل رہی ہوں۔ بم بلاسٹ کا دهواں ہر طرف پھیلا هو۔ آس پاس کی پوری دنیا غائب ہو۔اور اگر کوئی ہو تو صرف میں اور وہ ایک دوسرے پے پسٹل تانے۔ جس نے پہلے گولی چلائی وہ جیت گیا۔۔۔ وہ اپنی دھن میں مگن بول رہا تھا جب عثمان کی آواز نے اس سے خیالی دنیا سے باہر نکالا۔ دیکھو یوسف تم میرے چھوٹے بھائی اور اس لہٰذ سے تمہیں سمجھانا میرا فرض ہے.... دیکھو بیٹا یہ یاد رکھنا ہنسی مذاق مستی اپنی جگہ ضرور کرو لیکن یہ خیال رکھو کے اس سے کسی کی دل آزاری نہ ہو اور نہ اپنے دل میں کسی کے لیے نفرت کے جذبات رکھو یہ نفرت ہی ہے جو اچھے خاصے انسان کو جانور بنا دیتی ہے. یہ نفرت ہی جو آپ کے شعور کو مات دے کر انتہائی گہرائیوں میں پہنچا دیتی ہے. اور جب تک آپ اس سب سے باہر نکلتے ہو سب ختم ہو جاتا ہے۔
 بھائی آپ اتنا سیریس کیوں ہو رہے ہیں....؟؟؟؟ وعدہ...!!! میں ایسا کچھ نہیں کروں گا جو میرے لیے آپ کے لیے یا ہماری فیملی کے لیے شرمندگی کا بائث بنے...
 ڈیٹس لائک مائی گڈ بوائے.... ویسے میں ایک بات سوچ رہا تھا. عثمان نے اس کے سر میں ہاتھ پھیرتے کہا...
کیا بھائی... یوسف نے اس کی گود میں سر رکھتے پوچھا تھا. یہی کہ دنیا تو تمھیں شانزے بھی بھلوا دیتی ہے۔ نہیں ؟ عثمان نے اپنے بھائی کے چہرے پے بکھرے رنگ بڑے غور سے دیکھے تھے۔
 بھائی آپ کو۔ کیا ہو گیا ہے ؟؟ کیوں بار بار اس چڑیل کا نام لیتے ہیں...
بری بات ابھی کیا سمجھایا ہے تمہیں...
او ہو بھائی... اتنا تو چلتا ہے... آپ نہیں جانتے اسے.... ایک چھوٹا سا مزاق کیا تھا... سوری بھی کیا اس کے لیے لیکن نہیں...عجیب بد دماغ لڑکی ہے جو منہ میں آتا ہے بولتی جاتی ہے.
 دیکھو کسی لڑکی کے بارے میں ایسے بات نہیں کرتے.اور وہ بھی تب جب وہ میری چھوٹی سی کیوٹ سی بھابھی ہو۔عثمان نے معصوم منہ بنا کے بولا اور تبھی پاس پڑا تکیہ یوسف نے کھنچ کے اسے مارا لیکن عثمان نے بڑے آرام سے اسے کیچ کر لیا تھا۔ اب دونوں چھوٹے بچوں کی طرح بھاگ رہے تھے۔ عثمان بھاگتا ہوا ماما کے پیچھے چلا گیا. م
اما آپ ہٹ جائیں آج آپ بیچ میں نہیں آیئں گی. یوسف نے اس پکڑنے کی ناکام کوشش کرتے ہوے کہا.
 ہوا کیا ہے یوسف بتاؤ تو ماما جو اپ تک پوری صورتحال سے ناواقف تھیں پوچھنے لگی.
 ارے بیگم یہ دونو ں بھائیوں کا معاملا ہے میرا خیال ہے اپ بیچ میں نا آیئں. حسین صاحب جو اخبار میں گم تھے. اب اخبار رکھتے ہوے بولے.
 تھنک یو پاپا یوسف نے باپ کو تشکر نگاہؤں سے دیکھا جبکہ ماما اب تک عثمان کے سامنے کھڑی تھیں.
ماما آپ ہمیشہ بھائی کی سائیڈ لیتی ہیں. اس گھر میں کوئی نہیں جو مجھ سے پیار کرتا ہو. وہ کسی روٹھے بچے کی طرح زمین پے بیٹھ گیا تھا. عثمان نے پیار سے اس کے گلے میں بازو ڈالی.
 یہ تو ہے، کیوں کے ہم تمہیں ڈسٹبیں سے جو لائے تھے.
پاپا دیکھیں نا یوسف نے رونے والا منہ بنایا. اور عثمان نے بڑے پیار سے اس کی پیشانی چومی اور ان دونوں کا قہقہ فضا میں گنجا. جس میں ان کے ماما پاپا نے بھی بھر پور ساتھ دیا تھا. تبھی باہر سے شور کی آواز آئ، یوسف کو آواز جانی پہچانی لگی وہ باہر کی طرف لپکا۔
میڈم رک جائیں آپ ایسے اندر نہیں جا سکتی۔ گارڈ نے وارن کیا۔
 کیوں اندر کیا درندے رہتے ہیں جو مجھے کھا جائیں گے ؟ اس نے اپنی شعلا برساتی نظروں سے گارڈ کو دیکھا۔
 دیکھئے میڈم صاحب ایسے ہر کسی سے نہیں ملتے۔اگر آپ نے مجبور کیا تو ہمیں گھر سے باہر نکالنا پڑے گا۔ اچھا دیکھتی ہوں کون روکتا ہے وہ کہتی آگے بڑھی تھی کہ یوسف کو دیکھ کےرک گئی ۔جب کے یوسف شانزے کو دیکھ کے حیران پریشان تھا۔ اتنا تو وہ جانتا تھا کہ وہ ان لڑکیوں میں سے نہیں جو ڈر جائیں پر وہ اس کے گھر پہنچ جاے گی یہ بات اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ پیروں سے زمین کا نکلنا کیا ہوتا ہے آج اس نے محسوس کیا. شانزے تیزی سے اس کی طرف آرہی تھی.
تمہارا دماغ ٹھیک ہے تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟؟ یوسف اس پے چلایا تھا.
میرا دماغ ٹھیک ہے اور تمہارا میں کرنے آئی ہوں.. شانزے نے برابر سے جواب دیا اور بیگ میں کچھ تلاش نے لگی...
 دیکھو یہ میرا گھر ہے، یہاں کوئی سین کریٹ مت کرو. یوسف نے اس کی بازو پکڑ کے کھنچا..
 اچھا اور تم... اور تم جو مرضی کرتے پھر ہاں... شانزے ایک جھٹکے سے اپنی بازو چھڑائی تھی..
 کیا کیا ہے میں نے ؟؟ یوسف نے پریشان ہوتے پوچھا....
 شکل تو ایسے بنا رہے ہو جیسے کچھ جانتے نہیں... شانزے نے اپنا فون اس کے سمانے کرتے ہوے کہا.... جہاں اب سکرین پے ان کے جھگڑے کی وڈیو چل رہی تھی... یوسف نے اس کے ہاتھ سے فون لینا چاہ لیکن تبھی شانزے نے اس سے دھکا دیا...
کیا بدتمیزی ہے... یوسف چیخا تھا... ماما پاپا اور عثمان سب لان میں آگے تھے...
اوہ - تو اب ایک بدتمیز مجھے بتایتے گا کہ بدتمیزی کیا ہے... تم اس قدر گھٹیا اور چھوٹے انسان ہو میں نے سوچا نہیں تھا.... اپنی نام نہاد انا کی خاطر تم اتنے گرجاؤ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی.
منہ کھولنے سے پہلے سچ کیا ہے یہ جان لو... یوسف نے اس سے وارن کیا تھا..
سچ کیا ہے میں دیکھ چکی ہوں... تمھیں کیا لگتا ہے تم جو چاہے کرو کوئی تمھیں روکے گا نہیں... وہ اور لڑکیاں ہیں جو تمہارے ساتھ پھرنا اور اپنا نام جوڑنا چاہتی ہیں.. ان کے ساتھ پھر پھر کے تم لڑکیوں کی عزت تک کرنا بھول گئے ہو...
یہ سب کیا ہو رہا ہے عثمان پاپا نے فکرمندی سے پوچھا...
 پاپا، آپ رکیں میں دکتا ہوں. عثمان جو کچھ کچھ معاملا سمجھ رہا تھا پاپا کو تسلی دیتا آگے بڑھا...
شانزے کیوں سب کے سامنے اپنا تماشا بنا رہی ہو... اب کی بار یوسف کی آواز میں منت تھی...
 میں صرف اپنا نہیں بلکہ تمہارا بھی تماشا بنا رہی ہوں... اور ویسے بھی تمہیں تو اچھا لگتا ہے ناتماشا کرنا تو پھر آج اتنا پریشان کیوں ہو رہے ہو... لیکن یہ تمہارا قصور نہیں ہے... قصور تمہاری پرورش کا ہے...
بس.... یوسف خود پے قابو نہیں رکھ پایا اور اس کا ہاتھ اٹھ گیا... اس سے پہلے کہ شانزے کو یوسف کا اٹھا ہاتھ لگتا.عثمان نے اس کا ہاتھ پکڑ کے جھٹکا تھا. بر وقت وہ ان دونوں کے پاس نہ پہنچا ہوتا تو الله جانے کیا ہوتا... حسین صاحب اپنے بیٹے کا یہ روپ دیکھ کے دنگ رہ گئے تھے.. جب کہ ماما کا ہاتھ خوف کے مارے ابھی تک منہ پے تھا... اور شانزے ڈرکر دو قدم پیچھے ہٹ گئی تھی...
 تمھیں... تمھیں تو میں چھوڑوں گا نہیں.. سمجھتی کیا ہو خود کو.. وہ دوبارہ اس کی طرف بڑھا تھا.
 بس بہت ہو گیا تماشا...عثمان نے اس بازو سے پکڑ کے کھنچا...
حد کر دی ہے تم لوگوں نے چھوٹے بچوں کی طرح لڑنا یہی سکھا ہے تم لوگوں نے... اپنی لڑائی میں میں اپنے ماں باپ تک کو نہیں بخشا... عثمان نے ان دونوں کی طرف اشارہ کیا.
کوئی مجھے بتائے گا یہ سب کیا ہو رہا ہے..؟؟ حسین صاحب جو بہت دیر سے سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے. بلاآخر پوچھ بیٹهے.
 پاپا میرا خیال ہے اندر چل کے بات کرتے ہیں.. عثمان نے گارڈز کی وجہ سے کہا. لیکن پاپا نہ جانے شانزے کے چہرے میں کیا ڈھونڈھ نے میں مصروف تھے کہ عثمان کی بات کا جواب بھی نہ دے پاے. ٹھیک ہے نا پاپا..؟؟ اس نے دوبارہ پوچھا.
. ہاں !! ہاں ٹھیک ہے.. آیئں پاپا اندر چلتے ہیں... حسین صاحب نہ جانے کہاں گم تھے عثمان نے شاید ان کی کیفیت جان لی تھی تبھی اپنی بات دوہرائی تھی.
 نہیں میں ٹھیک ہوں... شانزے نے ہونٹوں پے زبان پھیری... بلکہ میرا خیال ہے میں چلتی ہوں.. شانزے نے شرمندگی اور گھبراتے ہوے کہا..
 بھائی میں نے کچھ کیا ہی نہیں ہے. میرا نہیں خیال کہ بات کرنے کی کوئی ضرورت ہے ... یوسف نے قدرے جھنجلاتے ہوے کہا..
 اچھا...؟؟؟؟ میرا خیال ہے کہ میں نے آپ دونوں سے رائے نہیں مانگی. عثمان نے اسے گھور کر دیکھا اوراندر کی طرف بڑھ گیا... شانزے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی پیروی کرتی گھر کے اندر داخل ہوئی... اس کا غصہ غائب ہو چکا تھا اور اس کی جگہ ندامت اور شرمندگی نے لے لی تھی. تبھی ملازمہ پانی لے کے آئ عثمان نے شانزے کی طرف پانی کا گلاس بڑھایا.
بیٹا پانی پی لیں آپ. اس کی آواز اتنی نرم تھی کہ شانزے کو رونا آنے لگا. خود پے قابو رکھنے کے لئے وہ ایک ہی گھونٹ میں پانی پی گئی تھی... سب اپنی اپنی جگہ خاموش تھے.. اور آخر کار اس خاموشی عثمان نے ہی توڑا تھا.
 شانزے مجھے بتائیں کیا بات ہے... شانزے ساری بات عثمان کو بتائی.. اور اسے وہ ویڈیو بھی دکھائی جو یونیورسٹی کے پیج پے اپلوڈ کی گئی تھی.. عثمان نے یوسف کی طرف دیکھا...
 بھائی پلیز ایسے نہ دیکھیں میرا یقین کریں یہ میں نے نہیں کیا...
 تو پھر کس نے کیا ہے یہ..؟؟؟ عثمان کی آواز میں نارا ضگی واضح تھی..
 بھائی میں نے سچ میں کچھ نہیں کیا ہے... ماما... پاپا... آپ لوگ بھی... وہ کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن حسین صاحب کو دیکھ کر چپ کر گیا...
 ان کی آنکھوں میں عجیب حیرانگی تھی... ماما کے چہرے پے ایک عجیب سی کشمکش تھی... وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اپنی صفائی میں کیا کہے... تبھی عثمان کی آواز آئی..
دیکھو شانزے میں شرمندہ ہوں اپنے بھائی کی حرکت پے. میرے بھائی کی وجہ سے جو تکلیف تمھیں یا تمہارے گھر والوں کو ہوئی اس کے لیے میں معافی مانگتا ہوں..
نہیں بھائی پلیز میں کچھ نہیں کیا ہے... یوسف اب کی بار سچ میں تڑپا تھا... لیکن جن نظروں سے عثمان نے اسے دیکھا تھا وہ اسے چپ کرا گیا تھا..
نہیں بھائی پلیز مجھے شرمندہ نہ کریں... شانزے کی جھکی ناظرین مزید جھک گیں تھی.. غلطی میری ہے مجھے اس طرح یہاں اکر آپ سب کو ایسے پریشان نہیں کرنا چاہیے تھا... میری وجہ سے آپ لوگوں کا جو دل دکھا میں اس کیلئے معذرت چاہتی ہوں....
نہیں بیٹا ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی.. جواب اس بار پاپا کی طرف سے آیا تھا.
میں چلتی ہوں اب.. وہ جانے کے لئے اٹھی تھی جب حسین صاحب نے اس کے سر پے ہاتھ رکھا کچھ دیر کے لئے شانزے دنگ رہ گئی تھی.. نہ جانے کیوں اس وقت اس سے اپنے بابا جانی شدت سے یاد آے تھے حسین صاحب میں سے کچھ ویسی ہی خوشبو آئ تھی...
میں چلتی ہوں آنٹی شانزے آگے ہو کر ملی اور دروازے کی طرف بڑھ گئی...
سنو بیٹا... اس سے پہلے کے وہ دروازے سے نکلتی پاپا کی آواز پے روک گئی...
 جی انکل...؟؟؟ شانزے نے روک کے پوچھا...
 تمہارے ماں باپ کا نام کیا ہے...؟؟؟ حسین کے اس سوال پے کمرے کھڑے تینوں  لوگ حیران تھے سواے شاہینہ بیگم کے...
جی میرے بابا کا نام حسان... اور می جانی کا نام حنا ہے.. شانزے نے کچھ جھجھکتے ہوے بولا...
 اوہ.. اچھا... شانزے کو ان کے انداز سے لگا جیسے ان کی تلاش ختم ہو گئی ہے.. پر کچھ پوچھنے کی ہمت نہیں کر پائی...
عثمان بیٹا ٹائم کافی ہو رہا ہے... آپ شانزے کو گھر چھوڑ آیئں...
جی پاپا... عثمان کہتا باہر نکل گیا تھا جبکہ شانزے اس کے پیچھے چل پڑی تھی حالانکہ دل ماننے کے لئے راضی نہ تھا پر اب مزید کوئی سین کریٹ نہیں کرنا چاہتی تھی...جبکہ یوسف کی حالت شانزے سے زیادہ خراب تھی... اس کے غصے کی جگہ اب نفرت نے لےلی تھی... جس کی لپٹیں اتنی زیادہ تھی کہ اس کی آنکھیں لال کر گیئں تھی...
 ...............................................
شانزے گھر میں داخل ہوئی تھی.. کہ تائی اماں کی آواز آئی۔
 آگئی پروفیسسرنی صاحبہ... پوچھ سکتی ہوں کس کے ناک میں دم کرنے گئی تھیں...؟ تائی اماں کی آوازیں پورے گھر میں گنج رہی تھی. شانزے نے ان کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور سیدھا اپنے کمرے میں آگئی...
کہاں گئیں تھیں تم...؟؟؟ اریزے نے پریشان ہوتے ہوے کہا..
 یوسف کے گھر، اس نے اتنے آرام سے کہا جیسے کہ رہی ہو.. برابر والے گھر...
 شانزے تم پاگل ہو گئی ہو ؟؟ کیا ضرورت تھی تمھیں اس کے گھر جانے کی.. کیا سوچتے ہوں گئے وہ لوگ...
اریزے پلیز ابھی نہیں... اس وقت کوئی نصیحت نہ کرنا... وہ منہ پے چادر ڈال کی لایٹ گئی تھی... جب کے اریزے نے اسے بےبسی سے دیکھا تھا..
. ...............................................
عثمان شانزے کو چھوڑ کر واپس آیا تو یوسف کو اپنا منتظر پایا..
 بھائی میری بات... اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتا عثمان اپنے کمرے میں چلے گئے تھے... جس کا مطلب تھا وہ اس سے بات نہیں کرنا چاہتا اور یہ بات یوسف کے لیے تکلیف دہ تھی کیوں کہ آج سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا. تبھی وہ اس کے پیچھے گیا.
 بھائی پلیز مجھے ایک بار اپنی بات مکمل کرنے کا موقع تو دیں...
کیا موقع یوسف... میں نے کہا تھا تمھیں... ہر قدم پے میں نے تمھی سمجھایا... عثمان بہت غصے میں تھا اس کی آواز جو کبھی کمرے سے باہر نہ گئی تھی آج گھر کی دیواریں تک ہلا گئی تھی...
 بھائی میں نے کچھ نہیں کیا پرامس.. میرا یقین کریں میں نے کچھ نہیں کیا نہ میں یہ جانتا ہوں کہ اس سب میں کس کا ہاتھ ہے.. یوسف کی شکل پے صاف لکھا تھا کہ وہ سچ بول رہا ہے.. تبھی عثمان نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا...
میں جانتا ہوں... پر تم کیسے ثابت کرو گئے اس سب میں تمہارا کوئی رول نہیں ہے... مجھ غصہ یہ نہیں کے تم لوگ لڑتے ہو...غصہ اس بات کا بھی نہیں کہ شانزے کو یہاں تک آنا پڑا... غصہ اس بات کا ہے کہ ایک لڑکی کا تماشا بنا جس میں میرے بھائی نام آرہا.... تم جانتے ہو کیسے کیسے کمنٹس تھے اس وڈیو پے... عثمان نے اپنا سر ہاتھوں میں پکڑا تھا...
آپ مجھے پے بھروسہ رکھیں میں ثابت کر دوں گا کہ میں نے کچھ نہیں کیا. میں سب ٹھیک کر دوں گا بھائی...
ٹھیک ہے... عثمان نے مختصر جواب دیا.
 یوسف نے اس کی طرف مسکرا کے دیکھا تھا لیکن عثمان کے چہرے پے اس سے کوئی بدلاؤ نظر نہیں آیا تھا. لیکن فلحال اس کے لیے اتنا بہت تھا کہ اس کا بھائی اس سے بات کر رہا تھا...
چلو کھانا کہتے ہیں عثمان کہتا آگے بڑھ گیا تھا...
 میرا وعدہ ہے بھائی میں خود کو بےقصور ثابت کر کے رہوں گا.... جو میں نے کیا نہیں میں اس کی سزا نہیں کاٹوں گا... اور مس شانزے حسان تمہارے دن تو ہوئے پورے .... تم نے میرے بھائی کو تکلیف دی ہے... میں تمہیں دوں گا... کل سورج شاید تمہاری زندگی میں آخری بار چمکے گا....
 اور وہ فون پے کل کے بارے میں کسی کو انسٹرکشنز دینے لگا..
.. ...............................................
جاری ہے

 "بدتمیز عشق"
قسط 3
ناول نگار:     "ردابہ نورین"
آج پھر اس کا موڈ خراب تھا. تبھی وہ سیدھا اپنے کمرے میں آگئی تھی. بستر پے لیٹی نا جانے کس دنیا میں گم تھی. جب اریزے اس کے پاس آئی۔
 تم ٹھیک ہو ؟ شانزے نے پیار سے اپنی بہن کو دیکھا اور بدلے میں صرف ہاں بول سکی. وہ اکثر ایسا ہی کرتی تھی جب کسی گہری سوچ میں ہوتی تو اس سے بولا نہیں جاتا تھا. لیکن اس کا چہرہ اس کے دل کی کفیت کی ہمیشہ چغلی ہی کرتا تھا یہی وجہ ہے اریزے ایک لمحے میں سمجھ گئی تھی کہ کوئی بات ضرور ہے. لیکن وہ کیا سوچ رہی ہے اس کا اندازہ لگانا نا ممکن کی حد تک مشکل تھا.
 اچھا.... تو آج پھر کچھ ہوا؟؟ اریزے اب اس کی چیزیں سمیٹ رہی تھی. اس یوسف نے کچھ کہا کیا.. ؟؟ کچھ تھا جو شانزے کی آنکھوں میں چمکا تھا شاید آنسو اریزے کو تو یہی لگا تھا.
 تم نہیں جانتی اس کو وہ نہایت ہی کوئی بدتمیز گھٹیا انسان ہے. جانتی ہو اگر مجھے ایک خون معاف ہو جائے تو میں اس یوسف کا کروں گی.
omg کتنی انتہا پسند ہو گئی ہو تم شانزے..
 میں انتہا پسند اور وہ کیا ؟؟ معصوم بٹیر....؟؟ وہ غصلے لہجے میں بولی. جبکہ اریزے کو اس کی بات پے ہنسی آگئی تھی.
 پتا ہے تمہارا انداز بلکل تائی اماں جیسے ہو گیا ہے.
 بس اب میں اتنی بھی بری نہیں ہوں شانزے نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے گھورا تھا.
بری بات بڑوں کو ایسے نہیں کہتے. اس کا انداز ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا. نہایت نرم جو سامنے والے کا دل موہ لے. ویسے اس نے کیا کیا ہے ؟ اریزے نے تجسس سے پوچھا.
اس نے جو کیا وہ چھوڑو اور جو میں اس کے ساتھ کرنے والی ہوں وہ پوچھو. شانزے منہ پے ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی. اس لیے اریزے نے خوفزدہ ہوتے پوچھا ۔
تم کیا کرنے والی ہو ؟؟؟
وہ میں نے ابھی سوچا نہیں. شانزے نے نہایت سکون سے جواب دیا.
 شانزے تم کیوں اس سے الجھتی ہو چھوڑ دو اس سے الجھنا وہ بڑے لوگ ہیں ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے. اریزے نے بغور شانزے کو دیکھا وہ جانتی تھی کہ ضرور وہ کوئی پلان بنا چکی ہے اور وہ یہ بھی جانتی تھی کے اس وقت اسے ٹھنڈا نا کیا گیا تو وہ اندر ہی اندرکوئی نیا علان جنگ کر دے گی جس کو روکنا مشکل ہو جائے گا. مگر وہ شانزے ہی کہاں جو آسانی سے دل کا حال بول دے.
 ..............................................
اوے.. چور... شانزے فریج میں میں سے آئسکریم لے کے دبے پاؤں کمرے کی طرف بڑھی ہی تھی. کہ پیچھے سے آواز آئی...
کیا ہے وجی بھائی.. دس دفعہ بولا ہے نفرت ہے مجھے اس لفظ سے...
 اور تمھیں بھی دس دفعہ بولا ہے نفرت ہے مجھے تمہارے اس طرح چوری سے کھانے پینے کی عادت سے... تمہارا اپنا گھر جب چاہے جہاں چاہے کھاؤ...
آپ نہیں جانتے ایسے جو مزہ ہے وہ ویسے کہاں اس نے منہ میں آئسکریم ڈالتے ہوے کہا...
 اس لئے کہا چور.....
 وجی بھائی، اس نے رونے جیسا منہ بنایا....
اچھا چور کو چور نہ بولوں تو اور کیا بولوں...؟؟ وجی نے اس کے ہاتھ آئسکریم کا باؤل لیتے ہوے بولا...
فور یور کاینڈ انفارمیشن اپنے گھر میں.. اپنے فریج سے... آئسکریم کھانا چوری نہیں ہوتا... شانزے نے باؤل واپس لیا تھا...
 ناؤ... فور یور کاینڈ انفارمیشن... اپنے گھر میں.. اپنے فریج سے... سے کسی اور کی لائی آئسکریم... اسے بغیر بتائے کھانا چوری ہوتا... وجی نے اس کے ہاتھ سے باؤل لینا چاہا...
 اچھا ٹھیک ہے... آدھی آپ کی اورآدھی میری ٹھیک ہے...؟؟؟؟ شانزے آنکھوں سے اشارہ کرتے ہاتھ آگے کیا....
اوکے ڈن.. وجی نے اس کی بات مانتے اس کا ہاتھ تھاما... وہ دونوں آئسکریم کھا رہے تھے تبھی عنیقہ آگئی...
اوہو... تو یہ تم ہو چور کہیں کی.... شرم نہیں آتی ایسے کسی کی چیز چراتے...؟؟؟
 شٹ اپ عنیقہ بکواس بند کرو میں چور نہیں ہوں.. نہ میں نے چرایا ہے...
 اچھا تو پھر یہ کیا ہے...؟؟ اس نے آئسکریم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کھا...
یہ... یہ تو میں نے فریج سے لیا ہے....نہایت معصومیت سے کہا گیا تھا...
 تمہاری ہمت کیسے ہوئی میری چیز کو بغیر مجھ سے پوچھے ہاتھ لگانے کی... عنیقہ بھی شانزے سے کم نہ تھی...
 اوہ.. سوری وہ... کیا ہے کے اس پے تمہارا نام نہیں لکھا تھا... اس نے باؤل کو گول گھما کر دکھایا...
شٹ اپ... یو... اس نے شانزے کو گالی دی تھی.. اور یہ کوئی پہلی بار ہوا تھا ویسے وہ گالی نہیں دیتی تھی پر... شانزے کو گالی دینا اولین فرض سمجھتی تھی. جبکہ جواباً شانزے نے ایک زور دار تھپڑ اس کو رسید کیا تھا... اب وہ پاگلوں کی طرح چیخ رہی تھی..
 ماما.... ماما... جلدی آیئں.... دیکھیں اس چور نے کیا کیا ہے....
 چپ ہو جاؤ عینی.... کیا ہو گیا تم دونوں کو کیوں لڑ رہی ہو... میں لایا تھا یہ باؤل... وجی نے بات ختم کرنے کی کوشش کی...
بس کریں بھائی آپ کو تو دوسروں کی نخرے اٹھانے سے فرصت ملے تو آپ کو بہن نظر آئے...
 ارے کیا ہو گیا کیا ہنگامہ کیا ہوا ہے... تائی اماں نے ہانپتے ہوے پوچھا... ساتھ میں می جانی بھی تھیں... اماں اس نے ایک تو میری آئسکریم کھائی اوپر سے مجھ پے ہاتھ اٹھایا....
ارے غضب خدا کا اب یہ دن بھی آنا تھا... ہمارے گھر میں رہتی ہے ہمارا کھاتی ہے... اور ہمیں ہی مارتی ہے...
 می جانی نے شانزے کا بازو کھنچا ۔
کیوں شانزے کیوں مارا تم نے بہن کو....
 یہ چور میری بہن نہیں ہے عینی نے ماں کو دیکھتے ہوے کہا...
می جان اس نے مجھےگالی...
بس چپ شانزے تنگ آگئی ہوں میں تم سے... کبھی تو جھگڑا مت کیا کرو...
ارے لو کیسے نہ کرے جھگڑا... یہ تو اس کے خون میں شامل ہے... تائی امی کی زبان نے شعلے برساے تھے..
می جان نے اسے ملامتی نظروں سے دیکھا تھا.
 ماما پلیز.. وجی نے ماں کو روکنے کی کوشش کی.. میں نے کیا غلط کہا..؟؟؟
 نجانے کن چوروں کا خون ہے.. ہمارے تو خاندان میں کسی کو یہ عادت نہ تھی...
 ماما بس کریں نیچے چلیں آپ، وجی اپنی ماں بہن کو کہہ کر نیچے چلا گیا تھا...
چور... لیکن جاتے جاتے عینی نے چنگاری پھر سے بھڑکا دی تھی... ...............................................
مغرب ہونے والی تھی وہ بہت دیر سے چھت پے جانے والی سیڑیوں پے بیٹھی تھی. بچپن سے لے کہ آج تک یہ اس کی مخصوص جگہ تھی. وہ جب بھی پریشان یا اداس ہوتی تو یہاں اکر بیٹھ جاتی. شام کافی گہری ہوتی جا رہی تھی. سورج کی پیلی روشنی رات کی سیاہی کو نگلنے میں ناکام ہو رہی تھی. پرندے اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ رہے تھے.اور اپنی سوچوں میں گم ہوتی جا رہی تھی . وہ نہیں جانتی تھی کہ کب اس گھر میں آئی، جانتی تھی تو صرف اتنا کہ جب ہوش سنبھالا تو خود کو اس گھر میں پایا... می جان.. پاپا... دادی اماں.. تائی اماں.. تایا ابو.. وجی بھائی... عنیقہ اور اریزے کے ساتھ. سب نے اس پے بھر پور محبتیں نچھاور کیں. سوائے تایا اور تائی کے..
 دادی جان مضبوط اور روب دار شخصیت کی ملک تھیں. دادا جان کے بعد بھی ان کی حکمرانی یا روعب و دبدبے میں کوئی فرق نہیں پڑا بلکے شخصیت میں پہلے سے زیادہ نکھار آگیا تھا. انہوں نے گھر، کاروبار، اپنے دونوں بیٹوں رضوان محمود اور حسسان محمود اور اپنی اکلوتی بیٹی روبینہ کی زمیداری پوری ایمانداری سے اٹھائی. شادیوں ک فرائض بھی انہوں نے بڑی خوش اسلوبی اور سمجھداری سے ادا کے. اپنے بیٹوں کے لیے اپنے بھائی کی دونوں بیٹیاں لی تا کے اپنے گھر کو خاندانی جھگڑوں سے بچا سکیں. روبینہ کی شادی بھی ان ہوں نے خاندان میں کی تھی پر شادی کے بعد وہ اپنے شوہراور اکلوتے بیٹے کے ساتھ لندن چلی گیں. شروع میں وہ ہر سال آتی تھیں پھر آہستہ آہستہ یہ فاصلہ بڑھتا رہا. لیکن دادی امی کے لیے یہی کافی تھا کہ ان کے تینوں بچے اپنے زندگی میں خوش و خرّم تھے. پر خدا جانے ان کے گھر کو کس کی نظر لگ گئی. جب اچانک ایک دن حسان کہیں سے ننی سی گڑیا اٹھا لائے اور لا کے حنا کی گود میں ڈال دی جسے انہوں نے بنا کسی نوک جھونک کے سینے سے لگا لیا. ساری دنیا کو حیرت تھی حالانکہ حسان کو خود بھی الله نے بیٹی کی نعمت سے نوازا تھا. تو پھر کیوں وہ کسی بچی کو گھر لے آئے یہ بات دنیا والوں کو ہضم نہ ہوتی تھی کچھ لوگ تو یہاں تک کہتے کہ یہ حسان کا ہی کوئی گناہ ہے. جو باتیں لوگ گھر سے باہر کر رہے تھے وہی باتیں گھر میں بھی ہو رہی تھیں. تائی اماں اور تایا ابو کو بھی یہی لگتا تھا کہ یہ بچی حسان کی کسی حماقت کی نشانی ہے. اس لیے ان کو یہ بات بالکل نہیں منظور تھی کوئی سڑک پے پڑی بچی ان کے گھر میں ان کے بچوں کے ساتھ پل کر ان کے بچوں کا حق کھائے. جبکہ حسان نہ صرف اسے گھر میں رکھنے پے بضد تھے بلکہ اس سے اپنا نام بھی دینا چاہتے وگرنہ دوسری صورت وہ اس گھر میں میں نہیں رہیں گئے. تایا ابو نے اپنی بیوی جو کے حنا کی بڑی بہن بھی تھیں ان سے بات کی تا کہ وہ سڑک پے پڑی بچی کو وہیں پہنچا دیں. بلکہ باتوں باتوں میں تائی امی نے اپنے دل کی بات بھی بہن سے کہ ڈالی کہ یہ بچی کہیں حسسان کی تو نہیں تبھی وہ اسے اپنے سے دور کرنے پے راضی نہیں ہے. لیکن حنا نے اس معاملے میں صرف اپنے شوہر کا ساتھ دیا. اور یہ کہہ کر کے انہی اپنے شوہر پے پورا بھروسہ ہے پوری دنیا کا منہ بند کرا دیا. لیکن وہ ایک بات بھول گئی تھیں کہ شکست اکثر اپنوں کے ہاتھوں ہی ہوتی ہے. دادی جن کے دباؤ میں آکر اگرچہ بچی کو گھر میں رہنے کی اجازت مل تھی پر تایا ابو اور تائی امی نے اسے دیکھنا تک گوارا نہیں کیا. لیکن باقی سب نے اسے کھلے دل سے تسلیم کیا تھا. دادی جان نے بڑے پیار سے اسے شانزے نام دیا تھا. شانزے بچپن میں بڑی خاموش طبیعت اور فرمابردار بچی تھی ہر کہنا مانا اس پے فرض تھا. جب کے عنیقہ اس کی نسبت کافی جھگڑالو اور طوفان بلاخیز تھی. یہ سب تایا اور تائی امی کے بےجا لاڈ کا نتیجہ تھا. اور کیوں نہ ہوتا تایا جان سخی اتنے کے اپنی ثقافت پے آیئں ہاتم تائی کو بھی مات دے دیں. ان کی عنایتوں اور کرام نوازیوں سے ہر شخص اپنا حصہ پورا پورا وصول کرتا تھا. ان کے خزانے میں اگر کسی کے لیے کمی آتی تو اس ننھی جان شانزے کے لیے جو انہیں ایک آنکھ نہ بھاتی تھی. دستے شفقت دوئ کی بات انہوں نے کبھی اس سے دو پل روک کر دیکھنا بھی پسند نہیں کیا تھا. ان کے خیال میں وہ گندگی کا ڈھیر تھی جس سے جینے کا کوئی حق نہیں تھا اور وہ بڑے استحقام سے ان کا سر ںیم چرا بیٹھی تھی. ماں باپ کی آنکھوں سے جھلکتی نفرت اور حکارت عنیقہ نے وراثت میں لی تھی یہی وجہ تھی کے وہ بھی شانزے کو پسند نہیں کرتی تھی. لیکن وجی تو اس پے جان چھڑکتا تھا اس ک لیے تو وہ گڑیا تھی ہنسنے رونے والی. شرارتیں کرنے والی... شرواعات میں حالات اتنے خراب نہ تھے اگر چہ تایا ابو اور تائی اماں کچھ خاص پسند نہ کرتے تھے پر دادی جان کی وجہ وہ اس بات کا کھلم کھلا اظہار بھی نہیں کر سکتے تھے لیکن دادی جان کے انتقال کے بعد تو جیسے ہر حد پار ہو گئی تھی. وہ تایا اور تائی اور عنیقہ کی پرچھایوں سے بھی دور رہتی تھی پر شعور کی آگاہی نے اس کے ڈروخوف کو مقابلے کی راہ دکھا دی تھی اور یہی وجہ تھی کے شانزے کی زبان اور دل میں کڑواہٹ بھر گئی تھی جسے می جانی.. بابا اور اریزے مل کہ بھی ختم نہیں کر پا رہے تھے. نہ جانے کتنی دیر وہ اس طرح ہی ماضی کی ستمزرفیوں میں گم رہتی جب اریزے نے اسے آواز دی.
 شانی... شانی... شانی.... کون سا چللہ کاٹ رہی ہو یار... شانی...
کیا ہے.. شانزے نے کچھ چڑتے ہوے نیچے جھانک کر کہا.. سخت چڑ تھی اسے نام بگاڑنے سے پر اریزے جب بھی موڈ میں ہوتی تو وہ ایسے ہی اس کا نام بگاڑتی تھی.
 جلدی نیچے آؤ تمہیں کچھ دکھانا ہے...
 اوہو - آرہی ہوں ذرا تو صبر کرو ہمیشہ ایسے چلاتی ہو جیسے قارون کا خزانہ مل گیا ہو.. پر ملتی کیا ہے تائی امی کی ڈانٹ... شانزے نے منہ بناتے کہا. پر اریزے کو دیکھ کر وہ ٹھٹک گئی وہ کچھ گھبرائی ہوئی لگ رہی تھی تمھیں کیا ہوا ایسے منہ کیوں بنایا جیسے اس بدتمیز یوسف کو دیکھ لیا ہو.
اریزے نے اس کے سامنے موبائل کیا...
 تو کیا کروں اس کا دس بار دیکھا ہے. شانزے نے چڑتے ہوا کہا،
 تم چپ کرو گی دو منٹ میں تمہیں موبائل نہیں یہ وڈیو دکھا رہی ہوں. اور ویڈیو دیکھ کے شانزے کو لگا کا اس کی نسوں میں خون کی جگہ غصہ ڈور رہا ہے وہ بھی ١٠٠٠ کلو میٹر پر سیکنڈ کی سپیڈ سے. شانزے نے اپنا پرس اٹھایا اور باہر کی طرف چلدی جب کے اریزے اسے آوازیں دیتی رہ گئی. ...............................................
یوسف کافی دیر سے XBOX پے IGN کھیلنے میں مصروف تھا لیکن ہر بار ایک خاص پوانٹ پے جا کے وہ اپنی گاڑی الٹا رہا تھا۔ عثمان جو کافی دیر سے یہ سب نوٹ کر رہا تھا بلاآخر پوچھنے لگا۔
 کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ۔ ...
 کیا مسئلہ بھائی۔؟ یوسف نے سکرین سے نظر ہٹاے بغیر جواب دیا۔
یہ میں نے سوال کیا تھا شاید.... عثمان نے سیدھے ہوتے پوچھا۔
 ہاں بھائی.... پر کیوں کیا تھا۔ تبھی یوسف نے ایک بار پھر کار الٹا دی تھی۔
 سکرین پے نظر آنے والی گاڑی اب اگ کی نظرتھی۔ سی..... اس پوچھا..... عثمان نے سکرین کی طرف اشارہ کیا۔
کچھ نہں بھائی بس ایسے ہی موڈ خراب ہے۔ یوسف برابر میں بیٹھتے بولا۔
کیوں موڈ خراب ہے میرے شیر کا ؟؟؟
 او ہو بھائی آج کے بعد نہ مجھے یہ شیر نہ کہنا۔ یوسف کا انداز چڑ جانے والا تھا۔
 کیوں یار ایسا کیا ہوا ہے ؟ عثمان نے نہ سمجھنے والے انداز میں پوچھا اصل میں وہ کنفیوز تھا کیونکہ وہ ہمیشہ سے یوسف کو ایسے ہی بلانے کا عادی تھا اور اس سے پہلے یوسف نے کبھی منع نہیں کیا تھا۔
کیوں یار ہوا کیا ہے عثمان نے پھر سے پوچھا اتنا تو وہ اندازہ کر چکا تھا کہ کوئی بات ضرور ہے۔
 بھائی کتا ہو یا شیر کیا فرق پڑتا ہے رہے گا تو جانور ہی نا۔۔۔۔ ہا ہا ہا ہا۔۔۔ یوسف نے اتنی معصومیت سے پوچھا کہ عثمان اپنی ہنسی کو روک نہ پایا۔ بھائی.... یوسف نے منہ بنایا۔
 تو اور کیا کرو اچھا ویسے یہ بتایا کس نے ہے تمھیں مرچوں والی نے ؟ یوسف کی خاموشی نے اس کا جواب دے دیا تھا۔ یار پہلے تو تم یہ بتاؤ کہ تم دونوں پڑھنے جاتے ہو یا لڑنے ؟ دیکھو بیٹا میرا خیال ہے اب تم دونوں کو صلح کر لینی چاہیے اگر ایسے لڑتے رہے تو محبت ہو جائے گی تم لوگوں کو......
واٹ ؟ محبت وہ بھی اس شانزے حسان سے ؟ نا ممکن... جانتے ہیں وہ دنیا کی آخری لڑکی بھی ہوئی تو میں اس سے شادی کرنے سے بہترمیں مرنا پسند کروں گا. جانتے ہیں جس لڑکی سے مجھے پیار ہو گا ناوہ اس دنیا کی سب سے حسین لڑکی ہو گی۔ اور جب وہ میری طرف دیکھے گی تو ہوا میں خوشبو پھیل جائے گی۔ جب وہ بولے گی تو آسمان سے بارش برسے گی۔ جب وہ ہنسے کی تو ہوا میں پھول بکھر جائیں گئے. آس پاس بیٹھے لوگ غائب ہو جائیں گے....... اورپتا نہیں کیا کیا ہو گا.... لیکن سب بہت بہت حسین ہو گا... اور شانزے... اس کو دیکھ کر جانتے ہیں کیسا لگتا ؟؟ جیسے ہم دونوں میدان جنگ میں ہوں فل اصلحے سے لیس۔ جیسے ہر طرف گولیاں چل رہی ہوں۔ بم بلاسٹ کا دهواں ہر طرف پھیلا هو۔ آس پاس کی پوری دنیا غائب ہو۔اور اگر کوئی ہو تو صرف میں اور وہ ایک دوسرے پے پسٹل تانے۔ جس نے پہلے گولی چلائی وہ جیت گیا۔۔۔ وہ اپنی دھن میں مگن بول رہا تھا جب عثمان کی آواز نے اس سے خیالی دنیا سے باہر نکالا۔ دیکھو یوسف تم میرے چھوٹے بھائی اور اس لہٰذ سے تمہیں سمجھانا میرا فرض ہے.... دیکھو بیٹا یہ یاد رکھنا ہنسی مذاق مستی اپنی جگہ ضرور کرو لیکن یہ خیال رکھو کے اس سے کسی کی دل آزاری نہ ہو اور نہ اپنے دل میں کسی کے لیے نفرت کے جذبات رکھو یہ نفرت ہی ہے جو اچھے خاصے انسان کو جانور بنا دیتی ہے. یہ نفرت ہی جو آپ کے شعور کو مات دے کر انتہائی گہرائیوں میں پہنچا دیتی ہے. اور جب تک آپ اس سب سے باہر نکلتے ہو سب ختم ہو جاتا ہے۔
 بھائی آپ اتنا سیریس کیوں ہو رہے ہیں....؟؟؟؟ وعدہ...!!! میں ایسا کچھ نہیں کروں گا جو میرے لیے آپ کے لیے یا ہماری فیملی کے لیے شرمندگی کا بائث بنے...
 ڈیٹس لائک مائی گڈ بوائے.... ویسے میں ایک بات سوچ رہا تھا. عثمان نے اس کے سر میں ہاتھ پھیرتے کہا...
کیا بھائی... یوسف نے اس کی گود میں سر رکھتے پوچھا تھا. یہی کہ دنیا تو تمھیں شانزے بھی بھلوا دیتی ہے۔ نہیں ؟ عثمان نے اپنے بھائی کے چہرے پے بکھرے رنگ بڑے غور سے دیکھے تھے۔
 بھائی آپ کو۔ کیا ہو گیا ہے ؟؟ کیوں بار بار اس چڑیل کا نام لیتے ہیں...
بری بات ابھی کیا سمجھایا ہے تمہیں...
او ہو بھائی... اتنا تو چلتا ہے... آپ نہیں جانتے اسے.... ایک چھوٹا سا مزاق کیا تھا... سوری بھی کیا اس کے لیے لیکن نہیں...عجیب بد دماغ لڑکی ہے جو منہ میں آتا ہے بولتی جاتی ہے.
 دیکھو کسی لڑکی کے بارے میں ایسے بات نہیں کرتے.اور وہ بھی تب جب وہ میری چھوٹی سی کیوٹ سی بھابھی ہو۔عثمان نے معصوم منہ بنا کے بولا اور تبھی پاس پڑا تکیہ یوسف نے کھنچ کے اسے مارا لیکن عثمان نے بڑے آرام سے اسے کیچ کر لیا تھا۔ اب دونوں چھوٹے بچوں کی طرح بھاگ رہے تھے۔ عثمان بھاگتا ہوا ماما کے پیچھے چلا گیا. م
اما آپ ہٹ جائیں آج آپ بیچ میں نہیں آیئں گی. یوسف نے اس پکڑنے کی ناکام کوشش کرتے ہوے کہا.
 ہوا کیا ہے یوسف بتاؤ تو ماما جو اپ تک پوری صورتحال سے ناواقف تھیں پوچھنے لگی.
 ارے بیگم یہ دونو ں بھائیوں کا معاملا ہے میرا خیال ہے اپ بیچ میں نا آیئں. حسین صاحب جو اخبار میں گم تھے. اب اخبار رکھتے ہوے بولے.
 تھنک یو پاپا یوسف نے باپ کو تشکر نگاہؤں سے دیکھا جبکہ ماما اب تک عثمان کے سامنے کھڑی تھیں.
ماما آپ ہمیشہ بھائی کی سائیڈ لیتی ہیں. اس گھر میں کوئی نہیں جو مجھ سے پیار کرتا ہو. وہ کسی روٹھے بچے کی طرح زمین پے بیٹھ گیا تھا. عثمان نے پیار سے اس کے گلے میں بازو ڈالی.
 یہ تو ہے، کیوں کے ہم تمہیں ڈسٹبیں سے جو لائے تھے.
پاپا دیکھیں نا یوسف نے رونے والا منہ بنایا. اور عثمان نے بڑے پیار سے اس کی پیشانی چومی اور ان دونوں کا قہقہ فضا میں گنجا. جس میں ان کے ماما پاپا نے بھی بھر پور ساتھ دیا تھا. تبھی باہر سے شور کی آواز آئ، یوسف کو آواز جانی پہچانی لگی وہ باہر کی طرف لپکا۔
میڈم رک جائیں آپ ایسے اندر نہیں جا سکتی۔ گارڈ نے وارن کیا۔
 کیوں اندر کیا درندے رہتے ہیں جو مجھے کھا جائیں گے ؟ اس نے اپنی شعلا برساتی نظروں سے گارڈ کو دیکھا۔
 دیکھئے میڈم صاحب ایسے ہر کسی سے نہیں ملتے۔اگر آپ نے مجبور کیا تو ہمیں گھر سے باہر نکالنا پڑے گا۔ اچھا دیکھتی ہوں کون روکتا ہے وہ کہتی آگے بڑھی تھی کہ یوسف کو دیکھ کےرک گئی ۔جب کے یوسف شانزے کو دیکھ کے حیران پریشان تھا۔ اتنا تو وہ جانتا تھا کہ وہ ان لڑکیوں میں سے نہیں جو ڈر جائیں پر وہ اس کے گھر پہنچ جاے گی یہ بات اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھی۔ پیروں سے زمین کا نکلنا کیا ہوتا ہے آج اس نے محسوس کیا. شانزے تیزی سے اس کی طرف آرہی تھی.
تمہارا دماغ ٹھیک ہے تم یہاں کیا کر رہی ہو ؟؟ یوسف اس پے چلایا تھا.
میرا دماغ ٹھیک ہے اور تمہارا میں کرنے آئی ہوں.. شانزے نے برابر سے جواب دیا اور بیگ میں کچھ تلاش نے لگی...
 دیکھو یہ میرا گھر ہے، یہاں کوئی سین کریٹ مت کرو. یوسف نے اس کی بازو پکڑ کے کھنچا..
 اچھا اور تم... اور تم جو مرضی کرتے پھر ہاں... شانزے ایک جھٹکے سے اپنی بازو چھڑائی تھی..
 کیا کیا ہے میں نے ؟؟ یوسف نے پریشان ہوتے پوچھا....
 شکل تو ایسے بنا رہے ہو جیسے کچھ جانتے نہیں... شانزے نے اپنا فون اس کے سمانے کرتے ہوے کہا.... جہاں اب سکرین پے ان کے جھگڑے کی وڈیو چل رہی تھی... یوسف نے اس کے ہاتھ سے فون لینا چاہ لیکن تبھی شانزے نے اس سے دھکا دیا...
کیا بدتمیزی ہے... یوسف چیخا تھا... ماما پاپا اور عثمان سب لان میں آگے تھے...
اوہ - تو اب ایک بدتمیز مجھے بتایتے گا کہ بدتمیزی کیا ہے... تم اس قدر گھٹیا اور چھوٹے انسان ہو میں نے سوچا نہیں تھا.... اپنی نام نہاد انا کی خاطر تم اتنے گرجاؤ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی.
منہ کھولنے سے پہلے سچ کیا ہے یہ جان لو... یوسف نے اس سے وارن کیا تھا..
سچ کیا ہے میں دیکھ چکی ہوں... تمھیں کیا لگتا ہے تم جو چاہے کرو کوئی تمھیں روکے گا نہیں... وہ اور لڑکیاں ہیں جو تمہارے ساتھ پھرنا اور اپنا نام جوڑنا چاہتی ہیں.. ان کے ساتھ پھر پھر کے تم لڑکیوں کی عزت تک کرنا بھول گئے ہو...
یہ سب کیا ہو رہا ہے عثمان پاپا نے فکرمندی سے پوچھا...
 پاپا، آپ رکیں میں دکتا ہوں. عثمان جو کچھ کچھ معاملا سمجھ رہا تھا پاپا کو تسلی دیتا آگے بڑھا...
شانزے کیوں سب کے سامنے اپنا تماشا بنا رہی ہو... اب کی بار یوسف کی آواز میں منت تھی...
 میں صرف اپنا نہیں بلکہ تمہارا بھی تماشا بنا رہی ہوں... اور ویسے بھی تمہیں تو اچھا لگتا ہے ناتماشا کرنا تو پھر آج اتنا پریشان کیوں ہو رہے ہو... لیکن یہ تمہارا قصور نہیں ہے... قصور تمہاری پرورش کا ہے...
بس.... یوسف خود پے قابو نہیں رکھ پایا اور اس کا ہاتھ اٹھ گیا... اس سے پہلے کہ شانزے کو یوسف کا اٹھا ہاتھ لگتا.عثمان نے اس کا ہاتھ پکڑ کے جھٹکا تھا. بر وقت وہ ان دونوں کے پاس نہ پہنچا ہوتا تو الله جانے کیا ہوتا... حسین صاحب اپنے بیٹے کا یہ روپ دیکھ کے دنگ رہ گئے تھے.. جب کہ ماما کا ہاتھ خوف کے مارے ابھی تک منہ پے تھا... اور شانزے ڈرکر دو قدم پیچھے ہٹ گئی تھی...
 تمھیں... تمھیں تو میں چھوڑوں گا نہیں.. سمجھتی کیا ہو خود کو.. وہ دوبارہ اس کی طرف بڑھا تھا.
 بس بہت ہو گیا تماشا...عثمان نے اس بازو سے پکڑ کے کھنچا...
حد کر دی ہے تم لوگوں نے چھوٹے بچوں کی طرح لڑنا یہی سکھا ہے تم لوگوں نے... اپنی لڑائی میں میں اپنے ماں باپ تک کو نہیں بخشا... عثمان نے ان دونوں کی طرف اشارہ کیا.
کوئی مجھے بتائے گا یہ سب کیا ہو رہا ہے..؟؟ حسین صاحب جو بہت دیر سے سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے. بلاآخر پوچھ بیٹهے.
 پاپا میرا خیال ہے اندر چل کے بات کرتے ہیں.. عثمان نے گارڈز کی وجہ سے کہا. لیکن پاپا نہ جانے شانزے کے چہرے میں کیا ڈھونڈھ نے میں مصروف تھے کہ عثمان کی بات کا جواب بھی نہ دے پاے. ٹھیک ہے نا پاپا..؟؟ اس نے دوبارہ پوچھا.
. ہاں !! ہاں ٹھیک ہے.. آیئں پاپا اندر چلتے ہیں... حسین صاحب نہ جانے کہاں گم تھے عثمان نے شاید ان کی کیفیت جان لی تھی تبھی اپنی بات دوہرائی تھی.
 نہیں میں ٹھیک ہوں... شانزے نے ہونٹوں پے زبان پھیری... بلکہ میرا خیال ہے میں چلتی ہوں.. شانزے نے شرمندگی اور گھبراتے ہوے کہا..
 بھائی میں نے کچھ کیا ہی نہیں ہے. میرا نہیں خیال کہ بات کرنے کی کوئی ضرورت ہے ... یوسف نے قدرے جھنجلاتے ہوے کہا..
 اچھا...؟؟؟؟ میرا خیال ہے کہ میں نے آپ دونوں سے رائے نہیں مانگی. عثمان نے اسے گھور کر دیکھا اوراندر کی طرف بڑھ گیا... شانزے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی پیروی کرتی گھر کے اندر داخل ہوئی... اس کا غصہ غائب ہو چکا تھا اور اس کی جگہ ندامت اور شرمندگی نے لے لی تھی. تبھی ملازمہ پانی لے کے آئ عثمان نے شانزے کی طرف پانی کا گلاس بڑھایا.
بیٹا پانی پی لیں آپ. اس کی آواز اتنی نرم تھی کہ شانزے کو رونا آنے لگا. خود پے قابو رکھنے کے لئے وہ ایک ہی گھونٹ میں پانی پی گئی تھی... سب اپنی اپنی جگہ خاموش تھے.. اور آخر کار اس خاموشی عثمان نے ہی توڑا تھا.
 شانزے مجھے بتائیں کیا بات ہے... شانزے ساری بات عثمان کو بتائی.. اور اسے وہ ویڈیو بھی دکھائی جو یونیورسٹی کے پیج پے اپلوڈ کی گئی تھی.. عثمان نے یوسف کی طرف دیکھا...
 بھائی پلیز ایسے نہ دیکھیں میرا یقین کریں یہ میں نے نہیں کیا...
 تو پھر کس نے کیا ہے یہ..؟؟؟ عثمان کی آواز میں نارا ضگی واضح تھی..
 بھائی میں نے سچ میں کچھ نہیں کیا ہے... ماما... پاپا... آپ لوگ بھی... وہ کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن حسین صاحب کو دیکھ کر چپ کر گیا...
 ان کی آنکھوں میں عجیب حیرانگی تھی... ماما کے چہرے پے ایک عجیب سی کشمکش تھی... وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اپنی صفائی میں کیا کہے... تبھی عثمان کی آواز آئی..
دیکھو شانزے میں شرمندہ ہوں اپنے بھائی کی حرکت پے. میرے بھائی کی وجہ سے جو تکلیف تمھیں یا تمہارے گھر والوں کو ہوئی اس کے لیے میں معافی مانگتا ہوں..
نہیں بھائی پلیز میں کچھ نہیں کیا ہے... یوسف اب کی بار سچ میں تڑپا تھا... لیکن جن نظروں سے عثمان نے اسے دیکھا تھا وہ اسے چپ کرا گیا تھا..
نہیں بھائی پلیز مجھے شرمندہ نہ کریں... شانزے کی جھکی ناظرین مزید جھک گیں تھی.. غلطی میری ہے مجھے اس طرح یہاں اکر آپ سب کو ایسے پریشان نہیں کرنا چاہیے تھا... میری وجہ سے آپ لوگوں کا جو دل دکھا میں اس کیلئے معذرت چاہتی ہوں....
نہیں بیٹا ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی.. جواب اس بار پاپا کی طرف سے آیا تھا.
میں چلتی ہوں اب.. وہ جانے کے لئے اٹھی تھی جب حسین صاحب نے اس کے سر پے ہاتھ رکھا کچھ دیر کے لئے شانزے دنگ رہ گئی تھی.. نہ جانے کیوں اس وقت اس سے اپنے بابا جانی شدت سے یاد آے تھے حسین صاحب میں سے کچھ ویسی ہی خوشبو آئ تھی...
میں چلتی ہوں آنٹی شانزے آگے ہو کر ملی اور دروازے کی طرف بڑھ گئی...
سنو بیٹا... اس سے پہلے کے وہ دروازے سے نکلتی پاپا کی آواز پے روک گئی...
 جی انکل...؟؟؟ شانزے نے روک کے پوچھا...
 تمہارے ماں باپ کا نام کیا ہے...؟؟؟ حسین کے اس سوال پے کمرے کھڑے تینوں  لوگ حیران تھے سواے شاہینہ بیگم کے...
جی میرے بابا کا نام حسان... اور می جانی کا نام حنا ہے.. شانزے نے کچھ جھجھکتے ہوے بولا...
 اوہ.. اچھا... شانزے کو ان کے انداز سے لگا جیسے ان کی تلاش ختم ہو گئی ہے.. پر کچھ پوچھنے کی ہمت نہیں کر پائی...
عثمان بیٹا ٹائم کافی ہو رہا ہے... آپ شانزے کو گھر چھوڑ آیئں...
جی پاپا... عثمان کہتا باہر نکل گیا تھا جبکہ شانزے اس کے پیچھے چل پڑی تھی حالانکہ دل ماننے کے لئے راضی نہ تھا پر اب مزید کوئی سین کریٹ نہیں کرنا چاہتی تھی...جبکہ یوسف کی حالت شانزے سے زیادہ خراب تھی... اس کے غصے کی جگہ اب نفرت نے لےلی تھی... جس کی لپٹیں اتنی زیادہ تھی کہ اس کی آنکھیں لال کر گیئں تھی...
 ...............................................
شانزے گھر میں داخل ہوئی تھی.. کہ تائی اماں کی آواز آئی۔
 آگئی پروفیسسرنی صاحبہ... پوچھ سکتی ہوں کس کے ناک میں دم کرنے گئی تھیں...؟ تائی اماں کی آوازیں پورے گھر میں گنج رہی تھی. شانزے نے ان کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور سیدھا اپنے کمرے میں آگئی...
کہاں گئیں تھیں تم...؟؟؟ اریزے نے پریشان ہوتے ہوے کہا..
 یوسف کے گھر، اس نے اتنے آرام سے کہا جیسے کہ رہی ہو.. برابر والے گھر...
 شانزے تم پاگل ہو گئی ہو ؟؟ کیا ضرورت تھی تمھیں اس کے گھر جانے کی.. کیا سوچتے ہوں گئے وہ لوگ...
اریزے پلیز ابھی نہیں... اس وقت کوئی نصیحت نہ کرنا... وہ منہ پے چادر ڈال کی لایٹ گئی تھی... جب کے اریزے نے اسے بےبسی سے دیکھا تھا..
. ...............................................
عثمان شانزے کو چھوڑ کر واپس آیا تو یوسف کو اپنا منتظر پایا..
 بھائی میری بات... اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتا عثمان اپنے کمرے میں چلے گئے تھے... جس کا مطلب تھا وہ اس سے بات نہیں کرنا چاہتا اور یہ بات یوسف کے لیے تکلیف دہ تھی کیوں کہ آج سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا. تبھی وہ اس کے پیچھے گیا.
 بھائی پلیز مجھے ایک بار اپنی بات مکمل کرنے کا موقع تو دیں...
کیا موقع یوسف... میں نے کہا تھا تمھیں... ہر قدم پے میں نے تمھی سمجھایا... عثمان بہت غصے میں تھا اس کی آواز جو کبھی کمرے سے باہر نہ گئی تھی آج گھر کی دیواریں تک ہلا گئی تھی...
 بھائی میں نے کچھ نہیں کیا پرامس.. میرا یقین کریں میں نے کچھ نہیں کیا نہ میں یہ جانتا ہوں کہ اس سب میں کس کا ہاتھ ہے.. یوسف کی شکل پے صاف لکھا تھا کہ وہ سچ بول رہا ہے.. تبھی عثمان نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا...
میں جانتا ہوں... پر تم کیسے ثابت کرو گئے اس سب میں تمہارا کوئی رول نہیں ہے... مجھ غصہ یہ نہیں کے تم لوگ لڑتے ہو...غصہ اس بات کا بھی نہیں کہ شانزے کو یہاں تک آنا پڑا... غصہ اس بات کا ہے کہ ایک لڑکی کا تماشا بنا جس میں میرے بھائی نام آرہا.... تم جانتے ہو کیسے کیسے کمنٹس تھے اس وڈیو پے... عثمان نے اپنا سر ہاتھوں میں پکڑا تھا...
آپ مجھے پے بھروسہ رکھیں میں ثابت کر دوں گا کہ میں نے کچھ نہیں کیا. میں سب ٹھیک کر دوں گا بھائی...
ٹھیک ہے... عثمان نے مختصر جواب دیا.
 یوسف نے اس کی طرف مسکرا کے دیکھا تھا لیکن عثمان کے چہرے پے اس سے کوئی بدلاؤ نظر نہیں آیا تھا. لیکن فلحال اس کے لیے اتنا بہت تھا کہ اس کا بھائی اس سے بات کر رہا تھا...
چلو کھانا کہتے ہیں عثمان کہتا آگے بڑھ گیا تھا...
 میرا وعدہ ہے بھائی میں خود کو بےقصور ثابت کر کے رہوں گا.... جو میں نے کیا نہیں میں اس کی سزا نہیں کاٹوں گا... اور مس شانزے حسان تمہارے دن تو ہوئے پورے .... تم نے میرے بھائی کو تکلیف دی ہے... میں تمہیں دوں گا... کل سورج شاید تمہاری زندگی میں آخری بار چمکے گا....
 اور وہ فون پے کل کے بارے میں کسی کو انسٹرکشنز دینے لگا..
.. ...............................................
جاری ہے


CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING



Comments