"بدتمیز
عشق"
قسط 4
ناول نگار: "ردابہ نورین"
"شانزے کہاں تھیں تم...؟" صبا نے اس کے برابر میں بیٹھتے ہوئے کہا۔
"کہیں نہیں بس ذرا لائبریری تک گئی
تھی.... "شانزے نے اس کا جواب دیتے بک کھولی۔...
"میں ابھی کی بات نہیں کر رہی تھی پچھلے
کچھ دنوں کی بات کر رہی تھی. کوئی اتا پتہ ہی نہیں تمہارا....
سب ٹھیک تو ہے نا... ؟"صبا نے شانزے کو غور سے
دیکھتے ہوے پوچھا۔...
"ہاں سب ٹھیک ہے.... کیوں کیا ہوا ؟؟؟"
"تم آج چار دن بعد یونیورسٹی آئی ہو.
اور وہاں یوسف کا بھی کچھ پتہ نہیں ہے..". صبا نے اسے اپ ڈیٹ کیا تھا۔...
"تو میں کیا کروں...بہت ڈھیٹ ہے مرے گا
نہیں ڈونٹ وری... "
"حد ہے شانزے... غصہ اپنی جگہ لیکن تم
غصے کی انتہا پہ جا پہنچی ہو. بلکہ تم غصے میں پاگل ہو گئی ہو..". صبا نے
تاسف سے اس کو دیکھا. لیکن کوئی جواب نہ ملا۔.
"تم نے وہ ویڈیو دیکھی جو فیس بک کے پیج
پہ اپلوڈ ہوئی تھی..؟" صبا نے پھر سے بات شروع کی۔...
"ہاں دیکھ لی... اور اس کو سبق بھی
سیکھا دیا... "شانزے کے سکون میں کوئی فرق نہیں آیا تھا
"واٹ... کیا کیا تم نے ؟؟؟" صبا کے
لئے یہ نیوز سچ میں نئی تھی وہ حیران ہوئی۔.
"وہی جس کا وہ حقدار تھا... "شانزے
نے ساری بات اسے بتائی۔...
"تمہیں احساس ہے تم نے کیا کیا ہے... ؟"صبا
نے حیران ہوتے پوچھا۔...
"ہاں !! جو اس نے کیا میرے ساتھ اس کا تیسرا حصہ بھی نہیں تھا... میرا مذاق بنا
دیا ،جانتی ہو کتنے لوگوں نے وہ ویڈیو دیکھی. کیسے کیسے کمینٹ آئے." شانزے کے
چہرے پے دکھ کے اثرات صاف دکھائی دے رہے تھے۔..
"لیکن پھر بھی تمھیں اس طرح اس کے گھر
نہیں جانا چاہیے تھا... اور اگر گئی ہی تھیں تو بات کر سکتیں تھیں... ایسے اس کے
ماں باپ کو بیچ میں لا کے کیا ہو گا..."
"میں مانتی ہوں مجھے یوں اس کے گھر نہیں
جانا چاہیے تھا.. پر اس وقت مجھے جو ٹھیک لگا میں نے کیا اور ویسے بھی ان امیر
لوگوں کو اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا..." شانزے نے کتاب میں دیکھتے ہوئے
بولا.
"اس سب سے کیا فائدہ ہوگا شانزے.. بات
بڑھتی جا رہی ہے.. پہلے مذاق تھی پھر نوک جھونک ہوئی... پھر لڑائی بنی... اور اب..
اب تو یہ دشمنی بنتی جا رہی ہے... پلیز سب کو یہیں روک دو،ایسا نہ ہو تمہیں کوئی
نقصان اٹھانا پڑے۔" صبا نے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی...
"دیکھو شانزے میری بات ہو سکتا ہے تمہیں
بری لگے پر یہ بات جتنی لمبی جائے گی.. اتنی ہی باتیں بنتی جائیں گی ہم یہاں پڑھنے آیئں ہیں... کسی کو
ہرانے یا لڑنے نہیں... یہ کس ریس کا حصہ بن رہی ہوتم؟ یہ تمہارے خواب نہیں تھے،"
"کیا ہوا میری بات بری لگی کیا ؟"
صبا نے خاموش بیٹھی شانزے کو پوچھا....
"نہیں تو... "شانزے اپنا سر جھکا
لیا تھا...
"تو پھر ؟؟"
"تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔" اس نے زمین
کو گھورتے جواب دیا...
"گڈ گرل !! چلو کینٹین چلتے ہیں زارا
اور مہک ہمارا انتظار کر رہی ہیں."صبا نے مسکرا کے کہا اور وہ دونوں کینٹین
کی طرف چل دیں.
......................................................
"کیا بات ہے آج کل آپ بہت چپ ہو گئے
ہیں..." شاہینہ بیگم چائے میز پے رکھتے ہوے بولیں. حسین صاحب شانزے والے
حادثے کے بعد سے کچھ چپ تھے. اگرچہ انہوں نے یوسف اور عثمان دونوں کو مطمئن کر دیا
تھا. پر وہ شاہینہ بیگم تھیں ان سے کچھ چھپانا مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی تھا...
اتنے سالوں کی رفاقت نے ان دونوں کو ہی یہ شرف بخشا تھا
کہ بنا کہے ایک دوسرے کے دل کا حال جان لیتے ہیں.
"نہیں ایسا تو کچھ نہیں ہے. "حسین
صاحب نے بات بنا ئی...
"میں جانتی ہوں آپ شانزے کو لے کے
پریشان ہیں.. اس کی شکل بہت حد تک زینب سے ملتی ہے... اس لئے نا...؟" شاہینہ
بیگم ان کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولیں...
جبکہ حسین صاحب چونک گئے تھے... بنا کہے بھی وہ ان کے
دل کا راز جان گئی تھیں، یہ بات تو انہوں نے خود سے بھی نہیں کی تھی...
"کیا ہوا ؟حیران کیوں ہو رہے ہیں... ؟"انہوں
نے چائے دیتے ہوے کہا. "شانزے کو دیکھ کے مجھے بھی ایک پل ایسا لگا جیسے زینب
ہے... آپ معاف کیوں نہیں کر دیتے، اسے اتنے سال ہو گئے ہیں...". اتنے سالوں
سے جو بات دل میں تھی بلاآخر زبان پہ آہی گئی تھی.انہوں نے بڑی آس سے دیکھا تھا
جیسے آج حسین انھیں نہ نہیں کہیں گئے....
"معاف کر دوں...؟؟ کس بات کے لئے...؟؟
اس لیے کہ اس نے اپنا نقصان کیا ؟؟ "حسین نے دکھ سے شاہینہ کی طرف دیکھا
تھا..." کتنا سمجھایا تھا اسے.. وہ میرے دل کا ٹکڑا تھی.. بے انتہا محبت کی
تھی میں نے اس سے. کبھی چھوٹی سی چھوٹی بات کے لئے میری ہاں کا انتظار کرتی تھی
اور اتنے بڑے فیصلے میں میری ہاں کا انتظار نہیں کیا. "حسین کے چہرے سے ان کے
اندر کی اذیت صاف ظاہر ہو رہی تھی. اتنے سالوں کی خاموشی آج ختم ہوئی تھی.
"اتنے سال ہو گئے ہیں اس بات کو آپ بھول
کیوں نہیں جاتے ؟؟" شاہینہ نے التجا
کی...
"کیسے بھول جاؤں؟ کیسے بھول ؟ کہ
وہ مجھے چھوڑ کے چلی گئی... کیا ایک بار... ایک بار وہ بات نہیں کر سکتی تھی.... لڑتی جھگڑتی اور اپنی
بات منوا لیتی جیسے ہمیشہ منواتی تھی پر ایسے چپ چاپ گم نہ ہو جاتی... تمہیں کیا
لگتا ہے اتنے سالوں میں نے اس کبھی یاد نہیں کیا ؟؟ کیا... بہت یاد کیا... اپنی ہر
سانس کے ساتھ... تو کیا اس کو کبھی میری یاد نہیں آئی... "حسین اس وقت شدید
تکلیف سے دوچار تھے اور شاہینہ سے بہتر کون جان سکتا تھا...
"ایک بار صرف ایک بار کیا پرانی باتوں کو
بھول نہیں سکتے. میں جانتی ہوں آپ نے کب کا اسے معاف کر دیا ہے پر... یہ بات آپ
ماننا نہیں چاہتے... صرف ایک بار دماغ سے نہیں دل سے سوچیں..."
حسین صاحب نے کسی شکست خور انسان کی طرح ان کی طرف
دیکھا تھا...
" تم ٹھیک کہتی ہو.. اب مجھ سے اور ناراض نہیں ہوا
جاتا پھر زندگی کا کیا بھروسہ ایسا نہ ہو کہ میں اس سے دیکھے بنا..."
"الله نہ کرے کیسی باتیں کر رہے ہیں
آپ..." شاہینہ نے ان کی بات کاٹی۔"آپ اس سے ڈھونڈیں ہم خود جا کر اسے،
گھر واپس لے کے آیئں گئے.. "شاہینہ بیگم نے گھٹنے پے رکھے ہاتھ پر اپنا ہاتھ
رکھا تھا. اور ان کے ہاتھ پے حسین صاحب نے اپنا دوسرا ہاتھ رکھا جو اس بات کی
نشاندہی تھا کہ وہ ان کے فیصلے پہ رضامند ہیں. جواباً شاہینہ بیگم ان کی طرف دیکھ
کے مسکرائی تھیں..
......................................................
"بھائی جان آپ یہاں... آفس میں... ؟"میم
کلثوم حسین صاحب کو دیکھ کر احترام میں کھڑی ہوئی تھیں وہ سچ میں حیران تھیں کیوں
کہ آج تک وہ کبھی ان کے آفس نہیں آئے تھے.مس کلثوم حسین صاحب کی چھوٹی بہن ہیں اور
یوسف کی پھوپھو ہیں یہ بات یونیورسٹی میں صرف وہی لوگ جانتے ہیں جن سے ان کے فیملی
ٹرمز ہیں. اس کی ایک بہت بڑی وجہ میم کلثوم کا یوسف کے ساتھ پیش آنے والا رویہ ہے.
وہ اتنا ہی عام ہے جتنا وہ کسی دوسرے سٹوڈنٹ کے ساتھ رکھتی ہیں.
"بیٹھو بیٹھو..." حسین نے آگے بڑھ
کر بہن کے سر پے ہاتھ رکھا تھا.
"بھائی جان سب خیریت ہے ؟" میم
کلثوم ان کی اچانک آمد پے کچھ پریشان بھی تھیں
وہ اتنا تو جانتی تھیں کہ کوئی بات ضرور ہے. ورنہ حسین ایسے کبھی ان کے آفس
نہ آتے. "آپ چائے لیں گئے یا کافی ؟ " انہوں نے اپنے بھائی کی کشمکش کو
کم کرنے کے لئے پوچھا.
"ہاں !! کیا کہہ رہی تھیں.؟" دراصل
حسین صاحب اپنے خیالوں میں مگن تھے انھیں سمجھ نہیں آرہا تھا بات کہاں سے شروع
کریں.
"بھائی آپ چائے لیں گئے یا..."
" کچھ بھی.. "حسین نے بات کاٹتے ہوے کہا.. یہ
تو صاف ظاہر تھا کہ وہ ان سے ملنے نہیں آئے اورنہ ہی کسی اور بات میں کوئی دلچسپی
ہے. لیکن کلثوم کے لئے پریشانی کی بات یہ تھی کہ وہ آنے کا مقصد نہیں جان سکیں
تھیں اور فلحال وہ کوئی سوال کر کے انھیں مزید الجھانا نہیں چاہتی تھیں. انہوں نے
فون کر کے چائے لانے کا کہا.
کچھ لمحے خاموشی سے ایسے ہی نکل گئے اور تبھی چائے بھی
آگئی. انہوں نے کپ بھائی کو دیا..
"شانزے .. شانزے کو جانتی ہو تم ؟؟"
کلثوم کا چائے کی طرف بڑھتا ہاتھ روک گیا تھا. صرف اس ایک نام نے انھیں پوری بات
سمجھا دی تھی. اپنے بھائی کی پریشانی کی وجہ وہ سمجھ گئیں تھی. بہت بیچارگی سے
انہوں نے حسین کی طرف دیکھا تھا.
"جی بھائی جان... میرے ہی ڈیپارٹمنٹ میں
ہے..". کلثوم نے نظریں چورائی تھیں جیسے ان کی چوری پکڑی گئی ہے.
"تو پھر تم یہ بھی جان گئی ہو گی کہ میں
یہاں کیوں آیا ہوں.. "حسین نے اپنی بہن کو غور سے دیکھا تھا.
"
جی بھائی جان.. میں جانتی ہوں پر...
"
"میم جلدی چلیں ایک مسئلہ ہو گیا... "اس
سے پہلے کے وہ کچھ کہتیں تبھی پیون دروازہ نوک کر کے اندرآیا...
..................................................
"دیکھا تم نے میرا کمال، کیا دھماکے دار
ویڈیو ایڈٹ کی ہے... "وارث نے اپنے گروپ کے لڑکوں سے بات کرتے ہوے تالی ماری
تھی.
" ہاں یار مزہ آگیا اور سب سے اچھی بات کسی کا شک
بھی مجھ پہ نہیں گیا. جاتا بھی کیسے سب جانتے ہیں شانزے اور یوسف کے چوہے بلی کے
کھیل کو. "
"اگر یوسف کو پتا چل گیا ؟" ایک لڑکے نے اپنا
شک ظاہر کیا.
" تو ایسی منحوس باتیں مت کر یوسف کے فرشتوں کو
بھی پتا نہیں چلنا... "وارث نے کچھ اکڑتے ہوے کہا.
"تو شاید بھول گیا ہے کہ ہم یوسف کے بارے میں بات
کر رہے ہیں چیتا ہے وہ ان سب کاموں میں اور ہیکنگ تو اس کے بایئں ہاتھ کا کام ہے.
ایسے تو وہ گولڈمیڈلسٹ نہیں بننے والا نا." ایک دوسرے لڑکے نے کہا...
" گولڈمیڈلسٹ کا حال نہیں دیکھا میں نے کیا کیا
ہے..؟؟"
" ہاہاہا..". ایک قہقہ بلند ہوا.
تبھی یوسف دندناتا ہوا آیا اوراکر وارث کا گریبان
پکڑا...
"چلو میرے ساتھ...."
"
چھوڑو مجھے ... "وارث مزاحمت کرنا چاہتا لیکن یوسف
نے انگلی کے اشارے سے اس دھمکایا.
"اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا یہ منہ سلامت رہے تو
میرے ساتھ چپ چاپ چلو. "
"لیکن ہم جا کہاں رہے ہیں...؟؟؟؟"
وارث کچھ پریشان ہوا تھا.
"بتاتا ہوں جلدی کیا ہے ؟" یوسف نے
سوال کے بدلے سوال کیا تھا.
"چلو کلاس ختم..."صبا نے ہاتھ
جھاڑنےوالے انداز میں کہا...
"ہاں میں بہت تھک گئی ہوں چلو کینٹین
چلتے ہیں.." مہک نے اور زارا نے ایک زبان ہوتے کہا کیوں کہ ان دونوں کو ہی ہر
لیکچر کے بعد تھکن ہو جاتی تھی.
"نہیں تم لوگ جاؤ، میں نکلتی ہوں گھر
میں بہت کام ہیں." شانزے نے اپنی نوٹس سمیٹتے ہوئے کہا.
"ارے واہ... تو شانزے لوگوں کی کھچائی
کے علاوہ گھر کے کام بھی کر لیتی ہیں.. واہ بھئی" زارا نے ایکٹنگ کرتے ہوئے
بولا. شانزے نے خفگی سے اس کو گھورا.
"خیریت ہے... کہیں رشتے والے تو نہیں
آرہے میڈم کے... ؟"حملہ اس دفع مہک کی طرف سے ہوا تھا.
"تمہیں کیسے پتا ؟" شانزے نے بھی
بھر پور ایکٹنگ کی شرمانے کی.
"کیا.....؟؟؟؟؟؟ سچ میں؟" صبا نے
خوش ہوتے پوچھا....
"ہاں !! بالکل سچ پر میرے نہیں عنیقہ
کے..." شانزے نے آنکھیں گھمائیں.. اور چاروں ہنسنے لگیں...
وہ کلاس سے باہر نکلیں ہی تھیں کہ وارث شانزے کے پیروں
میں آکر گرا جس سے دیکھ کر وہ گڑبڑا گئی تھی...
"کیا ہوا وارث ... تم ٹھیک ہو... ؟؟ "اس
نے پریشان ہو کر پوچھا اور اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ پوچھتی نظر یوسف پے پڑی...
"او.. تو یہ تم ہو یوسف دی گریٹ... سب
کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے. جبکہ تم یہاں موجود ہو. شرم نہیں آتی تمہیں اپنے ہی
ڈیپارٹمنٹ کے لوگوں کو تنگ کرتے ہوئے..."
"شٹ اپ... جسٹ شٹ اپ...." یوسف دھا
ڑا تھا...
.....not
a single word ok
"یہ تمہارا مجرم ہے اس نے بنائی ہے وہ ویڈیو...
"یوسف کی آواز نے شانزے کے اوپر بم پھوڑا تھا.
"نہیں شانزے میں نے کچھ نہیں کیا... آئی
پرامس... یہ سب یوسف کا پلان ہے... وہ مجھے پھنسانا چاہتا ہے.. مجھ پہ جھوٹا الزام
لگا کر خود کو بےقصور ثابت کرنا چاہتا ہے. "وارث اب اپنی صفائی دینے لگا تھا.
شانزے بے یقینی کی کیفیت میں تھی اسے سمجھ میں نہیں
آرہا تھا کہ وہ کیا کرے...
تبھی یوسف نے اپنے فون سے ریکارڈنگ چلائی جس میں وارث
اور اس کے دوستوں کی آوازیں صاف واضح تھیں...
ہر شخص اپنی جگہ جم گیا تھا.
"اب بولو شانزے حسان! اس دن تو بہت بول
رہی تھیں. تو پھر آج کیا ہو گیا تمہیں ؟ یاداشت چلی گئی یا گلہ خراب ہے.. "یوسف
بالکل اس کے سامنے کھڑا تھا.. اس سے پہلے کہ وہ اور زیادہ بولتا مس کلثوم آگئیں
تھیں..
"کیا ہو رہا ہے یہ سب... کم اون اسٹوڈنٹس موو... اور آپ تینوں میرے روم میں
آیئں..." وہ شانزے، یوسف اور وارث کو کہتی چلی گئیں تھی.
.....................................................
وہ تینوں ان کے روم میں داخل ہوئے شانزے اور یوسف دونوں
حسین صاحب کو دیکھ کر ٹھٹک گئے تھے.
شانزے کو اس دن کی گئی
ساری باتیں یاد آنے لگیں اسے لگا وہ اب کبھی حسین صاحب کے سامنے نظریں نہیں اٹھا
سکے گی. جبکہ یوسف اس لیے حیران تھا کہ آج
تک بلاوجہ حسین کبھی یوسف کی یونیورسٹی نہیں آئے تھے تو پھر آج کیوں..؟؟
"اب آپ تینوں بتایئں گئے کہ یہ سب کیا
ہو رہا تھا. یا ایسے ہی ایک دوسرے کی شکل دیکھتے رہیں گئے.؟ " مس کلثوم کی
آواز کمرے میں گنجی..
"وہ میم بات دارصل یہ ہے.." شانزے
نے آہستہ آہستہ ساری بات میم کلثوم کو بتائی جس سے انہوں نے بڑے تحمل سے سنا...
"ڈیسگسٹنگ... میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ
میرے ڈیپارٹمنٹ کے اسٹوڈنٹ ایسا کریں گے."
"کیوں وارث کیوں کیا آپ نے ایسا ؟ "
"میم آئی ایم سورری مجھ سے غلطی ہو
گئی... پلیز شانزے مجھے معاف کر دو، میں تو صرف یوسف سے بدلہ لینا چاہتاتھا، اس کی
وجہ سے میں کبھی بھی پوزیشن ہولڈر نہیں رہا، کتنی محنت کر لو لیکن ہمیشہ وہی
پوزیشن لیتا ہے، اس بات نے میرے اندر احساس کمتری پیدا کر دی اور اس زد میں تم بھی
آگئیں پلیز شانزے مجھے معاف کر دو.." وارث رو دینے کو تھا.
جبکہ شانزے ایسے کھڑی تھی جیسے چپ کا روزہ رکھا ہو. کم
سے کم یوسف کو تو ایسا ہی لگا تھا اور یہی بات تو اس سلگارہی تھی. اگر پاپا کا اور
میم کلثوم کا لحاظ نہ ہوتا تو وہ کب کا شانزے کو جھنجوڑ چکا ہوتا.
"ٹھیک ہے وارث آپ کی پہلی غلطی سمجھ کہ
میں آپ کو معاف کر رہی ہوں لیکن اس کے اگینسٹ آپ کے نام کا نوٹس ضرور نکلے گا. آگے
سے آپ کسی بھی غلط ایکٹیویٹی میں ملوث ہوئے تو بطور ڈیپارٹمنٹ ہیڈ میں یہ رایٹ
کھتی ہوں کہآپ کو یونیورسٹی سے نکل دیا جائے. از ڈیٹ کلئیر ؟
"
"یس میم ! "وارث نے تشکر نگاہوں سے
دیکھا...
"وارث کسی سے آگے بڑھنے کے لئے محنت
کرتے ہیں نا کہ اس انسان کو نیچے گرانے کی کوشش کریں.. اب آپ جائیں.."
"سوری شانزے.. سوری یوسف.." وارث
نے جاتے جاتے یوسف کے کندھے پے ہاتھ رکھا جس پے یوسف نے اپنا ہاتھ سے اس کا ہاتھ
تھپ تھپایا جو اس بات کا سگنل تھا کہ بات ختم ہو گئی ہے. کم از کم شانزے کو یہی
لگا.
"میں نے آپ سے کہا تھا نا پاپا میں نے
کچھ نہیں کیا. "یوسف نے آگے بڑھ کر باپ سے کہا. شانزے کو لگا اس پہ کسی نے گھڑوں پانی ڈال دیا
ہو.ایک مختصر سی مسکراہٹ نے یوسف کو سکون بخشا... اب ان کی توجہ شانزے تھی وہ
شانزے جس نے انھیں یونیورسٹی آنے تک کے لئے مجبور کر دیا تھا. اور یہ بات یوسف نے
بھی نوٹ کی تھی. تبھی اس کی نظر شانزے پے پڑی...
"سوری سر آج ابھی جو کچھ یہاں ہوا اس سب
کے لئے.. اور اس دن جو میں نے آپ کے گھر پہ ہنگامہ کیا اس کے لئے بھی.." یوسف
مزید کچھ بولتا اس سے پہلے ہی شانزے نے اپنی خاموشی توڑی...
حسن صاحب جو بہت دیر سے اس کی معصوم صورت دیکھنے میں
مصروف تھے اس اچانک معافی پہ چونک گئے اور آگے بڑھ کے اس کے سر پے ہاتھ رکھا۔
" کوئی بات نہیں بیٹا غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتیں
ہیں." انہوں نے مسکرا کر شانزے کی طرف دیکھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو. یوسف
اپنے باپ پے حیران تھا آخر کیا تھا اس میں جو ہر بار اس کا باپ اس سے اتنی اہمیت
دیتا تھا اور اس بات نے یوسف کے اندر اور آگ لگا دی تھی.
میرا خیال ہے یہ میرا آفس ہے ملاقاتی کمرہ نہیں، آپ
دونوں یہاں سے جا سکتے ہیں." وہ دونوں جانے کے پلٹے..
"اور ہاں میں امید کرتی ہوں کہ آیئندہ
آپ دونوں ہی ڈیپارٹمنٹ کا سکون برباد کرنے کی وجہ نہیں بنیں گے ورنہ دوسری صورت آپ
جانتے ہی ہیں..." ان دونوں نے ہاں میں سر ہلایا اور کمرے سے بھر نکل گئے...
شانزے کچھ کہنے کے لیے آگے بڑھی ہی تھی کہ یوسف نے اس
کی بات کاٹ دی...
"نہیں شانزے حسان پکچر ابھی باقی ہے...
ویٹ ٹل دا اینڈ..."وہ
کہتا آگے بڑھ گیا...
..............................................
"معاف کیجئے گا بھائی جان مجھےنہیں پتا
تھا بات اتنی بڑھ جائے گی ورنہ میں آپ کو پہلے ہی بتا دیتی. "میم کلثوم نے
بات بنائی حالانکہ سچ تو یہ تھا کہ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ حسین شانزے کو دیکھیں
اور پریشان ہوں جیسے کہ وہ اس وقت ہو رہے تھے..
". کوئی بات نہیں میں بس یہی جاننا چاہتا تھا کہ
تم جانتی ہوں شانزے کو کیوں کہ وہ...."
"جی بھائی جان جانتی ہوں... یہ بھی کہ
وہ بالکل زینب جیسی ہے... جب پہلے دن دیکھا تھا تبھی ایک نظر تو ایسا لگا جیسے
زینب ہو...ا"نہوں نے نیچے منہ کیا.
"تم جانتی ہو شانزے کے ماں باپ کے بارے
میں.. ان سے ملی ہو ؟؟" حسین نے اپنی بہن سے پوچھا.
"نہیں بھائی جان ملی تو نہیں پر ایڈمشن کے ریکارڈ سے جتنا معلوم ہوا ہے
وہ یہی ہے کہ زینب اور شانزے کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے. "
"اچھا میں چلتا ہوں..." حسین کو
جیسے ان کے سوالوں کا جواب مل گیا تھا.
" بھائی جان آپ کی چائے تو رہ گئی میں دوسری منگا
دیتی ہوں.." کلثوم نے بھائی کو محبت سے کہا...
"نہیں پھر کبھی میں ابھی چلتا ہوں" وہ کہتے
چل پڑے..
"بھائی جان..."
"ہاں !! "حسین دروازے سے پلٹے....
"کیا ہم زینب کو ڈھونڈھ نہیں سکتے ؟؟؟"
"میں ڈھونڈھ رہا ہوں تم پریشان مت ہو.."
وہ مختصر کہتے چلے گئے بنا جواب سنے...
جبکہ کلثوم کے چہرے پر ڈھیروں اطمینان تھا.
..........................................................
وہ گھر آئ یتو خلاف توقع گھر میں سکون سا تھا وجہ صاف
ظاہرتھی. آج عنیقہ کے لئے رشتہ جو آرہا تھا. وہ بھی باہر سے.
"آگئیں تم چلو اب جلدی جلدی بہنوں کا ہاتھ بٹاؤکچن
میں جا کر.. "ابھی اس نے کھانا کھایا ہی تھا کہ تائی اماں نے اس سے دیکھتے ہی
حکم صادرکیا...
"جی تائی اماں" اس نے فرمابرداری کے سارے
ریکارڈ توڑے تھے...
"اچھا سنو یہ تم مجھے تائی اماں نہ کہا کرو ،وہ کیا
ہے نا اس سے نا انسان بڑی عمر کا لگتا ہے اور آج کل تو فیشن میں بھی نہیں ہے... تم
مجھے تائی امی کہو یا تائی جانی کہو کیوں... "انہوں نے پھول جھاڑتی زبان سے
شانزے کو کہا. جکہ شانزے کو لگا وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے....
" جی تائی امی بالکل۔" کہتی وہ کچن کی طرف چل
دی کیوں اس سے زیادہ وہ سنے کی برداشت کہاں رکھتی تھی...
"ارے عنیقہ تم یہاں.... "شانزے نے
اس کو دیکھتے ہوئے بولا.
عنیقہ جو سر پہ کھڑی تھی
اور ہر چیز کی نگرانی کر رہی تھی شانزے کو دیکھ کے چونک گئی..
"کیوں میرا گھرہے میں جہاں چاہے آؤں جہاں چاہے
جاؤں تمہیں کیا.." اس نے تنک کے جواب دیا.
"ارے میرا مطلب تھا تمہیں تو پارلر جانا
چاہیے تھا بھئی آج تمہارے رشتے والے آرہے ہیں.. تھوڑا تیار ہو.. سجو سنورو...یہ کیا تم ماسی بنی پھر رہی ہو... "شانزے
نے سیب کھاتے ہوئے بولا..
"زندگی میں پہلی بات تم نے ڈھنگ کی ، کی
ہے..". وہ کہتی چلی گئی تھی جب کہ شانزے اور اریزے ایک دوسرے کو دیکھ ہنس
پڑیں..
"کیوں کیا تم نے ایسا؟ اچھا خاصا وہ
دیکھ تو رہی تھی..."
" دیکھ نہیں رہی تھی ٹانگ اڑا رہی تھی. اس میں نمک
کم ڈالو... اس میں مرچیں زیادہ کر دو... میکرونی ایسے بوائل کرو اتنا آتا ہے تو
خود کر لے نا... "شانزے نے منہ بنایا..
"او ہو تم بھی نہ بس...."
" اب وہ خالہ جانی کا دماغ کھائے اچھا ہے نا اور
تو کسی کام آتا نہیں تو کم از کم یہی سہی..."
اب دونوں پھر سے ہنسنے لگیں کیوں کہ وہ جانتی پوری دنیا
بھی کوشش کر لے تو اب عنیقہ کو پارلر جانے سے نہیں روک سکتی..
................................................
مہمان آچکے تھے لیکن عنیقہ نہیں آئی تھی.. تائی جان کا
پارہ آسمان سے باتیں کر رہا تھا. اسس ے پہلے کہ وہ پولر جا پہنچتیں عنیقہ آگئی تھی
وہ سچ میں بہت پیاری لگ رہی تھی. تائی اماں نے محبت بھری نگاہ اس پے ڈالی پل بھر
میں وہ سارا غصہ بھول گئیں تھیں.
" چلو شاباش اندر آؤ سلام کرو آنٹیوں کو ۔"انہوں
نے عنیقہ کو اندر لیجاتے ہوئے کہا. وہ عورتیں بہت پیار سے ملیں ان کے انداز سے تو
لگ رہا تھا کہ عنیقہ انھیں بہت پسند آئی ہے لیکن ابھی تک انہوں نے اس بات کا اظہار
نہیں کیا تھا... اب می جانی اور تائی جان دونوں ان کی آؤ بھگت میں لگے تھے.. تائی
جان ہر چیز اٹھا کہ کہتیں کہ" یہ لیں یہ عنیقہ نے بڑی محنت سے بنائی ہے. یہ
کھایئں آپ تو انگلیاں چاٹتی رہ جائیں گی ایسا ذائقہ ہے میری عنیقہ کے ہاتوں میں
کتنے گھنٹوں سے ہلکان ہو رہی ہے بیچاری..."
جب کہ عنیقہ کا
میک اپ چیخ چیخ کے تائی جان کے جھوٹ کا پول کھول رہا تھا.جبکہ ان میں سے ایک عورت
کے منہ پہ ناگواری کے سے تاثرات ابھر رہے تھے. تائی اماں اپنی دھن میں اتنی مگن
تھیں کہ انہوں نے نوٹ ہی نہیں کیا. عنیقہ تو جیسے جڑ ہی گئی تھی جگہ سے جیسے آج ہی
بات پکی ہو جائے گی. ایک دو بار تائی جان نے اس سے چیزیں اٹھانے کا اشارہ بھی کیا
لیکن اس نے نظر انداز کر دیا تبھی تائی اماں نے
مجبوراً شانزے اور اریزے کو آواز دی۔
" آؤبیٹا آپ لوگ بھی مہمانوں سے مل لو.." ان
دونوں نےاندر آتے سلام کیا.
"آیئں آپ بھی یہاں بیٹھیں "ایک
عورت جو لڑکے کی بڑی بہن تھی محبت سے بولی۔
"یہ دونوں بھی آپ کی بیٹیاں ہیں... ؟"اب وہ
تائی جان سے پوچھ رہی تھیں.
"یہ اریزے ہے میری بہن اور دیور کی
بیٹی.. اور یہ شانزے ہے.. اسے ہم نے باہر سے گود لیا ہے... لیکن بہن الله کا شکر
ہے کبھی کوئی فرق نہیں کیا ،اب دیکھو سارا دن یونیورسٹی میں ہلا گلا کرتی ہے لیکن
مجال ہے کوئی کچھ کہہ دے... موبائل انٹرنیٹ ہر چیز ملی ہے اسے ،دوستوں کے ساتھ
اڑتی پھرتی ہے ہم نے تو کبھی کوئی کام نہیں کروایا. "تائی اماں کو اس کی بہن
کا بار بار شانزے کو دیکھنا کھٹک رہا تھا لہٰذا فوراًسے پہلے اس کے اعزاز میں پھول
برسانا ضروری سمجھا گیا اور اپنے ایسے
تعارف پر شانزے کا دل کیا وہ ڈوب مرے... می جانی نے غصے اپنی بہن کو دیکھا... جب کہ
اریزے نے اپنی معصوم بہن کا اترا ہوا چہرہ دیکھا.. جس کی بڑی بڑی آنکھیں آنسوؤں کی
ٹینکی بنی ہوئی تھیں.
"جاؤ بیٹا آپ لوگ یہ سب سمیٹ لو..."
تبھی می جانی نے حالات کو سنبھالنے کی کوشش کی... وہ تین سب سمیٹتی کمرے سے باہر
نکل گئی تھیں.. شانزے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی... اور اریزے اس کے پیچھے گئی
تھی...
"اچھا بہن اب ہمیں اجازت دیں ہم پھر
جلدی آیئں گئے... "تائی اماں کا منہ خوشی سے کھل گیا تھا.. اتنا اچھا رشتہ جو
مل رہا تھا.
"جی بہن ضرور آپ کا اپنا گھر ہے جب چاہیں آیئں
آپ.. "تائی اماں خوش اخلاقی کی بلندیوں پہ تھیں اس وقت..
"پر ایک بات میں صاف کر دینا چاہتی ہوں۔"
لڑکے کی بہن سے تائی اماں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا... "جی جی ضرور بولیں"
تائی اماں نے ان کی ہاں میں ملائی.
"دیکھیں ویسے تو ساری بچیاں ہی بہت
پیاری ہیں پر ہم عنیقہ کے لئے نہیں، شانزے کے لئے آنا چاہتے ہیں..."
تائی اماں کو تو جیسے سانس آنا بند ہو گیا تھا جبکہ می
جانی بھی اپنی جگہ حیران ہو گئی تھیں...
.....................................
وہ سب لوگ ناشتے کی ٹیبل پہ تھے اور اپنی اپنی خوش
گپپیوں میں مصروف تھے سوائے تایا جان کے، ایک وہی تھے جوسب کے ساتھ کھانے یا ناشتے
کے لئے نہیں آتے تھے وجہ صاف تھی.. شانزے... تایا جان نے تو گویا قسم ہی کھا رکھی
تھی اس کی شکل نہ دیکھنے کی. بچپن کے ایک دو بدصورت واقعات کے بعد شانزے نے بھی
کبھی ان کے سامنے جانے کی ہمت نہ کی تھی حالانکہ چھوٹے ہوتے اس کا بھی دل چاہتا
تھا کہ اور بچوں کی طرح تایا جان اس کے بھی لاڈ کریں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا اور
نہ ہی شانزے کو بھولا بھٹکا کوئی ایسا
واقعی یاد تھا. یاد تھا تو صرف تایا جان کی غصیلی آنکھیں جو ہر وقت اس سے گھورتی
تھیں اور اب تو وہ بھی نہیں کیوں کہ جیسے جیسے وہ سمجھ دار ہوتی گئی اس نے تایا جان
کے سامنے جانا چھوڑ دیا تھا...
"ہاں بھئی... تم دونوں میں سے کسی کا
پروگرام ہے جاب کا ؟؟ "وجدان ناشتہ کر رہا تھا جب اچانک اس نے عنیقہ اور
اریزے سے پوچھا....
"ارے لو ہماری بچیاں کیوں کرنے لگیں
نوکری ،ماشاللہ سے سب کچھ ملتا ہے انہیں کون سا کسی چیز کی کمی ہے..."تائی
امان نے ان دونوں کے بولنے سے پہلے جواب دیا.
"امی..!! آپ بھی نہ پتا نہیں کس زمانے
میں رہتی ہیں. جاب اس لیے نہیں کی جاتی کہنخداناخواستہ لڑکیاں گھر والوں پہ بوجھ
ہیں یا باپ بھائی خرچا نہیں برداشت کر سکتے. بلکہ اس کی جاتی ہیں انسان میں دنیا
کا کچھ شعورپیدا ہو وہ اپنے اندرچھپی خوبیوں کو پہچان سکیں. اور یہ جان سکیں کے
وقت پڑنے پہ انھیں کیسے استعمال کرنا ہے.. جو تعلیم انہوں نے حاصل کی ہے اس کی
ورتھ کیا ہے.. وہ آج کل کے زمانے میں کہاں اسٹینڈ کرتی ہیں. "وجدان نے ماں کو سمجھانے کی کوشش کی تھی.
"ہاں !! تو یہ کون سی مشکل بات ہے. یہ سب تو گھر میں
بیٹھ کے بھی پتا چل جاتا ہے. باہر نکلنے
کی کیا ضرورت ہے ویسے بھی یہ آفیسوں میں
کام کرنے والی لڑکیاں گھر کی نہیں رہتی. نا کوئی کام نا کاج بس اٹھے اور چلے گئے..."
"امی آپ بھی نا پتا نہیں کن خیالوں میں
رہتی ہیں. آفیسوں میں کام کرنے والی لڑکیاں اتنی بھی خراب نہیں ہوتیں جتنا آپ نے
سوچ لیا ہے."
"
ارے لو میری بلا سے جیسی بھی ہوں... مجھے کیا لینا...
بس عنیقہ نہیں کرے گی. کریں وہ جنھیں ضرورت ہے..
"تائی اماں نے شانزے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جسے شانزے کے ساتھ باقی
سب نے نوٹس کیا.
"وجی بھائی میں کرنا چاہتی ہوں.."اس
سے پہلے کہ کوئی کچھ بولتا اریزے نے وجی سے کہا.
"کوئی ضرورت نہیں ہے..!!" می جانی
نے فوراً منع کیا.
"پاپا پلیز آپ بولیں نا می جان کو.. "اریزے
نے باپ کو بیچ میں گھسیٹا.
"بیگم صاحب کرنے دیں بیٹی کو شوق پورا. "پاپا نے اریزے کی سائیڈ لی.
"آپ بھی نا... کچھ بھی بولتے ہیں.. کام
کاج سیکھنے کے بجائے اب یہ نوکریاں کرتی پھرے گی. "می جان نے ناراض ہوتے کہا.
"کل کو شادی کے وقت یہ نوکری کام نہیں
آے گی.." تائی اماں نے عادت سے مجبور فقرہ جوڑا...
"می جانی پلیز نا... "اریزے نے منت
کی.
"بیگم مان جائیں آپ..." پاپا نے
دوبارہ حمایت کی..
"کیا می جان آپ تو ایسے پریشان ہو رہی
ہیں جیسے اریزے آفس کی بات نا کر رہی ہو بلکہن دل والے دلہنیا لے جائیں گے کی سمرن
یورپ ٹورپہ جانے کی بات کررہی ہو." شانزے نے ماں کے گلے کا ہار بنتے لاڈ سے
کہا..
"بس شانزے ہر وقت مذاق اچھا نہیں لگتا
کبھی تو بات کو سیریس ہونے دو.." ماما نے تھوڑا برہمی سے کہا.
"
خالہ جانی کیوں پریشان ہوتی ہیں دیکھی بھالی جگہ ہے.
میرے دوست کا آفس ہے. اریزے کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی. اور پھرمیں بھی آتا جاتا
رہتا ہوں وہاں. "وجی نے میدان میں آتے کہا.
"مان جائیں بیگم اتنا مت سوچیں.. "حسان
صاحب نے بات میں دوبارہ مداخلت کی.
"اچھا ٹھیک ہے کر لو.. لیکن جس دن میں
نے بولا بس چھوڑنا پڑے گی ٹھیک ہے.. ؟ "می جان نے اپنا فیصلہ سناتے کہا.
"ٹھیک می جان... وعدہ .. "اریزے
محبت سے ماں کے گلے لگی...
"جا سمرن جی لے اپنی زندگی. "شانزے
نے باپ کے گلے میں بازو ڈالے ایک ہاتھ اٹھا کر اریزے کو کہا اس کے انداز پہ سب کو
ہنسی آگئی سوائے تائی جان اور عنیقہ کے جو بے دلی سے اس محفل کا نہیں حصہ تھیں.
....................................................
ناشتہ کر کے سب اپنے جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے.
اریزے کو آج سے ہی جانا تھا اس لئے وہ جلدی جلدی تیاری کررہی تھی اور اس کی وجہ سے
شانزے کو دیر ہو گئی تھی.
"شانی میں اچھی تو لگ رہی ہوں نا ؟"اریزے
نے اس کے آگے گھومتے ہوئے کہا.
"ہاں میری جان بہت اب جلدی کرو تب تک
میں وجی بھائی کو بلا کے لاتی ہوں پہلا پیریڈ تو ویسےہی گیا میرا ،اب تمہاری
فنکاریوں میں کہیں دوسرا بھی چلا گیا تو مس ام کلثوم نے تو مجھے جان سے ہی مار
دینا ہیں..."وہ
کہتی وجی کے کمرے کی طرف بڑھ گئی.
اس سے پہلے کہ وہ اندر جاتی اندر سے آتی آوازوں نے شانزے کے قدم روک دیے.
ایک آواز تو وجی کی تھی لیکن دوسری آواز وہ کس لڑکی تھی
اور اگر اس کا اندازہ سہی تھا تو وہ گھر کی کسی لڑکی کی نہیں تھی. تو پھر وہ تھی
کون یہی جاننے کے لئے وہ دبے پاؤں وجی کے کمرے میں گئی.
وجی کسی لڑکی سے ویڈیو کال پہ مصروف تھا. ان دونوں کے
انداز سے صاف ظاہر تھا کہ رقابت کافی پرانی ہے. ا
"چھا تو بڑے چھپے رستم نکلے آپ تو..."
شانزے نے وجی کے کان میں بولا جس سے وہ ہڑبڑا گیا جب کہ
دوسری طرف کی کال مقطع کر دی گئی تھی.
"وہ.. میری دوست ہے.." وجی نے
شانزے کو صفائی دینی چاہی لیکن آواز نے ان کا ساتھ دینا گوارا نہیں کیا.
"اچھا............" شانزے نے اچھا
پہ زور دیتے ہوئے کہا...
"کیا اچھا اور تمہاری یہ عادت نہیں جائے
گی چوروں والی.. "وجی.. کچھ گربڑا سا گیا تھا،
"وجی بھائی آپ نے پھر مجھے چور بولا میں
ابھی جا کے سب کو بتاتی ہوں کہ بند کمرے میں کیا ہو رہا تھا."
شانزے کمرے سے بھاگتے ہوئی بولی...
"رکو شانزے... اچھا پرامس میں اب کبھی
نہیں بولوں گا..." وجی اس کے پیچھے پیچھے بھاگا
..
"اچھا" شانزے تھوڑا رکتے ہوئے
بولی... "اور مجھے آئس کریم بھی دلائیں گئے وہ بھی دو بار اوکے....؟؟؟ "شانزے نے اگلا
مطالبہ رکھا.
"ٹھیک ہے.." وجی نے اس کی بات
مانتے ہوئے کہا..
"
اور شاپنگ بھی وہ بھی ہرہفتے..." ایک نیا مطالبہ
پیش کیا گیا...
"شانزے اب بہت ہو رہا ہے..". وجی
نے اسے وارن کیا.
"اچھا تو میں ابھی جا کے سب کو بتاتی
ہوں کہ وجی بھائی کسی لڑ..."
"منہ بند کرو اپنا..." وجی نے پاس
پڑا پلّو کھینچ کے مارا....جس سے شانزے کی بات بیچ میں ہی رہی گئی تھی.
"وجی بھائی اب بچ کے دکھایئں"
شانزے نے دھمکی دی اور ہال کی طرف بھاگی اور سامنے آتی عنیقہ سے ٹکرا گئی.
جس کی وجہ سے عنیقہ ہاتھ میں پکڑے ناشتے کی ٹرے جو وہ
تایا جان کو دینے جا رہی تھی ہاتھ سے چھوٹ گئی اور اس کو بچانے کے چکر میں گرم چائے
شانزے کے بازو جلا گئی. ابھی اس کے منہ سے سی کی آواز نکلی ہی تھی کہ عنیقہ کے چلا
نے کی آواز نے سب کو ہلا کر رکھ دیا.
"امی... جلدی آیئں دیکھیں اس منحوس نے
کیا کیا... "
"کیا ہوا... ؟"تائی اماں اور می
جان سمیت گھر کے سبھی لوگ وہاں آگئے تھے.
"کیا ہوا میری بچی کو یہ شور کیسا تھا."
تائی جان کچھ بوکھلائی ہوئی تھیں.
"امی دیکھئیں اس نے مجھے دھکا دیا اور
سب کچھ گر گیا میرا پاؤں بھی جل گیا." عنیقہ نے بےتحاشا آنسو بہاتے ہوئے اپنے
پاؤں کی طرف اشارہ کیا.
"نہیں تائی اماں عنیقہ جھوٹ بول رہی ہے
میں نے ایسا... "اس سے پہلے کہ وہ اپنا جملہ پورا کرتی تائی جان کے زناٹے دار
تھپڑ نے اس کا دماغ تک ہلا کے رکھ دیا تھا. ہال میں کھڑا ہرشخص اپنی جگہ جم گیا
تھا.
"نامراد کہیں کی، کبھی جوکوئی کام ڈھنگ
کا کرتی ہو.. ایسی کوئی منحوس ہے جب دیکھو توڑ پھوڑ. ہلا گلّا باپ کا گھر سمجھتی
ہے کیا. مفت کی روٹیاں کھاتی ہے .وہی پیٹ میں لڑ رہی ہیں.
"
"آپا... "می جانی نے اپنی بہن کو
ٹوکنا چاہا پر تائی اماں نے انھیں چپ کرا دیا.
"بس چپ کرو تم... آج کوئی بیچ میں نہیں
بولے گا سن لیا سب نے..." انہوں نے وجی کو بھی اشارہ کیا تھا.
"بتاؤ ذرا میری بچی کا پاؤں جلا دیا.
ایک ایک کر کے سارا سامان برباد کر دیا. کیا منہ دکھاؤں گی میں اماں کو...یہ سب تمہارے شوہر کی غلطیوں کا
بھگتان ہے. نہ وہ اس کچرے کو اٹھا کے لاتا اور نہ یہ ہمارے سر پہ بیٹھتی."تائی
اماں مسلسل بولے جا رہی تھی ایسے جیسے آج وہ اگلے پچھلے سارے حساب اس سے پورے
کرلیں گی.
"امی بس کریں ایسا بھی کیا ہو گیا ہے..."
وجی نے بات ختم کرنے کی ناکام کوشش کی تھی.
"واہ بیٹا واہ ... اس پرائے گندے خون کے
لیے تو اپنی ماں کو بول رہا ہے...؟؟" تائی جان نے طنز کا تیر چلایا...
"بس تائی امی... اب ایک لفظ اور نہیں...
پوچھیں اپنی بیٹی سے کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے یا نہیں. ؟" شانزے سے برداشت نہ
ہوا اور وہ بلا آخر بول ہی پڑی.. دوسری طرف عنیقہ کو سانپ سونگھ گیا تھا. اسے
اندازہ نہیں تھا کہ بات اتنی بڑھ جائے گی وہ تو بس شانزے سے اس دن کے تھپڑ کا بدلہ
لینا چاہتی تھی.
"دیکھو تو کیسا تنتنا دکھا رہی ہے...
غضب خدا کا میرے بچوں نے آج تک کبھی میرے آگے ایک لفظ نہیں بولا.. ارے خون خون کی
بات ہے یہ نہ جانے کس کا گندا خون ہے جو
سر چڑھ کے بول رہا ہے،،، " تائی جان پھر شروع ہوئیں.
"ہاں تائی امی ٹھیک کہا اپنے... میرا خون تو گندا ہے...پر آپ کا خون تو اچھا ہے نا... تو آپ
کی پرورش میں کھوٹ کیوں ہے... "اس سے پہلے کہ شانزے مزید کچھ بولتی ،،ایک اور تھپڑ اس ہوش اڑا گیا تھا.. لیکن اس
بار وجہ تھپڑ نہیں تھا بلکہ مارنے والا تھا..
"می جان..." شانزے نے حیرت سے
انھیں دیکھا تھا. آج تک انھیں نے کبھی اسے ڈانٹا تک نہیں تھا اور آج یہ تھپڑ... اس
کے منہ پہ نہیں دل پے لگا تھا... اس کی درد کا اثر گال پہ نہیں دل پہ ہوا تھا.
"بس کر دو شانزے.... شرم آتی ہے مجھے
تمہیں اپنی بیٹی کہتے ہوئے... کتناگر گئی ہو تم...پتا
نہیں کون سی منحوس گھڑی تھی جب انہوں نے تمہیں میری گود میں ڈالا تھا... "می
جان کی زبان بھی آج ویسے ہی انگارے برسا رہی تھی جیسے تائی اماں کی زبان برساتی آئی
تھی... کمرے میں کھڑا شخص حیران، خاموش تماشائی تھا... اریزے کی آنکھوں سے آنسو بہہ
نکلے تھے... وجی اپنی جگہ ساکت تھا..
شانزے کو لگا کسی نے گرم
سیسہ اس کے کانوں میں انڈیل دیا ہو... وہ آہستہ آہستہ چلتی کمرے سے باہر جا رہی
تھی.
وجی نے اسے آواز دی جسے اس نے سنا ان سنا کر دیا تھا...
می جانی کو یکدم اپنی غلطی کا احساس ہوا.... لیکن اب
بہت دیر ہو گئی تھی... وہ کمرے سے نکلتی گھر سے باہر نکل گئی تھی...
می جانی گرنے والے انداز میں صوفے پہ بیٹھیں. اریزے ان
کے پاس گئی.
" می جان سنبھالیں خود کو..."
" اریزے روکو اسے کہیں وہ... "
"ارے کہیں نہیں جائے گی.... پروفیسسرنی گئی ہو گی
یونیورسٹی، تم پریشان نہ ہو۔" تائی اماں نے اپنی بہن کو تسلی دی." اور
جاؤ بھئی تم دونوں کو آفس نہیں جانا کیا، چلو شاباش.."
اریزے کا بالکل
دل نہیں تھا لیکن تائی اماں نے زبردستی اسے بھیجا. وہ بالکل ایسے ریکٹ کر رہی تھیں
جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو اور یہ بات اریزے کو بری طرح کھٹکی تھی.
٭٭٭٭٭
جاری ہے
CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING
Comments
Post a Comment