ناول:"زارااِیمان"
رائٹر: "سلمان صائم"
(مکمل ناول)
زارا ایمان کو کینسر تھا ۔
یہ خبر پورے خاندان کے لیے قیامت سے کم نہیں تھی ۔زارا
ایمان میں دادا جی کی جان تھی ۔کسی کی جرات نہیں تھی کہ کوٸی
بھی زارا کو کچھ کہہ پاٸے
۔اِسی چیز کا بھر پور فاہدہ اٹھا کر وہ دادا جی کی بدولت اپنی جاٸز
نا جاٸز
خواہشات منواتی تھی ۔دادا جی کے تین بیٹے تھے ۔سب سے بڑے میرے بابا شکیل احمد اُس
کے بعد میرے چاچو نوید احمد اور سب سے چھوٹے چاچو امتیاز احمد ۔ ہم تین بھاٸی
تھے ۔چاچو نوید کی ایک ہی بیٹی زارا تھی اور چاچو امتیاز کے دو بیٹے تھے جو ابھی 9Th اور سیون میں پڑھ رے تھے ۔ میری اور زارا کی عمر میں صرف ایک سال
کا فرق تھا ۔
دو سال پہلے میں اپنے خاندان والوں کی مخالفت کے باوجود
سعودیہ آیا تھا اور یہاں بن لادن کمپنی میں جاب کر رہا تھا ۔۔
سعودیہ آنے کی اصل وجہ وہ حالات تھے جن کا میں خود زمہ
دار تھا اور وہاں رہنا میرے لیے مشکل تھا ۔
اِن دو سالوں میں میرا اپنے خاندان سے رابطہ نا ہونے کے
برابر تھا ۔کبھی کبھار بابا جان سے بات ہوتی تھی اور کبھی امی سے بات ہوتی تو وہ
رونے لگ جاتی ۔ہر بار اُن کی ایک ہی ضد ہوتی ۔بیٹا واپس آ جاو میرا دل اداس ہے ۔تب
میں چپ کر جاتا اور میرے لیے خود پے قابو رکھنا مشکل ہو جاتا ۔میں خود جان بوجھ کر
رابطہ کم سے کم کرنے کی کوشش کرتا تا کہ خاندان والوں کی یاد کم سے کم ستاٸے
۔
رات 11 بجے کے قریب بابا جان کی پاکستان سے کال آٸی
اور یہ خبر ملی کہ زارا کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہے ۔ مجھے فوراً پاکستان
پہنچنے کی ہداہت کی۔یہ ایسی خبر تھی جسے سننے کے بعد میں ہزار کوشش کے باوجود بھی
خود کو روک نہیں پایا تھا اور اگلے دن کمپنی سے چھٹی لے کر میں رات کی فلاٸٹ
سے پاکستان آنے کے لیے جہاز میں بیٹھ چکا تھا ۔
جدہ سے لاہور 5 گھنٹے کا سفر تھا ۔ میرے چہرے پے جہاں
بھر کی اداسی تھی ۔ دل خون کے آنسو رو رہا تھا ۔ زارا ایمان کا چہرہ بار بار میری
آنکھوں کے سامنے آ رہا تھا ۔ اور میرا دل اُس کی سلامتی کی دعاہیں کر رہا تھا ۔
سیٹ سے ٹیک لگا کر مَیں ماضی میں کھو گیا ۔
چھوٹی چھوٹی لڑاہیوں میں کب پچپن گزرا پتا ہی نہیں چلا
اور ہم جوانی کی دہلیز پر پہنچ گے۔۔۔
##########
میں اپنے روم میں بیٹھا لاپ ٹاپ پے اپنی فیورٹ مووی
دیکھنے میں مگن تھا کہ وہ میرے کمرے میں آٸی
اور کہا ۔دادا جی کہہ رے ہیں مجھے رمشہ کے گھر چھوڑ کے آہیں ۔۔
دادا جی سے کہو خود چھوڑ کے آ جاہیں ۔میں لاپ ٹاپ پے
نظریں جماٸے
مخاطب ہوا ۔
وہ پلٹی اور کمرے سے باہر نکل گٸی
۔۔کچھ دیر بعد وہ پھر میرے کمرے میں تھی ۔۔دادا جی بُلا رے ہیں ۔
میں گھُور کے رہ گیا ۔نا چاہتے ہوٸے
بھی مجھے اُس کے پیچھے جانا پڑا ۔
جی دادا جی ۔آپ نے مجھے یاد فرمایا ؟ ۔میں نے ایک نظر
زارا پے ڈالی جو کرسی پر بیٹھی میرا منہ چڑھا رہی تھی ۔
نالاٸق
انسان یہ ہم کیا سن رے ہیں ۔دادا جی غصے میں تھے ۔تم بد تمیز کب سے ہو گٸے
ہو ۔اب تمھیں ہماری بات ماننے سے بھی انکار ہے ۔
دادا جی ایسی تو ۔میں بس اتنا ہی کہہ پایا کہ وہ پھر
بولے ۔چپ ۔بڑوں کی عزت کا زرہ بھی خیال نہیں ۔
گاڑی نکالو اور ہماری بیٹی کو نا صرف چھوڑ کے آنا ہے
بلکہ اس کی واپسی تک تمھیں وہاں ہی رکنا ہے ۔اور خبردار جو کہیں ادھر اُدھر گٸے
۔
جی بہتر دادا جی ۔زارا کے چہرے پے فاتحانہ مسکراہٹ تھی
اور وہ مجھے زہر لگ رہی تھی ۔
گاڑی میں وہ مسلسل چہک رہی تھی ۔یہ پہلا موقع نہیں تھا
جب وہ ہر بار دادا جی کی بدولت اپنا ہر کام یوں ہی نکلوا لیتی تھی ۔
مسلسل بولنے کی وجہ سے میں نے اُسے اپنا منہ بند رکھنے
کو کہا ۔
وہ مجھے پھر سے دھمکی دینے لگی کہ شام کو دادا جی کو
بتاوں گی ۔میں خاموش ہو گیا ۔ دادا جی سے دوبارہ بے عزتی کروانے کا میرا بلکل بھی
ارادہ نہیں تھا اور زارا کے معاملے میں وہ کسی اور کی سنتے بھی نہیں تھے ۔ خاندان
کی اکیلی لڑکی ہونے کی وجہ سے وہ دادا جی کے علاوہ بھی باقی سب کی لاڈلی تھی ۔
زارا کو رمشہ کے گھر چھوڑ کے میں دوست سے ملنے چلا گیا
۔زارا کو 3 گھنٹے بعد مجھے دوبارہ پک کرنا تھا ۔
واپسی پر زارا بہت خوش تھی مگر میں نے اُس سے کوٸی
بات نہیں کی ۔وہ مجھ پر احسان جتانے لگی کہ وہ دادا جی کو نہیں بتاٸے
گی کہ تم میرا باہر انتظار کرنے کی بجاۓ
دوست کے پاس چلے گٸے
تھے ۔ میں ہنوز خاموش رہا۔
دن گزرتے گٸے
۔زارا اور میری پڑھاٸی
مکمل ہو چکی تھی ۔
زارا کی دادا جی کی بدولت ہر ضد اب بھی مانی جاتی تھی
۔اور اکثر دادا جی کی ڈانٹ میرے لیے ہی ہوتی تھی ۔آٸے
دن میری کوٸی
نا کوٸی
شکایت دادا جی کے سامنے ہوتی اور مجھے دادا جی کے سامنے شرمندگی اٹھانا پڑتی ۔
زارا کو شاپنگ کرنی ہو ۔اپنی کسی سہیلی کے گھر جانا ہو
یا دنیا کا کوٸی
بھی کام ہو اُسے مجھے ہی کرنا ہوتا تھا ۔اور اگر کبھی میں زارا کو غصے میں کچھ کہہ
دیتا تب وہ دادا جی کو میری شکایت لگا دیتی اور پھر دادا جی مجھے ڈانٹ دیا کرتے
تھے ۔
رفتہ رفتہ میں زارا سے بیزار رہنے لگا تھا ۔ اس قدر کہ
اب میں بہت کم اُس کے سامنے آتا تھا ۔ایک دو بار ہمارا جھگڑا بھی ہو چکا تھا جس کی
شکایت دادا جی تک پہنچی تھی ۔دادا جی کے طلب کرنے کے باوجود میں بہانہ بنا کر گھر
سے باہر چلا گیا تھا ۔
وقت اپنی رفتار سے گزر رہا تھا ۔ ایک شام جب میں گھر
آیا تو گھر کے سبھی بڑے دادا جی کے کمرے میں بیٹھے تھے ۔مجھے وہاں پر بلایا گیا
اور دادا جی نے یہ خبر دی کہ تمہارا اور زارا کا رشتہ پکا کر دیا ہے ۔
میرے لیے یہ بات کسی صدمے سے کم نہیں تھی ۔میں غصے سے
باہر نکل کر اپنے روم میں آ گیا ۔
میرے لیے یہ کسی صدمے سے کم نہیں تھا ۔ میں زارا سے
شادی کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ زارا اور میرا مزاج الگ تھا ۔جہاں مزاج اور سوچ
نا ملتی ہو وہاں پوری عمر ایک ساتھ گزارنا مشکل ہوتا ہے ۔زارا ایک ضدی لڑکی تھی
ہمیشہ اپنی من مرضی کرنے والی ۔ دادا جی سے اکثر مجھے زارا کی وجہ سے بے عزت ہونا
پڑا تھا ۔اُن کے سامنے مجھے چپ ہونا پڑتا اور میں چاہتے ہوٸے
بھی اپنا دفاع نہیں کر پاتا تھا اور شاید یہی وجہ تھی کہ مجھے زارا سے اب الجھن
ہوتی تھی ۔جس لڑکی کو میں چند لہمے برداشت نہیں کر پاتا تھا ساری زندگی اُس کے
ساتھ کیسے گزار سکتا تھا ۔کل کو وہ اپنی ہر جاٸز
نا جاٸز
خواٸش دادا جی سے کہہ کر منوا
سکتی تھی اور یہ مجھ سے اب برداشت نہیں ہو سکتا تھا ۔
نیند مجھ سے کوسوں دور تھی ۔ مجھے اس رشتے سے کیسے بھی
کر کے انکار کرنا تھا مگر کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیسے کر پاوں گا
۔زارا کے ممی پاپا مجھ سے بہت پیار کرتے تھے ۔میں اُن کا دل کیسے دُکھاوں ۔میرے
پاپا جن کی نظر میں مَیں ایک سلجھا ہوا بیٹا تھا اور میرے دادا جی جن کا ہر فیصلہ
اٹل سمجھا جاتا تھا ۔میں کیسے اُن کے فیصلے سے انکار کر سکتا ہوں ۔ مگر اس سب کے
باوجود مجھے زارا سے شادی نہیں کرنی تھی ۔نا ختم ہونے والی سوچیں تھی اور انہی
سوچوں میں رات کا نجانے کون سا پہر تھا جب میری آنکھ لگ گٸی
۔امی صبع ناشتے کے لیے اٹھانے آٸی
تو میری سرخ انکھیں دیکھ کر میری طعبیت پوچھنے لگی ۔
اللہ پاک نے ماں جیسی طاقت کسی کو نہیں دی ۔پتا نہیں
ماوُں کو کیسے پتا چل جاتا ہے کہ اُن کی اولاد بے چین ہے ۔
وہ میرے پاس بیٹھ گٸی
۔
دیکھو بیٹا ۔زارا بہت اچھی لڑکی ہے ۔تمہارے ساتھ پلی
بڑھی ہے ۔سب اُس سے بہت پیار کرتے ہیں ۔سب کی لاڈلی ہے اسی لیے تھوڑی سی ضدی ہے
۔مگر شادی کے بعد سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے ۔لڑکیاں شادی کے بعد خود کو ویسا ہی ڈھال
لیتی ہیں جیسا اُن کے شوہر چاہتے ہیں ۔
اُس کے لیے رشتوں کی کمی نہیں تھی مگر تمہارے دادا جی
اُسے خود سے دور نہیں کر سکتے ۔ اور سچ پوچھو یہ ہم سب کا مشترکہ فیصلہ ہے ۔۔زارا
سے اچھی بہو مجھے نہیں مل سکتی اور نا تمھیں اتنی پیار کرنے والی بیوی ملے گی ۔
امی میں زارا سے شادی نہیں کر سکتا ۔میں نے دو ٹوک اپنا
فیصلہ سنایا ۔
کیا کمی ہے زارا میں ۔خوبصورت ہے پڑھی لکھی ہے ۔اس گھر
کی بیٹی ہے ۔کوٸی
وجہ بھی تو ہونی چاہیے انکار کی ۔امی نے مجھے پھر سے سمجھانے کی کوشش کی ۔
امی آپ جہاں چاہیں میری شادی کر دیں مگر میں زارا سے
شادی نہیں کروں گا ۔میں یہ کہہ کر واش روم میں گھس گیا ۔
امی دوبارہ ناشتے کے لیے بلانے آٸی
تھی مگر مجھے بھوک نہیں تھی اس لیے بنا ناشتہ کیے دوست کے گھر چلا گیا ۔وہاں سے
پھر دوسرے دوست کی شاپ پر چلا گیا اور شام کو گھر واپس آ گیا ۔
امی کو سلام کرنے کے بعد میں میں اپنے روم میں آ گیا ۔
رات کھانے کی ٹیبل پر سبھی موجود تھے ۔ دادا جی نے ابو
کو مخاطب کرتے ہوٸے
کہا ۔
شکیل میاں ۔میں چاہتا ہوں کہ اگلے مہینے زارا اور
شہریار کی شادی دھوم دھام سے ہو جاٸے
۔زندگی کا کوٸی
بھروسہ نہیں بچوں کی خوشی دیکھ لوں ۔
زارا اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گٸی
۔اور امی سر اٹھا کر مجھے دیکھنے لگ گٸی
۔
ابو نے چاچو کی طرف دیکھا اور کہا ۔جی جیسے آپ کو مناسب
لگے ۔ کوٸی
سی بھی تاریخ رکھ لیتے ہیں ۔گھر کی ہی بات ہے ۔
مجھے زارا سے شادی نہیں کرنی ۔
میں جو چپ سب سن رہا تھا خود کو کہنے سے روک نہی پایا ۔
ابو کے ہاتھ سے چمچ گر گیا ۔امی گھبرا گٸی
تھی ۔
کسی کو بھی یہ توقع نہیں تھی کہ میں اس شادی سے انکار
کروں گا ۔
کیا کہا ؟ دادا جی کی غصے بھری آواز سے جیسے سب کو سانپ
سونگھ گیا ہو ۔
زارا کی امی اٹھ کے اپنے کمرے میں چلی گٸی
۔ابو حیران ہو کر میری طرف دیکھ رے تھے اور زارا کے پاپا نظریں نیچی کٸے
بیٹھے تھے ۔
تمہاری جرات کیسے ہوٸی
بڑوں کے فیصلے سے انکار کرنے کی ۔دادا جی کی آواز ایک بار پھر ہال میں گونج رہی
تھی ۔ آج تک ایسا نہیں ہوا کہ کوٸی
ہمارے فیصلے سے انکار کر پاٸے
اور تمہاری یہ ہمت ۔ کیا یہی تربیت ہے تمہاری ؟۔
گستاخ ۔بد تمیز ۔۔دفع ہو جاو میری نظروں سے ۔
میرے ابو دادا جی کو بہلانے لگ گٸے
اور میں اٹھ کر اپنے کمرے میں آ گیا ۔
دادا جی کی آواز اب بھی میرے کمرے میں آ رہی تھی ۔وہ
غصے میں نجانے کیا کچھ بول رے تھے اور ابو انہیں بار بار یہ کہہ رے تھے کہ میں
سمجھا لوں گا ۔آپ پریشان مت ہوں ۔
تھوڑی دیر بعد دادا اپنے روم میں چلے گٸے
۔ابو اور امی میرے کمرے میں موجود تھے ۔
یہی صلہ دینا تھا ہماری تربیت کا ۔کیا اس دن کے لیے
جوان کیا تھا ہم نے تمھیں ۔میں پوچھتا ہوں کیا سوچ کر تم انکار کر رے ہو ۔کیا کمی
ہے زارا میں ۔ اور اگر تمھیں کوٸی
اعتراض تھا تب مجھے بتاتے ۔یوں سب کے سامنے کیا ضرورت تھی سب کی انسلٹ کرنے کی ۔حد
ہوتی ہے شہریار ۔مجھے مجھےتم سے ایسی امید کبھی کبھی نہیں تھی ۔ابو کا پارہ بہت ہاٸی
تھا ۔
امی نے مجھے پھر سے سمجھانے کی کی کوشش کی مگر بے سود
تھا ۔
ابو نے جاتے ہوٸے
اتنا کہا تم نے ہمیں کہیں کا نا چھوڑا۔
اگلے کچھ دن گھر کا ماحول کافی افسردہ رہا ۔ زارا اپنے
کمرے سے باہر نہیں نکل رہی تھی ۔دادا جی میری شکل نہیں دیکھنا چاہتے تھے ۔ابو اور
دونوں چاچو صبع اپنے اپنے آفس چلے جاتے اور میں کبھی کسی دوست کے گھر اور کبھی کسی
دوست کی شاپ پر چلا جاتا ۔
امی بار بار مجھے سمجھا چکی تھی مگر میں بھی اپنی ضد پے
قاٸم تھا ۔ابو نے بھی پتا
نہیں کیسے کر کے دادا جی کو مطمین کر دیا تھا ۔زارا کے پاپا کبھی کبھی کبھار حال
پوچھ لیتے تھے ۔
ابو اب بہت کم بات کرتے تھے ۔ میرا سارا دن آوارہ گردی
میں گزر رہا تھا ۔
اس سب سے تنگ آ کر میں نے ایک دوست کے مشورے پر بن لادن
کمپنی میں جاب کے لیے اپلاٸی
کیا تھا اور کچھ دن بعد ہی ویزہ ملنے پر سعودی عرب آ گیا ۔
چونکہ ابو مجھ سے سےنالاں رہتے تھے اس لیے انہیں اس بات
کی پرواہ نہیں تھی کہ میں کیا کر رہا ہوں ۔امی نے بھی چپ سادھ لی کہ ہو سکتا ہے
میرے باہر جانے کے کےبعد میں اپنا فیصلہ بدل پاوں ۔
جس دن فلاہٹ تھی میں دادا جی سے ملنے گیا تھا مگر انہوں
نے میری طرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کیا تھا ۔زارا کی امی اور ابو نے بس اللہ حافظ
کہا تھا ۔زارا کو اُس دن بڑے دنوں بعد میں نے دیکھا تھا ۔وہ اپنے کمرے سے باہر نکل
کر دروازے میں کھڑی تھی ۔اُس کی آنکھوں میں آنسو صاف نظر آ رے تھے ۔میں نے ایک نظر
اُسے دیکھا اور گاڑی میں جا کے بیٹھ گیا ۔
چھوٹے چاچو مجھے ایٸر
پورٹ چھوڑنے آٸے
تھے ۔گلے ملتے ہی کہنے لگے ۔بیٹا ہمیں تمہاری واپسی کا شدت سے انتظار رے گا ۔ میں
انہیں اللہ حافظ کہہ کر ایٸر
پورٹ کے اندر چلا گیا ۔
آج اتنے عرصے بعد مجھے زارا کی کا سن کر واپس آنا پڑا ۔
جہاز رن وے پے اتر رہا تھا اور کچھ دیر بعد مجھے اپنے
پیاروں کا سامنا کرنا تھا جن کو میں دل دکھا کے یہاں سے سے گیا تھا
ایٸر
پورٹ سے باہر آتے ہوٸے
میں نے اپنے بابا جان کو دیکھا ۔وہ سامنے ہی میری تلاش میں کھڑے تھے ۔مجھے دیکھ کر
وہ آگے بڑھے اور ہم ایک دوسرے سے لپٹ گٸے
۔
ایم سوری بابا ۔ میں بس اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ بابا
کی آنکھوں میں آنسو جاری ہو گٸے۔
وہ مجھ سے لپٹ کر رو رے تھے ۔میں نے جب سے ہوش سنبھالا تھا اپنے بابا کو کبھی بھی
روتے ہوٸے
نہیں دیکھا تھا ۔میرے لیے ضبط کرنا مشکل ہو گیا تھا ۔ میری آنکھوں سے نکلنے والے
آنسو پچھتاوے کے تھے ۔دو سال میں نے خود کو یقین دلانے کی کوشش کی تھی کہ جو میں
نے کیا تھا وہ سب ٹھیک تھا مگر آج جب میرے بابا میرے سامنے رو رے تھے تب مجھے یہ
احساس ہو چکا تھا کہ میں کتنا غلط تھا ۔میں خود غرض تھا ۔میں نے صرف اپنی خوشی
دیکھی تھی ۔اپنے پیاروں کے بارے میں نہیں سوچا تھا ۔
زارا کیسی ہے بابا ؟
بابا سے خود کو جدا کرتے ہوٸے
میں نے پوچھا ۔
بابا مجھے گاڑی تک لے آٸے
۔
زارا کیسی ہے بابا ؟
میں نے گاڑی میں بابا کے ساتھ بیٹھتے ہوٸے
پھر پوچھا ۔میں ایک انجانے خوف سے اُن کی طرف دیکھنے لگا ۔
ہسپتال میں ہے ۔ علاج چل رہا ہے ۔ڈاکٹر کہتے ہیں وہ
ٹھیک ہو جاٸے
گی ۔بابا بس اتنا ہی کہے پاٸے
۔
بابا مجھے ہسپتال لے چلیں پلیز ۔
بیٹا گھر چلتے ہیں ۔تم تھکے ہوٸے
ہو ۔تھوڑی ریسٹ کر لو پھر شام کو مل کے چلیں گے ۔
نہی بابا مجھے ابھی ہسپتال لے چلیں ۔پلیز مجھے زارا کو
دیکھنا ہے ۔ میں پھر سے رونے لگ گیا ۔
بابا مجھے سیدھا ہسپتال لے گٸے
۔راستے میں بابا مجھے تسلی دیتے رے کہ زارا اب پہلے سے بہتر ہے مگر پتا نہیں کیوں
مجھے اسے ایک نظر دیکھنے کی جلدی کیوں تھی ۔
گاڑی پارکنگ میں کھڑی کر کے میں بابا کے پیچھے چل پڑا
۔یوں لگ رہا تھا جیسے اس سب کا زمہ دار میں ہوں ۔ آنکھوں میں آنسووں کی جڑی لگی
تھی ۔تھوڑی دیر بعد ہم زارا کے کمرے میں تھے ۔کمرے میں زارا کے ممی پاپا تھے اور
زارا بیڈ پے بے سدھ لیٹی تھی ۔چاچو کے سامنے میں سر جھکاٸے
کھڑا تھا ۔ندامت کے آنسو میری آنکھوں سے رواں تھے ۔وہ آگے بڑھے اور مجھے گلے لگا
لیا ۔زارا کی ممی بھی ہمارے ساتھ زاروقطار رونے لگی ۔چاچو کی آنکھوں سے آنسو تھے
کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رے تھے ۔بابا نے ہمیں ایک دوسرے سے جدا کیا ۔زارا کی
ممی کے سامنے میں نے ہاتھ جوڑ دٸے
۔مجھے لگا میں اُن کا مجرم ہوں جیسے یہ سب میری ہی وجہ سے ہوا ہو ۔زارا کی ممی نے
میرے ہاتھ پکڑ لیے اور مجھے خود سے لپٹا لیا ۔میری آنکھیں پھر سے بھر آٸی۔
میں بیڈ کے پاس بیٹھ گیا ۔زارا کی سانسیں چل رہی تھی مگر
وہ ہوش میں نہیں تھی ۔
کتنی نازوں سے پلی تھی زارا ۔جس کی زبان سے نکلی ہر بات
پوری کی جاتی تھی ۔زندگی کو بھر پور طریقے سے جینے والی آج خاموش تھی ۔
میں نے اُسے آواز دی ۔زارا ۔۔۔زارا ۔۔
چاچو نے پیچھے سے میرے کندھے پے ہاتھ رکھ دیا ۔
وہ سو رہی ہے اُسے ریسٹ کرنے دو ۔ تھوڑی دیر تک اٹھ جاٸے
گی پھر باتیں کر لینا ۔
بابا مجھے گھر لے جانا چاہتے تھے مگر میں کسی طور پے
راضی نا ہوا ۔میں زارا کو ہوش میں دیکھنا چاہتا تھا اُس سے معافی مانگنا چاہتا تھا
۔
میں نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ میں زارا سے کبھی اس
حالت میں ملوں گا ۔
بابا گھر چلے گٸے
تھے ۔زارا کی ممی اور پاپا اور میں کمرے میں تھے ۔
تھکن سے چُور مَیں کرسی پر بیٹھ گیا ۔
مجھے انتظار تھا کب زارا سے دو باتیں کر سکوں ۔
سفر کی تھکان تھی شاید کہ نجانے کب میری آنکھ لگ گٸی
اور میں کُرسی پر ہی بیٹھے بیٹھے سو گیا ۔
کب تک سوتا رہا مجھے خبر ہی نا ہوٸی
۔جب آنکھ کھلی تو میرے چھوٹے چاچو اور میری امی میرے ساتھ بیٹھے ہوٸے
تھے ۔ امی کو سامنے دیکھ کر میں اُن سے لپٹ گیا ۔وہ مجھے پیار کرنے لگی ۔مجھے تسلی
دینے لگی کہ اللہ پر بھروسہ رکھتے ہیں بیٹا ۔ہمت نہیں ہارتے ۔اللہ نے چاہا تو سب
ٹھیک ہو جاٸے
گا ۔ چاچو بھی گلے لگا کر تسلی دیتے رے ۔
زارا اب تک ایسے ہی لیٹی تھی ۔
میں نے زارا کی امی سے پوچھا تو وہ بتانے لگی کہ زارا
تھوڑی دیر تک ہوش میں آٸی
تھی تم سو رے تھے تو جگانا مناسب نہیں سمجھا ۔
کاش آپ مجھے اٹھا دیتی آنٹی ۔
میں افسردہ لہجے میں بولا ۔
امی کی ضد تھی کہ میرے ساتھ گھر چلو ۔رات ہو چکی تھی
کچھ ریسٹ کر لو ۔مگر میرا من یہاں سے بلکل بھی جانے کو نہیں کر رہا تھا ۔
چاچو اور آنٹی نے بھی مجھے گھر جانے پے مجبور کیا تو
میرے پاس کوٸی
چارہ نہیں رہا ۔
میں نا چاہتے ہوٸے
بھی چھوٹے چاچو اور امی کے ساتھ گھر آ گیا ۔ مگر مجھے بلکل بھی چین نہیں آ رہا تھا
۔
گھر پہنچ کر بابا مجھے اپنے ساتھ دادا جی کے کمرے میں
لے گٸے
۔
دادا جی سامنے ہی بیڈ پر لیٹے تھے ۔
دادا جی بے حد کمزور لگ رے تھے ۔
شہریار آیا ہے ۔ بابا نے دادا جی کو مخاطب کرتے ہوٸے
کہا ۔ اور اشارے سے دادا جی کے پاس جانے کو کہا ۔
دادا جی ہنوز لیٹے رے ۔ میں جانتا تھا وہ کبھی معاف
نہیں کریں گے ۔اُن کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے ۔میں نے ان کا حکم نہیں مانا تھا ۔اُن کے
فیصلے سے اختلاف کیا تھا وہ مجھے کبھی معاف نہیں کریں گے ۔
میں نے دادا جی کے قریب جا کر اُن کے پاوں پر سر رکھ
دیا ۔
مجھے معاف کر دیں دادا جی ۔مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوٸی
ہے ۔ میں زارو قطار اُن کے پاوں پر سَر رکھ کے رو رہا تھا ۔
شہریار
دادا جی نے بازو پھیلا دٸے
۔
ان کی زبان سے اپنا نام سُن کر جہاں میں حیران تھا وہاں
بابا کی خوشی بھی دیدنی تھی ۔
دادا جی ۔میں لپک کر اُن کے سینے سے لپٹ گیا ۔دادا جی
پھُوٹ پھُوٹ کر رو رے تھے ۔
اُن کی زبان پر زارا کا بار بار نام آ رہا تھا ۔وہ میری
بیٹی زارا میری بیٹی زارا کہہ کر رو رے تھے ۔آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رے
تھے ۔
دادا جی شاید زارا کی وجہ سے نرم پڑ چکے تھے ورنہ عام
حالات میں کبھی کسی نے اُن کو روتے اور یوں ڈھلتے نہیں دیکھا تھا ۔
اُن کی زبان سے زارا کے لیے دعاہیں نکل رہی تھی ۔اے
اللہ میری بیٹی کو تندرستی عطا فرما ۔اے میرے اللہ زارا کو میری زندگی دے دے ۔
دادا جی کا یہ روپ میرے لیے بہت مختلف تھا ۔زارا میں
اُن کی جان تھی اور وہ زارا کی بیماری کی وجہ سے مکمل ٹوٹ چکے تھے ۔
رات کا کھانا کھا کر میں ہسپتال جانا چاہتا تھا مگر امی
بضد تھی کہ تمھیں ریسٹ کی ضرورت ہے اور صبع ہوتے ہی ہسپتال چلے جانا ۔
میں کمرے میں آ گیا مگر مجھے چین نہیں تھا ۔گھنٹہ بھر
لیٹنے کے بعد میں ایک بار پھر ہسپتال میں تھا ۔
بیٹا تم آرام کرتے ۔ہم یہاں تھے ناں ۔ زارا کی امی مجھے
کمرے میں دیکھ کر بولی ۔
آنٹی میں آپ سب سے شرمندہ ہوں ۔ خدارا مجھے معاف کر دیں
۔اس سب کا قصور وار ہوں میں ۔
چاچو نے آگے بڑھ کے میرے کندھے پے ہاتھ رکھ دیا ۔
جو ہو چکا اُسے بھول جاو بیٹا ۔یہ تو رب کی مرضی ہے اس
میں تمہارا کیا قصور ۔بس دعا کرو زارا ٹھیک ہو جاٸے
۔چاچو کا لہجہ افسردہ تھا ۔
آپ گھر چلیں جاہیں ۔کل سے میں دیکھ رہا ہوں آپ دونوں
مسلسل یہاں ہیں ۔آپ کو بھی ریسٹ کی ضرورت ہے پلیز ۔
میں نے چاچو سے التجاہ کی ۔
نہیں بیٹا ہم یہاں ٹھیک ہیں ۔اپنی بیٹی پاس ۔
چاچو نے جانے سے صاف انکار کر دیا ۔
ہم تینوں کرسیوں پر بیٹھ گٸے
۔زارا آنکھیں بند کیے لیٹی تھی ۔میرا دل چاہ رہا تھا زارا آنکھیں کھولے ۔ میں اس
سے باتیں کر سکوں ۔وہ پھر سے دادا جی سے ضد کرٸے
اور اب کی بار میں خوشی خوشی اُس کے ساتھ چلا جاوں ۔کاش میں گھر والوں کی بات مان
لیتا ۔کاش میں باہر نہیں جاتا ۔کاش زارا کو کینسر نا ہوتا ۔کاش کاش ۔۔۔بہت سارے
کاش تھے جن کا جواب کہیں نا تھا ۔
وقت گزر جاتا ہے انسان کے کٸے
گٸے غلط فیصلے اُسے سواٸے
پچھتاوے کے کچھ نہیں دے پاتے ۔میں بھی انہی میں سے ایک تھا جو ہسپتال میں زارا کے قریب
بیٹھا اپنے فیصلوں پر آنسو بہا رہا تھا ۔
انہی سوچوں میں گُم مجھے قریبی مسجد سے فجر کی اذان کی
آواز سناٸی
دی اور میرے قدم بے اختیار مسجد کی طرف بڑھنے لگے ۔
مذہب سے میرا لگاو خاص نہیں تھا ۔نماز کبھی کبھار پڑھ
لیتا تھا مگر آج میرے قدم مسجد کی طرف تیزی سے اٹھ رے تھے ۔
انسان کتنا خود غرض ہے جب اس کے پاس اللہ کی دی ہوٸی
ہر نعمت ہوتی ہے تب وہ رب کا شکر ادا نہیں کرتا ۔اور جیسے ہی ہمیں رب سے کچھ
مانگنا ہوتا ہے کچھ مطلب ہوتا ہے ہم اپنا کچھ کھویا پانے کے لیے اُس کی طرف دوڑے
چلے جاتے ہیں ۔اور وہ رب کتنا کریم ہے کتنا رحیم ہے کبھی یہ نہیں کہتا اب کیوں آٸے
ہو ۔اُس وقت کیوں نہیں آٸے
تھے جب میں نے تمھیں جہاں بھر کی نعمتیں عطا کی ہوٸی
تھی ۔میرا اللہ کتنا رحمان ہے وہ ہمارے پکارنے پے ہماری سنتا ہے ہمیں بن مانگے عطا
کرتا ہے ۔
وضو کرتے ہوٸے
میرے آنسو تھم نہیں رے تھے ۔
نماز ادا کرنے کے بعد میں رب کے حضور دعا مانگنے لگ گیا
۔میری ساری دعاوں میں زارا تھی ۔ میں رو رو کر اپنے رب سے زارا کی زندگی کی دعا
مانگ رہا تھا ۔
یا اللہ زارا کو ٹھیک کر دے ۔میرے مولا ابھی تو چاہے
میری جان لے لے پر میرے اللہ زارا کو ٹھیک کر دے ۔آنسو سے تر چہرہ لیے میں دعا میں
مشغول رہا ۔
ہسپتال واپس پہنچا تو چاچو نیچے میرا ہی انتظار کر رے
تھے ۔
شہر یار ۔شہر یار ۔وہ میری طرف لپکے ۔ کہاں چلے گٸے
تھے بیٹا ۔میں کب سے ڈھونڈ رہا تھا ۔
وہ مجھے ساتھ لیے کمرے میں آ گٸے
۔
اندر داخل ہوتے میرے قدم رک گٸے
۔میرے سامنے زارا بیڈ پر آنکھیں کھولے دروازے کی طرف ہی دیکھ رہی تھی ۔
چاچو مجھے پکڑ کر زارا کے قریب لے آٸے
۔
آخری بار جب زارا نے مجھے دیکھا تب اُس کی آنکھوں میں
آنسو تھے ۔اور آج بھی عرصے بعد مجھے اپنے سامنے دیکھ کر وہ پھوٹ پھوٹ کے رو رہی
تھی ۔
چاچو اور آنٹی اُسے چپ کرانے میں لگے ہوٸے
تھے اور میں بت بنا اس کے سامنے کھڑا تھا ۔
مجھے معاف کر دو زارا ۔بڑی مشکل سے میں کہہ پایا ۔میں
آپ سب کا مجرم ہوں ۔میری آنکھوں میں ندامت کے آنسو تھے ۔
زارا خود پے قابو نا رکھ پاٸی
۔اُس کی آنکھوں میں آنسووں کا سیلاب تھا ۔
کمرے میں ہم چاروں کی سسکیاں تھی ۔چند لمہے یوں ہی گزر
گٸے۔
میں آپ سے کبھی ناراض نہیں تھی ۔مجھے آپ سے کبھی کوٸی
شکوہ نہیں تھا ۔میں آپ سے ناراض ہو ہی نہیں سکتی شہر یار ۔
میں رب سے ہمیشہ آپ کے لوٹ آنے کی دعا مانگتی رہی ۔
دیکھا رب نے میری دعا قبول کی ۔آپ لوٹ آٸے
۔
زارا کے الفاظ میرے دل میں پیوست ہو رے تھے ۔
کیا واقعی کسی کا ظرف اتنا بڑا ہو سکتا ہے ۔وہ جسے مجھ
سے نفرت ہونی چاہیے تھی ۔جو میرا چہرہ تک دیکھنا گوارہ نا کرتی ۔کیسے ایک لمہے میں
اُس نے کہہ دیا کہ میں ناراض ہو ہی نہیں سکتی تھی ۔میں ساکت کھڑا رہا ۔زارا اس وقت
مجھے دنیا کی ہر شے سے عزیز لگی ۔
کاش میری عمر بھی زارا کو لگ جاٸے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں زارا ایمان ۔۔۔ ہسپتال میں اپنی زندگی کے دن پورے
کر رہی ہوں ۔مجھے کینسر جیسی موذی بیماری ہے ۔ڈاکٹرز کا کہنا ہے اب دوا سے زیادہ
دعا کی ضرورت ہے اور میں کسی معجزے کی منتظر اپنی سانسیں گن گن کے گزار رہی ہوں ۔
میرے پیدا ہونے پے سب سے زیادہ خوش دادا جی تھے ۔ اُن
کے صرف تین بیٹے تھے بیٹی کوٸی
نہیں تھی ۔شہریار کے ایک سال بعد میں پیدا ہوٸی
تھی اور پھر اللہ پاک نے میرے ممی پاپا کو دوسری اولاد نہیں دی تھی ۔میں اُن کی
اکلوتی اولاد تھی اور خاندان میں اکیلی لڑکی ۔میرے تایا اور چاچو کے صرف بیٹے ہی
تھی ۔شاید یہی وجہ سے کہ میں دادا جی کے سب سے زیادہ قریب تھی ۔میری کوٸی
بات ٹالی نہیں جاتی تھی ۔ کبھی کسی نے اگر مجھے ڈانٹ دیا تو میں جَھٹ دادا جی سے
شکایت لگا دیتی اور ڈانٹنے والے کی مصیبت آ جاتی ۔ وقت کے ساتھ میں ضدی بن گٸی
اور یہ عادت عمر کے ساتھ ساتھ پختہ ہوتی گٸی
۔ دادا جی کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ مجھے اپنے سے پل بھر بھی دور کریں ۔
بچپن کب گزرا پتا ہی نہی چلا ۔عمر کے اُس حصے میں جہاں
آپ آسمان کو چھونے کی باتیں کرتے ہیں ۔دنیا فتح کرنا چاہتے ہیں مجھے خبر ہی نا ہوٸی
کب شہریار مجھے اچھا لگنے لگا ۔اُسے دیکھنا اُس کے ساتھ وقت گزارنا اُس سے باتیں
کرنا اچھا لگتا تھا ۔کسی نا کسی بہانے سے میں اُسے اپنے ساتھ کہیں لے جانے پے تیار
رہتی ۔
وہ انکار کرتا اور میں دادا جی سے کہہ کر اُسے اپنے
ساتھ جانے پے مجبور کر لیتی ۔اُسے تنگ کرنے میں مزا آتا ۔کبھی شاپنگ کبھی کسی
سہیلی کے گھر اور کبھی کہیں جانا ہوتا تو مجھے شہریار ہی میسر ہوتا ۔ وہ چاہیے
کتنا بھی مصروف ہوتا مگر اُسے میرے ساتھ جانا ہی پڑتا ۔انکار پر اُسے دادا جی سے
ڈانٹ سننا پڑتی ۔ رفتہ رفتہ اُسے مجھ سے چڑ ہونے لگی اور مجھے اُسے ستانے میں مزا
آنے لگا ۔
انہی دنوں دادا جی نے ہمارے رشتے کی بات چھیڑ دی ۔میں
بہت خوش تھی ۔
میری ہر خواہش کو پورا کیا جاتا تھا اور میری زندگی کی
سب سے بڑی خواہش بن مانگے مجھے مل رہی تھی ۔میں شہریار کے ساتھ مستقبل کے خواب
دیکھنے لگی تھی ۔
مگر مجھے خبر نہیں تھی میری خوشیوں کو کیسے نظر لگ گٸی
۔شہریار کے انکار نے مجھے توڑ کے رکھ دیا ۔بہت روٸی
تھی میں ۔خود کو ٹھکرانے جانے کا دکھ کیا ہوتا ہے وہی جانتا ہے جو اس دکھ سے کبھی
گزرا ہو ۔جی کرتا تھا شہریار کا گریبان پکڑو اور اُس سے پوچھوں ۔بتاو کیوں کیا تم
نے ایسا ۔کیا کمی ہے مجھ میں ۔مگر میں خاموش تھی چپ تھی ۔
شہریار کے انکار کے بعد میں کبھی اُس کے سامنے نہیں گٸی
۔دادا جی کا بس نہیں چل رہا تھا وہ شہریار کو گھر بھی گھسنے نہیں دیتے مگر تایا جی
نے انہیں کیسے کر کے بھی سمجھا لیا تھا ۔
پھر پتا چلا شہریار سعودیہ جا رہا ہے ۔میں اُس دن اپنے
کمرے سے باہر آٸی
تھی اُسے جاتے ہوٸے
دیکھ رہی تھی ۔میری انکھوں میں آنسو رواں تھے ۔کاش میں اُسے روک سکتی ۔ اُس کا اسی
گھر میں ہونے کا احساس بھی میرے لیے بہت تھا ۔جن سے محبت ہوتی ہے ناں اُن کی دوری
برداشت نہیں ہوتی ۔جاتے جاتے اُس نے مجھے پل بھر کے لیے دیکھا تھا ۔میری آنکھوں
میں آنسو وہ صاف دیکھ سکتا تھا مگر وہ رکا نہیں اور چلا گیا ۔میں وہی کی وہی کھڑی
رہ گٸی
۔
دادا جی چاہتے تھے میری شادی کہیں اور طے ہو جاٸے
مگر میں نے انکار کر دیا ۔مجھے اب کسی سے شادی نہیں کرنی تھی ۔میں دادا جی کے پاس
ہی رہنا چاہتی تھی ۔
ایک رات بیٹھے بیٹھے میرے منہ سے خون آنا شروع ہو گیا
۔میرے ممی پاپا مجھے ہسپتال لے گٸے
۔۔ جہاں رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا کہ مجھے کینسر ہے ۔یہ خبر گھر والوں کے لیے جان
لیوا تھی ۔اور مجھے شدت سے شہریار یاد آ رہا تھا ۔
میں مرنا نہیں چاہتی تھی ۔ جینا چاہتی تھی ۔مگر تقدیر
سے کون لڑ سکتا ہے ۔جو کچھ میری قسمت میں لکھ دیا تھا وہ ہو کے ہی رہنا تھا ۔
میرے لبوں سے بے ساختہ دعا نکلی ۔اللہ مجھے مہلت دینا
میں شہریار کو دیکھ سکوں ۔اور شہریار کی واپسی کی دعاہیں مانگنا شروع ہو گٸی
۔
دادا جی اب ہر وقت روتے رہتے تھے ۔وہ مجھے گلے لگاتے
اور ڈھیروں پیار کرتے ۔
مجھے ہسپتال داخل کروا دیا گیا ۔میں نے دادا جی کے آگے
ہاتھ جوڑ دٸے
۔دادا جی آپ نے بچپن سے میری ہر بات پوری کی ہے ۔یہ آخری خواہش بھی پوری کر دیجیے
۔دادا جی پھُوٹ پھُوٹ کر رو دٸے۔میرا
بچہ ایسا کیوں کہتی ہو ۔دادا کی جان قربان ۔
دادا جی شہر یار کو معاف کر دیجیے پلیز ۔
میں آپ سے کبھی کچھ نہیں مانگوں گی بس میری یہ خواہش
پوری کر دیجیے ۔میری زندگی کا بھروسہ نہیں رہا ۔میں ایک ایسی مرض میں مبتلا ہوں جو
کبھی بھی مجھے موت کی آغوش میں دھکیل دے گی ۔مگر میں چاہتی ہوں آپ شہریار کو دل سے
معاف کر دیں ۔میں نے اپنے ممی پاپا اور دادا جی کے سامنے ہاتھ جوڑ دٸے
تھے ۔سب رو رے تھے ۔دادا جی نے مجھے گلے لگا لیا ۔میرے بچے میں نے تمہاری کبھی کوٸی
بات ٹالی ہے جو اب انکار کروں گا ۔میں نے شہریار کو معاف کیا ۔دادا جی مجھے اب بھی
گلے لگاٸے
ہوٸے تھے ۔میں نے ممی پاپا
کی طرف دیکھا انہوں نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا ۔
میرے لیے اتنی خوشی ہی بہت تھی ۔انسان جس سے محبت کرتا
ہے کبھی اُسے دکھ نہیں دے سکتا نا اُسے دکھی دیکھ سکتا ہے ۔
مجھے ہسپتال داخل کروا دیا ۔
میرے لبوں پے ہر وقت یہی دعا ہوتی تھی یا اللہ مرنے سے
پہلے میں اُسے ایک دفعہ دیکھ سکوں ۔اے اللہ میری خواہش پوری فرما ۔میری دعاوں کو
قبولیت عطا فرما ۔
پھر مجھے پتا چلا شہر یار آ رہا ہے میں جی بھر کے روٸی
تھی شاید میری دعاہیں رنگ لے آٸی
تھی
میں نے اُسے اتنے عرصے بعد اپنے سامنے دیکھا تھا ۔کرسی
پے بیٹھے بیٹھے سو رہا تھا وہ ۔
تَھکن سے چُور تھا وہ ۔یوں لگ رہا تھا جیسے گھر جانے کی
بجاٸے سیدھا یہاں آ گیا ہو ۔
میں دیر تک اُسے دیکھتی رہی ۔
کاش وقت رک جاٸے
اور میں اُسے دیکھتی رہوں ۔کٸی
بار جی چاہا اُسے آواز دوں مگر پھر خیال آتا وہ تھکا ہو گا ۔اُسے آرام کی ضرورت ہے
۔سویا ہی رہنے دیا میں نے اُسے ۔ اُسے دیکھ لینے کے بعد سکون تھا دل میں ۔
مجھے پتا ہی نہیں چلا کب میری آنکھ لگ گٸی
۔
صُبع میری آنکھ کھلی تھی وہ وہاں نہیں تھا ۔میری نظریں
اُس کی منتظر رہی ۔
تھوڑی دیر بعد وہ پاپا کے ساتھ مجھے کمرے کے اندر داخل
ہوتا نظر آیا ۔میں اُس کے چہرے میں چھپے درد کو جان چکی تھی ۔ایسا لگ رہا تھا جیسے
وہ اندر سے ٹوٹ چکا ہے ۔پاپا میرے پاس چلے آٸے
اُسے لے کر ۔وہ رو رہا تھا ۔اُس کے آنسو مجھے رُلا رے تھے ۔مجھ سے معافی مانگ رہا
تھا وہ ۔اور میں اُسے کیسے بتاتی کتنی محبت کرتی تھی اُس سے اور جہاں محبت ہوتی ہے
وہاں ناراض نہیں ہوا جاتا ۔میں تو اُس سے کبھی ناراض ہی نہیں تھی ۔ میں اُسے بتانا
چاہتی تھی کہ اُس کے لوٹ آنے کی کتنی دعاٸیں
مانگی تھی میں نے ۔میں آنکھیں بند کر رہی تھی رب کا شکر ادا کرنا چاہتی تھی ۔میرا
اللہ کتنا کریم ہے کتنا رحمان ہے وہ ہماری سنتا ہے ہماری غلطیاں کوہتیوں کے باوجود
ہماری سنتا ہے اور اللہ فرماتا ہے تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاو گے ۔
میری آنکھیں بند ہو رہی تھی ۔ اب میری کوٸی
خواہش نہیں تھی ۔اب میں سو جانا چاہتی تھی ۔ شاید میرے رب کو یہی منظور تھا ۔اور
میں اپنے رب کی رضا میں راضی تھی ۔
شہریار شہریار
مجھے پاکستان میں آٸے
ہوٸے تین دن ہو چکے تھے
۔زیادہ تر میرا وقت ہسپتال میں گزر رہا تھا ۔دو دن کے بعد زارا کا آپریشن تھا
۔ڈاکٹرز پُر امید تھے میں زارا کے ساتھ اُس کے کمرے میں تھا جب نجانے بیٹھے بیٹھے
کب میری آنکھ لگ گٸی
۔تھوڑی دیر گزری تھی جب میرے کانوں میں زارا کی آواز سناٸی
دی ۔زارا کے ممی پاپا کمرے میں نہیں تھے ۔
میں اٹھ کے زارا کے قریب چلا گیا ۔
شہریار آپ میری ایک بات مانے گے ۔وہ مجھ دے پوچھ رہی
تھی ۔
ہاں زارا میں تمہاری ہر بات مانوں گا ۔تم جو کہو گی ہر
بات مانو گا ۔
شہریار میں جانتی ہوں میرے پاس زیادہ وقت نہیں رہا ۔اُس
کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔
ایسے نہیں کہتے زارا ۔تم بہت جلد ٹھیک ہو جاوُ گی
۔ڈاکٹر سے میری خود بات ہوٸی
ہے زارا
مجھے جھوٹی تسلی مت دیں شہریار ۔مجھے پتا ہے میرے پاس
اب کچھ دن ہی بچے ہیں ۔بس مجھے آپ سے کچھ کہنے ہے پلیز ۔
وہ خود بھی رو رہی تھی اور میرے لیے بھی آنسو ضبط کرنا
مشکل ہو گیا تھا ۔
بولو زارا میں سُن رہا ہوں ۔
کیا آپ مجھ سے شادی کرو گے ۔چاہے دو چار دن کے لیے ہی
سہی مجھے آپ کا ساتھ صدیوں جیسا لگے گا ۔
وہ رو رہی تھی مسلسل رو رہی تھی ۔
میں دوبارہ انکار کیسے کر سکتا تھا ۔
میں نے ہاں میں سَر ہلا دیا ۔
اُس کے چہرے پے مسکراہٹ پھیل گٸی
۔ بہت خوش دیکھاٸی
دینے لگی ۔میں دیر تک اُس کے قریب بیٹھا رہا ۔
میں نے ابو سے بات کی ۔وہ سوچ میں پڑ گٸے
۔میں نے اُن کو بتایا کہ یہ زارا کی بھی خواہش ہے ۔دادا جی کو پتا چلا تو وہ کہنے
لگے ۔زارا کے ٹھیک ہو جانے کے بعد ہم تم دونوں کی شادی دھوم دھام سے کریں گے ۔ مگر
زارا کی ضد کے آگے سبھی کو ہار ماننا پڑی ۔
مجھے نہیں پتا میں آپریشن ٹھیٹر سے زندہ واپس آوُں گی
بھی کہ نہیں ۔
زارا کی حالت کی وجہ سے سبھی خاموش ہو گٸے
۔
اگلے دن ہسپتال میں ہی زارا اور میرا نکاح کر دیا گیا
۔دادا جی امی ابو زارا کے ممی پاپا اور چھوٹے چاچو چاچی سبھی موجود تھے ۔سبھی کی
آنکھوں میں آنسو تھے ایک زارا تھی جو بے حد خوش دیکھاٸی
دے رہی تھی ۔اُس کے چہرے پر انجانی مسکراہٹ تھی ۔
نکاح کے اگلے دن زارا کا آپریشن تھا ۔اُس رات وہ بلکل
بھی نہیں سوٸی
۔وہ کہنے لگی آج رات ہم ڈھیر ساری باتیں کرنے گے ۔
بچپن کی بہت ساری یادیں تھی جو وہ مجھے بتا رہی تھی ۔
ساری رات ہی باتوں میں گزر گٸی
۔
صبع فجر ہم دونوں نے اکٹھے پڑی ۔
9 بجے زارا کو آپریشن ٹھیٹر میں پہنچا دیا
گیا ۔
جانے سے پہلے وہ سب سے مل کر رو رہی تھی ۔
دادا جی کی سسکیاں زارا کو رلا رہی تھی ۔
وہ جانتی تھی اُس کے لیے وقت نہیں بچا ۔کینسر جیسی
بیماری میں بچنے کے چانس انتہاٸی
کم ہوتے ہیں ۔مگر پھر بھی رسک تو لینا ہی تھا ۔شاید رب نے اُس کی زندگی لمبی لکھی
ہو ۔ ہو سکتا ہے وہ اُ چند خوش نصیبوں میں سے ہو جو کینسر کو بھی مات دے دیتے ہیں
۔ہمارے پاس اس کے علاوہ کوٸی
چارہ نہیں تھا ۔آپریشن سے بچ جانے کا چانس تھا اور اس کے علاوہ کوٸی
حل نہیں تھا ۔
آپریشن ٹھیٹر میں داخل ہونے سے پہلے زارا نے میرا ہاتھ
پکڑا شہریار ۔مجھے بھول مت جانا ۔میں جنت میں آپ کا انتظار کروں گی ۔اور میں
آنکھوں میں آنسو لیے اُسے جدا کر رہا تھا ۔
تین گھنٹے آپریشن ٹھیٹر میں رہ کے زارا کو باہر نکالا
گیا ۔
وہ سو رہی تھی ۔مکمل خاموشی کے ساتھ ۔اُس کے چہرے پے
سکون ہی سکون تھا ۔
ڈاکٹر میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کے ۔۔۔۔ایم سوری کہہ کے
کب جا چکے تھے مجھے خبر نا تھی ۔
میں زارا کو دیکھ رہا تھا ۔
وہ ہمیں چھوڑ کے جا چکی تھی ۔زارا کے الفاظ میری
سماعتوں سے ٹکراٸے
۔شہریار میں جنت میں آپ کا انتظار کروں گی ۔
*******************
ختم شد
Comments
Post a Comment