از قلم :"حافظہ ثوبیہ عارف"
(قسط 1)
کانچ کی گڑیا
ٹوٹ کر بکھرتی رہی
اپنی ہی ﺫات
میں سمٹتی رہی
لفظوں کے بازار میں
جہاں درد کا کوئی خریدار نہیں تھا
بن کر خوشی کا آنسو
بے قیمت لفظوں کے داموں میں
وہ انمول سی گڑیا
آنکھوں میں مرضی سجائے
دل میں درد چھپائے
بکتی رہی،بکتی رہی
ٹوٹ کر بھکرتی رہی
اپنی ہی ﺫات
میں سمٹتی رہی
پتھر پتھر وہ باری کھیلے
ہر پتھر کو وہ ہنس کے جھیلے
پتھر کو پتھر نہ جانے
ارماں اس کے ایسے دیوانے
پتھروں کا دکھ جھیلتے جھیلتے
اپنے دکھ وہ بھول گئی
پتھروں کی بارش میں
اک موم کے پتھر سے
خود بچانا وہ بھول گئی
صدیوں سے کھڑی تھی کانچ کی گڑیا
اک موم کے پتھر سے ٹوٹ گئی
نہ سمٹ سکی اور بکھر گئی کانچ کی گڑیا
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
ممی...وہ کانچ کی گڑیا کیسے ٹوٹی تھی-
اس کو اس دنیا نے توڑ دیا تھا...یہ دنیا بہت بری ہے
بیٹا-
ممی پھر اس گڑیا کا کیا ہوا تھا؟
اسکے پاس ایک مسیحا آیا تھا جس نے اس ٹوٹی گڑیا کو جوڑا
تھا اور دنیا کے سامنے مضبوط بنا کر کھڑا کیا تھا-
واؤ زبردست میری پیاری ماما...آپکو کس نے سنائی یہ
سٹوری؟ بچہ ماں کا منہ چومتے ہوئے بولا-
مجھے میرے بابا نے سنائی تھی یہ کہانی- جب میں آپ جتنی
ہوتی تھی-
مما..میں کانچ کی گڑیا نہیں خریدوں گا- ایسی گڑیا کا
کیا فائدہ جو ٹوٹ جائے-
بیٹا آپ اسے جوڑ بھی تو سکتے ہیں..اللہ نے آپکو لڑکا
اسی لیے بنایا ہے کہ آپ بڑے ہو کر ٹوٹی گڑیا کو جوڑ سکو- اسکی ماں اسے پیار کرتے
ہوئے سمجھا رہی تھیں-
مما..پھر بابا نے آپکو کیوں نہیں جوڑا...آپ بھی تو ٹوٹ
گئیں تھیں گڑیا جیسی---وہ بچہ بہت ﺫہین
تھا...اسکو ہر ایک ایک بات یاد تھی-
میرا بچہ سو جاؤ..صبح سکول بھی جانا ہے... اسکی ماں
لیمپ آف کرچکی تھیں تاکہ ان کے بیٹے کو کانچ کی گڑیا کے آنسو نظر نہ آسکے--
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
"یہ سردیوں کی ایک ٹھٹھرتی ہوئی شام
تھی۔ وہ مغرب کی نماز پڑ ھ کر مسجد سے نکلا توسرد ہواکے جھونکوں نے اسکا استقبال
کیا۔
اس نے سر اٹھایا۔ آسمان پر ایک ایسا منظر تھا جس کے حسن
نے اسے مسحور کر کے رکھ دیا۔سردیوں کی اس گلابی شام میں آسمان کے مغربی افق پر
گویا شعلے بھڑ ک رہے تھے ۔ سورج تو ڈوب چکا تھا مگر اپنے پیچھے شفق کی وہ لالی
چھوڑ گیا، جس نے نیلے آسمان کودلہن کے سرخ لباس کی طرح سجادیا تھا۔
سرد ہوا میں انگاروں کی طر ح دہکتے آسمان کا یہ منظر
اتنا حسین تھا کہ پوری کائنات اس کے مشاہدے میں مصروف تھی۔پرندے اس آسمانی دلہن کی
بارات کا دیدار کرتے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے ۔ فضا میں بکھرے بادلوں کو
کوئی جلدی نہ تھی۔وہ اپنی جگہ ٹھہر کراس حسین منظر سے لطف اندوز ہورہے تھے ۔بلند
قامت درخت بھی بادلوں کی دیکھا دیکھی، حسن فطرت کے اس نظارہ سے محظوظ ہونے لگے ۔حد
تو یہ ہے کہ شب کی سیاہی بھی اس منظر کو دیکھنے نکل آئی ۔
وہ دیکھ رہا تھا کہ فطرت کی ہر شے اس بے حدحسین منظر کو
دیکھ کر خالق کائنات کی حمدو تسبیح کرنے لگی ہے ۔ مگر جس ہستی کوزمین کا بادشاہ
بنایا گیا تھا، وہ بالکل بے پروا اپنے دھندوں میں لگا تھا۔ شاپنگ سنٹر سے نکلتے ،
گاڑ یوں میں بیٹھتے ، سڑ کوں پر چلتے یہ لوگ سب سے بڑ ھ کر اس کے اہل تھے کہ یہ
منظر دیکھتے اور خدا کی حمد اور تعریف کے نغمے گاتے ۔مگر آہ یہ انسان، اس کے پاس
ہر چیز کا وقت ہے ۔ خدا کی صناعی کو دیکھ اس کی ثنا اور تعریف کا وقت نہیں
ہے-"
وہ گھر آکر اپنے روم میں جانے لگا تب ہی اسے کچن سے
آوازیں آرہی تھیں..وہ اسی طرف چلا آیا- کچن میں دیکھا تو بوا جی جو کہ اس گھر کی
پرانی ملازمہ تھیں کھانا پکانے میں مصروف تھیں-
بوا ایک کپ کافی مل سکتی ہے ؟؟
جی بیٹا! میں ابھی لاتی ہوں..وہ کہنے کے ساتھ ہی دودھ
ابالنے رکھنے لگیں-
وہ باہر آکر لاؤنج میں بیٹھ گیا...اسے یہ اتنا بڑا گھر
کاٹ کھانے کو دور رہا تھا...اسے اس لڑکی کمی محسوس ہورہی تھی جسکو اسنے توڑ دیا
تھا-
اور اب وہ لڑکی اس سے دور تھی...-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
مری کے پہاڑوں میں سرد ہوائیں چل رہیں تھیں- اگلے کئی
دنوں تک برف باری کا امکان لگ رہا تھا- وہ کمبل میں گھس کر بیٹھی اپنی آج کی لکھی
ہوئی ﮈائری
پڑھ رہی تھی جب سمیرا کمرے میں داخل ہوئی--
سجل یہ سوٹ میں پہننے کیلئے لے جاؤں- سمیرا اس کا نیا
سوٹ الماری سے نکال کر پوچھ رہی تھی-
ہاں لے جاؤ- سجل کو کوئی پرواہ ہی نہیں تھی...اور سمیرا
اسکا سوٹ لے کر بھاگ گئی اس سے پہلے کہ وہ دیکھ لے- اگر وہ دیکھ بھی لیتی تو کونسا
منع کردیتی...اسکو ان سب چیزوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا-
اماں..اماں دیکھو ماموں جو سوٹ شہر سے سجل کیلئے لائے
تھے یہ وہی ہے- اسنے مجھے دے دیا-- سمیرا نائلہ بیگم کو آکر خوشی خوشی بتانے لگی-
سامنے سے آتا مزمل اس سوٹ کو دیکھ کر حیران ہوگیا....
یہ تم نے کسکی اجازت سے لیا ہے....ادھر دو-- مزمل اس سے
زبردستی سوٹ لیتے ہوئے بولا-
ہنہہ...مجھے خود سجل نے دیا ہے..تمہیں کیا مسلئہ ہے- سمیرا
غصے سے آگ بگولہ ہو گئی-
اسکی چیزیں چھین کر تم لوگوں کو ملتا کیا ہے آخر؟؟ کیوں
اسکے پیچھے سارا دن پڑی رہتی ہو- مزمل ہمیشہ سے اس گھر میں سجل کے ساتھ ناانصافیاں
ہوتے دیکھتا آیا ہے-- جب سے وہ بڑا ہوا تھا اور اس سے دوستی ہوچکی تھی تب سے وہ اس
کے حق میں بولتا تھا اور جب وہ سجل سے اس بارے میں کوئی بات کرتا تو وہ "دفع
کرو" کہ کر بولتی بند کرادیتی تھی- اسکو دنیاوی چیزوں کا بلکل شوق نہیں
تھا..اسکو ایک کتاب اور قلم چاہیے ہوتا تھا اور لکھتے وقت بہتا پانی جو کہ اسے
یہاں مہیا تھا....روز شام کو وہ کتاب اور قلم لے کر وہاں جاتی- اور وہیں بیٹھ کر
اپنی روز مرہ زندگی کا ہر ایک ایک لفظ اتارتی تھی اور سکون محسوس کرتی تھی....اسے
کوئی کھانا بھی نہ کھلائے وہ رہ لے گی پر وہ اپنی کتاب اور قلم کے بغیر نہیں رہ
سکتی تھی- اس کی ساری کزنز اسے پاگل بولتی تھیں کہ اتنی خوبصورت ہونے کے باوجود وہ
انکی طرح اتراتی نہیں ہے...نہ گھر میں فضول سجاوٹی کپڑے پہن کر بیٹھتی ہے-
سجل یہ تم نے نیا سوٹ سمیرا کو کیوں دیا؟ مزمل اسکے
کمرے میں آکر اسکا سوٹ بیڈ پر رکھ چکا تھا اور خود بھی وہیں بیٹھ گیا-
وہ مانگ رہی تھی تو میں نے دے دیا- سجل کندھے اچکاتے
ہوئے بولی-
اچھا...وہ تم سے تمہارا شوہر مانگے گی تب بھی دے دو گی
نا تم؟ وہ طنز کرتے ہوئے بولا-
نہیں...میں اپنا شہزاہ کیوں کسی کو دوں گی- سجل اسکی
بات پہ مسکراتے ہوئے بولی جیسے اسنے کوئی مزاحیہ بات کی ہو-
میں سیریس ہوں اور تم ہر وقت ایسے ہی مذاق کیا کرو-
میرے دوست میں بھی سیریس ہوں- میرے لیے سوٹ، جیولری اور
جوتے یہ سب کوئی معنی نہیں رکھتے - ہمیں اس دنیا سے صرف اپنے اعمال لے کر جانے ہیں
پھر میں ان دنیاوی چیزوں کیلئے لڑ کر کیوں اپنا اعمال نامہ خراب کروں-
سجل بہت سمجھ دار لڑکی تھی...اسے اسکے ماں باپ نے نہیں
پالا تھا بلکہ اسنے خود اپنے آپ کو پالا تھا- اگر اسکے ماں باپ بھی اسے پالتے تو
شاید اسکی اتنی اچھی تربیت نہ کرپاتے جو اسنے خود اپنے آپکی کی تھی-
سجل...تم میں بڈھی روح حلول ہو گئی ہے...دادی کا یہ سب
کیا دھرا ہے ورنہ آج تم بھی سمیرا اور بتول کی طرح ہوتیں- مزمل اسکی باتیں سن کر
تپ گیا تھا...اسے کبھی کبھار اس لڑکی کی سمجھ ہی نہ آتی تھی-
کوئی نہیں...دادی میں کچھ سے زیادہ ہی بڈھی روح حلول
تھی..تبھی ہمیں ہر وقت ﮈانٹتی
رہتی تھیں- وہ ہنستے ہوئے بولی اور مزمل بھی اسکی بات پر ہنس دیا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سر...جس لڑکی کے بارے میں آپ نے معلومات کرنے کیلئے
بولا تھا اسکا پتہ لگ گیا ہے- یہ رہی وہ فائل...اس میں اس کے بارے میں ہر ایک ایک
انفارمیشن ہے- اسکے علاوہ آپ کو کچھ اور معلومات بھی چاہیے ہوں تو آپ ہمیں بتا
دیجئے گا-
اوکے تھینک یو..آپ جا سکتے ہیں- انسپکٹر ہمدانی اب وہ
فائل کھول چکا تھا...پہلے ہی صفحے پر ایک لڑکی کی تصویر تھی جو دریا کے پاس بیٹھے
کچھ لکھنے میں مصروف تھی-
انٹرسٹنگ....وہ اگلا صفحہ بھی دیکھنے لگا--
ہمم....تو اب تمہارے رونے کے دن شروع ہوچکے ہیں-- ان 7
دنوں میں جتنا جینا ہے...جی لو..اسکے بعد تم جینے کے قابل دور کی بات.....بولنے کے
قابل بھی نہیں رہوگے-- انسپکٹر ہمدانی کے لہجے میں نفرت تھی اور وہ خود سے بول رہا
تھا--
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
اماں..دیکھ رہی ہیں آپ اس مزمل کو..کتنا بد تمیز ہوگیا
ہے-
ہاں دیکھ رہی ہوں...اس منحوس ماری نے ہی کوئی جادو
کرایا ہوگا- نائلہ بیگم منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئیں بولیں...انہیں سجل ایک آنکھ نہ
بھاتی تھی...وہ سمجھتی تھیں کہ اسکی خوبصورتی انکی بیٹیوں کیلئے عذاب بن جائے
گی..انکی بیٹیوں کو کوئی بھی دیکھنے آتا تو وہ سجل کو کمرے بند کردیتی تھیں...وہ
سمجھتی نہیں تھیں کہ ہر لڑکی اپنی قسمت ساتھ لے کر آتی ہے...جو سمجھنا نہ چاہے ان
کو سمجھانے کا فائدہ بھی نہیں ہوتا ہے-
اماں آپ ممانی کے کان میں بات تو ﮈال
دیں بتول کیلئے...میرا تو اب رشتہ ہو بھی چکا ہے...وہی اب رہ گئی ہے پھر سجل کو
کسی بڈھے کے ساتھ بھی بیاہ دیں گی تو بھی وہ کچھ نہیں کہی گی- سمیرا اپنی ماں کو
پٹیاں پرانے لگی-
ہاں میں ابھی بھابھی اور بھائی سے بات کرتی ہوں...
نائلہ بیگم کی آنکھیں چمک اٹھیں-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
بھابھی آپ لوگ تو جانتے ہی ہیں...میری ہمیشہ سے یہی
خواہش رہی ہے کہ ایک بیٹی بھائی کے گھر جائے اور پھر اماں کی بھی یہی خواہش تھی-
نائلہ بیگم اوپر والے پورشن میں آگئیں تھیں-
ہاں نائلہ ہم بھی جانتے ہیں اماں بیگم کی خواہش
کو...اور ہم مزمل کیلئے بھی یہی چاہتے ہیں پر سجل بیٹی...وہ مانے گی اس رشتے کیلئے
؟؟ نائلہ بیگم کو انکی بات سنتے ہی غصہ آگیا... جو وہ چاہتی تھیں ہمیشہ ان سب سے
الٹ ہی ہوتا تھا-
بھائی میں سجل کی نہیں اپنی بتول کی بات کر رہی
ہوں...سجل کا تو اسکا باپ ہی کچھ سوچے گا...اسے فرصت ہی کب ہے اپنے بزنس سے---
نائلہ بیگم اپنے غصے کو کنٹرول کرتے ہوئے بولیں...انھیں اسی بات کا ﮈر
تھا کہ کچھ الٹا نہ ہوجائے-
ٹھیک ہے بھابھی ہم مزمل سے بات کرتے ہیں-- آپ فکر نہ
کریں- صفیہ بیگم ان کی بھابھی تھیں اور وہ بھی اپنے بیٹے کے لیے بتول کو پسند کرتی
تھیں....پر انکا بیٹا کیا چاہتا ہے وہ تو کوئی سوچنے کی کوشش بھی نہیں کرتا تھا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
ممی...کیسی ہیں؟ وہ آج جلدی گھر آگیا تھا تاکہ اپنی ماں
کے پاس بیٹھ سکے-
بیٹا..جیسے 20 سال پہلی تھی- تم بتاؤ سارا دن گزر جاتا ہے...آتے ہی نہیں ہو-
امی...آج آپکے پاس ہی ہوں ساری رات...آپکو ایک بات بھی
بتانی ہے- وہ انکی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا-
بتاؤ..میری جان- کیا بات ہے؟ آج خوش بھی بہت ہو-
ہاں امی کیونکہ میری ساری دعائیں قبول ہوچکی ہیں اور اب
میں اپنا مشن شروع کرنے والا ہوں...آپ دعا کریں گی نا میرے لیے؟ اسکی کی آنکھوں
میں کچھ حاصل کرلینے ، کچھ جیت جانے کی چمک تھی اور کلثوم بانو اسکی اس چمک سے
خوفزدہ ہوگئیں-
ہاں بیٹے میں آپکے لیے ضرور دعا کروں گی...آپ بتاؤ
کونسا مشن ہے؟
ہاہاہاہا...ایک کانچ کی گڑیا کو توڑ پھوڑ کر پھینک دینے
کا مشن ہے- انسپکٹر ہمدانی کی اس بات نے کلثوم بانو کو دھچکا دیا...ان کو لگا تھا
ساتوں آسمان ان پر آگرے ہیں--
نہیں..میرے بیٹے ایسا مت کرنا...تمہاری ماں التجا کر
رہی ہے- میرا بیٹا ظالم نہیں ہوسکتا-
آپکا بیٹا ظالم اور سفاک دونوں ہے...میری ماں کے ساتھ
جو چاہے کچھ بھی کرے اور میں انکو بخش دوں...نہیں ممی آپ جانتی تھیں کیوں میں اس
شعبہ میں آیا ہوں-- صرف اسلیے کہ میں اپنا بنایا گیا ہر ایک منصوبہ پورا کرسکوں-
آپ مجھے مت روکیں ممی پلیز--
وہ انکے روم سے جاچکا تھا اور کلثوم بانو ہاتھ اوپر
اٹھائے ایک ہی دعا مانگنے لگیں--
”یا اللہ کسی کانچ کی گڑیا کو ٹوٹنے مت دینا“
وہ دعا مانگ تو رہیں تھیں پر ضروری نہیں کہ ہر دعا سنی
جائے...کچھ دعائیں دیر سے سنی جاتی ہیں...شاید اسی میں اللہ کی کوئی بہتری ہوتی
ہے-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
جگری یار کیسا ہے؟ صفدر شاہ اپنے جگرے دوست سے پوچھ رہے
تھے جو کتابوں میں گم تھا-
ٹھیک ہوں میں تو سنا... عثمان اور صفدر کی دوستی کالج
پیریڈ سے چلی آرہی تھی اور اب وہ دونوں یونیورسٹی میں تھے-
تیرا دوست بھی ٹھیک ہے-- چل اٹھ کینٹین چل کر کچھ کھاتے
ہیں- صفدر شاہ گاؤں کے رہنے والے تھے اور اب وہ ہاسٹل رہتے تھے- اور عثمان ہمدانی
اپنے ماں باپ کی وفات کے بعد اکیلے ہی تھے....کیونکہ انکا کوئی بہن بھائی اور رشتہ
دار نہ تھا-
نہیں یار صفدر...کل ٹیسٹ ہے...تجھے پتہ ہے میری لائف ٹف
ہے...ایسے میں مجھے کھانے پینے میں کیا دلچسپی ہوسکتی ہے- عثمان اپنی کتابیں واپس
کھول کر بیٹھ گیا-
یار کیا تو بھی بورنگ ہے...یونیورسٹی پیریڈ تو یادگار بنانا چاہیے-
ہاں میں یادگار ہی بنانا چاہتا ہوں پڑھ پڑھ کر تاکہ
مجھے ہمیشہ یاد رہے کہ میں اس یونیورسٹی کا نام روشن کرچکا ہوں اور سب کو یاد بھی
رہوں- عثمان ہمدانی جاب بھی کرتا تھا....ان کے حالات نے انھیں سمجھدار اور سیریس
بنا دیا تھا ورنہ انکی عمر کے لڑکے آوارہ گردیوں میں مصروف نظر آتے ہیں-
تو بیٹھا رہ میں جارہا ہوں- کل ملاقت ہوگی- بائے..صفدر
جا چکا تھا اور عثمان اپنی کتابوں میں واپس سر دیے بیٹھ گیا--
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
امی آپ پھپھو کو منع کردیں..مجھے بتول پسند نہیں ہے-
مزمل سے صفیہ بیگم اور ارمان شاہ دونوں پوچھ چکے تھے پر
اسکا ایک ہی جواب تھا "نا" اور یہ "نا" ہاں میں تب ھی تبدیل ہو سکتی تھی جب بتول کی
جگہ سجل کا نام لیا جاتا-
بیٹا وہ بہت اچھی لڑکی ہے..پڑھی لکھی اور پھر اسکی
تربیت آپکی پھوپھو نے کی ہے تو وہ کیسے بری ہوسکتی ہے- صفیہ بیگم کا ارادہ اسکو
قائل کرنے کا تھا-
نہیں امی...بات یہ ہے کہ میں سجل کو پسند کرتا ہوں اور
شادی بھی اسی سے کروں گا-
ہنہہ اور میں کبھی نہیں مانوں گی...جیسی ماں تھی ویسی
ہی بیٹی نکلی-- اب تمہیں پھانس گئی ہے اور بعد میں دس نکل کر سامنے آئیں گے-- صفیہ
بیگم کو سجل کی ماں شروع سے ہی ناپسند تھی کیونکہ اس نے یہاں آکر سبکو اپنی طرف
راغب کرلیا تھا اور ایک دن سارا زیور لے کر گھر سے بھاگ گئیں تھیں اور اب سارے گھر
والے اسکے طعنے سجل کو دیتے تھے-
بس کردیں امی....یہ سب بولتے ہوئے سوچ لیں کہ آپکی بھی
بیٹی ہے- مزمل سجل کے خلاف کوئی بات اپنی ماں کے منہ سے بھی برداشت نہ کرتا-
ہنہہ...میں کسی کو بددعا نہیں دے رہی-- میرے بیٹے حقیقت
بیان کر رہی ہوں میں-
امی...میں آپکا اکلوتا بیٹا ہوں...آپ میری بات نہیں
مانیں گی...امی پلیز میری خوشی کی خاطر مان جائیں-
ٹھیک ہے....پر میری ایک شرط تمہیں ماننی پڑی گی- آخر
کار صفیہ بیگم دل پہ پتھر رکھ کر مان گئیں-
جی بولیں...میں آپکی ہر شرط مانوں گا- مزمل انکا ہاتھ
چومتے ہوئے بولا-
سجل اگر تمہیں چھوڑ کر چلی جائی گی تو تم صرف بتول سے
شادی کرو گے..وعدہ کرو-
اوہ ممی پہلی بات وہ کہیں نہی جائی گی اور اگر چلی جائی
گی تو میں اسکے بعد بتول سے شادی کروں گا...یہ میرا آپ سے وعدہ ہے- وہ ان سے وعدہ
کرکے چلا گیا تھا اور وہ اپنا پلان بنا کر مسکرا دیں-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
عثمان وہ لڑکی دیکھ.... وہ ہمارے ﮈیپارٹمنٹ
کی ہے-- صفدر ایک لڑکی کی طرف اشارہ کرکے بولا- جو ہاتھ سے نقاب کیے کلاس کی طرف
جارہی تھی-
یار کیا ہو گیا ہے تجھے....شریف لڑکیوں کو تو چھوڑ دے-
ہنہ میرے یار آجکل کون شریف ہے....ہر کسی کے دو چہرے
ہیں- صفدر سر جھٹکتے ہوئے کینٹین کی طرف بڑھ گیا تھا اور عثمان اس لڑکی میں کھو
گیا-
ہیلو...آپ میری مدد کرسکتے ہیں؟ عثمان لائبریری میں
بیٹھا پڑھائی کررہا تھا- نسوانی آواز پر پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہی لڑکی کھڑی تھی
جسکو ابھی وہ باہر دیکھ کر آرہا تھا-
جی کیا مدد چاہیے آپکو؟
مجھے وہ کتاب چاہیے..آپکا قد لمبا لگا تو آپکو بول دیا-
وہ لڑکی بک ریک کے سب سے اوپر والے شیلف کی طرف اشارہ کرکے بولی-
جی میں نکال دیتا ہوں- عثمان ہمدانی نے اپنا قد اپنے
باپ سے چڑایا تھا....
تھینکس...وہ لڑکی کتاب لے کر جا چکی تھی اور عثمان
ہمدانی اسکی پشت کو دیکھتے رہ گئے پھر سر جھٹک واپس پڑھائی میں مشغول ھوگئے-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
صفدر یار تیرے ساتھ مسلئہ کیا ہے-- تو جانتا ہے پیپرز
سر پہ ہیں- عثمان ہمدانی کو اسکی باتیں غصہ دلا گئیں تھیں-
اتنی سی تو بات ہے یار...رات کو پڑھ لینا...آجا تھوڑی
دیر- صفدر اسے اپنے گھر لے جانا چاہتا تھا تاکہ موج مستی کرسکے-
اچھا ٹھیک ہے آج آخری بار چل رہا ہوں- عثمان ہمدانی مان
گئے-
وہ دونوں اب گھر آچکے تھے....صفدر ایک چھوٹے سے فلیٹ
میں رہتا تھا-
تیرا فلیٹ تو شاندار ہے- عثمان ہمدانی ستائشی نظروں سے
دیکھ رہے تھے-
تو بھی آجا رہنے..مزا آئیگا-
نہیں...مجھے معاف رکھ...تو خود بھی نہیں پڑھے گا نہ
مجھے پڑھنے دے گا-- صفدر کچن سے پیپسی اور سنیکس لے آیا تھا جو انھوں نے بازار سے
لیے تھے-
اچھا چل آج تو انجوائے کرلے... صفدر مووی لگاتے ہوئے
بولا-
یہ لے کھا اور مزے کر بس آج...کل سے پڑھ لینا-
کیا مطلب تو نہیں پڑھے گا؟ عثمان ہمدانی حیرانگی سے
صفدر کی طرف دیکھ رہے تھے-
پڑھوں گا...پر پیپرز سے ایک دن پہلے- صفدر منہ کے زاویے
بگاڑتے ہوئے بولا-
پاگل ہوگیا ہے تو...فیل ہونے کا ارادہ ہے تیرا؟
ہوجاؤں گا پاس...تو یہ بتا وہ لڑکی کیسی لگی؟ صفدر آنکھ
مارتے ہوئے بولا
کونسی لڑکی؟ عثمان جانتا تھا کہ وہ کس لڑکی کی بات کر
رہا ہے پر انجان بن گیا تھا-
چل بے انجان نہ بن...وہی لڑکی جو کل دکھائی تھی تجھے--
اوہ وہ..اچھی ہے پر تو کیوں پوچھ رہا ہے؟؟
کیونکہ مجھے وہ بہت پسند آئی ہے- تیرا دوست اس سے شادی
کرنا چاہتا ہے- صفدر نے عثمان کے سر پہ بم پھوڑا تھا اور وہ ہکا بکا اسکی شکل
دیکھے جارہے تھے-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
نائلہ تم میری ساری بات سمجھ گئی ہو ؟ جی بھابھی سمجھ
گئی ہوں- منحوس ماری نے آپکا بیٹا بھی نہیں چھوڑا-
تم فکر نہ کرو جو ہم چاہیں گے وہی ہوگا- یہ لڑکی ہمارا
کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہے- صفیہ بیگم منہ میں انگارے چبائے بیٹھیں تھیں-
آپ غصہ نہ ہوں میں ٹھنڈا لاتی ہوں-
ہاں لے آؤ...کانٹے اگ آئے ہیں گلے میں...مزمل کو سمجھا
سمجھا کر-
بتول اپنی ممانی کیلئے شربت بناؤ اور آکر بیٹھو ان کے
پاس- نائلہ بیگم اسکے کمرے میں آگئیں-
ہنہہ کیوں بناؤں...جاکر انکی بہو صاحبہ کو بولیں نا--
بتول سب جان گئی تھی تبھی بگڑے موﮈ
کے ساتھ بولی-
میری جان تم ہی بنو گی انکی بہو...چلو اٹھو..باہر آؤ-
وہ اسے پیار سے سمجھا کر جا چکیں تھیں اور وہ منہ بناتے ہوئے بال درست کرنے لگی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سر...وہ لڑکی روزانہ اس دریا کے پاس بیٹھتی ہے- ابھی اس
کے آنے کا وقت نہیں ہوا ہے...وہ 5 بجے آتی ہیں- انسپکٹر ہمدانی برف باری ہونے کے
باوجود اپنے ساتھیوں کے ساتھ مری آیا تھا-
ٹھیک ہے تم لوگ جاؤ اور جیسا میں نے بولا ہے ویسا ہی کرنا ہے- انسپکٹر ہمدانی کے مشن کا یہ پہلا
مرحلہ تھا اور وہ اس لڑکی کو دیکھنا چاہتا تھا جسے اس کو توڑنا تھا-
تصویر میں تو وہ اسکو دیکھ چکا تھا پر اب اپنے روبرو
دیکھنا چاہتا تھا- اسکو یہاں آئے ایک گھنٹہ گزر چکا تھا پر وہ اب تک نہیں آئی
تھی...اور اب 5:30 ہورہے تھے....
یہ دریا بلکل سنسان جگہ پر تھا جہاں رات کو آنا ناممکن
تھا اسی لیے وہ بھی ٹھنڈ کو بڑھتے اور رات ہوتے دیکھ کر وہاں سے نکل گیا تھا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سجل آج میں بہت خوش ہوں...چلو تمہیں کچھ کھلانے لے جاتا
ہوں- مزمل اسکے روم میں آیا تھا جب وہ اپنی پسندیدہ جگہ پر جارہی تھی-
کیوں خوش ہو؟ اور میں نے کہیں نہیں جانا بلکہ تم اچھے
سے جانتے ہو یہ میرا کہاں جانے کا وقت ہے- سجل غصے سے بولی-
اتنی سردی میں....اچھا ٹھیک ہے وہیں چلتے ہیں...وہاں
جاکر تمہیں بتاؤں گا- مزمل پلان بنانے لگا-
نہیں میں وہاں کسی دوسرے کو برداشت نہیں کرتی ہوں
مزمل...پلیز مائنڈ مت کرنا- ویسے بھی
مائنڈ ہوگا تو کروگے نا- وہ اپنی کتاب اور
قلم اٹھاتے ہوئے بولی-
ویٹ سجل...میری صرف ایک بات سن لو-
ہاں کہو...جلدی ....مجھے دیر ہورہی ہے-
ماما ہم دونوں کی شادی کیلئے راضی ہوگئی ہیں- مزمل اسکو
خوشی خوشی بتانے لگا-
یہ کیا کہ رہے ہو ؟؟ سجل چیخی-
سچ کہ رہا ہوں سجل..سب مان گئے ہیں اور اب اگلے ویکنڈ
ہمارا نکاح ہے...رخصتی بعد میں ہوگی-
مزمل مجھے یقین نہیں آرہا کہ میرا اللہ..میری اتنی جلدی
سن لے گا-
ہاں یقین تو مجھے بھی نہیں آرہا...سجل پلیز آج میرے
ساتھ چلو... ﮈنر
کرنے...دریا کل چلی جانا- وہ منت بھرے لہجے میں بولا
ٹھیک ہے تمہاری مان لیتی ہوں آج- وہ اسکے ساتھ چلی گئی
اور بتول انکو ساتھ جاتا دیکھ کر جل بھن کر رہ گئی تھی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سر یہ دیکھیں....یہی ہے وہ لڑکی- انسپکٹر ہمدانی کی گاڑی اب سجل اور مزمل کی
بائیک کے پیچھے تھی....وہ دونوں عثمانیہ ریسٹورنٹ آئے تھے...انسپکٹر ہمدانی بھی اسی ریسٹورنٹ میں آکر بیٹھ گیا..اسے
اپنے مشن کو پورا کرنے کیلئے یہ سب کرنا ضروری تھا...وہ سجل اور مزمل کی ساتھ والی
ٹیبل پر بیٹھا تاکہ ان دونوں کی ساری باتیں سنی جا سکیں-
سجل...سچ سچ بتاؤ کیا تم اس رشتے سے خوش ہو؟؟ مزمل اس
سے پوچھ رہا تھا-
آف کورس مزمل....اگر میں نا خوش ہوتی تو اس وقت دریا کے
پاس بیٹھی ہوتی نا کہ تمہارے ساتھ خوشی منانے آتی- وہ سوپ پیتے ہوئے بولی-
شکر ہے میں ﮈر
رہا تھا کہ اگر تم نہ مانی تو کیا ہوگا-
مزمل مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی؟
کیا بات سمجھ نہیں آئی اتنی ﺫہین
و فطین لڑکی کو-- مزمل شرارت سے بولا-
یہی کہ تائی اتنی جلدی ہمارا نکاح کیوں کرنا چاہتی
ہیں....اور وہ بھی ایک ہفتہ بس....ایسے کیسے ہوسکتا--
اوہ ہو اب وہ مان گئیں ہیں تو ہمیں ان باتوں سے کیا
لینا دینا-- ویسے بھی ابھی صرف نکاح ہوگا- رخصتی تو ایک سال بعد ہوگی-- مزمل اسے
سمجھاتے ہوئے بولا پر سجل کو اب بھی کچھ اور معاملہ لگ رہا تھا- پر وہ معاملہ کیا
تھا یہ وہ نہیں جانتی تھی اور اگر جان جاتی تو اس سے شادی کیلئے کبھی راضی نہ
ہوتی--
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
صفدر اسکا نام تجھے پتہ ہے؟ عثمان کلاس ختم ہونے کے بعد
اسکے ساتھ کینٹین چلا آیا-
ہاں پتہ ہے...پر تجھے نہیں بتاؤں گا- بس سمجھ لے تیری
ہونے والی بھابھی ہے-
اسکے گھر والے مان گئےہیں؟ عثمان پیپسی کا ٹن کھولتے
ہوئے بولا-
نہیں یار تجھے کیا لگ رہا تھا میں سیریس ہوں؟؟ صفدر
قہقہ لگا رہا تھا-
کیا مطلب ہے تیرا؟؟ عثمان کو اسکی کوئی بات سمجھ نہیں
آئی-
مطلب اسکو استعمال کروں گا اور پھینک دوں گا- اسکی بات
پہ عثمان کی آنکھیں غصے سے سرخ ہوگئیں تھیں-
بند کر اپنی بکواس صفدر...اس خدا سے ﮈر
جو سب کچھ دیکھ رہا ہے- یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے یہ کبھی مت بھولنا-- میں نہیں
جانتا تھا تو اتنا گرا ہوا نکلے گا- عثمان پیپسی کا ٹن وہیں پھینک کر کینٹین سے
باہر آگیا تھا اسے ہر حال میں اس لڑکی کو ﮈھونڈنا
تھا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
آج سرد ہوائیں چل رہیں تھیں اور طوفانی بارش کا بھی
امکان تھا-
اتنے برے موسم میں بھی وہ یہاں چلی آئی تھی- اسے ہر حال
میں اپنی ﮈائری
لکھنی تھی...وہ شال لے کر نکلی تھی تب بھی سردی سے برا حال تھا- وہ مری کے موسم کی
عادی تھی پر سردیوں میں وہ پچھلے سال تک اسلام آباد چلی جایا کرتی تھی کیونکہ اسے
کالج جانا ہوتا تھا- اور مری سے اسلام آباد تک کا سفر ہی تھکا دینے والا ہوتا تو
وہ وہیں اپنے باپ کے پاس رہ جاتی تھی...اب وہ پرائویٹ پڑھ رہی تھی- اسی لیے وہ
یہیں رہ گئی تھی-
وہ دریا تک آگئی تھی پر اب واپسی مشکل لگ رہی
تھی..کیونکہ بادلوں کی وجہ سے جلد ہی اندھیرا ہونے والا تھا-
وہ وہیں دریا کے کنارے بیٹھی تھی اور جلدی جلدی ﮈائری
لکھنے میں مصروف ہوگئی جبھی اسے کسی گاڑی کی آواز آئی- وہ حیران رہ گئی کہ اس وقت
کوئی بھی یہاں نہیں آتا تھا پھر آج کون آگیا-
کون ہے؟ وہ آوازیں لگا رہی تھی پر کوئی کچھ نہیں بولا....
وہ اب گاڑی کے قریب آچکی تھی...اسے اندر بیٹھا کوئی نظر
آیا جو فون پر بات کرہا تھا-
سجل نے شیشہ کھٹکایا تو وہ کار سے اتر آیا-
جی مس..کہیے کوئی مسلئہ ہے آپکو؟؟ وہ سجل سے پوچھ رہا
تھا اور سجل اس شاندار مرد کو دیکھتی رہ گئی- اس نے آج تک اتنا شاندار مرد کبھی
نہیں دیکھا تھا- تبھی وہ اسے گھورنے لگی-
مس...میں آپ سے کچھ پوچھ رہا ہوں؟ وہ اسکی آنکھوں کے
سامنے چٹکی بجاتے ہوئے بولا اور سجل اپنے حواسوں میں لوٹ آئی-
نن..نہیں کچھ بھی نہیں--
تو پھر آپ مجھے اتنا گھور کر کیوں دیکھ رہی ہیں؟؟
کیونکہ آپ بہت اچھے لگ رہے ہیں...بلکل کسی شہزادے کی
طرح-- آج تک میں نے آپ جیسا شاندار مرد نہیں دیکھا-
اچھا...پھر تو آپ مجھ سے شادی کیلئے بھی مان جائیں گی-
مصطفی ہنستے ہوئے بولا-
نن...نہیں میری شادی ہونے والی ہے.... سجل اسکی بات پہ
گڑ بڑا کر بولی تھی-
اور اگر شادی نہ ہوتی تب تو آپ راضی ہوجاتیں نا؟؟
ہاں جی...بالکل کیوں کہ آپ کو کوئی بھی لڑکی جانے بغیر
بھی پسند کرسکتی ہے-
مصطفی کو یہ لڑکی آسمان سے اتری پری لگ رہی تھی اور
ہنستے ہوئے اسکے گالوں پہ جو ﮈمپل
پڑا تھا اسے وہ بہت اچھا لگا... اسنے آج تک اتنی پاکیزہ صورت اور نور سے بھر پور
چہرہ نہیں دیکھا تھا- جس طرح اس لڑکی کو وہ شہزادہ لگ رہا تھا بلکل اسی طرح اسے وہ
بھی شہزادی لگی تھی-
کیا میں آپکی شادی میں آسکتا ہوں؟؟ وہ دوستانہ انداز
میں پوچھ رہا تھا-
جی بلکل 31 دسمبر کو میرا نکاح ہے....
وہ کہ کر چلی گئی تھی اور مصطفی اسکی بے وقوفی پہ ہنس
دیا تھا- وہ یہی سوچ رہا تھا کہ یہ لڑکی اپنا پتہ نہیں بتا گئی تو وہ اسکے نکاح
میں کیسے جاتا---
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
آپ سے میں نے ایک بات کرنی ہے...کیا آپ میرے ساتھ چل
سکتی ہیں- عثمان ہمدانی اس لڑکی کو ﮈھونڈ
چکا تھا اور اب اسے سب بتانا چاہتا تھا- تاکہ ایک لڑکی کی زندگی برباد نہ ہو-
جی پر کہاں جانا ہے؟ وہ لڑکی نقاب میں تھی- اسکی صرف
آنکھیں نظر آرہیں تھیں-
آپ جہاں چلنا چاہیں..عثمان ہمدانی خود اپنی مرضی کی جگہ
بتاتا تو وہ لڑکی کبھی اس پر اعتبار نہ کرتی-
سامنے کافی شاپ ہے...وہاں بیٹھ کر بات کرلیتے ہیں- لڑکی
کافی شاپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی
جی ٹھیک ہے-
وہ دونوں اب کافی شاپ میں بیٹھے تھے-
میں آپ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں- آپ مجھ پہ
بھروسہ کرسکتی ہیں- میں آپکو جانتا نہیں ہوں...ایک لڑکی کی زندگی برباد نہ ہو اسی
لیے میں آپکو ایک بات بتانا چاہتا ہوں- عثمان ہمدانی بات کا آغاز کرچکے تھے-
جی آپ بولیں...میں سن رہی ہوں..اور رہی بھروسے کی بات
تو مجھے آپ پر بھروسہ ہے تبھی میں آپکے ساتھ چل کر یہاں تک آئی ہوں-
میرا ایک دوست ہے- صفدر شاہ...وہ آپکو پسند کرنے لگا ہے
پر.....عثمان ہمدانی سے آگے بولا نہیں گیا-
جی...میں جانتی ہوں اسکے بارے میں اور آپکو آگے بتانے
کی نوبت بھی پیش نہیں آئی گی کیونکہ میں یہ سب جانتی ہوں- اسی لیے کل سے میں
یونیورسٹی نہیں آؤں گی- آپکا بہت بہت شکریہ...کہ آپ نے ایک لڑکی کی زندگی کے بارے
میں سوچا- اور اسی لیے آپ پر بھروسہ کرنے لگی ہوں--
آپ یہ سب کیسے جانتی ہیں؟؟ عثمان ہمدانی حیران تھے-
میں نے کینٹین میں آپ دونوں کی باتیں سن لی تھیں- آپ اس
شخص سے دوستی مت توڑیے گا میرے لیے- وہ لڑکی کافی کا سپ لیتے ہوئے بولی-
میں ایسے شخص سے دوستی رکھنا کبھی پسند نہیں کروں گا جو
عورتوں کو ٹشو پیپر سمجھتا ہو- اسکے ساتھ دوستی میرے کردار پر بھی اثر انداز ہوگی-
عثمان ہمدانی نے اب قسم کھا لی تھی کہ اس شخص کی شکل
بھی نہیں دیکھیں گے-
ہنہہ جب اپنے گھر میں آپکو ٹشو پیپر سمجھ کر استعمال
کیا جائے تو باہر والوں سے کیسا گلہ- لڑکی روتے ہوئے بولی-
کیا مطلب آپکا...؟؟
کچھ نہیں....میں اب چلوں گی- وہ لڑکی اب اٹھنے لگی تھی-
رکیں...کیا آپکو مجھ پر اب بھی بھروسہ نہیں ہے؟ آپ مجھ
سے اپنی پرابلم شئیر کرسکتی ہیں..پلیز بتائیں- عثمان ہمدانی کو اس لڑکی پہ ترس
آرہا تھا
مجھے آپ پر بھروسہ ہے..یہ میں آپکو بتا چکی ہوں- اور
رہی بات پرابلم کی تو وہ پرابلم نہیں عذاب
ہے- جو مجھ پر روز نازل کیا جاتا ہے-
آپ کھل کر بات کریں....کیسا عذاب؟؟
آپ مجھ پہ نازل کیا جانے والا عذاب سن کر صرف ہمدردی ہی
کرسکتے ہیں- وہ لڑکی سرگوشی کے انداز میں بولی تھی-
میں آپ سے ہمدردی کرنے کے بجائے آپکا ساتھ دینا چاہتا
ہوں...آپکی مدد کرنا چاہتا ہوں- آپ صرف ایک بار بتا کر تو دیکھیں-
کیا بتاؤں...یہی کہ میرا باپ میری ماں کو قتل کرچکا ہے
اور اب مجھے زندہ درگور کرنا چاہتا ہے- بتائیں کیسی ہیلپ کریں گے آپ میری؟ لڑکی اب
رودی تھی اور عثمان ہمدانی اسے چپ کرانے لگ گئے تھے کیونکہ لوگ انکی طرف متوجہ
ہورہے تھے-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
بھابھی....یہ لیں جوڑا پہنا دیجیئے گا اس منحوس ماری
کو... صفیہ بیگم نیچے سجل کا جوڑا لے کر آئیں تھیں جو مزمل نے اپنی پسند سے خریدا
تھا-
واؤ ممانی یہ تو مجھ پر بہت اچھا لگے گا...میں رکھ لوں-
بتول سجل کیلئے آیا جوڑا دیکھ رہی تھی- اسنے سوچ لیا تھا کسی طرح بھی سجل سے مانگ
لے گی اور اب سجل کو اسی طرف آتا دیکھ کر بولی-
نہیں بیٹا...میں آپکو دوسرا دلا دوں گی یہ سجل کے نکاح
کا ہے- نائلہ بیگم بھی اسے آتا دیکھ چکیں تھیں-
بتول یہ تم رکھ لو...میں کوئی اور پہن لوں گی- وہ بڑے
پیار سے بولی- اسکی عادت تھی ہر اپنی چیز دوسروں کو دینے کی...اور دوسروں کو بس
لینے کی عادت تھی ایک مزمل تھا جو اسے بہت کچھ دیتا تھا پر سجل وہ سب بھی بتول اور
سمیرا کو دے دیتی تھی....یہی بات مزمل کو تپا دیتی تھی اور اب اوپر جاتا مزمل یہ
منظر دیکھ چکا تھا تبھی اسی طرف چلا آیا تھا-
کوئی ضرورت نہیں ہے...یہ سوٹ میں نے اپنی پسند سے خریدا
ہے سجل کیلئے...بتول اسکو واپس دو- مزمل غصے سے بولا-
افف اوہ مزمل....مجھے ویسے بھی یہ کالے رنگ والا سوٹ
پسند آیا ہے اور میں اپنے نکاح میں یہی پہنوں گی- وہ بلیک سوٹ دیکھتے ہوئے بولی-
جو کہ صفیہ بیگم نے سیل میں سے دو ہزار کا لیا تھا- جس پر کوئی بھاری کام نہ ہونے
کے برابر تھا-
یہ سستا سا سوٹ تم اپنے نکاح میں پہنو گی؟؟ مزمل کا
چہرہ غصے سے لال بھبوکا ہوچکا تھا-
ہاں نا...تم جانتے ہو مجھے بھاری کپڑے نہیں پسند اور یہ
کلر بھی میرا فیورٹ ہے-
کوئی ضرورت نہیں ہے...اٹھو ابھی میں تمہیں بازار سے دلا
آتا ہوں...اور بتول تمہیں میں بعد میں پوچھتا ہوں- وہ غصے سے سجل کا ہاتھ پکڑ کر
اسے لے جاچکا تھا اور صفیہ بیگم غصے میں سجل کو گالیاں دیتی رہیں....---
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
عثمان ہمدانی کلثوم بانو سے نکا ح کر چکے تھے- اور اب
وہ انکے گھر آچکیں تھیں- عثمان ہمدانی نے صفدر شاہ سے سارے رابطے ختم کردیے تھے
اگر وہ کلثوم بانو سے شادی نہ کرتے تب بھی انکا صفدر جیسے شخص سے رابطہ رکھنے کا
کوئی ارادہ نہیں تھا-
کلثوم آپ اپنے والد سے ملنا چاہتیں ہیں تو آپکو میری
طرف سے اجازت ہے- عثمان انکے پاس بیٹھتے ہوئے بولے-
نہیں مجھے کسی سے نہیں ملنا عثمان...اب صرف آپ میرے ہیں
اور میں آپکی ہوں- مجھے اسکے علاوہ کچھ نہیں چاہیے- کلثوم کی آنکھوں میں نمی تھی-
انہیں اپنی ماں بہت یاد آتی تھی پر جانے والے رونے سے واپس نہیں آسکتے-
ٹھیک ہے بیگم صاحبہ ہم آپکے ہی ہیں اور رہیں گے...اب
آرام کیجئے- عثمان شرارت بھرے لہجے میں کہتے ہوئے لیمپ آف کرچکے تھے---
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
مزمل آپ زبردستی کیوں لے آئے...وہ بلیک سوٹ بہت پیارا
تھا- سجل کا ہاتھ اب بھی اسکے ہاتھ میں ہی تھا-
میں اپنی ہونی والی بیوی کو نکاح میں دو ہزار کا جوڑا
پہننے نہیں دے سکتا...تمہیں بلیک کلر پسند ہے تو اسی کلر کا کوئی لے لو-- پر لینا
تم نے ہر حال میں ہے ورنہ مجھے زبردستی کرنے آتی ہے-
وہ دونوں شاپنگ مال آگئے تھے پر سجل کو ایک بھی جوڑا
پسند نہیں آیا-
یہ دیکھو....کتنا پیارا ہے- مزمل ایک بلیک سوٹ نکال کر
اسے دکھا رہا تھا-
ہاں....یہ تو بہت پیارا ہے...ٹھیک ہے بس یہی لے لیتے
ہیں- میں بہت تھک چکی ہوں-
سر سوری یہ لاسٹ سوٹ تھا...وہ سر لے چکے ہیں- سیل مین
دوسری طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا تھا جہاں ایک آدمی فون پہ بات کر رہا تھا-
مزمل پھر میں نے کچھ نہیں لینا...گھر چلو- سجل کو
تھکاوٹ ہورہی تھی-
سر آپ ان سے بات کرلیں..اگر وہ آپکی مان جائیں تو ہم آپ
کو دے دیں گے- سیل مین اب اسے مشورے سے نواز رہا تھا-
سجل ایک دفعہ ان سے بات کرکے دیکھ لیتے ہیں- کیا پتہ وہ
مان جائیں- مزمل اب اسے لیے اس آدمی کے پاس آگیا تھا-
ایکسکیوزمی...مزمل کے کہنے پہ وہ مڑا تھا اور سجل اسے
گھورتی ہی رہ گئی تھی اور اس آدمی کی بھی پہلی نظر سجل پہ پڑی-
اوہ....آپ یہاں بھی مل گئیں- آپ کہیں میرا پیچھا تو
نہیں کرتیں؟ وہ شرارت سے جھک کر سجل کے کان میں بولا تھا اور مزمل اسکی اس حرکت پر
تپ گیا-
اے..مسٹر یہ کیا بد تمیزی ہے....اس فضول قسم کی گفتگو
سے پرہیز کریں- یہ میری ہونی والی بیوی ہے- مزمل کی غصے سے رگیں تن گئیں-
اوہ..یہ آپکے ہونے والے شوہر ہیں- زبردست...پر مجھ سے
زیادہ نہیں اچھے ہیں نا... اور آپ مسٹر شوہر صاحب آپکی بیوی نے ہی میرا پیچھا کیا
ہے اور آپ ہمیں سنا رہے ہیں-
آپکو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے..ہم نے آپکا پیچھا نہیں
کیا- ہم سوٹ لینے آئے تھے اور مجھے وہ بلیک سوٹ پسند آیا ہے جو آپ لے چکے ہیں- سجل
نے اسکی غلط فہمی دور کی تھی اور مزمل نے شکر ادا کیا تھا کہ جو وہ سوچ رہا تھا
ویسا کچھ نہیں تھا-
اچھا...تو اب آپ وہ لینا چاہتی ہیں-- اوکے لے لیں پر
میری ایک شرط ماننی پڑی گی- مصطفی مسکرا
رہا تھا- کیونکہ اس نے یہ سوٹ اپنی بہن کیلئے لیا تھا جسکی اب شادی ہوچکی تھی- اسے
اپنی بہن اتنی پیاری نہیں تھی کہ وہ ایک سوٹ کیلئے ان سے لڑتا-
جی کہیے آپکی کیا شرط ہے- اب کی بار مزمل بولا-
مجھے تم اپنی ہونے والی بیوی دے دو...اسے یہ سوٹ بھی مل
جائے گا- وہ ہنستے ہوئے بولا-
مزمل کو اسکی بات سن کر سکتہ ہوگیا تھا اور سجل آنکھیں
پھاڑ پھاڑ کر اس آدمی کو دیکھے جا رہی تھی-
دیکھ لو تمہاری ہونے والی بیوی اپنے ہونے والے شوہر کو
دیکھنے کے بجائے مجھے گھور رہی ہے- وہ
کبھی بھی کسی سے ایسے بات نہیں کرتا تھا اور ہنستا وہ صرف اپنی ماں کے
سامنے تھا-
بکواس بند کرو اپنی...نہیں دینا سوٹ تو صاف صاف بولو-
آپ تو غصہ کر گئے..سوری میں بس مذاق کر رہا تھا- میری
شرط یہ ہے کہ اسکا بل میں دوں گا ورنہ سوٹ بھی آپکو نہیں ملے گا-
نہیں مجھے نہیں چاہیے..مزمل چلو- سجل اسکا ہاتھ پکڑتے
ہوئے باہر کی طرف نکلنی لگی جب اسے مزمل نے روک لیا-
سجل لے لو...پلیز....میں اب اور نہیں گھوم سکتا- تم بھی
تھک چکی ہو- مزمل اسرار کر رہا تھا تو اسے ماننا پڑا-
ٹھیک ہے- اسکے کہنے پر وہ لوگ کاؤنٹر کی طرف آگئے اور
دس ہزار کے سوٹ کا بل مصطفی نے ہی دیا-
تھینک یو سر...مزمل اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے بولا-
اٹس اوکے...خدا حافظ-
وہ چلا گیا تھا اور سجل سوٹ لیے گھر آگئی-
★★★★★★★★★★★★★★★
CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING
Comments
Post a Comment