Kaanch ki guria novel by Hafiza Sobia Arif Episode 2

Free downlaod Kaanch ki guriya novel by Hafiza Sobia Arif Complete pdf

«کانچ کی گڑیا»
از قلم :"حافظہ ثوبیہ عارف"
(قسط 2)
اسلام علیکم امی..کیسی ہیں؟ وہ اپنی ماں کے پاس آکر بیٹھ گیا-
ٹھیک ہوں...آج جلدی آگیا میرا بیٹا- خیریت ہے- وہ تسبیح سائیڈ پہ رکھتے ہوئیں بولیں-
ہاں کیونکہ اگلے کچھ دن میں گھر نہیں آسکوں گا- وہ ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا -
کیوں ایسا کیا کام ہے- کلثوم پریشان ہوگئیں تھیں...انھیں عجیب وہم ستانے لگے-
بتایا تو تھا آپکو ایک کانچ کی گڑیا کو توڑنا ہے اور پھر اسکا تماشا دیکھنا ہے- انسپکٹر ہمدانی مسکراتے ہوئے بولا-
بیٹا میں نے تمہاری تربیت ایسی نہیں کی ہے- اگر تم نے کچھ بھی ایسا کیا تو میں تمہیں اپنی شکل بھی نہیں دکھاؤں گی کیونکہ میرا بیٹا اس شخص جیسا نہیں ہوسکتا- کلثوم بانو روتے ہوئیں بولیں-
امی...اب میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا کیونکہ میں نے ساری زندگی اسی دن کیلئے گزاری ہے ورنہ میں اسی وقت مر چکا ہوتا- وہ انکی باتیں سن کر اٹھ گیا-
تو تم میری بات نہیں مانو گے...ٹھیک ہے کل میں تمہیں اس گھر میں نظر نہیں آؤں گی- وہ اٹھنے لگی تھیں-
امی..پلیز مت کریں ایسا- اس دنیا میں آپکے سوا کوئی نہی ہے میرا...مجھے سمجھنے کی کوشش کریں- میں اس لڑکی کے ساتھ کچھ نہیں کروں گا یہ میرا آپ سے وعدہ ہے پر اس ظالم شخص کو میں ضرور سزا دوں گا-
اسکی باتیں سن کر کلثوم بانو سانس نہ لے پائیں تھیں- انہیں اپنے بیٹے سے ایسی امید نہ تھی....انکو اسکی باتیں سن کر دل کا دورہ پڑگیا اور وہ اپنے بیٹے کو اس دنیا میں اکیلا چھوڑ کر جا چکی تھیں---
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
یار عثمان تو کہاں مرگیا تھا..اتنے دن غائب رہا؟ صفدر اسے یونیورسٹی آتا دیکھ کر اسکے پاس بھاگا آیا تھا- پر عثمان نے اسکی کسی بات کا جواب نہ دیا-
تو مجھ سے اس لڑکی کیلئے ناراض ہورہا ہے-- یار وہ تو بھاگ گئی...اور اب میں بھی سدھر چکا ہوں..معاف کردے مجھے- صفدر شاہ اس سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنے لگا-
صفدر مجھ سے نہیں اللہ سے معافی مانگو...شاید وہی تمہیں معاف کردے- عثمان ہمدانی اسکو کہتے ہو وہاں سے جا چکے تھے اور صفدر شاہ اب یہ سوچ رہا تھا کہ اسکا اعتماد واپس کیسے جیتنا ہے--
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
واؤ...یہ تو اس سے بھی زیادہ پیارا ہے- کتنے کا لیا مزمل بیٹا- صفیہ بیگم،نائلہ بیگم، بتول اور سمیرا  کے سوٹ دیکھ کر ہوش اڑ گئے تھے-
دس ہزار کا ہے امی- مزمل خوشی سے سب کو بتا رہا تھا اور سجل خاموش تھی اسے اس آدمی کی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اسنے وہ سب باتیں کیوں کہیں-
کہاں کھوگئی ہو سجل- مزمل اسکے آگے چٹکی بجاتے ہوئے بولا-
کہیں نہیں...میں سوچ رہی تھی یہ سوٹ ویلیمے میں پہن لوں گی...اتنا بھاری ہے-
کوئی ضرورت نہیں ہے...تم یہی پہنو گی اور اب میں ایک لفظ نہیں سنوں گا- مزمل غصے سے بولتا ہوا اوپر چلا گیا-
اویں تم نے اسے غصہ دلادیا...اتنے نخرے مت دکھاؤ-- پہن لو- بتول جلتی بھنتی اسے سنا کر چلی گئی-
اوور کیا ہر وقت کے نخرے...یہی حرکتیں کرکے تم مظلوم بننے کی کوشش کرتی ہو اور مزمل ہمیں ظالم سمجھتا رہتا ہے...سمیرا کو بھی موقع میسر ہوگیا تھا...وہ بھی اپنی بھراس نکال چکی تھی...سجل کو پتہ تھا اب پھپھو کی باری ہے تبھی وہ  چپ چاپ سوٹ اٹھا کر کمرے میں چلی گئی -
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
وہ اپنی ماں کو دفن کر آیا تھا...اسکی بہن تھوڑی دیر آکر افسوس کر کے جا چکی تھی اور اب وہ اس بھری دنیا میں تنہا تھا- نہ اسکے پاس ماں تھی اور نہ باپ تھا اور اس سب کا مہ دار وہ ایک شخص کو سمجھتا تھا- وہ شخص جس نے اسکے باپ کو مار الا تھا اور ماں کو ساری دنیا کے سامنے رسوا کرچکا تھا-
اسکی ایک ہی بہن تھی جسکی وہ جلد ہی شادی کرچکا تھا- تاکہ اپنا ہر ایک ایک بنایا گیا منصوبہ پورا کر سکے- وہ جب 7 سال کا بچہ تھا تب اسکا باپ اس دنیا سے چلا گیا تھا اور آج وہ 27 سال کا مرد تھا اب اسکی ماں اسے چھوڑ کر چلی گئی-
اسکا دل کر رہا تھا اس ظالم شخص کا گلا دبا الے پر وہ اسے آسانی سے موت نہیں دے سکتا تھا- اسکو اس ظالم شخص سے انتقام لینا تھا....اور اسکو تڑپا تڑپا کر مارنا تھا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سجل وہ لڑکا تم سے ایسے کیوں بات کر رہا تھا جیسے تم اسے کافی عرصے سے جانتی ہو؟ مزمل کو ساری رات یہی باتیں تنگ کر رہی تھی...اسی لیے وہ اب صبح صبح اسکے پاس چلا آیا-
نہیں..ایک دن وہ دریا کے کنارے مجھے ملا تھا....تو اسے میں نے بتایا تھا میری شادی ہونے والی ہے اور اس نے مجھ سے آنے کا پوچھا بھی تھا تو میں نے کہ دیا کہ آجانا....پر مزمل تم فکر نہیں کرو وہ آہی نہیں سکتا کیونکہ گھر کا پتہ میں دینا ہی بھول گئی تھی- سجل نے اس کو ہر بات سے آگاہ کردیا تاکہ نئی زندگی میں اسکے لیئے کوئی مسائل نہ کھڑے ہوں....اور اب تو نکاح میں صرف دو دن باقی تھے- ایسے میں وہ مزمل کو کسی شک میں نہیں النا چاہتی تھی-
بہت اچھا کیا...اب آج تو تم جاؤگی ہی نہیں...نہ ہی وہ پتہ پوچھ سکے گا-
کیا مطلب- کیوں نہ جاؤں...میں جاؤں گی آج بھی...بس کل نہیں جاؤں گی کیونکہ مجھے آج لکھنا ہر حال میں ہے- سجل اسکی بات پہ غصے سے بولی...اسے لکھنے اور پڑھنے کا بہت شوق تھا- وہ چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھتی تھی اور بہت سے ناول پڑھ چکی تھی- پر اب اسے زیادہ وقت نہیں ملتا تھا...اسی لیے وہ صرف اپنی ائری لکھا کرتی تھی- جس میں اسکی زندگی کا ایک ایک حرف موجود تھا-
سجل کیا ہوگیا ہے...امی مار الیں گی تمہیں اگر تم آج گئی- اور میں اب کوئی بدمزگی نہیں چاہتا اسی لیے تم آج نہ جاؤ تو بہتر ہوگا-
مزمل ابھی ہماری شادی بھی نہیں ہوئی اور تم مجھ پر رعب جمانے لگے ہو- میں آج تو نہیں مانوں گی- تم بہت اچھے سے جانتے ہو مجھے جب میں کچھ کرنی کی ٹھان لیتی تو پیچھی نہیں ہٹتی ہوں--- وہ غصے سے بولتی ہوئی کمرے سے جاچکی تھی اور مزمل تپتا ہوا اپنے پورشن میں چلا گیا---
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
عثمان تو پارٹی نہیں دے گا اس دفعہ اپنے یار کو- صفدر اور عثمان کا رزلٹ آچکا تھا- عثمان ہمدانی اور صفدر کی دوستی ہو چکی تھی پر اب عثمان کو اس شخص پر بھروسہ نہیں رہا تھا- اس نے اب تک اپنی شادی کا کر صفدر سے نہیں کیا تھا جبکہ اسکی شادی کو ایک سال ہوچکا تھا اور ایک ننھا بھی وجود میں آگیا تھا-
نہیں میں بزی ہوتا ہوں اب-- لائف بہت ٹف ہوچکی ہے صفدر- عثمان ہمدانی اسے یہی کہتے تھے-
یار تیرے یار کی شادی بھی ہونے والی ہے اب تو...تو بھی کرلے شادی- صفدر شاہ اس سے اپنی شادی کا کر کر رہے تھے اور عثمان ہمدانی کو لگا تھا کہ وہ واقعی سدھر گیا ہے- تبھی شادی بھی کر رہا ہے--
ہاں ہاں کرلوں گا....تیری شادی کب ہورہی ہے؟؟ عثمان اپنی بات ٹالتے ہوئے اسکی شادی کا پوچھنے لگا-
اگلے ویکنڈ ہی یار...میری اماں کو بہت جلدی پڑی ہے- اور اب تو بڑے بھائی کے بھی دو بچے ہوچکے ہیں-
مبارک ہو تجھے....میں تیرا گفٹ کل لے آؤں گا- عثمان نے اسکے گلے لگتے ہوئے مبارکباد دی-
تو آجا شادی میں یہی میرے لیے تحفہ ہے-
نہیں صفدر میں کیسے آسکتا ہوں...میری ایک دن کی غیر حاضری سے مجھے اگلے پورے مہینے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے- اور پھر تیری شادی تیرے گاؤں میں ہورہی ہے- عثمان ہمدانی بہانہ بنا رہے تھے جبکہ ان کو اب بہت اچھی جاب مل چکی تھی اور انکی تنخواہ بھی بہت اچھی تھی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سجل کہاں جا رہی ہو؟ صفیہ بیگم اسے باہر جاتے دیکھ چکی تھیں تبھی بولیں-
سب جانتے ہیں کہ اس ٹائم میں کہاں جاتی ہوں تو آپ کیوں یہ سوال کر رہیں ہیں- سجل کو صبح سے مزمل کی باتوں پہ غصہ آیا ہوا تھا-
بیٹا...پرسوں تمہارا نکاح ہے...گھر میں رہو تو زیادہ اچھا ہے...اتنی سردی میں جنگلوں میں نہ جاؤ- صفیہ بیگم اسے سمجھاتے ہوئیں بولیں تھیں کیونکہ وہ جانتی تھیں انکے بیٹے تک سب آوازیں جارہیں ہیں ورنہ انکی بلا سے سجل جہنم میں جائے یا جنگلوں میں انہیں کیا فرق پڑتا تھا-
تائی میں صبح ہی مزمل کو بتا چکی ہوں کہ میں ہر حال میں دریا جاؤں گی...آپکی بات مان لیتی ہوں- کل اور پرسوں نہیں جاؤں گی- سجل کو انکی اچھے سے کہی گئی بات کی سمجھ نہیں آئی تھی کیونکہ اس گھر میں اس سے اچھے سے کوئی پیش نہ آتا تھا سوائے مزمل کے....اور آج مزمل بھی انہیں کی زبان بولنے لگا تھا-
سجل جب تمہیں ماما منع کر رہی ہیں تو تمہیں ایک دفعہ کی کہی بات سمجھ نہیں آتی ؟؟ مزمل اسکی ساری باتیں سن چکا تھا- سجل کو اب سمجھ آئی کہ تائی اتنے اچھے سے کیوں پیش آئیں تھیں-
میں تمہیں صبح بتا چکی ہوں کہ میں جاؤں گی...میرا بہت وقت برباد ہوچکا ہے...خدا حافظ- وہ نکل چکی تھی کہ اس سے پہلے آکر کوئی اور اسے روکے اور تماشہ بنے-
دیکھ لیا تم نے....کیسی زبان چلتی ہے اسکی-- بڑوں سے بات کرنے کی تمیز ہی نہیں ہے- صفیہ بیگم غصے سے مزمل کو بتا کر جا چکیں تھیں اور مزمل سوچتا رہ گیا کہ سجل ایسی کیوں ہوگئی ہے------
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سر...صرف دو دن باقی رہ گئے ہیں اور آپ نے اب تک اپنے منصوبے کیلئے کچھ کیا نہیں-- انسپکٹر ہمدانی کبھی بلاوجہ اپنے کام سے غیر حاضر نہیں ہوتا تھا- وہ یہی سوچ کر اپنے کام میں واپس لگ گیا تھا کہ جانے والے رونے سے واپس آیا نہیں کرتے اور اسے اپنے باپ سے کیا گیا وعدہ پورا کرنا تھا-
مجھے اب آپ میں سے کسی ضرورت نہیں ہے- میرا مشن میں خود سر انجام دوں گا- وہ سوچ چکا تھا کہ اس ظالم شخص کو کیسے برباد کرناہے-
پر سر...آپ نے کہا تھا کہ...
میں نے جو بھی کہا تھا اسے بھول جاؤ کیونکہ یہ مشن میرا ہے اور میں خود ہی کسی کی مدد کے بغیر پورا کروں گا-- آپ لوگ اپنے کام پر توجہ دیں- وہ انکی بات کاٹ کر بولا تھا اور وہاں سے چلا گیا- اسے اپنے گھر جاکر منصوبے کے ہر ایک ایک چیز پر سوچنا تھا کہ اسے کونسا کام کس وقت کرنا ہے اور کہاں کرنا ہے--
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
ہوگئی تیری شادی؟ صفدر دو ہفتے بعد اس سے مل رہا تھا پر عثمان کو اسکے چہرے پہ کوئی خوشی نظر نہیں آئی تھی-
ہاں ہوگئی ہے...تو گھر چل میرے ساتھ...ملواتا ہوں تجھے تیری بھابھی سے- صفدر ایسے بولا تھا جیسے وہ اپنے کسی دشمن سے ملوانا چاہ رہا ہو-
ہاں آؤں گا کسی دن تیری بھابھی کے ساتھ- عثمان ہمدانی نے اسکے سر پہ بم پھوڑا تھا-
یہ کیا کہ رہا ہے تو...تو نے شادی کرلی اور مجھے بتایا بھی نہیں- صفدر شاہ کو جھٹکا لگا تھا-
ہاں کرچکا ہوں- بس جلدی میں ہوئی تھی اسی لیے نہیں بتایا اور اب تیری بھی ہوگئی ہے تو اسی لیے بتایا-
اچھا کس سے کی ہے؟ کون ہے؟ صفدر شاہ ایسے پوچھ رہا تھا جیسے اس نے اس سے شادی کرنی ہو-
ایک کام کرتے کل ہم مل لیتے ہیں کسی ہوٹل میں...تو اپنی بیوی کو ساتھ لانا اور میں اپنی والی کو ساتھ لاؤں گا- عثمان پروگرام ترتیب دینے لگا-
ہنہہ میری بیوی دکھانے کے لائق نہیں ہے- مجھے تو اب تک وہ لڑکی نہیں بھولی- صفدر شاہ کی بات پر عثمان حیران رہ گیا تھا- کہ یہ لڑکا اب تک نہیں سدھرا ہے-
کونسی لڑکی؟ عثمان انجان بنتے ہوئے بولا-
یار وہی جسے میں استعمال کرنا چاہتا تھا- پر وہ بھاگ گئی تھی-
اوہ...تو اسکی بات کر رہا ہے...چھوڑ یار- اپنی بیوی کے ساتھ لائف گزار- عثمان دوستانہ انداز میں مشورے سے نواز رہا تھا-
یار وہ مجھے نہیں پسند ہے...اماں نے زبردستی تھوپی ہے-- پیاری بہت ہے پر ہر وقت لڑتی رہتی ہے- میں تنگ آگیا ہوں-
آہستہ آہستہ ٹھیک ہوجائے گا سب کچھ...چل کافی پلاتا ہوں-
وہ دونوں اب کافی شاپ پر آگئے تھے-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سجل میرا نام لکھوانا مہندی پر....وہ دونوں چھت پر بیٹھے تھے- کل مہندی کی چھوٹی سی تقریب رکھی گئی تھی- اور مزمل اسے اپنا نام لکھوانے کو کہ رہا تھا-
نہیں میں ایم اور ایس لکھواؤں گی...پورا نام برا لگتا ہے- سجل اپنی شال سہی کرتے ہوئے بولی-
نیچے چلیں..ٹھنڈ لگ رہی ہے بہت..میں بیمار ہوجاؤں گی- اور پھر تم کسی اور سے نکاح کرلینا- سجل شرارت سے بولی-
ہنہہ کسی اور سے تب کروں گا جب تم مر جاؤ گی- مزمل کو سجل ایسی ہی اچھی لگتی تھی ہنستی مسکراتی ہوئی اور ہنستے ہوئے اسکا جو مپل پڑتا تھا اسے وہ بہت پسند تھا-
دفع ہوجاؤ..بدتمیز میں نہیں بات کرتی تم سے- سجل منہ بسورتے ہوئے بولی-
مزمل کا جاندار قہقہ فضا میں بلند ہوا-
ہنس لو- ہنس لو....میں نہیں شادی کرتی تم سے- وہ رونے کی ایکٹنگ کرنے لگی-
آئے گندی لڑکی....روتے ہوئے ناک بھی بہہ رہی ہے- مزمل اسے چھیڑ رہا تھا-
ہاں ہاں تم لڑکے بس اچھے....لڑکیاں گندی ہیں نا- سجل جل کر بولی اور مزمل سے ہنسی روکنا مشکل ہوگیا تھا- اسے ہنستا دیکھ کر سجل بھی دھیرے سے ہنس دی تھی-
ان دونوں کے ساتھ ساتھ آسمان پر چاند بھی ہنس رہا تھا ، مسکرا رہا تھا اور انکی خوشیوں پر خوش ہو رہا تھا پر کون جانتا تھا کہ اللہ کو کچھ اور ہی منظور ہے-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
ان سے ملو یہ ہیں میری پیاری بیوی کلثوم بانو اور کلثوم یہ صفدر ہے- عثمان اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ ہوٹل آچکا تھا اور صفدر بھی اپنی بیوی کو زبردستی لے آیا تھا-
کلثوم بانو- صفدر کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں تھیں- اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی کلثوم بانو ہے-
کیسا لگا میرا سرپرائز صفدر شاہ- عثمان ہمدانی مسکراتے ہوئے بولا-
تیرا بچہ بھی ہوگیا عثمان اور تو نے بتایا تک نہیں- صفدر اپنے حواسوں پر قابو پا چکا تھا...اسے اب سمجھ آئی تھی کہ عثمان کو جس دن اسنے یہ سب باتیں بتائیں تھیں اسی کے اگلے دن کلثوم کیسے غائب ہوگئی تھی- صفدر شاہ کا دل کر رہا تھا عثمان کو مار الے پر وہ اسکا اعتماد جیتنا چاہتا تھا- تاکہ وہ عثمان کو مار کر کلثوم بانو سے شادی کرلے....اب وہ منصوبے بنا رہا تھا---
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
واؤ...بہت پیاری مہندی لگ رہی ہے- مزمل اسکی مہندی دیکھ کر خوش ہوگیا تھا- اسکے دونوں ہاتھوں پہ آدھا آدھا دل بنا کر اسکے بیچ ( MS ) لکھا ہوا تھا-
مزمل چلو باہر نکلو...کل دیکھنا اسے دل بھر بھر کر....سمیرا اور بتول اسکے روم میں آگئی تھیں-
ہاں کل تو صرف اسے دیکھنا کا میرا ہی حق ہوگا- مزمل جاتے ہوئے بولا تھا اور اسے اشارہ کرکے گیا تھا کہ کال پر بات کرتا ہوں اور سجل مسکرادی -
اتنا مسکراؤ نہیں سجل بی بی...کیا پتہ تمہاری یہی مسکراہٹ چھین لی جائے- بتول جل کر بولی- اسنے بھی مہندی لگوائی تھی کیونکہ اسے اپنی ماں اور ممانی کا بنایا گیا پلان پتہ چل گیا تھا-
سمیرا کل بابا آئینگے نا-- سجل اپنی مہندی پہ پھونک مار کے بولی-
ہاں امی کہ رہیں تھیں کہ فون آیا تھا- کل شام تک پہنچ جائیں گے- سمیرا اور بتول اٹھ کر جا چکیں تھیں اور سجل اپنی آنے والی زندگی کے بارے میں سوچنے لگی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
عثمان یار تو اپنے گھر بلاتا ہی نہیں ہے- دو سال گزر چکے تیرے بیٹے کو دیکھے ہوئے- صفدر شاہ نے آج کافی عرصے بعد کال کی تھی-
ہاں یار بزی ہوں...عثمان چاہتے نہیں تھے کہ وہ گھر آئے...انھیں اب بھی صفدر پر بھروسہ نہیں تھا-
پھر کب بلا رہا ہے تو اپنے گھر-- صفدر بار بار گھر بلانے کی ہی بات کر رہا تھا- عثمان کو آخر ماننا پڑگیا تھا اور اب وہ انکے گھر بیٹھا تھا-
بھابھی کھانا بہت مزے کا بنایا ہے آپ نے- کلثوم کو صفدر کے آنے کا عثمان نے پہلے سے بتادیا تھا تبھی وہ کھانا پکا چکی تھیں-
تھینک یو صفدر بھائی...کسی دن بھابھی کو بھی لائیے گا- کلثوم کو اگر اس شخص کی چالبازیوں کا اندازہ ہوتا تو وہ اس شخص کو اپنے گھر میں قدم بھی نہ رکھنے دیتیں- پر جو جسکی قسمت میں لکھا ہوتا ہے وہی ہوا کرتا ہے---
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
اسلام علیکم بابا جانی.... سجل اپنے باپ کو سلام کرکے ان کے پاس ہی بیٹھ گئی-
میری بیٹی کیسی ہے؟ وہ سجل سے بہت پیار کرتے تھے- پر انھوں نے اپنے سے دور اسلیے رکھا تھا تاکہ اسکی دادی اچھی پرورش کرسکیں...اسکی ماں تو اسے کب کی چھوڑ کر جاچکی تھی-
ٹھیک ہوں بابا- آپ بتائیں میرے لیے کیا لائے ہیں؟ وہ ہمیشہ ان سے ایک ہی بات کہتی تھی...کہ ایسی چیز لائیے گا جو مجھے ہمیشہ کام آئے کیونکہ اسکو نہ میک اپ پسند تھا نہ کوئی اس قسم کی فالتو چیزیں..وہ ہمیشہ سادہ سی رہتی تھی اور آج بھی وہ سادہ سی ہی تھی- صفیہ بیگم تو اسکو کالے جوڑے میں دیکھ کر عش عش کر اٹھیں تھیں...سمیرا اور بتول اسکی سادگی پر بھی جل کر کوئلہ بن چکیں تھیں- مزمل اسکو دیکھنے کیلئے بے تاب تھا- اور اس وقت کا انتظار کر رہا تھا جب وہ اسکی بیوی بن جائی گی- پر اسے کیا معلوم تھا اسکا یہ انتظار ساری زندگی کا انتظار رہ جانا ہے---
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
یار سمیرا باہر چل کر بیٹھتے ہیں- بتول کو باہر جانی کی جلدی تھی کیونکہ اسکی ماں اور ممانی کا بنایا گیا پلان پورا کرنا تھا-
کیوں...یہی بیٹھو- ابھی مولوی صاحب باہر نکاح پڑھانے لگے ہیں-
افف یہ لائٹ بھی اسی ٹائم جانی تھی- چلو باہر- بتول اسکا ہاتھ گھسیٹتے ہوئے اسے لے جاچکی تھی- اور سجل اب اکیلے اندھیرے میں بیٹھی تھی- ابھی دو منٹ ہی گزرے تھے کہ اسے واپس دروازہ کھلنے کی آواز آئی-
سمیرا...بتول لائٹ کیوں چلی گئی اچانک؟ سمیرا اور بتول ہوتیں تب ہی جواب دیتی نا-
بولو بھی گونگیاں ہوگئی ہو-؟ جو کوئی بھی تھا اب وہ کمرے کو لاک لگا کر اسی کی طرف آرہا تھا-
جانِ مصطفی اتنا چیخنا صحت کیلئے اچھا نہیں ہوتا- ابھی تو تمہیں یہ چیخیں بہت بار چیخنی ہیں- وہ اب اسکے پاس آکر بیٹھ چکا تھا اور سجل کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تو فوراً اٹھ کھڑی ہوئی- پر بھاگ نہ پائی تھی کیونکہ اسکا ہاتھ مصطفی کے ہاتھ میں تھا-
تم ہی نے تو مجھے دعوت دی تھی اور اب بھاگ رہی ہو- مہمان کی میزبانی بھی نہیں کروگی--
میں تمہیں نہیں جانتی کون ہو تم؟؟ میرا ہاتھ چھوڑو- سجل اس سے اپنا ہاتھ چھڑانے میں لگی تھی اور تب ہی لائٹ آگئی تھی- سجل نے اب تک اسے نہیں دیکھا تھا-
کون ہوں میں اور کیوں آیا ہوں- یہ سب بات میں بتاؤں گا- ابھی میرے پاس بلکل بھی وقت نہیں ہے- تم میری باتیں چپ چاپ غور سے سنو اور سمجھ لو- وہ اسے بیڈ پر زبردستی دھکا دے کر بٹھا چکا تھا اور سجل اسے دیکھتے ہی سکتے میں چلی گئی تھی-
یہ دیکھو ویڈیو اور یہ نکاح نامہ....خیر یہ نکاح نامہ جھوٹا ہے اور تم نے باہر جاکر سب کو صرف اتنا بولنا ہے کہ تم مجھ سے پیار کرتی ہو اور مجھ سے نکاح کرچکی ہو- اگر تم نے ایسا نہ کیا تو پھر میں تمہیں ساری دنیا کے سامنے زبردستی اٹھا کر لے جاؤں گا- مجھے روکنے والا یہاں کوئی بھی نہیں ہے- پر تمہاری عزت کی دھجیاں اڑانے والے بہت بیٹھے ہیں- مصطفی اسے ہر ایک بات سے آگاہ کرچکا تھا اور اب سب کچھ کرنے کی باری سجل کی تھی- وہ اپنی عزت کبھی بھی داغدار نہیں ہونے دے سکتی تھی- اسی لیے اسکی ہر ایک بات مان چکی تھی-
میں ایسا ہی کروں گی- پر تمہارے ساتھ کہیں بھی نہیں جاؤں گی- وہ اپنے ہاتھوں سے آنکھوں میں آئے آنسو رگڑ کر صاف کرتے ہوئے بولی-
ہاہاہاہا....سجل صفدر شاہ....تمہیں کیا لگتا ہے اس سب کے بعد تمہیں اس گھر میں کوئی رہنے دےگا- ٹھیک ہے اگر رہنے دیگا تو یہ میرے لیے زیادہ اچھا ہے...میں تمہیں اپنے گھر کی نوکرانی کے علاوہ کسی اور حیثیت سے کبھی قبول نہیں کروں گا- مصطفی سفاکی سے بولا-
اٹھو اور اپنا حلیہ درست کرو...مسز مصطفی بن کر باہر نکلنا ہے تمہیں اور میں ایسی بیوی کا تعارف نہیں کرواسکتا- وہ اسکے آنسو سے بھرے چہرے کی طرف اشاہ کر رہا تھا اور سجل روتے ہوئے واش روم میں جا گھسی----
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
ارے واہ تم نے تو نے تو میرے نام کی مہندی لگائی ہے- تمہیں کیسے پتہ تھا کہ تم میری بیوی بن کر اس گھر جاؤ گی....وہ واش روم سے نکلی تو مصطفی کی نظر اسکے ہاتھوں پر پڑی-
ہنہہ تمہارے نام کی نہیں..مزمل کے نام کی پر شاید وہ میری قسمت میں نہیں ہے- سجل اب آئینہ کے سامنے کھڑی اپنے بال درست کرکے وپٹہ اڑنے لگی-
بہت پیاری ہو تم.... میری ہی پسند کے سوٹ میں اور سادہ سے روپ میں بھی قیامت ھارہی ہو-- سجل اسکی باتوں پر صرف اسے دیکھتی رہ گئی- یہ وہی شخص تھا جسے وہ شہزادہ سمجھی تھی پر وہ اسکے لیے شہزادہ نہیں نکلا تھا- اسے یہ کوئی راؤنا خواب لگ رہا تھا-
میں اپنی ائری ساتھ لوں گی- کیونکہ میں کھانا تو چھوڑ سکتی ہوں پر اپنی ائری چھوڑنا میرے لیے ناممکن ہے- وہ اب اپنی ائری لاکر سے نکال کر اسکے پاس آگئی-
پھر تو بہت اچھی بات ہے- تمہیں کھانا بھی پکانا نہیں پڑے گا-- مصطفی ہنستے ہوئے بولا اور سجل کا دل کیا تھا اسکی ہنسی نوچ لے-
سجل...سجل بیٹا دراوازہ کھولو- باہر اسکے بابا دروازہ بجا رہا تھے- مصطفی نے اسکا ہاتھ تھاما اور دروازے کی طرف قدم بڑھادیے-
سجل بیٹا....جیسے ہی دروازہ کھلا تھا صفدر شاہ اسے کسی آدمی کے ساتھ دیکھ کر حیران رہ گئے-
سسر صاحب آپکی بیٹی یہی ہے...کہیں نہیں گئی- چلیں باہر چل کر بات کرتے ہیں...مصطفی ہمدانی سجل کا ہاتھ پکڑ کر اسے گھسیٹتا ہوا باہر لا چکا تھا اور صفدر علی شاہ بمشکل وہ راستہ طے کرکے اپنی بیٹی کے پاس آئے تھے-
کون ہو تم....نائلہ بیگم کے ہوش اڑ گئے تھے کہ یہ کون آگیا تھا- انکا سارا پلان انھیں خراب ہوتا دکھا-
انسپکٹر مصطفی ہمدانی-- سجل شاہ کا شوہر ہوں- اس سے زیادہ اچھا تعارف نہیں کراسکتا- اسکے ہاتھ میں اب بھی سجل کا ہاتھ تھا-
سجل یہ شخص جھوٹ کہ رہا ہے نا...بولو سجل- مزمل اسکے پاس آکر اسے جھنجوڑتے ہوئے پوچھنے لگا-
نہیں.. یہ سچ کہ رہا ہے...میں اسکی بیوی ہوں- اور مزمل یہ وہی شخص ہے جس نے مجھے یہ سوٹ دلایا تھا- میں اسے پسند کرتی تھی اور کرتی ہوں- اب ہمارا نکاح ہوچکا ہے اور یہ سب ہمارے بنائے گئے پلان کے مطابق ہوا ہے-
سجل سب کچھ ایک ساتھ بولتی گئی تھی- وہ خود نہیں جانتی تھی کہ اسکے اندر اتنی ہمت کہاں سے آگئی-
سن لیا مزمل...نکلی نا بیٹی بھی ماں جیسی-- آوارہ اور بد چلن...بہت شوق تھا نا تمہیں اسکے ساتھ شادی کرنے کا- بھگتو اب--
صفیہ بیگم کو موقع میسر تھا تو وہ کیوں نہ بولتیں- سجل خاموشی سے سب سنتی رہی تھی کیونکہ اب اسکے پاس بولنے کیلئے کچھ باقی نہیں بچا تھا-
صفدر شاہ اسی وقت بے ہوش ہوکر گڑ پڑے...سجل انکے پاس جانی لگی تھی پر اسکا ہاتھ مصطفی ہمدانی نے تھام رکھا تھا اور وہ اسے سب مہمانوں کے سامنے گھسیٹھتا ہوا لے جاچکا تھا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
صفدر شاہ کا ہر آئے دن گھر آنا جانا عثمان اور کلثوم کو اچھا نہیں لگ رہا تھا پر عثمان کچھ نہیں کہ سکتا تھا کیونکہ اب وہ اسکا محتاج ہوچکا تھا- اسے پرانی جاب سے نکال دیا گیا تھا اور گھر میں کھانے تک کیلئے کچھ نہ بچا تھا- اسے صفدر شاہ سے ہی مدد لینی پڑی تھی- صفدر شاہ جہاں جاب کرتا تھا عثمان کو بھی اسنے وہیں جاب دلوا دی تھی- اب اگر عثمان ہمدانی کچھ کہتے تو وہ اسے جاب سے نکلوا بھی سکتا تھا-
اور اب اس بات کو تین سال گزر چکے تھے- صفدر شاہ کی بھی ایک بیٹی ہوچکی تھی جو ابھی ایک سال کی تھی-

عثمان یار آج کلثوم بھابھی کے ہاتھ کا کھانے کا دلکر رہا ہے- تو جانتا ہے عاصمہ کو باہر آنے جانے سے ہی فرصت نہیں ملتی تو کھانا کیا بنائے گی- صفدر ایسے بول رہا تھا جیسے ساری زندگی بھوکا رہتا آیا ہو-
یار آج تو کلثوم کی طبیعت نہیں ٹھیک ہے...پھر ابھی بچی بھی پیدا ہوئی- کھانا میں ہی بناتا ہوں گھر جاکر- کسی دن میں انوائیٹ کردوں گا تجھے- عثمان ہمدانی آج تو بہانہ بنا چکے تھے پر وہ اپنے کیبن میں آکر یہی سوچ رہے تھے کہ وہ ایسے بہانے کب تک بناتے رہیں گے-
★★★★★★★★★★★★
کلثوم صفدر ہمارے گھر آنا چاہ رہا ہے کھانے کیلئے- پہلے بھی وہ بولتا رہا ہے اب کیا کروں- عثمان ہمدانی کھانا نکالتے ہوئے بولے-
ابھی مصطفی کی سالگرہ آرہی ہے...تب آپ انوائیٹ کردیں انکی فیملی کو- کلثوم بانو کو اپنے بیٹے سے بہت پیار تھا وہ لوگ اسکی ہر سالگرہ مناتے تھے-
ہاں صیح کہ رہی ہو....میں انوائیٹ کردیتا ہوں- پھر اسکی بھی بیٹی کی سالگرہ ہے نا- مصطفی کی اور صفدر شاہ کی بیٹی کی سالگرہ میں ایک دو دن کا فرق تھا-
پتہ نہیں شاید 5 جنوری کو ہی آتی ہے ان کی بیٹی کی سالگرہ...آپ پوچھ لیجیئے گا ان سے-
ہمم...ٹھیک ہے- عثمان ہمدانی اب کھانے کی طرف متوجہ ہوچکے تھے-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
مصطفی کی سالگرہ تھی...صفدر شاہ اپنی بیٹی اور بیوی کے ساتھ خوشی خوشی آئے تھے- عثمان ہمدانی کے کہنے پر سجل اور مصطفی ہمدانی نے ساتھ کیک کاٹا تھا کیونکہ جس دن مصطفی کی سالگرہ تھی اسی کے اگلے دن سجل شاہ کی تھی-
مصطفی کو وہ چھوٹی سی گڑیا بہت پیاری لگی تھی-
پاپا اسکو ہم رکھ لیں- بہت پیاری ہے یہ گڑیا...میں اسے چاکلیٹ بھی دوں گا-
نہیں بیٹا آپکی بہن ہے نا وہی آپکی گڑیا ہے- یہ ہماری گڑیا ہے- صفدر شاہ اپنی بیٹی کو گود میں لیتے ہوئے بولے اور مصطفی ان کی بات پہ چڑ گیا- اسے وہ انکل بلکل بھی پسند نہیں تھے پر وہ اپنے باپ کی وجہ سے چپ رہتا تھا-
ہاں میری بہن ہی میری گڑیا ہے- یہ بھی گندی بچی ہے بلکل آپکی طرح.. مصطفی چیخ کر بولا تو عثمان ہمدانی کا ہاتھ اس پر اٹھ گیا اور وہ روتے ہوئے کمرے میں چلا گیا-
صفدر سوری یار...پتہ نہیں اسکو کیا ہوگیا ہے...وہ پہلے کبھی ایسا نہیں بولتا تھا-
اٹس اوکے عثمان...کوئی بات نہیں- بچے کبھی کبھار جذباتی ہوجاتے ہیں-
صفدر امی کی کال آرہی ہے- میں سجل کو لے کر جارہی ہوں- صفدر کی بیوی اپنی بیٹی کو لے جاچکی تھی...عثمان اور کلثوم روکتے رہ گئے پر وہ نہیں رکیں- عثمان کو بھی ایک کال آگئی تو وہ سننے چلے گئے-
بھابھی مصطفی کہاں ہے؟ میں اس سے بات کرنا چاہتا ہوں- صفدر شاہ اپنے منصوبے کو آج پورا کرنا چاہتے تھے- کیونکہ آج انکو بہت اچھا موقع مل گیا تھا-
جی وہ اوپر ہے اسکا روم...آپ جائیں میں عثمان کو بلا کر آتی ہوں- کلثوم اٹھنے لگیں تھیں-
بھابھی...مجھے نہیں پتہ کونسا روم...عثمان ویسے ہی فون پر لمبی بات کرے گا- کیونکہ کال باس کی تھی- وہ اپنے باس کا کر کرتے ہوئے بولے تو کلثوم کو ماننا پڑا-وہ انکے ساتھ مصطفی اور نور العین کے کمرے میں آگئیں تھیں- مصطفی اور نور العین دونوں سو چکے تھے-
تو آج آخر کار تم میرے ہاتھ لگ گئی کلثوم بانو-- تم نے کیا سمجھا تھا.. میرے دوست سے شادی کرکے مجھ سے بچ جاؤگی-- نہ نہ آج تمہیں بچانے والا کوئی بھی نہیں ہے-
کلثوم اپنے بچوں کے پاس بیڈ پہ بیٹھیں تھیں اور صفدر شاہ روم کو لاک لگا کر اب انکی طرف بڑھ رہے تھے-
صفدر بھائی آپ پاگل ہوگئے ہیں- باہر جائیں ورنہ میں چیخ چیخ کر عثمان کو بلا لوں گی-- کلثوم بانو کو لگ رہا تھا کہ وہ آخری سانسیں لے رہی ہیں-
ہاہاہاہا کلثوم بانو آج تمہیں مجھ سے کوئی نہیں بچا سکتا- عثمان بھی نہیں....کیا سمجھتا تھا وہ خود کو- بہت ہی پاکباز ہے....اب اسکی عزت سر عام نیلام ہوگی- صفدر شاہ کے ہر انداز سے درندگی چھلک رہی تھی- وہ نہیں جانتے تھے عثمان ہمدانی کا بیٹا بہت سمجھ دار اور اس وقت وہ انکی ہر ایک ایک بات سن رہا ہے-
بکواس بند کرو... صفدر شاہ-- تم شیطان....تمہاری بیٹی بھی ہے یہ مت بھولو اور اگر تم نے میرا ساتھ کچھ بھی کرنے کی کوشش کو تو مت بھولنا یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے...تمہیں اسکا انجام بھگتنا پڑے گا--- کلثوم بانو روتے ہوئے چیخ پڑیں تھیں- اور نیچی تک یہ چیخ عثمان ہمدانی نے بھی سنی تھی-
اے چل بے....میں صفدر شاہ ہوں...کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا نہ میری بیٹی کا--- وہ اپنی مٹھی میں کلثوم بانو کے بال جکڑتے ہوئے بولے تھے-- اسی وقت دروازہ بجا تھا...
عثم...کلثوم کی آواز نکلنے سے پہلے ہی صفدر شاہ انکے منہ پہ ہاتھ رکھ چکے تھے-
مصطفی جو دوسری سائیڈ  پہ لیٹا تھا چھپ کر دروازے تک پہنچ کر دروازہ کھول چکا تھا-
صفدر...عثمان شاہ اس تک پہچنے لگے تھے کہ صفدر شاہ نے اپنی جیب سے بندوق نکال کر کلثوم بانو کی کنپٹی پہ رکھ دی تھی-
اگر اس سے آگے بڑھے تم عثمان ہمدانی تو یہ تمہیں زندہ نہیں ملے گی- صفدر شاہ درندگی سے بولے تھے- عثمان ہمدانی تو گویا گونگے ہوچکے تھے- وہ سب جانتے تھے کہ وہ اپنی آستین میں سانپ پالے بیٹھے ہیں...پر انکو اس سانپ کی اتنی جلدی باہر نکلنے کی امید نہ تھی-
نہ نہ..عثمان ہمدانی میں تجھے ماروں گا اور تیری بیوی کے ساتھ ساری زندگی. اس سے آگے وہ کچھ نہ بولا بلکہ قہقے لگارہا تھا--- مصطفی 7 سال کا بچہ ہر ایک بات سن رہا تھا اور دیکھ بھی رہا تھا---
تم میرے باپ کو مارو گے تو میں تمہیں ماڑ الوں گا- مصطفی چلاتے ہوئے بولا تھا- صفدر شاہ اسکی بات پر سر جھٹک گیا تھا- اگر وہ جانتا ہوتا کہ یہ بچہ سچ میں ایسا کرے گا تو وہ کبھی اسکے باپ کو نہ مارتا- صفدر شاہ عثمان ہمدانی کے دل میں تین گولیاں اتار چکا تھا اور کلثوم بانو کو ہوش آیا تو وہ پیچھے سے ان کے ہاتھ سے بندوق اچک چکی تھیں-
صفدر شاہ اگر تم اس گھر سے نہیں گئے تو اسی سے میں تم کو مار الوں گی....اس سے پہلے کہ تم یہاں سے دفع ہوجاؤ- کلثوم بانو اپنے بچوں کیلئے ہمت کرگئیں تھیں-- وہ جانتی تھیں انکا شوہر اب نہیں بچ سکتا اسی لیے انھوں نے اپنے بچوں کیلئے ہمت دکھائی تھی- وہ نہیں چاہتیں تھیں انکی طرح دوسری کانچ کی گڑیا ٹوٹ کر بکھرے...اسی لیے انھوں نے صفدر شاہ کو بخش کر جانے دیا تھا ورنہ وہ چاہتیں تو اسی وقت اس درندے کو موت کا مزہ چھکا چکی ہوتیں- پر انھیں اپنی طرح دوسری کانچ کی گڑیا کو نہیں توڑنا تھا....صفدر شاہ اس گھر سے فوراً بھاگ گیا تھا اور اپنی بیوی  بچی کے ساتھ گاؤں چلا گیاتھا--
★★★★★★★★★★★★★★★
”ایک کانچ کی تھی گڑیا
وہ جو روئی تھی کبھی نہ
اس نے جو خواب دیکھے
وہ بھی تو کانچ کے تھے
ٹوٹ کر بکھر گئے“
   یہ رہا تمہارا قید خانہ سجل صفدر شاہ--- مصطفی اسے وہاں سے سب کے سامنے زبردستی لے آیا تھا- 2 گھنٹے کے سفر کے بعد وہ لوگ اسلام آباد آچکے تھے اور اب وہ اسے اپنے گھر پہ لے آیا تھا-
تم مجھے زبردستی لائے ہو...پر کیوں؟؟ یہ سب کیوں کیا تم نے؟ میں نے آخر تمہارا کیا بگاڑا تھا....جواب دو...بولو- سجل چیخ چیخ کر سوال کررہی تھی-
بند کرو چلانا....مجھے چلاتی ہوئی عورتیں بلکل بھی نہیں پسند....آئندہ میرے سامنے چلائی تو میرا ہاتھ بھی اٹھ سکتا ہے....اور یہ جو سارے سوالات تم مجھ سے کر رہی ہو...یہی سب ایک مہینے بعد اپنے گھر جاکر اپنے باپ سے کرنا....ایک ایک سوال کا جواب دیگا وہ گھٹیا شخص--- مصطفی نفرت  بھرے لہجے میں بولا تھا-
میرے باپ کے بارے میں کچھ بھی مت بولو سمجھے تم....میں وہ لڑکی نہیں جو تم سے اور تمہاری باتوں سے ر کر چپ کرکے ایک کونے میں بیٹھ جاؤں گی- سجل اسکی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے بولی تھی....جیسے اسے خبردار کر رہی ہو--
ہاہاہاہا....تم باپ بیٹی بلکل ایک جیسے ہو....یہ مت بھولو سجل شاہ کہ اس وقت تم انسپکٹر مصطفی ہمدانی کے قبضے میں ہو....میں تمہاری عزت کی دھجیاں بھی اڑا سکتا ہوں--- اگر تم نے میرے ساتھ کوئی بھی بد تمیزی کی تو...وہ اسے وارن کرتا  گاڑی سے اتر چکا تھا اور سجل کے دماغ میں جکڑ چلنے لگے تھے...کہ اسنے آج کے دن کیلئے کیا کچھ سوچا تھا اور کیا ہوگیا تھا--
جو اللہ نے جس کی قسمت میں لکھا ہوتا ہے وہ ہوکر رہتا ہے....ہم اپنا نصیب، اپنی قسمت نہیں بدل سکتے--- پر اپنی قسمت اور نصیب بدلنا ناممکن نہیں ہوتا.....اللہ کے آگے جھک کر..رو رو کر..دعائیں مانگنے سے بھی ہماری قسمت بدل سکتی ہے.....پر ہر کوئی یہ تگ و دو بھی نہیں کرتا اور جب اسکی قسمت بری نکلتی ہے تو اللہ سے شکوہ کرتا ہے--- کیوں اور کیسے شکوے...؟یہ سب تو ہم اللہ کے سامنے جھک کر بھی بدل سکتے تھے....پر ہم پر جب آزمائش آجاتی ہے تب ہی اللہ سے گلے شکوے یاد آجاتے ہیں---
اور سجل اللہ سے گلے شکوے نہیں کررہی تھی کیونکہ وہ اس وقت جان چکی تھی کہ یہی اسکی قسمت اور نصیب میں لکھا تھا-
★★★★★★★★★★★★★★★★
صفدر شاہ اپنے باپ کا لالا بیٹا تھا جسکی وجہ سے اسکے باپ نے اسے اسلام آباد کی یونیورسٹی میں پڑھنے کی اجازت دی تھی- صفدر کا ایک بڑا بھائی ارمان شاہ اور ایک بہن نائلہ بھی تھیں- نائلہ کی طلاق ہوچکی تھی جسکی وجہ سے وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ باپ کے گھر ہی رہتی تھیں- ارمان شاہ کے بھے دو بچے تھے- اور اب صفدر شاہ کی شادی ہوچکی تھی- اسکی ایک ہی بیٹی سجل تھی...جس سے وہ بہت پیار کرنے لگے تھے--- کیونکہ انکے کانوں میں کلثوم بانو کی آوازیں گونجتی تھیں کہ یہ دنیا مکافات عمل ہے....اسی لیے انھوں نے اپنی بیٹی کو ماں کے پاس چھوڑ دیا تھا-- انکی اپنی بیوی تو انھیں دھوکا دے کر کب کی جاچکی تھی- صفدر اپنی بیٹی کیلئے بہت حساس ہوگئے تھے- سجل نے وہیں مری میں رہ کر تعلیم حاصل کی تھی- میٹرک میں اسکی تیسری پوزیشن آئی تھی....وہ بچی بچپن سے ہی بہت ہین تھی...اسنے کبھی کوئی دوست بھی نہیں بنائے تھے-- کیونکہ اسکے دوست اسکے پاس موجود تھے..جن سے وہ اپنی ہر بات شئیر کرسکتی تھی اور وہ دونوں خاموشی سے اسے سنتے تھے--- ایک دوست اسکا اللہ تھا اور دوسری ائری...جس پر وہ بچپن سے ہر ایک ایک لفظ لکھتی تھی اور اللہ کو سب بتاتی تھی--- اسی لیے اس لڑکی کو کبھی دوستوں کی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی-
کالج میں آنے کے بعد مزمل سے وہ بہت گھل مل گئی تھی کیونکہ وہ دونوں اسلام آباد جاکر ساتھ ہی پڑھتے تھے--- اور ان دونوں کو ساتھ دیکھ کر بتول اور سمیرا ہر وقت جلتی رہتی تھیں...ان دونوں کو پڑھائی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی- صفدر شاہ اپنا بزنس اسلام آباد میں ہی شروع کر چکے تھے---سجل ان سے ہر اتوار ملنے جاتی تھی اور کبھی کبھار وہ گاؤں آجایا کرتے تھے--
★★★★★★★★★★★★★★★
نیا سال مبارک ہو سجل شاہ--- اور قید خانہ میں خوش آمدید---- مصطفی ہنستے ہوئے کہ رہا تھا جیسے اسکا تاج محل میں ویلکم کر رہا ہو-
یار سوری کانچ کی گڑیا کیلئے کانٹے نہیں سجا سکا....ویسے تو ساری زندگی تمہاری کانٹوں سے ہی بھر چکی ہوگی....ہے نا-- مصطفی اسکے چہرے کی طرف دیکھ کر بولا تھا جو کہ بلکل سپاٹ تھا...مصطفی کو لگا تھا وہ جب اسے وہاں سے لائے گا وہ روئی گی...چلائی گی پر اسکی سب سوچوں کے برعکس وہ لڑکی چپ چاپ ہر احساس سے عاری تھی-
ہاں مصطفی ہمدانی کمی رہ گئی ہے....وہ بھی سجا دیتے----پر مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا..کیونکہ میں اچھے سے جانتی یہی ہے میری قسمت اور یہی میرا نصیب ہے- مجھے رونے دھونے سے کچھ نہیں ملنے والا....بس تمہیں میرے رونے سے خوشی مل سکتی ہے...اور اس خوشی کیلئے تم ساری زندگی ترسو گے کیونکہ میں تمہارے سامنے اب کبھی نہیں رؤں گی---
سجل بولتی ہی چلی گئی...اور مصطفی حیرانی سے اس لڑکی کو دیکھے جارہاتھا- اسے اپنی ماں کی سنائی گئی کہانی آج بھی یاد تھی کہ مرد ہی ایک کانچ کی گڑیا کو توڑ سکتا ہے اور مرد ہی ایک کانچ کی گڑیا کو جوڑ سکتا ہے--- پر مصطفی کو کہیں سے نہ لگا تھا کہ یہ کانچ کی گڑیا ٹوٹ چکی ہے---
تمہارا روم بلکہ قید خانہ نیچے بیسمنٹ میں ہے....خود چلی جاؤ- مصطفی اسے بتا کر اوپر اپنے کمرے میں جاچکا تھا---
وہ پورے گھر کا جائزہ لینے لگی...اسے ہر طرف بند کمرے نظر آئے اور ایک کچن....اسنے سارے روم دیکھے تو سب لاک تھے- اب وہ لاؤنج سے ہوتی کچن کی طرف بڑھ رہی تھی جب اسے کچھ توڑ پھوڑ کی آوازیں اوپر سے آئیں تھیں--- اور اسکے قدم خود بخود اوپر مصطفی ہمدانی کے کمرے کی طرف بڑھنے لگے تھے--★★★★★★★★★★★★★
کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ؟ کیوں آئی ہو یہاں- سجل اسکے روم میں آچکی تھی....اور مصطفی کا غصہ اسے دیکھ کر بڑھنے لگا-
مجھے روم نہیں ملا..نہ ہی بیسمنٹ کی طرف جاتا راستہ--- سجل تھوڑی دیر کیلئے گھبرا گئی تھی پر پھر اسکا وہی اعتماد واپس لوٹ آیا-
چلو آؤ..میں دکھاتا ہوں تمہارے قید خانہ کا راستہ....مصطفی اسکا ہاتھ دبوچ کر اسے گھسیٹتے ہوئے نیچے لے آیا تھا--
یہ رہا تمہارے قید خانہ جانے کا راستہ....وہ کچن سے ہوتے ہوئے باہر لان میں نکل آیا تھا- جہاں ایک  روم تھا اور نیچے کی طرف جاتی سیڑھیاں...
نہیں میں نہیں رہوں گی یہاں-- وہ چیخی تھی پر سامنے مصطفی ہمدانی تھا جو سفاکی کی حدیں پار چکا تھا-
میری ماں بھی ساری زندگی ایسے ہی گزار چکی ہے....اب تمہاری باری ہے سجل صفدر شاہ....اپنے باپ کے کیے کی سزا اب تم کاٹوگی-- مجھ سے کسی بھی اچھے سلوک کی امید مت رکھنا-- وہ کہتا ہوا اوپر جا چکا تھا اور سجل اپنی اس نئی زندگی پہ رودی تھی....کیا کیا نہ سوچا تھا اس نے کہ مزمل کے ساتھ نئے سال کا جشن منائے گی...پر اسکے سارے خواب شیشے کی طرح ٹوٹ کر بکھر چکے تھے-
رونے سے فرصت ملی تو اس نے روم کا جائزہ لیا  وہاں صرف ایک بلب تھا جسکی روشنی بھی کسی وقت بجھنے والی تھی اور ایک پنکھا تھا....اسنے اپنی ائری تلاشنی چاہی پر ائری وہاں ہوتی تو ملتی نا-- اسے یاد آیا جب وہ مصطفی کے کمرے میں گئی تھی تب اسکے ہاتھ میں ائری تھی---اس نے خوشی سے صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں تھا-- اور اب نقاحت کے مارے اس سے اٹھا بھی نہیں جارہا تھا-
بابا کیسے ہوں گے...مزمل کیا سوچ رہا ہوگا میرے بارے میں کہ میں بھی اپنی ماں جیسی نکلی-- اس نے تو شاید بتول سے شادی کرلی ہوگی-
وہ وہیں بیٹھی سوچے جارہی تھی اور کب وہ نیند کی وادیوں میں چلی گئی اسے پتہ ہی نہ چلا تھا---
★★★★★★★★★★★★★★
صبح اسکی آنکھ گاڑی کی آواز پہ کھلی اور گاڑی اس گھر میں صرف ایک ہی تھی جو کہ مصطفی ہمدانی کی تھی--
کیا یہ مجھے بند کرکے ہمیشہ کیلئے اس گھر سے جارہا ہے-- وہ خود سے بولی تھی--
نن..نہیں اللہ میرے ساتھ ایسا نہ کرنا....میں مرجاؤں گی-- اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے-- وہ سارا دن روتی رہی- اور کئی دفعہ دروازہ دیکھ چکی تھی پر وہ باہر سے لاک تھا-
اسکی ساری نمازیں بھی قضا ہوچکیں تھیں...مغرب کی اانوں کے وقت اسے گاڑی کی دوبارہ آواز آئی تو وہ اوپر کی طرف بھاگی پر ابھی آدھی سیڑھیاں چڑھی تھی اور چکڑا کر سیڑھیوں سے نیچے ٹھنڈے فرش پر جاگری----
★★★★★★★★★★★★★★
صاحب جی...وہ صبح جب آپکی گاڑی نکلی تھی تب اس روم سے دروازہ بجانے کی آوازیں آئیں تھیں- گار سجل کے قید خانہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا-
ٹھیک ہے...تم جاؤ آرام کرو-- اسکی ہدایت پر گار اپنے روم میں جا چکا تھا-
مصطفی ہمدانی نے اپنے اس بڑے گھر میں صرف ایک گار اور ایک بواجی رکھیں تھیں- بواجی کام کرکے شام کو چلی جایا کرتیں تھیں اور گار اپنے روم میں چلا جاتا تھا-
وہ سجل کے بارے میں سوچتا ہوا دروازہ کھولا اور اسے وہ سیڑھیوں سے جاتے نیچے فرش پر گری ہوئی ملی تھی...اسکے سر سے خون بہہ رہا تھا--
سجل..ہوش میں آؤ... وہ اسکا چہرہ تھتپاتے ہوئے بولا پر وہ ہوش میں نہ آئی-
وہ اسے بمشکل وہاں سے اٹھا کر اپنے روم میں لایا- اور میڈیکل باکس لے کر اسکے سر سے بہتا خون صاف کرنے لگا تھا-- اسے اس وقت بہت برا لگ رہا تھا کہ وہ اپنی ماں کی بات کیوں نہ مانا...جب اسکی ماں اس درندے کو معاف کرچکی تھی تو وہ کیوں نہ کرسکا-- پر سب کچھ واپس ہن میں آتے ہی اسے سجل سے نفرت ہونے لگی-
وہ اب اسکے ماتھے کی پٹی کرنے لگا...اور پھر خود اٹھ کر فریش ہونے چلا گیا--
پانی... وہ ابھی واش روم سے نکلا بال سنوار رہا تھا سجل کے منمنانے پر اسکے پاس آگیا--
پپا..نی وہ مشکل سے بول رہی تھی- مصطفی فوراً نیچے گیا اور کچن سے اسکے لیے پانی لایا تھا-
سجل...اٹھو پانی پی لو- وہ اسکی سنتی تب ہی اٹھ پاتی...دو دن کی بھوکی لڑکی کیسے اسکی سن سکتی تھی- مصطفی نے خود ہی  اسے بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور پانی پلایا تھا...وہ ایک ہی گھونٹ میں سارا پانی ختم کرچکی تھی--
اور پیوگی...مصطفی کو اس نازک سی لڑکی سے ہمدردی ہورہی تھی-
ہاں...سجل نے اب بھی آنکھیں نہیں کھولیں تھیں-
آنکھیں کھولو سجل...مصطفی دوسری بار پانی پلا کر اسے لٹا چکا تھا- پر سجل نے پھر بھی آنکھیں نہیں کھولیں تھیں-
سجل آنکھیں کھولو....مصطفی غصے سے بولا تھا-- اسے لگا تھا وہ جان بوجھ کر ایسا کرہی ہے-
میں مر جاؤں گی...مجھے کھانا دے دو- وہ آنکھیں کھول کر اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی--
اچھا....تمہارا کہنا تھا کہ تم کھانے کے بغیر تو رہ سکتی ہو پر اپنی ائری کے بغیر نہیں..کہاں گئی وہ ساری باتیں؟ مصطفی طنز کرنے سے باز نہ آیا-
بھوک انسان کو کیا کچھ کرنے پر مجبور کردیتی ہے...سجل کو آج سمجھ آئی تھی- اس پر پہلے ایسا کوئی وقت نہیں آیا تھا ورنہ سجل وہ بات کبھی بھی مصطفی کے سامنے نہ کہتی-
تو مار الو مجھے- سجل اتنا ہی بول پائی تھی کہ اسے واپس چکڑ آنے لگے- مصطفی اسے واپس بے ہوش ہوتا دیکھ کر فوراً نیچے بھاگا تھا اور کھانا گرم کرکے دونوں کیلئے ش میں سجا لایا تھا پر سجل تو کب کی بے ہوش ہوچکی تھی-
★★★★★★★★★★★★★★
صفدر شاہ اس گھر سے جاچکا تھا-- کلثوم بانو نے ساتھ گھر والوں کو بلوا کر بتایا تھا کہ میرا شوہر خودکشی کرچکا ہے اور یہ بات جس طرح انھوں نے سب کو بتائی تھی...وہ اور انکا خدا ہی جانتا تھا کہ ان پر کیا گزر رہی ہے-- سارے محلے والے سرگوشیاں کر رہے تھے کہ باپ کو اپنی اولاد کا بھی احساس نہ ہوا اور خود کو مار الا....انکی تدفین ہونے کے بعد وہ ہمیشہ کیلئے یہ شہر چھوڑ کر جا چکیں تھیں-
ممی ہم اب یہیں رہیں گے؟ وہ لاہور اپنی دوست کے گھر آچکیں تھیں.. انکی دوست انہی کے ساتھ پڑھی تھی پر اسکے ماں باپ نے اسکی جلدی شادی کردی تھی- اب وہ اپنے شوہر کے گھر لاہور میں ہوتی تھی اور انکا شوہر خود لندن میں کام کرتا تھا- اسی لیے انھوں نے کلثوم بانو کو انیکسی دے دی تھی...جس میں دو کمرے اور کچن تھا-- کلثوم بانو کیلئے یہ بھی غنیمت تھا-
ہاں بیٹے ہم یہیں رہیں گے-- وہ نور العین کا ماتھا چومتے ہوئے بولی تھیں-
ممی میں میں بڑا ہوکر اس سے بھی بڑا گھر بنواؤں گا اور ان انکل کو بھی مار الوں گا-
مصطفی جو کہ 7 سال کا بچہ تھا..اس نے ہر ایک لفظ اس شخص کا سنا اور دیکھا تھا- وہ اتنا چھوٹا بچہ نہیں تھا کہ سب کچھ بھول جاتا...یہی عمر بچوں کے سمجھنے اور سیکھنے کی ہوتی ہے اور وہ بچہ اس عمر میں سوچ رہا تھا کہ میں اس شخص کو کیسے ماروں جس نے میرے باپ کو مار الا--
کلثوم بانو نے اسکا داخلہ بہت اچھے سکول میں کروا دیا تھا پر وہ یہ سب بھول پاتا تو ہی پڑھتا...وہ ہر جگہ صفدر شاہ کے کہے الفاظ لکھتا تھا- ایک دفعہ یہی سب اسکی ٹیچر نے اسکی کتاب پر دیکھ لیا تھا- اور کلثوم بانو کو بلوایا تھا- جب کلثوم بانو کو اس سب کا پتہ لگا تو انھوں نے مصطفی کو بہت مارا تھا اور اسے روم میں بند کردیا تھا...
ممی میں آئندہ پڑھوں گا... دروازہ کھولیں...مجھے ر لگ رہا ہے-- وہ رو رو کر دروازہ بجا رہا تھا- کلثوم بانو کو آخر کار اس پہ ترس آگیا اور انھوں نے دروازہ کھول دیا--
مصطفی آپ اپنی ماما سے وعدہ کریں کہ آپ پہلی پوزیشن لائیں گے اور توجہ سے پڑھیں گے- کلثوم بانو اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے بولیں-
ہاں میں پہلی پوزیشن لاؤں گا اور بہت پڑھوں گا پھر انسپکٹر مصطفی ہمدانی بنوں گا-- اسے ہمیشہ سے پولیس آفیسر پسند تھے- وہ اپنے باپ سے بھی بولتا تھا کہ میں انسپکٹر مصطفی ہمدانی  بنوں گا اور وہ ہنس دیتے تھے-
ہاں پر اگر آپ پڑھائی اچھی کروگے تو بنو گے انسپکٹر مصطفی اور اگر نہ پڑھے تو کبھی آپ انسپکٹر نہیں بن سکو گے-- وہ اسکا ماتھا چومتے ہوئے اسے سمجھا رہیں تھیں اور وہ سمجھ گیا تھا---
اسنے ہر کلاس میں پوزیشن لی تھی اور اسے سکالرشپ کی وجہ سے داخلہ بھی با آسانی مل جاتے تھے...وہ روز گھر آکر نور العین کو پڑھاتا تھا اور رات سونے سے پہلے صرف ایک دعا مانگتا تھا کہ میرے اللہ مجھے انسپکٹر مصطفی ہمدانی بنا دے تاکہ میں اپنے باپ کا اور ایک کانچ کی گڑیا کو توڑنے کا بدلہ لے سکوں--
★★★★★★★★★★★★★★
جاری ہے



CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING



Comments