"ہم نے چاہا ہے تمھیں قلب سے"
از "حورین خان"
پارٹ 5
صبح
فجر میں جب سفوان کی آنکھ کھلی تو پھیلے اسے اٹھنے میں تھوڑی پریشانی ہوئی کیونکہ
اسے کاؤچ پر سونے کی بلکل بھی عادت نہیں تھی لیکن افیرا کی کرم نوازی نے اسے کاؤچ
پر سونے کا تجربہ بھی کرا دیا تھا تھوڑی دیر مزید لیٹے رہنے کے بعد وہ وضو کرنے کے
لیے واشروم گیا پھر واپس آکر نماز ادا کرنے سے پہلے افیرا کے قریب ایا۔تاکہ اسے
بھی نماز کے لیے اٹھا دے۔افیرا کروٹ لے کے سو رہی تھی بہت ہی کوئی بے تکے طریقے
سے۔اگے سے کیئر کٹ کیے بال چہرے پر آرہے تھے۔سوتی وی تو وہ دنیا جہان کی معصوم
لگتی تھی۔افیرا کو بغور دیکھتے ہوئے اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور بے اختیار ہی
جھک کہ اس نے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا۔
&@&@-#-#-#-#--#-#-#-#-#-#-#-@-@--@-@-@-@
افیرا اٹھیں نماز کا ٹائم جا رہا ہے۔سفوان نے اسے زرا
اونچی آواز میں پکارہ۔
کیا ہے بھئی سونے دو ویسے ہی اتنی مشکل سے نیند آئی
تھی۔اس نے کسمایا کہ کہا
افیرا اٹھیں۔اب کی اس نے زور سے ہلایا۔
کون ہے بھئی ایک تو چین سے سونے بھی نہیں دیتے کیا
ہے۔افیرا نے غصے سے کہا
نماز نہیں پڑھنی کیا اپنے۔اس نے آرام سے پوچھا
نہیں میں نماز نہیں پڑھتی سن لیا اب مجھے سونے دیں
خانمخواہ نیند خراب کر دی۔وہ ناگواری سے کہہ کہ دوبارہ سو گئی۔
ہیں نماز نہیں پڑھتی ماما یہ ہے آپکی پسند یا اللہ میں
کیا کروں۔ سفوان نے اسے افسوس سے دیکھا کچھ بھی تھا پر اس نے ایسا ہمسفر کی خواہش
نہیں کی تھی بحرحال سفوان سوچ چکا افیرا کو بدل کہ رہے گا۔
#$_&&--&__$@#_-+))))&&_$$$$$$$$$######
آج ولیمہ تھا جو کہ بینکٹ میں ہی تھا۔اج تھیم رائل بلیو
اور سلور وائٹ تھا۔اج جنت پیلس کے تمام مکین کاموں میں مصروف تھے۔اور شام میں
افیرا کے ساتھ تمام لڑکیاں پارلر چلی گئی تھیں۔اور اب تیار ہوکہ سبکو نکلنا ہی
تھا۔افیرا کو اپنی نندوں کے ساتھ سیدھا بینکٹ جانا تھا۔سو تیار ہو کہ وہیں آگئے
تھے۔جب دلہا دلہن کی انٹری ہوئی تو سب انکی طرف متوجہ ہوئے افیرا سلور کلر کی لانگ
شرٹ جس پر وائٹ اور بلیو نگوں باریک موٹا کام کیا گیا جبکہ بلیو کلر کا فلیٹر جس
پر سلور نگوں کا کام تھا بلیو دوپٹہ جس چھوٹے چھوٹے نگ سے کام ہوا تھا اور دوپٹے کا
بارڈر سلور تھا اس پر بھی نگوں کا ہی کام کیا تھا۔ڈائمنڈ پیارا سا سیٹ پر بلیو نگ
تھے آج کی مناسبت سے میک اپ جبکہ سفوان نے وائٹ شرٹ اور بلیو کوٹ پینٹ شرٹ کے ساتھ
بلیو ٹائی۔وہ دونوں بہت حسین لگ رہے تھے۔افیرا تھوڑا گھبرا جاتی تھی ان سب چیزوں
سے اور سفوان اسے دیکھ کہ اندازہ ہو گیا تھا۔اس لیے جب اس نے اپنا ہاتھ افیرا کے
سامنے کیا تو افیرا نے اسے دیکھا۔
تھام لیں کبھی نہیں چھوڑوں گا اپکو اس بھیڑ میں۔اس نے
محبت سے کہا۔
نہیں ایسی بات نہیں بس کبھی ایسے سب کا سامنا نہیں کیا
تو بس۔اج بڑی نارمل طریقے بولا
جی مجھے معلوم ہو گیا آپکا چہرہ دیکھ کہ چلیں اب میرا
ہاتھ تھام لیں پھر آپ کسی سے نہیں گھبرائیں گیں۔اس نے اپنے ہاتھ کی طرف اشارہ
کیا۔جو افیرا نے اسکےکہنے کے بعد تھام لیا۔ ساری لائٹس پہلے ہی اوف ہوچکی تھیں۔
کافی مختلف کلرز کی لائٹس نے ان دونوں اپنے فوکس کیا
انہیں جو نظر دیکھتی یہی کہتی کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں۔جب وہ آگے
بڑھے ان پر ڈھیر سارے اوپر سے گلابوں کی برسات ہوئی سنو اسپرے بھی کیا گیا😍
-@--#+#++#+#+#+#++@+@+@+@+@!!@!@
سٹیج پر آنے کے بعد سب ان سے ایک ایک کر کہ ملنے آئے
جزلان اور حنا آئیں تھیں۔
بابا اپکو اب آئی مجھ سے ملنے کی یاد میں نے اپکو بہت
کیا بابا۔وہ جزلان صاحب کے گلے لگ کے بولی جیسے کتنے سال کی بچھڑی ہوئی تھی۔
اپ بڑے بابا کو کم یاد کرو اور سفوان بھائی کو زیادہ
یاد رکھو کہیں ایسا نہ ہو سفی بھائی کو بڑے بابا سے جلیسی ہو۔خرم نے سٹیج پر آکے
کہا۔
تم تو چپ ہی رہو ماما بابا اس کا بھی کوئی انتظام کریں
بیچارے سے اب اکیلا نہیں رہا جاتا اس لیے سبکی باتوں میں بولنے اجاتا یے۔افیرا اور
چپ رہ لے ناممکن سی بات ہے۔
افی کیا بدتمیزی ہے یہ جگہ کو تو خیال کر لو اب تم ملک
مینشن میں نہیں اپنی گھر کی ہو چکی ہو۔حنا بیگم نے اسے ڈپٹا جس پر اس کا منہ بن
گیا۔
بابا میں آپکے ساتھ چلوں گیں گھر مجھے بہت یاد آرہا
ہے۔اس بات پر سفوان نے افیرا کو ایسے دیکھا جیسے اس کی عقل ماتم کر رہا ہو۔
کوئی ضرورت نہیں اللہ اللہ کر کہ تو تمھاری سے جان
چھوٹی ہے پھر اس گی ڈیرا ڈالنے اتنے سال ہمارا دماغ خراب کر کہ بھی دل نہیں
بھرا۔خرم انسان کا بچہ نہیں بن سکتا تھا۔
بابا دیکھیں اسے پھر کچھ کیوں گیں تو ماما مجھے ڈانٹیں
گیں۔اس رومی صورت بنا کہ کہا۔
خرم آپ بھی چپ کر جاؤ ہر وقت کا مزاق اچھا نہیں
ہوتا۔اور افی بیٹا وہی آپکا گھر سفوان بیٹا اور انکے گھر والے آپکے لیے زیادہ
اہمیت کا باعث ہونا چاہیے اور میری جان تو سمجھ دار ہے نا۔انہوں اسے پیار سے
سمجھایا۔
ٹھیک ہے بابا۔
@-#--#&#-#-#-@+@+@++@+@+@+@+@+@+@+@
تھوڑی دیر بعد انہیں فوٹو سیشن کے لیے برائیڈل روم میں
لے گئے تھے اور فوٹوگرافر نے ایسے ایسے فوٹو شوٹ کر وائیں کہ افیرا تو گھبرا ہی
گئی اور سفوان اسکی گھبراہٹ سے محفوظ ہوا۔
&@&@-#+#+#+#)#)#)#))#)@)@)@)@)@)
سنے میم اب آپ سر کی گردن کے گرد بازو رکھیں اور سر آپ
انکی کمر کے گرد بازو حمائل کریں۔سفوان نے تو فورا عمل کیا۔جبکہ افیرا کو تھوڑا
عجیب لگا
پلیز جلدی کریں۔فوٹو گرافر نے کہا کیوں افیرا نے ابھی
اسکی بات پر عمل نہیں کیا تھا۔
رکھ لیں ہاتھ انہیں بھی جانا ہوگا۔سفوان نے ہلکے سے کہا
پھر اسنے بھی اسکی گردن کر گرد بازو حمائل کر دیے
فوٹوگرافر اپنا پوسٹ لے کہ جا چکا تھا
افیرا نے فوراً ہاتھ ہٹائے۔جبکہ سفوان کا ایسا کوئی
ارادہ نہیں لگ رہا تھا۔
وہ چلیں گئے ہیں چھوڑیں مجھے۔اس نے سنجیدگی سے کہا وہ
بس برداشت ہی تو کر رہی تھی۔
میں نے چھوڑنے کے لیے تھوڑی تین بار قبول ہے کلمات ادا
کیے تھے۔اس نے مزید گرفت تنگ کر دی
کیا بدتمیزی ہے چھوڑیں مجھے یہ سب بلکل نہیں پسند۔اس نے
غصہ کہا۔
مجھے آپ سے بہت ساری باتیں کرنی ہے لیکن آپ مجھے موقع
نہیں دے رہی۔سفوان نے پھر اپنے دل کی بات بتانے کا سوچا تھا۔
مجھے آپکی کسی بات سے کائی مطلب نہیں میں نے شادی صرف
ماما بابا کے کہنے پر کی تھی کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ میں گھر کی ہو جاؤں اور ایک
اتفاق کہ زریعے میں آپکی امی کو پسند آگئی اور میرے گھر والوں کو آپ البتہ آپ مجھے
اول روز سی زہر لگتے ہیں۔اور ہاں آئیندہ میرے قریب مت انا۔اس نے ایک دم ہی سب کہہ
دیا اور افی وہ تو سن کر ہی سکتے میں چلا گیا۔
فنکشن کب ختم ہوا سفوان کو معلوم نہیں ہوا اس کے کان
میں ابھی افیرا کے الفاظ گونج رہے تھے۔
-#-@+@+@@++#؛#؛#!#!#!#!#!@!!@!@!@!@!
ولیمے کے بعد سے وہ دونوں ایک کمرے اجنبی ہی بن گئے تھے
لیکن سفوان نے افیرا سے بات کہہ دی تھی۔جب ایک شاید آخر بار بات کہی
میں آپسے ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ایک رات سفوان نے اسے
مخاتب کیا جو کہ نائٹ لوشن لگا رہی تھی۔
کہیں۔مختصر جواب۔
میں نہیں چاہتا کہ ہمارے گھر والوں کے سامنے ہ۔اری
اجنبیت سامنے ائے۔میرے گھر والوں کو یہی لگتا ہے کہ ہم ایک اچھی ازدواجی زندگی
گزار رہیں ہیں اور انہیں ایسا ہی لگنا چاہیے کیوں کہ مجھے اپنے گھر والوں کو
خوشیاں اور عزت بہت عزیز ہے اس لیے انہیں میری یا آپکی طرف سے کوئی برا انٹینشن
ملے میں ہرگز برداشت نہیں کروں گا۔۔سفوان نے اسے باور کرایا یا التجا معلوم نہ بٹ
افیرا کو اسکے گھر والوں سے ویسے بھی کوئی بیر نہیں تھا۔
+#+#-#-+#+@+@+@+++++----_$####$$$$$؛!!
دن بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے اور انکی شادی کو بھی
چار ماہ گزر چکے تھے۔اور اب سب بڑوں سفوان کی اولاد کی بھی خواہش تھی۔ظاہر ہے گھر
کا سب بڑا بیٹا تھا۔ایک دن ساری گھر کی خواتین لان میں بیٹھی چائے پی رہی تھیں
جب سارہ بیگم بولیں۔
ناہید بھابھی ماشاءاللہ سے اب سفوان کی شادی کو چار ماہ
ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک انکی طرف کوئی خوش خبری نہیں ملی۔انہوں نے ایسی پوچھا۔
اللہ کی مرضی ہے سارہ اللہ جب نواز دے۔انہوں بات ہی ختم
کرنی چاہی حالانکہ یہ بات انہیں بھی پریشان کرتی تھی۔اور انکے دماغ میں یہ بھی آتا
تھا۔کہ شاید سفوان ابھی تک اسکو قبول نا کر پایا ہوکر وہ حقیقت سے نا آشنا تھیں
+@++#؛#؛#؛#؛#؛#؛#؛#؛#؛؛#؛#؛#؛#؛#؛#
اب تو افیرا نے اسے باقاعدہ ٹارچر کرنا شروع کر دیا تھا
اگر وہ کہتا تو اس سے لڑنے لگ جاتی اور کڑائی اسے پسند نہیں تھی۔ایک سفوان کو ادا
سے لیٹ ہو رہا تھا اس لیے اس نے افیرا کو ایک شرٹ پریس کرنے لیے دے دی۔
افیرا کو کچھ کام تو آتے ہی تھے ہر اسے تو مزہ آتا تھا
سفوان کو ستانے میں۔
بہت شوق ہے مجھ سے اپنے کام کرانے کا ابھی بتاتی
ہوں۔شیطانی سوچتے ہی اس نے اس نے پریس ہائی ٹیمپر پر چھوڑ کہ اسکی شرٹ پر رکھ دی۔
جب سفوان کمرے میں آیا تو اسے سمیل آنے لگی۔
افیرا افیرا کہاں ہے اپ۔اسے غصہ آرہا تھا بٹ اتنے غصے
نہیں بولا۔
یہ کیا کیا اپنے میری شرٹ کے ساتھ۔سفوان نے دانت پیس کہ
کہا
اووو یہ کیسے جل گئی میں تو اسے یہاں رکھ کے گئی۔اس نے
معصومیت کے ریکارڈ توڑ دیے۔
جب اپکو نہیں آتی ہے پریس تو کہہ دیتیں میں نہیں بولتا
اپکو۔اس نے نارمل لہجے میں کہا۔
ایکسکیوز می میں آپکی نوکر نہیں ہوں جو آپکی شرٹ پریس
کروں میں اپنے گھر میں کوئی نہیں کیا تو آپکے کام کیوں کروں ہر وقت مجھ پر حکم مت
چلایا کریں سمجھے آئے بڑے۔وہ کہتی چلی گئی اور سفوان بس کر کہ رہ گیا۔
دن کافی تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے۔افیرا کا سفوان کے
ساتھ رویہ جوں کا توں تھا۔لیکن گھر والوں کی ساتھ وہ بہت اچھی طرح رہتی تھی اب اگر
افیرا اسے کچھ کہتی بھی تو سفوان اسے کچھ نہیں کہتا اپنے کام میں لگ جاتا تھا۔ھو
بات افیرا کو اچھی نہیں لگتی تھی وہ اس سے لڑتی شاید وہ کچھ کہے لیکن وہ ری ایکٹ
نہیں کرتا۔
آج بھی یہی ہوا۔
+#+#+#+@++@+@+@+@++@+@+@+@+#+@+@++@+@+@+@+#+#+#+#+#+)
سفوان اپنا کوئی کام کر رہا تھا اور اسکے امپورٹینٹ
پیپرز ٹیبل پر پھیلے ہوئے تھے۔اکثر وہ یہ کام سٹڈی میں ہی کرتا تھا لیکن آج وہ بہت
تھکا ہوا تھا لیکن کام بھی ضروری ہی تھا۔
+@+#+#+@!@!@!@!@!@!!@!@!@+@
ایک تو ہر اپنے کباڑے پھیلائے ہوئے ہوتے ہیں بہت شوق ہے
نہ کباڑے پھیلانے کا ابھی بتاتی ہوں۔بڑبڑاتے ہوئے اس نے ٹیبل پر پڑے گلاس کا سارا
پانی پیپرز پر گرا دیا
اب دیکھتی ہوں محترم کو اپنے کام کو کیسے سنوارتے
ہیں۔اس نے برای سوچ کےمسکرائی۔
یہ کیا کیا آپ نے اپکو پتا ہے یہ کتنے امپورٹینٹ پیپرز
تھے اور میں کتنے دنوں کی محنت سے تیار کیے تھے اور اسے سینڈ بھی کرنے تھے۔غصے سے
کہہ کروہ سر پکڑ کہ بیٹھ گیا وہ تنگ آچکا تھا اب ان سارے ٹارچر سے۔
میں نے کچھ نہیں کیا سمجھے آپ یہ پانی خودی گیر گیا
ضرورت کیا تھی سارے پیپرز ٹیبل پر پھیلانے کی۔لے بھئی یہ سرے سے مکر گئی۔
جھوٹ مت بولیں میں اچھی طرح جانتا ہوں یہ سب آپ مجھے
ٹارچر کرنے کے لیے کرتی ہیں جب میں نے اپنی طرف سے کوئی پریشانی نہیں ہونے دیتا تو
آپ کیوں مجھے اتنا ٹارچر کرتی ہیں آخر مجھ سے ایسی کونسی غلطی سر زد ہوئی کہ آپ کے
دل میرے محبت تو دور رحم تک نہیں آتا بتائیں مجھے میری غلطی بتائیں نا خاموش کیوں
ہیں۔سفوان آج پھٹ ہی پڑا وہ کافی ٹائم سے ہر بات برداشت کر رہا تھا ایک وہ اپنی
ماں سے کیا وعدہ نہیں توڑ سکتا اور دوسرا اب وہ بھی آفیرا کو چاہنے لگا تھا۔
اگر اتنا ہی برداشت جوتے جوتے تھک گئے ہیں تو جان کیوں
نہیں چھوڑ والے لیتے اس زبردستی کے رشتے سے میں بھی اپکو روز روز اپنی نظروں کے
سامنے نہیں دیکھ سکتی سمجھے آپ بھی۔اس نے بھی اونچی آواز میں کہا۔جنت پیلس کے تمام
کمرے ساؤنڈ پروف تھے اس لیے کسی کی زیادہ اونچی آواز کمرے سے باہر نہیں جاتی تھی۔
یہ رشتہ آپکے لیے مجبوری ہوگا لیکن میرے لیے بلکل نہیں
سمجھیں آپ اگر آپ اس رشتے کو ختم ہی کرنا چاہتی ہیں تو ٹھیک میں تیار ہوں ویسے بھی
میں نہیں چاہتا میری زات سے کسی کو کوئی تکلیف ہو۔یہ بات اس نے کس تکلیف سے کہی یہ
سفوان ہی جانتا تھا۔
بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں یہ رشتہ محظ مجبوری ہے میرے میں
کل بابا کے گھر چلی جاؤں ہمیشہ کے لیے۔کتنی آسانی سے کہہ دیا تھا افیرا نے یہ سب
اور سفوان اس کو دیکھ کہ رہ گیا
#+#+#!#!#!#!!@!@!@!@!#!!#!#!#!#!#!
اگلے دن وہ ملک مینشن جانے کے لیے تیار ہو رہی تھی۔جب
سفوان کمرے میں آیا ۔
کہیں جا رہی ہیں اپ۔اس نے نارمل انداز میں پوچھا۔
جی اپنے بابا کے گھر اور اپکو اس رشتے سے نجات دینے جا
رہی ہوں۔اس نے عام لہجے میں کہا
کیا آپ سب سچ میں ایسا چاہتی ہیں ایک بات بتائیں ہماری
شادی کو پانچ مہینے ہو گئے کیا اپکو کبھی مجھ سے کوئی انسیت نہیں ہوئی۔اس نے بے
بسی سے پوچھا۔
جی نہیں کیونکہ میں نے اس رشتے کو کبھی قبول کیا ہی
نہیں میں بھی اپنے ماں باپ کی وجہ سے یہاں تھی اول مجھے آپ سے کوئی لگاؤ نہیں۔اس
نے بھی بے رحمی کی انتہا کی تھی۔
اچھا میں اپکو آوفس جاتے ہوئے چھوڑ دیتا ہوں ابھی میں
گھر میں یہ بات نہیں کھولنا چاہتا برائے مہربانی اتنا اور احسان عظیم کر دیں مجھ
پر۔اس نے سپاٹ لہجے میں کہا اب وہ کوئی اور بحث نہیں کرنا چاہتا تھا۔
ناشتے سے فارغ ہو کہ سفوان نے افیرا کو مخاتب کیا۔
اگر آپ نے ناشتہ کر لیا تو اپنا سامان لے آئیں میں اپکو
چھوڑ دوں مجھے پھر آوفس بھی جانا ہے۔اس نے مصروف سے انداز میں کہا
کہاں جا رہی ہیں بیٹا افیرا بیٹی۔حمید صاحب نے پوچھا۔
بابا افیرا اپنے بابا کے گھر ایک دو ہفتے کے لیے اپنے
گھر رہنے کے لیے میں انہیں چھوڑتا ہوا انہیں آوفس جاؤں گا۔اس نے بتایا۔
وہ تو ٹھیک ہے پر بیٹا ایک دو ہفتے کے لیے یہ کچھ زیادہ
ہی نہیں ہو گیا۔ناہید بیگم نے کہا
جی ماما میرے پاس جزلان انکل کا فون آیا تھا کہ افیرا
کو ان سے ملوایا لاؤں اور ویسے بھی جب سے شادی ہوئی افیرا ایک دن کے گئیں تھیں اس
لیے میں کہا افیرا کے آپ رکنے چلی جائیں۔اس نے عام سے لہجے میں سب بتایا۔
اچھا ٹھیک ہے بیٹا خیر سے جاؤ جلدی واپس آجانا اب ہمیں
بھی تمھاری عادت ہو گئی ہے گھر سونا ہو جائے گا۔انہوں نے محبت سے کہا
پھر افیرا سب مل کر آگے بڑھنے لگی جب علینہ اور عمارہ
اور دانیہ وغیرہ نےاسےکہا۔
بھابھی پلیز جلدی آئیے گا ہمیں آپکی بہت یاد آئے گی آپ
بہت اچھی ہیں اور آپکی ہنسی مزاق کرنے والی عادت ہم اتنے دن بہت مس کریں گیں۔انہوں
نے محبت سے اسے گلے لگا کہ کہا۔
افیرا جتنا آسان سب سمجھ رہی تھی اتنا آسان کچھ نہیں
تھا۔یہ بات اسے آگے جا کہ پتا چلنا تھی بحرحال وہ سب سے مل کہ باہر آگئی جہاں
سفوان اسکا گاڑی میں ویٹ کر رہا تھا۔اسکے بیٹھتے ہی اس نے گاڑی اسٹارٹ کردی تھی۔
رات بھر بھی انکی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔اور گاڑی اپنی
منزل پر آکر رکی۔وہ جانے لگا جب افیرا نے کہا۔
بسب اس وقت گھر پر ہونگیں آپ مجھے گیٹ سے چھوڑ کہ چلیں
جائیں گیں تو اچھا نہیں لگے گا اس اب بھی اندر چلیں میرے ساتھ۔اس نے عام سے لہجے
میں لہجے میں کہا۔
جب منزل ہی الگ ہونے والی اور اس گھر سے سارے تعلق ختم
ہی ہونے والے ہیں تو میرا اندر جانا نہ جانا بے معنی ہے اور مجھے آوفس بھی جانا
ہے۔اس نے بھی اسی کے لہجے میں کہا۔
جیسے ابھی تک ہم نارمل لائف کا ڈرامہ کرتے آرہے ہیں
ایسے آج آپ میرے گھر والوں کے سامنے کر لیں گیں تو زیادہ فرق نہیں پڑتا جائے اس سے
زیادہ میں اپکو فورس نہیں کروں گیں۔کہہ کے رہائشی حصے کی طرف چل دی۔
اسلام و علیکم۔اس نے زور سے سبکو سلام کیا۔
افی میری جان کیسی ہو میری تو آنکھیں ترس گئیں میری بچی
کو دیکھنے کے لیے۔حنا بیگم نے آگے بڑھ کہ اسے سینے سے لگا لیا۔
میں ٹھیک ہوں ماما آپ سب کیسے ہیں۔اس نے خوشی سے کہا
ارے سفوان بھائی آپ وہاں کہا رہ گئے اندر ابھی
جائیں۔ولید نے پیچھے کھڑے سفوان کو کہا اور افہرا نے پیچھے مڑ کہ دیکھا۔
اسلام و علیکم کیسے ہیں آپ سب۔اس نے مسکرا کے سب کو
سلام کیا
ہم سب بلکل ٹھیک ہیں الحمدللہ اور آپ کیسے ہو
بیٹا۔جزلان صاحب نے اسے گلے لگا کہ کہا۔
میں بھی ٹھیک الحمدللہ۔اس نے مسکرا کے کہا۔پھر سب سے
ملا۔سب بڑوں نے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا جبکہ چھوٹے اس سے گرم جوشی گلے لگے سب کو ہی
سفوان بہت اچھا لگتا تھا۔
سفوان بھائی ہماری چڑیل بہن اپکو تنگ تو نہیں کرتی۔عمان
نے شرارت سے پوچھا۔
نہیں بلکل پریشان نہیں کرتی بلکہ بہت پیار کرتی ہیں۔اس
نے بھی شرارت سے کہا کاش ایسا ہو سکتا
اچھا جی پھر ٹھیک ہے ہم سمجھے آپ اس سے تنگ آگئے کبھی
اسے یہاں چھوڑ کہ جا رہے ہیں۔خرم نے بھی اپنا حصہ ڈالا باتوں میں۔
ریحان چاچو اس منگنی شدہ کے سر پر کب سہرا سجا رہی
ہیں۔سفوان نے اسے چھیڑا۔
خرم کی ابھی دو مہینے پہلے ہی اسکی کوچنگ فیلو مانیہ سے
منگنی ہوئی مانیہ کہ فیملی بہت اچھی تھی۔
واہ سفوان بھائی آپ نے میرے منہ کی بات چھین لی ان
لوگوں کو تو میرا خیال ہی نہیں ہے منگنی شدہ ہو کہ بھی کنواری زندگی گزار رہا
ہوں۔اس نے افسردگی سے کہا۔
بس بیٹا عمان کو کوئی لڑکی پسند اجائے پھر ان دونوں کی
شادی ایک ساتھ ہی کر دیں گیں۔ندا بیگم نے جواب دیا۔
پھر تھوڑی بہت باتوں کے بعد سفوان بھی کھڑا ہو گیا اور
چلا گیا اس نے ایک اس سے پیچھے مڑ کے دیکھا تھا کہ شاید افیرا اسکے پیچھے آئے
لیکن کچھ لوگ دل کی جگہ پتھر رکھ لیتے ہیں۔
افیرا کو آئے ہوئے چار دن ہو گئے تھے لیکن اب اس کا
یہاں دل نہیں لگتا تھا اسے ہر وقت اپنے اصل گھر یاد آتی رہتی تھی۔سب کے ساتھ ہنسی
مزاق کرنا ایک دوسرے کو چھیڑنا۔اور سب سے زیادہ سفوان سے کردہ لڑائیاں اور اسکا
خاموشی سے سب برداشت کر جانا۔ پانچ ماہ ایک کمرے میں اجنبیوں کی طرح رہ کہ بھی
افیرا کو اسکی عادت ہونے لگی کچھ بھی انکا رشتہ اتنا پاکیزہ تھا کہ جس میں اللہ
خود محبتیں دلوں میں پیدا کرتا ہے۔اپ بھلے ایک دوسرے کے قریب نہ لیکن جب سب میں
دور ہو جائیں تو دل میں خلاء سی محسوس ہوتی اپنا آپ خالی خالی لگنے لگتا ہے۔افیرا
کے ساتھ سفوان نے کبھی کوئی دبردستی نہیں کی تھی لیکن پھر بھی پتا نہیں افیرا اسے
کس بات کی سزا دے رہی تھی۔ابھی وہ انہیں سوچوں میں گم تھی جب حنا بیگم کمرے میں
داخل ہوئی۔
@-+@+@+@+@+@+@)@)@)@))@)@)@
افی بیٹا۔انہوں اسے پکارا
جی ماما آپ کب آئیں آئیے نا۔اس نے چونک کہ کہا
کیا ہوا میرا بچہ کیا سوچ رہا ہے۔انہوں نے اسکا سر اپنی
گود میں رکھ لیا۔
کچھ نہیں ماما بس ایسی۔اس نے مسکرا کہ کہا
بیٹا وہاں سب ٹھیک ہیں آپکے ساتھ اور آپ انکے ساتھ۔حنا
نے اس کے سر میں انگلیاں چلائیں۔
جی ماما وہاں سب بہت اچھے ہیں پتا ہے ہم سب مل خوب مزہ
کرتے ہیں ہنسی مزاق یہاں تک کے ساری بچیاں بھی بہت اچھی ہیں مجھے لگتا نہیں کے میں
کہیں غیر جگہ پر آئی پر اب یہاں آکے بور ہو رہی ہوں۔اس نے سچ کہا
ارے میرا بچہ تو بہت خوش ہے بھئی اللہ میری بچی کو خوش
رکھے اور بیٹا سفوان آپکے ساتھ کیسے ہیں۔انہوں ایسے ہی پوچھا۔
وہ بھی بہت اچھے ہیں ماما بہت خیال رکھتے ہیں۔یہ کہتے
ہوئے اس کی آنکھیں نم ہوئی پتا نہیں کیوں۔
اور تم رکھتی ہو خیال اسکا۔انہوں مشکل سوال کیا
ماما میں انکا بلکل خیال نہیں کرتی بلکے انہیں ہر وقت
پریشان کرتی ہوں اور وہ میری ہر بات برداشت کر جاتے ہیں۔اسکے منہ بس سچ ہی نکل رہا
تھا۔
میرا بچہ سفوان بہت اچھا ہے بہت محبت کرنے والا ہے پتا
ہے آپکے بابا کہتے ہیں اگر میں خود سے بھی ایسا لڑکا ڈھونڈتا تو نہیں ملتا حنا
ہماری بیٹی بہت خوش نصیب ہے جسے اتنی محبت کرنے والا شوہر اور سسرال ملا اللہ
ہماری بیٹی کو ہمیشہ اپنے گھر آباد رکھے۔انہوں نے اسے خوشی سے بتایا۔
ماما مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے۔اس نے نظریں نیچے کر
کہ کہا
کیا غلطی ہوگئی میری جان سے۔انہوں نے پوچھا۔
ماما میرا پہلے دن سے سفوان کے ساتھ رویہ اچھا نہیں
ماما میں سمجھتی تھی کہ میں کبھی اس رشتے کو دل سے قبول نہیں کر سکوں گیں یہ صرف
میں نے اپ دونوں کی خوشی کی وجہ سےشادی کے لیے ہاں کی ہے اور میں نے انہیں ابھی تک
اپنے الفاظ اور حرکتوں سے تکلیف پہنچائی ہے اور میں ان سے کہا کے مجھ سے اب وہ
برداشت نہیں ہوتے اس لیے بہتر ہے اب ہم الگ ہو جائیں ۔لیکن میں غلط تھی مما جب میں
انسے دور ہوئی اور ابھی اتنے سے دن کی دوری میں مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ میں سفوان
اور اس گھر کے مکینوں کی عادی ہو چکی ہوں اور اب میری خوشیاں ان لوگو سے ہی وابستہ
ہیں لیکن ماما میں اپنی خوشیوں کو آگ لگائی اور سفوان کو بھی بغیر غلطی کے سزا
دیتی رہی۔کہتے کہتے اس کے گالوں پر گرم سیال گر رہے تھے۔
افیرا یہ تم کیا کر آئی ہو اتنے اچھے انسان کو تم
تکلیفوں میں چھوڑ آئی اور ہم جو تمھاری خوشیوں کی دعا کرتے رہے اور سوچتے رہے کہ
تم دونوں اپنی ازدواجی زندگی میں خوش وہ سب غلط فہمی تھی۔میں نے تمھیں کتنا
سمجھایا تھا کہ ایسا کچھ مت کر کرنا جس تمھیں پچھتانا پڑے لیکن تم نے پھر بھی اپنے
بے عقلی کا ثبوت دیا آخر کیا کمی رہ گئی تھی میرے سمجھانے میں۔انہوں نے تاسف سے
بیٹی کو دیکھا۔
ماما میں یہاں نہیں رہ مجھے واپس جانا ہے مجھے یہاں
نہیں رہنا مجھے اپنے گھر جانا ہے۔اس نے ایسا کہا جیسے سب کچھ نارمل چھوڑ کہ آئی
ہو۔
اب بچا ہی کیا اور کتنی تکلیفیں دینی باقی ہیں جو تم اس
معصوم فرشتہ صفت انسان کو دینے واپس جاؤ گی۔انہوں نے غصے سے کہا۔
ماما میں اپنے کیے کی معافی مانگ لوں ان کو دی ہر تکلیف
کا مداوا کر لوں اور وہ بہت اچھے مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں مجھے معاف کر دیں
گیں۔افیرا بلکل چھوٹے بچوں کی طرح کہہ رہی تھی۔
افیرا یہ ایسا رشتہ ہے اگر بار اس میں خلاء پیدا ہوائے
تو پوری نہیں ہوتی اگر دنیا میں سب مضبوط رشتہ یہ ہے نا اتنا ہی کمزور ہے اور اگر
اسے تکلیف پہنچائیں جو ہم سے محبت کرتا ہے تو ہم پھر اسکی محبت میں بھی خلاء آجاتی
جو کہ ہماری کم عقلی سے آتی ہے اب میں کچھ نہیں کر سکتی جو کرنا تم خود اپنی عقل
اور دل سے ٹھیک کرو۔یہ کہ کر وہ رکی نہیں چلی گئیں۔
+@+#+#+#+#+#+#+#++#+#++#+#+#+#+#++#سفوان
بھی پریشان تھا وہ کسی حال میں بھی افیرا کو خود سے الگ نہیں کرنا خود سے الگ نہیں
کرنا چاہتا تاج بھی سب باتیں سوچ سوچ کر اسکے سر میں شدید درد کوریا تھا جیسے ابھی
دماغ کی رگیں پھٹ جائیں گیں۔کام میں بھی زیادہ دھیان نہیں دے پا رہا تھذ۔اج بھی
اپنی طبعیت کے زیر اثر وہ جلدی گھر آگیا۔
ارے میرا بچہ اتنی جلدی گھر آگئے او ہمارے ساتھ چائے
پیو سفوان اتنے دن ہو گئے افی بیٹی کو گئے ہوئے اب جا کر انہیں لے او۔سارا بیگم نے
کہی تھی یہ بات۔
جی اچھا میں زرا اپنے کمرے میں جا رہا ہوں پلیز ایک چائے
کا کپ وہیں بھیج دیں۔انکی بات مختصر جواب دے کر خود اپنے کمرے میں چلا گیا ۔
اکر نماز پڑھی جب دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو بے اختیار
دعا نکلی۔
یا اللہ سے دلوں کے حال جاننے والے معبود تو میرے دل کا
بھی مجھ سے زیادہ بہتر جانتا ہے تو نے آج تک میرے بن مانگے اپنی ہر نعمت دی میرے
دل میں کبھی نامحرم کے لیے محبت ڈال کر ازیت نہ دی لیکن میرا اللہ تو میرے دل میں
میری بیوی میری محرم کے لیے محبت پیدا کی کہ سب میں اس سے دور نہیں جانا چاہتا۔یا
اللہ اس کا دل میرے لیے نرم کر دے اسکے دل میں میرے لیے محبت پیدا کر دے میرے مالک
اپنے محبوب کے صدقے میں دعا پر کن کہہ دے۔امین۔
بھائی ماما نے چائے اور سینڈوچ بھیجے ہیں آپ کے
لیے۔علینہ دستک دے کر کمرے میں داخل ہوئی۔
ارے گڑیا کیا حال ہیں آپ کے زیادہ ہی مصروف ہو بھائی سے
بھی ملنے کا ٹائم نہیں ملتا۔اس نے پیار سے شکوہ کیا۔
بس بھائی ایگزیمز میں مصروف بھی اب بلکل فری ہوں بھائی
آپ سے ایک بات پوچھوں۔؟اس نےکہا۔
ہاں پوچھو۔
بھائی آپ بھابھی کو کب واپس لائیں گیں پتہ انکے ساتھ
ہمیں کتنا مزہ آتا ہے اب ہم سب انہیں بہت مس کر ہے ہیں آپ جلدی سے جا کر انہیں لے
آئیں نہ۔اس نے التجہ کی
بیٹا ابھی تو گئی ہیں وہ ابھی تھوڑے دن رہ لیں پھر لے
آؤں گا انشااللہ۔اس مسکرا کے کہا۔
پکا پرومیس۔اس ہاتھ آگے کیا
ہاں جی پرومیس چلو اب میں زرا آرام کروں گا۔اس نے کہا
#&-++)):’””&-++##&-------$#¢¢¢€€€€₹₹₹₹
اس دن کے بعد حنا بیگم نے بھی افیرا سے بات کرنا بند کر
دی تھی بس لیے دیے سا رویہ اختیار کر لیا تھا افیرا کو بہت شرمندگی تھی حنا بیگم
کی باتوں سے وہ مزید شرمندگی سے دوچار ہوگئی تھی۔اج صبح سے کی افیرا کو بے چینی
گھرا ہوا تھا کوئی چیز اسکو اچھی نہیں لگ رہی تھی خرم وغیرہ بھی اسکے چھیڑتے تو
کوئی جوابی کاروائی نہں کی۔ ابھی وہ بیٹی ہوئی تھی کے اس کا سیل رنگ کیا۔عمارہ کی
کال تھی۔
اسلام و علیکم آج کیسے میری یاد آگئے جناب کو۔اس منہ
بنا کہ شکوہ کیا۔
اپکی یاد تو ہر وقت ہی آتی رہتی ہے۔اپ کی ہیں جو ہمیں
بھول بیٹھی ہیں۔اس نے جواباً شکوہ کیا
ایسی بات نہیں ہے یار میں بھی تم سب کو بہت یاد کر رہی ہوں
اور گھر میں سب کیسے ہیں۔اس نے پیار سے کہا۔
سب ٹھیک ہیں لیکن سفوان بھائی کی طبعیت بلکل ٹھیک نہیں
ہے۔اس نے پریشانی سے بتایا۔
کیا ہوا انہیں۔افیرا نے بے چینی سے پوچھا
کل سے انہیں بہت تیز بخار ہے کل آوفس سے بھی جلدی آگئے
تھے رات میں جب بڑی ماما انہیں کھانے کے لیے بلانے گئیں تو بخار میں تپ رہے تھے
ڈاکٹر نے دوائی دی پر بہتر نہیں ہوئی انکی طبعیت۔اس نے تفصیل بتائی۔
اور تم مجھے ابھی بتا رہی رات میں ہی بتا دیتیں ماما
بھی کیا سوچ رہی ہوگیں میرے بارے میں۔اس نے پریشانی سے کہا
بڑے بابا نے منع کیا تھا کہ اپکو کچھ نہ بتائے ورنہ آپ
پریشان ہو جائیں گیں سب کا یہی خیال تھا صبح تک بخار اتر جائے گا لیکن ابھی تک
نہیں اترا۔عمارہ نے ساری بات سے آگاہ کیا۔
اچھا ٹھیک ہے میں آرہی ہوں اوکے اللہ حافظ کہہ کر فون
بند کر دیا
عمان بھائی آپ مجھے گھر چھوڑ آئی میں جلدی سے۔اس نے
عجلت میں کہا
کیا ہوا افی خیریت ہے نہ۔ندا بیگم نے پریشانی پوچھا۔
نہیں چچی سفوان کو کل سے بہت تیز بخار ہے ابھی عمارہ کا
فون آیا تھا اس نے بتایا۔اس نے جلدی بتایا۔
میرا بچہ اتنا پریشان ہو انشاللہ وہ ٹھیک ہوگا جاؤ عمان
اسے چھوڑ او۔حنا بیگم نے کہا
پھر وہ اپنا سامان کے کہ آئی اور عمان کے ساتھ جنت پیلس
اگئی۔
#$_--)))))(/##_______$##$_____________&
اسلام و علیکم بھابھی کیسی ہیں اپ۔کنول نے گلے لگ کہ
پوچھا
وعلیکم السلام میں ٹھیک ہوں سب کہا ہیں۔کچھ اپنے کمرے
میں کچھ سفی بھائی کے کمرے میں۔اس نے بتایا۔
#&-))+_#####&-))(((///:_$#-)+)))_#-!
جب وہ اپنے کمرے میں آئی تو سب یہی ہی تھے۔
اسلام و علیکم۔سب کو سلام کیا
وعلیکم السلام بیٹا کیسی ہو اپ۔سب نے جواب دیا۔
میں ٹھیک اب کیسی طبعیت ہے ان نے فورا پوچھا۔
ابھی بخار ہلکا ہے پتا نہیں کیا ہوا اچانک ڈاکٹر کہہ
رہے تھے انہیں کوئی ٹینشن ہے جس کی وجہ انہیں بخار ہوا ہے۔ناہید بیگم نے بتایا
افیرا کے آتے ہی سب تھوڑی دیر بعد اپنے کمرے میں چلے
گئے تھے۔
یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے نہ میں اپکو تنگ کرتی نہ آپکا
یہ حال ہوتا پتا نہیں آپ مجھے معاف کریں گیں بھی یا نہیں ۔اس نے دل میں سوچا
انکھوں سے دو گرم سیال گرے۔
اور پھر وہ اسکے پٹیاں رکھتی رہی
@___&&--++))))-$$$$$$_$_&&-----+__&--
صبح جب اسکی آنکھ کھلی تو سفوان کمرے سے غائب تھا نیچے
گئی تو معلوم ہوا کہ وہ آوفس چلا گیا افیرا کو شرمندگی بھی ہوئی اور غصہ بھی ایا۔
پورا دن بے چینی میں کٹا تھا۔اس رہ رہ کر سفوان پر غصہ آرہا
تھا۔
پتا نہیں ایسی کونسی خوبصورتی ہے آوفس میں جو ایک ٹک کہ
گھر میں بیٹھا نہیں جا سکتا آجائیں آج پھر بتاتی ہوں انہیں۔غصے میں ادھر ادھر ٹہل
رہی تھی۔
سفوان کمرے میں داخل ہوا اسے دیکھ کر بھی نظر انداز کر
دیا اور کوٹ ایک جگہ رکھ کہ کاؤچ پر ڈھیر ہوگیا بخار ابھی پوری طرح نہیں اترا تھا
اس کمزوری محسوس ہو رہی تھی۔
آپکی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی پھر آوفس جانے کی ضرورت
کیا تھی ایسی کونسی کشش ہے جو اپکو روز آوفس کھینچ کہ لے کر چلی جاتی۔اس نے کمر پر
ہاتھ رکھ اسکے سامنے کھڑی تھی جبکہ لہجہ نرم تھا
کیا مطلب ہے آپکا اور پلیز مجھے اس وقت نہیں لڑنا برائے
مہربانی مجھے بخش دیں۔اس نے بے زاری سے کہا۔
اگر آپکی طبعیت ٹھیک نہیں تھی تو گھر پر رہنا چاہیے تھا
زیادہ ہی طرم خان بنے رہنا ہے اگر ایک دو دن نہیں جائیں گیں تو کوئی نقصان نہیں
ہونا اور ماما وغیرہ بھی سب پریشان تھیں اور ناشتہ بھی نہیں آوفس میں کچھ کھایا
تھا۔وہ اپنی ہی بولنے مصروف تھی
ماں ہیں اس لیے پریشان ہوگئیں آپ زیادہ فکر نہ کریں اگر
مجھے سکون نہیں دے سکتیں تو پلیز چلی جائیں کمرے سے میرے پہلے ہی سر میں درد
ہے۔چڑے ہوئے لہجے میں کہ کر وہ ڈریسنگ روم میں چلا گیا۔
انہیں کیا ہوا یہ ایسے تو بات نہیں کرتے۔اس نے دکھ سے
سوچا۔
جو کچھ تم سفوان کے ساتھ کر چکی ہو اس کے بدلے وہ تمھیں
پھولوں کے ہار تو پہنانے سے رہا مرد کی محبت کو جب بے رحمی سے رد کر دیا جائے تو
اس کی محبت میں خلاء آئی ہی جاتی ہے مسز سفوان لودھی۔یہ آواز اسکے ضمیر کی تھی جو
اسے ملامت کر رہا تھا۔
میں جانتی ہوں میں انہیں بہت پریشان کیا ہے لیکن اب میں
واپس آگئی ہوں اور میں ہمیشہ انکے ساتھ رہنا چاہتی ہوں اور ان سے معافی بھی مانگنا
چاہتی ہوں۔اس نے دل میں کہا۔
معافی اتنی آسان نہیں افیرا بیبی کچھ تو سزا آپکے زمہ
میں بھی انی ہے ایک مخلص انسان کو جو کہ تمھارا شوہر ہے جسے تمھاری روح کا حصہ
بنایا گیا اسے ہی تم نے تکلیفوں سے چھلنی کیا ہے۔ضمیر مسلسل اسے کچوکے لگا رہا
تھا۔
نہیں سفوان مجھ سے اب بھی محبت کرتے ہیں اور وہ بہت
اچھے ہیں مجھے اپنا لیں گیں اگر میں انہیں مناؤں گیں تو۔اس نے دل میں عہد کر کہ
کہا
+#+#+#+#-+#+#+@++@+@+@+@+@!@!
اگلے کچھ دن بھی خاموشی کی نظر ہوگئے کیوں نکہ افیرا کو
سوری کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل رہے تھے دوسرا سفوان اب افیرا سے بات نہیں کرنا
چاہتا تھا کیوں نکہ اسے ڈر تھا افیرا اس سے پھر وہ بات کہے گی جو وہ کبھی نہیں
کرنا چاہتا۔سفوان کے طبیعت اب کافی بہتر ہوچکی تھی۔اور سارے گھر والے بھی مطمئن ہو
گئے تھے۔رات میں سب کھانے میں مصروف تھے۔اور باتیں بھی کر رہے تھے۔
@+#++#+#)#)#)#)#)#)#)##))#)##))##))##)#)#
افیرا بیٹا آپکے گھر میں سب کیسے ہیں؟حمید صاحب نے
کھانا کھاتے ہوئے پوچھا۔
جی الحمدللہ سب ٹھیک ہیں۔اس نے مسکرا کے جواب دیا۔
افیرا پلیز اب تم رکنے مت جانا پتا ہے ہمیں تمھاری کتنی
یاد آرہی تھی۔ہم نے سفوان بھائی سے بولا بھی تھا کہ آپ کو جا کر لے آئیں لیکن روز
آج لے آؤں گا کل لے آؤں اچھا ہوا جو بھائی بہ
بیمار ہو گئے اور تم اگئیں۔سعد صاحب تو شروع ہوتے ہیں
آخر میں پتا بھی نہیں ہوتا کیا بول چکے ہیں۔
ایک تو تمھاری بولنے کی بیماری سے ہم بہت پریشان ہیں
اپنے بولنے میں پتا ہی نہیں ہوتا کیا بولے جا رہے بلال نے تاسف سے کہا۔
سوری بھائی میرا یہ مطلب نہیں تھا سوری ۔اس نے سر جھکا
کہ کہا۔
ارے یار کوئی بات نہیں اور بیمار ہونا اچھی بات ہے گناہ
معاف ہوتے ہیں۔اس نے مسکرا کہ کہا۔
ویسے بھائی ایک بات بتائیں آپ افیرا کے اتنے سکون سے رہ
رہے ہیں یہ تو اتنا بولتی ہے کہ انسان ہاتھ بھئی اب چپ ہوجا جبکہ آپ ہ۔ارے معصوم
بھائی۔سعد نا باز آنے والی ہڈی۔
تمھاری سنائے گی نہ تب پوچھوں گا کہ کیسے برداشت کرتے
ہو جو اپکا جواب ہوگا وہی میرا۔اس نے ہنس کہ کہا۔
ٹھیک ہے پھر ماما آپ لوگ جلدی سے تیاری کریں مجھے بھی
یہ تجربہ کرنا ہے تاکہ مجھے بھائی کا جواب مل۔سکے۔اس نے شرارت سے کہا۔
بہت کوئی بڑی چیز ہو تم پڑھ لو پھر کر لیں نہ تجربہ
بھی۔دیان نے ہنس کہ کہا۔
#-+#+#+#+#+#+#+#++#)@)#)#)#)#!#!#)#!#
ان مانچ نہ میں کافی کچھ ہوا تھا امان زرنش اور سعد
ماہین کا بھی رشتہ پکا ہو گیا تھا اور عمان کی علینہ کے لیے پسندیدگی محبت میں
تبدیل ہو گئی تھی لیکن آج تک اس نے کسی کے سامنے اظہار نہ کیا اسے ڈر تھا کہ وہ
منع نہ کردیں اور وہ اپنی محبت کی تذلیل برداشت نہیں کر سکے گا۔دوسری طرف ہمان کو
اللہ نے بیٹے جیسی نعمت سے نوازہ تھا جو کہ ابھی صرف ایک ماہ کا تھا۔اپنے ماما
پاپا کی طرح کیوٹ سا۔
#+#+#++#+@+@+@+@+@@؛!@!@!#!#+#
آج افیرا نے سوچا تھا کہ وہ سفوان سےبات کرے گی اس لیے
کافی لے کر کمرے میں آئی آج سفوان کمرے میں ہی موجود تھا۔
یہ آپکی کافی ماما نے بھیجوائی ہے۔اس نے آہستہ سے کہا۔
ہمم رکھ دیں یہاں۔اس نے اسے ایک نظر دیکھ کہ مختصر سا
جواب دیا
مجھے آپ سے ایک بات کہنی تھی اس دن جو میں اپکو کہا تھا
کہ آپ اور میں الگ۔اس نے تھوڑی آہستہ سے کہا۔
پلیز ابھی میں اس بارےمیں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا اور
جب مناسب وقت ہوگا میں اپکو اس رشتے سے نجات دے دوں گا کوشش کروں گا کہ آپ پر یہ
رشتہ زیادہ دن بوجھ نہ رہنے دوں۔اس کی بات کاٹ کہ کہا
آپ میری بات تو سن لیں۔اس نے پھر کہنا چاہا۔
کیا سنو بتائیں کیا سنو یہی کہ آپ مجھ سے علیحدگی چاہتی
ہیں اپکو مجھے دیکھنا زہر لگتا آپ مجھے اپنی نظروں کے سامنے برداشت نہیں کر سکتیں
کیوں کر رہی ہیں آخر یہ سب اب یہ بات نہ کی جائے گا جب مجھے لگے گا کہ اب میں اور
آپ دونوں اس رشتے کو نہیں چلا پائے آزاد کر دوں گا اپکو۔غصے میں اسے بازو سے تھام
کے کہا۔اور پھر زور سے پیچھے کیا۔
مم میں آپ سے علیحدگی نہیں چاہتی آپ سے دور نہیں جانا
چاہتی آپ سے ہو اس تکلیف کی معافی مانگنا چاہتی ہوں جو میں نے اپکو دیں ان چند
دنوں میں مجھے احساس ہوا کہ میں آپکی اور اس گھر کے مکینوں کی عادی ہو چکی ہوں آپ
سے محبت کرنے لگی ہوں پلیز مجھے معاف کر دیں پلیزززز۔انسوں کے بیچ میں کہا اس نے
اور سفوان کے گلے لگ گئی۔اور سفوان تو سن کھڑا تھا۔
-#+#+#+$+$++#+#+#+#+#+#+#++#+#+##++#
سفوان کو بلکل یقین نہیں آرہا تھا کہ افیرا ہی جو آج تک
اس سے نہ صرف نفرت کو اظہار کرتی آئی تھی بلکہ اسے تو سفوان کا چہرا دیکھنا بھی
برداشت نہ تھا۔اس کو خاموش پا کر افیرا نے سر اٹھایا۔
بولیں نہ سفوان پلیز کچھ تو بولیں کیا آپ میری غلطیوں
کو معاف کریں گیں کیا آپ کے دل میرے لیے ابھی بھی محبت ہے کیا آپ ہمیشہ مجھے اپنے
ساتھ لے کر چلے گیں کیا آپ میرے ساتھ اپنی آگے کی لائف اسپینڈ کریں گیں۔؟۔اگیرا کے
لہجے میں ایک اس تھی
معافی اتنے مہینے میں ازیت میں رہا آپ کے ساتھ رہتے
ہوئے نا اپنی محبت کا لفظی اظہار نا کر سکا نہ ہی عملی اس لیے کہ آپ مجھے مزید غلط
نہ سمجھیں میں ہمیشہ وہ کام کرتا رہا جو آپ کو سکون میں رکھ سکتے تھے لیکن آپ نے
آپ نے کیا کیا ہر بار اپنے لفظوں کے تیر میرے دل پیوست کرتی رہیں۔اب اپکو احساس
ہوگیا کہ آپ میری اور اس گھر کی عادی ہو چکی ہیں تو آپ واپس آگئیں کہ معافی مانگوں
گیں اور معافی مل جائے گی کیا ہوا جو اتنی تکلیفیں کیا کچھ نہیں ہوا سفوان انسان
تھوڑی پتھر ہے جیسے آپکی ہر بات درگزر کرتا آیا ہے یہ بھی کر دے گا سب بھلا دے
گا""۔اج سفوان بھی چپ نہیں رہا کیونکہ وہ کافی ٹائم سے اس زہنی ازیت سے
دوچار ہو رہا تھا۔
سفوان آپ تو مجھ ہیں نہ آپ بھی تو مجھے نہیں چھوڑنا
چاہتے نہ مجھے میں مانتی ہوں مجھ سے بہت غلطیاں ہوئیں ہیں لیکن آپ تو بہت اچھے ہیں
نہ تو پلیز مجھے معاف کر دیں میں وعدہ کرتی ہوں اپکو پھر کبھی کسی شکایت کا موقع
نہیں دوں گیں ہمیشہ آپ کو خوش رکھنے کی کوشش کروں گیں پھر سے اپکو کوئی تکلیف نہیں
دوں پلیز ایک دفع مجھے معاف کر دیں میں آپکے بغیر نہیں رہ سکتی نہ آپکی بے رخی
برداشت کر سکتی ہوں۔انسو اب بھی اسکے گال پر برس رہے تھے۔
ہاں کرتا ہوں میں آپ سے محبت اور بہت کرتا لیکن اپکو
کیا آپکے لیے تو میری محبت کوئی معنی ہی نہیں رکھتی اور آپ تو اس رشتے کو قبول کی
نہیں کرنا چاہتیں نہ۔سفوان نے بھی اسکی کہی بات یاد دلائی۔
ہاں میں پھل تھی جو اس رشتے کی اہمیت اور آپکی اہمیت
سمجھ نہیں پائی لیکن اب میں اس رشتے کو اور اپکو سمجھنا چاہتی ہوں بولیں سمجھائیں
گیں مجھے۔اس نے ہاتھ پھیلا کہ کہا آنکھوں میں امید تھی
سوچ لیں میں جیسے سمجھاؤں گا آپکے سمجھ اجائے گی۔اس ایک
آبرو آچکا کہ زومعنی خیز لفظوں میں کہا۔
ہاں آپ سمجھائیں گیں تو سنائے گی میں اتنی بری سٹوڈنٹ
بھی نہیں ہوں ہر بات جلدی جلدی سمجھ لیتی ہوں۔اس نے لفظوں کا مفہوم نہیں سمجھا تھا
س لیے بول گئی
اچھا جی پھر او میں سمجھاوں۔کہ اس کی کمر میں ہاتھ ڈال
کہ اسے قریب کیا۔
ی یہ کیا کر رہیں چھوڑیں مجھے۔اس نے ایک دم بوکھلا کہ
کہا۔
سمجھا رہا ہوں اہمیت اپنی اور اس رشتے کی۔اس نے شرارت
سے کہا
ہاں تو یہ کونسا طریقہ ہے سمجھانے کا عجیب باتیں کر رہے
ہیں۔اس نے اسکے ہاتھ ہٹائے۔
یہ میرا طریقہ ہے سمجھانے کا اور اسے میں صرف سے سمجھا
سکتا ہوں۔سفوان کا موڈ ایک دم چینج ہوا تھا۔
مجھے نہیں پتا تھا اب ایسے نکلیں گیں۔افیرا نے سفوان کے
سینے پر سر رکھ کہا۔
میرے پاس رہتی تو پتا چلتا نہ کہ میں کیسا نکلتا ہوں۔اس
نے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا
آئی لو یو سو مچ اینڈ آئی ڈونٹ وانٹ ٹو لیو یو پلیز
نیور ایور یو لیو می۔سفوان نے ایک جزبہ سے کہا۔
آئی لو یو ٹو آئی السو ڈونٹ وانٹ ٹو لیو یو۔اس نے مسکرا
کہ کہا۔
اللہ نے سفوان کیںدعا پر کن کہہ دیا تھا اور اسے اپنی
بیوی کی محبت حاصل ہو گئی اور اللہ ان کے پاک رشتے کو محفوظ رکھا تھا۔ضروری نہیں
کہ ہمیشہ بیوی ہی اپنے شوہر کی محبت مانگیں بہت سی بات ایسا ہوتا کہ جو شوہر اپنی
بیوی سے محبت کرتا وہ بھی اپنی اپنی محرم کی محبت کے لیے دعا گو ہوجاتا۔
+#)#+#+#+#+#!#!#!$!$!$!$!$!$!$!$!!$!$!
سفوان اپکو پتا ہے میرا ایسے رشتے سے کبھی پالا ہی نہیں
پڑا مجھے کسی کا چھونا تک برداشت نہیں تھا نہ مجھے پسند تھا کہ کوئی مجھے کسی کام
کے لیے روکے ماما ہمیشہ مجھے بہت سی غلط باتوں پر ڈانٹ دیتی تھیں پر بابا کہتے
۔یری بیٹی کو کچھ نہیں کہا کرو لیکن ماما مجھے ہمیشہ سمجھاتی رہتی تھیں اس لیے میں
کتنی بھی ضدی اور بدتمیز تھی لیکن کسی ایسے کام میں نہیں پڑی جس سے صرف پچھتاوا ہو
لیکن میں نے اپکو تنگ کیا آپ کو تکلیف دی جس کی وجہ سے مجھے بھی تکلیف ہوئی۔وہ
سفوان کے سینے پر سر رکھ کہ کہہ رہی تھی۔
اچھا جی افی اپکو پتا ہے پہلے میں اپکو بلکل پسند نہیں
کرتا تھا اس دن جو آپ نے کیا جب اپکی گاڑی سے ایکسیڈینٹ ہوا تھا اور اپنے کتنا غلط
کہا تھا مجھے بہت غصہ آیا تھا کہ کوئی انسان کیسے کسی دوسرے انسان کو اتنی حقارت
سے دیکھ سکتا ہے اس کے بعد جب بھی ہماری ملاقات ہوئی آپ نے ہمیشہ بدتمیزی کا
مظاہرہ کیا مجھے بہت بری گلتی تھی آپ اور میں نے ماما کو منع کر دیا تھا میں آپ سے
شادی نہیں کروں گا کیونکہ مجھے ایسی بدتمیز لڑکیاں پسند نہیں۔اس نے صاف گوئی سے
کام لیا۔
پھر آپ مجھ سے شادی کے لیے تیار ہو گئے۔اس نے اپنا سر
اٹھا کہ کہا۔
ماما نے کہا کہ اپکو گھر والوں کے لاڈ نے تھوڑا ضدی بنا
دیا جب میری آپ سے شادی ہو گی اور میں اپکو اپنے رنگ میں ڈاھلنے کی کوشش کروں گا
تو آپ ڈھل جائیں گیں اور اس پاکے رشتے میں اللہ خودی محبت پیدا کر دیتا ہے اس میں
مان گیا اور پھر جب اپکو نکاح کے بعد دیکھا تو واقعی مجھے اپنے اندر تبدیلی کا
احساس ہوا پھر مجھے آپ سے محبت ہوتی گئی۔اس نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے
کہا
ہممم ٹھیک کہہ رہے ہیں اپ نے مجھے معاف کر دیا نہ
سفوان۔اس کے دل میں ابھی بھی کہیں ڈر تھا۔
میری جان جب ہم کسی سے محبت کرتے ہیں نہ تو ہم اسے تمام
خامیوں کے ساتھ بھی قبول کرتے ہیں اور اگر وہ آپکا کبھی دل دکھائے اور پھر معافی
مانگے تو آپکے لیے یہی بہت ہوتا ہے کہ اسے آپکا احساس ہے میں نے بھی سوچا تھا اپکو
معاف نہیں کروں گا لیکن جب آپ نے مجھ سے اپنے دل کی بات کی اور سوری بھی کہا تو
میں خود کو سخت نہ بنا سکا اور آپکی دی گئی ساری تکلیفوں کو بھول گیا۔سفوان نے
مسکرا کہ کہا۔
ویسے اب تو آپ مجھ سے دور نہیں ہوگی نہ ۔سفوان نے اسکی
کمر میں ہاتھ ڈال کر مزید قریب کر کہ شرارت سے کہا
نہیں بلکل بھی نہیں پتا ہے ماما بابا کہ گھر جا کہ مجھے
سب کی اتنی یاد آرہی تھی اور میں تو بور ہورہی تھی اور۔۔۔۔۔۔"سفوان صاحب نے
انہیں آگے بولنے نہیں دیا۔
+#+#+#+#)#)#)@)@)@!!@!@!@!@!@@!
صبح فجر کے ٹائم جب افیرا کی آنکھ کھلی تو اس نے فوراً
اٹھنے کی سعی کی لیکن اسکے گرد سفوان کا بازو تھا۔
سفوان اٹھیں نماز کا ٹائم ہو گیا ہے۔افیرا نے سفوان کو
ہلایا۔
دو تین اوازوں پر بھی جب وہ نہ اٹھا تو افیرا اس کے
بازو ہٹانے لگی۔
کیا ہوا کہا جا رہی ہیں۔سفوان کے آنکھیں کھولیں
نماز کا وقت کوریا نماز پڑھنے جا رہی ہوں اور آپ بھی
اٹھ جائیں نماز پڑھ کہ ائیں۔افیرا نے سفوان کے بال سیٹ کرتے ہوئے کہا۔
اپ کب سے نماز پڑھنے لگ گئیں۔سفوان حیران ہوا کیوں کہ
اس نے افیرا کو نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا۔
میں تو ہماری شادی کے کچھ ہفتے بعد سے ہی نماز کی پابند
ہو گئی تھی کیوں گھر میں سب پڑتے تھے اس مجھے بھی پڑھنے کا شوق ہوا اور میں جب سے
نماز پڑھنا شروع کردی کیوں کہ اس میں بہت سکون ہے۔اس مسکرا کے جواب دیا۔
پھر مجھے کبھی کیوں نظر نہیں آئیں نماز پڑھتے ہوئے۔اس
نے حیرانی پوچھا
کیوں کہ جب آپ گھر میں موجود ہوتے تھے تو میں علینہ
وغیرہ کے ساتھ جا کر نماز ادا کر لیتی تھی اور واپس کمرے میں آجاتی تھی۔اس آرام سے
کہا
اچھا جی چلیں نماز پڑھتے ہیں پتا ہے میری ہمیشہ سے
خواہش رہی ہے کہ میں اپنی شریک حیات کے ساتھ نماز ادا کروں۔سفوان نے پیار سے کہا۔
پھر دونوں نے نماز ادا کی اور ساری دعاؤں کے بعد ایک
دوسرے کا ساتھ ہمیشہ کے لیے مانگا۔
)#)#+@+#++#+#+#+#+#+#++@؛@+#+
دن ہنسی خوشی گزر رہے تھے گھر میں فارس اور وجدان کی
شادی کی تیاریاں چل رہی تھی پر افیرا جی ادا کی کاہل اپنی شاپنگ نا کر پائی تھیں
اور شادی میں بس دو دن باقی تھے اس لیے سفوان آج افیرا کو شاپنگ کے لیے لے گیا۔
سفی آپ خود کر لیتے میری شاپنگ مجھے کیوں گسھیٹ لائیں
ہیں گھر میں اتنے کام ہے اور آپ ہیں کہ مجھے یہاں لے آئے میرے پاس پہلے سے ہی بہت
کپڑے ہیں۔اس نے بیزار آکر کہا
افیرا کو پہلے ہی شاپنگ کا زیادہ شوق نہیں تھا شادی سے
پہلے بھی وہ اپنی شانگ کے لیے حنا بیگم سے کہہ دیتی۔
ایک آپ اتنی مصروف ہوگئی ہو گھر میں آپ نے معصوم شوہر
کا کوئی خیال نہیں رہتا کہ میں آپکے ساتھ ٹائم اسپینڈ کرنا چاہتا ہوں۔اس نے خفگی
سے۔
یعنی میں کوئی کام نہ کروں آپکے پہلو میں بیٹھی رہوں ہے
نہ تا کہ گھر والے کہیں کیسی کام چور بہوہے ہر وقت اپنے کمرے میں رہتی ہے۔اس نے
منہ پھلا کہ کہا۔
اچھا نہ یار ہم لڑائی نہج کرنے آئے آپکی شاپنگ اور آپس
میں پیار بھری دو باتیں کرنے ائیں ہیں۔سفوان نے کے کہا۔
ایک تو یہ آپکی پیار بھری باتیں مجھے ایسا لگتا اسکا
کوئی پیکج ہے آپکے پاس جو آپکی پیار بھریییی باتیں ختم ہی نہیں ہوتی ہیں۔افیرا نے
تنگ آکر کہا سچ سفوان بہت رومینٹک شوہر ثابت ہوا تھا ہر افیرا پر پیار کی برسات
کرتا رہتا تھا۔
جب نہیں ہوں گا نہ میں پھر پتا چلے گا کہ کتنا اچھا
شوہر تھا یا اللہ کیسی نا قدری بیوی دی ہے۔دہائی دی۔
اللہ نہ کرے سفی آپ اتنی فضول باتیں کیوں کرتے ہیں میں
آپکے ساتھ اپنی ساری لائف گزارنا چاہتی ہوں۔اس کی آنکھیں نم ہو گئیں۔
ارے میری جان میں تو بس مزاق کر رہا تھا ایم سوری میں
اپکو ہرٹ نہیں کرنا چاہتا تھا۔سفوان نے اسکے دونوں ہاتھ تھامے۔
کیا کر رہے ہیں ہم پبلک پلیس میں ہیں گھر میں
نہیں۔افیرا نے فوراً ہاتھ ہٹائے۔
افی آپ میری بیوی ہیں جب چاہے جہاں چاہے ہاتھ پکڑنے کا
حق رکھتا ہوں سمجھیں آپ اور اب ہاتھ مت چھوڑیے گا۔اس نے پھر ہاتھ پکڑ لیا افیرا
بیچاری مسکرا دی۔
اچھا سنیں مجھے تین دن کے لیے لندن جانا ہے ایک میٹنگ
کے لیے شادی کے دو دن بعد۔اس نے آرام سے بتائے۔
کیوں بھئی آپ کیوں جا رہے میں کیسے رہوں گیں اور آپ کسی
اور کو بھیج دیں نہ۔افیرا کی تو جان آدھی ہوگئی۔
میرا بھی دل نہیں لیکن مجھے ہی جانا پڑے گا وہ ڈیل
امپورٹینٹ ہے اور وجدان کو اپنے شادی کے شروع کے دن کرنے ہیں اس لیے مجھے جانا پڑے
گا۔اور اپکو لے کہ چلا بھی جاؤں تو میں وہاں بزی رہوں گا اپکو بلکل ٹائم نہیں دے
پاؤں گا۔سفوان نے اطمینان سے سمجھایا۔
اچھا ٹھیک ہے پر آپ جلدی اجانا۔افیرا نے اداسی سے کہا۔
واہ جی میری کھڑوس بیوی کو مجھ سے اتنی محبت ہو گئی کہ
انہیں اب ہم آنکھوں سے اوجھل ہو تو بے ہونے لگتی ہے۔اس نے شرارت سے کہا۔
سفوان بس بھی کر دیا کریں اگر والے آپکا یہ روپ دیکھیں
نہ تو بے ہوش ہوجائیں۔اس نے ہنس کہ کہا۔
#+++$#+#+##!##!#!#!!#!#!#!!@#))#)@
مہندی اور برات کا فنکشن خیرو افیت سے گزر گیا برات سے
واپسی پر چند رسموں کے بعد ملیحہ اور عمارہ کو انکے کمروں میں بھیج دیا گیا تھا۔
ابھی وجدان اپنے کمرے جا ہی رہا تھا جب ساری ینگ جنریشن اسے اپنے کمرے کے باہر
ملی۔
کیا ہوا آپ سب یہاں کیا کر رہے ہو۔وجدان نے حیرت سے
پوچھا۔
اپنا نیگ لینے۔کنول نے کہا۔
ہیں کونسا نیگ باقی ہے اب بھئی اتنا تو لوٹ چکے ہو ہمیں
تم لوگ الٹی سیدھی رسموں میں جو آج تک ایجاد نہ ہوئیں۔اس نے تیوری ڈال کر پوچھا۔
تو آپ لوگوں کی شادی کونسا دوبارہ ہوگی دیں ہمارا نیگ
تبھی اپکو کمرے میں جانے دیں گیں۔افیرا نے سامنے ہاتھ پھیلا کہ کہا۔
بھابھی آپ بھی ان سب کے ساتھ مل گئیں آپ تو مجھ پر رحم
کریں۔اس رومی صورت بنا کہ کہا
بھائی زیادہ رومی صورت نہ بنائیں ہم اپکو بشنگ والے
نہیں ہیں۔دیان نے ہنس کے کہا
سفوان بھائی کے ٹائم پر تو تم لوگوں کو کوئی نیک یاد
آیا اب ہم غریبوں کو لوٹنے آگئے ہو چلو ہٹو شاباش مجھے اندر جانے دو۔اس تھوڑے غصے
سے کہا۔
بھائی ایسا کچھ نہیں ہو رہا اگر اپنے نیک نا دیا تو ہم
عمارہ بھابھی کو اپنے ساتھ لے جائیں گیں۔یہ علینہ تھی جس نے دھمکی دی تھی۔
سفوان بھائی دیکھیں یار انہیں میری بیوی اتنی معصوم ہے
اندر ڈر رہی ہوگی اور انکے ڈرامے ہی ختم نہیں ہو رہے۔وجدان نے سفوان سے کہا جو
ابھی ابھی آیا تھا۔افیرا کو بلانے۔
بھئی میں کچھ نہیں کر سکتا تمھاری شادی تمھاری کمرا تم
جانوں تمھاری جیب جانے۔سفوان نے ہری جھنڈی دیکھائی جس پر سب کا قہقہ لگا
بھائی آپ بھی پرائے ہو گئے ان لوگوں کے ساتھ مل گئے۔اس
نے روہانسہ ہو کر کہا۔
جی کیوں کے بھائی کی بیگم ہمارے ساتھ ہیں اور جہاں
افیرا وہاں بھائی۔سعد نے شرارت سے کہا۔
جس افیرا جھینپ گئی اور سفوان نے قہقہ لگایا۔
آخر کار وجدان نے پیسے دے دیے اور اپنے کمرے میں چلا
گیا۔
جنت پیلس خوشیوں سے جگ مگا رہا تھا شاید جلد ہی ان کی
خوشیوں کو نظر بد لگنے والی تھی۔
********************
جاری ہے
Comments
Post a Comment