Hum ne chaha hai tumhen qalb se novel by Hoorain Khan Last Part

Hum ne chaha hai tumhen qalb se novel by Hoorain Khan Part 2

"ہم نے چاہا ہے تمھیں قلب سے"
از "حورین خان"
آخری حصہ
+#+#+#+#+#+#+#+#+#)#)#!#!#!#!@!!
آج ولیمہ کا فنکشن اور صبح سے ہی سب مصروف تھے آج کا فنکشن بھی بینکٹ میں تھا گھر بڑوں کو آرام دیا گیا تھا اور سارے چھوٹوں نے کاموں کی ذمہ داریاں لی ہوئیں تھی.افیرا بھی صبح سے لڑکیوں کے ساتھ کاموں میں مصروف تھی اور صبح سے سفوان بھائی کو اگنور کر رہی تھی کیوں کہ سفوان اسے کوئی کام نا کرنے دیتا۔ اس لیے وہ بھی آوفس چلا گیا تھا ابھی وہ شام میں آوفس سے آیا تھا۔تو افیرا کو کافی کا کہا۔
+#+@+@+@!@!!@!#!#!#!#!#!#!#!!!#!#!)#!#!$
جائیں بھابھی آپکے وہ اپکو یاد کر ہے ہیں۔دانیہ نے شرارت بھرے لہجے میں کہا۔
مجھے ابھی بہت کام ہیں ایسا کرو تم دے او کافی انہیں۔اس نے ٹالنا چاہا۔
افی بیٹا سفی اپکو بول کے گیا اور ابھی آوفس سے آیا جاؤ آپ کافی لے کام تو ہو جائیں گیں۔سارہ بیگم نے پیار سے سمجھایا۔
جی چچی جاتی ہوں۔وہ شرمندہ ہو گئی۔
پھر کافی لے کر کمرے میں ائی۔ سفوان کاؤچ پر لیٹا ہوا پیشانی مسل رہا تھا۔
سفی آپکی کافی کیا ہوا آپکی طبیعت ٹھیک نہیں لگ رہی۔افیرا فکریہ لہجے میں کہتی اسکے پاس اگئی۔
مل گئی اپکو فرصت مجھ پر نظریں کرم کرنے کی جائیں کریں گھر کے سارے کام اپکو کیا میری فکر۔اس نے خفگی سے کہا
سفوان گھر میں شادی ہے اور سو کام ہیں اب کیا میں ہر وقت اپکے ساتھ رہوں سب ہی کام کر رہیں ہیں اب میں نوابوں کی طرح۔۔افیرا نے بھی چیڑ کہا
ہاں بس اپکو تو مجھ سے لڑنے کا موقع چاہیے اور دور رہنے کا بھی تو جائیں کریں گھر کے کام میں منع نہیں کر رہا۔اس نے تھوڑے غصے میں کہا اور بیڈ پر جا کہ لیٹ گیا
اچھا نہ اب میں لڑ نہیں رہی اب بھی تو ہر میرے پاس رہو کرتے رہتے ہیں اس لیے مجھے بھی غصہ اگیا۔افیرا نے نرم لہجے میں کہا۔
اچھا زرا میرا سر دبا دیں بہت ہیں ہو رہا ہے۔سفوان نے افیرا سے کہا
اتنا کام کیوں کرتے ہیں اپنا بھی خیال کر لیا کریں ہر وقت کام۔وہ اسکے سرہانے بیٹھ گئی۔
اپ رومنس تو کرنے نہیں دیتیں تو کام ہی کروں گا نہ۔سفوان نے اسکی گود میں سر رکھ کر شرارت سے کہا۔
اپکو تو بس ہر یہی باتیں سوجھتی ہیں یہ نہیں بندہ کبھی اس سے ہٹ کر باتیں کر لے۔اس نے منہ پھولا کہ کہا۔
اچھا آج زرا ٹھیک سے تیار ہونا جو شادی میں ہمارے پوز نہیں بن سکے تھے میں آج بنواوں گا۔اس نے کہا۔
پاگل ہیں ریسیپشن ہمارا نہیں فارس اور وجدان کا ہے اور پوز انکے بنے گیں میں کوئی پوز نہیں بنوا رہی۔افیرا نے ہاتھ روک کر کہا۔
افیرا میں کچھ نہیں جانتا میں آپکی نا بلکل نہیں سنو گا اچھی طرح سمجھ لیں۔سفوان حکیمانہ لہجے میں کہا۔
لیکن سفی۔۔۔"اس نے کچھ کہنا چاہا
لیکن ویمن کچھ نہیں جو کہہ رہا ہوں وہ کریں کبھی میری کسی بات پر مان لیا کریں ثواب ہی ملے گا اور میں فریش ہو نے جا رہا آپ بھی رات کی تیاری کر لیں۔یہ کہہ کر وہ باتھ لینے چلا گیا۔
)#)#!#!#!!$!$!$!$!$!$!#!#!#@!!@!@@!!@!#!#
افیرا نے آج فیروزی اور پیچ کلر کی کی میکسی پہنی تھی جس پر بہت نفیس کام کیا گیا تھا۔ اس پر ہم رنگ حجاب جو کہ اس نے تھوڑا عرصہ پہلے ہی پہننا ہی سٹارٹ کیا تھا وہ بھی سفوان کے کہنے پر۔سائیڈ پر دوپٹہ اور ہلکا سا میک اپ۔مہندی سے رچے ہاتھ اور انگلیوں میں پیاری سے رنگز۔وہ سفوان کے دل کہ تار چھیڑنے کے لیے تیار تھ جب سفوان تیار ہو کہ کمرے میں آیا تو مبہوت سا اسے دیکھتا رہا۔
کیا ہوا ایسا کیا دیکھ رہے ہیں میں اچھی نہیں لگ رہی۔اس نے اسے تکتا پایا تو پریشانی سے۔کہا۔
نہیں میری جان آپ تو سیدھا ہمارے دل میں اتر دل کو بے ایمان کر رہی ہیں۔سفوان نے شرارت سے کہ کر اس کی کمر کے گرد بازو حمائل کر دیے
اچھا جی شکریہ آپ بھی آج بہت پیارے لگ رہے ہیں کہیں کوئی آپ پر مر مٹی تو۔ اس نے سفوان کی شرٹ کو چھیڑ کر کہا۔
سفوان نے پیچ کلر کی شرٹ پر بلیک پینٹ کوٹ پہنا ہوا تھا۔گھنے بالوں کو سیٹ کیے بائیں کلائی میں گھڑی پہنے اپنی پوری مردانہ وجاہت کے ساتھ بہت خوبرو لگ رہا تھا۔
سچی چلو بیوی تو مرتی نہیں وہی مر مٹی گیں میں ان سے بات کر لوں گا۔اس نے آنکھ مار کہ کہا۔
اچھا جی آپکا سر نہیں توڑ دوں گیں میں اگر آپ کسی کے پاس گئے بھی تو۔افءرا نے منہ پھلا کہ کہا۔
ہائے میری بیوی جیلس جب ہوتی ہے تو قسم سے بہت پیاری لگتی ہے۔سفوان نے اسکی پھولی ناک کو چھوا۔
اچھا ہٹیں دیر ہو رہی۔افی نے اسکے حصار سے نکلنا چاہا۔
جی نہیں ابھی ٹائم ہے جانے میں اور میں ابھی اپکو کہیں جانے دینے والا نہیں ہوں سمجھیں اپ۔سفوان حکیمانہ لہجے میں کہا۔
کنول تم کیا ہوا کوئی کام تھا۔افیرا نے مسکراہٹ دبا کہ کہا۔جس پر سفوان نے اسے فورا چھوڑا۔
ہاہاہاہاہاہا ڈر گئے۔افیرا نے چیڑایا
اپکو تو ابھی بتاتا ہوں بھاگ کر کہا جائیں گیں۔کہ کر اسنے پھر سے اسے حصار میں لے لیا۔
اچھا نہ سوری اب نہیں کروں گی چھوڑیں مجھے۔اس نے حصار توڑتے ہوئےکہا۔
نہیں جی۔سفوان نے نفی میں سر ہلایا۔
اتنے میں سعد گیٹ پر آیا ایسے منظر دیکھ کر فورا منہ ادھر کر لیا ۔
سفوان بھائی میں اجاوں۔اس نے گلا کھنکھار کہ کہا۔
اں۔۔ہاں او کوئی کام تھا۔سفوان نے جلدی افیرا کو چھوڑا۔
میں ابھی آئی سارے انتظام دیکھ کہ۔افیرا ایک دم بوکھلا گئی۔
سارے انتظام ٹھیک ہیں بس آپ دونوں کا انتظار ہے پر لگتا آپ دونوں کا ارادہ نہیں آنے کا۔سعد نے شرارت سے کہا۔
ایسی کوئی بات اپنے پاس سے مفروضے نہ گڑھ کیا کرو سمجھے۔سفوان نے روعب والے لہجے میں کہا۔
اچھا چلیں۔
$__:----+#&:---&$#$$#$&-----&$#$######$_&
علینہ بھی خیرو عافیت سے گزر گیا سفوان نے افیرا کے بار بار منع کرنے کے باوجود پوز بن وائل لیے تھے اور افیرا بس جھجک کر رہ گئی۔اج سفوان کی لندن کی فلائٹ پتا نہیں آج بسکے دل اداس ہو رہے تھے۔اور افیرا بھی اسکے جانے پر اداس تھی۔
سفوان آپ کسی اور کو بھیج دیں نہ اپنی جگہ۔افیرا نے سفوان کے گلے لگتے کہا۔
میری جان صرف تین دن ہی کی تو بات ہے اور میں اپکو فون کروں گا نہ پھر کیوں اداس ہو رہی ہیں۔اس نے اسکا سر سہلاتے ہوئے کہا۔
اچھا ٹھیک ہے۔
سفوان اور افیرا نیچے اگئے۔
اچھا بھئی میں جا رہا ہوں سب اپنا خیال رکھیے گا۔اس نے ناشتے فارغ ہو کر کہا۔
اچھا بیٹا اللہ آپ کو اپنی امان میں رکھے اور اپکو کامیاب کرے۔ناہید بیگم نے اسکے ماتھے پر بوسہ دیا۔
پھر وہ چلا گیا۔
#$$_______55__$$$$$###$$$$#-#-#-@
آج صبح سے ہی افیرا کی طبیعت میں بوجھل پن تھا کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا سفوان کو گئے آج دوسرا دن تھا وہاں پہنچ کر اس نے اپنی خیریت کی شہر دے دی تھی۔اور صبح بھی افیرا سے کال پر بات ہوئی۔
-@+@+@+@+@@++@+@+@+@+#+@++1
ابھی جب وہ نیچے ائی تو نڈھال نڈھال لگ رہی تھی۔
کیا ہوا بھابھی آج آپکی طبیعت ٹھیک نہیں لگ۔ملیحہ نے فکر مندی سے پوچھا۔
ہاں یار بس صبح سے ہی طبعیت بوجھل بوجھل سی ہو رہی ہے اور چکر بھی آرہے ہیں۔اس ہلکے سے کہا۔
تو آپ آرام کر لیں کام ہم لوگ کر لیں گیں۔عمارہ نے کہا۔
نہیں یار کمرے جا کر بھی وہی طبعت رہے گی یہاں رہوں گی تو طبعیت بھیلی رہے گی۔اس نے مسکرا کے کہا۔
بھابھی ابھی تو بھائی کو گئے ایک ہی دن ہوا ہے اور آپ انکی یاد میں آدھی ہوگئیں اب بھائی کو بولنا پڑےگا کہ بھائی جلدی آجائیں آپکی پیاری بیوی آپکے دوری میں بیمار ہو گئیں۔علینہ نے شرارت سے کہا۔
جی نہیں ایسی کوئی بات نہیں اور زیادہ ہی نہیں بولنا آگیا ہے تمہیں۔اس نے مصنوعی گھور کر کہا۔
بھائی کب آرہے ہیں بھابھی۔علینہ نے پوچھا۔
شاید نہیں تو پرسوں آجائیں کہہ رہے تھے ایک دو کام مزید رہ گئیں جس کی وجہ سے ایک اور دن لگے گا۔اس نے آہستہ سے جواب دیا وہ اداس دکھ رہی تھی۔
اچھا جی چلیں ساتھ خیریت سے اجائیں گے آپ اداس مت ہوں ۔ملیحہ نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کہ کہا
ہمممم۔
#$$_--+++)))!:::؛؛+)))))))))&&$$$$$$
افیرا اپنے کمرے میں تھی اسے بہت چکر آرہے تھے ایسا لگ رہا تھا ابھی بے ہوش ہو جائے گی۔
یا اللہ یہ مکے کیا ہو رہا صبح سے اتنے چکر کیوں آرہے ہیں۔اس نے سر پکڑ کے کہا۔
اتنے میں اسکا موبائل بجا۔سفی کالنگ لکھا آرہا تھا۔
اسلام و علیکم کیسے ہیں اپ۔افیرا نے مسکراتے لہجے کے ساتھ کہا۔
وعلیکم السلام الحمدللہ میں ٹھیک ہوں اور آپ کیسی ہیں۔سفوان نے بھی مسکراتے لہجے کے ساتھ جواب دیا۔
آپکے بغیر میں کیسی ہو سکتی ہوں۔یہ انہوں دل میں کہا ۔
اللہ کا شکر میں بھی ٹھیک اور آپ کیا کر رہے ہیں۔اس نے پوچھا۔
میں بس کچھ فائلز سٹڈی کر رہا تھا آپ سنائیں مجھے مس کر رہی ہیں۔اس نے شریر لہجے میں کہا۔
نہیں جی میں اپکو بلکل مس نہیں کر رہی اتنے سارے لوگ ہیں گھر میرا دل لگا ہوا ہے۔سفید جھوٹ بولا گیا تھا۔
 (یہ بیویاں بھی کبھی شوہر کو انکی اہمیت کا اندازہ نہیں ہونے دے سکتیں اگر کر دیں گیں شوہر نے ساتویں آسمان سے نیچے نہیں آنا)
ایک تو میری بیوی کبھی مجھے خوش نہیں کر سکتی کیا ہوتا اگر کہ دیتیں کہ نہیں میری جان میں اپکو بہت مس کر رہی پلیز جلدی آجائیں۔سفوان نے جس انداز میں کہا افیرا کا قہقہ چھوٹ گیا۔
اف سفوان آپ کتنے فلمی ہیں اور میں ایسا کیوں گیں نا ممکن۔اس نے ہنس کے کہا۔
نا کہیں آپکی مرضی میں تو اپکو بہت مس کر رہا ہوں۔اس نے اداسی سے کہا۔
تو پھر آجائیں جلدی گھر میں سب اپکو بہت یاد کر رہے ہیں۔افیرا اداسی سے کہا یہ ایک طریقہ تھا اسے یہ بتانے کا کہ وہ بھی اسے بہت مس کر رہی ہے۔
جی جلد آجاؤں گا ابھی بھی تھوڑا کام رہتا ہے پرسوں تک آجاؤں۔اس نے مسکرا کہ کہا۔
پھر تھوڑی ادھر ادھر کی باتوں کے سلسلہ منقطع ہو گیا۔
#$_&-#+#++#+#!#!#!#!#!#!#!#!#!#!#+#!!#
اس سے اگلے روز،
رات میں جب کنول افیرا کو کھانے کے لیے بلانے آئی تو اسنے دستک دی۔
بھابھی آجائیں اپکو سب کھانے کے لیے بلا رہے ہیں۔اس نے زور سے دروازے پر دستک دی۔جواب نادر
اس نے پھر دستک دی پھر نادر۔دروازے ان لاک تھا اس لیے وہ دستک دے کر اندر داخل ہوئی۔
افیرا بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔
بھابھی اٹھیں کھانا کھا لیں اکر۔اس نے کہا لیکن اسکے جسم میں کوئی جنبش نہیں ہوئی۔
بھابھی اٹھیں۔اس نے افیرا کو ہلایا۔لیکن اس پر زرا بھی اثر نہ ہوا۔
کنول ایک دم گھبرا گئی کیوں اسکے جسم میں زرا جنبش نہیں ہوئی۔اس نے باہر آکر سب کو زور زور آواز دے کر بلایا۔ماما بڑی ماما بھائی سب اسکی آواز سن کر جلدی سے اوپر ائے۔
کیا ہوا کنول بیٹا۔ناہید نے اس سے گھبرا کے پوچھا۔
وہ وہ بڑی ماما بھابھی اٹھ نہیں رہیں شاید بے ہوش ہو گئیں ہیں۔اس نے پریشان لہجے میں کہا۔
ہائے اللہ کیا ہوا میری بچی کو ۔۔ناہید اور سب سفوان کے کمرے میں اگئے۔
آپ لوگ ٹینشن نہ لیں میں ابھی ڈاکٹر کو فون کرتا ہوں وہ آجائیں گیں۔ازہان نے تحمل سے کہا۔
ہاں بیٹا جلدی جاو۔امنہ بیگم نے کہا۔
فکر کی کوئی بات نہیں بس بی پی لو ہو گیا تھا اور میرے پاس آپکے لیے گڈ نیوز ہے آپ دادی بننے والی ہیں۔ڈکٹر نے چیک اپ کر کے بے ہوش ہونے وجہ بتائی اور ساتھ نئے مہمان کے آنے کی نوید بھی۔
سچ اللہ تیرا تو نے میرے بچے کو بھی اپنی رحمت سے نوازہ۔ناہید بیگم تو خوشی سے جھوم اٹھیں اور اللہ کا شکر ادا کیا۔
ان کو تھوڑی ویکنس ہے اب انکا بہت خیال انکو اچھی غذا اور دیکھ بھال کہ بہت ضرورت ہے اب۔انہوں نے دو چار ہدایتیں دیں اور چلی گئیں۔
افیرا کو ہوش آگیا تھا اور وہ بھی ڈاکٹر کی بات سن چکی تھی۔ڈاکٹر جا چکی تھیں اور اب کمرے میں صرف افیرا اور ناہید بیگم تھے۔
سنا میرا بچہ میں دادی بننے والی ہوں بہت بہت شکریہ تمھارا۔انہوں افیرا کو خود سے لگا کر ماتھے پر بوسہ دیا۔
ماما اب بھی نہ۔اس نے شرما کے کہا۔
میں ابھی سب کو بتاتی ہوں۔خوشی سے کہتی وہ باہر چلی گئیں تھی۔
سفوان آپ جلدی سے آجائیں بس اب صرف میں نہیں ہمارا بےبی بھی آپکا ویٹ کر رہا۔یہ کہتے ہوئے اسکا چہرے پر ہزاروں رنگ تھے۔
#$__&-+++++++-&_##$$____&++++)
اج سفوان کو بھی آنا تھا اسکی رات کی فلائیٹ تھی اور اس نے منع بھی کر دیا تھا کہ میں خود ہی آجاؤں گا۔
گڈ نیوز سن سب بہت خوش تھے سب نے افیرا کو مبارکباد بھی دی ابھی ناہید بیگم سوچ ہی رہی تھیں کہ سفوان کو بتائیں کہ زین وغیرہ نے منع کر دیا۔
بڑی ماما آپ بھائی کو کچھ نہیں بتائیں گیں ہم سب مل کر انہیں سرپرائز دیں اور بعد میں سیلیبریٹ بھی کریں گیں۔ذوہان خوشی سے کہا۔
ہاں یہ ائڈیا بہت اچھا ہے ہم بھائی ری ایکشن بھی دیکھ لیں گیں بھائی کا تو بس نہیں چلے گا بھنگڑے ڈالیں گیں۔زین صاحب کا بھی بس نہیں چل رہا تھا وہ بھی بھنگڑے ڈال لے۔
تمھاری طرح چھچھورے نہیں ہیں جو ایسا شدید ری ایکشن دیں گیں۔دانیہ نے منہ بنا کہ کہا۔
تم تو چپ ہی رہو ہر بات میں بولنا ہے۔زین نے چڑ کہ کہا۔
اچھا بس لڑنا مت آج آرہا ہے سفوان میرا بچہ۔ یہ کہتے ہوئے ناہید بیگم کی آنکھوں میں خوشی ٹمٹما رہی تھی۔
+#+#!#!#!#!٬!]£]£]!#!#!#!]¢]¢]]¢
دوپہر میں افیرا بیٹھی ہوئی تھی جب حنا بیگم کا فون ایا۔
اسلام و علیکم کیسی ہیں اپ۔اس نے مسکراتی آواز میں کہا۔
وعلیکم السلام میرا بچہ میں تو ٹھیک ہوں اور بہت خوش اللہ نے میری دعائیں قبول کر لیں۔انکی آواز میں واضح خوشی تھی۔
اچھا جی اور گھر میں سب کیسے ہیں اور بابا جان کہاں ہیں۔اس نے کہا۔
الحمدللہ سب ٹھیک ہیں اور تمھارے بابا بھی یہی ہیں لو بات کر لو ورنہ ابھی میرے ہاتھ سے موبائل لے لینا ہیں انہوں نے۔انہوں مسکراتے ہوئے فون وجدان صاحب کو دے دیا۔
اسلام و علیکم کیسے ہیں آپ اپکو میری تو یاد آتی نہیں ہیں نہ اب۔افیرا نے اینڈ میں مصنوعی خفگی سے کہا۔
بھلا اپنے دل ٹکڑے کو بھی کوئی بھول سکتا ہے آپ ہی بھول گئی مجھے اپنے نئے گھر جا کر۔انہوں نے بھی شکوہ کیا۔
ایسا نہیں ہے بابا میں اپکو اور سب کو بہت مس کرتی ہوں۔اس نے مسکرا کے کہا۔
اچھا جی پھر آتی کیوں نہیں ہو پتا ہے یہاں بھی سب کو یہاں بہت یاد کرتے ہیں۔انہوں نے کہا۔
بابا یہاں ٹائم کا پتا ہی نہیں چلتا اور کبھی آنے کا سوچو تو کوئی آنے دیتا اور سچ کہوں تو میں بھی بور ہوجاتی ہوں ان لوگوں کے بغیر۔اس نے سچ کہا
اچھا جی اللہ میری بچی کو ہمیشہ شادو آباد رکھے اپنے گھر میں اور اسکے نصیب میں ڈھیروں خوشیاں ڈالے آمین۔انہوں نے دل سے دعا دی۔
پھر اسنے تھوڑی تھوڑی سب سے بات کی۔پھر آرام سے لیٹ گئی آج اسکا دل پتا نہیں کیوں گھبرا رہا تھا لیکن اسنے کسی پر واضح نہیں کیا اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اسکے روح کو تکلیف ہو۔
+@+@+#؛##!#!!@!@!@!@!@!@!@!@!@
رات کو سب ہی منتظر تھے سفوان کے کھانا بھی اسکی پسند کا بنوایا گیا تھا البتہ افیرا کو اسکی طبعیت کی وجہ سے ٹائم پر کھانا کھلا دیا گیا تھا۔افیرا اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھی جو کہ تمام بڑوں نے زبردستی بھیجا تھا۔اور یہ آنے والی آفت سے بھی انجان تھے۔سب ہی بے صبری سے سفوان کا انتظار کر رہے تھے۔حسب معمل گھر کے بڑے مرد حضرات ٹی وی پر نیوز دیکھ رہے تھے جبکہ ینگ پارٹی اپنے کمروں میں اور خواتین کیچن میں تھیں۔
لندن سے کراچی آنے والی فلائیٹ کے طیارے میں خرابی کے باعث طیارا پائلٹ کے کنٹرول سے باہر ہوا جس کی وجہ سے طیارا کریش ہو گیا۔نیوز کاسٹر نے یہ خبر زورو شور سے سنائی اور یہی خبر جنت پیلس پر دم کی مانند گری۔
یا اللہ یہ کیا کہہ رہے ہیں اس۔۔۔۔اسی فلائیٹ سے سفوان کو آنا تھا۔حمید صاحب ایک دم صدمے سے اٹھے۔
بھائی ہو سکتا ہے سفوان کسی اور فلائیٹ سے آرہا ہو آپ بیٹھیں میں ابھی کال کرتا ہوں۔پریشان تو خالد صاحب بھی ہو گئے لیکن انہوں نے حمید صاحب کو تسلی دی۔
نہ نہیں خالد اس نے اسی فالئٹ جس کا یہ لوگ بتا رہے ہیں میری بات ہوئی تھی یا اللہ میرے کی حفاظت کرنا۔حمید صاحب صوفے پر ڈھے گئے۔
سفوان کو کال کی جو نہیں ملی۔
کیا ہوا ہے اتنا پریشان کیوں لگ رہے ہیں آپ سب۔کیچن سے آتی ناہید بیگم نے انکے چہرے دیکھے تو پوچھا۔
بڑی ماما جس جہاز میں بھیا کو آنا تھا وہ کریش ہو گیا۔امان نے نم لہجے میں انکے سر پر بم پھوڑا۔
کیا بول رہے امان پاگل تو نہیں ہوگئے کیا اول فول بول رہے ہو۔ناہید بیگم نے غصہ میں کہا اپنے جان عزیز بیٹے کے لیے یہ بات کیسے سن سکتی تھیں وہ۔
بھابھی ابھی نیوز کاسٹر نے بتایا ہے اور بھائی بھی کہ رہے ہیں کہ یہ وہی فلائیٹ تھی۔حسن صاحب نے انتہائی بے بس لہجے میں کہا۔
نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا میرا بچہ مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتا آپ لوگ اسے فون دیکھنا وہ بلکل ٹھیک ہوگا۔انکا دل ماننے کو تیار ہی تھا۔
بڑی ماما ہم نے فون کیا ہے جو کہ بند آرہا ہے۔سعد نے کہا۔
یا اللہ میرے بیٹے کی حفاظت میرے ابھی تو تو نے ہمیں خوشیاں عطا کی ہیں میرے بیٹے کو زندگی دینا۔انہوں روتے روتے اپنے رب سے دعا کی
اور ماں کی دعا اللہ کبھی رد نہیں کرتا وہ تو ستر ماؤں سے زیادہ چاہنے والا ہے تو پھر ایک ماں کی کیوں نا سنتا۔
ٹی وی پر پھر خبر چل رہی تھی۔
جائے حادثہ پر موجود ہماری ٹیم سے ہمیں یہ اطلاعات حاصل ہوئیں کے اس حادثے میں کچھ لوگ زندہ ملے ہیں جنہیں فوری طور پر قریبی ہسپتال میں منتقل کر دیا گیا ہے۔مزید تفصیلات کے لیے ہمارے ساتھ رہیے۔اینکر کے الفاظ یا ان کے لیے امید کی کرن
حم۔۔۔۔حمید دیکھا انہوں نے کیا میرا بچہ زندہ ہے میں نے کہا تھا میرے بچے کو کچھ نہیں ہوا۔ناہید بیگم کے حواس گم ہونے لگے تھے۔
بھابھی اپنے اپکو سنبھالیں افیرا کو اوپر آواز چلی جائے گی اور اس کے لیے ابھی یہ خبر نقصان دہ ہوگی۔امنہ بیگم نے روتے ہوئے کہا۔
سعد امان تم سب لوگ جاؤ ہسپتال جا جاؤ ہم بھی آرہے ہیں۔حمید صاحب نے فورا خود کو سنبھال کے کہا یہ ہوش کھنے کا وقت نہیں تھا انہیں ایک امید کی کرن نظر آئی تھی تو کیسے بجھا دیتے۔
میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ جاؤں گی۔ناہید بیگم نے جلدی سے کہا۔
ناہید آپ اپنے آپ کو سنبھالیں ہم جا کر دیکھ رہے ہیں نہ انشاللہ ہمارے بیٹے کو کچھ نہیں ہوا ہوگا آپ بس دعا کریں اور افیرا کو مت بتائے گا۔یہ کہہ وہ آگے بڑھ گئے۔
#+#++#!#!$!!$!$!$!$!$!$+!$!#!#+#!#!#!#!!@
بہت مشکلوں کے بعد آخر سفوان کا پتا چل ہی گیا اور اللہ نے ان کی کی گئی دعائیں رائگاں نہیں گئیں تھی۔لیکن جس حالت میں تھا وہ بہت نازک حالت تھی۔جہاز کافی نیچے اکر پھر گرا تھا جس کی وجہ سے کچھ افراد اللہ کی قدرت سے زندگی کا گئے تھے لیکن بہت تفطیش ناک حالت میں تھے۔بہرحال عمر نے گھر اطلاع دے دی تھی سفوان کی۔اور گھر کی کچھ خواتین ہسپتال آگئی تھیں۔جو گھر میں تھے وہ مسلسل پڑھائی کر رہے تھے اور اللہ سے سفوان کے زندگی کے لیے دعا گو تھے۔
@#___&&--++)))!&&$###-)(/(((--_٬###
حسین باغ جس میں وہ اپنے شریک حیات کا ہاتھ تھامے چہل قدمی کر رہی اور اس کا شریک حیات اس کے کانوں میں میٹھی سرگوشیاں کر رہا تھا زندگی بہت خوبصورت نظر آتی تھی کہ ایک کچھ نقاب پوش آئے اور اس کے شریکِ حیات کو اپنے ساتھ لے گئے اور وہ اسے پکارتی رہی لیکن وہ اس سے بہت دور چلا گیا۔اور وہ چیختے چیختے رو رہی تھی
پلیز انہیں چھوڑو کہاں لے جا رہے واپس لاؤ سفواننننن۔ایک دم افیرا کی آنکھ کھل گئی دل کی دھڑکن تیزی سے چل رہی تھی
یا اللہ ی۔۔۔یہ کیسا خواب تھا پلیز میرے سفوان کو اپنی حفظ و امان میں رکھنا مجھ سے انہیں جدا نا کرنا۔اس نے اپنے منہ پر ہاتھ پھیر کے دعا کی۔
پھر اسنے وضو کر کہ نفل ادا کیے۔
پھر تھوڑی دیر بعد نیچے اگئ۔نیچے آئی تو کوئی نہیں تھا
یہ سب کہاں چلے گئے آوازیں بھی نہیں آرہے اور سفوان کیا ابھی تک نہیں ائے۔یہ سوچتے ہوئے وہ کچن کی جانب بڑھی۔جب ملازمہ کی بات پر اسکے قدم ٹہر گئے۔
اللہ سفوان بھائی کو زندگی دے سنا ہے بہت خطرناک حالت ہے۔ملازمہ نے فکر والا لہجہ بنا کہ کہا۔
ہاں ابھی کل ہی تو سب خوش تھے کہ چھوٹا سفوان آنے کی کس کی نظر لگ گئی اللہ خیر۔۔۔۔۔۔دوسری ملازمہ کی بات مکمل بھی نا ہوئی تھی کہ افیرا فورا آئی
کیا بکواس کر رہی ہو کہاں ہیں سفوان کیا ہوا انہیں۔اس نے غصے اسے پکڑ کے کہا
و۔۔۔وہ بی بی ہم تو کچھ اور بات کر رہے تھے۔ملازمہ نے گھبرا کہ کہا سارہ شمائلہ بیگم سب کو کہ کر گئیں تھیں کہ افیرا کو کچھ نہیں پتا چلنا چاہیے۔
جھوٹ مت بولو ابھی میں نے سنا کہ سفوان کی جان خطرے میں بتاؤ کہا ہیں کیا ہوا ہے انہیں۔اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کیا کرکرے۔
کیا ہوا بھابھی آپ کیوں چلا رہی ہیں آپکی کی طبعیت ٹھیک ہے۔عمارہ فورا اس کے پاس ائی۔
عمارہ سفوان کہاں ہیں انہیں ان واپس آنا تھا اور یہ دیکھو کیا کہ رہی کہ میرے سفوان کی جان خطرے میں ہے۔اس نے عمارہ کو تھام کہ پوچھا
بھابھی کچھ نہیں ہوا آپ پریشان نہ ہوں پلیز خود کو سنبھالیں۔ملیحہ اسے دیکھ کر پریشان ہو گئی۔
مجھے بتاؤ جو میں پوچھ رہی ہوں۔اس نے پھر غصے میں کہا۔
اچھا آپ آرام سے بیٹھیں اور صبر سے سنیں۔عمارہ نے اسے صوفے پر بیٹھایا۔
بھابھی جس پلین بھیا آرہے تھے۔۔۔۔۔۔۔و۔۔وہ خرابی کے باعث کر کریش ہو گیا۔۔لیکن اللہ نے ہمارے بھیا کو بچا لیا پر۔۔۔۔۔،وہ خاموش ہوئی۔
پر کیا عمارہ جلدی بولو سفوان ٹھیک ہیں نہ۔وہ ایک دم کھڑی ہوئی دل بڑے طوفان اندیشہ پہلے ہی دے رہا تھا۔
پر بھیا کی حالت بہت تفطیش ناک ہے اور سارے بڑے وہیں ہیں۔اگے کی بات علینہ نے آنسو کے درمیان بتائی۔
نہیں یہ نہیں ہو سکتا سفوان مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے ان آنہوں نے مج مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ آئیں گیں۔افیرا آہستہ اپنے حواس کھو رہی تھی اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کوئی اسکی روح اسکے جسم سے کھینچ رہا ہے ابھی وہ نیچے گر کہ اپنی زندگی کھو دے گی اسے ایسا محسوس ہوا جیسے جیتے جی کسی نے اسے اندھیری قبر میں ڈال دیا اور پھر اسکے چاروں اور اندھیرا پھیل گیا۔
بھابھی بھابھی اٹھیں یا اللہ ہم پر رحم کر۔ملیحہ اک دم آگے بڑھی۔اور رو کر اللہ سے فریاد کی۔
ڈاکٹع کو بلایا گیا تھا انہوں نے اسے سکون کا انجیکشن دیا تھا البتہ کوئی نقصان نا ہوا۔
تقریبآ تین گھنٹے کے بعد وہ ہوش میں ائی۔اس دوران عمارہ نے وجدان کو یہاں ہوئی ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا تھا۔
سفوان سفی نہیں آپ مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے نہیں نہیں اپکو کچھ نہیں ہوگا۔وہ نیند میں بول رہی تھی پھر ایک دم ہوش میں ائی۔
بھابھی خود کو سنبھالیں کسی کے لیے نہیں تو اپنے بے بی کے لیے اللہ سب بہتر کرے گا۔سب ہی اسکو سنبھالنے میں لگے ہوئے۔اور وہ یہی ضد کیے جا رہی تھی کہ اسے ابھی اسی وقت ہسپتال جانا ہے۔اخر کار اسے امان آکر ہسپتال لے گیا۔
#+++#+#+#+$!$!#!#!#!#!#!@!@!@!!@!@
ہسپتال جا کر بھی اسکے رونے میں کوئی کمی نہیں آئی اور وہ جب سے اب تک اللہ سے اپنے محبوب شوہر کی زندگی مانگ رہی تھی۔اج سفوان کو نازک حالت میں پڑے 5 دن تھا اور اب ڈاکٹر نے صرف دعا کرنے اور 36 گھنٹوں کو ٹائم دیا تھا۔ آخر کار اللہ نے جنت پلیس کے مکینوں پر رحم کر ہی دیا اور سفوان کو ہوش آگیا
مبارک ہو آپ سب کو اللہ کے کرم سے آپکے پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے لیکن مزید ایک دن کے لیے ہمیں آئی سی یو میں رکھنا ہوگا انہیں ابھی کسی کو ملنے کی اجازت نہیں کل انہیں روم میں شفٹ کر دیا جائے گا۔پھر مل لہجے گا۔ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں ساری تفصیل بتائی اور چلے گئے۔
یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے میرے مالک تونے میرے بیٹے کی جان بخش دی۔ناہید بیگم نے سجدہ شکر ادا کیا۔
افیرا کی بھی طبعیت سنبھل گئی تھی۔
)@)#)#!!#!#!#!@!@!@!!@!@!@!@!#!!#!#!
اگلے دن اسے روم میں شفٹ کر دیا گیا۔سب اس سے مل گئے اور وہ سب کو ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ ڈیل کر رہا تھا وہ تھا ہی ایسا۔
کیا۔۔ہوگیا ہے ماما۔۔میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔اللہ نے یہ سب کر کروانا تھا اس لیے ہوا دیکھیں اس نے مجھے نئی زندگی بھی دے دی۔سفوان نے رک رک کر ناہید بیگم کو کہا جنکے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
میرا بچہ اللہ تجھے لمبی زندگی دے اور خوشیاں آپ اب جلدی سے ٹھیک ہو جاو۔انہوں نے آنسوں پونچھ کے کہا۔
ان کے بعد افیرا آئی تھی جسے سب نے بھیجا تھا اس کے اندر اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ سفوان کو اس حالت میں دیکھ سکے گی۔لیکن پھر سب کے کہنے پر وہ ہمت کر کہ اندر آگئی تھی۔ لیکن سفوان کو دیکھ کر وہ پھر اپنا ضبط کھونے لگی۔سفوان کے قریب بیٹھ کر وہ مسلسل آنسوں پینے کی سعی کر رہی تھی جب سفوان کی کسی خاص کی موجودگی کے تہت آنکھ کھلی۔کتنج دن بعد دیکھا تھا یہ چہرہ جس میں اسکی زندگی جس روح جڑی تھی۔
اف۔۔افی۔،کتنی محبت سے ہماری گیا تھا
سفوان آ۔۔اپ ٹھیک ہیں آپ نے کہا تھا آپ جلدی آجائیں گیں پھر یہ سب۔اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کیا کہے۔
می میں بلکل ٹھیک ہوں میری جان دیکھو آپکے سامنے ہوں۔سفوان نے آہستہ سے ۔مسکرا کے کہا
پتا ہے اللہ ۔مجھ سے ناراض ہو گئے تھے میں اپکو بہت تنگ کرتی ہوں انہوں نے مجھے سزا دی تھی آگ اگر اپکو کچھ ہو جاتا می میں بھی مر جاتی۔اس کے گالوں پر آنسوں پھسل رہے تھے۔
میری جان اللہ کو جو منظور ہوتا ہے وہی ہوتا اور آپ سے اللہ کیوں ناراض ہوگا آپ تو بہت اچھی ہو اور اللہ اپنے اچھے بندوں سے کبھی ناراض نہیں ہوتا بس اب چپ ہوجاو آپکے آنسوں میرے دل پر گر رہے ہیں اور ابھی میں اپنے طریقے آپکے آنسوں صاف نہیں کر سکتا۔کہتے ہوا آخر میں شریر لہجے میں کہا۔
سفوان اپ بھی نا۔افیرا مطلب سمجھ کر شرم سے لال ہو گئی۔
سفوان اپکو پتا ہے اللہ نے ہمیں اپنی ماں باپ بننے کا درجہ عطا کیا ہے۔اس نے آہستہ سے شرمیلی مسکان کے ساتھ کہا
کیا سچی افی می میں بابا بننے والا ہوں یا اللہ تیرا شکر اور افی آپکا بھی شکریہ مجھے اتنی اچھی نیوز سنانے کے لیے۔سفوان کی خوشی اسکے چہرے سے واضح ہو رہی تھی۔
+#!#!#!#+#@)@))@)@)@!!#!#!#!#!#!#!#!#
ڈیڑھ سال بعد
اس عرصے میں کافی زندگیوں میں بہار آئی اللہ نے کہیں محبت کو ملا دیا اور کہیں اپنی رحمتوں سے ملامال کیا اللہ نے عمان کی دعائیں قبول کر اسے اسکی پاکیزہ محبت عطا کر دی جس کا وہ شکر کرتے نہیں تھکتا وہیں وجدان اور فارس کو دونوں اپنی نعمت سے نوازہ سفوان مکمل سہ تیاب ہوگیا اور اللہ نے اسکو اپنی رحمت سے نوازہ جو کہ اس کی اولین دعا اور خواہش تھی۔جنت پیلس کا ہر مکین خوشیوں سے مالا مال تھا خوشیاں اس گھر کی مکین بن گئیں تھیں اور اب ان خوشیوں کا شکر کرتے کرتے نہیں تھکتا تھے ۔بے اللہ نے انہیں ہر غم سے نجات دی تھی۔
@))#)#!#!#!#!!#!#!#!#!#!#!!#!#!#!#!#!!@!@
ا لا میلا جانوں میلا شونا ماما کی جان۔افیرا اپنی گود میں اپنی 6 ماہ کی بیٹی کو کھیلا رہی تھی۔
کبھی مجھے بھی پیار کر لیا کریں ہر وقت میری بیٹی پر پیار بوساتی رہتی ہیں۔سفوان نے منہ بنا کہ کہا۔
سفوان شرم کریں ایک بیٹی کے باپ ہو گئے ہیں لیکن رومینس کے جراثیم کم نہ ہوئے آپکے اندر سے۔افءرا نے اسے گھور کہ کہا۔
یہ رومنس میرا پیار ہے جو کہ اپکو نظر نہیں اتا۔اس نے پھر منہ بنا کہ کہا۔
اچھا جی۔
دیکھا زیمل آپکی ماما کو آپ سے پیار ہی نہیں ہے۔اس نے روشنی صورت بنا کہ کہا
زیمو آپکے بابا کو بس یہی باتیں سوجھتی ہیں آپ نے سننا۔افیرا نے مسکراہٹ دبا کر زیمل سے کہا جو اسکی بات سمجھے بنا ہنس رہی تھی۔
اچھا زیمو ماما کو ایک کسسی دے دو۔افیرا آنکھیں بند کر کہ چہرہ زیمل کے قریب گئی۔
پر گال پر کسی زیمل نے نہیں زیمل کے بابا نے کی
سفییییی کیا کر رہے ہیں بیٹی کا تو لحاظ کر لیں شرم کر لیں تھوڑی۔اس نے حیا سے لال چہرے کے ساتھ کہا۔
میں نے کیا کیا۔دنیا جہان کی معصومیت لیے پوچھا گیا۔
ابھی یہ کیا حرکت کی تھی۔اس نے دانت پیس کر کہا۔
میں نے تو بس ایسے اپکو پیار کیا۔سفوان اسکے گال پر پیار کر کہ اس سے دور ہوگیا فورا
سفوان ننن آپ کبھی نہیں سدھریں گیں۔اس منہ پھلا لیا۔
!رات زیمل کو سلانے کے بعد سفوان اور افیرا ایک ساتھ بیٹھے باتیں کر ہے تھے افیرا نے سفوان کے کندھے پر اپنا سر رکھا ہوا تھا ۔
افی اپنے کبھی یہ بات نوٹ کی ہے کے جب بھی ہم میں سے کوئی تکلیف میں یا پریشانی میں ہوتا ہے تو ہمارے قلب کرنے بے چین ہوجاتے ہیں۔سفوان نے افیرا کے گرد بازو پھیلا کر کہا
جی مجھے معلوم ہے۔اس نے مسکرا کے کہا۔
اپکو پتا ہے ایسا کیوں ہے؟؟؟سفوان نے اس کی طرف جھک کے کیا۔
جی پتا ہے کیونکہ اللہ نے ہمارے دل ایک ساتھ جوڑے ہوئے ہیں اور جن کے دل ایک دوسرے سے جڑے ہوں انہیں ایک دوسرے کی تکلیف کا معلوم ہو جاتا ہے۔افیرا نے آہستہ سے جواب دیا
ہاں ٹھیک کہا اپنے پتا ہے میں کبھی آپ سے پھیلے کسی کو نہیں چاہا لیکن جب آپ زندگی میں آئیں تو اپنی ساری محبتیں اپکو دے دی۔سفوان نے اسکے ماتھے پر اپنی مہر محبت ثبت کی۔
میرے بھی۔افیرا نےکہا
افی سنو۔سفوان نے اسے پکارہ۔
جی بولیں۔
ہم نے چاہا ہے تمھیں قلب سے۔سفوان نے ہلکے سے اسکے کان میں سرگوشی کی۔
افیرا نر مسکرا کر آنکھیں موندے لیں۔
بے اللہ نے دو محرم میں محبت پیدا کر دی تھی تھوڑی مشکل آئی لیکن وہ بھی اللہ کے کرم سے دور ہوگئی۔لیکن یہ لوگ خوشیاں ملنے کے بعد بھی اللہ کا شکر کرنا کبھی نہیں بھولے تبھی اللہ نے انہیں اپنی مزید نعمتیں نواز دیں۔اور
 بے شک مشکل کے بعد اسانی ہے۔
********************
ختم شد

Comments