Hum ne chaha hai tumhen qalb se novel by Hoorain Khan Part 2

Hum ne chaha hai tumhen qalb se novel by Hoorain Khan Part 2

"ہم نے چاہا ہے تمھیں قلب سے"
از "حورین خان"
پارٹ 2
دن پر لگا کر اڑھ رہے رہے تھے سب افیرا اور باقی سارے اپنے میڈ کے پیپرز میں بری طرح سے مصروف ہو گئے تھے آج جا کر انکی ٹینشن ختم ہوئی تھی کیونکہ آج لاسٹ پیپر تھا پیپر دینے کے بعد پورا گروپ کیٹین میں میں آگئے تھے
• الحمدللہ یہ پیپر سے جان چھوٹی میں تو بہت ٹینشن میں تھا۔شایان نے شکر کی سانس لے کر کہا
• کونسی ٹینشن تھی بھائی تمھیں ہر وقت تو موبائل میں لگے رہتے تھے اور کہہ رہیں ٹینشن تھی جھوٹے۔ماہین نے حیران ہوکر کہا
• جی نہیں پڑھتا ہی تھا میں تم کونسا میرے ساتھ ہوتی تھی اور ذیادہ جاسوسی نہ کیا کرو سمجھیں۔اس نے چڑ کر کہا
• (ماہین شایان کی بہن ہے
• یار مجھے بہت بھوک لگ رہی کچھ آرڈر تو کرو ۔ماہین نے بھوک سے بحال صورت بنا کر
• ایک اسے بھوک اتنی لگتی ایسا لگتا پیٹ میں ٹینکر فیٹ کیا ہوا اور مجال جو نظر آئے کھایا پتا نہیں کہا جاتا ہے۔
زرنش نے اسکے اسکی دبلے پن پر چوٹ کی
یہ بات ٹھیک تھی ماہین بہت کھاتی تھی پر پھر دبلی ہی تھی
تمھیں کیا ہے میرے کھانے سے خود تو چڑیا کی طرح چگتی ہوں میرے کھانے پر کیوں نظر لگا رہی ہو۔ماہین نے تپ کر کہا
پتا نہیں اس بیچارے کا کیا بنے جس سے انکی شادی سرزد ہوگی ایک مہینے کا راشن ایک ہفتے میں صفا چٹ۔
شایان نے مصنوعی اہ بھرتے ہوئے کہا
تم بے فکر رہو میں زیادہ سامان لے کر آؤں گا تاکہ یہ آرام سے کھائے ۔"سعد نے لقمہ دیا
جس پر ماہین نے گھوری سے نوازہ
زیادہ ہاتم تائی بننے کی ضرورت نہیں میرے پاپا کھالا سکتے ہیں مجھے—اپنی خبت مٹانے کے لیے غصہ سے کہا
اے لو کیا میں اچھا لگوں کا سسر جی سے پیسے لیتا ہوا۔سعد نے شرارت سے کہا
شٹ اپ ۔
• اچھا یار بس کرو میری بات سنو نیکسٹ ویک سے ہمان بھائی کی شادی کے فنکشن سٹارٹ ہو رہیں ہیں اس لیے تم سب نے سارے فنکشن میں آنا ہے۔"افیرا نے سبکو متوجہ کیا
• ہاں جی ضرور ہم ضرور آئیں گیں ہمان بھائی کی شادی کو چار چاند لگانے ۔۔شایان نے کہا
• یار میں نہیں آؤں گی کیونکہ میں جا رہی ہوں اسلام آباد۔زینیا نے کہا
اچھا ٹھیک خیریت سے جاؤ ۔
@_@&@&&@_@_#_@_@&&@&@&#&#&پھر تھوڑی دیر یہ لوگ باتیں کر کہ اپنے گھر روانہ ہو گئے
گھر آکر افیرا فریش ہوکر سوگئی تھی شام کو جب نیچے ائی تو حنا بیگم اور ندا بیگم مہمانوں کی لسٹ بنا رہیں تھیں
@_@_@__@&@&@&#&#$&#&#-
افو تم نے اپنی شاپنگ کب کرنی ہے اب تو پیپر بھی ختم ہو گئے آج یا کل جا کر اپنی شاپنگ کر لو پھر اک دفعہ فنکشن شروع ہو گئے تو بلکل ٹائم نہیں ملنا کسی کو بھی۔ حنا بیگم نے اسکو دیکھ کر کہا
جی ما ما کر لوں گیں کل جا کر۔اور مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے کچھ کھانے کو دیں۔افیرا نے کہا
اچھا تم ڈائیںگ ٹیبل پر بیٹھو میں دیتی ہوں ۔ندا بیگم کہہ کر کچن میں چل دی
اور بھئی کیا حال ہیں ہماری بہنا کے۔خرم نے ہال میں داخل ہوتے ہوئے کہا
بہت اچھے حال ہیں ہمارے تم بتاؤ ملی کوئی پری یا ابھی تک ویٹنگ لسٹ پر ہو۔تپانے والی مسکراہٹ کے ساتھ کہا
کوئی ایک ماشاءاللہ سے تین ملی ہیں۔خرم نے فخر سے کہا
اندھی تو نہیں ہے نا چیک کر لو۔افیرا نے مسکراہٹ دبا کر کہا
جی نہیں۔خرم نے چڑ کہا
حیرت ہے آج کل کی لڑکیوں کا ٹیسٹ بہت ہی خراب پتا کن کن لوگوں لیفٹ کراتی ہیں۔اس نے تاسف سے کہا
اچھے اچھے لوگوں لیفٹ کراتی ہیں مجھ جیسا معصوم انسان اگر چراغ لے کر بھی ڈھونڈو تو بھی نہیں ملے گا۔اس نے معصوم شکل بنا کر کہا
تم اور شریف استغفراللہ یہ منہ اور باتیں حد ہے
ان دونوں کی باتیں اور نوجھوک نہ ختم ہونے جاری رہے گی
^£^£™™:#-؛@:'™:£
_@&&#:#::#:#&#&#-@--@--@-@-@°£°£°¢°^¢^¢^¢°™¢°^^^^
ایک ہفتہ بھی شادی کی تیاری میں گزر گیا آج ہمان اور عنایہ کی مھندی تھی جس کا انتظام لان میں کیا گیا تھا مھندی کا فنکشن دونوں کا ایک ساتھ تھا لان کو مھندی کی مناسبت سے بہت حسین طرح سجایا جا رہا تھا جھولا تھا جس پر دلہا اور دلہن کو بیٹھنا تھا اسے گیندے کے پھول سے سجایا گیا تھا اور آج کا تھیم کلر ڈارک گرین اور اورنج رکھا گیا کچھ الگ سا۔
عنایہ کو حنا بیگم نے ملک مینشن ہی بلوالیا تھا اور وہ یہاں سے پارلر تیار ہونے چلی گئی تھی
@_@&&#&#&#&#&@&@-@@-@---#--#&#&#&#&#&#&&@&@-
افیرا ابھی ہی پارلر سے ساری سروس کرا کر آئی تھی وہ میک اپ ویسے بھی ذیادہ اچھا نہیں لگتا تھا اس لیے اس نے پارلر سے تیار ہونے سے منع کر دیا تھا۔۔ابھی اسنے تیار ہوکر کپڑے چینج کیے تھے کہ ضامن کمرے میں داخل ہوا
_@_#&#&@&&#&#&#&#&#&&#
افیرا بڑی ماما کہہ رہی جلدی تیار ہو جائیں فنکشن سٹارٹ ہونے والا اور اپکو خرم بھائی اور عمان بھائی کو سارے مہمان کو ویلکم کرنا ہے۔ضامن نے اسے حنا بیگم کا پیغام دیا
کیا ہے یار ابھی میں تیار نہیں ہوئی عمان اور خرم کر لیں گیں ماما کو بھی پتا نہیں کیا جب بھی کوئی آیا فضول مسکرا کر حال پوچھتے رہو حد ہے ۔افیرا نے چڑ کر کہا ویسے بھی اسے اپنے گھر والوں کے علاوہ کوئی ذیادہ بات کرتا تو چڑ جاتی تھی
بڑی ماما اور ممی دونوں بزی ہیں پلیز آج آپ کر لو نہ۔ضامن نے منت کی اسے پتا تھا وہ چڑتی تھی
اچھا بھئی کر لیتی ہوں جاؤ میں تیار ہو کر آتی ہوں۔اس نے کہا اور ضامن چلا گیا
#_@_@__@_#_#_@_@_@__@_@__@_@_@_@_@_@____&&&&_#&@&
اورنج کلر کی شوٹ فراک جس پر باریک نگوں گا نفیس کام ہوا تھا فل سلیو جس کے بازو پر حسین بنچ تھے گرین جارجٹ کا دوپٹہ جس کے کناروں پر خوبصورت بارڈر بنا ہوا تھا اس پر گرین گھیر دار فلیٹر ہلکی سی ہائی ہیل
ہلکا سا میک اپ ۔کجھور کی چوٹی اور آگے سے لئیر کے بال نفاست سے سیٹ کیے ہوئے چھوٹا اور پیارا سا مانگ ٹیکہ جھومکے وہ تیار ہو کر بہت پیاری لگ رہی تھی۔تیار ہو کر نیچے کی راہ لی۔۔
@_@_@&&#-@-@--@-#-#-#-#-#--@&@-@-@-@&#&#&#&&@&
افیرا نے سعد کے گھر میں سبکو انوائیٹ کیا تھا بٹ انکے گھر سے صرف سعد امان ناہید بیگم علینہ اور وجدان جا رہے تھے ناہید بیگم کو افیرا پہلی نظر میں اچھی لگی اس لیے انہوں اسے سفوان کے لیے سوچا تھا اب جلد سے جلد کوئی بات کرنا چاہتی تھیں
@_@_@__@'@'@'@'@'@:@:@:@
جلدی چلیں بھئی آپ لوگ افیرا کا میسج آیا تھا ابھی کہ کہا رہ گئے۔سعد نے جلدی میں کہا
ہاں بھئی آرہے ہیں چلو گاڑی میں بیٹھو ناہید نے کہا
کہا جانے کی تیاری ہے بھئی اور وہ بھی اتنا تیار ہو کر۔سفوان نے انکی تیاری کہہ کر کہا ۔
ہاں بھائی افیرا ہے نا ہماری فرینڈ اسکے بھائی کی مھندی کے آج سبکو انوائیٹ کیا پر کوئی جا ہی نہیں رہا اس لیے بڑی ماما وجدان بھائی اور علینہ جا رہیں ہیں ہمارے ساتھ۔ امان نے پوری تفصیل دی
اچھا جی اوکے اللہ حافظ خیریت سے جائیں۔یہ کہہ کر وہ پلٹا تھا جب ناہید بیگم بولیں
سفوان بیٹا آپ بھی چلو نا ہمارے ساتھ اپکو اچھا لگے گا۔وہ۔دراصل افیرا سے اسے ملوانا بھی چاہ رہیں تھیں ق
نہیں ماما میں جا کر کیا کروں اور ویسے اپکو پتا ہے میں ایسی جگہوں پر جاتا ہی کم ہو جہاں ذیادہ ہلاہ گلا ہو میں تھک گیا ہوں بہت میں سونے جا رہا ہوں اوکے شبہ خیر ۔کہہ کر سیڑیاں طے کرتا اپنے کمرے میں چلا گیا ۔اور وہ لوگ مھندی کے لیے نکل گئے
@_@&@&@&@&-@-@--$+$+)$
جب مھندی میں انٹر ہوئے تقریبا کافی مہمان آگئے تھے شایان زرنش اور ماہین بھی آگئے تھے ہمان اور افیرا نے ہی انہیں ویلکم کیا تھا
@&#&#_&#_@&@&@&&@&@-@-
اسلام و علیکم کیسے ہو آپ سب۔عمان نے ادب سے کہا
ہم۔ٹھیک ہیں آپ لوگ کیسے ہو۔
ٹھیک۔
سعد امان میں تم دونوں کا۔کب سے ویٹ کر رہی ہو شایان وغیرہ تو کب کے آگئے ہیں چلو اب اندر سب اندر کی جانب بڑھ گئے اینڈ میں
علینہ آئی تھی جس کو دیکھ عمان کا۔دل گارڈن گارڈن ہو گیا۔
وہ اپنے گھر والوں کو ہی ڈھونڈ رہی تھی جب وہ اسکے پاس آیا
اسلام و علیکم کیسی ہیں اپ۔عمان نے کہا دل تو خوشی سے ناچ اٹھا
وعلیکم السلام آپ کون۔ علینہ نے پوچھا وہ واقعی بھول گئی تھی عمان کو افسوس ہوا
میں افیرا کا بھائی ہوں اس دن آپ سے تعارف ہوا تھا نا پارٹی میں۔عمان نے یاد دلانے کی کوشش کی
او اچھا۔پھر سے اسنے نظر ادھر ادھر دوڑائی
کیسی ہیں آپ کیا کسی کو ڈھونڈ رہی ہیں ۔عمان تو بس اسے جانے نہیں دینا چاہتا تھا
جی ٹھیک میں ماما اور بھائی لوگوں کو ڈھونڈ رہی ہوں۔اسے کسی اجنبی سے باتیں کر نا اچھا نہیں لگتا تھا
وہ افیرا کے ساتھ اندر گئے ہیں چلیں میں اپکو لے چلتا ہوں ۔یہ کر وہ دونوں آگے بڑھ
ادھر جب ماہین کو دیکھا تو دیکھتا رہ گیا لائٹ اورنج گٹھنوں سے نیچے آتی شرٹ اور چوڑی دار پاجامہ ہلکہ سا اس حلیہ میں وہ سعد کے دل کے تار چھیڑ رہی تھی ۔
ماشاءاللہ بڑے پیارے لگ رہے ہیں لوگ تو بھئی۔ماہین کو نظروں میں رکھ کر کہا گیا
ماہین تھوڑی سی گلنار ہر گئی وہ جانے لگی کے سعد نے ہلکی سرگوشی میں گنگنا یا
"ابھی نہ جاؤں چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں ابھی ابھی تو آئے ہو"
"او چھچھورے شرم کر میرے سامنے میری بہن کو چھیڑ رہا باز اجا ایسا نہ کہیں ماہین سے دھولائی ہو تیری۔شذیان نے اسے گھور کر کہا
"
"تو کیوں جل رہا تو بھی کر لے زینیا کی وہ بھی کم نہیں لگ رہی اج۔سعد نے آنکھ مار کہ اسے چھیڑا (شایان اور زینیا کی منگنی ہوئی تھی کچھ عرصہ پہلے)
"بک بک نہ کرو ذیادہ کچھ بولے رہتے ہو۔زینیا نے گھور کر کہا
ہائے بچی شرما گئی۔سعد نے شرارت سے کہا
بہت اچھی لگ رہی ہو زرنش تم۔امان نے سادہ سے لہجے میں اسکی تعریف کی
تھینک یو تم بھی اچھے لگ رہے۔اس نے مسکرا کر کہا
یار سب ایک دوسرے کی کر رہے ہو میری بھی کر دو اتنی محنت سے تیار ہوئی ہوں ۔افیرا نے منہ بنا کہا جس پر سب ہنس دیے
تم تو سب سے ذیادہ پیاری لگ رہی ہو میری جان۔زرنش نے اسے ساتھ لگا کر اسکی دل سے تعریف کی
پھر تھوڑی دیر باتوں کا سلسلہ جاری رہا
پھر عنایہ اور عمان کو ایک ساتھ بیٹھا کر رسمیں ادا کی گئیں
افیرا نے ناہید بیگم کو حنا بیگم سے ملوایا تھا حنا بیگم اور ندا بیگم سے مل کر انہیں بہت خوشی ہوئ۔
&#&#&#&#&#&#&#&&
"بارات سادگی سے گزر گئی آج ولیمہ کی تقریب تھی جو روز بینکٹ میں رکھی گئی تھی۔خرم ولید اور عمان دوپہر سے ہی بینکٹ میں تیاریاں دیکھنے کے لیئے چلے گئے تھے گھر کے سب سے بڑے بیٹے کی شادی تھی جزلان صاحب کوئی کمی نہیں کرنا چاہتے تھے
@_@''#&#-#-#-#-#:#:#-&#:#:#--#:&#&#&#&-#-@-#::$:#:#:#:؛#؛
"عنایہ اور باقی خواتین پارلر سے تیار ہونے گئیں تھیں افیرا منع کر رہی تھی لیکن اسے عنایہ ضد کر کہ لے گئی تھی
تیار ہو کر انہیں سیدھا حال میں ہی پہنچنا تھا
@&#&#&#:#::@&@-#&#&#-@--@--#--#::#:#؛!)٬!!]!]££]]¢¢°¢°°£
آج صبح سے ہی ناہید بیگم سفوان کو راضی کیسے کرنے کی کوشش کر رہی تھیں
وہ افیرا سے ملوانا چاہتی تھیں اسے وہ تو دل میں پککا ارادہ کر کے بیٹھ گئیں تھیں کہ افیرا کو اپنی بہو بنا کر ہی رہیں گیں۔ابھی وہ آوفس تھوڑی دیر پہلے آکر اپنے کمرے میں آرام کر رہا جب دروازہ نوک ہوا
@_@__#'#'@_@&@&@&&@&@
@_@__@_@&@&@&@&&@&@
آجائیں۔اس نے اجازت دی اور ناہید بیگم اندر آئیں
"ارے ماما آپ اپکو کب سے ضرورت پڑھ گئی نوک کر کے آنے اپکے بیٹے کا کمرا کسی اور کا نہیں۔اس نے محبت سے کہا
"جب بیٹا بڑا ہو جائے کچھ آداب ہو ہی جاتے ہیں۔انہوں نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا
"بٹ اولاد ماما بابا کے لیے کبھی بڑی نہیں ہوتی میری ماما جان۔اس نے پیار سے کہہ انکی گود میں سر رکھ دیا
"
"سہی کہا اپنے اور اپکا آوفس کیسا جا رہا ہے۔انہوں نے اس کے بالوں میں ہاتھ چلاتے ہوئے
"اللہ کا کرم ہے آپ سبکی دعائیں ہیں بہت اچھے سے کام چل رہا سب بہت محنت کرتے ہیں اپنے اپنے کام میں۔اس نے سکون سے آنکھیں موند لیں ماں کے لمس ہوتا ہی ایسا کہ اولاد کے اندر بھر دے
"بیٹا زرا اپنی صحت کا خیال رکھا کرو ہر وقت کام بھی اچھا نہیں لگتا۔ناہید بیگم نے کہا
آپ ہے نا میرا خیال رکھنے کے لیے مجھے کیا فکر ہوگی پھر۔اس نے انکا ہاتھ تھام کہ بوسہ دیا
اب میری بہو لے آؤ تاکہ میں اسکو اسکی ذمہ داری سونپ دوں میں کب تک آپکا خیال رکھوں گیں۔پھر سے شادی کی بات چھیڑی
ماما کیا اپکو آپکے بیٹے کی آزادی اچھی نہیں لگتی جو آپ مجھے قید کرنا چاہتی ہیں۔اس مسکرا کر کہا
بیٹا جی یہ قید نہیں ہر انسان کو ایسے ہمسفر کی ضرورت ہوتی جو اسے سمجھے اسکا کا خیال رکھے جو باتیں آپ مجھ بھی نہیں کہتے آپ اسے کہہ سکتے ہو اور اللہ نے بہت خوبصورت رشتہ اتارا ہے دنیا میں۔انہوں نے انجانے والے انداز میں کہا
ماما ہر وقت کسی نا کسی بات پر لڑائی نخرے کرنا عجیب ہوتی ہیں یہ لڑکیاں۔بس شادی نہ کرنے کی پککا ارادا تھا
"
"میری جان یہ لڑائی نہیں بلکہ چھوٹی موٹی نوک جھوک ہیں جو اس رشتے کو تھوڑا اچھا بنا دیتی ہیں اور پیار پیدا کرتی ہیں اور رہی بات نخرے اور روٹھنے کی تو بیوی اپنے شوہر کو نخرے اور روٹھتی ہیں کیوں کہ انہیں مان ہوتا کہ اپ انہیں منا لیں گیں اور اپکو پتا لڑکیوں کے دل ایسی باتوں میں ہی خوش ہوجاتی ہیں کیونکہ شوہر کی محبت عورت کو متعبر بناتی ہے۔انہوں نے پیار سے سمجھایا
"ٹھیک ہے میں نے ہار مانی۔اسنے ہنس کہ کہا
میں بھول گئی جو میں کہنے آئی تھی انہوں نے سر پر ہاتھ مار کر کہا
جی بولیے آپ ۔سف نے کہا
میں اپکو آج کے فنکشن میں چلنے کا کہنے آئی ہوں اپکو آج چلنا ہے ہمارے ساتھ۔انہوں نے مدعا بیان کیا
ماما اپکو پتا ہے میں نہیں جاتا آپ چچی وغیرہ کے ساتھ چلی جائیں نہ۔سفوان نے کہا
آپکی کوئی چچی نہیں جا رہیں انہوں نے بھابھی آپ چلی جائیں اگر بچوں میں کسی کو لے جائیں۔انہوں نے کہا
تو آپ لے جائیں نہ دانیہ کنول اذہان ذین وغیرہ میں کسی کو۔کسی طرح جان چھڑانی تھی
"بیٹا جی آپ چل لو گے کیا ہو جائے گا ویسے آپ کہیں نہیں جاتے ہیں اور بچوں میں سے بھی کوئی جانے کے لیے تیار نہیں ہمارے گھر کے بچے اس معلاملے میں بہت بدتمیز ہیں کوئی اتنی اپنائیت سے بلائے اور ان لوگوں کے انکار ہی ختم نہیں ہوتے۔انہوں تھوڑا غصہ ہو کر کہا ایسے ہی ماننا تھا سفوان نے
اچھا اچھا ماما غصہ تو نہ اوکے میں چلتا ہوں بس میری پیاری۔ سفوان نے انکا ہاتھ تھام کر کہا
9 بجے تک تیار ہو جانا ہم نکل جائیں گیں۔وہ کہہ کر کھڑی ہوگئیں
جی ٹھیک اور کچھ میری ماما جان اس نے انہیں ساتھ لگا کہ کہا
جی اب جلد جلد میری بہو لے آئیں۔انہوں نے جھٹ سے کہا
وہ بھی کر لے گیں ماما۔سر پر بوسہ دیا ماما کے
@#$$$###@##$$&#-#--#&#-$$###########$@&#&&#&#
پارلر سے تیار ہو کر وہ لوگ سیدھا حال میں ہی آئے تھے کیوں کہ یہ تھیم ویڈنگ تھی اس لیے آج تھیم کلر گولڈن اور بلیک رکھا گیا حال کو تھیم کے حساب سے نہایت خوبصورت طرح سے سجایا گیا سٹیج کو گولڈن اور بلیک پھولوں اور ڈیکوریشن کی مختلف چیزوں سے سجایا گیا تھا
_@&#&#&#&#&#&#&#&#&#&#&#&#&##--#-#-#-#-#-#--#-#-+#
آج افیرا نے بلیک گٹھنوں تک کی شرٹ جس کے دامن میں گولڈن کام کیا گیا تھا ہائی نیک گلے پر پر کام کیا گیا تھا فل سلیو گولڈن سٹریٹ پجامہ جس پر ڈیزائین بنایا گیا تھا گولڈن نیٹ کا دوپٹہ جس کے کناروں پر بلیک بارڈر دیا گیا تھا ہلکا سا میک اپ گولڈن نازک سے جھومکے بالوں کا سائیڈ جوڑا بنایا گیا تھا اور بہت نفاست سے متھا پٹی لگائی گئی تھی بلیک تھوڑی ہائی ہیل وہ نظر لگ جانے کے حد تک پیاری لگ رہی تھی 😍@&#&#&@
@_#&#&&#&#&#&#&#&#&#&#&&#&&#&#&#&#&#&#&#&#&#&#&#&
آج کے حساب سےعنایہ نے آج ہلکی گلابی کپڑے پر گولڈن نگوں اور موتیوں کا بہت حسین کام ہوا تھا بلیک گھیر دار شرارے پر بھی گولڈن کام کیا گیا تھا ہلکے گلابی جالی کا دوپٹہ جسکے کناروں پر گولڈن اور بلیک کلر کا چوڑا بارڈر تھا اس پر خوبصورت سا گولڈن سیٹ برائیڈ میک اپ اس پر بہت ٹوٹ کر روپ آیا تھا۔جبکی حنا بیگم اور ندا بیگم نے ساڑی پہنی تھی
@&#&#-#--@؛@؛@؛@@؛@؛؛@@
@_@_&@&@&@&@&@&@&&
حال میں کافی مہمان اچکے تھے آج سارے مہمانوں کو ولید اور ضامن نے ویلکم کیا تھا سفوان وغیرہ بھی اچکے تھے
@&&@&#-@-@-#-@-@-@-@-@-@--@-@-@-@-#-##$$_$$####
افیرا عنایہ اور ہمان کے ساتھ برائیڈ روم میں تھی جہاں ہمان اور عنایہ تصویریں بنائی جا رہی تھیں جب خرم افیرا کو بلانے کے لیے آیا
@#-#-#-#--#-@-@-@--@-@-@@&@&@-@--@-@-@-@-@-@-
افیرا آج کچھی الگ لگ رہی تھی اس لیے اسے افیرا کو دیکھ کر اسے شرارت سوجھی
"ہمان بھائی آپ نے افو کو دیکھا کہیں ماما کہہ رہی تھیں وہ آپکے ساتھ ہے۔اس نے مسکراہٹ دبا کر کہا
"دیکھائی نہیں دیتا کیا یا آنکھوں میں بٹن فٹ کرا لیے ہیں۔افیرا نے خونخوار نظروں سے گھور کہا
"جی آپ کون میں نے پہچانا نہیں اپکو۔اور تپایا
"خرم باز آجاؤ اپنے کمین پن سے ورنہ ۔میرے ہاتھوں تمھارا قتل طے ہے۔افیرا نے دانت پیس کہ کہا
"ارے افی یہ تم ہو میں سمجھا پتا نہیں کون ہے۔ خرم نے حیران شکل بنا کر کہا
"کیوں میں نے کیا ماسک پہنا ہے جو پہچان نہیں سکے۔اس نے گھور کہ کہا
"یہی سمجھ لو پارلر والی نے کیا کمال دیکھایا یار کیا سے کیا بنا دیتی ہے انسان کو کے دھوکہ ہی کھا جائے بیچارہ۔تاسف سے سر ہلایا گیا
"کچھ زیادہ ہی بک بک نہیں کر لیتے تم۔افیرا نے کھا جانے والے انداز میں کہا
"لے بھئی انسان اب سچ بھی نہیں بول سکتا یہ تو حد ہوگئی سچے انسان کی کوئی قدر ہی نہیں ہے۔خرم نے اہ بھرتے ہوئے کہا
"سچے کو دیکھو دن میں کتنے جھوٹ تو ایسے ہی بول دیتے ہو تم فون پر اپنی جانو مانووں سے۔افیرا بھی کہاں پیچھے رہنے والی تھی اسکی پول کھول رہی تھی ہمان نے حیران نظروں سے خرم کو دیکھا۔جیسے بول رہا کیا ماجرہ ہے بھئی
"ارے میری پیاری بہن میں تو مذاق کر رہا تھا بہت پیاری لگ رہی تم تو اب کیا میں اپنی بہن سے مذاق بھی نہیں کر سکتا۔اس نے اک دم گڑبڑا کہا افیرا کا کیا بھروسہ اپنا منہ ہی کھول دے
اب آیا نا لائن پر۔اس نے مسکراہٹ دبا کر سرگوشی کی
اچھا چلو باہر تمھیں تمھارے گروپ فرینڈز ڈھونڈ رہیں۔اس نے بات بدلی
اوکے تم چلو میں آتی ہوں۔افیرا نے کہا اور خرم چلا گیا
بھائی میں جا رہی ہوں اگر کوئی کام ہو تو فون کر۔لیجیے گا اوکے۔یہ کہہ کر وہ باہر نکل گئ
@_@__@_@_@&@&&@&@&@&@&@&@&@&@&@&@&@&@
باہر نکل کر وہ سب ایک ہی ٹیبل پر بیٹھے نظر آگئے تھے اس لیے وہیں چل دی
ہائے گائز۔اس کے کہنے پر سب متوجہ ہوئے سفوان جو موبائل میں لگا تھا گردن اٹھا کر دیکھا اک پل کو جیسے نظر ہی ٹہر گئی پھر سر جھٹک کر موبائل میں جھک گیا البتہ افیرا نے سفوان کو نہیں دیکھا تھا
اسلام و علیکم کیسی ہو افیرا بہت پیاری لگ رہی ہو ماشاءاللہ۔رزنش نے اٹھ اس سے گلے ملی اور اسکی تعریف کی
تھینک یو سو مچ تم بھی بہت کیوٹ لگ رہی ہو کیوں ہمارے سیدھے امان کے دل کے تار چھیڑ رہی ہو۔اخری بات اس نے شرارت سے کان میں کہی
بدتمیز بہت بولنا آگیا ہے تمھیں بھی۔اپنی شرم مٹانے کے لیے زرنش نے گھور کہا
" ہاں افی سچ میں آج تو بہت زیادہ پیاری لگ رہی ہو آج تو لگ رہا کوئی نہ کوئی گیا کام سے ہے نہ کیوں زرنش۔ماہین نے افی کو چھیڑا
ماہین تم بھی نہ پاگلوں والی باتیں کرتی رہتی ہو۔افی نے کہا اسے یہ ساری باتیں اچھی نہیں لگتی تھیں۔
ماما میں گھر جا رہا ہوں آپ لوگ آجانا بعد میں۔سفوان نے ماں سے کہا اس کی آواز پر افیرا نے مڑ کر دیکھا
اسلام و علیکم آنٹی اس نے ناہید بیگم کو سلام کیا اتنا تو وہ سیکھ ہی گئی تھی اپنے گروپ کے ساتھ رہ کہ
وعلیکم السلام بیٹا کیسی ہو آپ اور ماما کہاں ہیں آپکی ۔انہوں نے جواب دے کر پوچھا
میں بلکل ٹھیک ہوں اور ماما بھی یہیں تھی۔اتنا شہد اور افیرا سفوان کو تو حیرت کے جھٹکے لگ گئے
ماما مجھے جانا ہے کل ایک میٹنگ مجھے تیاری کرنی ہے اوکے اللہ حافظ۔ یہ کہہ کر وہ کھڑا ہوگیا
کیا ہو گیا ہے بیٹا اپکو بیٹھ جاؤ تھوڑی دیر۔وہ اسے ابھی حنا بیگم سے ملوانا چاہتی تھیں پر سفوان صاحب کو بھاگنے کی جلدی تھی انکی بات سن کر وہ بیٹھ گیا
افیرا بھی زرنش وغیرہ کے ساتھ باتوں میں لگ گئی
حنا بیگم انہیں کی طرف اگئیں تھیں انہیں ناہید بیگم کا نیچر بہت بھایا تھا
اسلام و علیکم ناہید کیسی ہیں آپ۔حنا بیگم نے کر کہ انہیں گلے لگایا
وعلیکم السلام الحمدللہ میں بلکل ٹھیک اور آپ کیسی ہیں اور گھر میں سب ۔انہوں نے نرمی سے کہا
اللہ کا شکر ہے سب ٹھیک۔یہ میرا بڑا بیٹا ہے سفوان۔انہوں سفوان کا تعارف کرایا
اسلام و علیکم آنٹی اسنے ادب نے سر انکے آگے کیا
وعلیکم السلام بیٹا جیتے رہو کیسے ہو اپ۔حنا بیگم نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا
الحمدللہ بلکل ٹھیک۔اس نے مسکرا کر کہا
ناہید کبھی آئیں آپ ہمارے گھر میں اور میری دیورانی ہی ہوتی ہیں گھر میں۔سناٹا ہوتا ہے آپ آئیں گیں تو کچھ گپ شپ ہو جائے گی۔انہوں انہیں گھر آنے کی دعوت دی
جی جی ضرور انشاللہ۔
پھر کچھ باتیں ہوتی رہیں پھر مووی کا سیشن چلا افیرا نے بھی زرنش وغیرہ کے ساتھ گروپ فوٹو کھیچوائی
تھوڑی دیر یہ اپنے گھر چلے گئے
@_@&&#&#&#&#&#&#&@&@&&@&@&@&@&@&@&&@&@
آج صبح ہی ناہید بیگم نے حنا بیگم کو اپنے آنے کی اطلاع دے دی تھی۔اج ناہید بیگم نے سفوان کے بارے میں بات کرنے کا سوچ لیا تھا وہ دوپہر میں عمارہ کے ساتھ آگئیں تھیں ابھی وہ گھر میں داخل ہوئیں تو انہیں حنا بیگم حال میں ہی مل گئیں
@-#-#-#-#-#-#-#--#-#-@+@؛@++###@@@@#$#@@@@###
اسلام و علیکم حنا کیسی ہیں اپ۔ناہید بیگم حنا سے بگل گیر ہوئیں
وعلیکم السلام میں ٹھیک ہوں اور آپ کیسی ہیں۔انہوں بھی پوچھا
الحمدللہ۔
یہ میری دیورانی کم بہن ندا اور ندا یہ ہیں ناہید میں نے بتایا تھا نا تمہیں۔انہوں نے دونوں کا تعارف کرایا
اسلام و علیکم۔ندا بیگم نے مسکرا کر سلام کیا
وعلیکم السلام اور یہ میری چھوٹی بہو بیٹی وجدان کی منکوحہ۔انہوں نے عمارہ کا تعارف کرایا اس نے سلام کیا
سلام کا جواب دے کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا
اور افیرا کہاں ہیں نظر نہیں آرہیں۔ناہید بیگم نے تھوڑی دیر بعد پوچھا
وہ یونی سے آکر سو رہی ہے میں ابھی اٹھواتی ہوں۔یہ کہہ کر وہ میڈ کو آواز دینے لگیں جب ناہید بیگم نے منع کر دیا
ارے رہنے بچی تھک گئی ہوگی۔ اتنے میں ندا بیگم چائے اور اسکے ساتھ لوازمات لے آئیں
ارے اس تکلف کی ضرورت تھی۔انہوں نے
تکلف کیسا آپکا اپنا گھر ہےاور گپ شپ کا مزہ کچھ کھانے کے ساتھ ہی آتا ہے۔ندا بیگم نے ہنس کہ کہا اور ناہید بیگم مسکرا دیں
حنا بیگم آج میں آپ سے کچھ بات کرنے آئی ہوں۔انہوں نے تمہید باندھی
جی جی بولیں ناہید بیگم۔حنا نے کہا
میں افیرا بیٹی کو اپنی بہو بنانا چاہتی ہوں اپنے سفوان بیٹے کے لیے۔انہوں نے اپنا مدعا بیان رکھا
جی یہ تو ہمارے لیے بہت نصیب کی بات ہے لیکن ابھی افیرا اپنا Bsc کمپلیٹ کر رہی ہے۔انہیں سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کے کیا کہیں
وہ اسکے دوسرے گھر جانے کی بات ضرور کرتی رہتی تھیں لیکن آج سچ میں انکی بیٹی چلی جائے اک دم آنکھیں نم ہو گئیں
@_@&#&&#&#&@&@_@_@_@_@@&&#&#&#&@&&@&@&@
جی تو ہم ایسا کرتے ہیں Bsc کا فرسٹ ائیر ہونے کے بعد شادی کر دیتے ہیں باقی کا ایک سال وہ شادی کے بعد کمپلیٹ کر لیں گیں۔ناہید بیگم تو لگتا تھا آج رشتہ پکا کر کہ اٹھیں گیں
جی لیکن اتنی جلدی۔۔۔۔ابھی حنا کچھ کہتیں کہ ناہید بول پڑیں
دیکھیں حنا میں بہت امید لے کر ائی ہوں مجھے اپنے سفوان کے لیے افیرا بیٹی بہت پسند ہیں اور میں جلد سے جلد ذپنی بیٹی بنانا چاہتی ہوں ۔انہوں نے اس سے کہا
جی اچھا میں جزلان سے بات کروں گیں انکا ہی جواب ہو گا جو ہوگا۔انہیں پتا تھا جزلان صاحب کا وہ سن کر ہی پریشان ہو جائے گیں
جی ٹھیک ہے اب ہم چلیں گیں سفوان وغیرہ بھی آوفس آجائیں گیں۔کہہ کر وہ اٹھ گئیں
ارے بیٹھیں نا ابھی تو آئیں تھیں آپ ٹھیک سے باتیں بھی نہیں ہوئیں۔انہیں حنا بیگم نے روکا۔
آپ میں جب آؤں گیں جب آپ مجھے جواب دیں گیں۔ایک بار پھر کہا
جی انشاللہ جو اللہ کو منظور ہوگا۔انہوں نے بگل گیر ہو کر کہا
پھر وہ اپنے گھر روانہ ہو گئیں کہ کے جزلان صاحب سے کیسے بات کریں گیں
بھابھی آپ فکر نا کریں بھائی صاحب انشااللہ مان جائے گیں ویسے بھی مجھے ناہید بیگم بہت اچھی لگیں اتنی امید سے وہ ہماری افیرا کو اپنی بہو بنانے کا کہہ کر گئیں ہیں۔ندا بیگم نے انہیں تسلی دی
ہاں اچھی تو بہت ہیں لیکن تمھیں پتا ہے جزلان صاحب اس بات سے غصہ ہو جاتے ہیں وہ کہتے ہیں انکی لاڈلی ان سے دور چلی جائے گی۔اور سچ بولوں تو مجھے آج لگ رہا اتنی جلدی بڑی ہوگئی ہماری بیٹی کہ اب پرائے گھر جائے گی۔یہ کہتے انکا دل بھرا گیا
بھابھی بیٹیوں کو جانا ہی ہوتا ہے ایک دن اپنے گھر اور ویسے بھی مجھے لگتا ہے ہماری افی وہاں بھی شہزادیوں کی طرح رہے گی۔ندا بیگم نے انہیں ساتھ لگا کر کہا
انشااللہ چلو میں ایک دو دن میں بات کرتی ہوں پتا نہیں کیسے ری ایکٹ کریں گیں۔حنا بیگم نے کہا
سب بہتر ہوگا انشااللہ۔
@_@_&@&#&@&@&@&@&@&@&@&@&@&@&@&@&@&@$
سب دیورانی جیٹھانی حال میں بیٹھ کر چائے سے لطف اندوز ہو رہیں تھی۔سارے مرد ابھی گھر نہیں آئے تھے۔باقی جو لڑکے تھے کچھ باہر اپنے دوستوں کے ساتھ کچھ اپنے کمرے میں
@&#&&#&#&@&@&@&@-@-@--@-@-@-@-@-@-@-@-$$____
میرے پاس آپ لوگوں کے لیے ایک خوشخبری ہے۔انہوں نے خوش ہو کر کہا
کیا بھابھی جان بتائیں جلدی سے۔سب نے تجسس سے انکی طرف دیکھا
میں نے ہمارے سفوان کے لیے ایک لڑکی پسند کر لی۔انہیں اطلاع دی
سچی بھابھی کون ہے وہ کیسی کہان رہتی ہے۔سب ایسے سوال پوچھے۔
ہمارے سعد امان ہیں انکی کلاس فیلو اور دوست ہے بہت پیاری ہے ماشاءاللہ سے اس دن پارٹی میں بھی آئی تھی۔انہوں نے تفصیل بتائی
کیا بڑی ماما افیرا سفوان کے لیے آپ سچی کہہ رہیں۔پتا نہیں سعد کب آیا پر اسکے کان میں یہ بات پڑھ چکی تھی
ہاں جی۔انہوں نے تصدیق کر دی
اور میں نے انکی ماما سے بھی بات کی ہے ۔انہوں نے بتایا
وہ تو ٹھیک ہے بھابھی پر کیا سفی مان جایا گا وہ تو ویسے شادی کی بات سے بھی بھاگتا ہے۔سارہ بیگم نے کہا
اس بار تو اسے ماننا ہی پڑے گا آج نہیں تو کل شادی تو کرنی ہی ہے نا اب ہی سہی۔انہوں نے مضبوط لہجے میں کہا
چلیں آپ اس سے بھی بات کر لیں ۔ اس بار شمائلہ بیگم نے کہا
ہاں آجائیں آج رات ہی بات کرتی ہوں۔یہ کہہ کر وہ لوگ بھی آپس میں باتوں میں لگ گئے۔
&@&#&#&#&@&@&@&@&@&@&@&@&@&@&@&@&@&@$
رات کو کھانے کے بعد ناہید بیگم سفوان کے کمرے میں بات کرنے کہ ارادے سے گئیں اس وقت وہ لیپ ٹاپ پر کوئی کام کر رہا تھا جب وہ کمرے میں آئیں
@&&@@&&#&@&@&@&@&@
بیٹا آپ کیا ضروری کام کر ہے ہو۔انہیں اسے کام کرتا دیکھا تو کہا
ارے نہیں ماما آپ آئیں آپ سے ضروری کوئی کام نہیں۔اس نے محبت سے کہا
بیٹے مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔انہوں اسکے ساتھ بیڈ پر بیٹھ کر کہا
جی جی ماما کہیں۔اس نے کہا
بیٹا میں نے آپکے لیے ایک لڑکی پسند کی ہے۔ناہید نے اسکے ہاتھ تھام کر کہا
ارے کون ہے وہ خوش نصیب جو ہماری پیاری ماما کو اچھی لگیں۔اس نے ہنس کر کہا
وہ سعد اور امان کی دوست ہیں نا افیرا انہیں۔ماما نے اطمینان سے بتایا جبکہ سفوان جھٹکے اٹھا
کیا ماما وہ افیرا ملک۔وہ سمجھا شاید سننے میں غلطی ہوئی ہے۔
جی بیٹا وہی کتنی اچھی ہے نا۔انہوں نے مسکرا کر کہا
اچھی ماما بہت بدتمیز ہے وہ۔اس نے غصے سے کہا اس سے پہلی ملاقات یاد آگئی
بیٹا یہ کیا کہہ رہے ہیں اپ۔انہوں نے حیران نظروں سے اسے دیکھا
جی ماما اسے اتنی بھی تمیز نہیں ہے کہ کس سے کس طرح بات کرنی ہے اور اپنے سے کمتر انسان کو وہ بہت حقارت سے دیکھتی ہے۔ اپکو پتا ہے اس دن ایکسیڈینٹ بھی اسی کی کار سے ہوا تھا جب انہیں انکی غلطی کا احساس دلایا تو انہوں نے مجھ سے بھی بدتمیزی کی ۔اس نے غصہ سے کہا
بیٹا مجھے نہیں پتا تھا میرا بیٹا شادی نا کرنے کے لیے ایک لڑکی میں شامی نکالے گا۔انہیں یہ ساری باتیں بہانا لگ رہیں تھیں
ماما آپ مجھے ایسا سمجھتی ہیں۔اس نے حیران ہو کہ کہا
بیٹا ہو سکتا اس نے کر دی آپ سے بدتمیزی کی ہو لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں آپ اسے بدتمیز قرار دے دو ۔ انہوں نے کہا
ماما یہ ایک بار نہیں ہوا جب بھی ہمارا سامنا ہوا انکا لہجہ بہت برا تھا اور میں نے کبھی ایسی ہمسفر کا تصور نہیں کیا۔اس نے انہیں آگاہ کیا
بیٹا وہ اپنے گھر کی ایک ہی بیٹی ہے اور لاڈ میں کچھ بدتمیز ہو گئی ہوں پر آپ اسے اپنے سانچہ میں ڈھال لینا وہ ایسی ہی ہیں آپ انہیں محبت اور عزت دو گے تو وہ آپکی ہو جائیں گیں اور ہر انسان فرفیکٹ نہیں ہوتا۔ انہوں نے اسے سمجھانا چاہا
ماما پلیز آپ سمجھ کیوں نہیں رہیں۔اسنے بے بس ہو کر کہا
مجھے کچھ نہیں سننا میں انکی ماما سے بات کر چکی ہوں اور مجھے امید آپ اسے اپنے سانچہ میں ڈھال لیں گیں۔انہوں نے بات ہی ختم کر دی
جیسا آپکا دل کرے کریں شادی کے بعد کوئی بھی مسئلہ ہوا آپ ہی حل کر لیے جائیے گا پھر مجھ سے کوئی امید مت رکھیئے گا۔ یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گیا جس لڑکی کو وہ دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا اسکے ساتھ پوری زندگی گزارنا
آج حنا بیگم نے جزلان صاحب سے بات کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ناہید بیگم کو بات کئیے 3 ہفتے گزر چکے تھے اور انکا فون بھی آیا تھا جواب کے لیے جب حنا بیگم ۔ے یہ کہہ کر ٹال دیا تھا کہ ابھی جزلان صاحب کام میں بہت مصروف ہیں الیے انہیں بات کرنے کا موقع نہیں ملا۔پر انکے بہت بار بولنے کے بعد انہوں نے بات کرنے کی ہمت کر ہی لی تھی اکثر رات کو کھانے کے بعد جزلان صاحب سٹیڈی میں ہی ہوتے تھے اس لیے کھانے کے بعد حنا بیگم سبز چائے لے کہ وہی کی راہ لے لی تھی۔ انہوں نے دستک دی۔
آجائیں۔۔ انہوں نے اجازت دی تو حنا بیگم اندر آئیں
ارے بیگم آپ آئیں۔انہوں نے حنا بیگم کو دیکھ کہ کہا کیوں کہ وہ یہاں کم ہی آتی تھیں۔
جزلان صاحب مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے ضروری۔انہوں نے بات شروع کی۔
جی جی بولیے ہم تو اپکو ہی سننا چاہتے ہیں۔انہوں نے شرارت سے کہا
• جزلان آپ بھی ہر وقت یذ کے موڈ میں رہتے ہیں ث سے تین بچے کے باپ اور آپ تو سسر بھی ہیں۔حنا بیگم نے جھینپ کہ کہا۔
ارے بیگم تو کیا ہم بوڑھے ہوگئے تو کیا ہوا دل تو ابھی بھی جوان اور رومینٹک ہے نا۔جزلان صاحب دل پر ہاتھ رکھ کہ شوخی سے کہا
آپ بھی کہاں سے کہاں بات لے جاتے ہیں میں آپ سے ضروری بات کرنے آئی تھی آپ اپنی لے کہ بیٹھ گئے۔انہوں نے مصنوعی ناراضگی سے کہا
اچھا ناراض کیوں ہر رہیں ہیں بولیں کیا بات کرنی تھی۔جزلان صاحب نے انکا ہا تھام کہ کہا
پہلے وعدو کریں آپ میری بات تحمل سے سنے گیں اور غصہ نہیں کریں گیں۔انہوں نے کسی سے ڈر سے کہا
ارے کونسی بات اور میں آپ پر غصہ ہوتا ہوں کیا جو کہہ رہی ہیں۔جزلان صاحب نے منہ بنا کر کہا
اچھا تو سنے ناہید بیگم ہیں نا جن کے بارے میں بتایا تھا اپکو سعد امان کی بڑی ماما جو آگی کے کلاس فیلو ہیں۔انہوں نے تمہید باندھی
جی ہیں بہت اچھی ہیں ماشاءاللہ بقول اپکے۔انہوں نے ہنس کہ کہا
وہ اپنے بڑے بیٹے سفوان کے لیے ہماری افیرا کا رشتہ مانگا ہے۔انہوں نے تحمل سے مگر تھوڑے ڈر کے ساتھ ساری بات بتا دی
اپنے کیا کہا۔انہوں نے سوال کیا
میں کہا ہے میں آپ سے بات کر کہ جواب دوں گیں۔حنا بیگم نے کہا
حنا آپ جانتی ہیں ہماری بیٹی ابھی صرف بیس سال کی ہے اور پڑھ بھی رہی ہے اور ہم نے ابھی تک اس بارے میں سوچا نہیں۔مطلب صاف انکار تھا
کیا مطلب ہے جزلان آپ کیا افی کی شادی نہیں کریں گیں اور بیٹیوں کی یہی عمر ہوتی ہے شادی کی اور ویسے بھی رہی بات پڑھنے کی تو وہ شادی کے بعد بھی پڑھ سکتی وہ لوگ کم سوچ کے لوگ نہیں ہیں۔حنا نے سمجھانے والے انداز میں کہا
ایسی بات نہیں ہے حنا کہ اس کی شادی نہیں کرنی لیکن میں اتنی جلدی اپنی نازو پلی بیٹی کو اپنے سے دور نہیں دینے جانے دے سکتا پتا ہے میں بے چین ہو جاتا کہ اب میری بیٹی بڑی ہو گئی کل کو اسے کوئی اور لو جائے گا مجھ سے۔انکا لہجہ تھوڑا بھیگا تھا جو حنا بیگم نے محسوس کیا
لیکن جزلان بیٹیاں تو ہوتی ہی امانت ہیں انہیں ایک نہ ایک دن اپنے اصلا گھر جانا ہوتا ہے نہ آپ بھی اپنے اپکو تیار رکھیں اور میں دیکھا ہے سفوان کو مجھے بہت اچھا لگا وہ ہماری بیٹی خوش رہے گی اور آپ بھی ملاقات کر کہ اپنا دل مطمئن کر لیجئیے گا۔حنا نے انکے دونوں ہاتھ تھام کر راضی کرنے والے انداز میں کہا
چلیں میں اپکو سوچ کر بتاتا ہوں بہت مشکل فیصلہ ہے میرے لیئے۔انہوں مسکرا کہ کہا
بی ایس سی کے پارٹ ون لاسٹ سمسٹر کی پڑھائی سٹارٹ ہو چکا تھا
اور سب اپنی اپنی پڑھائی میں مصروف ہو گئے تھے آج کافی ٹائم بعد ان سب کو اکٹھے بیٹھنے کا ٹائم ملا تھا ۔اس لیے وہ سب کینٹین میں میں بیٹھے ہوئے تھے
میرے پاس تم لوگوں کے لیے بہت اچھی خبر ہے۔سعد صاحب نے کہا
جی فرمائیں وہ کیا آپکے پاس تو خبریں بہت
ہوتی ہیں اللہ کے فضل سے انسان نہیں نیوز چینل ہو پورے تم تو۔،یہ شایان تھا جو اسکی خبر دینے والی عادت تھوڑا بیزار تھا
تو تم مت سنو اپنے کان بند کر لو۔سعد نے کہا
اچھا اب سنا بھی چکو۔زرنش نے کہا
ہماری بڑی ماما نے افیرا کو ہماری بھابھی بنانے کا عہد کر لیا ہے.یہ دھماکہ تھا افیرا کے لیے
کیا بکواس کر رہے ہو دماغ ٹھیکانے پر تو ہے یا الٹ گیا۔افءرا نے ایک دم غصہ میں کہا
جی بلکل ٹھکانے پر ہے اور بڑی ماما نے تمھاری امی سے بھی بات کر لی ہے اب جلد آپ ہمارے سفوان بھائی کے دل کی اور ہمارے گھر کی مکین بنے گیں۔مزید آگاہ کرنا بہتر سمجھا
شادی وہ بھی تمھارے کھڑوس اور بد تمیز بھائی سے۔بہت اچھا مذاق تھا ویسے ۔اس نے ناگواری سے کہا کیوں اسے سفوان ایک آنکھ نہ بھاتا تھا
سفوان بھائی اور بدتمیزی کیا ہو گیا افیرا تمھیں سفوان بھائی سے زیادہ اچھا آج کل کے دور میں شاید ہی کوئی ہو ہر ایک کی عزت اور احترام کرنے والے تم بد تمیز کہہ رہی ہو۔زرنش نے حیران ہو کر کہا
ہاں ہوں گیں لیکن میری نظر میں بہت کھڑوس ہیں کہ جب بات کرتے ہیں تو صرف کریلے ہی اگلتے ہیں۔اس نے غصہ سے کہا
سفوان بھائی بہت اچھے ہیں تمھیں ان سے اچھا انسان نہیں مل سکتا۔مزرنش نے سنجیدگی سے کہا
بحرحال مجھے شادی ہی نہیں کرنی ابھی نہ تمھارے پیارے بھیا سے نہ ہی کسی اور سے اور ویسے بھی میرے بابا منع کر دیں گیں دیکھ لینا۔اس نے لاپرواہی سے کہہ کر بات ہی ختم کر دی
آج ویکینڈ تھا اور سب کو معلوم بھی ہو گیا تھا سفوان کے رشتہ کا اس لیے آج سارے بڑے چھوٹے سارے کازنسز اکھٹے ہو کر اوپر ٹیریس پر موجود تھے آج امینہ اور شکیلہ پھپھو بھی آگئیں تھیں
چل یار ذوھان تمھاری کمائی کے دن اگئے۔فارس نے کہا
ہیں کیا مطلب۔اس نا سمجھیں سے کہا
ابے بھائی اب ہمارے پیارے کی شادی ہو رہی تو سب آپ کے بوتیک سے شاپنگ کریں گیں نہ ۔دیان نے کہا
کیوں بھائی اور دکانیں بند ہو گئیں ہیں جو ہم ان کے بوتیک سے لے گیں۔ ادینہ نے فورا کہا
اب جب گھر ایک بندے کا بوتیک موجود ہے تو
کیوں انسان اتنے مہنگیں کپڑے کیوں خریدیں۔عمر سدا کا کنجوس اس نے کہی تھی یہ بات
ہم کونسا آپکی جیب سے شاپنگ کرنی ہے جو آپ کہہ رہے ہیں کنجوس کہیں کہ۔ادینہ نے کہا
ہم سب مل کر کریں گیں شاپنگ بھائی کی شادی یاد گار بنائیں گیں ہم سب مل کر اجر ہ۔ارگ سب دل عزیز بھائی کی شادی ہے۔علینہ نے پر جوش ہو کر کہا
ارے بھائی آپ اتنے خاموش کیوں ہیں شرما رہیں ہیں کیا۔ امان نے کب سے خاموش بیٹھے سفوان کو شرارت سے کہا
ہوں کیا کچھ کہا تم نے۔سفوان نے خیال سے چونک کہ کہا وہ مسلسل افیرا کا رویہ سوچ سوچ کر پریشذن ہو رہا تھا
۔ کیا ہوا بھائی ابھی سے ہماری بھابھی کے خیالوں میں کھو گئیں ہیں کیا زین نے شرارت سے کہا
نہیں تو۔اس نے نفی میں پر ہلایا۔
چلیں بھائی آپکا بہت شکریہ ہاں کرنے کا اب ہمارے بھی نمبر اجائے گا۔فارس نے خوش ہو کہ کہا
ایک تو انہیں بہت جلدی ہے شادی ان کا بس چلے تو ملیحہ بھابھی کو آج ہی رخصت کرا کر لیں ائیں۔دیان نے اسے چھیڑا
ہاں تو اور شادی شدہ ہو کہ بھی کنوارے ہو کر
زندگی گزارنے کا دکھ ہم سے پوچھو کیا ہوتا ہے۔وجدان نے اہ بھر کہاجس پر سب ہنس دئیے
چلیں آپکے ۔معاملہ پر بھی غور کرتے ہیں۔زین نے کہا
انکی باتیں چلتی رہیں۔
جزلان صاحب نے کوئی جواب دینے سے پہلے گھر والوں سے انکی رائے لینے کا سوچا تھا اس لیے آج سب حال میں موجود چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔جزلان صاحب کے کہنے پر سب انکی طرف متوجہ ہوئے۔
جی بھائی صاحب بولیں۔ ریحان صاحب نے کہا
ماشاءاللہ اب بچے بڑے ہو رہے ہیں اور افیرا بھی بڑی ہو گئی ہے اس لیے ہم اسکی شادی کا سوچ رہے ہیں آپ لوک کیا کہتے ہیں۔انہوں نے بات شروع کی
یہ تو بہت اچھی بات ہے بھائی صاحب۔رحان صاحب نے مسکرا کہ کہا
ہاں افیرا بیٹی کے لیئے حمید لودھی صاحب جو کہ مشہور بزنس مین انکی بیگم نے اپنے بڑے بیٹے کے لیے رشتہ مانگا ہے۔انہوں نے تفصیل بتائی۔ انہوں نے سفوان کے بارے پتہ کرایا تھا جب انہیں معلوم ہوا کہ سفوان حمید صاحب کا بیٹا ہے۔
پھر تو بہت اچھا رشتہ ہے بھائی صاحب آپ اور میں تو ایک دو بزنس میٹنگ کے سلسلہ میں ملے بھی اور میرے بہت سے قریبی دوست بھی انکے اخلاق کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ریحان صاحب دل سے خوش تھے
ہا ٹھیک کہہ رہے ہو چلو پھر ٹھیک ہے میں افی کی راضا مندی کے بعد جواب دوں گا انہیں۔جزلان صاحب کے لیے بیٹی کی راضا مندی بہت اہم تھی
بات کرنے کے ساتھ زرا سمجھا بھی دیجئے گا یہ ہو وہ انکار کر دے اور کچھ نہ ابھی اسے کونسے
ی سمجھ بوجھ ہے ان باتوں کی۔حنا بیگم نے کہا
اچھا ٹھیک ہے
اسکے بعد جزلان صاحب افیرا سے بات کرنے اس کے کمرے کی طرف آئے اور دستک دی
ارے بابا اپ فرست مل گئی اپکو اپنی بیٹی سے ملنے کی آج کل تو آپ کچھ زیادہ ہی بزی ہو گءے ہیں اور ہماری ملاقات بھی صرف ناشتہ پر ہوتی ہے۔اس نے انکے گلے لگ کہ شکوہ کیا
ارے میں اپنی جان کو بھلا بھول سکتا بس آج کل ایک امپورٹینٹ پروجیکٹ پر کام چل رہا تھا تو بزی تھا اور میں آپ سے مل نے آتا تھا تو آپ سوئی ہوتی تھیں۔انہوں نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا
ہاں لاسٹ سمسٹر کی پڑھائی سٹارٹ ہو گئی ہے اس لیے تھک بھی جاتی اور جلدی اٹھنا بھی ہوتا یے۔اس نے تفصیل بتائی
اللہ میری بیٹی کو کامیاب کرے۔انہوں نے دل سے دعا کی
بیٹا میں آپ سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔انہوں نے بات کا آغاز کیا
جی بابا بولیں
بیٹا اب آپ بڑی ہو گئی ہیں اور ہم چاہتے ہیں آپ جلد از جلد اپنے گھر کی ہو جاؤ ۔انہوں نے کہا
کیا بات ہے بابا کھول کہ کہیں۔وہ جانتی تھی کیا بات کرنی ہے پھر بھی نہیں کہا
بیٹا آپکے لیے رشتہ آیا ہے اور ہمیں پسند بھی ہے آپکے فرینڈز سعد امان کے بڑے بابا کے بیٹے کا۔انہوں نے ساری بات بتائی
پر بابا میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی اور ویسے بھی ابھی میری سٹڈیز کمپلیٹ نہیں ہوئی۔اس نے اصل وجہ نہیں بتائی پر انکار ضرور کیا
بیٹا سٹڈی تو آپ بعد میں بھی کمپلیٹ کر سکتی اور میں چاہتا ہوں اپنی زندگی میں ہی اپنے بچوں کی خوشیاں دیکھ لوں زندگی کا کیا پتا۔انکی آخری بات پر افیرا تڑپ گئی
بابا ایسا کیوں کہہ رہیں آپ اللہ اپکو میری بھی عمر لگا دے آئیندہ مت بولنا آپ یہ اور ویسے بھی میں آپسے دور نہیں جانا چاہتی۔اس نے کہا
میری جان خؤش نصیب ہوتے ہیں وہ ماں باپ جو اپنی زندگی میں ہی اپنی اولادوں کی خوشیاں دیکھ لیتے ہیں اور رہی بات دور جانے کی تو کبھی ہم آپ سے اور آپ ہم سے ملنے اجایا کرنا۔انہوں اسے پیار سے سمجھایا۔
آپ تو پورا آگے پروگرام سیٹ کرکہ بیٹھیں ہیں مجھ سے پوچھ کر کیا صرف فورمیلٹی نبھا رہے ہیں۔ذس منہ بنا کہ کہا
نہیں میری جان میں آپکی راضا مندی کے بنا کچھ نیجںکروں گا لیکن انکار کا بھی کوئی ریزن ہونا چاہئے جو ہمیں نہیں ملا
ٹھیک ہے بابا میں سوچ کہ جواب دوں گی ۔
یہی ٹھیک موقع ہے سفوان لودھی کو بتانے کا کہ افیرا ملک کیا زندگی پریشان کر کہ رکھ دوں سو مسٹر سفوان بی ریڈی۔
اس کے چند دن بعد ہی ناہید بیگم کو مثبت جواب دے دیا گیا تھا جس کے بعد گھر کی بڑوں نے مل لاسٹ سمسٹر کے بعد کی ڈیٹ فکس کر دی تھی اور چھوٹوں کی تو جوشی کا ٹھکانا ہی نہیں تھا اخدمر انکے سب پیارے بھائی کی شادی تھی.
**********************
جاری ہے



CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING

Comments