"ہم نے چاہا ہے تمھیں قلب سے"
از "حورین خان"
پارٹ 3
دن
تیزی سے گزر رہے تھے دونوں گھروں میں شادی کی تیاریاں شروع کردیں گئیں تھیں ہر
کوئی بہت آکسائیڈ تھا سب مل کر کوئی نہ کوئی کام اپنے ذمہ لے لیتے اور اس دوران ان
کا لاسٹ سمسٹر بھی آگیا تھا اس لیے وہ پیپرز میں مصروف ہوگئے تھے ویسے بھی پیپرز
کے ایک ہفتہ بعد کی ڈیٹ فکس کی گئی تھی۔اج افیرا کا سکینڈ لاسٹ پیپر تھا اس لیے سب
پیپر دے کر ریسٹورینٹ لنچ کرنے چلے گئے تھے جہاں سفوان کو بھی انہوں خاموشی
سےبلالیا تھا نہ سفوان کو افیرا کی موجودگی کا علم تھا نہ افیرا کو سفوان کے آنے
کا پتا یہ ساری پیلینگ ان سب کی تھی کیوں نکہ ابھی تک ان دونوں کی کوئی ملاقات
نہیں ہوئی تھی۔ آج سفوان فری بھی تھا سو اگیا
کہاں
ہو تم لوگ میں گیٹ پر ہوں
۔اس
نے اندر آکے نظریں دوڑائیں جب اسے کوئی نہیں نظر نہیں آیا تو اس نے امان کو میسج
کیا۔جس پر اس نے گیٹ کی طرف مڑتے ہوئے اسے ہاتھ ہلایا تو وہ انکی ٹیبل کی طرف چل
دیا
اسلام و علیکم پیارے بچوں۔اس نے قریب اکر سلام کیا
افیرا کی اسکی طرف پشت تھی
وعلیکم السلام سفوان بھائی۔سب نے ایک ساتھ جواب دیا
آئیں بیٹھیں بھائی۔شایان جو کہ افیرا کے برابر والی
چئیر پر تھا فورا اٹھ گیا تاکہ وہ بیٹھ جائے
کیسے ہو آپ سب۔اس نے بیٹھ کہ کہا اور برابر بیٹھی افیرا
گڑبڑا گئی جبکہ ابھی بھی سفوان کا افیرا کی طرف دھیان نہیں گیا تھا
ہم ٹھیک ہیں آپ سنائیں آپکے تو آزادی کے دن بھی ختم
ہونے والے۔زرنش نے شرارت سے
الحمدللہ ابھی تک تو ٹھیک ہوں آگے کی کیا خبر ویسے آج
کیسے بلالیا۔اس نے پوچھا کیوں نکہ وہ ان لوگوں ساتھ کبھی نہ گیا تھا
آج ہم نے سوچا دیکھ لیں ہونے والے دولہا دولہن ایک
دیکھتے کیسے ہیں۔سعد نے شرارت سے کہا جس پر ناسمجھی میں اس نے اپنے برابر میں
افیرا کو دیکھا جو سعد کو گھور رہی تھی
ڈارک
بلیو لانگ شرٹ بالوں کی پونی ٹیل بنائے ہو سائیڈ پر دوپٹہ ڈالے اور سفوان لائٹ
بلیو کرتا اس پر گھر دار شلوار بائیں کلائی میں گھڑی ایک ہاتھ میں موبائل۔دونوں ہی
بہت پیارے لگ رہے تھے۔
اچھا جی دیکھ لیا کیسی پھر ہماری جوڑی۔ااس نے مسکرا کہ
کہا جبکہ سب نے اسے حیرت سے دیکھا
ارے کیا ہوا میں کوئی بات کر دی کیا۔اس نے سب کی حیران
شکل دیکھ کر کہا
نہ نہیں بھائی you
really made for each other and couple look very nice.ماہین
نے کہا
سفوان نے یہ اللہ کی راضا سمجھ کہ فیصلہ قبول کر لیا
تھا
اچھا اب کچھ کھلا بھی دو یا بھوکے مارو گے مجھے۔اس نے
معصوم شکل بنا کہ کہا
جی جی بھائی میں آرڈر دے دیا ہے۔امان نے کہا
ویسے بھائی اپکو ہماری افیرا کیسی لگتی ہے۔ ماہین نے
دلچسپی پوچھا
میں نے کبھی آپکی فرینڈ کو اتنی غور سے دیکھا ہی نہیں
اچھی ہی ہوں گیں یقینن۔اس نے صاف گوئی سے کہا
تو اب دیکھ لیں بلکل قریب سے۔ زرنش نے شرارت سے کہا
نہیں ہم اکٹھا ہی دیکھیں گیں ویسے بھی میں انہیں آنکھ
بھر کہ دیکھنا کا حق نہیں رکھتا۔اس نے مسکرا کے جواب دیا
بھائی آپکی تو باتیں ہی الگ ہیں۔سعد نے سر ہلا کہ کہا
مجھے گھر بھی جانا ہے آرڈر آرہا ہے یا میں چلی
جاوں۔افیرا نے اکتا کہ کہا اسے ان باتوں سے زرا بھی دلچسپی نہیں تھی
کیا ہوا افی یار ناراض کیوں ہو رہی ہو۔زرنش نے کہا
نہیں یار وہ ماما کو آج شاپنگ پر جانا تھا تو مجھے بھی
جانے کا کہا تھا اس لیے کافی لیٹ بھی ہو گیا ہو گا ماما ویٹ کر رہی ہوں گیں۔اس نے
بات ہی بدل دی
اچھا یار چلی جانا ابھی تھوڑا ویٹ کر لو۔امان نے کہا اس
لیے وہ چپ ہو کر موبائل میں لگ گئی
یار آپ دونوں کو ویڈنگ گفٹ کیا چاہیئے۔ماہین اور زرنش
نے کہا
اپ لوگوں کی دعائیں۔اس نے مختصر سا جواب دے دیا۔
پھر دو چار باتوں کے بعد کھانا آگیا اور پھر سب اپنے
گھر کی طرف نکل گئے
افیرا جب گھر آئی تو ناہید بیگم آئیں ہوئیں تھی
سارہ بیگم اور شمائلہ بیگم کے ہمراہ کیوں کہ ہر فنکشن الگ تھا اس لیے سب کے جوڑے
کے کہ آئی تھیں وہ
اسلام و علیکم۔اس نے سب بڑوں کو سلام کیا
وعلیکم السلام کیسی ہو میری جان ادھر آؤں میرے
پاس۔ناہید بیگم نے محبت سے کہہ کہ اسے اپنے پاس بیٹھا لیا
میں ٹھیک ہوں اور آپ لوگ کیسے ہیں۔اس نے مسکرا کہ کہا
اسے اور کسی اور سے نہیں بس سفوان سے ہی اللہ واسطے کا بیر تھا
اچھا بیٹا آپ تھک ہو گئی ایسا کرو آپ جا کہ آرام
کرو۔ناہید بیگم نے کہا
جی اور ماما مجھے ایک گلاس جوس بیھجوا دیں۔اس نے اٹھ کہ
حنا بیگم کو کہا اور اپنے کمرے کی طرف چلی گئی
جیسے جیسے شادی کے دن قریب ارہے تھے سب اداس ہو رہے تھے
آج صبح بھی سب اداس ہی تھے جب خرم نے افیرا کو چھیڑا
بڑی ماما ایک بات بتائیں اس کی ساس کی آنکھیں ٹھیک نہیں
ہیں کیا جو اس چڑیل کو بہو بنانے کا سوچا انہیں کیا اپنے بیٹے سے محبت نہیں ہے۔اس
نے مسکراہٹ دبا کر سنجیدگی سے کہا
تم سے لاکھ گنا اچھی ہوں اور تم کیوں جل رہے ہو تم کہو
تو تمھاری بھی کر وادیتے ہیں۔افیرا نے منہ بنا کہ کہا
ارے واہ نیکی اور پوچھ پوچھ میں شروع سے نہ کہتا تھا تم
میری سچی بہن کتنی فکر ہے نہ تمھیں میری۔خرم نے ایک دم خوش ہو کہ کہا
توبہ ہے تم سے تو کتنی جلدی پلٹ جاتے ہو ابھی تو مجھے
چڑیل کہہ رہے اب میں پیاری بہن ہو گئی۔اس نے منہ بنا کہ کہا
ارے میں تو مذاق کر رہا تھا بھلا میں تمھیں کچھ کہ سکتا
ہوں میں بس تنگ کر رہا تھا پھر کہا موقع ملنا اگر میں نے تمھیں شادی کے بعد تنگ
کیا تو تم نے سفوان بھائی سے کہہ دینا ہے اور انہوں نے میری درگد بنا دینی ہے اور
پھر میں ابھی تو میری شادی بھی نہیں ہوئی۔اس نے ڈرنے کی ایکٹنگ کر تے ہوئے کہا جس
پر افیرا ہنس دیں
ایسی ہی خوش رہو پتا تمھارے ساتھ یہ ہنسی مذاق بہت یاد
آئے گا ہم سب بھائیوں اور بہن کا پچپن ایک دوسرے کو تنگ کرنا۔اس نے اداس ہو کہ کہا
میں کونسا امریکہ جا رہی ہوں جو تمھیں دوبارہ تنگ نہیں
کروں گیں۔اس نے ائبرو سکڑ کہ کہا
لڑکی شادی کے تو ادھر جانا خدا کے لیے کہیں ایسا نہ
شادی کہ سفوان بھائی کہیں کو بھئی رکھو اپنی بیٹی مجھے نہیں چاہیے۔اس نے ہاتھ جوڑ
کہ کہا
تم فکر مت کرو میری۔
آج نکاح کی تقریب تھی جس کی ڈیکوریشن لان میں کرائی گئی
تھی آج صبح سے ہی جزلان صاحب بہت اداس تھے انکی روح حصہ ان سے دور جا رہا تھا یہی
حال حنا بیگم کا تھا بظاہر تو انہوں اپنے اپکو نارمل رکھا ہوا تھا لیکن انہیں آج
انہیں بھی کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا ابھی وہ دونوں ابھی کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے
کیا ہوا خزلان صاحب آج بہت خاموش ہیں۔حنا نے انکے کندھے
پر ہاتھ رکھ کہا
حنا پتا ہے ہماری کوئی بہن نہیں تھی ابو کی ہمیشہ سے
خواہش تھی کہ کوئی بیٹی ہو لیکن اللہ نے نہیں دی ہمیں بھی بہن کی بہت خواہش تھی پر
اللہ کی مرضی لیکن اللہ سے میں روز دعا کرتا تھا یا اللہ مجھے بیٹی جیسی رحمت سے
ضرور دے اور اس نے میری سنی اور اپنی رحمت سے نوازہ پتا ہے جب افی میرے ان ہاتھوں
میں آئی تو میرا دل چاہا اسے ساری دنیا سے چھپا لوں۔لیکن وقت اتنی جلدی گزر اور اب
میری بیٹی مجھ سے دور جا رہی ہے۔انہوں نے نم لہجے میں کہا
خود کو سنبھالیں جزلان صاحب ہماری بیٹی تو بہت خوش نصیب
ہے جسے گھر میں بھی سب کا پیار ملا۔ہے اور سسرال بھی اتنا محبت کرنے والا مل رہا
ہے۔اپ بس اسکی خوشیوں کی دعائیں مانگیں کہ وہ ہمیشہ اپنے گھر میں شادو آباد رہے
ہماری بیٹی کو کوئی غم نا ستائے۔انہوں نے بھی نم لہجے میں کہا
آمین
جنت
پیلس" میں خوشیاں ہی خوشیاں رکساں کر رہی تھیں ہر کوئی رات کے فنکشن کے لیے
تیاری میں مصروف تھا
آج
تمام لڑکا پارٹی نے کپڑے تقریباً ایک جیسے سوٹ بنوائے تھے سوائے دلہا کو چھوڑ کہ
سارے لڑکوں نے آج کے لیے سی گرین کرتے سفید چوڑی دار بجامہ بنایا تھا جبکہ لڑکیوں
نے لائٹ مختلف کلر پر گولڈن غرارے بنائے
سبھی
آج محفل میں چار چاند لگانے کے لیے تیار تھے جبکہ بڑوں کی تیاری بھی کم نہیں تھی
سب ماشاءاللہ سے نظر لگ جانے کی حد تک پیارے لگ رہے تھے
ابھی
ملیحہ کسی کام سے جا رہی تھی کوئی نے اسکو کھینچ کمرے میں لے آیا اس نے سر کہ اک
دم آنکھیں بند کر لیں
ہائے کیا غضب ڈھا رہی ہو مجھے جان بحق کرنے کا ارادہ ہے
جان فارس۔فارس کی آواز پر اس نے آنکھیں کھولیں
اپ ہیں ڈرا دیا مجھے میں سمجھیں پتا نہیں کس مجھے
کھینچا اور چھوڑیں مجھے۔یہ کہ کر ملیحہ نے اپنے سے اس کے بازو ہٹانے چاہے۔
چھوڑنے کے لیے تھوڑی نہ پکڑا ہے آج قسم اتنی حسین لگ
رہی ہو میرا دل بے ایمان ہو رہا ہے ماما سے کیا میں ڈائرکٹ پھوپھو سے بات کر کہ
تمھاری رخصتی کر واپس لیتا ہوں۔فارس سدا کا رومینٹک تھا اور یہ بات ملیحہ اچھے سے
جان چکی تھی
شرم آتی ہے اپکو کوئی ایسی باتیں کرتا ہے لڑکی سے۔اس نے
حیا سے سر جھکا کہ کہا
یہ ہماری بیوی ہے جب چاہوں جیسے چاہوں بات کہہ بھی اور
کچھ کر بھی سکتا ہوں پرمیننٹ سرٹیفکیٹ ہے میرے پاس۔اس نے یہ کہہ کہ اس ماتھے پر
بوسہ دیا
فارس چھوڑیں مجھے دیکھیں کوئی آجائے گا اور چوٹی مومانی
نے مجھے سفوان بھائی کو دیکھ کہ آنے کا کہا تھا کہ وہ اب تیار ہوئے یا نہیں۔اس نے
رومی صورت بنا کہ کہا
یار کبھی مجھے بھی دیکھ لیا ہر وقت سب کی بات سننے اور
کام میں لگے رہنا جسکا کہنا سننا فرض ہے اسکی سنتی نہیں ہو بس نخرے اور لڑائی کر
لو بس۔اس نے اسے چھوڑ کہ منہ بنا کر کہا
اچھا میں لڑائی آپ تو جیسے مجھ پر پھولوں کی بارش کرتے
ہیں نہ لڑائی ہمیشہ آپکی وجہ سے آپ کوئی نہ کوئی ایسی بات کرتے ہیں جس سے لڑائی ہو
انہو۔اس نے غصہ سے منہ پھیر کر کہا
اچھا نا یار سوری آج تو غصہ نہ ہو ویسے ہی اتنی پیاری
لگ رہی ہو اوپر میرے ساتھ ہو سوچ لو۔اس کے گرد بازو کا گھیربنا کہ اس نے شرارت سے
کہا
اچھا نہیں ہو رہی غصہ اب چلیں ہمیں نکلنا بھی ہے۔اس نے
جلدی سے مان کہ کہا فارس کا کیا پتا کوئی حرکت دیکھا دے بدتمیز
اچھا چلو۔پھر وہ دونوں باہر نکل گئے۔
ناہید بیگم سفوان کے کمرے داخل ہوئیں آج انکی خوشی کی
بھی حد نہیں تھی سفوان نے آج آج وائٹ کرتا اور گھیر دار شلوار اور گولڈن واسکٹ
بائیں کلائی گھڑی بال اچھی طرح سیٹ کیے اپنی پوری مردانہ وجاہت کے ساتھ بہت پیارا
لگ رہا تھا
ماشاءاللہ میرا شہزادہ کتنا پیارا لگ رہا ہے۔ انہوں نے
محبت سے اسکی بلائیں لیں
میری پیاری ماما بھی بہت حسین لگ رہی ہیں۔اس نے انہیں
ساتھ لگا کہ کہا
بیٹا دیکھو اب تمھاری زندگی بدلنے والی ہے اس رشتے میں
سب سے اہم بھروسہ جو کہ آپ دونوں کو رکھنا ہے ہمیشہ اور کچھ باتیں اگنور بھی کرنی
پڑیں گیں اور برداشت بھی۔اپ دونوں کو ایک دوسرے کو سمجھ کر چلو گے تو کبھی اس رشتہ
میں بدگمانی پیدا نہیں ہوگیں اور وہ اگر تھوڑی ضدی ہیں تو آپ انہیں اپنا بنانا
ناکہ انکو کسی بات کو لے کہ طنز کرنا اور مجھے پورا بھروسہ ہے اپنے بیٹے پر کے
جتنا وہ ابھی اچھی طرح رشتوں کو سنبھالتا ہے ویسے ہی اپنی ازدواجی زندگی کو بہترین
طریقے سے لے کہ چلے گا۔انہوں اسے سمجھایا
ماما آپ دعا کرنا ہمارے لیے ہمیشہ اور میں بھی کوشش
کروں گا کہ نہ انہیں کوئی شکایت ہو نہ میں کبھی آپکی تربیت پر آنچ آنے دوں۔اس نے
ماتھے پر بوسہ دے کہا
مجھے یقین میرا بچہ میری تربیت پر آنچ نہیں آنے دے
گا۔اچھا اب چلیں اب تیار ہیں۔انہوں نے بھی اسکے ماتھے پر بوسہ دیا
جی چلیں۔کہہ کر نیچے اگئے۔
لون کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا یہاں بھی سارے
تیاری میں آخر انکی بھی اکلوتی بہن کی شادی تھی کسی بات میں کمی نہیں رکھنا چاہتے
تھے ریڈ اور گولڈن کلر کے برقی قمقموں سے بہت نفاست سے سجایا گیا لوگوں کے بیٹھنے
کے لیے ٹیبل اور چیئرز لگائیں گئی تھیں اور جہاں نکاح کے بعد بیٹھنے کے لیے ایک
ڈبل صوفہ اور سائیڈ پر سنگل صوفے رکھے گئے تھے جو بہت پیارے تھے۔خوشی کے ساتھ سب
ہی کے دل اداس تھے سب کو افیرا کے ساتھ گزرا بچپن یاد آرہا تھا۔ ساری تیاریاں مکمل
ہو چکی تھیں اب بس لڑکے والوں کا انتظار تھا انکے ویلکم کی بھی تیاری ہو چکی تھیں۔
عمان،خرم،ولید اور ضامن نے اپنے لیے اج کے لیے لائٹ
پرپل کی کمیز اور سفید گھیردار شلوار بنوائی تھی اور حنا اور ندا بیگم نے آج کے
لیے سادے سوٹ ہی بنائے تھے اور عنایہ نے اج مہرون کلر کی لانگ شرٹ اور گولڈن چوڑی
دار پاجامہ بنا تھا وہ بھی ہمان کے دل کے تار چھیڑ رہی تھی۔اور ہمان نے بھی آج
مہرون کرتا اور سفید گھیردار شلوار پہنی تھی دونوں ماشاءاللہ سے بہت پیارے لگ رہے
تھے۔زرنش اج افیرا کے پاس دوپہر میں آگئی تھی کیوں نکاح اثر اور مغرب کے درمیان
رکھا گیا تھا ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ماہین اور زینینا ائیں تھیں اور افیرا کے پاس
موجود تھیں
افیرا نے آج لائٹ گولڈن گھیر دار فراک پر چوڑی دار
پاجامہ تھا جس پرنگوں سے کڑائی کی گئی تھی ہاتھوں میں لال اور گولڈن سادی چوڑیاں
اہلکا سا میک اپ آگے کے بالوں اچھی طرح سیٹ کیا گیا تھا اور کھجور چوٹی بنا کہ آگے
ڈالی گئی تھی جس میں چھوٹے چھوٹے نگ لگے تھے اور جیولری کے نام پر صرف سائیڈ جھومر
اور گلے میں گولڈ کی چین جو کہ ناہید بیگم نے تحفے کہ طور پر دی تھی اور نا میں
نازک سی نتھ بہت حسین لگ رہی تھی
افیرا ماشاءاللہ سے کتنی پیاری لگ رہی آج تو سفوان بھائی
گئے کام سے ہائے ہمارے سیدھے بھائی گھائل ہی نا ہو جائیں۔زرنش نے افیرا کو دیکھ کے
شرارت سے کہا
تم بھی کم نہیں لگ رہیں کیا خیال ہے دیورانی بنالوں
اپنی۔افیرا بھی کہا کم تھی فورا بولی
لڑکی شرم کرو کچھ آج نکاح تمھارا چھیڑ مجھے رہی ہو۔اس
نے منہ کہ کہا
ویسے افی ماہین بھی غذب ڈھا رہی ہے کہیں ایسا نہ سعد دل
کے ہاتھوں مجبور ہو کہ اج اپنا بھی کام پککا کر لے۔زرنش باز آنے والوں میں سے نہیں
بس تمھیں یہی باتیں کرا لو امان پر دھیان دو تم صرف آئی
بڑی۔ماہین نے اس کے کندھے پر دھپ رسید کی
ہائے شرماؤ نہیں میری جان۔افیرا نے کہا
چلو بھئی لڑکے والے آگئیں ہیں بس تھوڑی ہی دیر میں نکاح
والا ہے۔عنایہ نے آکر کہا
بھابھی ماما اور بابا کو بھیج دیں میرے پاس۔اس نے کہا
اچھا گڑیا میں ابھی بھیجتی ہوں۔اس نے کہہ اور چلی گئی
مولوی صاحب سفوان کے ایجاب و قبول کے بعد افیرا کے پاس
آئے اور نکاح کہ کلمات ادا کرنا شروع کیے
افیرا ملک بنت جزلان ملک کیا اپکو 50000 ہزار حق مہر
موجد اور غیر موجد سکہ رائج الوقت کیا اپکو یہ نکاح قبول ہے۔اس الفاظ کو سن ایک پل
کو وہ تھم گئی اسکے سامنے ایک ایک لمحئہ زندگی گزرا ایک ہاتھ جزلان صاحب نے اور
ایک حنا بیگم نے پکڑا تھا دونوں نے اسکا ہاتھ دبایا
جی قبول ہے قبول ہے قبول ہے۔کہتے ہوئے لہجہ نم تھا اسکے
بعد سائین کیے۔
میری جان اللہ تمھیں ساری خوشیاں عطا کرے تمھیں سسرال
اور شوہر دونوں کی محبت عطا کرے۔حنا اور جزلان نے اسے لگیا تو آنکھیں بھر آئیں
یہ لمحہ ہی ایسا ہوتا ہے مضبوط سے مضبوط ماں باپ کمزور
پڑ جاتے ہیں۔
سب ایک کر کہ سفوان کو مبارک بعد دے کہ گئے اور ابھی
وجدان اور فارس آئے
مبارک ہو بھئی اپکو یہ خوبصورت قید اور اللہ آپکی حفاظت
کرے افیرا سے۔وجدان نے شرارت سے
خیر مبارک
پھر افیرا کو باہر لایا گیا
جب سفوان نے افیرا کو دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا اور
یہی لمحہ تھا جب اسکے دل میں ایک پیاری کونپل پھوٹی تھی۔
کیا ہوا سفوان بھائی ہماری بہن کو نظر لگانے کا ارادہ
ہے۔ ولید جو کہ اسکے برابر میں ہی کھڑا تھا شرارت سے بولا
نہیں تو میں تو بس۔اس نے گڑبڑا کے جواب دیا
پھر افیرا کو اسکے برابر میں بیٹھایا گیا
پھر ایک دوسرے کو انگھوٹیاں پہنائی پھر ان دونوں کو پوز
بنانے کے لے گئے وہ زبردستی
بھائی کیا دور دور کھڑے ہیں آپ دونوں افیرا بھابھی آپ
ایسا کریں اپنے دونوں ہاتھ بھائی کے سینے پر رکھیں اور بھائی آپ افیرا بھابھی کے
بازو کا گھیرا بنائیں۔زین نے پوز بتا جس پر دونوں نے حیرانی سے دیکھا
دیکھ کیا رہے ہیں آپ دونوں کریں آپکی ہی بیوی ہیں یہ
اتنا شرما کیوں رہے ہیں۔سعد نے کہا
پھیر دونوں نے جھجکتے ہوئے پوز بنایا
افیرا کی نظریں نیچے تھیں جبکہ سفوان اسے ہی دیکھ رہا
تھا
بھابھی بھائی کی آنکھوں میں دیکھیں۔اس نے آہستہ سے
نظریں اٹھائیں تو سفوان کی آنکھیں مسکرا رہی تھیں
فوراً یاد لمحے کو قید کر لیا گیا
جب سب جانے لگے تو سفوان افیرا کے پاس آیا اور سرگوشی
میں کہا
اپکو زندگی کے نئے باب کی بہت بہت مبارک اور بہت خو
پیاری لگ رہی ہیں آپ۔کہہ کہ اس کے سر بوسہ دے کہ اسے سن چھوڑ کہ یہ جا وہ جا۔کس نے
سوچا سفوان اتنا رومینٹک ہوگا
یہ اس رشتے کا اثر تھا جو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی ان کے
درمیان قائم ہوا اور سفوان کو ناہید بیگم کی بات پر یقین ہو گیا تھا کہاس رشتے
محبت اپنی جگہ بہت جلدی بنا لیتی ہے
سبکے جانے کے بعد افیرا اپنے کمرے میں آگئی تھی اسکا
چہرہ ابھی تک لال ہو رہا تھا حیا سے نہیں بلکے غصہ سے اسے سفوان کی بے اختیار حرکت
پر رہ رہ غصہ آرہا تھا آج تک ماما بابا اور دونوں بھائیوں کے علاوہ کسی نے اسکے
نزدیک آنے کی جرات نہ کی یہاں تک کے خرم ولید اور ضامن کو بھی دور دور تک مزاق کی
اجازت تھی اسے سخت ناپسند تھا کسی غیر مرد کا نزدیک آنا وہ کتنی بھی اوپن مائنڈ
تھی بٹ اسے یہ حرکتیں ذہر لگتی تھیں۔لیکن وہ کائی غیر نہ تھا وہ اسکا شریک سفر
اسکا لباس تھا اسکی روح کا حصہ تھا اور اب سارے حقوق اسی کے اختیار میں تھے وہ صرف
جسم تک نہیں روح کے نزدیک رہنے کا حق حاصل کر چکا تھا پر ابھی افیرا کی عقل سے یہ
چیزیں بالا تر تھی کیوں اس کے دماغ میں کبھی ایسی باتوں نے گردش نہیں کی تھی
#::#:#:#:#:#:#؛#:#؛#+#+#++#+$++٬+٬؛#؛#؛#؛#؛#؛#؛#؛#؛
ہمت کیسے ہوئی اسکی میرے اتنے قریب آنے کی اور مجھے کیا
ہو گیا تھا آنے کیسے دیا اپنے قریب مار دیتی اک تھپڑ لگ پتا جاتا افیرا ملک کے
نزدیک آنے کی سزا کیا ہوتی ہے"۔اسکا غصہ کسی صورت کم ہو کہ نہیں دے رہا تھا
ابھی وہ اسے دو چار گالیوں سے نوازتی کہ اس کا موبائل
وائبریٹ ہوا وٹس ایپ پر زرنش نے پیک سینڈ کیں تھیں آج کے فنکشن کی سب کی انکے پورے
گروپ کی بھی تھی آخر کی دو تصویریں دیکھ کہ اسکی آنکھیں حیرت پھٹ گئیں کیوں کہ اسی
لمحے کو قید کیا گیا تھا جس کو یاد کر کہ اسے غصہ ہو رہا تھا ایک تصویر میں سفوان
اسکے کان میں مسکرا کہ سرگوشی کر رہا تھا تو دوسرے میں اسے ماتھے پر بوسہ دے رہا
تھا اس کو دیکھ کہ افیرا کا خون کھول گیا اور اسنے زرنش کو کال ملاملائی۔
یہ کیا بے ہودگی ہے زرنش۔ نے پھاڑ کھانے والے لہجے میں
کہا
کیا ہوا خیریت اتنے غصے میں کیوں ہو۔زرنش نے گھبرا کہ
پوچھا
یہ کونسی تصویویں بھیجی ہیں مجھے تم نے شرم اتی یے یا
نہیں بدتمیز۔اس نے دانت پیس کہ کہا
افی کیا ہوا ایسا کیا تھا تصویر میں جو تم ری ایکٹ کر
رہی ہو۔زرنش نے تمحل سے پوچھا
جو تم اپنے پیارے بھائی کی بے حرکتیں کیپچر کی ہیں ان
کی بات کر رہی ہوں۔اس نے دانت پیس کہ کہا
وہ بے ہودگی نہیں تھی تمھارے لیے انکا پیار تھا اور
ویسے بھی انہیں حق ہے اب۔اس نے آرام سے کہا
ہاں تم تو طرف داری کرو گی تمھارے پیارے بھائی جو ہیں
ایسے لگتے تو بلکل نہیں ہیں جیسی حرکتیں کرتے ہیں۔اس نے منہ بگاڑ کہ کہا
افی انکے لیے تم کوئی غیر نہیں ہو بیوی ہو اب انکی بہت
پاک رشتہ ہے تم لوگوں کے درمیان اب تم دونوں کا ایک دوسرے پر حق ہے میری جان اور
انہیں تم سے محبت کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔اس نے آرام سے سمجھا یا پر یہ باتیں
افیرا کی سمجھ سے باہر تھیں
اچھا مجھے بہت نیند آرہی گڈ نائیٹ۔اس نے کہہ کر کال کاٹ
دی اسکا مطلب تھا کہ وہ زرنش کے لیکچر پر بلکل نہیں سمجھنا چاہتی
#&-#-#+#+#+$+$+$+$++$+$+$+$+$؛؛$+$؛$#؛#؛؛#
اج مھندی کا فنکشن تھا جو کہ نکاح کے ایک دن بعد رکھا
گیا تھا جبکہ برات مہندی مایوں کے دو دن بعد تھی تاکہ سبکو ریسٹ بھی مل سکے اور
کام بھی آرام سے ہو جائیں۔
آج کا فنکشن بینکٹ میں رکھا گیا تھا چونکہ نکاح میں کم
افراد تھے اس لیے وہ گھر میں کیا گیا بٹ آج کے فنکشن میں جزلان صاحب اور حنا بیگم
نے اپنے جاننے والوں کو بلایا تھا اور ناہید بیگم اور حمید صاحب کی طرف سے بھی
کافی لوگوں کو آنا تھا۔اج کا فنکشن کمبائنڈ تھا۔افیرا نے اج گھر میں تیار ہونا
تھا۔ لڑکے سب تیاری میں مصروف تھے شام کو کہیں جا کہ فارغ ہوئے تھے۔
+@+#+#؛#؛#؛#؛؛#؛#؛#؛#!#!@!@!@!@!@!@!@
ابھی عنایہ تیار ہو رہی تھی جب ہمان کمرے میں داخل ہوا۔
اگئے اپ میں کب سے اپکا ویٹ کر رہی ہوں میں اپ کے کپڑے
نکال دیے ہیں جلدی سے فریش ہو کہ چینج کر لیں۔یہ کہہ کہ وہ پھر اپنی تیاری میں
نصروف ہو گئی
اور ہمان فریش ہو نے چلا گیا جب واپس ایا وہ تب بھی
شیشے کے پاس ہی کھڑی تھی وہ ایک رومینٹک قسم کا انسان تھا اہستہ اہستہ چل کہ پیچھے
سے اسے بازو کے حصار میں لے لیا
ویسے تم پہلے سے اتنی پیاری تھیں یا نئی تبدیلی کا اثر
ہے۔اس نے محبت اپنی جان عزیز بیوی کو دیکھ کہ کہا
یہ تو اپکو پتا ہوگا میں پہلے اچھی تھی یا اب۔اس نے شرم
سے لال ہو کہ کہا
ہائے دل کو تم پہلے بھی دل و جان سے عزیز تھی آج بھی یہ
دل تمھارا ہی گر ویدہ ہے۔اس نے اسکے بالوں پر بوسہ دے کہا
ہمان اب بھی ہر وقت شروع ہو جاتے ہیں اب تو سدھر جائیں
بابا بننے والے ہیں۔یہ کہتے ہوئے اسکے چہرے پر کئی رنگ تھے یہ ماں بننے کا احساس
ہی اتنا پیارا ہو تا ہے۔
کیوں بھئی اور ویسے بھی ہمارے بیبی کو بھی تو پتا چلنا
چاہیے نہ کہ بابا ماما سے کتنا پیار کرتے ہیں۔ہمان نے عنایہ کے ماتھے پر بوسہ دیا
اچھا بس باقی باتیں بعد میں کر لیجیے گا ابھی دیر ہو
رہی سب مہمان بھی آجائیں گیں۔یہ کہ وہ باہر نکل گئی
&#&#-@--@-#-#-#+#-@؛@؛@؛@؛@؛؛@@؛@--@
افیرا نے آج گرین شوٹ شرٹ پہنی تھی جس پر مختلف کلر سے
گوٹے کا کام کیا گیا تھا اس پر ملٹی کلر کا گھیر والا فلیٹر اس پر کپڑوں سے ملتے
جلتے کھوسے تھے ہینڈ میڈ جیولری تھی گا آگے سے آج کی مناسبت سے ہیر سٹائل بنا کہ
فرینچ چوٹی بنائی گئی تھی اور ہلکا سا میک اپ کیا گیا تھا وہ آج بھی بہت پیاری لگ
رہی تھی افیرا پر ٹوٹ کہ نور ایا تھا
&#-#-+@+@+#+#++#+#+#؛#؛؛#؛#؛#؛؛#؛#؛#
افی تیار ہونا تم۔عنایہ نے اندر داخل ہو کہ کہا
ماشاءاللہ افی بہت پیار لگ رہی اللہ تمھارے نصیب روشن
کرے آمین۔عنایہ نے اسے دیکھ کہ محبت سے کہا
تھینک یو بھابھی آپ بھی بہت پیاری لگ رہی ہیں بھائی کہ
پیار کا رنگ خوب آیا ہے آپ پر۔افیرا نے کان میں شرارت سے کہا
بہت شرارتی باتیں کرنی آگئی ہیں تمھیں فکر نہ کرو
تمھارا بھی ٹائیم آنے والا ہے۔اس نے ہنس کہ آنکھ ماری
جس سے اسے نکاح والے دن کا واقع یاد آگیا اور اسکا
مسکراتا چہرہ ایک دم سنجیدہ ہو گیا
اچھا ابھی لڑکے والوں کے آنے کا ٹائم ہونے والا ہے تم
لوگ اپنی تیاری پوری رکھنا آپ سب افی کی فرینڈز اور سیس ہیں اپکو ہی اسکی بہنوں کی
جگہ ساری رامے کرنی ہے اوکے۔عنایہ نے زینینا ماہین اور زرنش سے کہا
افی آؤ ہم سیلفیز لیتے ہیں۔ماہین نے کہا
پھر سب سے افی کے ساتھ سیلفی لی اور افیرا کے الگ الگ
پوز بنوائے۔
@##$$$$###_____$$$$$$$$$$$$$$$$$$__
سفوان نے آج اورنج کلر کا کرتا اور چوڑی دار پاجامہ
پہنا تھا اور گلے میں ملٹی کلر کا پٹہ بالوں کو بہت اچھی طرح سیٹ کیا گیا تھا اپنے
پرکشش شخصیت کے ساتھ بہت پیارا لگ رہا تھا نکاح کے بعد وہ افیرا کو دوبارا دیکھنے
کہ لیے بے چین تھا حالانکہ اپنی اس اچانک تبدیلی کو وہ بھی نہیں سمجھ پایا تھا جس
کو نا پسند کرتا تھا اسے چند بولوں کہ بعد دل میں جگہ حاصل ہو گئی تھی
@&@-@-@+#+#)#)#+#+#+#+
محبت تو ایسا جزبہ ہے جو نہ اجازت لیتا ہے نہ سوچنے کا
وقت بس آپکے دل میں اتر جاتا ہے اور پھر ہر لمحے نشونما پاکر عشق بن کہ اپنی جڑیں
مظبوط کر لیتا ہے چاہے تو محبوب حاصل ہو جائے یا اسکی فرقت چاہے تو دلوں کو آباد
کر دے چاہے انسان کی رگ رگ تار تار کردے۔ یہ ظالم محبت عشق
&#&#&#-#-#-#-#-#-#-#-#-#-#-@؛@@؛@؛؛#؛+#+#+#+@@@++@+#+#
سب مہندی پہنچ چکے تھے انکا ویلکم بھی بہت اچھی طرح کیا
گیا تھا۔سب مہمانوں کو سوفٹ ڈرنکس دی گئیں تھی اب رسمیں کرنے کی تیاری ہو رہی تھی
سفوان سے تو جیسے انتظار کرنا مشکل ہو رہا تھا
کیا ہوا بھائی آپ ٹھیک تو ہیں نہ کسے ڈھونڈ رہے ہیں۔پاس
بیٹھے دیان نے کہا
نہیں کچھ نہیں یہ رسم کب سٹارٹ ہوں گیں ویسے ہی اتنی
دیر ہو رہی ہے۔اس نے سرسری انداز میں کہا
اچھا جی تو بھائی کو بھابھی کو دیکھنے کی بے تابیاں ہے
ابھی بڑی ماما سے کہتا ہوں جلدی بلائیں ورنہ ہمارے بھائی انتظار میں مزید ہلکان ہو
جائیں گیں۔اس نے شرارت سے
ایک تو تم بولتے بہت ہو فضول باتیں کرالو پڑھائی میں
دھیان دو تم اپنی۔ سفوان نے گھور کہ کہا
ارے بھائی شرمائے مت بھائی سے کیا پردہ اور ویسے بھی
آپکی وائف ہیں غیر تھوڑی ہیں جن کو دیکھنے کےبے تاب نہ ہوا جایا۔دیان صاحب شاید
پٹنذ چاہ رہے تھے۔
اگر آپکی مزید زبان چلی نہ میں آپکی یہی پٹائی کروں
گا۔سفوان نے گھور کہ
اچھا اچھا سوری۔میں ابھی بڑی ماما سے پوچھتا ہوں رسم کب
شروع ہوگی۔کہ اٹھ گیا
تھوڑی دیر بعد افیرا کو لایا گیا جیسی اسکی نگاہ اٹھی
شکل لٹک گئی کیوں نکہ افیرا کا گھونگھٹ کیا ہوا تھا افیرا کو لا کہ اسکے برابر میں
لایا گیا اور مہندی اور ابٹن لگانے کی رسم شروع کی گئی سارے بڑوں نے رسم کی اور
ساتھ میں انہیں ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کہ دل سے دعائیں دیں۔اب باری تھی ینگ
پارٹی کی۔
چلیں بھیا منہ کھولیں اااا۔سعد نے پورا بیسن کا لڈو
اٹھا کہ اس کے منہ کی طرف لایا
دماغ خراب ہے کیا میں شکل سے تمھیں حیوان لگتا ہوں کیا
جو اتنا بڑا لڈو کھا لو ایک ساتھ۔اس ہلکے غصے سے کہا
سوچ لیں بھائی کل والا سین تصویریں۔سعد نے اسے بلیک میل
کیا تصویریں سعد اور زرنش کے پاس تھیں بس
تمھارا میرے ہاتھوں قتل ہو جائے اگر تم کچھ الٹا کیا
تو۔سفوان نے چباچبا کہ کہا
کھائیں بھائی پھر ہم نے افیرا بھابھی کا دیدار کرانے کا
سوچا تھا۔بلال نے شرارت سے کہا
پھر ناچار اسے کھانا پڑا تاکہ افیرا کو دیکھ سکے اسکے
بعد زرنش نے انگلی پکڑائی کی رسم کی
سفی بھائی میں 20000 ہزار ایک روپیہ کم نہیں لونگی چلیں
جلدی سے دیں اور اپنی انگلی آزاد کرائیں۔زرنش نے مزے سے کہا زینینا اور ماہین بھی
موجود تھیں
بھائی کوئی ضرورت نہیں ہے اسے کچھ دینے کی ماشاءاللہ سے
اللہ دیا سب ہے اس کے پاس۔سعد نے بیچ میں کہا
تم اپنی زبان بند رکھو ہم سفوان بھائی سے پیسے مانگ
رہیں تم کنگلوں سے نہیں مانگ رہے آئے بڑے۔یہ عزت افزائی ماہین کی طرف سے سعد کو
ملی تھی
تم بھی غداروں میں مل گئی ہو تنہا کر دیا تم نے
مجھے۔سعد چار کے سامنے بھی باز نہ آیا ماہین نے چپ رہنے میں افیت جانی
بھائی اگر آپ ہماری افی کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اتنی سی
قربانی نہیں دے سکتے وہ تو آج لگ بھی بڑی کمال رہی ہے۔زرنش شرارت سے اسے چھیڑا جس
پر اسنے اسے پیسے دے دیئے۔
بھائی آپ بھی پرائے ہو گئے بھائی بھائی نہ رہا افیرا کا
دیوانہ ہو گیا۔دیان نے نقلی آنسو بہا کہ کہا
پھر افیرا کا گھونگھٹ اٹھایا گیا اور سفوان کی تو نظریں
اس پر ٹک سی گئیں۔
اہم اہم بھائی واپس آجائیں اب اپکی ہی ہیں بعد میں بھی
بھر کہ دیکھ لی جیئے گا۔دیان نے گلا کھنکھار کے کہا تو سفوان کے چونکنے پہ سب کا
قہقہے گونجے۔
آج بھی انکے پوز بنوائے گئے جو کہ سفوان نے بڑی خوشدلی
سے بن وائے
کل برات تھی اور افیرا کو اپنے پیارے گھر سدھار جانا تھا
آج سب افیرا کا دن سپیشل بنانے کی کوشش کر رہے تھے آج حنا بیگم نے ساری اسکی
فیوریٹ ڈیشز بنائی تھیں آج جزلان صاحب بھی گھر میں تھے آج کا دن وہ مکمل طور پر
افیرا کے ساتھ گزارنا چاہتے تھے۔ابھی سب ڈائنگ ٹیبل پر لنچ کر رہے تھے
-@-@-##-#-#-#-#-+@+@+@؛@؛@؛@؛@؛@@؛
افی اپکو کیا گفٹ چاہیے ہم بھائیوں سے۔ولید نے پوچھا
ولید ضامن بہت کم بولتے تھے اور افیرا کو ہمیشہ آپ کہہ کر ہی مخاطب کرتے تھے
حالانکہ افیرا ان دونوں سے دو سال چھوٹی تھی
جو میرے بھائی اپنی پوکٹ منی سے دیں گیں وہ۔افی نے پیار
سے کہا
شرم کرو ایک تو انکی پوکٹ منی ہے ہی کتنی جو تم وہ بھی
ہڑپنا چاہتی ہو۔یہ خرم بھائی تھے جو کہ افیرا کو چھڑانے سے کہیں باز نا آتے تھے
تمھارا منہ کبھی بند نہیں رہ سکتا اور تمھیں کیا ہے وہ
تمھاری پوکٹ منی سے کچھ دے رہے سمجھے بہتر ہے اپنا منہ بند رکھو اننہو آیا
بڑا۔افیرا نے تپ کہ کہا
اللہ اللہ لڑکی کتنی زبان چل رہی اللہ رحم کرے سفوان
بھائی پر جو بیچارے روز اسکی زبان کے جوہر دیکھیں گیں۔خرم نے کانوں کو ہاتھ لگا کہ
کہا
وہ تو میری زبان کے جوہر بعد میں دیکھیں گیں کہیں ایسا
نہ ہو تم میرے ابھی ہاتھوں کے جوہر دیکھو اس لیے بہتر ہوگا اپنے منہ پر تالا مار
کہ بیٹھ جاو۔ افیرا نے لٹ مار جواب دیا
اچھا یہ اپنے گھر جائے تاکہ ہم بیچاروں کی بھی کوئی
اہمیت ملے اور ہم ایش سے رہیں جان چھوٹے گی اس چڑیل سے۔عمان نے بھی اسکو چڑانے کے
لیے خرم کے ہاتھ پر ہاتھ مار کہ کہا
بھائی آپ بھی اس خرم کے ساتھ مل گئے جائیں میں آپ سے
بات نہیں کر رہی اور میں آؤں گی بھی نہیں۔افیرا نےمنہ پھلا کہ کہا
کھاؤ قسم سچ میں نہیں آؤں ہائے کتنا سکون ہوگا نہ نا
کوئی لڑنے والا نہ فضول پخ پخ بولنے والا۔خرم نے مزے سے کہا
بہت ہی کوئی ذلیل قسم کے انسان ہو تم تمھیں کیا آگ میں
آؤں یا نہیں میرا گھر جب چاہوں آؤں جب چاہے جاوں۔اس نے غصے سے کہا
انکی نوجھوک جاری تھی
#°٬+$)&$)&$+&$)$$(-$(-$(-$(-_-$-_
افیرا رات میں سونے کو لیے جا ہی رہی تھی جب جزلان اور
حنا ائے کل انکی لاڈلی بیٹی کو اپنے گھر چلے جانا تھا جہاں اسکی نئی زندگی شروع
ہونی تھی اور نئی دنیا بھی اور ہونی تھی
@#$$&&&&------+--&__#@#$___&&&&&&&&
افی بیٹا ہم اجائیں۔دونوں نے مسکرا کہ کہا
ارے ماما بابا اپکو کب سے اپنی پرنسس کے کمرے آنے کی
اجازت پڑھ گئی اب میں اتنی بھی پرائی نہیں ہوئی۔وہ اٹھ کے دونوں کے پاس آ گئی
ہمیں پتا ہمارا بچہ کبھی پرایا نہیں ہوگا اور کیسی ہو
میری جان۔جزلان صاحب نے اسے گلے لگا کہ کہا
بیٹا دیکھو اب آپ اپنے گھر جا رہی ہو جہاں اپکو رہنا جو
آپکا اصل گھر ہم چاہتے ہماری بیٹی اپنی سمجھداری انہیں اپنا بنائے اور جتنا وہ ہم
سے پیار کرتی ہے انہیں بھی اتنی اہمیت دے۔حنا نے اسکے سر پر بوسہ دے کہا
ماما یار چھوڑیں ان باتوں کو جب وہاں جاؤں گیں جب دیکھا
جائے گا۔اسے یہ موضوع اچھا نہیں لگ رہا تھا
یہی باتیں اب تمھاری زندگی کا حصہ ہیں میں باتوں کو
سنجیدگی سے سمجھ لو مجھے کوئی شکایت کا موقع نہیں ملنا چاہیے ہم ماں باپ تمھارے
لاڈ اٹھا لیے وہ گھر اب اصل گھر وہاں سبکو اپنا سمجھو گی تبھی ان سے بدلے میں محبت
اور عزت کی امید رکھنا جر غیر سمجھداری تمھاری یہاں ہے وہاں نہ ہو سمجھ لو ایک
بات۔اب کی حنا بیگم نے تھوڑے سخت لہجے میں کہا کیوں انہیں اپنی بیٹی عقل کا اچھی
طرح اندازہ تھا
دیکھا بابا آپ نے ماما کیسے ڈانٹ رہی ہیں۔انہوں نے تو
مجھے ابھی سے ہرایا کر دیا جب میں یہاں سے چلی جاؤں گیں تو ماما تو مجھے آنے ہی
نہیں دیں گیں۔افیرا نے جزلان صاحب کے گلے لگ کہ کہا
حنا کیا ہو گیا اپکو بچی ہے جب اس ماحول میں جائے گی تو
خد ایڈجسٹ ہو جائے گی آپ غصہ تو نہ کریں ہماری پرنسس پر اور افی جان ماما بھی بلکل
ٹھیک کہ رہی ہیں کہ اب اپکو وہیں اپنی ساری لائف گزارنی ہے اور میری بیٹی تو بہت
سمجھدار ہے اپنے ماما بابا کبھی شرمندہ نہیں کرے گی۔جزلان صاحب نے اسکی سائیڈ بھی
لے لی اور سمجھا بھی دیا
بابا میں آئی پرومیس میں اپکو کبھی شرمندہ نہیں ہونے
دوںگیں۔اس نے مسکرا کہ کہا
ہمیں پتا ہے ہماری بیٹی بہت سمجھدار ہے۔حنا بیگم نے
اسکے سر پر بوسہ دیا
پھر کافی ٹائم دونوں اسکے پاس بیٹھے رہے
-@-#-#++##++#؛@+#+#؛#؛#؛@؛@؛@؛@؛@؛@؛@؛@
آج کا دن بہت مصروفیات سے بھرا تھا کیوں کہ اج برات تھی
آج سب دونوں گھروں میں تیاریوں میں مصروف تھے لیکن دلہا صاحب کو آرام کے لیے ان کے
کمرے میں بھیج دیا گیا تھا آج تو کوئی اور دنیا میں تھا سفوان نکاح کہ بات سے تو
مسکراہٹ نے ہونٹوں کا احاطہ کر رکھا تھا اور سب بچہ پارٹی نے اسے چھیڑا بھی بہت
تھا اور ناہید بیگم نے بھی یہ بات نوٹ کی تھی۔
@-#-#-#-#--#+@+@+@+@+@+@+@+@+@@++@
افیرا آج آپ مکمل میری دسترس میں اجاو گی پھر میں اپکو
بتاوں گا آپسے نا پسندیدگی سے لے کہ آپ سے محبت کا سفر اور ماما شاید ٹھیک کہتی
ہیں آپ ضدی لاڈ پیار سے ہوئی ہیں اگر میں اپکو اپنے سانچے میں ڈھالوں گا اور اپکو
سمجھوں گا تو ہم بہتریں ازدواجی زندگی بسر کریں گیں۔وہ دل میں سوچ کہ مسکرایا۔
اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی اور ناہید بیگم داخل
ہوئیں۔
کیا بات میرا بیٹا اکیلے اکیلے مسکرا رہا۔انہوں شرارت
سے کہا
نہیں ماما بس زین دیان وغیرہ کہ ہنسی اور چھیڑ چھاڑ یاد
آگئی ایک دوسرے سے اس پر مسکرا رہا تھا۔اس نے گڑبڑا کہ کہا
اچھا جی یعنی اب ہمارا بیٹا ہم سے جھوٹ بولنے بھی لگا
ہے۔ناہید بیگم نے کہا
نہیں ماما سچی۔
اچھا مان لیتی ہوں ویسے افیرا اپکو کیسی لگیں۔انہوں نے
اسکے سر میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
ٹھیک ہیں بس جب یہاں آجائیں جب پتا چلے گا کہ کیسی ہیں
وہ۔اس نے مسکرا کہ جواب دیا
انشاللہ آپ دونوں ایک دوسرے کے حق میں بہتر ہی ثابت ہو
گے مجھے پورا یقین ہے اللہ پر جس نے آپکے درمیان یہ رشتہ قائم کیا ہے وہی آپ دونوں
کا ایک دوسرے کہ حق میں بہتر رکھے گا۔انہوں نے پورے یقین سے۔
انشاللہ اگر میری پیاری ماما کو اتنا یقین ہے تو ایسا
ہی ہو گا اور بے شک اللہ ہمارے حق میں بہتر ہے۔اس نے انکا ہاتھ چوم لیا۔
ہممم چلو اب تیار ہو جاؤں آج تو مجھے اپنی بہو کو گھر
لانا ہے۔یہ کہ ناہید بیگم اٹھ گئیں۔
#$8&$)&$)_#+_#)#)&#&(_(-_/+_+&7&---+9+9+97&7-)--++9++))))_6”$3$4$&$&_
برات بہت زور و شور سے گئی تھی اور وہاں استقبال بھی
زبردست ہوا تھا
اج بھی بینکٹ کو بہت خوبصورتی سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا
آج کا کلر تھیم مہرون اور اوف وائٹ تھا
سب نے آج کی کے کلر تھیم کی مناسبت سے الگ الگ ڈیزائن
کے حسین جوڑے زیب تن کیے ہوئے تھے۔
آج سفوان نے اوف وائٹ کلر کی شیروانی پہنی تھی جس پر
مہرون کام کیا گیا اور مہرون چوڑی دار پاجامہ اور اوف وائٹ اور مہرون کولہہ اپنی
پوری مردانہ وجاہت کے ساتھ بہت ہینڈسم لگ رہا تھا جبکہ آج افیرا نے اوف وائٹ شوٹ
فراک جس پر مہرون نگوں سے نفیس کام کیا گیا تھا اور آپ پر مہرون جالی کا دوپٹہ جس
کے بارڈر پر اوف وائٹ نگوں سے چوڑا بارڈر بنایا گیا تھا۔اس پر مہرون گھیردار شرارہ
جس پر بھی اوف وائٹ اور سنہری چھوٹے بڑے نگوں سے کام کیا گیا تھا۔پیارا سا گولڈ کا
سیٹ جس پر مہرون اور اوف وائٹ نگ لگے ہوئے تھے بالوں کو آگے سیٹ کر کہ پیچھے جوڑے
میں قید کیا گیا تھا آج کی مناسبت سے میک اپ ہائی ہیلز آج بھی وہ نظر لگ جانے کی
حد تک حسین لگ رہی تھی۔برات آنے تھوڑی دیر بعد افیرا کو اسٹیج پر لے آئے تھے جب
افیرا آئی تو سفوان نے اپنا ہاتھ آگے کر دیا تاکہ وہ تھام کہ اوپر اجائے۔
واہ سفوان اپکو بڑی جلدی آپکی ہی اب تھوڑا صبر
رکھیں۔ماہین نے شرارت سے کہا
ہاہاہا اچھا جی چلیں کر لیتے ہیں صبر۔سفوان نے ہنس کے
جواب دیا
پھر افیرا کو اسکے برابر بیٹھا دیا گیا پھر جھنگ کے بعد
رخصتی کا بھی ٹائم ہو گیا یہ وقت سب کو ہی تھوڑا مشکل لگا۔افیرا سب کہ گلے لگ کہ
روئی تھی۔اور بیچارا سفوان بھی اداس ہوگیا تھا
حنا میں آپکی بیٹی کو اپنی بیٹی بنا کہ لے کر جاری ہوں
اور مجھے یقین ہے ہم اسے اتنی ہی محبت دینے کی کوشش کریں جتنی آپ لوگ اس سے کرتے
ہیں اور اپکو سفوان کی طرف سے بھی کوئی شکایت کا موقع نہیں ملے گا انشاءاللہ۔ناہید
بیگم نے حنا بیگم کو گلے لگا کہ کہا
مجھے یقین ہے آپکی بات پر پورا یقین ہے ہماری افی بھی
تھوڑی نہ سمجھ کبھی کوئی ہو تو اسے درگز کر دیجے گا اور اسے صحیح کروائیے گا۔انہوں
بھی کہا۔
پھر وہ اپنے پیاروں کی ڈھیروں دعاؤں تلے جنت پیلس اگئی۔
کچھ رسومات کہ بعد افیرا کو سفوان کہ کمرے میں بھیج دیا
تھا۔کمرے کو بہت حسین طرح سے سجایا گیا تھا۔بحرحال افیرا کو اس سے کوئی سروکار نہ
تھا اس لیے اس نے زرا بھی سفوان کا ویٹ نہ کیا اور جا کہ کپڑے چینج کر لیے۔اور جب
سفوان کمرے میں داخل ہوا تو اپنا سا منہ لے کہ رہ گیا جس روپ کو اس نے جی بھر کہ
دیکھا کی نہیں مگر دیکھنے کی خواہش تھی وہ خواہش تو افیرا کہ اس حلیہ ہر ہی ختم ہو
گئی۔ خیر وہ بھی تھکا ہوا تھا چینج کرنے چلا گیا باہر آیا تو افیرا پورے بیڈ پر
قبضہ کیے لیٹی تھی۔ وہ اسکے قریب گیا اور کہا
افیرا مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔اس نے نرم لہجے میں کہا
بٹ مجھے کچھ نہیں سننا پلیز آپ لائٹ اوف کر دیں مجھے
نیند آرہی ہے۔اس نے کہ کر کروٹ لے لی۔
بیچارا سفوان اپنا سہ منہ لے کر رہ گیا۔
اچھا سائیڈ پر زرا۔اسے لیٹنا تھا اس لیے بولا
کیوں میں کیوں سائیڈ پر ہوں۔افیرا نے حیرانی سے پوچھا
کیوں مجھے بھی لیٹنا ہے سونے کے لیے۔اس نے آرام سے کہا
تو سوجائیں اتنا بڑا کمرا ہے۔اس نے بھی آرام سے جواب
دیا
مجھے بیڈ پر سونا ہے۔اسے اب چڑ ہو رہی تھی
جی نہیں میں بیڈ کسی سے شیئر نہیں کرتی بہتر ہے آپ اپنے
سونے کا کہیں اور انتظام کریں۔اس نے اٹھ کہ جواب دیا
پہلی بات یہ کہ میں کوئی نہیں آپکا شوہر ہوں دوسری بات
یہ بیڈ میرا ہے اور مجھے بیڈ پر ہی نیند آئے گی۔سفوان نے دانت پیس کہ کہا
کیا مطلب آپکا ہے میں اپنے گھر بیڈ لاتی اپنا الگ آپکی
ماما نے منع کیا تھا ہمیں صرف آپکی بیٹی چاہیے اور کچھ نہیں اگر اپکو زیادہ پروبلم
ہے تو میں کل بابا کو فون کر کہ اپنا بیڈ مانگا لوں گیں ماما نے کہا تھا کہ جو چیز
آپکی ہے وہ میری بھی پر اپنی چیز اپنی ہوتی ہے۔افیرا تو پکی ڈرامے باز تھی باقاعدہ
رومی صورت بنا کہ بولی
اچھا اچھا ایم سوری آپ سوجاؤ میں کاوئچ پر سو جاؤں
گا۔سفوان بھی کیا کرتا آخر کار مان گیا اور افیرا کا پلین کامیاب ہوا۔
اور بیچارے کو پوری رات بے چینی میں گزارنی پڑی۔اور
افیرا پلین کامیاب ہونے کے فاتحانہ مسکرا دی ابھی تو شروعات ہے مسٹر سفوان لودھی
آگے آگے دیکھیں ہوتا ہےکیا.
******************
جاری ہے
CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING
Comments
Post a Comment