Agar tum sath ho novel by Isha Gill Part 2

Agar tum sath ho novel by Isha Gill Part 2

اگر تم ساتھ ہو
از "ایشاءگل"
پارٹ 2
ثانیہ کانوں میں ہینڈفری لگاۓ بیڈ کی بیک سے ٹیک لگا کر گانے سننے میں مگن تھی جب روحاب اس کے کمرے میں آیا اور اس کے کانوں سے ہینڈفری کھینچ کر بیڈ پر پھینکی۔
ثانیہ نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا اور بیڈ سے اٹھتی ہوئی بولی۔
یہ کیا بدتمیزی ہے۔
بدتمیزی یہ نہیں بلکہ وہ ہے جو تم نے اس رشتے سے انکار کر کے کی ہے۔
رشتے سے انکار ہی تو کیا ہے اس میں بدتمیزی والی کون سی بات ہوگئی۔
ثانیہ کو سمجھ نا آئی کہ اس میں بدتمیزی والی کون سی بات تھی۔
اچھا تو جو ماما سے کہا کہ اپنے لاڈلے سے پوچھ لیں کہ وہ کسی اور لڑکی پر تو نہیں مرتا یہ نا ہو کہ کہیں زبردستی اسکی شادی مجھے سے کروا دیں اور بعد میں میری زندگی عذاب بن جاۓ۔
روحاب نے اسکی کی گئی باتیں اسی کو بتائیں۔جبکہ تم اچھی طرح سے جانتی ہو کہ میں صرف تم سے محبت کرتا ہوں۔
ہاں تو ٹھیک ہی تو کہا تھا میں نے جس لڑکے کے پیچھے ہر وقت لڑکیوں کا ہی ہجوم لگا رہے اس لڑکے سے شادی کے لئے تو میں بلکل بھی راضی نہیں ہو سکتی۔
میں نہیں مانتا ثانی کہ صرف اس وجہ سے تم نے انکار کیا ہے وجہ کچھ اور ہے پلیز بتاؤ۔
دیکھو روحاب تم پر تو ہزاروں لڑکیاں مرتی ہیں اس لئے بہتر ہے کہ تم انہی میں سے کسی ایک کا ہاتھ تھام لو اور میری جان چھوڑو کیوں کہ میرا انکار تو اب اقرار میں بدلنے سے رہا۔
ثانیہ لاپروائی سے کہتی ہوئی باہر جانے لگی جب روحاب نے جھٹکا دیتے ہوئے اسے سامنے کیا اور اسے دونوں بازوؤں سے زور سے پکڑ لیا۔
اف کیا کر رہے ہو چھوڑو مجھے۔
ثانیہ نے اس کی مضبوط گرفت سے نکلنے کی ناکام کوشش کی۔
یہی کہا ناں تم نے کہ جو ہزاروں لڑکیاں مجھ پر مرتی ہیں ان میں سے کسی ایک کا ہاتھ تھام لو۔
اگر ان ہزاروں میں سے ایک بھی تم ہوتی تو کب کا تمہیں اپنا چکا ہوتا۔روحاب ایک ایک لفظ پر زور دیتا ہوا بولا۔
یہی تو بات ہے مسٹر روحاب کہ میں ان لڑکیوں میں کبھی شامل نہیں ہونا چاہتی جو صرف تمہارے عہدے پر مرتی ہیں انھیں تم سے کوئی غرض نہیں۔
لیکن مجھے تو تمہارے عہدے اور تم سے دونوں سے کوئی غرض نہیں کیوں کہ میں نے اپنا جیون ساتھ چن لیا ہے جو کے ہر لحاظ سے تم سے لاکھ درجے بہتر ہے۔
ثانیہ نے ہونٹوں پر مسکراہٹ لئے اس پر طنز کیا۔کیا کہا تم نے جیون ساتھ کس کی بات کر رہی ہو تم۔
"زارون کی"
ثانیہ نے اس کی کیفیت سے بے خبر مزے سے کہا۔تم زاروں سے پیار کرتی ہو اس لئے تم نے مجھے انکار کیا۔روحاب کو یقین نا آیا۔
پہلی بات میں نے زارون کو نہیں بلکہ زارون نے مجھے چنا ہے پرپوز کیا ہے اس نے مجھے۔
اور دوسری بات کہ میں اس سے پیار کرتی ہوں یا نہیں یہ تو میں نہیں جانتی۔
ہاں مگر اتنا ضرور جانتی ہوں کہ وہ مجھے اپنے لئے ہر لحاظ سے بہتر لگتا ہے۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ رہتا بھی انگلینڈ میں ہے اور ہر ملک میں گھومتا ہے اور انگلینڈ میں تو اسکا اپنا بڑا گھر ہے۔
قسم سے میں تو گھر کی تصویریں دیکھ کر حیران ہی رہ گئی۔
اور پتا بھی ہے تمہیں ایک مہینے کا ڈیڑھ لاکھ کماتا ہے کہہ رہا تھا کہ شادی کے بعد مجھے بھی اپنے پاس بلا لے گا۔
سب کچھ ہی تو ہے اس کے پاس اور وہ بھی اپنا۔تمہارے پاس ہے کیا اتنا کچھ۔
تم تو مجھے صرف وہی کچھ دے سکتے ہو جو پہلے سے ہی میرے پاس ہے۔
جو ضرورتیں تم میری پوری کر سکتے ہو وہ سب تو ماما پاپا بھی کر سکتے ہیں۔
بولو گھما سکتے ہو مجھے پوری دنیا اپنی یہ وردی چھوڑ کر لے جا سکتے ہو مجھے امریکہ انگلینڈ ملائشیا اور ہر جگہ۔
تم تو اگر رکھو گے نہیں تو اس گھر میں ہی رکھو گے اور اگر اپنا گھر لے بھی لیا تو یہیں لو گے ناں مگر مجھے یہاں نہیں رہنا۔
مجھے تو زارون سے شادی کر کے انگلینڈ جانا ہے گھومنا پھرنا ہے آزاد بغیر کسی روک ٹوک کے۔
مگر یہاں تم جیسے لوگ صرف پابندیاں ہی لگا سکتے ہو۔
آخر ایسا ہے ہی کیا تم میں جو میں شادی کے لئے ہاں کر دیتی۔
ثانیہ نے ہنستے ہوئے اسکا مذاق اڑایا۔
ثانیہ وہی تھی جو کچھ دیر پہلے کہہ رہی تھی کہ لڑکیاں صرف اس کے عہدے پر مرتی ہیں نا کے اس پر مگر اب خود بھی تو ایسا ہی کر رہی تھی۔
اسے زارون سے کوئی غرض نہیں تھی اگر تھی تو صرف اس کی کمائی سے اپنی خواہشات سے اپنے بڑے بڑے خوابوں سے جنہیں وہ صرف زارون سے شادی کر کے ہی پورا کر سکتی تھی۔
روحاب کو لگ رہا تھا کہ بس اتنی ذلت بہت ہے اس سے زیادہ اب وہ برداشت نہیں کر سکتا۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ ثانیہ اس کے لئے ایسی سوچ رکھتی ہے اتنی مطلبی کہ اپنے مطلب کے سامنے کچھ اور نظر ہی نہیں آتا۔
ثانیہ وہ لڑکی تھی جس سے اس نے شدت سے پیار کیا تھا اور بدلے میں اس نے بھی ہر موقع پر اس سے اپنی محبت ظاہر کی تھی۔
مگر زارون کی شان و شوکت کو دیکھ کر اسے روحاب کی شان و شوکت پھیکی لگنے لگی تو وہ اسے ٹھکراتی ہوئی زارون کی طرف بڑھ گئی۔
ثانیہ وہ لڑکی تھی جس لے قدموں میں روحاب نے اپنا دل تک رکھ دیا مگر اس نے ایک ٹھوکر سے ہی اسے پڑے پھینک دیا۔
روحاب سرخ ہوتی آنکھیں لئے واپس مرنے لگا جب دروازے پر کھڑی سجل کو دیکھ کر رک گیا۔
سجل اس کے پاس آئی اور بولی۔
آپ کیوں میری آپی کی خوشیوں کے بیچ میں آرہے ہیں اگر وہ زارون بھائی سے شادی کرنا چاہتی ہیں تو اس میں غلط ہی کیا ہے۔
اگر وہ آپ سے شادی کر کے خوش نہیں رہ سکتیں تو ان کے انکار پر چپ کیوں نہیں ہو جاتے آپ۔
ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہیں آپی جتنی بھی لڑکیاں آپکے آس پاس نظر آتی ہیں وہ صرف آپ کے عہدے پر مرتی ہیں نا کے آپ پے۔
سجل تم بیچ میں مت بولو میں بات کر چکی ہوں اور یہ میرے انکار پر چپ بیٹھے یا نا بیٹھے مگر میں زارون سے شادی کرنے کا فیصلہ کر چکی ہوں۔
اور اب اس سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹنے والی۔ثانیہ سجل کو چپ کرواتی اسے اپنے ساتھ لئے کمرے سے باہر نکل گئی۔
جبکہ روحاب ثانیہ اور سجل کی باتوں پر بیچ و تاب کھاتا تن فن کرتا گھر سے ہی باہر نکل گیا۔
************************
اور بس اس دن سے لے کر آج تک روحاب نے سجل سے سیدھے منہ بات تک نہیں کی۔
اس وقت تو جو دل میں آیا ثانیہ کی حمایت میں اسنے کہہ تو دیا مگر اب اسے احساس ہو رہا تھا کہ اسے وہ سب باتیں نہیں کہنی چاہیے تھیں۔
کیوں کے روحاب غلط نہیں تھا اور نا ہی وہ ثانیہ کی خوشیوں کے بیچ آرہا تھا۔
اگر قصور تھا تو ثانیہ کا تھا۔
کیوں کہ اس نے صرف انکار ہی نہیں کیا تھا بلکہ انکے کے ساتھ ساتھ اس کی تذلیل بھی کر ڈالی تھی جس کا حق دار وہ بلکل بھی نہیں تھا۔
بہت دفعہ سجل کے دل میں خیال آیا کہ وہ جا کر روحاب سے اپنی ان باتوں کی معافی مانگ لے مگر ڈرتی تھی کہ روحاب ضرور اسے ڈانٹ دے گا کیوں کہ وہ اس دن کا بھول کر بھی ذکر نہیں کرنا چاہتا تھا چاہے خود اسے وہ ایک دن بھی بھلا نا ہو۔
خیر یہ بات صرف ان تینوں کے بیچ کی تھی یہ بات ان دونوں کے علاوہ صرف سجل ہی جانتی تھی کہ روحاب کسی سے بہت پیار کرتا ہے اور وہ کوئی اور نہیں بلکہ ثانیہ ہے۔
اور یہ کہ ثانیہ نے آخر روحاب کے رشتے سے انکار کیوں کیا۔
گھر میں سب یہ جانتے تھے کہ ثانیہ کا رشتہ شہلا نے مانگا تھا مگر کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ روحاب کی اپنی بھی یہ دلی خواہش تھی۔
ورنہ سب کو سمجھ آ جاتی کہ وہ شادی کے لئے راضی کیوں نہیں ہوتا۔
سب یہ جانتے تھے کہ ثانیہ نے انکار اس وجہ سے کیا کیوں کہ زارون اس سے شادی کرنا چاہتا تھا اور ثانیہ کو بھی اس سے شادی پر کوئی اعتراض نا تھا مگر کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ روحاب سے شادی پر آخر کیوں اعتراض تھا۔
*************************
سجل انہی باتوں کو سوچتی ابھی تک ٹیرس پر بیٹھی تھی جب کسی نے پیچھے سے اسے
"بھاؤ"
کہہ کر ڈرایا۔وہ جانتی تھی کہ یہ موحد کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔
مگر اس وقت اس کا لڑنے کا کوئی موڈ نہیں تھا اس لئے بولی۔
کیا تکلیف ہے۔
سر میں تکلیف ہے اس لئے پلیز کافی بنا دو ناں۔
موحد نے جھٹ سے جواب دیتے ہوئے کافی کی فرمائش کی۔
دماغ تو ٹھیک ہے رات کے بارہ بج رہے ہیں اس ٹائم پیو گے کافی۔
ہاں پی لوں گا بس تم بنا دو۔
میں نہیں بنانے والی جاؤ انعم سے کہو میں نیچے نہیں جا رہی۔
سجل نے انکار کرتے ہوئے اسے انعم سے رابطہ کرنے کا کہا۔
نکمی ہو تم پوری کی پوری تم سے تو کسی کام کے لئے مان جانے کی امید کرنا ہی بیکار ہے۔
موحد اسے نکمی کہتا ہوا اپنی سویٹ سی کزن انعم یعنی انو کے پاس آیا جو کہ ابھی تک جاگ کر پڑھ رہی تھی۔
انو میری سویٹ اور پیاری سی کزن۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسکے مت لگائیں اس کے بغیر بھی کام کر سکتی ہوں آپکا۔
انعم جانتی تھی کہ اسے کوئی کام ہی ہے جو تعریف کر رہا ہے اس لئے اسکی اگلی بات شروع کرنے سے پہلے ہی بول پڑی۔
کتابیں پڑھ پڑھ کر سیانی نہیں ہوتی جا رہی ہر بات پہلے سے ہی سمجھنے لگی ہو۔
کام بتائیں موحد بھائی۔
مجھے کافی بنا دو انو اور وہ بھی مزے کی۔
موحد نے کام کی بات کی۔ٹھیک ہے آپ اپنے کمرے میں جائیں کافی آپ تک پہنچ جاۓ گی۔
انعم کسی روبوٹ کی طرح بولی۔
اچھا ویسے کب تک پہنچ جاۓ گی اور کیا خود بخود پہنچ جائے گی۔
کافی کے لئے انتظار کا دورانیہ کتنا ہوگا۔
صرف پانچ منٹ اس کے بعد جا رہی ہوں بنانے۔اوکے میں جا رہا ہوں اپنے کمرے میں اور پانچ منٹ کا مطلب صرف پانچ منٹ۔
موحد اس کے ہاتھ سے پین پکڑتا ہوا کھڑا ہوگیا اور جانے لگا۔
ارے موحد بھائی یہ پین تو دیتے جائیں۔
کیوں دوں واپس اور ویسے بھی میرے بیگ میں ایک بھی پین موجود نہیں ہے اور تمہارے ہر وقت بیگ کھول کر بیٹھے رہنے کا ایک تو فائدہ تو ہوتا ہے کہ تم سے کم از کم سٹیشنری کی چیزیں تو مل جاتی ہیں۔موحد کا کمرا نیچے تھا اس لئے وہ پین لئے نیچے چلا گیا۔
انعم بھی کتابیں سمیٹتی کھڑی ہوگئی تا کہ کافی دینے کے بعد وہ موحد سے پین تو لے آئے۔
وہ پین کبھی واپس لینے نا جاتی اگر وہ پین اسے روحاب بھائی نے اتنے پیار اور مان سے نا دیا ہوتا اور یہ نا کہا ہوتا کہ میرے خیال سے انعم تمہارے نزدیک اس تحفے سے بہتر کوئی اور تحفہ نہیں ہو سکتا۔
اس قلم سے تمہیں خود نہیں سیکھنا ہے اور دوسروں کو بھی سکھانا ہے۔اور ان سب نکموں سے آگے بڑھنا ہے۔
روحاب اسکی ہر برتھ ڈے پر اسے پین کتاب جیسی چیزیں ہی تحفے میں دیتا تھا۔
جو کہ واقعی میں اس کے لئے سب تحفوں سے بڑھ کر ہوتی تھیں۔
کیوں کہ وہی تو اس کے کام آتی تھیں اس کی صلاحیتوں کو ابھارتی تھیں۔
۔************************
سجل تم نے آج بھی یونیورسٹی سے چھٹی کر لی۔ثمرین بیگم نے اسے لاؤنج میں صوفے پر بیٹھے ٹی وی دیکھتے دیکھا تو پوچھا۔
ماما فنکشن تھا آج یونیورسٹی میں تو میں نے بھلا جا کر کیا کرنا تھا۔
سجل نے ٹی وی سے نظریں ہٹائے بغیر جواب دیا۔
تو کیا ہوا تھوڑا بہت دماغ ہی فری ہو جاتا ہے بندے کا معارج بھی تو گئی ہے تم بھی چلی جاتی۔
معارج کسی فنکشن کو چھوڑ دے ایسا ہو سکتا ہے بھلا اسے تو موقع چاہیے نئے نئے کپڑے جوتے اور جیولری پہننے کا اور سے ڈھیر و ڈھیر میک اپ تھوپنے کا۔سجل کی بجاۓ ثانیہ نے کہا۔
ثانیہ کسی کا تمسخر اڑائے بغیر کوئی بات مکمل کر لے ایسا بھی بھلا ہو سکتا تھا کیا۔
ثانیہ اپنے لہجے میں نرمی پیدا کرو بیٹا اب تمہاری شادی ہونے والی ہے۔
یوں ہر کسی کا مذاق اڑاتی رہو گی تو آگے بھی یہی عادت اپناؤ گی۔
ثمرین بیگم نے اسے سمجھایا مگر ثانیہ کوئی بات سمجھنے والی کہاں تھی بلکہ الٹا یہ بولنے لگی۔
میں نے کون سا کوئی غلط بات کہی ہے ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہوں۔
اور یہ ہماری بیوقوف سجل کبھی منہ دھو کر کریم تک نہیں لگائی۔
اور میں تمہیں بتا رہی ہوں سجل ابھی سے کہ میری شادی پر تم ایسا روکھا منہ لے کر مت گھومتی پھرنا۔
معارج سے ہی سیکھو کچھ کیسے ہر وقت تیار شیار رہتی ہے اور شادی پر تو اس نے تیاری کے سارے ریکارڈ توڑ دینے ہیں اس لئے تم بھی ابھی سے تیاری شروع کر دو۔
ثانیہ نے نے جیسے بات سجل کے دماغ میں بٹھانی چاہی۔دیکھوں گی آپی ابھی فلحال میرا کوئی موڈ نہیں۔
سجل نے یہ کہہ کر ثانیہ کی بات کو جیسے ہواؤں میں اڑا دیا۔
سجل کو میک اپ اور نت نئے کپڑوں وغیرہ میں کوئی دلچسبی نہیں تھی۔اور نا ہی آج تک کسی نے اسے میک اپ میں دیکھا تھا۔
اسے کسی قسم کی تیاری کی ضرورت بھی نہیں تھی کیوں کہ وہ عام و سادہ سے لباس اور میک اپ سے بے نیاز چہرے میں بھی سب کزنوں سے زیادہ خوبصورت لگتی تھی۔
ثانیہ بھی کچھ کم پیاری نہیں تھی مگر اس کے چہرے پر سجل کی طرح معصومیت اور بھولا پن بلکل بھی نہیں تھا۔
سجل کے چہرے میں سب سے خوبصورت اس کی بڑی بڑی آنکھیں اور لمبی گھنی پلکیں تھیں۔
جو ہر ایک دفعہ دیکھنے والے کو دوبارہ نظریں اٹھا کر دیکھنے پر مجبور کر دیتیں۔اور رہی انعم تو وہ تو تھی ہی سب کزنز سے مختلف۔
اس کی رنگت سجل اور ثانیہ کی طرح گوری نہیں بلکہ سانولی تھی لیکن نین نقش بہت پیارے تھے۔اور یہی سانولی رنگت کتنے لوگوں کو اپنی طرف اٹریکٹ کرتی تھی اس بات سے وہ بے خبر تھی۔
با خبر تو تب ہوتی جب کتابوں کی دنیا سے باہر نکل کر دیکھتی۔
۔***********************
اگلے مہینے کی اٹھائیس تاریخ کو ابیہا سفیان زارون ثانیہ کی شادی تھی۔
شادی کی تیاریاں اور بھی زور و شور سے چلنے لگیں۔ابیہا کی شادی اس کے تایازاد سفیان سے طے پائی تھی۔
ان کی منگنی بچپن سے ہی کر دی گئی تھی۔ابیہا سیدھی سادی گھڑیلو لڑکی تھی۔
اس کی خوبصورتی اس کی سادگی اور نیک سیرت میں تھی۔
وہ اپنا زیادہ وقت مذہبی پروگرام سننے اور دینی کتابیں پڑھنے میں گزارتی تھی۔اس کے لہجے میں نرماہت تھی۔
جو بھی اس کو سنتا اس کی باتوں کے سحر میں کھو جاتا۔سفیان بھی اسی سحر میں کھو گیا تھا۔
اور یہ ابیہا کی خوبیاں اور منفرد سیرت ہی تھی جو سفیان لڑکیوں ساتھ پڑھنے کے باوجود بھی کسی اور لڑکی سے متاثر نا ہو سکا۔وہ اپنے والدین کے انتخاب پر بہت خوش تھا۔
سجل کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی یا کبھی دل اداس ہوتا تو وہ ابیہا کے پاس چلی آتی اور اس سے باتیں کر کے اس کا دل قدرے ہلکا ہو جاتا۔سجل اس وقت بھی ابیہا کے پاس موجود تھی۔
ابیہا آپی آپ نے تو ابھی تک کوئی تیاری شروع نہیں کی اور ادھر ثانی آپی نے تو بیوٹی پوڈکٹس لا کر اپنے چہرے پر لیپ کرنا بھی شروع کر دیے ہیں۔
اور ساتھ ہی ساتھ معارج نے بھی اپنا حصہ ڈال لیا ہے۔اچھا سجل تم یہ بتاؤ کہ تمہیں میرے چہرے کو دیکھ کے لگتا ہے کہ واقعی میں اسے بیوٹی پروڈکٹس کی ضرورت ہے۔ابیہا نے کپڑے پریس کرتے ہوئے سجل سے پوچھا۔
ہاں ضرورت تو نہیں ہے مگر پھر بھی لڑکیاں اپنی شادی سے پہلے بیوٹی کریمز کا استمال کرتی تو ہیں ہی۔
ویسے ضرورت تو ثانی آپی کو بھی نہیں مگر پھر بھی اتنی ساری چیزیں اٹھا لائی ہیں۔
اچھا چلو ان باتوں کو چھوڑو یہ کپڑے پکڑو انہیں ہینگ کرو میں باقی کی کپڑے پریس کر لوں۔
ابیہا اسے چپ کرنے کا بولتی کام میں لگا کر دوسرے کپڑے پریس کرنے لگی۔
۔************************
سجل ادھر آؤ۔
سجل پھپھو کے گھر سے واپس آرہی تھی وہ گیٹ سے اندر داخل ہوئی جب ثانیہ نے اسے آواز دی۔
سجل اس کے پاس آئی اور بولی۔جی ثانی آپی ۔یہ پائپ پکڑو اور پودوں کو پانی دو۔
ثانیہ نے اپنی اس کام سے جان چھڑوانے کے لئے جس کے کرنے کا ثمرین بیگم اسے بول کر گئی تھیں جلدی سے پائپ سجل کو تھما کر خود اندر کھسک گئی۔
اف ایک تو ثانی آپی ہر کام مجھے کہہ کر خود بھاگ جاتی ہیں۔
سجل بڑبڑاتی ہوئی پودوں کو پانی دینے لگی۔
تب ہی موحد بھی باہر سے آیا اور سیدھا اسی کی طرف آگیا۔
کیا ہوا ایسے منہ بنا کر پودوں کو پانی کیوں دے رہی ہو لاؤ مجھے دو پائپ میں دوں پانی۔
موحد نے اس کے دینے سے پہلے ہی پائپ اس کے ہاتھ سے لے لیا۔
ویسے سجل یہ پودا کتنا بڑا ہوگیا ہے ناں جب ہم چھوٹے چھوٹے سے تھے تب دادا ابو نے لگایا تھا اور اب دیکھو اسے۔
موحد نے گلاب کے پودے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
ہاں واقعی میں میں نے تو کبھی غور ہی۔۔۔۔۔۔
سجل کی باقی کی بات منہ میں ہی رہ گئی کیوں کے موحد نے پائپ سجل کی طرف کر دیا جس سے تیز پانی کا فوارہ سجل کے منہ پر پرا تو وہ چیخ اٹھی۔۔۔
"موحد کے بچے"
موحد فوراً پائپ چھوڑتا ہوا جھولے کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا۔
"اسی لئے کہہ رہے تھے لاؤ مجھے دو پائپ میں دوں پانی"سجل منہ ٹیرا کر کے اس کی نقل اتارتی ہوئی پائپ پکڑ کر اس کی طرف بھاگی"
موحد اب دروازے کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔
لو کر لو اپنا بدلہ پورا کیا یاد کرو گی۔
موحد بازو پھیلائے بھیگنے کو تیار ہوگیا۔سجل یہ سوچے بغیر کہ وہ اتنی جلدی مان کیسے گیا فوراً پائپ اس کی طرف کر دیا اور آنکھیں بند کیے ہنسنے لگی۔
بچو اب آئے گا ناں مزہ۔
اور جب آنکھیں کھولیں تو چکرا کر رہ گئی پائپ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔
کیوں کہ سامنے روحاب اپنے پولیس یونیفارم میں بھیگا کھڑا تھا اور دانت پیستے ہوئے اسے دیکھ رہا تھا۔
جبکہ موحد تھوڑے فاصلے پر دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے سیٹی بجاتا آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔
"ہائے اب کیا کریں گے یہ سجل گھبراتی ہوئی ہاتھ اٹھا کر بولنے لگی۔
آل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو۔
سجل یہ کیا منہ ہی منہ میں بڑبڑائے جا رہی ہو۔موحد نے اسے کندھوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔
سجل نے فوراً آنکھیں کھولیں اور سامنے دیکھا مگر وہاں روحاب نہیں تھا۔
یہ کہا چلے گئے ابھی تو یہیں تھے۔
سجل نے موحد سے پوچھا۔
جہاں سے آئے تھے وہیں چلے گئے۔موحد نے بتایا۔
"کہاں اوپر"
سجل نے ہاتھ اٹھایا اور آسمان کی طرف انگلی کرتے ہوئے پوچھا۔
اوفو پاگل میرا مطلب ہے اندر سے آئے تھے اور وہیں چلے گئے۔
موحد نے اس کے سر پر ہلکی سی چپت لگاتے ہوئے کہا۔
اوہو اچھا۔۔۔
سجل نے ہولے سے سر ہلایا۔
اور پھر کچھ دیر پہلے کی جانے والی موحد کی حرکت یاد آنے پر بولی۔
یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے موحد تمہیں تو میں چھوڑوں گی نہیں۔
اس نے جھک کر گھاس سے پائپ اٹھایا اور دوبارہ سے اس کے پیچھے بھاگنے لگی۔
۔****************************
بڑی ماما آج میں کھیر بناؤں گی۔
سجل نے بڑی ماما کو کھیر بنانے کی تیاری کرتے ہوئے دیکھا تو بولی۔
یہ آج سورج مشرق کی بجاۓ مغرب سے کیسے نکل آیا بڑی ماما۔
انعم کالج سے ابھی واپس آئی تھی اور پانی پینے کے لئے سیدھا کچن میں ہی آگئی تھی۔
اور اب یہ سن کر حیران ہوتی ہوئی پوچھنے لگی۔
تم ضرور پانی پینے آئی ہوگی یہ لو پکڑو پانی اور چلو نکلو شاباش کچن سے۔
سجل نے جلدی سے اسے پانی کا گلاس تھما کے کچن سے نکال دیا۔
جبکہ انعم بھی مزید کچھ کہے بغیر چپ چاپ باہر آگئی۔
بڑی ماما اب بس آپ مجھے بتائیں کہ کھیر بناتے کیسے ہیں۔
آپ نے بس بتانا ہے بنا میں خود ہی لوں گی۔
سجل نے ان سے کھیر کی ریسیپی پوچھی اور کھیر تیار کرنے لگی۔
کھیر بنا کر اسے ٹھنڈی ہونے کے لئے یاد سے فریج میں رکھ دینا سجل۔
بڑی ماما اسے کھیر بناتا دیکھ کر بعد میں اسے فریج میں رکھنے کا بول کر کچن سے نکل گئیں۔
۔*************************
آج آپ سب کو ایک مزے کی بات بتاتی ہوں کہ آج کی کھیر ہماری پروفیشنل شیف سجل نے بنائی ہے۔
اس لئے آپ سب اسے ضرور کھائیے گا۔
کھائیے گا نہیں بلکہ صرف چکھئے گا کیوں کے ان کی کھیر کو چکھنے کے بعد آپ اسے مزید کھا ہی نہیں سکتے۔
سجل جو انعم کی پہلی بات پر بہت خوش ہو رہی تھی اس کی آخری بات پر بولی۔
جس دن تم بنائی گی ناں اس دن میں بھی تمہیں دیکھ لوں گی انعم کی بچی۔
انعم اس کی بات کو نظر انداز کرتی پلیٹ میں کھیر ڈالنے لگی اور باقی سب کو بھی سرو کرنے لگی۔
سب سے پہلے کھیر روحاب کے حصے میں آئی اس لئے اس نے کھانا بھی پہلے شروع کر دی۔
یہ کیا بنایا ہے۔
کیا تمہیں کھیر بنانے کا ڈھنگ نہیں۔
روحاب نے کھیر بامشکل نگلی اور پلیٹ پرے کھسکا کر پانی پینے لگا۔
سجل جو کھیر والا چمچ ابھی منہ تک لے کر جانے ہی والی تھی۔
روحاب کی اس بات پر اس کا اسکا چمچ ہوا میں ہی رہ گیا۔
کیا ہوا روحاب بھائی کیا کھیر اچھی نہیں بنی۔
سجل نا سمجھی سے پوچھنے لگی۔
کھا کر دیکھو تو تمہیں پتا چلے کے کتنی کو اچھی بنی ہے۔
کھانے کا دل نہیں چاہ رہا کوئی اتنی بھی چینی ڈالتا ہے کھیر میں۔
لگتا ہے پورے کا پورا ڈبہ ہی الٹ دیا ہے تم نے تو میٹھے والا زہر بنا دیا ہے اسکو۔
لو پکڑو اور کھاؤ اکیلی ہی تم اسے روحاب اپنی پلیٹ اس کے سامنے پٹکتا ہوا لمبے لمبے ڈھنگ بھرتا ہوا وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔
جبکہ سجل کی آنکھوں میں نمکین پانی بھر آیا۔اس سے پہلے کہ وہ بھی اٹھ کے جاتی موحد جلدی سے بولا۔
حد کرتے ہیں بھائی بھی اچھی بھلی تو ہے کھیر کیا ہوا اگر چینی تھوڑی زیادہ ہوگئی۔چینی ہی تو ہے کوئی نمک تھوڑی نا ہے۔
ویسے تو بہت اچھی بنی ہے یہ موحد نے چمچ بھر کر کھیر منہ میں ڈال لی۔
چینی واقعی میں بہت زیادہ تھی مگر موحد اس کا روتا ہوا چہرہ دیکھنا نہیں چاہتا تھا اس لئے زبردستی مسکراتا ہوا کھیر کھانے لگا۔
موحد بھائی بلکل ٹھیک کہہ رہے ہیں سجل آپی اچھی بھلی ٹھیک تو بنی ہے کھیر انعم نے بھی یہ کہتے ہوئے کھیر کھانا شروع کر دی۔
انعم ثانیہ سے زیادہ سجل سے قریب تھی۔
کیوں کہ وہ ثانیہ کی طرح خود سر اور ضدی نہیں تھی۔
تھوڑی لاپرواہ تھی مگر وہ کسی کا دل نہیں توڑتی تھی۔
اور یہی بات انعم کو اسکی بہت پسند تھی۔
ثانیہ نے بھی پلیٹ پرے کھسکا دی۔
معارج ان دونوں کی ہاں میں ہاں ملانے لگی مگر ثانیہ کی طرح کھیر کھانے کی ہمت اس میں بھی نہیں تھی۔
سجل بیٹا کیا ہوگیا اگر چینی تھوڑی زیادہ ہوگئی آج پہلی دفعہ بنائی ہے ناں بناتی رہو گی تو آہستہ آہستہ سیکھ جاؤ گی۔
ثمرین بیگم نے اسے پیار سے کہا۔
وہ تو خوش تھیں کہ آج پہلی بار چاہے ٹھیک نا سہی مگر سجل نے کچھ بنایا تو سہی۔
سجل نے دیکھا کہ پاپا بڑی ماما اور بڑے پاپا بھی چپ چاپ کھیر کھا رہے تھے۔
سجل نے اپنے آنسو صاف کیے اور مسکرا دی۔روحاب نے صبح والی حرکت اور اب کھیر دونوں کا غصہ ایک ساتھ ہی نکالا تھا۔
مگر سجل صرف ایک روحاب کی وجہ سے موڈ خراب کر کے باقی سب کی محبتوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اس لئے مسکراتی ہوئی خود بھی کھیر کھانے لگی۔
۔**************************
اور پتا ہے پھر خود با خود میری آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوگئے۔
بندہ اگر تعریف نہیں کر سکتا تو کم از کم برائی بھی مت کرے مگر نہیں انہوں نے تو میری اچھی خاصی بےعزتی کر کے رکھ دی۔
سجل نے کل والا واقع ابیہا کو سنایا۔
اچھا اب تم رات کی طرح پھر سے رونے مت لگ جانا کیوں کہ آج میں تمہیں زبردست سی کھیر بنانا سکھانے والی ہوں۔
اور جتنے دن شادی میں رہ گئے ہیں اتنے دن تم روز میرے پاس آؤ گی اور میں تمہیں کھانا بنانا سکھاؤں گی اوکے۔
ابیہا نے اسے خوش کرنے کے لئے کہا اور سجل واقعی میں خوش ہوگئی اور بولی۔سچ میں آپی۔
ہاں سچ میں سکھاؤں گی اب تم فریج میں سے دودھ نکالو اور میں کھیر کے لئے چاول بھگو لوں۔
سجل نے دودھ والی کیتلی نکال کر شیلف پر رکھی جب زرمین پھپھو کچن میں داخل ہوئیں۔
ابیہا میں ذرا تمہارے مامو کی طرف جا رہی ہوں رومان آئے تو اسے یہ لسٹ دے کر چیزیں منگوا لینا۔
زرمین پھپھو نے لسٹ ابیہا کو تھمائی اور پھر سجل سے پوچھنے لگیں۔
سجل بیٹا رمیز اور رفیق بھائی گھر پر ہی ہیں ناں۔
پاپا تو آفس میں ہیں پھپھو مگر بڑے پاپا گھر ہی ہیں۔سجل نے انہیں بتایا تو وہ سے ہلاتی ہوئیں کچن سے نکل گیں۔
۔***********************
آخر شادی کا انتظار کرتے کرتے مہندی کا دن آن ہی پہنچا۔زاروں شادی سے آٹھ دن پہلے پاکستان واپس آیا تھا۔دونوں گھروں کے اندر اور باہر رنگ برنگی لائٹیں سجا دی گئیں۔
مہندی کے فنکشن کا انتظام لان میں کیا گیا تھا۔مہندی چاروں کی اکٹھی کی جانی تھی اور پھپھو زرمین کے گھر کی جانی تھی۔
سجل کب سے تیار ہو کر بیٹھی ہوئی تھی مگر معارج کی تیاری ختم ہی نہیں ہو رہی تھی۔
سجل مہندی رنگ کی فراک میں بغیر کسی میک اپ کے بہت پیاری لگ رہی تھی۔
سجل نے زبردستی معارج کو شیشے کے سامنے سے ہٹایا اور اسکا ہاتھ پکڑتی ہوئی اسے نیچے لان میں لے آئی۔
اوفو سجل مجھے پوری طرح سے تیار تو ہونے دیتی۔معارج نے اپنا ہاتھ چھڑواتے ہوئے کہا اور بال سیٹ کرنے لگی۔
اچھی بھلی تیار ہو تو گئی ہو۔پلیز باقی کا میک اپ شادی کے دوسرے فنکشن کے لئے بھی سنبھال کر رکھ لو پر ابھی تو موحد سے گجرے منگواؤ مجھے پہننے ہیں۔
سجل کو گجرے بہت پسند تھے۔ہاں میں بھی کہوں کلائیوں میں کچھ کمی سی محسوس ہو رہی ہے۔معارج نے کہا۔
سجل نے اس کی کلائیوں کو دیکھا جن میں ڈھیر و ڈھیر چوڑیاں پہننے کے باوجود بھی ابھی گجروں کی کمی باقی تھی۔
میں موحد کو گجروں کا کہہ کر آئی۔
معارج گیٹ کے پاس کھڑے موحد کو گجرے لانے کا کہنے چلی گئی۔
۔*********************
انعم ادھر آؤ۔
موحد نے ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی انعم کو اپنے پاس بلایا۔
جی موحد بھائی کچھ کام ہے کیا۔نہیں کام نہیں ہے تم بس اپنی کلائی آگے کرو۔
کیوں کیا نبض چیک کرنی ہے میری مگر وہ تو الحدلللہ نارمل رفتار سے چل رہی ہے۔انعم نے ناسمجھتے ہوئے کہا۔
تم بھی ناں حد کرتی ہو انو بس میں نے کہا ناں کلائی آگے کرو تو مطلب کرو۔موحد کے یہ کہنے پر انعم نے اپنی کلائی فوراً موحد کے سامنے کر دی۔
موحد نے شاپر سے گجرے نکل کر اسکی کلائیوں میں پہنا دیے۔
کچھ ہی فاصلے پر کھڑا روحاب ان دونوں کو دیکھ کر مسکرا دیا۔
موحد کے دل میں انعم کے لئے جو جذبات تھے وہ روحاب سے چھپے ہوئے نہیں تھے۔
موحد دو ہی گجرے لے کر آیا تھا جو کہ اس نے انعم کی پہنا دیے۔موحد بھائی میں نے تو گجرے نہیں منگوائے۔
انعم گجروں کو اپنی کلائیوں اور گھماتی ہوئی بتانے لگی۔
ہاں جانتا ہوں تم نے نہیں منگوائے مگر انہیں دیکھ کر میرا دل کیا کہ تمہارے لئے لے جاؤں تو بس لے آیا۔
کیا سچ میں۔۔۔۔تھینک یو سو مچ موحد بھائی۔
انعم نے خوش ہوتے ہوئے اسے شکریہ کہا اور معارج اور سجل کے پاس چلی آئی جو کہ کب سے گجروں کا انتظار کر رہی تھیں۔
۔****************************
ارے انعم اپنے بازو دکھاؤ ذرا۔
معارج نے انعم سے کہا تو اس نے اپنے دونوں بازوں اس کے سامنے کر دیے جن میں گلاب اور موتیے کے پھول کے گجرے سجے ہوئے تھے۔
یہ گجرے کہاں سے لئے تم نے۔
یہ گجرے تو مجھے موحد بھائی نے لا کر دیے ہیں کہہ رہے تھے کہ گجرے دیکھ کر میرا دل کیا کہ تمہارے لئے لے جاؤں تو لے آیا۔
انعم مزے سے اسے بتانے لگی۔اس نے ایسا کہا۔سجل معارج کے بولنے سے پہلے ہی بول پڑی۔
جبکہ گجرے تو ہم نے اس سے منگوائے ہیں جھوٹا کہیں کا چلو معارج لے کر آئیں اس سے گجرے۔
سجل معارج کا ہاتھ پکڑ کر اسے لان میں لے کر جانے لگی۔
جب انعم نے انہیں آواز دے کر بتایا کہ موحد بھائی تو صرف دو ہی گجرے لے کر آئے تھے جو کہ انہوں نے مجھے پہنا دیے اب آپ دونوں کیا لینے جا رہی ہیں۔
جبکہ انعم کے یہ بتانے پر انہیں موحد پر اور زیادہ غصہ آگیا۔
انعم جانتی تھی کہ وہ دونوں موحد سے گجرے نکلوائے بغیر اسے چھوڑنے والی نہیں اس لئے مسکراتی ہوئی ٹیبل سے پھولوں کی پلیٹ اٹھا کر خود بھی لان میں چلی آئی۔
۔*******************************
موحد میرے پیارے بھائی اب شاباش ذرا جلدی سے یہ بتانا کہ ہم دونوں نے جو گجرے منگوائے تھے وہ کہاں ہیں۔
معارج نے کمر پر ہاتھ باندھے بظاہر مسکراتے ہوئے مگر دانت پیستے ہوئے پوچھا۔
کون سے گجرے؟ موحد نے سر پر ہاتھ رکھے یاد کرنے کی کوشش کی کہ وہ کون سے گجروں کی بات کر رہی ہیں۔
مگر پھر جلد ہی اسے یاد آگیا تو ان کی غصے سے پھولی صورتیں دیکھتے ہوئے اٹکتے ہوئے بولا۔
اوہ اچھا۔۔۔۔وہ گجرے۔۔۔۔ہاں لایا ہوں ناں تم لوگ کوئی کام کہو اور میں نا کروں ایسا کبھی ہوا ہے کیا۔
اس نے آخر میں اپنی بتیسی دکھائی۔
اچھا تو پھر نکالو گجرے۔
سجل ہاتھ اس کے سامنے کرتی ہوئی گجرے مانگنے لگی۔اوہو ارے وہ تو میں گاڑی میں ہی بھول آیا تم لوگ رکو میں لے کر آیا۔
موحد انہیں اگلی بات کرنے کا موقع دیے بغیر گیٹ سے باہر نکل آیا۔
وہ دونوں گجرے لئے بغیر اسکا پیچھا چھوڑنے والی تو تھیں نہیں اس لئے گاڑی میں بیٹھا اور گاڑی گجروں کی دکان کی طرف بڑھا دی۔
۔**************************
روحاب کی ڈیوٹی کبھی دن کی ہوتی اور کبھی رات کی آج کا فنکشن چونکہ رات کا تھا اور ڈیوٹی دن کی تو اس لئے وہ ڈیوٹی پر چلا ہی گیا اور فنکشن شروع ہونے سے دس منٹ پہلے ہی گھر پہنچا۔
وہ لان میں کھڑا تھا جب اوپر سے کسی نے پھول برسائے۔
پھولوں کی خوشبو سے اس نے پہلے تو دو چھینکیں ماریں اور پھر نظریں اٹھا کر اوپر دیکھا جہاں سے پھولوں کی برسات ہوئی تھی اور وہاں اوپر کھڑی سجل مسکرا رہی تھی۔
روحاب کو لگا کہ شائد اس کی نظریں دھوکا کھا رہی ہیں کیوں کہ سجل اسے دیکھ کر ہمیشہ گھبراتی تھی نا کے مسکراتی تھی۔
اور آج تو مسکرانے کے ساتھ ساتھ پھول بھی برسائے گئے تھے۔
سجل کسی چیز سے ٹھوکر لگنے کی وجہ سے خود کو سنبھال نہیں پائی تھی اس لئے جا کر سیدھا گرل کے ساتھ لگی جس کی وجہ سے سارے پھول نیچے گر گئے۔
اوہو سجل تم بھی نا مہمانوں کا ویلکم دروازے پر کرنا ہے نا کہ ٹیرس پر۔
سجل خود سے ہم کلام ہوتی ہوئی مسکرانے لگی۔
اس نے نیچے دیکھا جہاں کوئی کھڑا تھا لان کے اس حصے میں لائٹیں بہت کم لگی تھیں جس کی وجہ سے سجل دیکھ نا سکی کہ وہ کون ہے۔
مگر پھر اس نے گرل پر تقریباً لٹکتے ہوئے نیچے غور سے دیکھا تو اسکا منہ کھلنے کے ساتھ ساتھ پھولوں والی خالی پلیٹ بھی اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔روحاب جلدی سے پیچھے ہوا کیوں کہ اگر وہ پیچھے نہیں ہٹتا تو وہ پلیٹ سیدھا اس کے سر پر آکر لگنے والی تھی۔
ہائے ربا پھول گرنے پر تو شائد وہ کچھ نا کہتے مگر اب تو بےعزتی پکی۔
اب کیا کروں۔
ہاں ایسا کروں گی کہ اگر کچھ کہا تو کہہ دوں گی کہ وہ میں تھی ہی نہیں۔
سجل خود کو ریلیکس کرتی ہوئی جلدی سے واپس مری اور سیڑھیاں اترنے ہی لگی تب ہی اس کی ٹکر کسی سے ہوئی۔
سامنے والے نے اسے گرنے سے پہلے ہی تھام لیا۔
سجل نے ڈر کے مارے سر ہی نا اٹھایا کہ کہیں یہ روحاب ہی تو نہیں۔
سجل کیا ہو گیا ہے دھیان سے چلو ناں۔
ارے زارون بھائی آپ۔۔۔شکر ہے آپ ہیں۔
سجل نے زارون کی آواز پر سر اٹھایا اور شکر کیا۔زارون نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور بولا.
 کیوں تم کیا سمجھی تھے کہ کون ہے۔زارون اسے ابھی تک بانہوں سے تھامے کھڑا تھا۔
میں سمجھی کہ شائد روحاب بھائی ہیں۔
تم روحاب سے اتنا ڈرتی کیوں ہو؟۔۔۔۔
کس نے کہا آپ سے میں بھلا کیوں ڈرنے لگی ان سے میں کوئی ڈرتی ورتی۔۔۔۔۔
کیا ہوا چپ کیوں ہوگئی۔
زارون نے اس سے پوچھنے کے بعد پیچھے دیکھا تو سمجھ گیا کیوں کے روحاب سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر آرہا تھا۔
زارون جو ابھی تک سجل کو تھامے کھڑا تھا جلدی سے ہاتھ پیچھے ہٹا لئے۔
جبکہ سجل کھڑی سوچ رہی تھی کہ بھاگ جاؤں یا کھڑی رہوں۔
زارون جلدی سے سیڑھیاں اترتا نیچے چلا گیا کیوں کہ فنکشن شروع ہو چکا تھا بس اسی کا انتظار تھا۔روحاب اب چلتا ہوا سجل کے پاس آیا اور بولا۔
لگتا ہے کہ تمہیں مجھ سے کوئی خاص دشمنی ہے جو کبھی مجھے فل میٹھا کھلا کر مارنے کی کوشش کرتی ہو تو کبھی میرا حلیہ بگاڑنے کی۔
کبھی جان بوجھ کر مجھ پر بارشیں برساتی ہو تو کبھی پھول جبکہ تم جانتی تو کہ مجھے گلاب سے سخت الرجی ہے۔
اور آج تو تم نے حد ہی کر دی آج تو سر ہی پھاڑنے والی تھی تم میرا وہ بھی موٹے کانچ کی وزنی پلیٹ سے جو کہ سیدھا میرے سر پر آکر لگنے والی تھی۔روحاب نے سجل کے آئے روز اس پر کیے جانے والے کارنامے اسے گنوائے۔
نہیں روحاب بھائی وہ میں تو نہیں تھی۔سجل نے سوچا سمجھا جواب اسے سنا دیا۔
اگر مجھے دکھائی نا بھی دیتا ہوتا تو بھی مجھے معلوم ہی تھا کہ وہ تمہارے علاوہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔کیوں کہ ایسے الٹے سیدھے کام کرنا صرف تمہارے ہاتھوں کو ہی پسند ہیں۔
اب جاؤ جلدی سے نیچے معارج کب سے تمہیں ڈھونڈ رہی ہے مگر تم یہاں کام بگاڑنے کے موقعے تلاش کر رہی ہو شائد۔
سجل کو یاد آیا کہ وہ معارج کو دو منٹ کا بول کر اوپر آئی تھی اور اب پورے دس منٹ ہوگئے تھے۔روحاب کے کہنے کی دیر تھی کہ سجل گرل کو تھامتی سیڑھیاں اترنے لگی تا کہ کہیں جلدی کے چکر میں وہ گر ہی نا جائے۔
******************************
روحاب بیٹا یہاں اوپر آؤ اسٹیج پر تم بھی رسم ادا کرو مہندی کی۔
پھپھو نے سب کے رسم کرنے کے بعد اسکو آواز دی جو اسٹیج سے تھوڑا سا فاصلے پر کھڑا تھا۔
اف پھپھو روحاب بھائی کو بھول نہیں سکتی تھیں کیا۔سجل منہ ہی منہ میں بڑبڑائی۔
جبکہ روحاب بھی کچھ ایسا ہی سوچ رہا تھا۔بہرحال وہ اسٹیج پر آیا۔
پہلے ابیہا اور سفیان کی مہندی کی رسم کی اور پھرزارون اورثانیہ کی طرف آیا۔
ثانیہ کا تو اسے دیکھ کر ہی منہ بن گیا۔روحاب نے ثانیہ کی طرف دیکھے بغیر رسم ادا کی اور وہاں سے اٹھ گیا۔
موحد کیمرہ لئے سب کی ویڈیو اور تصویریں بنا رہا تھا۔
روحاب اسٹیج سے نیچے اترنے لگا جب اسکا پاؤں مرا اور وہ گرنے لگا مگر تب ہی پاس کھڑی سجل نے اسے جلدی سے تھام لیا۔
اور یہی وہ لمحہ تھا جب موحد نے ان دونوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کیمرے میں کیپچر کر لیا۔
روحاب جب سیدھا ہوا تو سجل جلدی سے بولی۔
روحاب بھائی اب اس بات پر تو آپ بلکل بھی غصہ مت کرنا کیوں کہ اب میں نے کوئی کام خراب نہیں کیا بلکہ آپکو گرنے سے بچایا ہے۔
دیکھیں ناں اگر آپ گر جاتے تو آپکی کتنی بےعزتی ہوتی۔۔۔
میرا مطلب ہے کہ آپ تو شرمندہ ہو جاتے ناں اگر سب آپ پر ہنستے تو۔
سجل نے معصومیت سے اپنی طرف سے بڑے پتے کی بات بتا کر شاباشی لینے کی کوشش کی۔
"شٹ اپ"روحاب غصے سے بولا۔
سجل فوراً شٹ اپ ہوگئی۔
روحاب وہاں سے ہٹ گیا تو بولی۔
حد ہوگئی بھلائی کا تو کوئی زمانہ ہی نہیں رہا۔اور میں نے بھی بھلا کس سے بھلائی کر دی جسے بھلائی لفظ سے ذرا بھی آشنائی نہیں۔
ہونہہ اکڑو خان کہی کے۔
۔************************
فنکشن ختم ہونے کے بعد سب واپس آگئے۔
معارج اور انعم تو تھکن کی وجہ سے آتے ہی سو گئیں۔جبکہ سجل ابھی بھی جاگ رہی تھی۔
روحاب اپنا درد سے بھاری سر لئے چھت پر جانے لگا جب سیڑھیاں چڑھتا وہ دو سیڑھیاں پیچھے ہی رک گیا۔
کیوں کہ سامنے زارون اور ثانیہ ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے بلکل قریب کھڑے تھے۔
زارون کوئی آجائے گا اس لئے اب میں جانے لگی ہوں۔ثانیہ اس کے بازو ہٹاتی ہوئی واپس جانے لگی جب اس کی نظر سیڑھیوں پر کھڑے روحاب پر پڑی تو وہ واپس جانے کا ارادہ ترک کرتی ہوئی پھر سے زارون کی بانہوں میں آگئی۔
کیا ہوا تم تو نیچے جانے والی تھی ناں۔
ہاں بس پھر دل نہیں کیا تم سے دور جانے کا۔ثانیہ نے قدرے اونچی آواز میں کہا۔
روحاب غصے سے مٹھیاں بھینچتا ہوا نیچے آگیا۔جب سامنے سے آتی سجل نے اسے روکا اور بولی۔
روحاب بھائی آپ کہاں تھے کب سے آپکو ڈھونڈ رہی ہوں بڑے پاپا آپکو بلا رہے ہیں۔
مجھے ڈھونڈنے سے بہتر ہے کہ تم جا کر اپنی بہن کو ڈھونڈو اس اور نظر رکھو شرم و حیا سب بھلائے بیٹھی ہے۔
روحاب اسے یہ کہہ کر اسے تقریباً دھکا دیتے ہوئے سیڑھیاں اترتا بڑے پاپا کے کمرے میں چلا گیا۔
اب انہیں کیا ہوگیا۔
میں نازک سی گڑیا اور انہیں دیکھو کیسے دھکا دے کر چلے گئے مجھے۔
اور کیا کہہ رہے تھے یہ کہ اپنی بہن پر نظر رکھو۔نظر رکھنے کی کیا ضرورت ہے وہ تو اپنے کمرے میں ہیں۔سجل یہ کہتی ہوئی ثانیہ کے کمرے میں آئی مگر وہ وہاں نہیں تھی۔
ارے آپی تو یہاں نہیں ہیں روحاب بھائی تو چھت سے آرہے تھے کیا پتا آپی بھی وہیں ہوں اور پھر سے ان کے بیچ کوئی بات ہوئی ہوگی۔
سجل یہی اندازہ لگاتی ہوئی سیڑھیاں چڑھنے لگی مگر روحاب کی طرح وہ بھی دو سیڑھیاں پیچھے ہی رک گئی۔
صحیح کہہ رہے تھے روحاب بھائی شرم و حیا تو واقعی میں ختم ہوگئی ہے آپی میں اب میں کیا کہوں انہیں۔
سجل چپ چاپ بغیر کوئی آہٹ کیے سیڑھیاں اتر آئی۔اور اپنے کمرے میں آگئی۔
معارج خراٹے مارے سو رہی تھی۔
انعم کان پر کشن رکھے ادھر ادھر کروٹیں بدل رہی تھی۔
سجل نے بیڈ سے سرہانہ پکڑا اور صوفے پر آکر لیٹ گئی۔
کیوں کہ وہ بھی بہت تھک چکی تھی شادی کی تیاریوں کی وجہ سے نہیں بلکہ روحاب کی باتیں سن سن کر اور اب معارج کے خراٹوں کی وجہ سے اپنی نیند خراب نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اس لئے بیڈ سے قدرے دور پڑے صوفے پر سو گئی۔
*************************
جاری ہے

CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING


Comments