"سانس ابھی باقی ہے"
از "رابعہ اکرام"
قسط 3
کیا آپ کو عمام جعفر سے پانچ لاکھ روپے سکہ رائج الوقت
نکاح قبول ہے؟؟؟؟اس کے سامنے بیٹھا مولوی اس سے پوچھ رہا تھا اور اس کے ذہن میں اس
وقت وہ لمحہ یاد آ رہا تھا جب وہ انہی بولوں سے زرمیل سے جڑی تھی اور پھر اسے لگا
تھا کہ وہ ساری زندگی کے لیے اس سے جڑ گئی ہے مگر یہ دنیا ہے اور وہ بھول گئی تھی
کہ اس دنیا میں وقت کے ساتھ ساتھ سب بدل جاتا ہے چاہے وہ موسم ہو یا انسان۔۔۔
اس دفعہ اسے کوئی امید نہ تھی وہ صرف یہ سب طارم اور
اپنی حفاظت کے لیے کر رہی تھی
مبارک ہو عمام ۔۔باہر سے آواز آئی تو وہ خیالات میں سے
نکلی تھی وہ شاید اپنے دوست سے مل رہا تھا اب اس کے قدموں کی چاپ اسی طرف آ رہی
تھی وہ سنبھلی تھی
اس نے دروازہ کھولا تھا سامنے ایک صوفے سے کپڑا اٹھائے
طارم اور مروہ وہیں بیٹھی تھیں
میں کسی کام والی کو ارینج کر کے بھیجتا ہوں وہ گھر کی
صفائی کر دے گی۔۔وہ انہیں متوجہ پا کر بولا تھا
ہم خود کر لیں گے۔۔طارم بولی تھی
نہیں جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اسلام میں ہے کہ تم میں
سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کے لیے بھی وہ ہی پسند کرے جو وہ خود اپنے لیے پسند کرتا
ہے تو میں یہ اپنے گھر کی کسی عورت کے ساتھ برداشت نہ کرتا ۔۔اور رہی کاموں کی بات
میں اپنی بہن اور امی کو بھی یہ سب نہیں کرنے دیتا تو پھر تم لوگ کیوں؟؟؟؟
چلیں جیسی آپ کی مرضی۔۔
طارم اور عمام باتوں میں مصروف تھے جبکہ وہ اسی طرح بے
حس سی بیٹھی تھی
میں چلتا ہوں طارم تم زرا میری بات سنو ۔۔اس نے دروازے
سے ہی پلٹتے ہوئے اسے دیکھا تھا ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے وہ وہاں موجود ہی نہ ہو
جی بولیں۔۔
پہلی بات تم مجھے اپنا بھائی ہی سمجھ لو ۔۔۔دوسری یہ کہ
کام والی سے سارے گھر کی صفائی کروا لینا ۔یہ جو کمرہ ہے یہ تم اپنے مطابق سیٹ
کروا لینا کیونکہ تمہیں اب اسی کمرے میں رہنا ہے اور اپنی بہن کو بھی کہنا اپنی
مرضی سے سب کر لے میں کھانا لے کر آؤوں گا شام کو اور ساتھ میں کچھ کچن کی چیزیں
بھی لا دوں گا ۔۔۔وہ اسے لمبی تفصیل سنا کر پلٹا تھا اور قدم بڑھاتا ہوا دروازے سے
نکل گیا تھا
طارم کو اتنا سب کچھ ایک ساتھ مل گیا تھا اسے سمجھ نہیں
آ رہی تھی کہ وہ خوش ہو یا نا اس سب کے لیے جو قربانی مروہ نے دی تھی وہ تو کوئی
نہیں جانتا تھا
-------------
بھائی کیا بات ہے آپ جب سے آئیں ہیں بہت خاموش ہیں
ہاسپٹل تو سب ٹھیک تھا نہ۔۔صفا اسے خاموش دیکھ کر بولی تھی
کچھ نہیں بس آج کام بہت تھا تو تھکن ہو گئی ہے ۔۔چلو
میں چلتا ہوں شاید تھوڑا لیٹ ہو جاؤوں امی کو بتا دینا زین کے ساتھ جا رہا ہوں
کوئی کام ہے وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا
بھائی ابھی تو آئے تھے تھوڑی دیر آرام ہی کر لیں تھکن
دور ہو جائے گی آپ کی۔۔
ایک ہی بھائی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہو مجھے رینٹ
پہ تو نہیں لایا ہوا۔۔عصام لاؤنج میں داخل ہوا تھا
سڑیل لوگ آ گئے ہیں
بھائی آپ کہاں چلے؟؟؟؟وہ اسے نکلتے دیکھ کر بولا تھا
مجھے کام ہے میں وہیں جا رہا ہوں۔۔۔وہ کہتے ہی نکل گیا
اس مرتبہ وہ رکا نہ تھا اس نے طارم اور مروہ کے لیے کھانا اور کچھ سامان لے کر
جانا تھا اس نے اسی لیے جلدی نکلنے کی کوشش کی تھی
بھائی کو کیا ہوا ہے؟؟؟ویسے تو کبھی نہیں کہیں جاتے
ہاسپٹل سے آنے کے بعد ۔۔
اور کچھ پریشان بھی لگ رہے تھے۔۔صفا نے اضافہ کیا تھا
اللہ بہتر جانے کیا ہوا ہے؟؟؟؟عصام بھی ہاتھ پر ہاتھ
مارتا ہوا باہر نکل گیا تھا اب صفا رہ گئی تھی وہ واپس اپنے کام میں مصروف ہو گئی
تھی
----------------
سارے گھر کو صاف کروانے کے بعد مروہ بال کھولے تھکے
ہوئی لاؤنج میں پڑے صوفے پر لیٹی تھی اور طارم بھی اس کے پاس ہی بیٹھی تھی کہ
اچانک دروازہ کھلا تھا اور عمام اندر داخل ہوا تھا وہ اسے یوں اچانک دیکھ کر ہڑبڑا
گئی تھی اور اس نے فوراً بیٹھ کر اپنے ایک طرف پڑا دوپٹہ اُٹھایا تھا
اسلام و علیکم!!!!وہ بڑے سلیقے سے سلام کر رہا تھا
وعلیکم سلام۔۔۔طارم نے جواب دیا تھا
طارم تم دونوں فریش ہو جاؤ میں کھانا لگاتا ہوں۔۔وہ کچن
کی طرف بڑھا تھا
لائیں بھائی میں لگا دیتی ہوں آپ کیوں لگائیں گے۔۔اس نے
آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے چیزیں پکڑ لیں تھی
آپ بیٹھ جائیں میں لگا کر بلا لوں گی۔۔وہ اسے کہہ کر
کچن میں چلی گئی تھی وہ گھر اتنا بڑا تو نہ تھا مگر ان کے لیے وہ بہت بڑا تھا وہ
لڑکیاں جنہوں نے اپنے بچپن سے لے کر جوانی تک ساری عمر اسی چھوٹے سے مکان میں گزار
دی تھی وہ یہ نہ جانتی تھیں کہ زندگی کے کتنے پہلو تھے
وہ ہچکچاتا ہوا آ کر اس صوفے سے فاصلے پر پڑے ہوئے صوفے
پر بیٹھ گیا تھا ۔مروہ کو عجیب سا لگا تھا ۔۔کہنے کو تو وہ اس کا شوہر تھا مگر
کوئی خیال کوئی بات کچھ بھی تو نہ تھا کرنے کو
وہ ویسے ہی گم سم سی بیٹھی تھی کہ اس نے پہل کی تھی اب
اس سے یہ خاموشی برداشت نہیں ہو رہی تھی
کوئی مسلئہ تو نہیں ہوا؟؟؟میرا مطلب کام والی آ گئی
تھی؟؟؟اس کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ جھجھک رہا تھا
نہیں!!!مروہ نے محدود سا جواب دیا تھا اور پھر وہ ہی
خاموشی چھا گئی تھی
آپی آ جائیں کھانا لگ گیا ہے۔۔
تم لوگ کھاؤ مجھے بھوک نہیں ہے۔۔
آپی صبح سے آپ نے کچھ نہیں کھایا آ جائیں۔۔۔
تھوڑا سا کھا لو۔۔عمام بولا تھا
کہہ دیا ہے کہ نہیں کھانا تو نہیں کھانا کیا مسلئہ ہے
تم لوگوں کے ساتھ۔۔وہ چینخی تھی تو وہ دونوں ایک دم سنبھل گئے تھے
آپی کیا ہوا ہے؟؟؟طارم اس کے رویے پر حیران ہوئی تھی
کیونکہ وہ اتنی بدلحاظ کبھی نہ تھی
مجھے قبرستان جانا ہے۔۔۔مجھے قبرستان جانا ہے
صبح چلیں گے ابھی رات ہو رہی ہے طارم نے بات ٹالنے کی
کوشش کی تھی مگر اس کی ضد اٹل تھی
مجھے ابھی جانا ہے۔تم لوگ رہو یہاں میں جا رہی ہوں۔۔وہ
اپنا دوپٹہ سیدھا کر کے دروازے کی جانب بڑھی تھی
طارم تم یہیں رکو میں اسے لے جاتا ہوں ۔۔تم فکر نہ کرنا
سکیورٹی گارڈ ہے باہر۔۔وہ بھی اس کے پیچھے لپکا تھا
چلیں وہ گاڑی کے پاس آ کے دروازہ کھولے کھڑا تھا مروہ
فوراً اندر بیٹھ گئی تھی عمام اب گاڑی کو لے کر نکل چکا تھا وہ سارا راستہ خاموش
بیٹھی تھی
کونسی قبرستان جانا ہے؟؟؟؟؟اس نے پوچھا تھا مگر کوئی
جواب موصول نہ ہوا تھا
مروہ!!!اس نے اسے پھر سے بلایا تھا اور اس دفعہ وہ مڑی
تھی
قبرستان ؟؟؟؟
یہ ادھر سے مڑ کے آگے والا۔۔۔وہ اتنا ہی بولی تھی اور پھر وہ ہی خاموشی
---------------
مروہ آرام سے۔۔وہ قبرستان میں جاتے ہی لپکی تھی وہ
دونوں قبروں کے قریب بیٹھی تھی مگر کی اس کی آنکھوں میں کوئی آنسو نہ تھا
وہ اس کے قریب ہو کر کھڑا ہو گیا تھا اسے اس اندھیری
قبرستان سے ڈر نہ لگ رہا تھا
آئیں۔۔ادھر اس طرف۔۔اس کا سسر کسی مرد کو لیے اسی طرف آ
رہا تھا اور اس نے مروہ کو دیکھ بھی لیا تھا اسے لگا تھا مروہ اُٹھ کر ایک طرف ہو
جائے گی مگر وہ وہیں بیٹھی رہی تھی جب اس کی نظر عمام پر پڑی تو انہیں تو جیسے
بولنے کا موقع ملا تھا
دیکھ لو اس عورت کے تیور ۔۔زرمیل کی اماں بلکل ٹھیک
کہتی تھی کہ اس نے اپنے عاشق پیچھے چھوڑے ہوئے تھے دیکھو کیسے اپنے عاشق کے ساتھ
گھوم رہی ہے ۔۔ہے اس میں کوئی شرم یا لحاظ۔۔۔وہ بولتے گئے تھے مگر مروہ ہلی تک نہ
تھی شاید اسے ان سب باتوں کی عادت ہو چکی تھی
انکل آپ کو کوئی حق نہیں ہے ایسے بولنے کا ۔۔۔
اچھا تو اب اس کے عاشق بھی اس کی حمایت میں بولیں گے
واہ کیا طریقہ ہے پھسانے کا۔۔
کونسا عاشق؟؟؟؟مروہ میری بیوی ہے آپ کو کوئی حق نہیں اس
کے بارے میں کچھ بھی بولنے کا ۔۔اس سے اب یہ باتیں اور برداشت نہ ہو رہی تھیں
اچھا تو اب اس کی نحوست تمہارا مقدر ہے۔۔۔پہلے تو اس نے
ہمارے بچے کی جان لی اور پھر اپنے بچے کو بھی نہ بخشا ہمارے پیچھے سے اسے بھی مار
دیا اور پھو جب ہم نے اس نحوست کو اپنے گلے سے اتار پھینکا تو یہ اپنی ماں کو لے
ڈوبی ۔۔۔
بس کریں ۔۔ابھی تو میں لحاظ کر رہا ہوں یہ نہ ہو کہ میں
اپنے اس دائرے کو بھی توڑ دوں ۔۔وہ طیش میں آ گیا تھا
لو جی اب یہ بھی ہمارے گلے پڑیں گے۔۔۔دیکھ لینا تمہیں بھی
نہ ڈبو دے یہ نحوست۔۔۔
چلو مروہ اس نے نیچے ہو کر مروہ کا ہاتھ پکڑا تھا اور
اسے اٹھا کر چل دیا تھا مروہ اس کے پیچھے پیچھے چلتی گئی تھی اور اس نے اس کا ہاتھ
گاڑی میں بٹھا کر ہی چھوڑا تھا اسے خود کو نارمل کرنے میں چند سیکنڈ لگے تھے اس نے
یہ سب ایکسپیکٹ نہیں کیا تھا اور نہ وہ اس حقیقت سے واقف تھا
اس نے گاڑی کو وہاں سے نکالا تھا اور وہاں سے کچھ فاصلے
پر جا رکا تھا
تم بیٹھو میں پانی لے کر آتا ہوں ۔۔وہ نکلنے لگا تھا کہ
اس نے عمام کے ہاتھ کو پکڑا تھا
میں اکیلی نہیں رکوں گی ۔۔وہ بولی تھی اس کے لحجے سے
اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ ڈر چکی تھی
چلو پھر میرے ساتھ ۔۔اس نے اسے آفر کی تھی مگر اس نے
ہاتھ نہ چھوڑا تھا
میں یہیں رہوں گی آپ گاڑی کو لاک لگا کر چلے جائیں۔۔۔وہ
باہر بھی نہ جانا چاہتی تھی اسے باہر کی رونق سے شدید نفرت تھی
جیسے تمہاری مرضی ۔۔دیکھ لو میں ویسے جلدی آ جاؤوں
گا۔۔وہ گاڑی کو لاک کر کے چلا گیا تھا
یہ لو ۔۔۔اس نے پانی کی بوتل اس کی طرف بڑھائی تھی مگر
اس نے تو جسے سنا ہی نہ تھا
مروہ!!! اس نے جواب نہ ملنے پر اسے ہلایا تھا مگر وہ
نیم بےہوشی میں پڑی تھی
مروہ!!!!اس نے اس کے چہرے کو ہلایا تھا مگر وہ ہلی نہ
تھی اس نے فوراً ہاتھ اس کی نبض پر رکھا تھا جو آہستہ آہستہ چل رہی تھی
مروہ !!!آنکھیں کھولو ۔۔اس نے پانی کی کچھ بوندیں اس کے
چہرے پر پھینکی تھیں تو اس نے ہلکی سی آنکھیں کھولی تھی
دیکھو اب تم آنکھیں کھلی رکھو گی ۔۔بند نہیں
کرنی۔۔نہیں۔۔ کھولو۔۔ اس نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی تھی مگر اس کی آنکھیں کھل ہی
نہ رہیں تھیں
وہ اسے اسی وقت گھر لے آیا تھا اور وہ ابھی بھی نیم
بےہوشی میں پڑی تھی
اس نے اس کے بازؤوں کو اپنی کندھے ے لپیٹا تھا اور اسے
اندر لے آیا تھا
کیا ہوا آپی کو؟؟؟؟طارم اسے عمام کے سہارے پر آتے دیکھ
کر گھبرا گئی تھی
کچھ نہیں تم فکر نہ کرو ابھی ٹھیک ہو جائے گی۔۔وہ سیدھا
اسے کمرے میں لے آیا تھا اور اپنی چیزیں لے کر کمرے میں آیا تھا
اس کا بلڈپریشر بہت کم ہے۔۔تم جاؤ اس کے کھانے کے لیے
کچھ لاؤ۔۔عمام نے اس کے ناک کو پکڑا تھا اور سانس بند ہونے سے اسے ہوش آیا تھا
رکو زرا آرام سے۔۔۔اس کی اٹھنے کی ناکام کوشش دیکھ کر
وہ بولا تھا
میں ٹھیک ہوں آپ جائیں۔۔۔
وہ تو مجھے اچھے سے دِکھ رہا ہے کہ تم کتنی ٹھیک
ہو۔۔آخر کو میں بھی تو ڈاکٹر ہوں۔۔وہ ہنسا تھا
طارم اسے کھانا کھلا دو ۔۔وہ بیڈ سے اُٹھ کر سامنے پڑے
صوفے پر بیٹھ گیا تھا اب اس کا ذہن پیچھے کو جا رہا تھا اسے وہ ساری باتیں یاد آ
رہیں تھیں جو مروہ کے سسر نے کی تھیں۔۔۔
نحوست ۔۔یہ کیسا لفظ تھا اسے لگتا تھا کہ یہ لفظ انسان
کی ایجاد ہے اور اس طرح کا کوئی وجود اس کائنات میں موجود نہیں جو کسی دوسرے کی
جان لینے کا باعث ہو کچھ کیے بغیر۔۔یہ سب صرف انسان کی بنائی ہوئی باتیں تھیں اور
کچھ نہیں ۔۔
آپی کھا لو کیا ہے؟؟؟بچوں جیسی ضد مت کرو اب تو قبرستان
سے بھی ہو آئی ہو۔۔وہ چڑ کر بولی تھی
جو ہو ہی بچی اس نے تو بچوں والی ہی ضد کرنی ہے
نہ۔۔عمام بولا تھا
توبہ عمام بھائی اب اتنی بچی بھی نہیں ہے آپی ۔۔بیس
سالوں کی تو ہونے کو آئی ہے ابھی بھی یہ بچی ہے طارم نے فوراً اندازہ لگا کر بتا
دیا تھا
میرے آگے تو بچی ہی ہے نہ۔۔وہ جان بوجھ کر بولا تھا
آپ چار سال ہی تو بڑے ہیں آپی سے زرمیل بھائی تو پورے
دس سال بڑے تھے وہ بولی تو پہلے تو عمام حیران ہوا مگر ساتھ ہی اسے جیسے زرمیل کا
نام کیوں ہر طرف سنائی دینے لگا تھا۔۔۔
چھوڑو یہ ساری باتیں تم اسے کھانا کھلا کر یہ والی
میڈیسن دے دینا میں باہر لاؤنج میں بیٹھا ہوں۔۔وہ بات کو بدلتے ہوئے کمرے سے نکل
گیا تھا اسے اس گھر میں بہت معمولی سی تبدیلی نظر آئی تھی اتنی مشکل میں وہ کبھی
نہ رہا تھا جتنی کشمکش میں وہ آج تھا یہ سب بھی اسی دنیا کا حصہ ہے اسے کبھی
اندازہ ہی نہ ہوا تھا وہ شروع سے پڑھے لکھے گھرانے میں سے تھا اسے ہر سہولت میسر
تھی پھر بھی وہ پتھر دل نہ تھا
اس نے اپنے اردگرد نظر دوہرائی تھی یہ وہ ہی گھر تھا جو
صبح تک ایک ویرانہ تھا اب وہ ایک مکان سے گھر لگ رہا تھا
--------------
فاخرہ نکل بھی آؤ۔۔زبیر باہر کھڑا آوازیں دے رہا تھا
آ گئی ہوں بھائی۔۔ فاخرہ باہر نکلی تھی اور صفا اسے
دیکھتی ہی رہ گئی تھی اس نے لائنر کے لمبے لمبے سٹروک لگائے ہوئے تھے اس نے بالوں
کا سٹائل بنایا ہوا تھا اور یہ نیل پینٹ لشکارے مار رہا تھا
اللہ خافظ صفا۔۔
اللہ حافظ !!!!گڈ لک فار دی فرسٹ ڈے
سیم ٹو یو۔۔۔وہ زبیر کے پیچھے بیٹھی اور چلی گئی تھی
صفا عصام کے ساتھ جا رہی تھی جا تو وہ بھی کالج ہی رہی تھی مگر اس کے حالات مختلف
تھے اس نے سوائے بالوں کو سنوارنے کے کچھ نہ کیا تھا اسے اس سب کا ہر گز شوق نہ
تھا
توبہ اس کے ٹھاٹھ باٹھ تو دیکھو ایسے جیسے اپنے ولیمے
پر جا رہی ہو۔۔۔عصام وہاں سے نکلتے ہی بولا
بس کیا کر سکتے ہیں اپنی اپنی سوچ ہے سب کی۔۔کالج جانا
ہے کسی فیشن شو میں نہیں جو اتنا تیار ہو کہ جائیں۔۔پتہ نہیں یہ زبیر بھائی کی
شادی میں کیا کرے گی ۔۔
زکوٹا جن کا عکس نظر آئے گا اس میں۔۔۔۔عصام نے زور کا
قہقہ لگایا تھا
بدتمیز۔۔ایسے نہیں بولتے۔۔صفا نے اپنے دانت چھپاتے ہوئے
اسے چپت لگائی تھی
اور کیا دیکھ لینا اس کے سارے خاندان میں اسی کے چرچے
ہوں گے۔زبیر بھائی کے سسرال والے تو سادہ سے ہیں وہ تو کچھ کرنے والے نہیں ہیں ۔۔
دیکھو کیا ہوتا ہے اب۔۔۔
عصام نے اسے کالج کے باہر اتارا تھا اور خود یونیورسٹی
کے لیے نکل گیا تھا ۔اس کا یونیورسٹی میں پہلا سال تھا جبکہ صفا اس سے دو سال
چھوٹی تھی وہ ابھی گیارہویں جماعت میں تھی
----------------
طارم تم لوگوں نے ناشتہ کر لیا ہے۔۔وہ کچن کی طرف بڑھتے
ہوئے بولا تھا
نہیں کہاں کیا ہے ناشتہ آپی کمرے سے نکلنے کو تیار ہی
نہیں ۔۔اسی لیے میرا بھی دل نہیں کیا
یہ کیا بات ہے؟؟؟؟بلاؤ مروہ کو باہر آئے وہ بھی ۔۔۔
طارم کمرے کی طرف فوراً بڑھی تھی اور کچھ ہی لمحوں میں
واپس نکل آئی
وہ نہیں آ رہی اب میں کیا کر سکتی ہوں۔وہ جیسے تھک گئی
تھی
تم ناشتہ لگاؤ میں بلاتا ہوں ۔۔وہ کمرے کی طرف بڑھا تھا
آپ ناشتہ کے لیے آ جائیں ۔۔وہ ڈرتا ہوا بولا تھا
مجھے بھوک نہیں ہے۔۔اس نے منہ پھیرے ہوئے جواب دیا تھا
ٹھیک ہے نہیں ہے نہ آپ کو بھوک تو پھر میں آپ کو ہاسپٹل
لے جاتا ہوں وہاں آپ کا علاج ہو گا تو آپ کو بھوک لگنا شروع ہو جائے گی۔۔
مجھے کہیں نہیں جانا۔۔۔
کہیں مت جائیں لیکن باہر تو آ جائیں۔۔ہم آپ کا انتظار
کر رہے ہیں ۔
مت کریں انتظار میں نہیں آنے والی۔۔۔وہ پلٹنے ہی والا
تھا
کہ وہ بولی تھی توبہ کتنی ضدی لڑکی ہے اتنا ضدی تو عصام بھی نہ تھا
چلیں پھر جیسے آپ کی مرضی میں چلتا ہوں میرے پاس ویسے
بھی اتنا وقت نہیں ہے کہ ضائع کروں۔۔وہ کمرے سے نکلا تھا
اکڑ تو کہیں ٹھہرتی ہی نہیں۔۔۔وہ اسی برے سے منہ کے
ساتھ بولی تھء
طارم تمہاری گاڑی کا کل انتظام ہو جائے گا تم کالج کو
دوبارہ جاری رکھو ۔۔۔مروہ کی جو مرضی ہو وہ کر سکتی ہے مگر اس طرح گھر میں نہیں
رہے گی وہ اب۔۔۔۔اسے بتا دینا میں چلتا ہوں چیزیں لے آیا تھا پکا لینا جو دل
چاہے۔۔ شاید چکر لگاؤوں لیکن زیادہ وقت کے لیے نہیں آ سکتا میں ۔۔۔
کوئی بات نہیں میں آپی کو کسی کام میں لگاؤوں گی
۔۔۔کوشش ہی کر سکتی ہوں میں۔۔۔
کوشش ہی کیوں دھمکی لگانا اسے ۔۔وہ ہنستہ ہوا نکل گیا
تھا
--------------
صفا چلو آؤ ہمارے گھر یار سب آ رہے ہیں ڈھولک رکھیں گے
آج ہم۔۔۔وہ اسے کھینچ رہی تھی
آئی بس دو منٹ رکو۔میں زرا جوتا چینج کر لوں۔۔وہ اپنی
الماری کی طرف بڑھی تھی
چلو جی اب تمہاری باری ہے دیکھ لو مجھے اتنے سارے کام
ہیں تم نے ہی کروانے ہیں ۔۔کوئی بہانہ وہانہ نہیں چلے گا۔۔۔
اچھا اچھا کروا لو کوئی بات نہیں۔۔چلیں۔۔وہ تیار کھڑی
تھی
وہ ان کے گھر گئی تو وہاں کوئی رشتے دار موجود نہ تھا
لیکن اس کے جانے کے چند لمحوں بعد ہی سب نے آنا شروع کر دیا تھا فاخرہ کا خاندان
بہت بڑا تھا وہ سب مل جاتے تو کسی شادی کا سا ماحول محسوس ہوتا تھا
بلے بلے نی ٹوڑ پنجابن دی ۔۔
بلے بلے۔۔۔۔۔۔
جوتی کھلدی مڑوڑاں نہیں چلدی دی ٹوڑ پنجابن دی۔۔
سب بچوں کی مائیں ڈھولک کی تھاپ پر ٹپے گانے میں مصروف
تھیں جبکہ اس کے کزن سب ایک کمرے میں محفل جمئے بیٹھے تھے صفا باہر ہی سب کے
درمیان بیٹھی تھی
صفا !!!پانی تو پلاؤ مجھے۔۔کسی نے اسے کہنی ماری تھی
اور وہ پہچان گئی تھی وہ فاخرہ کی ممانی تھیں ان کا آنا جانا ہوتا رہتا تھا جس کہ
وجہ سے ان کی صفا سے کافی جان پہچان تھی
جی آنٹی ابھی لاتی ہوں ۔۔۔وہ فوراً اٹھی اور چل دی تھی
فاخرہ تم کب پارٹی دے رہی ہو کالج کی جلدی بتاؤ۔۔۔کچن
میں سے آوازیں آ رہیں تھیں وہ سب کی آوازیں پہچانتی تھی اس کا سب سے اچھا خاصہ
تعارف تھا اس کا اندر جانے کا دل تو نہ چاہا مگر ناچاہتے ہوئے بھی اسے اندر جانا
پڑنا تھا اسی لیے وہ آگے بڑھی اور جوتوں کی آواز کرتی ہوئی کچن میں داخل ہوئی تا
کہ سب کو معلوم ہو جائے کہ کوئی آرہا ہے
اسلام علیکم !!!وہ اندر داخل ہوئی تو اس کے کانوں میں
جانی پہچانی آواز پڑی تھی
وعلیکم سلام۔۔کیسی ہو زینی تم؟؟؟؟
فٹ فاٹ تم سناؤ بڑے دیر بعد دکھائی دی ہو۔۔
میں نہیں تم یر بعد آئی ہو۔۔۔اسمائیل ساری باتیں چھوڑ
کر اسی کی طرف متوجہ تھا اور اسے اسی چیز سے الرجی تھی اسے لڑکوں کی صحبت سے شدید
قسم کی نفرت تھی
چلیں باہر آنٹی نے پانی مانگا تھا اس نے فوراً فرار کا
راستہ ڈھونڈا تھا
------------------
کون؟؟؟؟
سر میں ہوں۔۔۔کوئی بڑے سلیقے سے بولا تھا مگر وہ پہچان
نہ پایا تھا کہ چھٹی کے وقت کون آ سکتا ہے اس سے ملنے۔۔
وہ اندر داخل ہوئے تھے تو وہ فوراً پہچان گیا تھا وہ اس
دن والا وہ ہی شخص تھا جو انہیں قبرستان میں ملا تھا اور جس کی زبان مروہ کی
برائیاں کرتے ہوئے نہ تھکتی تھی
جی آئیں ۔۔اس کا دل تو نہ چاہا مگر اس نے مروتً انہیں
آنے کا کہا تھا
مجھے آپ سے ایک کام تھا۔۔وہ بیٹھتے ہی مدعے پہ آئے تھے
جی بولیں اب کونسا کام باقی رہ گیا ہے؟؟؟
میں نے آپ کو کچھ بتانا تھا
بولیں۔۔۔
آپ نے مروہ سے شادی تو کر لی ہے لیکن اس کے بہت سے
لڑکوں سے چکر تھے اور آپ یقین کریں اس نے اپنے بیٹے کی جان خود لے لی تھی اسے چھوڑ
کر وہ خود کہیں چلی گئی تھی پیچھے سے وہ بیچارہ دم توڑ گیا ۔۔۔انہوں نے کہانی
سنانی شروع کی تھی
اچھا تو آپ لوگوں نے اسے نکال دیا وہ بھی آدھی رات کو
۔۔
کیا آپ یہ سب اپنی بیٹی کے لیے پسند کرتے ہیں جو آپ نے
اس کے ساتھ کیا ہے؟؟؟؟
ہم نے کچھ نہیں کیا ہم نے تو اسے اپنایا تھا مگر وہ ہی
نہ ہمیں اپنا سکی ۔۔
بس کریں جو کچھ بھی تھا خدا بہتر جانتا ہے آپ مجھے یہ
سب کیوں بتا رہے ہیں؟؟؟؟وہ حیران تھا
وہ جی میں نے سوچا ہمیں تو وہ برباد کر گئی ہے آپ کو
میں بتا دوں تو شاید آپ بچ جائیں۔۔۔
شکریہ بہت بہت آپ کا ۔۔۔آپ کا یہ احسان میں کبھی نہیں
بولوں گا۔۔اب آپ جا سکتے ہیں۔۔اس نے دروازے کی طرف اشارہ کیا تھا
وہ شخص تو وہاں سے چلا گیا تھا مگر پیچھے نہ جانے کتنی
سوچیں چھوڑ گیا تھا
سوچ انسان کی سب سے طاقتور صلاحیت ہے جسے اگر صحیح
معنوں میں سوچا جائے تو آپ کو بلندیوں پر پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔۔لیکن اگر
اسی کو برے معنوں میں سوچا جائے تو پھر آپ کو بربادی سے کوئی نہیں بچا پاتا۔۔۔۔۔۔
----------------
واہ طارم مجھے تو لگتا ہے آج کچھ خاص پکا ہے۔۔۔وہ خوشبو
بھانپتے ہوئے بولا تھا
کچھ خاص تو نہیں لیکن عام سی چیز ضرور پکائی ہے۔۔۔
اچھا وہ کیا ؟؟؟
پلاؤ بنایا ہے ۔۔
چلو کچھ تو پکایا ہے ۔۔میں یہ کچھ چیزیں لایا تھا اور
تمہیں بتانا تھا کہ گاڑی کا انتظام ہو گیا ہے تم جب سے چاہو جوائن کر سکتی
ہو۔۔۔اور ڈرائیور ہر وقت یہیں ہو گا تم لوگ کہیں آیا جایا بھی کرو۔۔یوں گھر رہنے
سے تو زندگی نہیں گزرے گی
آپ بیٹھ جائیں کھانا کھاتے ہیں ساتھ۔۔
نہیں مجھے گھر جانا ہے سب ویٹ کر رہے ہوں گے ڈنر پر۔۔۔
چلیں چکھ لیں بس دس منٹ اس سے زیادہ نہیں روکوں گی۔۔۔
چلو لاؤ دیکھوں تو کیا پکایا ہے تم نے۔۔۔وہ کچن کی طرف
بڑھی تھی اور عمام وہاں سے چلتا ہوا لاؤنج میں پڑے صوفے پر بیٹھ گیا تھا
یہ لیں جی پیش ہے پلاؤ۔۔۔اس نے ٹرے کے ساتھ چند ضرورت
کی چیزیں رکھیں تھیں عمام نے ہاتھ بڑھا کر
چمچ سے تھوڑے سے چاول ڈالے تھے چمچ منہ میں ڈالتے ہی اسے اندازہ ہوا تھا کہ
یہ کسی تجربہ کار کے ہاتھوں کا ہے
وہ کمرے میں گم سم بیٹھی مسلسل آسمان کو دیکھے جا رہی
تھی وہ جس شخص سے کچھ دن پہلے جڑی تھی وہ کیا تھا اس کی تمام ضرورتیں تو پوری کر
رہا تھا مگر وہ اس کی سب سے بڑی ضرورت کو پورا نہ کر سکا تھا اور وہ تھا اس کا
اکیلا پن۔۔۔
وہ یونہی کھوئی تھی کہ دروازہ کھلا تھا اور وہ اپنے
خیالات سے نکلی تھی
مجھے کچھ بات کرنی تھی آ جاؤوں۔۔اس نے منہ اندر کیے
پوچھا تھا
جی ۔۔اسے یاد آ گیا ہے کہ میں بھی اسی گھر میں ہوں۔۔۔وہ
اپنا دوپٹہ سیدھا کرتی ہوئی سوچ رہی تھی
تم کیا کرو گی ؟؟؟؟میرا مطلب اب تم گھر اکیلی تو نہی
رہو گی اگر تم کہو تو تمہارا ایڈمیشن کروا دوں کالج میں۔۔۔۔وہ خود ہی رائے دینے
لگا تھا
نہیں مجھے کچھ نہیں کرنا میں گھر رہ لوں گی ۔۔
ایسا نہیں ہو گا تمہیں کچھ تو کرنا ہو گا۔۔۔تم کیا کرنا
چاہتی ہو۔۔۔وہ بیڈ سے دور موجود صوفے پر بیٹھا پوچھ رہا تھا
کچھ نہیں میں بس اب اسی کمرے میں رہنا چاہتی ہوں ۔۔۔صرف
تنہائی چاہتی ہوں اور سب سے اہم جلد ہی مرنا چاہتی ہوں ۔۔کر سکتے ہیں کچھ تو بتا
دیں ورنہ میں خود ہی سب کر لوں۔۔۔اس کی آنکھوں کا سمندر اب ٹھاٹھیں مارتا ہوا باہر
نکل گیا تھا آج ناجانے کتنے ہی دنوں کے بعد اس کی خشک آنکھیں تر ہوئیں تھیں
مروہ تم ہر گز ایسا نہیں کرو گی۔۔وہ اس کی بات پر اچھلا
تھا
میں ایسا ہی کروں گی دیکھ لینا۔۔۔دیکھ لینا تم سب ۔۔میں
ایسا ہی کروں گی ۔۔۔مجھے نہیں جینا۔۔مجھے نہیں جینا ۔۔اس کی آواز مدھم ہوئی تھی
اور اس کے آنسوؤں کی رفتار بڑھ گئی تھی
کیا تم نہیں جانتی کہ اسلام میں خودکشی حرام ہے ۔۔اور
ہاں کسی ایک یا دو کے مر جانے سے زندگی ختم نہیں ہوتی ہمیں آخری سانس تک جینا پڑتا
ہے اور تم بھی جیو گی کیونکہ سانس ابھی باقی ہے۔۔۔۔
تو کیا یہ اسلام میں جائز ہے کہ ایک عورت کو دھتکارا
جائے صرف اس لیے کہ اپنے بیٹے کی موت کے وقت وہ گھر نہیں تھی۔۔۔کیا یہ جائز ہے کہ
ایک عورت کو آدھی رات کو فقط الزاموں کے تحت گھر سے نکال دیا جائے۔۔۔عورت ہی
کیوں؟؟؟؟وہ بچوں کی طرح رو رہی تھی عمام کی آنکھوں میں آنسو تھے مگر وہ انہیں چھپا
گیا تھا
سب ٹھیک ہے لیکن مرنے کی بات نہیں کرو گی تم۔۔۔
مروں گی میں ۔۔میری روح کو پھر ہی سکون آئے گا ۔۔میں مر
جاؤوں گی ۔۔تم بھی جاؤ اس سے پہلے کہ میری منحوسیت تم پر اثر کرے چلے جاؤ یہاں
سے۔۔۔
نہیں جاؤوں گا میں یہاں سے ۔۔۔اسے پہلے والی حماقت ابھی
تک یاد تھی جس حماقت نے اسے اس لڑکی سے ملوایا تھا اور وہ جانتا تھا کہ وہ کچھ کر
گزرنے کا حوصلہ رکھتی ہے
میں تمہیں ماروں گی اگر تم یہاں سے نہ گئے تو۔۔۔وہ ضد
پر تھی عمام صوفے سے اٹھا تھا اور بیڈ پر آ کے اس کے پاس بیٹھ گیا تھا
میں نے کہا ہے نہ دفع ہو جاؤ۔۔سمجھ نہیں آتی تمہیں۔۔وہ
اب اس کے سینے پر اپنی مٹھیاں بند کیے وار کر رہی تھی
مار لو جتنا مرنا ہے مار لو لیکن میں نہیں جاؤوں
گا۔۔۔وہ بھی ڈھیٹ بن کر بیٹھ گیا تھا مگر کچھ ہی لمحوں میں مروہ کے ہاتھ رکے تھے
اور وہ پھر زور سے بچوں کی طرح رونے لگی تھی
مروہ ۔۔ایسے کرتے ہیں۔ عمام نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑے
تھے
تم بھی کہو میں ایک بد کردار عورت ہوں ۔۔کہو ۔۔۔خاموش
کیوں ہو تم؟؟؟میرے ہزاروں عاشق ہیں۔تم نے کیوں مجھے اپنایا چھوڑ دیتے اس بڈھے کے
پاس کم از کم مر تو جاتی ۔۔۔
مروہ بس کرو ۔۔اس نے اس کے آنسو صاف کیے تھے اس کی
آنکھیں سرخ ہو چکیں تھیں اور کمزور تو وہ پہلے ہی تھی وہ کسی بھی طرح سے چھوٹی نہ
لگتی تھی اسے شاید زندگی نے وقت سے پہلے بڑا کر دیا تھا
مر جاؤوں گی میں۔۔۔مروں گی تو نحوست کا سایہ ختم ہو
جائے گا سب کی زندگیوں سے۔۔۔
مروہ۔۔بچوں جیسی باتیں مت کرو دیکھو طارم کا کون ہے
تمہارے سوا اگر تم مرنے کی باتیں کرتی رہو گی تو وہ کیا کرے گی ۔۔اس کا کون بنے گا
تم تو جانتی ہو کہ یہ دنیا بہت ظالم ہے اس کے ساتھ اگر سختی سے پیش آئیں تو ہی یہ راس
آتی ہے۔۔تم کسی کی فکر مت کرو تمہیں بس اپنی فکر کرنی ہو گی طارم کی فکر کرنی ہو
گی ۔۔تم اپنی جگہ خود بنا سکتی ہو اور تم بری نہیں ہو برے وہ لوگ ہیں جو تمہیں برا
سمجھتے ہیں ۔۔اور تمہیں کوئی بدکردار نہیں کہہ سکتا ۔۔تم میری بیوی ہو۔۔ڈاکٹر عمام
جعفر کی تمہیں جو برا کہے گا اس کا زبان نکال دوں گا۔۔۔کہیں نہ کہیں اس کی زندگی
اس سے جڑ چکی تھی اور وہ اس کی عزت تھی جس کی خفاظت کرنا بھی اسی کی ذمہ داری تھی
***************
جاری ہے
CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING
Comments
Post a Comment