"سانس ابھی باقی ہے"
از "رابعہ اکرام"
قسط 2
اسلام و علیکم!!کیسی ہیں آپ؟؟؟وہ کمرے میں داخل ہوا تھا
کمرہ کافی چھوٹا تھا مگر ایک مریض کے لیے کافی تھا
امی عمیر!!!عمیر کو بلائیں مجھے اس سے ملنا ہے ۔۔مجھے
عمیر کے پاس لے جائیں ۔۔وہ بولی جا رہی تھی ضرور وہ ہی لڑکا ہو گا جس کے لیے اس نے
خودکشی کی کوشش کی۔۔عمام کے ذہن میں پہلا خیال یہی آیا تھا
آپ عمیر کو بلا دیں ان کی جلد صحت یابی میں کارآمد رہے
گا یہ۔۔اس نے اس کی مسلسل پکار سن کر کہا تھا
کہاں سے بلاؤں میں عمیر کو؟؟ ڈاکٹر صاحب اس کا انتقال
ہو چکا ہے
اوہ سوری۔۔۔وہ جیسے شرمندہ ہوا تھا
امی عمیر نہیں مرا وہ زرمیل کے پاس گیا ہے مجھے بھی
وہیں جانا ہے ۔۔امی مجھے بھی وہیں جانا ہے ۔۔کیوں بچایا مجھے آپ نے۔۔اس کی آنکھیں
مسلسل رو رہیں تھیں
بیٹا وہاں جانا آسان نہیں ہے ۔۔۔انہوں نے اس کے پاس
بیٹھتے ہوئے کہا تھا
وہ تو آسانی سے چلے گئے ہے مجھے اس دنیا میں اکیلے چھوڑ
کر۔۔وہ جیسے گِلہ کر رہی تھی
بیٹا دراصل اس کے شوہر کا انتقال ہو گیا تھا سال پہلے
اور اب اس کے ایک سال کے بیٹے کا انتقال ہو گیا ہے بس اسی لیے اس کی دماغی حالت
ٹھیک نہیں رہی۔۔انہیں لگا تھا کہ انہیں سب کچھ ڈاکٹر کو بتانا چاہیے شاید اس کا
کوئی حل ہو
اس کا شوہر۔۔اس کو بیٹا ۔۔عمام کو تو جیسے یہ سب سن کر
جھٹکا لگا تھا وہ سمجھ نہ پا رہا تھا کہ یہ سب کیا تھا وہ اتنی کم عمر تھی کہ اسے
دیکھ کر کوئی بھی یہ نہ کہہ سکتا تھا کہ وہ شادی شدہ تھی اس نے کتنا غلط اندازہ لگایا تھا اسے شرمندگی
ہو رہی تھی اپنی سوچ پر۔۔
بیٹا کوئی علاج ہے اس کا تو تمہاری مہربانی ہو گی اگر
بتا دو۔۔۔وہ بولیں تو عمام اپنے خیالات سے جھٹکا کھا کر نکلا تھا
جی بلکل ابھی یہ ٹھیک ہو جائیں تو پھر آپ کسی اچھے سے
نفسیات کے ڈاکٹر کو دکھائیں ۔۔بلکہ اسی ہاسپٹل میں ڈاکٹر غفور کافی اچھے ہیں آپ
انہیں ہی چیک کروا لیجیے گا۔۔۔وہ سوچوں سے نکل کر بولا تھا لیکن اس کا ذہن ابھی
بھی وہیں اٹکا تھا
بیٹا خرچہ کتنا آئے گا۔۔۔کروا تو میں لوں گی اس کا علاج
بس یہ بتا دو کتنا خرچہ آئے گا
اماں کیا رونے رو رہی ہیں آپ ۔۔کوئی دماغی مریضہ نہیں
ہوں میں ۔۔کوئی علاج نہیں کروانا میں نے اگر آئندہ اماں مجھے علاج کا کہا نہ تو
پھر دیکھ لینا میں بھی چلی جاؤں گی اور آپ کو پتا بھی نہیں چلنا۔۔وہ جھگڑنے والے
انداز میں بولی تھی عمام نے اسے دیکھا تھا اب اسے اس کے معصوم سے چہرے پر درد کے
ڈھیر نظر آ رہے تھے
آپ انہیں کچھ کھلا کر میڈیسن دے دیں میں پھر دوپہر میً
چیک اپ کے لیے آؤں گا ۔۔اور آپ کو جلد ٹھیک ہونے کے لیے خود بھی ہمت کرنی پڑے گی
ایسے تو نہیں چلے گا۔۔۔
نہیں ہونا مجھے ٹھیک ۔۔اماں اسے بول دو میں نے کوئی
دوائی نہیں کھانی ۔۔۔
منہ بند کر اپنا۔۔اس کی اماں نے اسے ڈپٹا تھا
وہ وہاں سے نکل آیا تھا مگر اس کا ذہن وہیں کہیں رہ گیا
تھا وہ اسی کشمکش میں تھا کہ اس کا اندازہ کتنا غلط تھا اس نے اس طرح کے بہت کیس
دیکھے تھے مگر زیادہ تر لڑکوں کے چکر میں ہی ہوتا ہے
وہ اسی سوچ میں اپنے کیبن میں آیا تھا
----------------
اسلام و علیکم !!!
وعلیکم سر!!!کیا مدد کر سکتی وں میں آپ کی؟؟؟
ڈاکٹر عمام جعفر کہاں ملیں گے؟؟؟وہ یونیورسٹی سے سیدا وہیں آ گیا تھا وہ دیکھنے آیا تھا کہ عمام
کا ہسپتال کیسا ہے۔۔
سر وہ تو اپنے کیبن میں ہیں آپ یہاں سے لیفٹ جائیں وہاں
آپ کو ان کا کیبن مل جائے گا۔۔
شکریہ۔۔وہ کہتے ہی نکل گیا تھا
ہیلو ڈاکٹر عمام ۔۔کیسے ہیں آپ؟؟؟؟
تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟؟؟تم نہیں جانتے کیا یہ ڈیوٹی
ٹائم ہے ۔۔وہ ایک دم اسے دیکھ کر حیران ہوا تھا
بھائی کیا ہو گیا ہے میں تو دیکھنے آیا تھا کہ ہاسپٹل
کیسا ہے ؟؟؟؟
جیسا بھی ہے اب مجھے یہیں کام کرنا ہے۔۔۔
کیسے انسان ہیں آپ اپنے بھائی کو بیٹھنے کو بھی نہیں
کہا۔۔۔وہ منہ بسورتا ہوا بولا تھا
بیٹھ جاؤ یا میں مدد کروں ۔۔
نہیں میں بیٹھ جاؤوں گا۔۔وہ کرسی کھینچتے ہوئے بیٹھا تھا
سر جلدی آئیں آپی کا سانس اُکھڑ رہا ہے ۔۔وہ دروازے
کھولتے ہی بولی تھی عمام اور عصام دونوں ڈر گئے تھے اچانک دروازہ کھلنے سے
کیا ہوا؟؟؟عمام نے کھڑے ہوتے ہی پوچھا تھا
عصام تم بیٹھو میں آتا ہوں ۔۔وہ اسے کہتے ہی طارم کے
پیچھے نکل گیا تھا
عجیب لڑکی تھی یوں آئی اور یوں گئی مجھے اپنی شکل تو
دیکھا دیتی ۔۔وہ اکیلا ہی بول رہا تھا اگر کوئی اسے دیکھ لیتا تو اس کا پاگل ضرور
سمجھتا
وہ کمرے میں داخل ہوا تھا اس کی حالت بگڑ رہی تھی اس کا
سانس اکھڑا ہوا تھا اور وہ بستر سے اچھل اچھل کر گِر رہی تھی
نرس پڑاؤ مجھے۔۔اس نے اس کے ہاتھ سے انجکشن لے کر فوراً
لگا دیا تھا کچھ منٹوں میں وہ نارمل ہو گئی تھی
آپ انہیں سونے دیں انہیں نیند کی گولی دی ہے آپ انہیں
سوتا رہنے دیں یہی بہتر ہے ان کے لیے۔۔
اسے کیا ہوتا جا رہا ہے ڈاکٹر صاحب؟؟؟میرے پاس تو اتنی
رقم بھی نہیں ہے کہ میں اسے ہسپتال رکھ سکوں
آپ فکر نہ کریں ان کا علاج فری ہو رہا ہے ۔آپ نہیں
جانتی کہ یہ سرکاری ہسپتال ہے۔۔اس نے بڑی صفائی سے جھوٹ بولا تھا
اچھا میں تو یہ ہی سوچ سوچ کر مری جا رہی تھی کہ میں سب
کیسے کروں گی۔۔
طارم جاؤ جا کر دوائیں لے آؤ بہن کی۔۔
جی اماں ۔۔وہ اس کے نکلنے سے پہلے نکل آیا تھا
عصام یہ پیسے پکڑو کاؤنٹر پر ایک لڑکی ہو گی بلیک دوپٹے
میں اس کی پیمنٹ کر دو۔۔جلدی جاؤ اور خیال رکھنا اسے معلوم نہ ہو کہ تم اس کا بل
پے کر رہے ہو۔۔۔اس نے عصام کو دھکا دیا تھا اور ہاتھ میں کچھ رقم بھی تھمائی تھی
اسلام و علیکم۔۔۔وہ کاؤنٹر پر کھڑے آدمی کے پاس جا کھڑا
ہوا تھا جبکہ طارم اپنی ریسپٹ دے کی تھی
کیا نا انصافی ہے ؟؟؟انکل میں پہلے آئی ہوں مجھے دوائیں
پہلے دیں میری بہن ایرجنسی میں ہے۔۔۔اس نے جھوٹ بولا تھا کیوں کہ اسے اس کا یوں اس
کے کان میں کھس پھُس کرنا عجیب لگ رہا تھا
اچھا بیٹا آپ کو ہی پہلے دیتا ہوں ۔وہ اسے دوائیں دینے
لگے تھے جبکہ عصام کی نظر مسلسل طارم پر تھی بہت معصوم سی شکل تھی اس کی ۔۔خوبصورت
تو وہ تھی مگر اس کی حالت بہت خراب تھی وہ اب اس کی نگاہیں خود پر دیکھ کر دوپٹہ
سیدھا کرنے لگی تھی
کتنا بد تمیز لڑکا ہے؟؟؟وہ منہ میں ہی بڑبڑائی تھی
اسے اندازہ تھا کہ اس کا یوں دیکھنا اسے اچھا نہیں لگ
رہا مگر پھر بھی وہ اسی جانب دیکھ رہا تھا
-------------------
صفا ۔۔یہاں میرا فون تھا کہاں گیا اب؟؟؟وہ اسے آوازیں
دیتی ہوئیں چیزیں ادھر ادھر کر رہیں تھی
امی وہیں تھا میں اور فاخرہ وہیں بیٹھ کر گیمز کھیل رہے
تھے وہیں دیکھیں۔۔
نہیں ہے زرا تم آ کر دیکھو۔۔۔مجھے نہیں مل رہا ۔۔وہ
وہاں سے نکل کر لاؤنج میں داخل ہوئیں تھیں
امی یہیں تو تھا وہ آ کر صوفے پر ہاتھ مارتے ہوئے بولی
مگر وہاں موبائل نہیں تھا ۔اس کے چہرے کے رنگ فوراً بدل گئے تھے
امی کہاں گیا یہیں تھا؟؟؟؟وہ حیرانگی سے بولی تھی
تمہیں پکا یقین ہے کہ یہیں پڑا تھا۔۔
امی دیکھیں جب میں اور فاخرہ یہاں بیٹھ کر گیمز کھیل
رہے تھے پھر میں کچن میں گئی تھی مجھے یاد ہے اس سے پہلے تک تو یہیں تھا موبائل
مجھے پکا یقین ہے ۔۔
پھر کہاں گیا ہے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا۔۔وہ
حیرانگی سے بولیں تھیں
اللہ جانے کہیں فاخرہ نے تو نہیں اٹھا لیا۔۔وہ اندازہ
لگاتی ہوئیں بولیں تھیں
امی!!!نہیں ایسا نہیں ہو سکتا فاخرہ نہیں ایسا کر سکتی
۔
کیوں نہیں کر سکتی دیکھو تمہارے مطابق جب تم کچن میں
گئی تو اس سے پہلے تک موبائل یہاں تھا تو پھر کہاں جا سکتا ہے؟؟؟اس وقت تو کوئی
کام والی بھی نہیں ہے ہمارے گھر ۔۔
میں کال کر کے چیک کرتی ہوں ۔۔وہ کارڈلیس کی طرف بڑھی
تھی مگر اس کا فون نہیں لگ رہا تھا فون مسلسل بند جا رہا تھا
امی فون تو بند جا رہا ہے۔۔وہ شرمندہ سی بولی تھی
دیکھ لو اگر یہیں کہیں ہوتا تو بند نہ ہوتا ۔۔۔
امی فاخرہ ایسا بھی کر سکتی ہے مجھے اندازہ نہیں تھا۔۔
بیٹا بعض اوقات کچھ چیزیں ایسی ہوتیں ہیں کہ ہمیں اس کا
گمان بھی نہیں ہوتا۔۔
چلیں اب کیا کر سکتے ہیں ؟؟وہ ہاتھ پہ ہاتھ مارتی ہوئی
وہاں سے نکل گئی تھی مگر اسے اس بات پر ابھی بھی یقین نہ آیا تھا
---------------
اماں مجھے یہاں باہر ہی رہنے دو میں کچھ دیر دھوپ میں
بیٹھوں گی تو جسم زرا کھل جائے گا۔۔وہ وہیں پڑی چارپائی پر لیٹ گئی تھی اور نظریں
آسمان پر ٹکا لیں تھیں
طارم جا اور اس کے لیے کچھ لا میں زرا کام دیکھ آؤوں
مالکن نے کہنا اتنے دن چھٹی کی ہے تنخواہ کاٹوں گی۔۔۔
طارم ایک ہاتھ میں جوس اور دوسرے میں اپنی کتابیں پکڑے
آئی اور چارپائی پر ایک طرف بیٹھ گئی تھی
اماں کا کتنا خرچہ ہو گیا ہو گا ان کچھ دنوں میں ۔۔وہ
جوس کا گلاس تھامتے ہوئے بولی تھی
نہیں آپی اماں کا تو کوئی خرچہ نہیں ہوا ہسپتال سرکاری
تھا تو تیرا علاج فری ہوتا رہا ہے اور یہ ساری دوائیں بھی فری ملی ہیں۔۔
اچھا!!وہ حیران ہوئی تھی کیوں کہ وہ ہسپتال جاتی رہتی
تھی مگر دوائیں تو اسے اپنے پیسوں سے لینی پڑتی تھیں ۔
آپی تمہیں پڑھنے کا بڑا شوق تھا نہ۔۔وہ کتاب کھولتے
ہوئے بولی تھی
طارم شوق اکھٹے کرنے سے پیٹ تھوڑی پلتا ہے مجھے اماں نے
دس جماعتیں پڑھا کہ شادی کروا دی تھی اور پھر مجھے بھی پیٹ پالنے کے لیے کام کرنا
پڑا۔۔وہ سوچتی ہوئی بولی تھی
آپی آپ اب پڑھ لیں ۔۔
طارم پاگل ہو گئی ہو مجھے پڑھنے کون دے گا اور اب تو
میرے جیسے شوق بھی مر چکے ہیں ۔وقت نے ایسے ایسے رنگ بدلے ہیں کہ میں تو دنگ ہی رہ
گئی ہوں ۔اور پیٹ پالنے کے لیے کمانا پڑتا۔
شکر کرو کہ اماں تمہیں پڑھا رہی ہے ۔
آپی اماں کہتیں ہیں کہ بس مجھے بارہ جماعتیں ہی پڑھنے
دے گی پھر میری بھی شادی کر دے گی ۔۔مگر اماں کے پاس کون رہے گا؟؟؟
اماں کے پاس میں ہوں نہ تو فکر نہ کر ۔۔وہ اسے یقین
دلاتی ہوئی بولی تھی
---------------
فاخرہ ہے یہ تو۔۔۔مگر اس کے ساتھ یہ لڑکا کون ہے؟؟؟؟اس
کا کوئی کزن ہی ہو گا شاید۔۔لگ تو نہیں رہا میں نے تو اس کے سارے کزن دیکھے ہوئے
ہیں ۔۔وہ کھڑکی میں کھڑی سب دیکھ رہی تھی فاخرہ باہر کسی لڑکے سے کچھ لفافے پکڑ کر
اب اندر کو جا رہی تھی
لو عصام بھی آ گیا۔۔عصام گاڑی کو تیزی سے اندر لایا تھا
اسی سے پوچھوں گی کہ کون تھا وہ۔۔وہ سردی کی وجہ سے اب اندر آ گئی تھی
عصام دیکھو کس کی آواز آ رہی ہے ان کے گھر سے؟؟؟وہ
پریشانی سے بولیں تھیں
امی مجھے نہیں پتہ کون ہے ؟؟؟تم ادھر آو یہ لفافہ پکڑو
اور زبیر کو دے آنا اگر وہ نہ ملے تو آنٹی سے کہنا کہ زبیر کو دے دیں۔۔وہ کم عمر
سی ننھی سی لڑکی کو اشارہ کرتے ہوئے بولا تھا وہ اپنی اماں کے ساتھ ان کے گھر آتی
تھی اور چھوٹے موٹے کام بھی کر دیا کرتی تھی وہ فوراً اس کے ہاتھ سے لفافہ پکڑ کر
نکل گئی
امی کیا ہو رہا ہے اسے؟؟؟شور مچایا ہوا ہے اس نے۔۔وہ چڑ
کر بولی تھی
کچھ نہیں ہوا اسے شاید پہلے ہی اس کا موڈ خراب تھا اسی
لیے ایسے کر رہا ہے۔۔۔
باجی۔۔۔باجی۔وہ ہڑبڑائی ہوئی اندر آئی تھی
کیا ہوا ؟تم اتنی جلدی واپس آ گئی ہو اور یہ دے کر بھی
نہیں آئی۔۔۔انہوں نے اس کے ہاتھ میں لفافہ دیکھ کر پوچھا تھا
باجی وہ میں گئی تھی تو فاخرہ باجی کو کوئی مار رہا تھا
شاید زبیر بھائی تھے۔۔
یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟؟؟وہ حیران ہوئی تھیں
جاؤ تم۔۔عصام نے اسے وہاں سے بھیج دیا تھا
امی میں جب آیا تھا تو باہر ایک لڑکا ان کے دروازے کے
آگے کھڑا تھا اور میں اسے جانتا تھا۔۔
اچھا کون تھا وہ؟؟؟
امی وہ ایک آوارہ اور عیاش لڑکا ہے مجھے لگا کہ فاخرہ
ہماری بھی بہنوں کی طرح ہے تو میں نے زبیر کو بتا دیا۔۔
اچھا تو اسی لیے زبیر کو غصہ آیا ہوا تھا۔۔وہ ساری
صورتحال سمجھتے ہوئے بولیں
امی آپ نے اسے موبائل والی بات نہیں بتائی۔۔صفا نے
اضافہ کیا تھا
کونسی بات؟؟؟اس نے حیرانی سے امی کو دیکھا تھا انہوں نے
اسے ساری روداد سنا دی تھی
توبہ پتہ نہیں یہ لڑکی کیا کرتی پھِر رہی ہے۔۔وہ سر پکڑ
کر بیٹھ گیا تھا
صفا تم اس سے ملنا کم کر دو اس کی صحبت اچھی نہیں
تمہارے لیے۔۔۔
جی ٹھیک ہے۔۔۔وہ خاموشی سے باہر دیکھنے لگی تھی
----------------
اسلام و علکیم اماں!!!!طارم سلام کرتی ہوئی اس چھوٹے سے
گھر میں داخل ہوئی تھی
اماں کہاں ہو؟؟؟؟؟اسے باہر اسے وہ نظر نہ آئیں تو وہ
اندر چل دی مگر زیادہ تر وہ باہر ہی دھوپ میں بیٹھتی تھیں
اماں آج نیند آ گئی ہے۔۔دروازہ بھی کھلا چھوڑ کہ سو گئی
ہو ۔مجھے بھوک لگی ہے روٹی بنا دے آپی بھی آنے والی ہو گی۔۔وہ بولتی جو رہی تھی جب
کہ اسے کوئی جواب نہ ملا تھا
اماں !!!اسے کوئی جواب نہ ملنے پر اس نے آگے بڑھ کر
انہیں ہلایا تھا تو وہ بے جان پڑیں تھیں وہاں۔۔۔
اماں کیا ہوا تجھے۔۔۔وہ اسے ہلاتی ہوئی بولی تھی مگر ان
کا چہرہ نیلا پڑ چکا تھا اور وہ بے جان پڑی تھیں
ہائے میں کیا کروں؟؟؟؟؟وہ پریشانی میں ہڑبڑا گئی تھی
ایمبولینس کو فون کرتی ہوں اس نے اٹھ کر موبائل ڈھونڈنا
شروع کیا تھا اور اسے اس کے لیے زیادہ مشقت نہیں کرنی پڑی تھی اس قریب میز پر ہی
پڑا مل گیا تھا
اماں آنکھیں کھول کیا ہوا تجھے صبح تک تو اچھی بھلی تھی
تو۔۔۔وہ ایمبولینس میں بیٹھی روئے جارہی تھی ہسپتال پہنچ کر اس نے مروہ کی بوتیک
میں فون کیا جبکہ وہ اس کی اماں کو اندر لے جا چکے تھے
ان خاتون کے ساتھ آپ ہیں۔۔ڈاکٹر نے پوچھا تو وہ فوراً
اٹھ کھڑی ہوئی تھی
جی میں ہی ہوں۔۔
ان کی ڈیتھ تو گھنٹا پہلے ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ہو چکی
ہے آپ فارم پورا کر کے انہیں لے جا سکتیں ہیں ۔طارم کی تو جیسے کسی نے زمین کھینچ
لی تھی وہ وہیں پر بیٹھی رونے لگی تھی اسے کچھ سمجھ نہ آ رہا تھا کہ وہ کرے بھی تو
کیا کرے ؟؟؟
کچھ دیر وہیں بیٹھنے کے بعد اس نے ہمت کر کے کاؤنٹر پر
فارم بھڑا جس میں اس نے نا جانے کیا کیا لکھا تھا اسے کوئی ہوش نہ تھی پھر وہ
ایمبولینس میں ہی انہیں گھر لے آئی تھی جہاں مروہ پہلے سے بیٹھی اس کا انتظار کر
رہی تھی
طارم ۔۔کیا ہوا اماں کو تو ہسپتال کیوں لے گئی
تھی؟؟؟مروہ نے سپاٹ چہرہ دیکھتے ہی پوچھا تھا
مروہ اماں!!اس نے اتنا ہی بولا تھا کہ کچھ آدمی انہیں
لے کر اندر آئے تھے مروہ کے ہواس غائب ہونے لگے تھے اسے سمجھ نہ آرہا تھا کہ آسمان
میں گم ہو جائے یا زمین میں دھنس جائے ۔کوئی راستہ تو نظر نہیں آ رہا تھا اسے ۔۔۔
اس چھوٹے سے گھر میں وہ دونوں تھیں اور چند ایک عورتیں
تھیں ان کی خستہ حالی کی وجہ سے کوئی ان سے نہ ملتا تھا اس کی ساس آئی تھی کچھ
لمہوں کے لیے اور پھر سے اسے نہوست کہہ کر گئی تھی اور اب تو اسےخود بھی گمان ہونے
لگا تھا کہ وہ سچ میں نحوست ہی ہے
آپی اس عورت کی تو عادت ہے بکواس کرنے کی تم فکر مت
کرو۔۔
نہیں طارم یہ سچ کہتی ہیں کہ میں ہی نحوست ہوں میں جہاں
جاتی ہوں کچھ نہ کچھ برا ضرور کرتی ہوں ۔۔۔وہ تو روئی ہی نہ تھی ۔وہ سپاٹ چہرہ لیے
بیٹھی رہی تھی اس کی آنکھوں میں سے جیسے نمی خشک ہو چکی تھی اسے اب کسی چیز سے
کوئی فرق نہ پڑتا تھا کائنات کے رنگ تو اس کی آنکھوں میں اترتے ہی نہ تھے ۔یہ رشتے
اتنے پکے جو ہوتے ہیں یہی انسان کو توڑ دیتے ہیں
کبھی کبھار انسان زندگی جینا نہیں چاہتا نہ ہی اس
کائنات کی رونق دیکھنا چاہتا ہے وہ چاہتا ہے کہ وہ اس سب سے کٹ جائے مگر اسے جینا
پڑتا ہے اسے سارے رونق ،رنگ دیکھنے پڑتے ہیں کیوں کہ سانس ابھی باقی ہے ۔۔نہ چاہتے
ہوئے بھی سب کرنا پڑتا ہے عوض اس سانس کے
----------------
بھائی آپ جانتے ہیں کہ آج کل اماں آپ کے لیے لڑکی ڈھونڈ
رہیں ہیں۔۔وہ اس کے پاس بیٹھتا ہوا بولا تھا
تو پھر ان سے کہہ دو مت ڈھونڈیں میرے لیے لڑکی۔۔
وہ کیوں جی میں تونہیں کہنے والا ۔۔۔اس نے فوراً ہاتھ
اٹھا لیے تھے
امی کو میں خود منع کر دوں گا ابھی تو میں ہاسپٹل کی
تیاری میں مصروف ہوں ۔۔صبح جاب شام کو کنسٹرکشن میں پہلے ہی بہت بزی ہوں اور ایک
نیا سیاپہ نہیں چاہیے مجھے ۔۔۔۔تمہیں اتنا شوق ہے تو تم کر لو شادی ۔۔۔
بھائی خدا کا خوف کریں چھوٹا سا ہوں ابھی تو میں پڑھ تو
لینے دیں ابھی تین سال پڑھائی کے باقی ہیں پھر بزنس اور پھر شادی۔۔۔اس نے گنتی کر
کے بتا دیا تھا
اپنے لیے اتنا لمبا پلین اور میرے لیے ابھی ۔۔۔میں نہیں
کروں گا ابھی شادی۔۔۔
چلیں
آپ کی مرضی امی جانیں یا آپ جانیں۔۔۔
------------------
صفا آ جاؤ باہر جا کر لان میں بیٹھتے ہیں۔۔۔فاخرہ نے اس
کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی
یار اتنی سردی ہے میں تو باہر نہیں جاؤونگی ادھر کمرے
میں تو ہیٹر چل رہا ہے تو سکون ہے ورنہ میری برف جمنے میں دیر نہ لگتی۔۔۔اس نے صاف
انکار کر دیا تھا
چلو پھر میں بھی یہیں بیٹھ جاتی ہوں۔۔۔وہ وہیں اس کے
پاس بیٹھ گئی تھی
فاخرہ تمہیں پتہ ہے کل کیا ہوا؟؟؟؟وہ آہستہ سے بولی تھی
کیا ہوا؟؟؟بتاؤ گی تو پتہ چلے گا نہ
کل امی کا موبائل گم ہو گیا۔۔
وہ کہاں؟؟؟؟وہ انجان بنتی ہوئی بولی تھی
یہیں گھر سے ہی کوئی لے گیا ہے ۔۔مجھے تو لگتا ضرور کسی
کام والی کی حرکت ہو گی۔۔صفا کام میں مصروف بولی تھی
ہاں تو اور کون کر سکتا ہے؟؟؟اس کے منہ پر عجیب سی
جھنجھلاہٹ تھی
جس نے بھی اٹھایا اس کو کونسا ہضم ہو جانا ہے ان کا نکل
ہی جاتا ہے جو ایسے کام کرتے ہیں
اچھا۔۔ٹھیک کہہ رہی ہو تم۔۔چلتی ہوں میں مجھے اب یاد
آیا کہ زبیر بھائی آگئے ہوں گے۔۔۔وہ آہستہ سے بولی تھی اور باہر نکل گئی تھی
صفا۔۔عمام اس کے کمرے مں داخل ہوا تھا
جی بھائی۔۔
واہ !!!!!تمہارا کمرہ کتنا پُرسکون ہے۔۔اسے اندر آتے ہی
گرماہٹ محسوس ہوئی تھی
جی بلکل میں کب سے بیٹھی ہوں پیٹر چلا کر۔۔
اچھا ایک مشورہ تو دو۔۔وہ سنجیدگی سے بولتا اس کے پاس
بیٹھا تھا
ضرور لیں میرا مشورہ لیکن کس لیے؟؟؟؟
یہ دیکھو یہ شیڈ کارڈ ہے کل مجھے یہ فائنل کر کے دینا
ہے ۔یہ ہاسپٹل کے یونیفارم کے لیے ہے میں جہاں سے بنوا رہا ہوں انہوں نے دیا ہے
۔۔کارڈ میں نیلی شیڈز کے کتنے رنگ تھے مگر تھوڑا تھوڑا فرق تھا ان سب میں۔۔
بھائی یہ والا ٹھیک رہے گا آگے آپ کی مرضی۔۔اس نے گہرے
نیلے پر انگلی رکھی تھی
چلو پھر یہی ٹھیک ہے ۔۔
ویسے کتنے دن اور لگیں گے کمپلیٹ ہونے میں۔۔۔
تقریبا ایک آدھ مہینہ لگے گا ابھی۔۔۔
اچھا ۔۔اتنا وقت۔۔وہ حیرانگی سے بولی تھی
عمام کا موبائل کی بیل بجنا شروع ہوئی تھی اور وہ
موبائل کو پکڑے کمرے سے نکل گیا تھا
----------------
جی سر آپ نے بلایا تھا مجھے۔۔وہ اجازت ملنے پر اندر
داخل ہوئی تھی اور اب وہ ہوچھ رہی تھی
جی بلکل مروہ میڈم ۔۔بیٹھیں زرا
وہ محفوظ ہوئی تھی
آپ نے سیلری میں اضافے کے لیے کہا تھا۔۔شاید آپ کو
ضرورت ہے بہن کی پڑھائی کے لیے ۔۔
جی سر۔۔۔وہ ہلکے سے بولی تھی
میرے پاس ایک آفر ہے آپ ایکسیپٹ کر لیں تو آپ کو سب کچھ
مل جائے گا جو آپ چاہتی ہیں
جی سر شکریہ آپ کا مگر وہ آفر کیا ہے؟؟؟؟وہ اس کی
مہربانی کو نہ سمجھی تھی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ وہ بہت مکار آدمی ہے
بہت آسان ہے۔۔تم مجھ سے شادی کر لو
مروہ نے حیرت سے اسے دیکھا تھامروہ پر تو اس شخص نے بم
پھوڑا تھا اور اس نے چاہا تھا کہ وہ کسی طرح اس دفتر سے نکل جائے اور بھاگ جائے
کہیں بہت دور ۔۔۔
یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ سر؟؟؟میں چلتی ہوں آپ کی آفر کا
شکریہ ۔۔وہ غصے میں وہاں سے نکلنے لگی تھی مگر اس کے بھاری ہاتھ نے اس کے بازو کو
پکڑ لیا تھا
دیکھ لو اچھی آفر ہے ویسے۔۔۔
آپ کو کیا لگا تھا کہ مجھے ضرورت ہے تو میں آپ جیسے
بڈھے شخص سے چند پیسوں کے لیے شادی کر لوں گی ۔۔اس نے بازو چھڑانے کی کوشش کی مگر
بے سود تھی کیونکہ گرفت بہت مضبوط تھی
تم سے شادی تو میں کر لوں گا چاہے کچھ بھی ہو تم جہاں
بھی جاؤ میں تمہیں ڈھونڈ لوں گا ۔۔اس بات کی فکر اب تم کرو۔۔۔اس نے ایک جھٹکے سے
اس کے بازو کو چھوڑا تھا اور مروہ ہاتھ چوٹتے ہی باہر نکلی تھی اس کی سانس پھولی
ہوئی تھی وہ سیدھا باہر نکلی تھی اور سڑک کے کنارے چلتی گئی تھی ایک طرف لگے بینچ
پر وہ بیٹھی تھی اس کا دماغ اس وقت بند ہو گیا تھا وہ کچھ سوچنے سمجھنے کی حالت
میں نہ تھی
میں تمہیں ڈھونڈ لوں گا۔۔۔تم سے شادی تو میں کر لوں گا
۔۔اس کے ذہن میں وہ ہی آواز گونج رہی تھی وہ اردگر دیکھتے ہوئے اپنی اچانک ایک
گاڑی اس کے پاس آ رکی تھی اس کی دھڑکن تیزی سے چلنے لگی تھی مگر جونہی گاڑی کا
شیشہ نیچے ہوا تو اس کی سانس بحال ہوئی تھی
آجائیں۔۔وہ گاڑی میں سے ہی آگے بڑھتے ہوئے بولا تھا
شکریہ ۔۔میں چلی جاؤوں گی
آ جائیں اس وقت آپ کا پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے اس
نے ایک اور کوشش کی تھی وہ جانتی تھی کہ اس وقت اس کے پاس سچ میں کوئی دوسرا راستہ
نہیں تھا وہ ڈرتی ڈرتی اٹھی تھی اور گاڑی میں بیٹھ گئی تھی اس کا ایک ڈر ختم ہوا
تھا اب وہ شخص اس کے پیچھے نہیں آ سکتا تھا مگر دوسرا شروع ہو گیا تھا اس وقت وہ
ایک انجان انسان کے ساتھ بیٹھی تھی جسے صرف اس نے چند روز ہسپتال میں دیکھا تھا وہ
شکل و صورت سے تو نہایت شریف لگتا تھا مگر وہ کسی پر یقین کرنے کی حالت میں نہ تھی
شکریہ آپ کا ۔۔جو آپ آ گئی اس نے خاموشی توڑی تھی
میں خود چلی جاتی گھر ۔۔اس کے لہجے میں خوف تھا وہ شاید
ابھی تک اسی بات کو سوچ رہی تھی
میں نے آپ کی ساری باتیں سن لیں تھیں آفس میں ۔۔میں
وہاں کسی کام سے گیا تھا مروہ نے اب سر اٹھا کر دیکھا تھا
آپ کو میں ایک ایسی جگہ لے جا سکتا ہوں جہاں آپ اپنی
بہن کے ساتھ محفوظ رہ سکتیں ہیں۔ وہ بولا تو مروہ
نے اس کے چہرے کو دیکھا تھا
وہ کہاں ؟؟؟؟اسے یہی راستہ ٹھیک لگا تھا
آپ مجھ سے نکاح کر لیں ۔۔اس طرح آپ بھی محفوظ رہیں گی
اور میں اس دوران اس آدمی کے خلاف کیس کروں گا جب تک آپ چاہیں گی آپ رہیں جب آپ
کہیں گی میں آپ کو آزاد کر دوں گا ۔۔۔اس نے تو سارے مسلئہ کا حل بتا دیا تھا مگر
مروہ کے لیے یہ سب اتنا آسان نہ تھا۔۔اس نےحیرت
سے عمام کی طرف دیکھا تھا اسے اندازہ نہ تھا کہ وہ اس قسم کی بات کرے گا۔۔ وہ ایک
انسان سے شادی سے بچنے کے لے دوسرے انسان سے شادی کر لے نا جانے یہ کیسی آزمائش
تھی اسے سردی میں بھی پسینہ آ رہا تھا
میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ جب چاہیں گی میں آپ کو آزاد
کر دوں گا۔۔وہ اس کی حالت کو دیکھ کر جان گیا تھا کہ وہ کس کشمکش میں ہے
طارم۔۔آ گئی ہو گی مجھے چلنا چاہیے وہ گاڑی رکنے کے
انتظار میں تھی
آپ اسے بھی لے آئیں ۔۔میں انتظار کر رہا ہوں ۔اس نے
گاڑی روکتے ہوئے کہا تھا
اب وہ گاڑی میں بیٹھا اپنے دوست سے بات کر رہا تھا جسے
وہ نکاح کے تمام بنیادی انتظامات کے لیے کہہ رہا تھا ۔
کہاں رہ گئیں ؟؟؟؟شاید نہیں آئے گی۔۔۔وہ دور ایک چھوٹے
سے دروازے کو دیکھ کر بولا تھا مگر کچھ ہی لمحوں میں وہ ہاتھ میں چند چیزیں پکڑے
طارم کے ساتھ باہر نکلی تھی اور عمام کے چہرے پر سکون آیا تھا
چلیں۔۔۔وہ گاڑی میں پچھلی سیٹ پر طارم کے ساتھ بیٹھتی
ہوئی بولی تھی
جی !!!وہ فوراً اس کی تاکید میں چل پڑا تھا
-------------------
صفا تمہارا ایڈمیشن ہو گیا ہے؟؟؟وہ صوفے پر بیٹھی اسے
پوچھ رہی تھی
ہاں مگر دوسرے کالج میں۔۔وہ بھائی کا اور ابو کا کہنا
تھا کہ وہ کالج زیادہ اچھا ہے تو بس اسی لیے۔۔۔اس کے بولتے ہی فاخرہ کے چہرے پر
جیسے اداسی آئی تھی
اوہ۔۔۔یہ تو بہت بُرا ہوا ۔۔تم جانتی ہو کچھ دنوں میں
زبیر بھائی کی شادی ہے۔۔۔اس نے موضوع بدلہ تھا
اچھا ۔۔سچ میں یہ تو تم نے بہت کام کی خبر دی ہے میں ویسے ہی بور ہو چکی تھی اس
بورنگ روٹین سے۔۔۔اس کے چہرے پر خوشی دیکھی جا سکتی تھی اس نے زبیر کو ہمیشہ اپنا
بھائی سمجھا تھا وہ ان سب سے بڑا تھا
ہاں وہ خالہ کافی بیمار تھیں تو اس لیے۔۔۔۔
اوہ!!!
یار ہم لوگ بہت انجوائے کریں گے ۔۔ڈانس کریں گے ،اور
بھی بہت کچھ کریں گے وہ ایکسائیٹڈ ہوتی ہوئی بولی
سچ میں بہت مزا آئے گا ۔۔امبر بھابی آ جائیں گی تو اور
مزا آیا کرے گا ہم ساتھ گھومنے جایا کریں گے ۔۔
یار تمہارا ایڈمیشن کیوں نہیں ہوا وہاں ؟؟؟؟میں اکیلے
کیا کروں گی۔۔
اب اس میں تو میرا کوئی قصور نہیں بابا نے کہا وہاں
کروا دیتا ہوں تو بس وہیں ہو گیا۔۔۔اس نے بڑی سادی سی وجہ بتا دی تھی جو سچ بھی نہ
تھی کیونکہ اس نے خود دوسرے کالج میں ایڈمیشن لیا تھا وہ نہیں چاہتی تھی کہ فاخرہ
اس کے ساتھ جائے کیونکہ وہ اس کی حرکات سے واقف ہو چکی تھی
----------------
وہ انہیں لے کر ایک اپارٹمنٹ میں آیا تھا جہاں ایک پوری
سوسائٹی تھی ۔۔
سکیورٹی ،گارڈن ہر چیز تھی وہ اپارٹمنٹ میں داخل ہوا تو
اس کی ہر شے پر کپڑا پڑا تھا کیونکہ وہ عرصے سے یہاں نہیں آیا تھا مگر وہاں کی
صفائی ہوتی رہتی تھی
آپ اندر چلی جائیں میں باہر ہی ہوں۔۔وہ ایک کمرے کا
دروزہ کھولنے لگا تھا وہ دونوں بھی اندر داخل ہو گئی تھیں
آپی ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟؟؟؟طارم کو سارے معاملے کی
سمجھ نہ آئی تو اس نے سوال کیا تھا
اب ہم یہیں رہیں گے۔۔مروہ کو سمجھ نہ آئی کہ وہ اسے کیا
جواب دے اس نے اس کشادہ سے کمرے میں نظر دوڑائی تھی ہر شے پر کپڑا پڑا تھا .
***************
جاری ہے
Comments
Post a Comment