"سانس ابھی باقی ہے"
از "رابعہ اکرام"
قسط 1
آپی
آ جائیں جلدی عمیر کی طبعیت بہت خراب ہے وہ عمیر کے پاس بستر پر بیٹھی تھی کمرے میں
ہلکی سی روشنی تھی اور ہر طرف خاموشی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ اس وقت کیا کرے اس
لیے اس نے مروہ کو فون کیا تھا عمیر کے دل میں سراخ تھا وسائل کافی نہ ہونے کی وجہ
سے وہ علاج نہ کروا سکے تھے اور وہ اس قدر بڑھ چکا تھا کہ اس کا علاج اب ممکن نہ تھا
طارم
تم فکر نہ کرو میں بس پہنچنے والی ہوں مروہ پریشانی میں بولی تھی
ٹھیک
ہے اس کا سانس بہت اکھڑ رہا ہے آپ جلدی آنے کی کوشش کریں طارم کا پریشانی سے رنگ سفید
ہو گیا تھا
اوہ
میرے خدایا یہ کیا ہو رہا ہے عمیر کو۔۔عمیر ہوش کرو میری جان ۔آنکھیں کھولو دیکھو خالہ
تمہارے پاس ہے۔وہ گھر میں اکیلی تھی اور مروہ عمیر کی دوائیں لینے گئی تھی اور اسی
دوران عمیر کی طبعیت زیادہ بگڑ گئی تھی مروہ کی ساس اور نند اس کے سسر کے ساتھ لاہور
شادی پر گئے ہوئے تھے وہ عمیر کی بیماری کی وجہ سے نہ جا سکی تھی
ماما!!!!وہ
ہلکے سے بولا تھا
آ
رہی ہیں تمہاری ماما ۔۔۔بس کچھ دیر میں۔۔ دیکھو تم اپنی آنکھیں مت بند کرنا میری طرف
دیکھو عمیر اس کا سانس مسلسل اکھڑ رہا تھا اور وہ اپنے ہوش گنواہ رہا تھا
طارم
کھولو۔ مروہ نے دروازے پر دستک دیتے ہوئے اُسے پکارا تھا اس کی آواز میں درد تھا طارم
اس کی آواز سنتے ہی دروازے کی طرف بھاگی تھی۔مروہ کی آنکھیں جیسے کسی پرانی مریضہ کی
آنکھوں سی تھیں اس کے ہاتھ پاؤوں اس قدر لاغر تھے کہ وہ چند کلو کا بوجھ نہ اُٹھا سکتے
تھے مگر وہ پھر بھی اس چھوٹی سی عمر میں اتنے
لوگوں کے ساتھ ساتھ ان کے طعنوں کا بوجھ اُٹھائے ہوئے تھی
آپی
۔۔۔
کہاں
ہے عمیر؟؟؟؟وہ ہر بڑائی ہوئی اندر داخل ہوئی تھی
آپی
اسے کیا ہو رہا ہے؟؟؟؟طارم کے پریشانی سے ہاتھ پیر ٹھنڈے ہو رہے تھے کچھ موسم سرما
نے بھی شدت اختیار کر رکھی تھی
آہ۔۔۔لحاف
میں لپٹے عمیر نے الٹی کی تھی اور اس کی الٹی میں خون ہی خون تھا جسے دیکھ کر وہ دونوں
مزید پریشان ہو گئیں تھیں
آپی
آپ کی ساس نے تو آپ کو ہی کہنا ہے کہ آپ نے ہی اپنے بیٹے کی یہ حالت کی ہے جیسے وہ
آج تک زرمیل بھائی کی موت کی وجہ بھی آپ کو ہی سمجھتے ہیں
امی
۔۔وہ ہلکے سے بولا تھا اور ساتھ ہی مروہ کے
ہاتھ میں موجود ہاتھ بے جان ہو گیا تھا مروہ نے جلدی سے اس کی نبض چیک کی تھی جو بلکل
تھم چکی تھی اس کی روح اس دنیا سے کوچ کر چکی تھی
عمیر
تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے ۔۔۔تم ہی تو میرا واحد سہارا تھے اور تم بھی زرمیل کے
پاس چلے گئے وہ چینخ رہی تھی کہ اس کی چینخ و پکار سن کر اس کے پڑوس کے لوگ جمع ہونا
شروع ہو گئے تھے
آپی
!!!طارم زاروقطار رونا شروع ہو گئی تھی
میرا
کوئی نہیں ہے مجھے مر جانا چاہیے کوئی نہیں میرا ۔۔۔وہ آہ و پکار کر رہی تھی
اس
کے انتقال کو دو گھنٹے گزر چکے تھے
مروہ کی ساس،نند اور سسر بلند آواز میں چینختے ہوئے گھر میں داخل ہوئے تھے
ہائے
میرے بچوں کو تو اس نے مار ہی دیا ہے ۔۔۔پہلے میرے بیٹے کو اور اب اس کی آخری نشانی
بھی مجھ سے چھین لی ہے ۔۔یا اللہ تو ہی اس عورت کے دل میں خوف ڈال دے ۔۔اس کی ساس رونے
کے ساتھ ساتھ اس کو الزام دینے سے بلکل باز نہ آئی تھی اسے جس بات کا ڈر تھا وہ ہی
ہوا تھا اور اب اس کی آنکھیں خاموش ہو گئیں تھیں ان میں نمی جیسے خشک ہو گئی تھی
ہائے
میرا بچہ مجھے ملا بھی نہیں اور مجھ سے روٹھ گیا محلے کی تمام عورتیں یہ تماشا دیکھ
رہیں تھیں اور وہ جانتی تھی کہ اس کا ریکارڈ تو اس گھر میں شروع سے ہی بُرا تھا مگر
اب شاید اس سے یہ چھت بھی چھننے والی تھی
(مروہ کے والد کا انتقال
اس کے بچپن میں ہی ہو گیا تھا اور اس کی ماں نے ہی اسے مشکلوں سے کما کما کر پالا تھا
طارم اس کی چھوٹی بہن تھی وہ دونوں دِکھنے میں تو اچھی خاصی شکل کی مالک تھیں مگر ان
کی قسمت ان کے ساتھ نہ تھی ۔وسائل کی کمی کی وجہ سے مروہ کی اماں نے اس کی شادی سترہ
برس کی عمر میں ہی کر دی تھی اور اس کی شادی کے سال بعد ہی اس کے گھر میں عمیر نے جنم
لیا تھا ۔عمیر ابھی ایک ہی برس کا تھا کہ اس کے شوہر کا ایکسیڈینٹ میں انتقال ہو گیا تھا)
یہ
تو ہے ہی منحوس جب سے ہماری زندگی میں آئی ہے مصیبتیں پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہیں۔اک اپنے
بیٹے کو نہ سنبھال پائی یہ باہر سیر سپاٹے کو چلی رہتی ہے۔۔
مروہ
یہ سب خاموشی سے سن رہی تھی کیونکہ وہ اس چیز سے واقف تھی کہ جب وہ سب آئیں گے تو یہ
سب تماشے ہی ہوں گے اسے ان سے کسی اور چیز کی امید بھی نہ تھی وہ بڑی محنت سے بوتیک
میں کپڑے سیتی تھی اور اس سے کمانے والے پیسے بھی اپنی ساس کو دے دیتی ۔
اماں
بس کرو یہ تو ہے ہی بد بخت ۔۔۔جب سے زندگی میں آئی ہے جینا دوبر کیا ہوا ہے اسی لیے
اس کی اماں نے یہ منحوس ماری ہماری گلے باندھ دی تھی اب کی بار مقدس بولی تھی اور اس
کے لہجے میں اپنے لیے کرواہٹ وہ محسوس کر سکتی تھی
آپی
۔۔وہ دیکھیں سب عمیر کو لے کر جا رہے ہیں اور آپ یہاں بیٹھی ہیں طارم اس کے قریب ہوئی
تھی مگر وہ سکتے میں تھی کہ اسے اردگرد کچھ محسوس نہ ہو رہا تھا
جنازے
کے بعد سب جا چکے تھے مگر مروہ وہیں زمین پر بیٹھی گم تھی
مروہ
بیٹا اٹھ یہاں سے سردی لگ جائے گی موسم دیکھو کتنا شدید ہو رہا ہے۔۔اس کی اماں قریب
ہوتے ہوئے بولی تھی مگر اس کی جانب سے کوئی جواب نہ ملا تو وہ اسے زبردستی اٹھا کر
کمرے میں لے گئیں تھیں
امی
میرا آخری سہارا بھی چلا گیا اور وہ بھی میری وجہ سے ۔۔۔وہ ایک لمبی خاموشی کے بعد
بولی تھی
نہیں
مروہ میری جان تمہارا کوئی قصور نہیں ہے یہ سب قدرت کے کھیل ہیں اس کی زندگی اتنی ہی
تھی اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں ۔۔۔
نہیں
امی اگر میں گھر پر ہوتی تو وہ بچ جاتا وہ مجھے ہی پکار رہا تھا جب میں آئی تھی تو۔۔۔
تم
نے بھی بےوقوفوں والی باتیں شروع کر دیں ہیں تمہارا کوئی قصور نہیں تم اپنے بیٹے کو
کیسے کچھ کر سکتی ہو دنیا کی پرواہ مت کرو کہ یہ کیا کہتی ہے۔۔وہ اسے حوصلہ دیتی ہوئی
بولیں تھی
---------------
عصام
تمیز سے یہیں بیٹھ جاؤ نہیں تو میرے سے پٹ جاؤ گے۔ وہ کمرے میں سے نکلنے کی کوشش کر
رہا تھا جبکہ عمام اسے روکنے کی کوشش میں لگا تھا
کیا
ہے بھائی جانے دیں بس امی کو یہ ہی تو بتانا ہے کہ آپ کی ہاؤس جاب مکمل ہو گئی ہے اور
اب آپ کانووکیشن کے لیے مجھے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں۔۔وہ بات کو فوراً بدل گیا تھا
شاباش
!!بلکل ٹھیک ایسا نہ ہو کہ تم بدل جاؤ باہر جا کہ اود پھر تمہاری شامت آ جائے۔۔عمام
اسے دھمکی دیتے ہوئے بولا تھا
بھائی
آپ کو اتنا سا بھی یقین نہیں ہے مجھ پر ۔۔یہ دن بھی دیکھنا باقی تھا وہ ایکٹنگ کرتا
ہوا باہر نکل گیا
ایک
یہ اور ایک اس کے ڈرامے توبہ۔۔۔
امی
۔۔امی بات سنیں بہت ارجنٹ پیس آف ورک آیا ہے۔۔۔
بولو
کونسا ارجنٹ پیس آف ورک آ گیا ہے؟؟؟؟وہ کچن سےباہر لاؤنج میں آتی ہوئی بولیں
وہ
آپ کو پتا ہے بھائی کی ہاؤس جاب کا لاسٹ ڈے ہے اور بھائی مجھے کانووکیشن پہ نہیں لے
جا رہے۔۔وہ منہ بسورتے ہوئے بولا تھا
اچھا
تو یہ بات ہے ۔امی اچھا ہی کر رہیں ہیں بھائی جو اِس پاگل کو نہیں لے جا رہے نہیں تو
اُنکی بھی انسلٹ ہو جانی ہے ۔صفا دور بیٹھی سب سن رہی تھی اور بول بھی پڑی تھی
تم
اپنا منہ بند رکھو ۔۔چھوٹی ہو چھوٹی ہی رہو اس کا لہجہ انتہائی سخت تھا
تمیز
سے پیش آیا کرو اپنی چوٹی بہن سے ۔ایک ہی تو ہے اُسے بھی تم نہیں چھوڑتے وہ اسے ڈانٹنے
لگی تھیں
اسلام
وعلیکم !!!آنٹی صفا کہاں ہے؟؟؟؟فاخرہ اندر آ کے بولی تھی
ادھر
ہوں میں آجاؤ ادھر صفا دوسری طرف بیٹھی تھی اور وہیں سے بولی تھی
(فاخرہ ان کے پڑوس میں رہتی
تھی وہ اس کی تایا زاد بہن بھی تھی وہ ان کے گھر آتی جاتی رہتی تھی اس کی صفا سے اچھی
دوستی تھی)
چلو
آؤ باہر جا کر لان میں بیٹھتے ہیں وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر عالیشان سے محل کے دروازے سے
ہوتی ہوئی باہر نکل گئی تھی
تم
جانتی ہو میں بھی اسی کالج میں ایڈمیشن لے ہی ہوں جہاں تم نے لینا ہے۔۔
اچھا
یہ تو بہت اچھی بات ہے سبجیکٹ کونسے رکھے ہیں تم نے ۔صفا اس سے مزید پوچھنے لگی تھی
اس کو حیرت تھی کہ آخر اس کے گھر والوں نے جانتے بوجھتے کہ وہ پڑھنے والی نہیں ہے اسے
اتنے مہنگے کالج میں داخلہ کیسے لے دیا تھا
وہ
ہی جو تم رکھ رہی ہو میں نے سوچا ہم دونوں اکٹھے ہی پڑھا کریں گے
اچھی
بات ہے یہ تو ہم مل کر کام کر لیا کریں گے ۔۔صفا سوچ میں ڈوب گئی تھی کہ آخر یہ ایسا
کیوں کر رہے ہیں
فاخرہ
۔فاخرہ کہاں ہو ؟؟؟اسے پکارتا ہوا زبیر گیٹ سے داخل ہوا تھا
جی
بھائی میں ادھر ہوں
اسلام
و علیکم زبیر بھائی آپ آج گھر ہی ہیں آفس نہیں گئے صفا نے اٹھتے ہی پوچھا تھا
نہیں
آج وہاں کوئی کام چل رہا ہے فیکٹری کا تو اس لیے ہمیں چھٹی تھی
اوہ
۔اچھا پھر تو ٹھیک ہے۔ زبیر صفا سے آٹھ نو سال بڑا تھا اس کی منگنی اس کی خالہ کی طرف
ہوئی تھی اور وہ کافی اچھی عادت کا تھا صفا اس سے کبھی کبھار بات کر لیا کرتی تھی
چلو
تم زرا گھر مجھے کپڑے پریس کر کے دو وہ فاخرہ کو بولتا ہوا واپس ہو گیا تھا
میں
پھر آؤوں گی اِسے اُسی وقت کام یاد آتے ہیں جب میں ادھر آؤوں تو وہ کہتی ہوئی اس کے
پیچھے چل دی
کوئی
بات نہیں ۔۔وہ بھی اندر چل دی تھی اندر کا ماحول ابھی بھی ویسا ہی تھا جیسا باہر جانے
سے پہلے تھا
ضرور
تمہاری کوئی گرل فرینڈ ہو گئ اسی لیے تم مجھ نہیں لے جا رہےسمجھ گیا میں۔وہ تڑچھی نظریں
کر کے اسے دیکھنے لگا
چلو
نکلو تمہیں ان فضول باتوں کا بڑا چسکا ہے جا کر پڑھو اگر اچھےمارکس نہ آئے تو میں ابو
سے کہہ کر تمہاری پاکٹ منی بند کروا دوں گا۔وہ دھمکی دینے والے انداز میں بولا تھا
اچھا
اچھا جاتا ہوں دھمکی تو مت دو مجھے ۔وہ اٹھ کر کمرے میں جا گھسا تھا
--------------
اسلام
و علیکم اماں!!!وہ بوتیک سے آ کر گھر میں داخل ہوئی تھی مگر گھر کا ماحول پہلے سے بلکل
مختلف تھا
مت
کہہ مجھے اماں ۔کیوں اماں لفظ کی توہیں کرتی ہے تو ۔۔وہ اکھڑی ہوئیں بولی تھیں
کیا
ہوا سب ٹھیک تو ہے ۔وہ سمجھ نہ سکی کہ ہوا کیا ہے
جہاں
گلچھڑے اُڑا کر آ رہی ہے وہیں چلی جا ۔۔وہ بولیں تو مروہ کے تو جیسے پیروں تلے سے زمین
نکل گئی تھی
میں
تو بوتیک سے آئی ہوں اماں میں اور کہیں نہیں گئی تھی ۔اس نے صفائی دینے کی کوشش کی
تھی
رضیہ
نے خود تجھے دیکھا ہے کسی کے ساتھ پارک میں گھومتے ہوئے۔یہ سنتے ہی مروہ کو تو جیسے
آگ ہی لگ گئی تھی وہ نہیں جانتی تھی کہ اب اس کے ساتھ یہ سب بھی ہو گا ۔رضیہ ان کی
ہمسائی تھی اور وہ مروہ کی بدنام کرنے کا کوئی موقع نہ چھوڑتی
مگر
میں تو سارا دن بوتیک میں ہی تھی۔وہ پھر اپنی صفائی کے لیے بولی تھی
وہ
پاگل تھوڑی ہے جو تیرے بارے میں جھوٹ بولے گی ۔اب تجھے یہ نوکریاں شوکریاں کرنی ہیں
تو ہھر یہاں سے نکل جا اور جا کہ اپنی ماں کے گھر کر ہم میں اب اور ہمت نہیں ہے بدنامی
کا بوجھ اٹھانے کی ۔۔انہوں نے جیسے اسے وہاں سے نکالنے کا بہانہ ڈھونڈ لیا تھا اور
مروہ کو اس بات کا اندازہ تھا کہ وہ اسے جلد ہی بے گھر کر دیں گے مگر اس طرح یہ نہیں
سوچا تھا اس نے
میں
صبح چلی جاؤوں گی ۔اس وقت یہ ممکن نہیں ہے ۔مروہ نے حقیقت کو قبول کر کے جانے کا فیصلہ
کیا آخر اب اس گھر میں وہ بوجھ ہی تو تھی اس کا کوئی اپنا نہ تھا وہاں پر جو اپنے تھے
وہ چھوڑ کر جا چکے تھے
صبح
کس نے دیکھی ہے تو ابھی نکل یہاں سے اور تیرے لیے کونسی مشکل ہے تو اپنے عاشق کو بُلا
لے تجھے چھوڑ دے گا۔۔مروہ کی آنکھوں میں آنسو آئے تھے مگر وہ جانتی تھی کہ اس کی ساس
اسے کبھی نہیں بخشے گی اور چاہے سچ جو بھی ہو اب وہ اسی کو سچ مان چکی تھی جو انہیں
رضیہ نے بتایا تھا
اماں
میں صبح ہوتے ہی چلی جاؤوں گی ابھی مجھے رہنے دیں۔۔وہ اب فریاد کرنے لگی تھی
مقدس۔۔اے
مقدس کہاں ہے تو لا اس منحوس ماری کا سامان اور نکال اس نحوست کو اپنے گھر سے ۔
مروہ
کے ہاتھ پیر پھولنے لگے تھے وہ آخر اس وقت اکیلی کیسے جائے گی
مقدس
اس کا سامان پہلے ہی اکھٹا کر چکی تھی اور اب وہ اسے باہر کی جانب دھکیلنے لگی تھی
اماں
پلیز صبح تک تو رہنے دیں مجھے۔ابا آپ ہی اماں سے کہیں کہ رکنے دیں مجھے۔وہ فریاد کر
رہی تھی مگر ان کے تو جیسے کانوں میں روئی ڈال دی ہو
چل
نکل جا کہ ماں کے گھر عشق لڑا ۔یہاں ان سب بے غیرتیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے ۔پہلے
میرے بچے کی جان لی پھر اپنے بچے کی بھی لے لی اور اب خود عشق لڑانے چلی ہے ۔۔۔
مقدس
نے اس کا سامان پکڑ کر گلی میں پھینکا تھا اور دروازہ بند کر دیا تھا
اماں
پلیز مجھے آنے دیں صبح تک کی تو مہلت دے دیں مجھے ۔۔وہ دروازے کو پِیٹ رہی تھی مگر
اندر سے کوئی آواز نہیں آئی تھی
وہ
دروازے کے ساتھ لگی نیچے گرتی چلی گئی تھی اس کے دماغ میں ساری یادیں آ رہیں تھیں جب
وہ پہلی مرتبہ اس گھر میں آئی تھی یہ گھر بہت بڑا تو نہیں تھا مگر اس کی ماں کے گھر
سے بڑا تھا اور زرمیل کو اس چیز کی کوئی پرواہ نہ تھی کہ وہ ایک چھوٹے گھرانے سے ہے
اس کے زندہ رہنے تک مروہ کو کام کرنے کی ضرورت نہ تھی مگر اس کے جاتے ہی عمیر کا اس
کی زندگی میں آنا اور ضرورتوں نے اسے کام کرنے پر مجبور کر دیا تھا روحیل کی کمائی
جو آتی تھی وہ صرف اس کی نند کے جہیز کے لیے سنبھالی جاتی تھی روحیل اس کا دیور تھا
اور وہ اس کی شادی سے پہلے کا دبئی میں سیٹل تھا اور گھر اس کی اور اس کے سسر کی کمائی
سے چلتا تھا
تم
تو ہے ہی منحوس ۔۔بچہ پیدا کیا ہے یا بیماری ۔۔مصیبت کے سوا کچھ نہیں تو۔۔اسے سب کے
سب الفاظ یاد آ رہے تھے
وہ
آنسو صاف کرتے ہوئے اٹھی تھی گلی میں ہر طرف اندھیرا تھا اور وہ ایک کم آبادی والے
علاقے میں رہتے تھے اس نے ہمت باندھ کر اپنا سامان اٹھایا اور چل دی اس کے قدموں میں
جیسے جان نہ تھی اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے
وہ
نہیں جانتی تھی جہ وہ اس وقت کہاں اور کیسے جائے گی مگر رب پر آس رکھ کر وہ چل دی تھی
وہ سڑک پر پہنچی تو ہر طرف ویرانی تھی اس وقت وہاں سے کوئی رکشہ یا ٹیکسی ملنی ممکن
نہ تھی اس لیے اس نے پیدل چلنا شروع کر دیا کتوں کی آوازیں مسلسل اسے خوفزدہ کر رہیں
تھیں
اسے
دور کہیں چند دکانیں دکھائی دے رہیں تھیں اس نے کوشش کی کہ وہ ان تک پنچ جائے تو محفوظ
ہو جائے گی
ارے
کہاں جا رہی ہو اس وقت ؟؟؟ہم چھوڑ دیں آؤ۔۔چند لڑکوں نے پاس سے گزرتے ہوئے گاڑی روکی
تھی مگر وہ مسلسل چل رہی تھی اس نے اپنی چادر کے کونے کو مزید اپنے چہرے کے آگے کیا
تھا
ان
کے پیچھے ایک اور گاڑی آئی تھی اس کی دھڑکن اور تیز ہو گئی تھی مگر جیسے ہی وہ گاڑی
قریب آئی تھی وہ رکی تھی اور پھر اس میں سے کوئی بھاری مردانہ آواز والا شخص نکلا تھا
جس نے انہیں بھگا دیا تھا مگر مروہ نے مُر کر نہ دیکھا اور قدموں کو اور تیز کر دیا
جلد ہی وہ دکانوں کے قریب پہنچ گئی تھی اور اسے وہاں سے تھوڑی دور تک کا رکشہ مل گیا
تھا اس کے پاس چند پیسے تھے جو اسے بوتیک آنے جانے کے لیے ملتے تھے
اس
کے آنسو مسلسل اس کے چہرے کو بھگو رہے تھے اسے خود نہ معلوم تھا کہ وہ کیوں رو رہی
ہے جبکہ وہ جانتی تھی کہ یہ سب ہونے والا ہے مگر ہاں یہ نہ جانتی تھی کہ اتنی جلد ہونے
والا ہے اسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ گاڑی اس کے پیچھے ہی آ رہی ہے اس نے ہلکی سی گردن
موڑی تھی وہ سچ مہں اسی کے پیچھے تھی
آخر
یہ کیوں میرے پیچھے آ رہا ہے ۔۔پتہ نہیں کون ہے؟؟؟اس نے نظر انداز کرنے کی کوشش کی
تھیں مگر مسلسل دھیان وہاں ہی جا رہا تھا ۔وہ آگے جا کر اپنی اماں کے گھر سے تھوڑی
دور اُتری تھی اور اس کے اُترتے ہی وہ گاڑی بھی رُک گئی تھی اب مروہ کو ڈر لگا تھا
اس نے قدموں کی رفتار بڑھ دی تھی اور جا دروازے کے آگے کھڑی ہوئی اس کا دل چاہا دروازہ
توڑ کر اندر چلی جائے مگر دوسری تیسری دستک پر اس کی اماں کی آواز آئی تھی
کون؟؟؟؟
اماں
میں ہوں ۔مروہ ۔اس کی اماں نے فوراً اس چھوٹے سے مکان کا دروازہ کھولا اور وہ اندر
چلی گئی تھی
تم
اِس وقت یہاں کیا کر رہی ہو؟؟؟انہوں نے اسے سامان کے ساتھ دیکھ کر پوچھا تھا
اماں
!!وہ ان کے گلے لگ کر رو دی تھی اور اس سے ان کی پریشانی بڑھ گئی تھی
اماں
میرا کوئی نہیں ہے نہ اس رنیا میں ۔۔سب مجھے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں میرا کوئی نہیں ہے
یہاں ۔وہ کھل کر رو دی تھی
ایسی
بات نہیں ہے اور جس کا کوئی نہیں ہوتا اس کا رب ہوتا ہے اور وہ رب تو بڑا بے نیاز ہے
۔۔تو اس وقت کیوں آئی ہے ؟؟؟اور یہ سامان۔
اماں
میری ساس اور نند نے مجھے نکال دیا ہے گھر سے ۔۔
مگر
کیوں ؟؟؟؟
وہ
کہتی ہے کہ میرا کسی کے ساتھ چکر ہے میں کسی سے ملنے جاتی ہوں جبکہ میں تو سارا دن
بوتیک میں ہوتی ہوں۔۔وہ جیسے صفائی دینے لگی تھی
چل
تو چپ کر اور آ اندر ۔۔وہ اسے ایک چھوٹے سے کمرے میں لے گئیں تھیں جہاں طارم خرگوش
کی نیند کے مزے لوٹ رہی تھی
----------------
اسلام
و علیکم ابو ..وہ میز پر بیٹھتے ہوئے بولا تھا
وعلیکم
سلام!!برخوردار کیا بنا نوکری کا ؟؟؟
ابو
وہ تو مل گئی ہے آپ فکر نہ کریں لاہور کے مشہور ہسپتالوں میں سے ایک ہے ۔۔
مبارک
ہو تمہیں اب تم اس پاگل کو بھی سمجھاؤ کہ پڑھ لے پڑھائی کے بغیر کوئی فائدہ نہیں ہے۔۔۔وہ
عصام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے تو صفا کی ہنسی نکل گئی تھی
تمہارے
بڑے دانت نکل رہے ہیں کوئی لطیفہ سنایا ہے ابو نے ۔۔وہ چڑ کر بولا تھا
بس
بس اب یہاں مت شروع ہو جانا تم دونوں ۔خاموشی سے کھانا کھاؤ ۔۔وہ سب اب خاموشی سے کھانا
کھانے میں مصروف ہو گئے تھے
امی
آپ کو پتا ہے کہ فاخرہ نے بھی وہیں داخلہ لیا ہے اور انہی سجیکٹ میں ۔وہ کھانا مکمل
کر کے بولی تھی
اچھا
!!ضرور تمہارے مقابلے کے لیے لیا ہو گا برداشت نہیں ہوا انہیں کہ تم اچھے کالج میں
جا رہی ہو۔۔
اماں
ضروری تو نہیں کہ اس کے مقابلے کے لیے ہی لیا ہو۔عصام اس کی حمایت میں بولا تھا
میں
جیسے جانتی نہیں ہوں اسے اپنے باپ اور بھائی کا پیسہ ضائع کرنا ہے اس نے دیکھ لینا۔پڑھائی
میں تو کوئی انٹرسٹ ہے نہیں اسے
چھوڑیں
یہ سب بھائی آپ بتائیں ٹریٹ لب دے رہے ہیں جاب کی۔اس نے اب تیر عمام کی طرف پھینکے
تھے
دے
دوں گا کچھ دن جا کر تو دیکھ لوں ۔مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے کہ میں گورنمنٹ ہسپتال
میں کام کروں گا ۔لیکن میں جلد ہی اپنے ہسپتال کا کام شروع کر دوں گا۔
گڈ
ہو گیا یہ سب تو پھر شادی کب کریں گے آپ۔ اب تو ڈانس آ آ کر میرا ختم ہونے والا ہے
۔وہ منہ بسورتے ہوئے بولا تھا
ابھی
نہیں کروں گا میں شادی۔ابھی تو میں چھوٹا سا ہوں لوگوں کو لگتا ہے کہ میں ڈاکٹر بن
گیا ہوں تو میری عمر بھی زیادہ ہو گی وہ کیا جانیں کہ میری اماں نے مجھے چھوٹے سے کو
سکول بھیج دیا تھا ۔
ہاہاہاہاہاہاہا۔سب
کی قہقہے بلند ہوئے تھے
بھائی
فکر نہ کریں چھوٹی ہی بھابی ڈھونڈیں گے آپ کے لیے جو آپ کی ہی عمر کی ہو۔۔۔وہ ہنستے
ہوئے بولا تھا
فلحال
تو کوئی ضرورت ہی نہیں ڈھونڈنے کی ۔۔اس نے صاف صاف انکار کر دیا
کل
سے جوائن کر رہیں ہیں آپ بھائی ۔صفا بولی تھی
ہاں
انشااللہ صبح سے جاؤوں گا ۔۔وہ پُر امید لہجے میں بولا تھا
بھائی
زرا دھیان سے لوگوں کو کاٹیے گا ۔ویسے داد دینی پڑے گی آپ کو بہت ہمت ہے آپ کی جو کاٹ
دیتے ہیں لوگوں کو ۔۔وہ منہ چڑاتی ہوئی بولی تھی
اس
کاٹنے میں بھی تو رب نے شفا رکھی ہے صفا اگر ہمیں کوئی بیماری ہو اور کسی میں سرجری
کی ہمت نہ ہو تو پھر تو ہم دن بدن مرتے جائیں گے ۔وہ سنجیدگی سے بولا تھا
اچھا
چھوڑیں یہ بورنگ باتیں میں تو سونے جا رہا ہوں۔عصام اٹھ کھڑا ہوا تھا
واقعی
!!مزاق مت کرو تم اور سو جاؤ ہو ہی نہیں سکتا ۔۔عمام نے اسے طنز کیا تھا
جو
بھی سمجھو مگر میں جا رہا ہوں ۔اس کے نکلتے ہی سب اٹھ کر چل دیے تھے
---------------
اسلام
و علیکم امی ۔۔وہ بجھے ہوئے چہرے کے ساتھ گھر میں داخل ہوئی تھی طارم ایک طرف بیٹھی
اپنی کتابوں میں کھوئی ہوئی تھی
وعلیکم
سلام ۔۔وہ خاموشی سے ہی کمرے کی طرف چل دی تھی
اسے
کیا ہوا ؟؟؟جا طارم دیکھ زرا سب ٹھیک تو ہے نہ۔طارم اپنی کتابیں ایک طرف رکھتی ہوئی
اس کے پیچھے چل دی
آپی
کیا ہوا ہے؟؟؟؟آپی۔کوئی حرکت نہ ہونے پر اس نے اس کا ہاتھ ہلایا تھا اس کے ہاتھ بے
جان تھے طارم نے ایک نظر بڑھا کر دیکھا تو وہاں گولیوں کی ڈبی پڑی تھی
آپی
!!!امی دیکھیں آپی کو کیا ہوا ہے؟؟؟وہ بھاگتی ہوئی اندر آئیں تھیں
کیا
ہوا مروہ کو؟؟؟؟
اماں
آپی نے گولیاں کھا لیں ہیں ۔۔وہ الفاظ جوڑ کر بولی تھی
ہائے
میرے ربا یہ کیا ہو رہا ہے؟؟؟اس کی اماں سر پیٹ کر رہ گئیں
اماں
پکڑو اسے وہ اس کا بازو کھینچ کر اسے اٹھا رہی تھی ان دونوں نے بمشکل اسے رکشے تک لایا
تھا اور ہسپتال کو چل دیں تھیں شام ہونے کو تھی اور سردی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی
تھی
ہسپتال
پہنچتے ہی اسے ایمرجینسی میں لے جایا گیا تھا ۔طارم اور اس کی اماں باہر پریشان بیٹھی
تھیں
ڈاکٹر
صاحب کیسی ہے میری بچی؟؟؟وہ ڈاکٹر کے باہر نکلتے ہی اس کی جانب لپٹی تھیں
ابھی
ہم کچھ نہیں کہہ سکتے انہوں نے کافی زیادہ گولیاں کھا لیں ہیں جس کی وجہ سے کافی گہرا
اثر ہوا ہے۔۔ان کا معدہ واش کرنا پڑے گا ۔۔
ڈاکٹر
جو مرضی کرو لیکن میری بچی کو ٹھیک کر دے تجھے اللہ کا واسطہ ہے۔۔وہ روتی ہوئیں اس
کے آگے ہاتھ جوڑ رہیں تھیں
آپ
بس دعا کریں دوا ہم کرتے ہیں ۔
--------------
اس
کو ہوش آ رہی تھی اس نے ہلکے سے اپنی آنکھیں کھولیں تھیں کہ دروازے سے ایک کم عمر ڈاکٹر
داخل ہوا تھا
میں
زندہ ہوں ۔۔کیوں بچ گئی ہوں میں ۔۔وہ بڑبڑائی تھی
اللہ
کا شکر کریں کہ آپ کی جان بچ گئی ہے ۔۔وہ بولا تو اس کی آواز مروہ کے کانوں میں آئی
تھی
شکر
تو ب کرتے سب جب میں مر جاتی کیوں بچائی ہے میری جان؟؟؟مجھے نہیں جینا ۔۔یہاں میرا
کوئی نہیں ہے سب کو اپنی اپنی فکر ہے کوئی کسی کا ہمدرد نہیں۔۔مجھے ایسی دنیا میں نہیں
جینا ۔۔وہ مسلسل بڑبڑا رہی تھی
آپ
ایسا کیوں کہتی ہیں دیکھیں جتنی انسان کی زندگی اللہ تعالی نے لکھی ہے وہ تو پوری کرنی
پڑے گی اور ایسے تو آپ اس رب کی ناشکری کر رہیں ہیں ۔۔۔وہ بولتا ہوا ہاتھ میں انجیکشن
لیے اس کی طرف بڑھا تھا
نہیں
لگوانا مجھے لے جاؤ یہ یہاں سے ۔۔اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو نکل رہے تھے
زندگی
سے مایوس نہیں ہوتے کیا آپ نہیں جانتیں کہ رب نے کوئی چیز بےکار نہیں بنائی ۔۔آپ تو
پھر اس کی اشرف مخلوق میں سے ہیں ۔۔وہ عجیب خیالات کے ساتھ بولی جا رہا تھا اسے سمجھ
نہیں تھی آ رہی کہ آخر اسے اس سے اتنی ہمدردی کیوں ہو رہی ہے؟؟؟وہ نازک سی سفید رنگ
کی مالک لڑکی کافی خستہ حال لگتی تھی مگر اس کے اندر کشش تھی جو اسے ہمدردی پر مجبور
کر رہی تھی اس نے اپنی ہاؤس جاب کے دوران تو ایسا کبھی نہیں محسوس کیا کسی مریض کے
لیے ۔۔پھر اس کے لیے کیوں ؟؟؟؟
اماں
۔۔وہ اندر داخل ہوئیں تو اس نے ہلکے سے بولا تھا پھر چند ہی لمہوں میں وہ بے ہوشی کی
نیند میں کھو گئی تھی ساری دنیا کے خیالات سے خالی وہ اب بہت پرسکون دکھائی دے رہی
تھی
آپ
انہیں کچھ دن آرام کرنے دیں یہ ہسپتال ہی رہیں گی اِن کا معدہ واش ہوا ہے تو انہیں
کچھ دن یہیں رکھا جائے گا۔۔وہ انہیں تفصیلات بتا کر نکل گیا تھا رات کے نو بج رہے تھے
اب اس کی ڈیوٹی کا وقت ختم ہو گیا تھا اور اسے گھر جانا تھا
---------------
اسلام
و علیکم !!وہ اندر داخل ہوا تو سب اسی کے انتظار میں بیٹھے تھے انہوں نے آج ڈنر کے
لیے جانا تھا
وعلیکم
سلام !!کیسا رہا پہلا دن؟؟؟اس کی اماں بولیں تو اس کے ذہن میں فورا وہ لڑکی آئی تھی
اچھا
تھا۔۔وہ خیالات سے نکلتے ہوئے بولا تھا
جیسا
بھی تھا بھئی اب چلو میری تو بھوک سے جان نکل رہی ہے باقی باتیں رستے میں کر لینا۔۔عصام
فوراً اٹھ کھڑا ہوا تھا
چلو
بھئی مجھے خود بہت بھوک لگی ہے اب کی بار صفا بھی اٹھی تھی
چلو
چلتے ہیں تم فریش ہو آؤ میں گاڑی نکالتا ہوں ۔۔جعفر صاحب اٹھتے ہوئے بولے تھے تو وہ
سر کو ہاں میں ہلاتا ہوا کمرے میں چلا گیا
آخر
ایسا کیا ہوا ہو گا جو اس لڑکی نے اپنی جان دینے کی کوشش کی۔۔ابھی تو اس کی عمر بھی
زیادہ نہیں ہے۔۔ضرور کسی لڑکے کا چکر ہو گا۔۔تمام سوچوں کو پیچھے کرتا ہوا وہ فریش
ہو کر نیچھے چلا گیا جہاں سب اُسی کا انتظار کر رہے تھے اور اسی کی کامیابی کی خوشی
میں وہ سب سیلیبریٹ کر رہے تھے
وہ
عصام اور صفا کے ساتھ بیٹھا تھا اور دوسری گاڑی میں جعفر صاحب تھے
بھائی
کوئی خوبصورت سی ڈاکٹر نہیں ہے آپ کے ہاسپٹل میں۔۔
نہیں۔
کیوں؟؟؟
بھائی کوئی تو ہو گی
میں
کام کرنے گیا تھا نہ کہ یہ دیکھنے کہ کون خوبصورت ہے۔۔
وہ
تو ٹھیک ہے مگر بندہ کام کے ساتھ ساتھ یہ بھی کر لیتا ہے دل لگا رہتا انسان کا۔۔
انسان
کا دل ایک ہی جگہ لگنا چاہیے اور وہ ہے رب کے ساتھ اس کے بعد اگر لگانا ہے تو ہر کسی
سے لگانے کی ضرورت نہیں ۔۔۔وہ اسے لیکچر دینے لگا تھا
بھائی
کیا ہو گا اس لڑکی کا جس کی آپ سے شادی ہو گی وہ بیچاری تو تس جائے گی آپ کی آواز سننے
کے لیے ۔جس طرح کا آپ کا ذوق ہے۔۔وہ ہنستا ہوا بولا تھا
ہاہاہاہاہاہا!!!بھائی
کی تو آواز سننے کو ترسے گی آپ کی تو آپ سے جان چھوٹنے کو ترسے گی ۔۔
اے
چھٹکی تو بول ایسے رہی ہے جیسے تو فیوچر کی سیر کر کے آئی ہے
ہاں
عصام بھائی واقعی جیسے آپ کر آتے ہیں نہ تمام لوگوں کے فیوچر کی سیر ۔۔ویسے میں بھی
آپکے پیچھے پیچھے آ جاتی ہوں فیوچر لینڈ کی سیر کے لیے
بس
کرو اپنی بونگیاں کوئی کام کی بات کرو ۔تم لوگ کیا فیوچر فیوچر لے بیٹھے ہو
بھائی
آپ کام کر کے آئیں ہیں اور ابھی بھی کام کی بات کرنے کا کہہ رہے ہیں ۔۔وہ نہ سمجھنے
والے انداز میں بولا تھا
کیا
کروں خون میں ہی ڈاکٹری دوڑتی ہے اب یہ تو میں نہیں بدل سکتا ۔۔
کوئی
بات نہیں جس دن آپ کو وہ لڑکی مل جائے گی نہ اس دن آپ کو کام سے زیادہ اس کی فکر ہو
جائے گی۔۔۔وہ سوچتے ہوئے بولا تھا
کونسی
لڑکی؟؟؟؟عمام نے سوالیہ نگاہوں سے اسے دیکھا تھا
وہ
ہی بھائی جسے مل کر آئیں ہیں آپ۔۔۔عمام کے چہرے کے رنگ ایک دم بدل گئے تھے وہ تو رات
کو آنے سے پہلے اس نادان سی زندگی سے ہاری ہوئی لڑکی سے مل کر آیا تھا مگر وہ حیران
تھا کہ وہ اسے کیسے جانتا ہے
کونسی
لڑکی ؟؟؟کب ملا میں اسے ؟؟؟اس نے خیالات سے نکلتے ہوئے پوچھا تھا
بھائی
آپ تو ایسے پریشان ہو گئے ہیں جیسے سچ میں کوئی لڑکی ہو میں تو مزاق کر رہا تھا ۔۔ویسے
اب تو مجھے پتا چل گیا ہے کہ کوئی تو ہے ۔۔۔وہ طنز کرتا ہوا بولا تھا
چلو
نکلو گاڑی سے یہ بکواس بعد میں کر لینا ۔۔
وہ
ریسٹورینٹ کے باہر گاڑی روک کر بولا تھا اور اس کے پیچھے صفا اور عصام دونوں مسکرائے
تھے
--------------
جاری ہے
Comments
Post a Comment