نازک آبگینے
از قلم :- حافظہ ثوبیہ
عارف
”یہ
حوا کی بیٹیاں
کبھی قربان ہوتی ہیں
ماں باپ کی عزت پہ
کبھی بھائی کی غیرت پہ
کبھی سہاگ کے نام پہ ستی ہوتی ہیں
کہنے کو یہ نازک آبگینے
کبھی ممتا پہ
اپنا چین و قرار لٹاتی ہیں
کیسی ہیں یہ حوا کی بیٹیاں
اپنی خوشیوں کا قتل عام کرکے
پاؤں کی جوتی کہلاتی ہیں
یہ ماں باپ کے آنگین کی چڑیاں
ساری عمر آنگن آنگن بھٹکتی
اپنا بسیرا ﮈھونڈتی
ہیں
ہر رات کے بعد سویرا ﮈھونڈتی
ہیں
یہ حوا کی بیٹیاں
یہ نازک آبگینے.....!!“
وہ آج کئی سالوں بعد اپنی ﮈائری
لیے بیٹھے اپنی لکھی ہوئی نظموں کو پڑھ رہی تھی- آج اسے روز کی طرح پھر سے اپنے
ماں باپ یاد آئے تھے- وہ ﮈائری
پڑھنے میں اتنی غرق ہوچکی تھی کہ اسے اپنے بیڈ پر لیٹی اپنی تین دن کی بیٹی کی
رونے کی آواز بھی سنائی نہ دے رہی تھی-
کبھی کسی کی وہ بھی تو بیٹی ہوا کرتی تھی- کبھی اسکی
ماں نے اسے بھی تو سینے سے لگایا ہوگا- لیکن وہ تین دن سے اپنی بیٹی کو ہاتھ بھی
نہ لگاپائی تھی- اس بیٹی کو پیدا کرنے کیلئے اس نے کتنی اﺫیتیں
، کتنا کرب جھیلا تھا وہ شاید وہی جانتی تھی- کیا اسکی ماں نے بھی وہی کرب ،وہی
تکلیفیں سہیں تھیں- اگر اسکی ماں نے بھی وہ سب سہا تھا تو اسے سینے سے کیسے لگا
لیا تھا-
ہاں شاید وہ اپنی ماں کی پہلی اور آخری بیٹی تھی اسیلیے
تو اسکی ماں نے اسے سینے سے لگا لیا تھا لیکن وہ اپنی تیسری بیٹی کو روتا بلکتا
چھوڑ کر زندہ مشین بن چکی تھی اور بنانے والا اسکا شوہر اسکے سسرالی ہی تھے جنھیں
وہ ایک ربورٹ کی مانند لگتی تھی- انھیں اس سے سروکار تھا تو صرف اتنا کہ وہ انکی
نسل کو آگے بڑھانے کیلئے بیٹا پیدا کردے- لیکن وہ یہ نہ سمجھتے تھے کہ دینے والے
کی ﺫات تو اللہ وہ چاہے بیٹا
دے یا بیٹی یا کچھ بھی نہ دے کیونکہ وہی سب کچھ بہتر جاننے والا ہے-
********************************************
”ماں
جی اسکا نام کیا رکھوں؟“ ام حبیبہ کو آج پانچ دنوں بعد اپنی بیٹی یاد آگئی تو اپنی
ساس کے پاس لیے چلی آئی-
”منحوس
ماری“ نام رکھ دے- بلکہ اپنا نام یہ رکھ دے- ہمارے زمانے میں تو اگر پہلی بیٹی
ہوجاتی تو شوہر اسے گھر سے باہر کتوں کے آگے پھینک دیتا لیکن تیرے شوہر کو تو تجھ
پہ ترس ہی آجاتا ہے-“ ماں جی جلے بھنے انداز میں اپنی پرانی باتیں بتانے لگیں-
”تو
اماں تم کو کتنی بار سمجھایا ہے کہ اب یہ کسی کام کی نہیں رہی دوسری لے کیوں نہیں
آتی-“ اسکا شوہر بھی اسی وقت کسی کونے سے برآمد ہوگیا- وہ آنسو کو روکنے کی ناکام
کوشش کرنے لگی-
”ہاں
اب تو لے ہی آؤں گی- آج ہی زرینہ سے بات کرکے اچھی کڑی کا پتہ کرواتی ہوں-“ ماں جی
اپنے بیٹے پر پیار نچھاور کرنے لگیں- وہ اپنی بیٹی کو اسکی بڑی بہنوں کے حوالے
کرکے کچن میں سب کیلئے فرمائشی کھانا پکانے لگی- اسی دوران اسکی دونوں نند صاحبہ
ٹپک پڑیں-
”ارے
او اماں تجھے پتہ ہے کل ہمارے محلے میں ایک لڑکی نے پہلی بچی پیدا کی ہے- اسکے
شوہر نے ایک دن میں ہی لاتیں مار کر اسے گھر سے نکال دیا- ایک تو اور تیرا بیٹا ہے
جو اس کلموہی کو ابھی تک بٹھائے ہوئے ہے-“ نند اپنی محلے کی باتیں بتانے لگی-
”ہمارا
ظرف ہی اتنا بڑا ہے- اب تو بس لڑکی کا بندوبست کرنا ہے- میرے بیٹی کی زندگی سے اس
کلموہی نے خوشی کا نام ہی خارج کردیا ہے-“ اماں جی کا بس چلتا تو اسے چٹیا سے
گھسیٹ کر گھر سے باہر نکال پھینکتیں لیکن انکا بیٹا ہی نہ چاہتا تھا کہ وہ خاموش
مشین اس گھر سے جائے-
”اماں
اچھا ہے نا ایک کونے میں پڑی ساری زندگی بھیا کی نوکرانی بنی رہے- کام بھی ہوجائے
اور مفتا بھی لوٹ لیا جائے-“ دوسری نند نے بھی اپنا منہ کھولنا فرض سمجھا-
وہ خاموشی سے سب کیلئے چائے اور بسکٹ لے آئی- نندیں رات
کی کھانے کی فرمائشیں کرنے لگیں- وہ چپ چاپ سرجھکائے ایسے سنتی رہی جیسے مجرم
کٹہرے میں کھڑا ہو اور اسے سزا سنائی جارہی ہو-
********************************************
”کیا
آپکو یہ نکاح قبول ہے؟“ ام حبیبہ کے دل پر یہ الفاظ کسی ہتوڑے سے کم نہ لگ رہے
تھے- آج اسکے شوہر کی دوسری شادی تھی- اسکی ساس، نندوں اور شوہر نے اس سے دوسری
شادی کی اجازت لینا بھی ضروری نہ سمجھا تھا بلکہ اسے نیچے کمرے سے نکال کر چھت کے
سٹور پر بھیج دیا تھا جہاں پنکھا اور لائٹ بھی نہ تھا- وہ اپنی بیٹیوں کے مستقبل کیلئے
ساری رات سارا دن پریشان رہنے لگی تھی-
کیا بیٹا نہ پیدا کرنا ایک عورت کیلئے اتنی بڑی سزا بن
جاتا ہے؟ کیا اللہ کا حکم ہے کہ عورت کو پہلا بیٹا ہی پیدا کرنا لازم ہے؟ نہیں
اللہ اگر یہ حکم دیتا تو وہ ستر ماؤں سے زائد پیار کرنے والا ہر ایک عورت کو پہلا
بیٹا ہی دیتا کیونکہ وہ تو اپنے بندے کو بہت چاہتا ہے- پھر یہ معاشرہ، یہ لوگ، یہ
قوم ، یہ دنیا سمجھتی کیوں نہیں کہ بیٹا اور بیٹی اللہ کی دین ہے-
وہ دن رات مشین بنی ادھر سے ادھر ہر کسی کے کام کیلئے
پھرتی رہتی اور راتوں کو اسکے سجدے طویل ہوجاتے- اسکی سوتن کو آئے اس گھر میں سال
ہونے لگا تھا لیکن وہ اٹھ کر ایک کام بھی نہ کرتی تھی- اپنی ساس اور شوہر کی
آنکھوں کا تارا تھی جبکہ تین بیٹیوں کی ماں کلموہی اور منحوس ماری کے عہدے پر فائز
ہوچکی تھی-
اسی طرح سال بھی گزر گیا- اب ساس صاحبہ دوسری بہو کے
پیچھے پڑ چکی تھیں کہ اولاد کیوں نہیں ہورہی ہے-
اسی دوران ام حبیبہ کو دوبارہ خوشخبری ملی تھی لیکن یہ
خوشخبری اسکے لیے عذاب سے کم نہ تھی- وہ جانوروں کی طرح پھر بھی سارا دن کام کرتی
رہتی اور فرمائشیں پوری کرتی رہتی-
اب اسکی دعائیں ”بیٹا دینا“ سے لے کر ”بیٹا ہی دینا“ تک
ختم ہوتی تھیں-
********************************************
”سنو
تمہارا اگر بیٹا ہوا تو مجھے دے دو گی- مجھے بچے پیدا کرنے کا شوق نہیں ہے اور نہ
ہی میں پیدا کرنا چاہتی ہوں- بس یہ اماں جی کو بچہ چاہیے-“ اسکی سوتن اسے اپنے
کمرے میں صفائی کرتا دیکھ کر پوچھی-
”اور
اگر بیٹی ہوئی تو....؟؟“ ام حبیبہ نے سوال داغا-
”ہاہاہاہا
تم جانتی ہو احمد نے کہا ہے کہ اگر اس دفعہ تمہاری بیٹی ہوئی تو وہ اسے زندہ درگور
کردے گا-“ اسکی سوتن اسکے شوہر کا نام لیے تمسخر اڑانے لگی-
ام حبیبہ کے پاؤں تلے سے زمین سرک گئی-
”تو
پھر تم بھی سن لو- خود بچے پیدا کرو اور اسے زندہ درگور کروادو- میں تمہیں اپنا
بچہ مر کر بھی نہیں دوں گی-“ ام حبیبہ روتے ہوئے کمرے سے نکل کر اوپر آگئی جہاں
دھوپ آج اسکا امتحان لینے کیلئے کافی تھی-
”کیا
قصور ہے میرے اللہ؟ یہ میرے بس میں تو نہیں ہے؟ کیا میں اپنی بیٹی کو زندہ درگور
ہوتا دیکھ پاؤں گی؟ اللہ بیٹیاں تو رحمت ہوتی ہیں- اللہ اسے زحمت نہ بنا- اللہ
مجھے بیٹا دے دے- اللہ میں کسی بیٹی کو زندہ دفن نہیں کرنا چاہتی- اللہ مجھے بیٹا
عطا کردے-“ وہ دھوپ سے بے نیاز تپتی زمین پر بیٹھی اللہ سے فریادیں کرنے لگی-
ایک ماں سب کچھ اپنے بچے کیلئے برداشت کرتی ہے- دھوپ ،
چھاؤں، سردی، گرمی کچھ بھی ہو وہ اپنے بچے کیلئے چھت بن جاتی ہے تو ایک ماں اپنے
جگر کے ٹکڑے کو زندہ درگور ہوتا کیسے دیکھ سکتی ہے؟؟ کیسے وہ برداشت کرسکتی ہے؟؟
ماں صرف بولنے، چلانے، کھلانے والی نہیں ہوتی ماں تو ایک ایسی عظیم ہستی ہوتی ہے جو
کبھی اپنی اولاد کے قتل کرنے پر بھی اسے اکیلا نہیں چھوڑسکتی ہے-
********************************************
آسمان پر صبح سے کالے بادل چھائے ہوئے تھے- ام حبیبہ
فجر کی نماز پڑھ کر قرآن کی تلاوت میں مشغول ہوگئی- اسی دوران چرند پرند خدا کی
تسبیح کرتے ہوئے اپنے گھروں سے دن گزارنے کیلئے نکل آئے تھے- آج سورج کالے بادلوں
کو پیچھے چھوڑ کر زبردستی کبھی نکلتا کبھی چلاجاتا- بلاآخر اسکی ہمت جواب دے گئی
تو سارے آسمان پر کالے بادلوں نے اپنا ﮈیرہ
جمالیا-
سورج کی طرح آج اسے بھی اپنا حال یہی لگ رہا تھا- وہ
بھی سورج کی طرح زبردستی آج باہر نکل تو آئی تھی لیکن اسکی ہمت جواب دے رہی تھی-
وہ احمد کے جوتے پالش لگانے کیلئے جھکی تو کمر سے درد کی ٹیسیں اسکے سارے بدن میں
پھیل گئیں- وہ چاہ کر بھی ”چوں چراں“ نہ کرپائی اور چپ چاپ احمد کے جوتے پالش
کردیے- احمد اٹھنے لگا تو اس نے اسکا بازو پکڑ کر روکا-
”احمد
آج آپ ٹہر جائیں-“ وہ روتے ہوئے گویا ہوئی-
”تیرا
باپ پیسے دینے آئیگا گھر کے کیا؟ ہٹ پرے...آئندہ کالی بلی بن کر راستہ نہ کاٹنا-“
احمد اسے پیچھے دھکیل کر روانہ ہوگیا-
وہ صبح سے لے کر شام تک کاموں میں جتی رہی- نہ کپڑے
پہننے کا ،نہ سجنے سنورنے کا شوق اسے رہا تھا- جب شوہر ہی اپنا نہ تھا تو وہ سجتی
سنورتی کس کیلئے؟ اسکے ماں باپ بھی اس دنیا میں نہ تھی جنکے گھر وہ چلی جاتی- سارا
دن تھک ہار کر وہ کام ہی کرتی رہی- ابھی وہ ہانڈی چڑھا کر کچن سے نکلی ہی تھی کہ
اسکی ساس اپنی بیٹیوں اور بہو سمیت گھر میں داخل ہوئیں- ماں جی کی دوسری بہو انکے
پیچھے سر جھکائے چلی آرہی تھی-
”یہ
ساری کلموہیاں میرے بیٹے کے نصیب میں ہی لکھی گئیں ہیں-“ ماں جی غصے سے گویا ہوئیں-
”اماں
کیا ہوگیا ہے- کچھ ہمیں بھی تو بتادے-“ نند نے ماں سے پوچھنا چاہا-
”یہ
دوسری تو سرے سے ہی بانجھ نکلی ہے اور ایک یہ کلموہی بس بیٹیاں ہی گلے کا ہار
بنائے جارہی ہے-“ ماں جی کا غصہ ساتویں آسمان پر جاپہنچا تھا-
”اماں
تجھے پتہ ہے مجھے تو ﮈاکٹرانی
نے کہا ہے کہ میرا پہلا بیٹا ہی ہوگا-“ نند خوشی سے ماں کو بتانے لگی-
”اور
یہ کلموہیاں ہی رہ جائیں گی- تو تو اپنی ماں کے گھر دفعہ ہوجا اور بانجھ بنی بیٹھی
رہ...میرے گھر میں قدم بھی نہ رکھنا-“ ماں جی نے دوسری بہو کو کہا تو وہ تن فن
کرتی اپنا سامان لیے مائیکے چلی گئی-
اگلے دن ماں جی کی بیٹی نے اپنی نسل آگے بڑھاتے ہوئے
ایک رحمت پیدا کی تھی- اسکے سسرالیوں نے پہلے ہی دن اسے اپنے گھر جانے کا کہہ دیا
تھا- وہ اب گھر پر موجود ماں کے گلے لگ کر رورہی تھی-
”اماں
جیسا ہم نے کیا ویسا ہی اللہ نے ہمارے ساتھ کیا- اماں ام حبیبہ کو ہم نے بہت دکھ
دیے ہیں-“ وہ روتے ہوئے ماں کے گلے لگی بیٹھی تھی-
ماں جی نے اسکی بات پر صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا- اور
خاموشی سے اسکو اکیلا چھوڑ کر کمرے سے نکل گئیں-
”بیٹیاں
سب کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں
گھر خدا کو جو پسند آئے وہاں ہوتی ہیں“
********************************************
احمد کی دوسری بیوی دوبارہ گھر آچکی تھی- اب وہ ام
حبیبہ کے ساتھ ہی کام میں ہاتھ بٹواتی تھی- ماں جی کا رویہ بھی بہتر ہوچکا تھا
لیکن اللہ کو ان سب کی آزمائش ابھی لینی تھی-
صبح سے ام حبیبہ کی طبیعت بگڑرہی تھی- زیادہ بگڑنے لگی
تو احمد اسے ہسپتال لے گیا لیکن تب تک اسکی حالت غیر ہوتی چلی گئی- اسے بروقت
ٹریٹمنٹ دی جارہی تھی-
آپریشن تھیٹر میں اس وقت وہ زندگی اور موت کی جنگ لڑرہی
تھی-
احمد اپنی ماں اور بیٹیوں کو وہیں چھوڑ کر مسجد کی طرف
روانہ ہوگیا- ماں جی بھی سائیڈ پر جائے نماز بچھا کر دعائیں کرنے لگیں-
احمد ایک گھنٹے بعد مسجد سے ہسپتال آیا تو اسے آپریشن
تھیٹر سے ﮈاکٹر
باہر آتے دکھائے دیے- وہ فوراً انکی طرف لپکا-
”مبارک
ہو آپکو احمد صاحب آپکا بیٹا ہوا ہے-“ نرس نے ماں جی کو بیٹا پکڑایا- ﮈاکٹر
احمد کی طرف دیکھنے لگے جو شکریہ کہہ کر بچے کی طرف خوشی سے دیکھ رہا تھا- آج کئی
سالوں بعد اسکی اور ماں جی کی مراد پوری ہوگئی تھی- بیٹیاں بھی خوشی سے اپنے بھائی
کو دیکھ رہیں تھیں-
”احمد
صاحب آپکی بیوی اس دنیا میں نہیں رہیں-“ ﮈاکٹر
اسے بولتا نہ دیکھ کر خود ہی گویا ہوئے-
احمد کی سماعتوں پر کسی بم کی طرح وہ خبر پھٹی تھی- وہ
پھٹی پھٹی نظروں سے کبھی ﮈاکٹر
کو دیکھتا اور کبھی ان بچیوں کو جو ننھے منے کے ساتھ کھیل رہیں تھیں- ماں جی کی
آنکھوں سے دو موتی ٹوٹ کر انکی وائٹ چادر میں جذب ہوگئے-
احمد نے بمشکل سر ہلایا اور ہاسپٹل کی راہداری عبور
کرتا ہوا مسجد کی طرف روانہ ہوگیا-
”بیٹے
باپ کی زمینیں بانٹتے ہیں
اور بیٹیاں باپ کا دکھ بانٹتی ہیں“
********************************************
ام حبیبہ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے پندرہ سال گزر چکے
تھے- ام حبیبہ کی بیٹیاں اپنے باپ کے کندھے تک آچکی تھیں- ماں جی ام حبیبہ کے دو
سال بعد ہی اس دنیا رخصت ہوچکی تھیں اور انکی دوسری بہو نے نندوں کو گھر میں گھسنا
بھی منع کردیا تھا- احمد دن رات صرف اپنے بزنس میں مگن ہوچکا تھا اور اسکی بیوی
صرف احمد کے بیٹے کو ہی سنبھالتی تھی جو ایک ضدی اور بدتمیز لڑکا تھا اور احمد کی
کبھی اپنے بیٹے کے ساتھ بنی بھی نہ تھی- کچھ عرصے سے احمد بیمار رہنے لگا تھا اور
اسکا ساتھ اسکا بیٹا دینے کے بجائے اسکی بیٹیاں دے رہیں تھیں- کچھ ہی دنوں میں یہ
راز بھی افشا ہوگیا کہ احمد کو کینسر کا مرض لاحق ہوچکا ہے جسکے علاج کیلئے اسکی
بیٹیاں پڑھائیں کے ساتھ ساتھ باپ کا پھیلایا بزنس بھی سنبھال رہیں تھیں- احمد کو
اب بیٹیوں کی قدر ہوتی تھی اور رات دن وہ ام حبیبہ کو یاد کرتے ہوئے گزار دیتا
تھا- اسی دوران ہانیہ جو ام حبیبہ کی سب سے بڑی بیٹی تھی اس نے ماں کی ﮈائری
میں لکھی شاعری اور ماں کی باتوں کو کتاب کی شکل میں تبدیل کروادیا تھا- احمد کو
اپنی بیٹیوں پر اپنے بیٹے سے زیادہ فخر ہورہا تھا-
********************************************
”میرے
معزز دوستوں،بہنوں اور بھائیوں اس تقریب میں آپ سب کو میں اور میری ٹیم خوش آمدید
کہتی ہے-
آج میرے لیے بہت خوشیوں بھرا دن رونما ہوا ہے اور یہ
خوشی میں آپ سب کے ساتھ منانا چاہتی تھی اسیلیے اس وقت آپ سب میرے سامنے موجود ہیں-“
وہ کھلی فضا میں سٹیج پر کھڑی تقریب کا آعاز کررہی تھی-
وہ ام حبیبہ کی پہلی بیٹی تھی جو آج اپنی ماں کی لکھی ﮈائری
کو کتابی شکل میں چھپوا چکی تھی- اسکا باپ احمد جو مہمانوں میں بیٹھا تھا اپنی
بیٹی کو فخر سے دیکھ رہا تھا- آج اسکی بیٹی نے وہ کردکھایا تھا جو اسکا بیٹا بھی
نہ کرپایا تھا- آج اسے ام حبیبہ کی یاد نہیں رلارہی تھی کیونکہ اس کے سامنے ام
حبیبہ کی نشانی کھڑی تھی-
میرے عزیز دوستوں اس کتاب کا عنوان ”نازک آبگینے“ میرے
بابا نے رکھا ہے کیونکہ یہ کتاب ”اللہ کی رحمتوں“ پر لکھی گئیں ہیں-
اللہ کی رحمت کون ہوسکتی ہیں؟
”اللہ
کی رحمت بیٹیاں ہوتی ہیں
پھولوں کا آنگن بیٹیاں ہوتی ہیں
باپ کی لاﮈلی
بیٹیاں ہوتی ہیں
ماں کی پر تو بیٹیاں ہوتی ہیں
رحمت کا سراپا بیٹیاں ہوتی ہیں
جہنم سے بچانے والی بیٹیاں ہوتی ہیں“
”جی
تو میرے عزیز مہمانوں یہ کتاب ”بیٹیوں“ پر ہی لکھی گئی ہے- خدارا بیٹیوں کو کبھی
بوجھ نہ سمجھیں-
اولاد پیدا کرنے والی، آپکی بیوی، آپکی ماں وہ بھی تو
کسی کی بیٹیاں ہی ہوتی ہیں- اگر اس دنیا میں نسل آگے بڑھانے کیلئے بیٹے ہی پیدا
کیے جائیں تو جب بیٹیاں ہی نہیں ہوگیں تو نسل آگے بڑھے گی ہی کیسے؟ کبھی ہم یہ
نہیں سوچتے کہ بیٹی یا بیٹا دینے والا تو صرف اللہ ہی ہے- اور الزام ایک ماں اور
ایک بیٹی پر ہی لگایا جاتا ہے کہ وہی غلط ہے جبکہ یہ سوچنا چاہیے کہ غلط ہم ہیں-
ایک ماں بچہ پیدا کرنے کیلئے کن اﺫیتوں
اور کن تکالیفوں سے گزرتی ہے یہ ہم نہیں سمجھتے بلکہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں صرف
بیٹا ہی چاہیے-“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:-
”جس
شخص کی بیٹیاں ہوں اسکو برا مت سمجھو اسلیے کہ میں بھی بیٹی کا باپ ہوں-“
”آخر
میں بس میں اتنا کہنا چاہوں گی کہ یہ کتاب پڑھ کر سبق ضرور سیکھیے گا- جزاک اللہ!“
وہ سٹیج سے اتر کر سبکو کتابیں دے کر اپنی کرسی تک چلی
آئی جہاں اسکا بھائی،بہنیں اور باپ بیٹھے ہوئے تھے- احمد نے اپنی بیٹی کو فخر سے
دیکھا اور اسے سینے سے لگا کر اپنے آنسو پونچھے اور ام حبیبہ کیلئے سب کے ساتھ
مغفرت کی دعا کرنے لگا-
********************************************
«ختم
شد»
Comments
Post a Comment