Murad e man by Muhammad Usama Arif Part 1

Murad e man by Muhammad Usama Arif Part 1

مُراد ء من
محمد اسامہ عارف
پارٹ 1
"عشق محبت کرنے والے
اکثر پاگل ہو جاتے ہیں،
ایسی آگ میں جلنے والے
اکثر پاگل ہو جاتے ہیں۔
ہم ان کے دیوانے کیوں ہیں
کیسے ہم سمجھائیں تم کو،
ان کی آنکھیں تکنے والے
اکثر پاگل ہو جاتے ہیں۔"
بوسیدہ ہوتے کاغذ پہ لکھے ہوئے شعر اچانک سے نظر کے سامنے آگئے تھے دراز کی صفائی کے دوران۔ سکول کی کاپی سے پٹھنے والا یہ کاغذ کا ایک ٹکڑا نہیں پوری تاریخ رکھتا تھا۔ وہ اس لکھائی کو پہنچانتا تھا۔ اسے وہ بنا ڈھکنے والا پین بھی یاد تھا جس سے یہ شعر لکھے گئے تھے۔
اسکول ورک کرتے ہوئے وہ ساتھ ساتھ ایس ایم ایس ٹائپ کرنے میں مگن تھا، ابھی فیس بک وٹس ایپ جیسی سہولیات میسر نہیں تھی۔ مسیج لکھتے لکھتے ہاتھ بھی تھک چکے تھے مگر رفتار میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ نیئے ماڈل کا فون اور نیٹورک کا بوسٹر بھی گھر کے قریب، اس سے بڑھ کر اور چاہت بھی کس چیز کی کی جا سکتی تھی۔ تب یہ جملے تحریر ہوئے تھے۔ ایک عام سی رات۔ دسویں جماعت کے دو لڑکوں کے درمیان گہرا سکوت طاری تھا۔۔۔ جھینگر کی بے تکی موسیقی ان دونوں کے ہمنوائی کر رہی تھی۔ انکے کمرہ ان کی پسند کے مطابق چھت پر بنایا گیا تھا۔ جہاں ملازمین کو آنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
پیپرز آنے میں ابھی وقت باقی تھا! اسی لیے پڑھائی کے علاوہ دیگر مشاغل دلچسپیوں کا باعث بنے ہوئے تھے۔
گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہوئے ابھی چند روز ہی گزرے تھے۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°----------
وہ اس "ہینڈ رائٹنگ" کو اتنے سال گزر جانے کے بعد بھی بھولا نہیں تھا۔ اس کی آنکھوں میں آج بھی وہ منظر گھوم رہا تھا جب رات کے اس پہر شعر جب ریڈیو پہ سنایا گیا تھا تب اس نے جلدی سے اپنی کاپی پہ لکھ لیا تھا، وہ جلدی میں بھی اس قدر نفاست سے ہی لکھا کرتا تھا۔ اسنے لکھ کر جلدی میں کاپی سے پھاڑ کر اس کی جانب بڑھایا تھا کہ وہ جانتا تھا کہ جناب کس کام میں مصروف ہیں۔ عرشمان نے چونک کر اسے دیکھا تھا، وہ حیران تھا کہ یہ کیسا عجیب انسان ہے۔ اسے کیسے معلوم ہو جاتا ہے جہ مجھے اس لمحے کس چیز کی طلب ہے۔ اس وقت وہ کچھ بولنا چاہتا بھی تھا لیکن اس عظیم ترین کام کے پیشِ نظر چپ رہا۔۔۔
لڑکپن میں ایسا ہوتا ہی ہے۔ جنس مخالف کے لیے کشش محسوس سب ہی کرتے ہیں۔ وہ بھی کرتا تھا اور ہار مانے والوں میں سے تو تھا نہیں کہ مقابلہ ہو اور وہ پیچھے رہ جائے۔ ضدی اور سب کچھ کر جانے کی چاہت لیے ہوئے عرشمان بڑا ہو رہا تھا۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°----------
وہ پرانی چیزوں کو دیکھ کر پرانے وقتوں میں لوٹ گیا تھا، وہ بھول گیا تھا کہ وہ یہاں کیوں آیا ہے۔ اور کس لیے یہ دراز کھولی تھی۔ وہ یاد کر ہی رہا تھا کہ ملازم حسین نے آکر اسے کمرے کے باہر سے ہی آواز دی،
ملازم: سر جی توانوں وڈے صائیب بلاندے پے،۔۔۔۔ ملاز کی آواز سن کر عرشمان نے وہ سب چیزیں ادھر ہی رکھ دیں اور کمرے سے نکلتے ہوئے ملاز حسین کو کمرہ بند کرنے کا کہا اور تیزی سے سیڑھیاں پھلانگتا نیچے چلا گیا۔ ملاز حسین اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہ گیا "صائیب وی نرالے ہی نے۔۔۔ گل مندے ہی نہیں وڈے صائیب دی۔ ایہہ چگڑا ہی مکا دیںن" ملاز حسین منہ ہی منہ میں بڑبڑاتا ہوا تالا لگا رہا تھا۔۔۔
۔
۔
۔
عرشمان: بابا نوکریاں مجھ سے نہیں ہوتیں! یہ ہی کام ہے جس کو میں کرنا جانتا ہوں، پلیز مت روکیں مجھے۔ عرشمان کی نظریں جھکی ہوئیں تھی، وہ انکار کر رہا تھا لیکن اس میں یہ تاب نہ تھی کی وہ نظریں اٹھا سکے۔ اپنے بابا کی مان بھری آنکھوں میں جلتے امید کے چراغوں کو بجھتا ہوا دیکھ سکے۔
بابا: ایسے کاموں کے لیے اور بہت سے لوگ ہیں تم کہاں خوار ہوتے رہو گے عرشمان؟۔ بابا کے لہجے میں پریشانی تھی اور ان کا مفلوج ہوا ہاتھ خود بخود ہل رہا تھا۔ یہ ان کے غصہ کی ایک نشانی تھی۔ وہ اپنی وئیل چیئر کو تھام کر اپنے ہاتھ کی کپکپاہٹ کو روکنا چاہتے تھے۔ لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکے۔
عرشمان: بابا سب لوگ اگر یہ سوچ لیں کہ اس کام کے لیے کوئی اور آئے گا انکی کیا ضرورت ہے! تو ایسے کیسے چلے گا۔ عرشمان نے اپنا لہجہ بہت نرم کر لیا تھا، جتنا وہ کر سکتا تھا۔وہ بابا کے قریب زمین پہ آبیٹھا۔ بابا کے اس کانپتے ہوئے ہاتھ کو اپنے جوان اور مضبوط ہاتھ کی گرفت میں لے لیا۔ اور نرمی سے تھپکنے لگا۔
وہ عرشمان سے جیتنے کے خواہشمند نہیں تھے۔ وہ اس لاڈلے کے دلائل کے جواب میں بہت بہترین جوابات دے سکتے تھے۔ مگر خاموش رہے۔ اپنی اولاد کو لاجواب کرنے کی خواہش کون سے ماں باپ کے دلوں میں آسکتی ہے۔ پروفیسر محمد عقیل راجپوت اپنے بیٹے کی آنکھوں میں وہ ہی چمک دیکھ رہے تھے جو آج سے برسوں پہلے ان کی آنکھوں میں تھی جب وہ گاؤں کی زمین جائیداد تک چھوڑ دینے کو تیار تھے صرف اپنے استاد بنے کے شوق میں! ان کے والد نے کیسے کیسے داؤ پیچ نہیں لڑائے تھے۔ مگر بل آخر وہ بھی مان گئے تھے۔ پروفیسر محمد عقیل راجپوت نے اپنا نام بنایا تھا شہر کا رخ کر کے۔ مگر جب ان کے والد فوت ہو گئے، تو وہ یہ تدریس کا شعبہ چھوڑ کر اس کام میں لگ گئے جس کا ان کے والد کہا کرتے تھے۔ وہ اس کام کو آگے بڑھانے میں بہت زیادہ محنت کرتے رہے، اتنی محنت کہ اپنی حالت بگاڑ کر وہ وہیل چئیر پر آگئے تھے۔
پروفیسر عقیل: عرشمان کیا ایک وعدہ تم کر سکتے ہو مجھ سے؟ پروفیسر صاحب کے وعدے بہت کٹھن ہوا کرتے تھے۔۔۔
عرشمان: جی بولیں بابا۔۔ عرشمان نے نظریں جھکائے رکھیں۔۔ اور بابا کے کمزور ہوتے ہاتھ کو سہلانے لگا۔
پروفیسر عقیل: اگر میں نہ رہا،
عرشمان: بابا ایسی بات نہیں کیا کریں پلیز! عرشمان نے تڑپ کر بابا کی جانب دیکھا۔ وہ موت کے ذکر سے ہی کانپ جاتا تھا۔
پروفیسر عقیل: عرشمان! بڑوں کی بات مکمل ہونے دی جاتی ہے۔ تمیز بھولتے جا رہے ہو تم۔
پروفیسر عقیل گرج کر بولے۔ انہیں عرشمان کا یوں بات کاٹنا بہت برا لگا تھا۔ وہ ابھی بھی اتنے رعب دار تھے کہ ان کی آواز پورے گھر میں گونجتی تھی۔ اور عرشمان جیسا غصیلی طبعیت کا مالک شخص بھی کانپ کر رہ جاتا تھا۔
عرشمان: سوری ابا! عرشمان نے بچوں کی طرح آنکھیں موند لی تھیں۔۔۔۔ وہ بابا کو ان کے غصہ کی حالت میں ابا کہ کر مخاطب کیا کرتا تھا۔
پروفیسر عقیل: سوری کا بچہ۔۔۔ تم کو بھی وہ ہی کرنا ہے جو میں نے کیا تھا۔۔ اور اب تم جا سکتے ہو۔۔۔
عرشمان نے سر اٹھا کر اپنے بابا کو دیکھا۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر یہ بے ادبی ہوتی اگر وہ ایسا کرتا تو۔ اگر عرشمان آج سے چند سال پہلے والا عرشمان ہوتا تو شاید بغاوت میں دیر نہ کرتا۔ وہ بغاوت اب بھی کرے گا، مگر علان نہیں کرے گا۔ عرشمان تیزی سے کمرے سے باہر نکل گیا اور جاتے ہوئے دروازہ بہت احتیاط سے بند کر آیا کہ کہیں بابا اسکے اس انداز پہ ناراض نہ ہو جائیں۔۔ گاڑی آچکی تھی، اسکی منزل آفس تھی۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°----------
لیاقت ڈرائیور کی بیوی کو مرے ہوئے ایک زمانہ گزر گیا تھا۔ گھر میں بیٹی کے علاوہ ایک بہن تھی جسے شوہر نے طلاق دے کر گھر سے نکال دیا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کو ساتھ لیے بھائی کے گھر چلی آئی تھی۔ ۔ جہاں لیاقت کی بہن نسیمہ اور اس کے بیٹے جواد کو رہنے سر چھپانے کو گھر اور دو وقت کی روٹی ملی تھی۔ وہیں لیاقت کے بچوں کو سوتیلی ماں کے جبر سے بچانے کے لیے انہیں پھوپھی کا سایہ نصیب ہو گیا تھا۔ نسیمہ دوسری پھوپھیوں جیسی نہیں تھی جیسا کہ لوگ سمجھتے ہیں۔ اس نے اپنے بھائی کی اولاد کو ہمیشہ اپنی اولاد ہی سمجھا تھا، اور ان کی تربیت میں کوئی کمی نہ رہنے دی تھی۔ اس کا اپنا بیٹا تو پڑھ نہ سکا تھا اسے لیے اسے محلے کی مسجد کے ساتھ ملحقہ مدرسے میں تعلیم حاصل کرنے کو بھیج دیا گیا تھا۔ اب عرف عام میں سب اسے مولوی جواد کہا کرتے تھے۔ مولوی اب گھر پر کم ہی رہتا تھا۔ کبھی کہاں تبلیغ کے لیے جا رہا ہے تو کبھی جماعت کے لیے چندہ لینے۔ لیاقت کے بچوں نے اچھا پڑھا تھا اور ابھی تک پڑھ رہے تھے، بیٹی صفا بی اے کر رہی تھی تو بیٹا ثاقب انجینئرنگ کالج میں تھا۔ اور وہیں ہوسٹل میں قیام پزیر تھا۔
لیاقت: غریبوں کا بھی اللّٰه ہی ہے نسیمہ، وہی دال روٹی چلا رہا ہے بچے پڑھتے جا رہے ہیں! بندہ تو نہیں نا پوری کر سکتا۔ لیاقت نے ہاتھ دھوئے اور صحن میں بچھی چارپائی پہ بیٹھ گیا۔ اور کھانے کا انتظار کرنے لگا۔
اسکی بہن اور بیٹی رات کا کھانا بنانے میں ہی مصروف تھیں۔ بہن نے بھائی کی بات کے جواب میں بس سر ہلایا۔ وہ کہتی بھی کیا اپنے بھائی کو۔ جو اللّٰه توکل ہی زندگی گزارتا آیا تھا جس کا یقین اس ذات پہ کامل تھا۔
صفا نے کھانے کی پلیٹوں میں سالن ڈالا اور باہر لے آئی پھوپھی اس کے پیچھے روٹیوں کی چنگیری لیے آگئیں۔
"آج موسم کتنا گرم ہے ابا۔ اور بجلی بھی بار بار جاتی ہے۔ رات پڑھا بھی نہیں جاتا مجھ سے"۔ صفا نے باپ سے شکایت کے انداز میں کہا۔
اور لقمہ توڑ کر پلیٹ میں موجود ٹینڈوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔
پھوپی کے کہنی مارنے پہ وہ جیسے ہوش میں آگئی اور کھانا کھانے لگی۔
باپ بیٹی کی بات سن کر جیسے کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا تھا، چھوٹے چھوٹے لقمے لے کر وہ کھانا تو بس کھا ہی رہا تھا۔۔
بہت دیر کے بعد لیاقت کے منہ سے جو جملہ ادا ہوا ؤہ تھا "اللّٰه مالک ہے بیٹی"۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
وہ اس کے سامنے کوٹھی سے نکلا کرتا تھا ہر روز۔ اس کا لباس ہمیشہ اجلا ہوتا تھا جیسے عموماً بڑے لوگوں کے ہوا کرتے ہیں۔
اتنی بڑی کوٹھی میں رہتے ہوئے بھی وہ کبھی کبھی گاڑی میں جاتا تھا۔ ورنہ وہ تو بس کا سفر کیا کرتا تھا۔ بس اسٹاپ پر کھڑے بہت سے دوسرے لوگوں میں وہ اپنے لباس کی وجہ سے ممتاز دیکھائی دیتا تھا۔
مگر گزشتہ چند روز سے وہ بس اپنی گاڑی میں ہی جانے لگا تھا۔ وہ سٹاپ کے سامنے سے گزرتا تو اپنا نظر کا چشمہ ضرور درست کیا کرتا۔ وہ ایسا محض عادت کے مطابق یوں کیا کرتا تھا۔ اس کی یہ حرکت غیر ارادی تھی۔ مگر اس کا یہ انداز دیکھنے کے لیے وہ اپنی آنکھیں جھپکتی تک نہیں تھی۔ وہ تو جیسے مبہوت ہی ہو کر رہ جاتی تھی۔
کالج پہنچ کر سہیلی کی نظر والی عینک پہن کر وہ اس کی نقل اتارتی تھی۔
اس کی دوستوں کو اس کی اس حرکت کی اصل وجہ معلوم نہیں تھی، وہ سب اس بات کو غیر اہم سمجھتی
تھیں۔
آج بھی وہ تیز قدم اٹھاتی ہوئی سٹاپ پہ آئی تھی، وہ زیادہ سے زیادہ اس کو دیکھنا چاہتی تھی۔ گھر سے نکل کر سٹاپ کے سامنے سے گزرنے تک اسے دیکھ سکتی تھی۔
مگر وہ آج آہی نہیں رہا تھا، نہ جانے کہاں رہ گیا ہے، گھمنڈی شخص!
وہ زیر لب بڑبڑائی اور سر اٹھا کر اور اپنی ایڑیاں اٹھا کر دیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
عرشمان رات کتنے بجے لوٹا تھا؟ عرشمان کی امی نے ملازمہ سے سے سوال کیا۔ جو اکثر و بیشتر عرشمان کے لیے رات کو کھانا گرم کیا کرتی تھی۔
"وہ جی آج رات گھر نہیں آئے" ملازمہ نے ناشتہ کی میز پہ برتن لگتے ہوئے جواب دیا۔۔۔
"گھر نہیں آیا!" تو کہاں رہا رات بھر۔ ماں نے فکرمندی سے خودکلامی کی۔ جاو ملازم حسین کو بلا لاو رہنے دو ناشتہ لگانے کو۔ انہوں نے تیز لہجہ میں کہا تو ملازمہ برتن وہیں رکھ کر تیزی سے ملازم حسین کو بلانے چلی گئی۔
ملازم حسین بڑی بی بی کا پیغام ملتے ہی دوڑا چلا آیا۔ "جی بی بی"۔۔۔۔
رخسانہ: یہ عرشمان کدھر ہے؟ اور رست وہ گھر کیوں نہیں آیا؟۔۔۔ عرشمان کی امی نے اخبار پر سے نظریں ہٹائے بغیر ہی سوال پوچھا۔
کھانے کی میز پہ اس وقت ان کے علاوہ کوئی دوسرا موجود نہیں تھا۔
ملازم حسین: وہ جی انکی ڈیوٹی لگی ہے بڑے صاحب کو بتا کر گئے ہیں وہ۔ ملازم حسین نے اپنے سر سے بات کو ٹالتے ہوئے کہا۔ وہ بڑی بی بی کے غصہ سے بہت خوفزدہ رہتا تھا۔
ٹھیک ہے تم جا سکتے کو۔ انہوں نے ملازم حسین کو بھیج دیا۔ اور ناشتہ لگا کر گھر کے باقی لوگوں کو بلانے کا ملازمہ کو بول کر خود اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں۔۔۔
۔
۔
۔
آپ نے روکا کیوں نہیں اسے جانے سے؟ اور وہ چلا گیا تھا تو بتا دیتے مجھے بھی۔ میں ماں ہوں اسکی۔ مجھے یہ بات گھر کے نوکر بتا رہے کہ میرا بیٹا جا چکا ہے۔
مسز عقیل بات کرتے کرتے آبدیدہ ہو گئیں تھی۔ انکی آواز ڈوب رہی تھی۔ وہ کمرے میں داخل ہوتے ہی بولنے لگیں تھی اور کمرے کے کونے میں آرام دہ کرسی پہ بیٹھے اپنے شوہر کی جانب بڑھ رہی تھیں۔
پروفیسر عقیل نے آنکھیں کھولے بنا مسکرا کر بات سنی اور سنتے ہی رہے۔
پروفیسر: تم جان بھی لیتی تو کیا کر سکتی تھی رخسانہ بیگم!۔
پروفیسر صاحب نے اپنی آنکھیں نیم وا کی اور بیوی کی جانب دیکھا۔ جو دوپٹہ کے پلو سے اپنے آنسوؤں کو بہنے سے روک رہی تھیں۔
کچھ نہ کرتی مل تو لیتی وہ میرا بیٹا ہے پروفیسر صاحب۔ رخسانہ بیگم نے اپنی آواز نرم رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ وہ غصہ میں اپنے شوہر سے بھی آگے تھیں لیکن شوہر کے سامنے وہ ہمیشہ چپ ہو جایا کرتی تھی۔ کمرے میں خاموشی تھی اور اس خاموشی میں ملازمہ کی آواز سنائی دی،
"بی بی ناشتہ لگ گیا ہے"۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
دو دن کے بعد آج نظر آیا ہے اور تو کہتی میں کیوں جھوم رہی ہوں۔۔ صفا جو آج بے حد خوش دیکھائی دے رہی تھی چہک کر بولی۔ پتہ ہے وہ بہت گہری نظروں سے دیکھتا ہے قسم سے۔ دوست کی پلیٹ سے چپس کھاتے کھاتے صفا نے بات آگے بڑھائی۔
نازیہ: تجھے دیکھتا ہے؟ بیزاری اور اکتاہٹ سے نازیہ نے سوال کیا۔ اور جھنجھلا کر پلیٹ صفا کو ہی دے دی۔ صفا نے بھی توقف کے بنا اور کسی قسم کے تکلف کے بغیر پلیٹ لے لی۔ "نہیں یار مجھے کیوں دیکھے گا، اور دیکھے تو آنکھیں نہ نکال دوں اسکی" صفا تنک کر بولی۔
صفا کی آواز اونچی ہونے پہ کفیٹریا میں موجود لڑکیوں نے پلٹ کر ان دونوں کو قدرے ناگواری سے دیکھا۔
لیکن صفا کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی کہ اسے کون دیکھ رہا ہے اور کیوں دیکھ رہا ہے۔ نازیہ اپنا سر پیٹ کر رہ گئی اور صفا کو تقریباً اپنے ساتھ کھینچتے ہوئے وہاں سے لے آئی۔
چلتے چلتے اس نے پلٹ کر دیکھا تو صفا میڈم خیالوں میں گم ہو گئی تھی۔
نازیہ نے سر پہ چپت لگائی تو صفا واپس ہوش میں آگئی۔
نازیہ: نہ وہ تجھے دیکھے تو تم آنکھیں نکال دو اسکی، اور اپنے دیکھنے پہ کیا انعام چاہیئے جناب کو؟
کلاس روم پہنچ کر نازیہ نے سوال کیا اور اپنے بیگ میں سے کتاب نکالنے میں مصروف ہو گئی۔ صفا اس سوال کو سنتے ہی معصومانہ انداز میں بولی، " میں تو پسند کرتی ہوں نا اسے، وہ تو نہیں کرتا مجھے پھر کیوں دیکھے"
اس سے پہلے نازیہ کوئی جواب دیتی میڈم کلاس میں داخل ہو چکی تھیں۔ اس لیے وہ دونوں خاموش ہو گئی اور مس کی بات سننے لگیں۔۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
دروازہ توڑنے کا ارادہ ہے کیا، آرہی ہوں سن لیا ہے۔۔۔ نسیمہ شور مچاتی دروازے کی جانب بڑھنے لگی۔ وہ ہنڈیا کو چولہے پہ رکھ کر آئی تھی اور غصہ سے لال پیلا ہو رہی تھی۔۔۔ اسی غصہ کی حالت میں اس نے دروازہ کھولا تو حیرت کے مارے منہ سے چیخ نکل گئی اس کی حالت دیوانوں کی سی ہو رہیں تھی۔ اس کے سامنے انکا جوان بیٹا جواد کھڑا تھا۔ جواد کے سر کے بال بہت بڑھے ہوئے تھے اور داڑھی بہترین خط ہوئی تھی۔ اس کے لباس سے لگ رہا تھا وہ اچھا کما رہا ہے اور اچی صحت اس کی زندگی کے سکھی ہونے کا اشارہ دے رہی تھی۔ جہاں ماں کو بیٹے کے آنے کی خوشی تھی وہیں دوسری جانب اسے اپنے بیٹے میں آنے والی تبدیلی پہ حیرت بھی تھی۔ وہ بہت دیر بیٹے کو سینے سے لگائے چومتی رہی۔ وہ دونوں جیسے بھول گئے تھے کہ اس وقت وہ دروازے کے عین بیچوں بیچ کھڑے ہیں۔ وہ مزید نہ جانے کتنی دیر ایسے کھڑے ہی رہتے اگر صفا انہیں آواز نہ دیتی۔
پھوپھو یہ آپ کیا کر رہی ہیں دروازے میں کھڑی، وہ غصہ میں لال ٹماٹر ہو جایا کرتی تھی۔ کون ہے یہ جسے گلے لگایا ہوا ہے اور ایسے دروازے میں۔ وہ کچھ اور ہی سمجھی تھی۔ صفا کیا کوئی بھی ہوتا تو جواد کو پہلی نظر میں پہچان نہ پاتا۔ صفا کی بات سن کر وہ ماں بیٹا الگ ہو گئے، اسکی پھوپھی کی ہنسی تو بے قابو ہو رہی تھی اور بھولی سی صورت لیے صفا انہیں دیکھے جارہی تھی۔ پھوپھی! وہ چیخی تو پھوپھی نے آگے بڑھ کے اسے اپنے قریب کر لیا۔جواد نے تب تک پلٹ کر دیکھا نہیں تھا۔ وہ بھی ہنس رہا تھا اور اپنی ماں کی طرح۔۔۔
نسیمہ: عقل کی دشمن دیکھ تو لے کون آیا ہے۔ پھوپھی نے بھتیجی کو اس اجنبی کے سامنے لا کھڑا کیا۔ وہ اسے دیکھتی رہی مگر منہ سے کوئی لفظ نہ نکلا۔وہ ابھی پچھلے منظر کو ہی بھلا نہیں پائی تھی۔ اس پر یہ ہنسی اسے زہر لگ رہی تھی۔ وہ اس سے پہلے کہ کچھ کہتی پھوپھی بول اٹھی۔
میں نے جس نے پیدا کیا جنم دیا وہ نہیں پہچان سکی تو تم کیسے پہچان لو گی، یہ جواد ہے اور میرے بیٹے سے گلے لگنے پہ کیا شرم ہے بھلا۔ جھلی ہو گئی ہے صفا۔
صفا نے ایک مرتبہ پھوپھی کو دیکھا اور پھر چونک کر جواد کو دیکھا۔ ارے ہاں یہ تو وہ ہی ہے چھوٹی چھوٹی آنکھوں والا۔ وہ اب غصہ کے بجائے شرمندگی سے لال ہو رہی تھی۔وہ اپنی نظریں جھکائے سلام کہ کر تیزی سے اندر کو بھاگ گئی۔ اسکا دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا اور اس کی ہتھیلیوں میں بھی نمی سی آگئی تھی۔ وہ خود کو کوسنے دے رہی تھی۔ اس نے واپس باہر جا کر کپڑے بدلنے کے بجائے ادھر ہی بیٹھ جانا بہتر سمجھا۔ وہ اپنی اس بیوقوفی پر اب ہنس بھی رہی تھی۔ جواد آیا ہے تو اچھا ہے پھوپھی بھی کھل اٹھیں گی۔ وہ جلد ہی اس بات کو بھول گئی تھی کہ وہ باہر کیا کر کے آئی ہے۔ جواد ہاتھ منہ دھونے غسل خانے میں چلا گیا تھا اور نسیمہ نے جلدی سے ہنڈیا کو مکمل کر کے چولہے سے اتارنا تھا، اس لیے وہ کچن میں چلی گئی۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
زوار بھائی آپ کب آئے؟ عرشمان نے سیڑھیوں سے اترتے ہوئے بھائی اور بھابھی کو لیونگ روم میں بیٹھے دیکھا تو رہ نہ سکا اور وہیں سے بول اٹھا۔
بکھرے بالوں اور سادہ سے شلوار قمیض پہنے ہوئے بھی عرشمان کیا اجلا اجلا دیکھائی دے رہا تھا۔
اسکے بال اب تک گیلے تھے۔۔۔ وہ کافی تازہ دم دیکھائی دے رہا تھا۔۔۔
تیز قدم اٹھاتے ہوئے عرشمان بھائی کے قریب آگیا، اس دوران زوار بھائی بھی اپنی نشست سے اٹھ کر اپنے چھوٹے بھائی کی جانب بڑھے تھے۔ دونوں بھائی بہت دیر یوں ہی ایک دوسرے کو سینے لگائے کھڑے رہے۔ وہ بہت دنوں کے بعد مل رہے تھے۔۔۔۔ بھائی کبھی ملک میں ہوتے تھے تو گاؤں میں ہی رہا کرتے تھے، ورنہ سال میں انکا بیشتر وقت ملک سے باہر ہی گزرتا تھا بزنس ڈیل وغیرہ کے سلسلے میں۔
زوار: یہ تو ہمیں پوچھنا چاہیے کہ آپ جناب کہاں غائب ہوئے ہیں جو آج نظر آئے۔۔۔ زوار نے بھائی کی کمر کو تھپکی دی تو عرشمان مسکرا کر بھابھی کے آگئے جھکا کے وہ بھی پیار سے تھپکی دیں۔ امبر نے تھپکی کے بجائے عرشمان کا کان کھینچا تو عرشمان لڑکھڑاتا ہوا بھابھی کے پاس زمین پہ بیٹھ گیا۔
امبر: زوار اسے کچھ مت بولیں یہ میرا بیسٹ بوئے ہے۔ اور اب یہ بزرگ تو ہے نہیں کہ گھر میں رہے۔ جناب کوئی لڑکی وغیرہ کوئی ڈیٹ اہم اہم۔۔۔۔ بھابھی کا لہجہ بے حد شرارتی تھا۔ اس بات پہ عرشمان مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔
وہ بھابھی کا ہاتھ پکڑ کے اپنے سر پر رکھ کر مزے سے گھٹنے کی ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
"خاندان کے لڑائی جھگڑوں سے ہمیں کیا غرض ہو سکتی ہے۔ ہم تو یہاں شہر میں رہتے ہیں۔ ادھر ہی پڑھائی کر رہے ہیں۔ ویسے بھی مجھے اس زمین جائداد کی طلب نہیں ہے۔ میرے خواب اس زمین کے ساتھ منسلک نہیں ہیں میں تو اس سب سے دور جاؤں گا۔ آج کی اس لڑائی کی خبر ہم تک نہ ہی پہنچتی تو اچھا ہوتا۔ تائی جی اور امی دونوں ہی گاؤں چلی گئی ہیں! اور عرشمان معلوم نہیں کہاں گم ہے اس وقت سے۔ آج زوار بھائی سے ضرور مار کھائے گا۔ اب رومان راجپوت کو سونا ہے، شب بخیر!"
آخری لفظ مکمل بھی نہ ہوا تھا کہ عرشمان کی آنکھوں سے ٹپکنے والے آنسوں نے رومان کے نام کو بھگو دیا تھا، اور کافی سالوں سے بند اس ڈائیری کے بوسیدہ ہوتے صفحات میں کہیں جذب بھی ہوگیا۔۔۔۔
عرشمان نے ڈائیری کو بند کیا اور اسے چوم کر اپنے سینے سے لگا لیا۔وہ رو رہا تھا۔ سنگدل کے نام سے پہچانا جانے والا عرشمان رو رہا تھا۔ وقت کس قدر جلدی گزر جاتا ہے بلکل غیر محسوس انداز میں۔ یہ سب منظر یہ سب بھی بدل جائے گا۔ عرشمان نے ڈائیری کو پھر سے چوم کر واپس الماری میں ہی رکھ دیا۔ وہ اس کمرے کو دوبارہ سے سیٹ کرنے کے ارادے سے یہاں آیا تھا مگر اس میں حمت نہیں تھی ایسا کرنے کی۔۔۔ وہ کمرے کی ایک ایک چیز کو اپنی جگہ رکھے رہنے دے گا، ہاں یہ کمرہ ایسا رہے گا! بے ساختہ عرشمان یہ کہتے ہوئے کمرے سے باہر چلا آیا۔ اس کے باہر نکلتے ہی ملازمہ نے کمرے کو جلدی سے بند کر دیا اور تالا لگا دیا تھا۔
عرشمان کو اس کمرے میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔۔ وہ گھر والوں سے چھپ کر اس کمرے میں چلا آتا تھا کبھی کبھی۔۔ اس کمرے کی چیزوں میں بسنے والا زمانہ بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ وک بہت دور چلا آیا تھا۔۔۔
عرشمان کو بھابھی نے چائے کے لیا آوازیں دی مگر وہ چپ چاپ سر جھکائے گھر سے نکل گیا۔ایسے جیسے کوئی اسے اور ہی چلا رہا تھا وہ بے اختیار تھا۔
اس کے ساتھ یہ سب کیوں ہوتا تھا گھر میں کوئی بھی اس بات کے متعلق نہیں جانتا تھا، وہ ایسے چل کر جاتا بھی تو پارک کی ایک بینچ پہ جا کر بیٹھ جاتا اور یوں ہی بیٹھا رہتا۔اس درخت کی چھاؤں نہ بھی ہوتی تب بھی وہ بس اس کے نیچے بیٹھ جایا کرتا تھا۔۔سکون کی تلاش میں!
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
ماموں یہ کپڑے میں آپ کے لیے لایا تھا، ہلکا کپڑا ہے تو زرا اس موسم میں لگ ہی جائے گا۔ جواد نے بیگ کا ایک حصہ کھول کر اس میں سے کپڑوں کا جوڑا نکال کر لیاقت ماموں کی جانب بڑھایا۔ جسے انہوں نے قبول کرنے سے پہلے ایک بار سوال کیا کہ یہ سب پیسے کہاں سے آئے جو اتنا سارا سامان لے آئے ہو۔۔؟
اس بات کے جواب میں جواد نے ہنستے ہوئے کہا تھا، "ماموں حلال کی کمائی ہے بے فکر رہیں ہم مدرسے بنا رہے تو میں ایک دو مدرسوں کا انچارج ہوں بس اچھی فنڈنگ ہوتی ہے اللّٰه کا فضل ہے" جواد کی بات مکمل ہوتے ہی جواد کی ماں بول اٹھی،
نفیسہ: بھائی جی دیکھتے نہیں میرا بیٹا کتنا صحت مند ہوگا ہے۔ بلکل پہچانا نہیں جاتا بلکہ میں تو بس اسے پہچان ہی نہ سکی۔۔۔ نفیسہ کا چہرہ شادماں تھا، اس لیے لیاقت نے مزید کوئی سوال نہ کیا۔ وہ اپنی بہن کو بہت عرصہ کے بعد یوں خوش وخرم دیکھ رہا تھا۔۔۔ چھوٹے چھوٹے گھروں میں چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہی تو ہوتی ہیں جنہیں جی بھر کر منایا جاتا ہے۔۔۔
گھر میں جوتا کسی ایک کے پاؤں کے لیے آئے تو پورا گھر ایسے خوشی مناتا ہے جیسے سب کو ہی نیا جوڑا جوتوں کا مل گیا ہے۔
اور یہ تو خوشی ان خوشیوں سے بہت ہی بڑی تھی۔۔ اس چھوٹے سے آنگن میں اتنا سب کچھ آیا تھا، خوشی کا اندازہ کون کر سکتا ہے۔
جواد: یہ صفا کے لیے کچھ پیسے اماں، وہ مجھے پتہ نہیں تھا کہ اسے کیا اچھا لگتا تو میں وہ ہی لے آتا۔۔۔ جواد نے صفا کی طرف دیکھا جو لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے صحن میں لگی گھر کی واحد ایمرجنسی لائیٹ کی روشنی میں پڑھائی کر رہی تھی ۔۔۔ صفا نے اپنا نام سن کر جواد کی طرف دیکھا جو پہلے سے ہی اسکی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ صفا نے مسکراتے ہوئے جواد کو دیکھا اور بولی،
صفا: بہت شکریہ جواد بھائی!۔۔۔۔۔ اور پھر اپنی کتاب کو کھول کر پڑھنے لگی۔۔۔۔ جواد کے چہرے کے تاثرات قابل دید تھے مگر صفا وہ دیکھ نہ پائی،اگر دیکھ لیتی تو یقیناً اس کی ہنسی روک پانا بے حد مشکل کام ہوتا۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
امبر بھابھی کے ساتھ عرشمان کا رویہ بلکل بچوں جیسا ہوا کرتا تھا۔ بچپن سے لے کر اب تک وہ ان کے ساتھ ہی رہا تھا۔ بچپن میں جب امبر آپی دیکھا کرتی تھی کہ زوار بھائی رومان اور عرشمان کو کھیل میں شامل نہیں کر رہے تو وہ ان سے روٹھ جایا کرتی تھی اور ان دونوں کی دوستی میں لڑائیوں کی وجہ یہ دونوں ہی ہوا کرتے تھے۔
زوار بھائی نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں کھیل میں شامل ہونے دیا کرتے تھے، یہ الگ بات کے اس کے بعد دونوں کی اچھی خاصی دھلائی بھی کی جاتی تھی۔
پھر جیسے جیسے رومان اور عرشمان بڑے ہونے لگے، تب امبر آپی ان کی اوٹ پٹانگ حرکتوں کو شرارتوں کا نام دے کر گھر کے بڑوں کی ڈانٹ ڈپٹ اور مارکٹائی سے بچا لیا کرتی تھی۔
اس کے بعد ایک لمبا وقفہ تھا جو حائل ہوا ان سب کی پیار بھری زندگیوں میں۔
معاشیات کی تعلیم کے لیے زوار بھائی کو انگلینڈ جانا پڑا تو وہیں آرٹس کے شوق میں امبر آپی کو بھی لاہور نیشنل کالج آف آرٹس جانا پڑ گیا۔
وہ چھٹیوں کے دنوں میں بھی گھر نہیں آیا کرتی تھیں، بلکہ گاؤں والے گھر جایا کرتی تھیں۔۔ کیونکہ دادی کا کہنا تھا،"جہاں اسے بہو بن کر آنا ہے پہلے سے ہی وہ ادھر جا کر نہیں رہ سکتی"۔۔۔ اس بات کا مطلب نہ عرشمان کی سمجھ میں آیا کبھی نہ اس نے اسے سوچنے کی ضرورت محسوس کی۔
وہ دونوں تو اس بات سے خوش تھے کہ ایسا ہونے سے وہ بہن کو ملنے جانے کا بہانا کر کے زیادہ سے زیادہ گاؤں میں رہ سکتے تھے۔۔۔ وہاں جا سکتے ہیں جب بھی وہ چاہیں۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
کہاں رکھوں میں یہ سب پھوپھی؟ صفا منہ لٹکائے کمرے میں سے باہر آرہی تھی، سر پہ بوجھ اٹھائے ہوئے۔
اور اس کی گردن میں بوجھ اٹھانے کی وجہ سے درد ہونے لگ گیا تھا۔ چھوٹا سا گھر ہے اب اس کی بھی کیا ضرورت آگئی مالکوں کو؟؟؟ وہ مسلسل بولے چلی جارہی تھی اور اسکا مزاج تیز سے تیز تر ہوتا جا رہا تھا۔
اندر آکر سامان اٹھاؤ تم! مالکوں کو نہیں لینا گھر وہ ٹھیک کروا کر دے رہے ہیں، اور تمھاری یہ جو کمرے کی چھت آج بھی ٹپکتی رہی رات بھر اس کے لیے ہی یہ سب ہو رہا ہے۔ نا شکری کرتی رہنا بس تم۔۔۔ پھوپھی نے جھاڑ پلائی تو صفا کا غصہ سمندر کی جھاگ کی مانند بیٹھ گیا۔
وہ اپنی گردن کا درد بھول گئی اور بھاگ کر پھوپھی کو اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ ہیں پھوپھو سچ میں میری وجہ سے ایسا ہو رہا ہے!!! وہ بچوں کی طرح چہک رہی تھی۔۔۔۔ پھوپھی کے جواب سے پہلے ابا کی آواز سنائی دی جو بہت دیر سے گھر پر موجود نہیں تھے۔۔
لیاقت: صفا بیٹی یہاں آکر دیکھو تو یہ تمھارے لیے کیا آیا ہے؟ لیاقت ڈرائیو کی آواز خوشی سے کانپ رہی تھی۔۔۔ وہ نہ جانے کتنے برسوں کے بعد اتنا خوش ہوا تھا اور اتنا کچھ کر پایا تھا۔
ابا کی آواز سن کر صفا بھاگتی ہوئی باہر کی جانب دوری اور اس کے پیچھے نسیمہ بھی تیز قدم اٹھاتی ننگے پاؤں ہی باہر چلی آئی۔۔۔
صحن میں صفا آنکھیں پھاڑے ہوئے دیکھے چلے جا رہی تھی اور اس پیک شدہ چیز کے گرد گول گول گھومے چلی جا رہی تھی۔۔۔۔ خوشی کے مارے صفا کی آواز نہیں نکل رہی تھی۔۔۔
نسیمہ: بھائی صاحب یہ بھی صاحب نے بھیجا ہے؟ نسیمہ اپنی بھتیجی کو ایسے خوش دیکھ کر بھائی سے پوچھے بنا نہ رہ سکی۔۔۔
بھائی کی جانب جواب طلب نگاہوں سے دیکھتی ہوئی نسیمہ کو جواد نے بتایا کہ یہ روم کولر وہ لایا ہے۔ جواد کی بات سن کر صفا نے ایک نظر جواد کو دیکھا اور ہلکی سی مسکرا دی۔ وہ شکریہ ادا کرنا چاہتی تھی مگر اس کی زبان اسکا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
زوار اپنے بھائی کو بھی بزنس کی طرف لے کر آو کہاں دھکے کھاتا رہے گا اس کام کے سلسلے میں۔ پروفیسر عقیل نے رات کے کھانے میں سب لوگوں کی موجودگی میں بات کی تھی۔۔۔ وہ جانتے تھے ان کی بیگم ان سے اسی بات کی وجہ سے ناراض کیں کہ انہوں نے ان کے لاڈلے بیٹے کو روکا کیوں نہیں۔ اور کیوں اسے اجازت دے دی۔
اپنے تایا اور سسر کی بات سن کر امبر کا ہاتھ منہ کی جانب بڑھتے بڑھتے رک گیا تھا، اسے اپنے بڑے بابا کی جانب سے ایسی بات کہے جانے کی امید نہیں تھی۔ وہ تو اصول پسند تھے اور بچوں کو ان کے مزاج اور شوق کے مطابق زندگی گزارنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ تو آج کیسے وہ یہ سب کہ رہے تھے۔ امبر ان کی بات مکمل ہونے پہ کچھ کہنا چاہتی تھی مگر زوار بھائی نے چمچہ گرا کر اس بات کا اشارہ دیا کہ چپ رہو کچھ مت کہنا۔ انہوں نے امبر کے چہرے کے بدلتے تاثرات دیکھ لیے تھے، اور بات میں وزن پید کر نے کی خاطر ایسے موضوع الفاظ بھی امبر تلاش کر چکی ہے وہ جانتے تھے۔۔۔
زوار: جی بابا میں کوشش کروں گا۔۔
"کوشش" پروفیسر عقیل نے اپنے غصہ کو دبانے کی کوشش کی مگر انکا غصہ ان کے قابو میں نہیں تھا اور نہ وہ اس کوشش میں کامیاب ہوئے۔۔۔ ان کے منہ سے نکلا ہوا لفظ کمرے میں گونج گیا تھا۔۔۔ امبر تو آواز سن کر کانپ ہی اٹھی تھی۔۔۔
زوار نے مزید کوئی بات کرنے کے بجائے خاموش رہنے میں ہی بھلائی جانی اور سر جھکا کر کھانا کھانے لگا۔
× × × × ×
بابا لیں منا کر لے آیا ہوں میں عرشمان کو!
زوار نے کمرے میں داخل ہوتے ہی بابا کو خوشخبری سنائی۔۔۔ ایک لمحے کے لیے تو وہ اسے مزاق سمجھے تھے مگر جلدی ہی وہ جان گئے کہ معاملہ واقع ہی قابو میں آچکا ہے۔ اس کا ثبوت عرشمان کا جھکا ہوا سر تھا جو اثبات میں ہلا تھا۔ "زوار کی باتیں اثر کر گئی تم پر بس میرے سے ضد لگا لیتے ہو"۔ بابا کے اشارے کو دیکھ کر عرشمان انکے قریب چلا گیا اور قالین پہ بیٹھ گیا۔
عرشمان: تو بابا آپ سے تو کر سکتا والد ہیں آپ۔ بھائیوں کا کیا ہے نا فرمانی کی دو لگا دیں تو! عرشمان کے لہجے میں اس قدر عجز و انکسار تھا کہ پروفیسر عقیل کی آنکھوں میں نمی آگئی۔ وہ جس بیٹے کو برا بھلا کہتے تھے وہ کتنا فرمابردار ہے۔۔۔ عرشمان کی بات سن کر انہوں نے ایک نظر زوار کی جانب دیکھا۔
پروفیسر عقیل راجپوت: کیوں بھائی؟ میرے بیٹے پہ ہاتھ تو نہیں اٹھایا تم نے۔۔۔ وہ ایسے گرج دار انداز میں بولے کہ زوار اور عرشمان دونوں ہی کانپ اٹھے۔۔۔۔ زوار کے پیچھے کھڑی امبر کے ہاتھ سے چائے کی پیالی گر کر ٹوٹ جاتی اگر وہ اپنے آپ کو پہلے سے تیار نہ کر لیتی ایسی گہن گرج کے لیے۔ وہ اپنے تایا جان کو جانتی تھی کہ وہ جب تک اپنے جلال کا مظاہرہ نہ کر لیں محفل برخواست نہیں ہو سکتی۔۔۔
زوار: جی جی جی۔۔۔ وہ بوکھلاہٹ میں کیا کہ رہے ہیں انکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
بابا: کیا کہا؟ جی! وہ اس قدر جلدی بول اٹھے کہ زوار جو دوسروں کے آڈٹ رپورٹ پہ سرزنش کرنے میں یکتا تھا اپنی رپوٹ دیتے ہوئے بوکھلاہٹ میں کچھ نہ کچھ الٹ کہے جا رہے تھے۔۔۔۔
اس موقع پہ امبر کمرے میں داخل ہوئی اور مسکراتی ہوئی تایا کے قریب آگئی۔۔۔ ہاتھ میں چائے کی پیالی لیے ہوئے، "اب رہنے دیں تایا جی! آپ کے لاڈلے کو کون مارے گا" امبر نے غیر محسوس انداز میں شوہر کی طرفداری کی۔۔۔ عرشمان جو مسلسل سر جھکائے بیٹھا تھا بھابھی کی اس بات پہ مسکرا دیا اور بھابھی کو دیکھنے لگا۔۔
پروفیسر عقیل: تو اب میری بھتیجی! میری بہو بتائے گی؟ *شوہر کی سائیڈ لی جا رہی ہے*
اب کی بار انکا مزاج نرم تھا۔۔۔۔ اس لیے امبر نے سر بھی ہاں میں ہلایا تھا۔۔۔
اس کے بعد بابا نے عرشمان سے چند کاروباری باتیں کی تو عرشمان مسکرا دیا۔
عرشمان: بابا میں تو زمینوں پہ جا رہا ہوں گاؤں اپنے۔۔۔ عرشمان کی بات سن کر تو بابا جیسے کھل اٹھے۔۔۔
بابا: تو میں بھی چلتا ہوں ساتھ تمھارے۔۔۔ وہ فیصلہ کن انداز میں بولے۔۔ انکی یہ بات سن کر زوار امبر اور عرشمان نے ایک دوسرے کی طرف غیر یقینی سے دیکھا۔۔۔
امبر: آپ کہیں نہیں جا رہے۔ یہاں آپکا ٹریٹمنٹ جاری ہے۔ اس لیے آپ نہیں جا سکتے۔۔۔ امبر کی بات پہ زوار نے سکون کی سانس لی۔۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
یہ تم لوگ اتنی جلدی کیسے منا لائے عرشمان کو؟ ماں کے سوال پہ امبر اور زوار نے ایک دوسرے کو دیکھا اور اپنی ہنسی کو قابو کرنے لگے۔۔۔
زوار: وہ امی تھوڑا اموشنل کیا تو بات بن گئی۔۔۔ زوار صوفہ پہ بیٹھا کھڑکی میں سے باہر لان کو دیکھتے ہوئے بولا۔۔۔ *امی کبھی کبھی بچوں کو ایسے بہن بھائیوں سے ہینڈل کروا لیا کریں*۔۔۔۔ زوار کے چہرے پہ آنے والی اس شرارتی سے مسکراہٹ کو ماں تو نہ دیکھ سکیں مگر امبر نے اپنا چہرہ اخبار کے پیچھے چھپا لیا۔۔۔
۔
۔
۔
عرشمان گاؤں جانے کے لیے صبح سویرے ہی گھر سے نکل گیا تھا۔ اماں ابا کو وہ رات کو مل چکا تھا۔
گاؤں میں راجپوت عرشمان کو چوہدری کہ کر پکارتے تھے۔۔ مگر عرشمان کو اپنے نام کے ساتھ راجپوت لکھنا اور کہلوانا زیادہ اچھا لگتا تھا۔
۔
۔
۔
امبر: بابا یہ چائے! امبر نے ناشتہ کے بعد بابا کو چائے کی پیالی تھمائی۔۔۔۔
بابا:رکھ دو بیٹی، اور کرم دین کو فون ملاؤ پہلے۔۔
پروفیسر عقیل نے اخبار پر سے نظریں ہٹائے بغیر حکم دیا۔۔۔
امبر: فون! امبر نے ایک نظر زوار کو دیکھا، زوار نے اثبات میں سر ہلایا۔۔۔
بابا: *کیوں فون نہیں ملانی آتی*؟ ان کے لہجہ سے ایسا محسوس ہوا تھا جیسے وہ کوئی چوری پکڑنے والے ہیں۔
امبر نے کرم دین چاچا کا نمبر ملایا اور ٹیلیفون بابا کو تھمادیا۔ کرم دین اس خاندان کی زمین جائداد کا حساب رکھنے والے تھے۔۔۔
اس فون کا مقصد عرشمان کے گاؤں جانے اور وہاں کے معمولات کے حوالے سے پل پل کی خبر سے آگاہ رکھنے کے حوالے سے حدایات شامل تھیں۔۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
یہ آج میڈم اتنی خوش کیوں دیکھائی دے رہی ہیں کوئی لاٹری نکل آئی ہے کیا؟ نازیہ نے صفا کو بلاوجہ ہی مسکراتے ہوئے دیکھا تو پوچھے بنا نہ رہ پائی اور سوال پوچھ ہی بیٹھی۔۔۔
صفا جو اس وقت خیالوں کی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی سوال سن نہ پائی وہ بس مسکراہٹ سجائے دور آسمان پہ اڑتے ہوئے پرندوں کو دیکھ رہی تھی۔
صفا کی جانب سے کوئی جواب نہ ملنے پہ نازیہ نے ہاتھ آگے کر کہ صفا کی چٹیا اس قدر زور سے کھینچی کے وہ درد سے بلبلا اٹھی اور سر کو دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کی پوروں سے دبانے لگی۔
اس کا سر فٹبال کی طرح گھوم کر رہ گیا تھا۔۔۔ "نازیہ تیرا نام نازی ہونا چاہیے ہٹلر کی کچھ لگتی! ہائے امی جی اففف۔۔۔۔۔۔۔۔۔" صفا بولے چلی جا رہی تھی۔ اس کی آہ و پکار سن کر پاس موجود دوسری لڑکیاں بھی ان کی جانب متوجہ ہو گئیں اور صفا کو حیرت سے دیکھنے لگیں۔
نازیہ نے معاملہ بگڑتا دیکھا تو صفا کو چاٹ کی پلیٹ کی لالچ دینے لگی۔ اچھا سموسہ بھی ساتھ میں۔۔۔۔
صفا نے رونی شکل بنا کر دیکھا "وعدہ"؟ وہ اس انداز میں بولی کہ نازیہ کے ساتھ باقی کی لڑکیاں بھی ہنسنے لگیں۔۔۔
نازیہ: چل پہلے بتا کیا سوچ رہی تھی مجھ سے بھی شیئر نہیں کرے گی؟؟ نازیہ اپنی دوست کے مزید قریب آبیٹھی تھی اور بات سننے کے لیے بےتاب ہو رہی تھی۔۔۔
صفا: یار وہ تو ہمارے گھر روم کولر آگیا ہے تو میں اسی خوشی میں تھی۔ ہائے میرا سر گھوم گیا اففف۔۔۔۔ اب چل چاٹ کے لیے اٹھ نا۔۔۔
نزہت: اوہ مبارک ہو آپ کے گھر میں بھی کولر آگیا۔۔کون سا پانی والا لیا ہے؟ برف ڈالنے والا،۔۔۔۔ یہ نزہت تھی امیر ماں باپ کی بگڑی ہوئی اولاد جسے صفا کسی صورت قبول نہیں تھی۔ نہ ہی اس کی باتیں نزہت کو اچھی لگتی تھیں۔ وہ ہمیشہ صفا کا مزاق اڑاتی تھی وہ اسے بی اماں کہ کر تنگ کرتی تھی، کیونکہ صفا ان سب میں عمر میں کچھ بڑی تھی۔ وہ ایک ڈیڑھ سال تعلیم سے دور بھی رہی تھی۔
نزہت کی اس اخلاق سے عاری بات پہ بھی ایک قہقہ گونجا تھا۔۔۔۔ امیر لوگوں کی چاپلوسی کرنا اور غریب کا مزاق اڑایا جانا کوئی نئی بات نہیں تھی۔۔ بات ادھر تک ہی رہتی تو صفا شاید دل برداشتہ نہ ہوتی۔ مگر نزہت آج کسی الگ ہی موڈ میں تھی۔۔۔۔
وہ صفا کے قریب آکر رکی ۔۔۔
نزہت: یہ ابھی چٹیا کھینچی ہے نازیہ نے۔ اور ایک پلیٹ چاٹ کے ساتھ سموسہ آفر کیا۔ ایم آئی رائٹ گرلز!!
نزہت نے اپنی دوسری دوستوں کی جانب ستائش طلب نگاہوں سے دیکھا۔۔
صفا کی آنکھوں میں غصہ تھا اور بے بسی تھی۔۔ نازیہ نے کچھ کہنا چاہا بھی تو اس کی آواز دوسری لڑکیوں کے شور میں دب کر رہ گئی ۔۔۔
نزہت نے اپنی ہرزہ سرائی کا سلسلہ جاری رکھا۔۔
"تو میں اگر ایک چانٹا ماروں اور دو سو روپے آفر کروں تو کیسا رہے گا؟؟؟؟
غریب تو بکاؤ ہوتا ہے نا!!!"""
نزہت صفا کا جواب سنے بغیر ہی جلدی سے وہاں سے چلی گئی اور اس کے ساتھ ہی باقی تمام چاپلوس ٹولی بھی چلی گئی۔۔
نازیہ نے صفا کا ہاتھ تھام کر اسے کرسی پہ بیٹھانا چاہا تو وہ بجلی کی تیزی سے ہاتھ جھٹک کر چل دی۔ صفا کی آنکھوں سے آنسوں رواں تھے اس کی عزت نفس کو مجروح کیا گیا تھا۔۔۔ وہ غریب ضرور تھی مگر خودار تھی۔ آج اسکی خوداری کو ٹھیس پہنچی تھی۔۔۔۔ اس کے کانوں میں بس وہ الفاظ باد بار گونج رہے تھے جو نزہت نے نہایت تلخ لہجے میں کہے تھے، "غریب تو بکاؤ ہوتا ہے"
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
جب سے کالج سے آئی ہے کمرے میں بند بیٹھی ہے۔ نہ کچھ کھایا نہ کوئی بات کی مجھ سے۔ نسیمہ نے بھائی کو کھانا دیتے ہوئے بتایا صفا کے بارے میں۔
باپ کے ہاتھ میں اٹھایا ہوا لقمہ وہیں کا وہیں رہ گیا۔ ان کی لاڈلی بیٹی صبح سے بھوکی تھی اور وہ کھانا کھانے کیسے بیٹھ گئے۔۔۔ تیزی میں پاؤں میں جوتا پہننے کا بھی انہیں کوئی خیال نہ رہا۔۔۔
لیاقت ڈرائیور کے ماتھے کی شکنیں اس کی بیچینی اور اضطرابی کیفیت کی عکاسی کر رہی تھی۔ اسکا ہاتھ کانپ رہا تھا۔
وہ ایک باپ ہی نہیں اپنے بچوں کا دوست بھی تھا۔ اس نے اپنی بیٹی اور بیٹے کو کبھی رونے نہ دیا تھا۔ ان کو کوئی سخت بات نہ بول سکے اس لیے لیاقت نے دوسری شادی نہ کی تھی۔ کبھی ایسا نہ ہوا تھا کہ وہ خود کھانا کھا لے اور اس کے بچوں میں سے کوئی ایک بھی خالی پیٹ ہو۔
باپ کی کانپتی ہوئی آواز سن کر صفا نے آنسوؤں کو پونچھ ڈالا تھا، وہ جلدی سے بولی "آئی ابا" دروازے کے قریب آئی۔۔
کنڈی کھلتے ہی لیاقت ایک دم سے کمرے میں داخل ہوا۔
لیاقت: تم ٹھیک ہو نا میری بیٹی۔۔۔ تیری پھپھی کہ رہی تم جب سے کالج سے آئی کمرے میں ہی بند بیٹھی ہوئی ہو کیا بات ہے پتر سب ٹھیک ہے نا۔۔۔۔ لیاقت اپنی بیٹی کے سر ہاتھ چہرے کو بے چینی سے چھو رہا تھا اسکی بیٹی کی آنکھیں تو خشک تھی۔۔۔
صفا نے اپنے ابا کے ہاتھوں کو تھام لیا اور ایک دم سے باپ کے سینے سے جا لگی۔ "ابا میں ٹھیک ہوں بس تھوڑی افسردہ ہوں" صفا اپنے باپ سے کچھ بھی چھپانے کی کوشش نہیں کر رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اسکے ایسا کرنے سے ابا مزید پریشان ہوں گے۔۔۔
لیاقت نے بیٹی کو اپنی پاس بیٹھایا اور بہن کو کھانا اندر ہی لے آنے کو کہا۔۔۔
اپنے ابا کے سامنے اپنی تمام الجھن بیان کر کے، دن کے تمام واقعے کے متعلق سب کچھ بتانے کے بعد۔ صفا نے آنسوؤں سے بھیگی آنکھیں اٹھا کر باپ سے ایک سوال کیا،
صفا: ابا کیا "غریب بکاؤ ہوتا ہے"؟؟؟۔۔۔
بیٹی کے اس سوال پہ لیاقت کی آنکھوں میں آنسوں تیرنے لگے۔۔ اس نے جلدی سے ان آنسوؤں کو پونچھ ڈالا۔۔۔
لیاقت: صفا میری بچی بکاؤ مال و دولت کی کمی بیشی سے نہیں ہوا کرتے۔۔۔ یہ تو اندر کی بات ہے۔ ضمیر کی بات ہے۔۔۔۔
ہمارے کتنے ہی فوجی جوان اپنی جانیں نثار کرتے ملک کے لیے، بکاؤ ہوں تو دشمن کے آگئے سینہ تان کر تو نہ کھڑے ہوں پتر!۔۔۔۔
لیاقت نے بات کو جاری رکھا، اور کھانے کے برتن ایک طرف کو ہٹا دیے۔۔۔۔ پتر وہ بھی تو غریب گھروں کے ہوتے۔ بکتے کیوں نہیں؟؟ جبکہ ہمارے بہت سے سیاسی لیڈر ہمارے حکمران۔ دولت مند ہو کر بھی بک جاتے ہیں۔۔
صفا: ابا میں فوجی تو نہیں ہوں نا! صفا سر جھکائے بیٹھی سب کچھ سن رہی تھی ابا کی بات ختم ہوتے ہی بول اٹھی۔
لیاقت: پتر تیرا ضمیر زندہ ہے تجھے اچھے برے کی پرکھ ہے، تو جانتی ہے ٹھیک کیا ہے۔۔۔ توکل کرنے والے بھلا کیوں بکاؤ ہونے لگے۔۔۔
صفا: ابا یہ اوکھی باتیں نہ کیا کرو میرا سارا غصہ کہیں چلا جاتا ہے۔۔۔ صفا نے شکایت کے انداز میں ابا کو کہا اور منہ بسورتے ہوئے بولی۔۔
اسکی اس بات پہ ابا اور پھوپھی دونوں مسکرا دیے۔۔
ابا: پتر ہمیں تو غریبی پہ بھی فخر ہونا چاہیے۔۔ ابا کی بات پہ صفا نے چونک کر اپنے ابا کی طرف دیکھا۔۔۔
صفا: وہ کیسے ابا؟؟؟
ابا: ہمارے سوہنے نبی پاک محمد رسول اللّٰه صلہ آلہی وسلم (اپنے انگوٹھے ہاتھوں کے چوم کر آنکھوں سے لگاتے ہوئے)
وہ بھی تو غریبی میں جیتے رہے۔ چاہتے تو دنیا کے بادشاہوں سے زیادہ دولت پا لیتے۔
ابا کی اس مثال کے بعد صفا کے دل کو جیسے سکون آگیا تھا۔۔۔ وہ اپنے ابا کو دیکھے جا رہی تھی، اسے اپنے ابا پہ فخر ہونے لگا تھا۔ اسے اس غریبی پہ فخر ہونے لگا تھا۔۔۔ کچھ ایسی ہی بات کسی اور نے بھی اس سے کہی تھی کبھی۔۔۔ اتنے برس کے بعد یہ بات کے غریب ہونا کوئی برائی نہیں ہے۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
صبح صبح ہی کوئی مانگنے والا آگیا ہے ابا۔۔ صفا صحن میں جھاڑو لگاتے ہوئے بولی اور دروازہ کو کنڈی لگانے کو آگئے بڑھی۔ تب اسکے ابا نے روک لیا کہ لو یہ پیسے دے دو خالی ہاتھ مت لوٹانے دینا۔۔۔ صفا نے بے دلی سے ابا سے پیسے لیے اور دروازے کی جانب بڑھی، اور اچانک ہی رک گئی۔ کیونکہ عین اسی وقت جواد گھر میں داخل ہوا تھا اور اسکا اس وقت لوٹ کر آنا مسجد سے خلافِ معمول تھا۔ جس پر سب کو ہی حیرانگی ہوئی تھی۔
جواد کے بال الجھے ہوئے تھے اور سانس بھی تیزی سے چل رہی تھی۔ جیسے وہ بہت تیز بھاگ کر آیا تھا۔۔۔ جواد نے بنا کسی لمحے کی تاخیر کیے دروازہ بند کر کے کنڈی لگا دی۔
صفا: یہ پیسے۔۔۔ صفا بات مکمل بھی نہ کر سکی تھی کہ جواد نے بات مکمل کردی، " ہاں دے دیے ہیں میں نے" تم کام کرو گھر کے۔۔۔۔
جواد نے خود پہ قابو پاتے ہوئے کہا۔۔
نسیمہ نے بیٹے کی آواز سنی تو باورچی خانے میں ناشتہ کی تیاری چھوڑ کر باہر آگئی۔۔ جواد کو یوں بوکھلاہٹ کا شکار دیکھ کر اسے بھی تعجب ہوا۔
نسیمہ: کیا ہوا جواد پیچھے کتا لگا ہے جو ایسے چھپ چھپ کے باہر دیکھ رہا ہے۔۔
پھوپھی کی بات سن کر صفا کی بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی۔ اگر وہ جلدی سے اپنے منہ پہ پوری قوت سے ہاتھ نہ رکھتی تو یہ ہنسی قہقہے میں بدل جاتی۔۔۔ وہ ہنسی روکتی ہوئی کمرے کی جانب بھاگ گئی۔ جواد کے چہرے پہ آنے والے شرمندگی کے تاثرات وہ دیکھ نہ پائی تھی۔ جواد نے مسکرانے کی کوشش کی اور ماں کی بات کا جواب دیے بغیر ہی کمرے کی طرف چل دیا، "اماں ناشتہ بنا دے ضروری کام سے جانا ہے"
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
تازہ پھولوں کی چادر چڑھانے کے بعد وہ پکی ہو چکی قبر کے پاؤں کی جانب بیٹھ گیا تھا۔ اس نے اپنا ایک بازو قبر کے اوپر رکھا تھا جیسے وہ قبر نہیں، قبر میں سوئے ہوئے کا کندھا ہے۔ مگر پھر جلد ہی وہ سیدھا ہوگیا کہ یہ قبر کی بے حرمتی ہوگی ایسا کرنا۔۔۔ ارد گرد موجود ملازموں کو ہاتھ کے اشارے سے جانے کا کہ کر اس نے اپنا چہرہ قبر کی جانب کر لیا تھا اور سر جھکا لیا تھا۔ وہ ملازموں کو بول کر بھی جانے کو کہ سکتا تھا۔ مگر اسے معلوم تھا کہ اگر وہ بولنے کے لیے اپنے لب کھولے گا تو ان میں سے الفاظ کے بجائے سسکی اور درد بھری آہ نکلے گی۔۔۔
ویسے بھی تو ملازم دور چلے گئے تھے، اس کے غصہ سے سب ہی واقف تھے۔ "دشمن داری والے لوگ یوں اکیلے نہیں جایا کرتے بیٹا" اسے اپنے مرحوم چچا کے الفاظ سنائی دے رہے تھے دور کہیں اپنی یادوں میں۔ وہ اکیلا موجود تھا دشمنوں کے ہوتے ہوئے بھی۔ مگر آج اس کے چچا یہاں نہیں تھے۔۔۔ اس دشمن داری نے کتنے پیارے چھین لیے تھے اس خاندان سے۔ وہ بار بار بھٹک رہا تھا۔ عرشمان کے دماغ میں یادوں نے کہرام مچا رکھا تھا۔
وہ چند لمحے بے حس و حرکت بیٹھے ہوئے قبر کو دیکھتا رہا۔ جب یادوں کی بھرمار سے دماغ پھٹنے کو آیا تب عرشمان نے چاہا وہ روئے اس قدر شددت سے روے کہ ان قبروں میں برسوں پہلے جا کر بسنے والے بھی اٹھ بیٹھیں۔
عرشمان نے آگے بڑھ کر قبر کے کتبہ کو چوما۔ رومان کے نام سے اپنے ہاتھوں سے گرد صاف کی اور تیز قدموں سے پلٹ گیا۔ اس کی رگوں میں خون جوش کے مارے ابل رہا تھا۔ جس جانب وہ جا رہا تھا، اس جانب موت تھی۔ کرم دین کا اشارہ ملتے ہی بندوقوں سے لیس محافظوں نے عرشمان کو گھیرے میں لے لیا۔ اُنہیں اس بات کا حکم تھا کہ اگر کبھی یوں عرشمان مخالفین کے ڈیرے کی جانب قدم بڑھائے تو خود آپنے بندے اسے گولی مار دیں۔۔۔ تا کہ پہل ہماری طرف سے نہ ہو۔۔۔۔
اپنی جانب اٹھی ہوئی بندوقوں کو دیکھ کر عرشمان کا غصہ مزید تیز ہوگیا تھا۔ وہ کچھ بھی کر گزرتا مگر کرم دین چاچا کی آواز پہ اس کے پاؤں جیسے زمین نے خود تھام لیے ہوں۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
گاؤں کی تازہ فضاؤں میں جا کر ہمیں تو بھول ہی گئے ہو میاں صاحب زادے۔۔۔
پروفیسر عقیل نے بیٹے کا نمبر لگتے ہی بنا سلام دعا کے بات کی شروعات کردی تھیں۔
عرشمان کی جانب اس قدر خاموشی تھی جیسے وہ کھلی فضا کے بجائے کسی بند کمرے میں بیٹھا ہوا ہے۔اس کی سانسوں کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی۔
پروفیسر عقیل کے لیے یہ بات غیر معمولی تھی، وہ اس کے وجہ پوچھتے اس سے پہلے عرشمان نے ایسی آواز میں جواب دیا کہ سب کہانی عیاں ہو گئی کہ ان کا لاڈلا بیٹا جاگ نہیں رہا بلکہ سویا ہوا ہے اب تک۔۔۔
بابا: یہ وقت ہے سونے کا دس بج رہے ہیں صبح کے۔۔ بابا کی آواز اس قدر رعب دار تھی کہ عرشمان نے فون کو کانوں سے دور کر دیا تب بھی آواز کے سنائی دینے میں رتی برابر فرق نہیں آیا۔۔۔
عرشمان: ابا اب سونے میں تو مرضی کرنے دیں۔ انکے اس ہونہار سپوت نے بات کو الجھاتے ہوئے اور اپنے ہی ابّا کو لا جواب کر دیا تھا۔۔
ابّا: اچھا اچھا ٹھیک ہے، جب جاگ جاؤ تو میری کرم دین سے بات کروانا۔۔ بلکہ یوں کرو ابھی کروا دو۔۔
بابس نے اخبار کا صفحہ پلٹنے کے لیے موبائل کو دور رکھا۔ اس دوران ان کی نظروں سے فون کی سکرین دور ہوگئی تھی۔اس پہ ہونے والی تبدیلیوں سے پروفیسر عقیل لاعلم تھے۔۔۔
انہوں نے فون کانوں سے لگیا تو دوسری جانب کرم دین تھا۔۔
پروفیسر صاحب: یہ نواب کا پتر روز ہی دیر سے جاگتا ہے۔۔ لاپرواہی والے انداز میں پوچھا گیا سوال۔۔۔۔ جس کے جواب میں کرم دین کی جی جی اور بس۔۔۔
جائداد کی چند ضروری باتوں کے بعد انہوں نے فون بند کیا تو پاس بیٹھی ہوئی امبر کی جیسے سانسیں بحال ہوئیں۔۔۔۔
وہ اسی شش وپنج میں مبتلا تھی کہ آیا وہ سوال کرے یا نہ کرے۔ بابا نے خود سے ہی بتا دیا کہ وہاں سب کچھ ٹھیک چل رہا ہے۔۔۔
ابا کی بات پہ امبر زیر لب مسکرا دی اور خالی ہو جانے والی چائے کی پیالی لیے وہ کچن کی جانب چل دی۔۔۔ گھر میں نوکر چاکر ہونے کے باوجود امبر کو اپنے تایا جی کے کام اپنے ہاتھوں سے کر کے اچھا لگتا تھا۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
کیوں مولوی جی کل کیوں جلدی میں تھے؟ جواد اپنے پیچھے عقب سے آنے والی آواز سن کر چونک گیا اور پلٹ کر اسنے پیچھے دیکھا تو وہاں ایک قبول صورت ملنگ کھڑا ہوا دیکھائی دیا۔ ملنگ بھی کیا ایک قدرت کا شہکار ہی سمجھ لیں۔۔۔ بھونیں کالی داڑھی میں مہندی کی کثرت سے لالی اتری ہوئی تھی۔ سر کے بال کاندھوں تک آئے ہوئے اور بلکل ایسے جیسے کیچر کی مدد سے گوندھا گیا ہے انہیں۔ سر پر سات رنگی ٹوپی کے ساتھ ہاتھوں میں مختلف نگینوں سے مزین انگشتریاں۔۔۔۔ جو اس کے انگلیوں کے ہلانے پہ بجنے سی لگتی تھیں۔
جواد نے گھور کر اس عجوبے سے ملنگ کو دیکھا تو ملنگ دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔۔۔
اس سے پہلے کہ جواد کچھ کہتا ملنگ نے اپنے پیلے پیلے دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے نہایت عجیب اندز سے ہنسنا شروع کر دیا۔ اور کھڑے کھڑے وہیں گول گول گھوم کر ناچنے لگا۔۔ اس کی یہ حرکتیں جواد کے غصہ کو مزید بڑھا رہیں تھی۔ قریب سے گزرتے ہوئے لوگ ان دونوں کو حیرت اور دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ اس دوران وہاں اچھا خاصہ رش لگ چکا تھا۔ جواد چاہتے ہوئے بھی اس فقیر کو کچھ کہ نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا یہاں موجود لوگوں نے اسے اتنا مارنا ہے اگر وہ ملنگ کو مارنے کی کوشش بھی کرے گا تو۔۔۔۔ جواد کے اندر اس ملنگ کے لیے عجیب سی نفرت پیدا ہونے لگی تھی، جس نے یوں سر عام اسکا تماشہ بنا ڈالہ تھا۔
مجمع زیادہ ہونے پہ پاس سے گزرتی ہوئی پیٹرولنگ پولیس کی گاڑی ان کے قریب آکر رکی تھی۔۔ انسپکٹر نواز نے آگے بڑھتے ہوئے لوگوں کے اس ہجوم کو منتشر کرنے کو کہا اپنے سپاہیوں سے اور خود اس ملنگ کے پاس جا کر کھڑے ہو گے۔۔۔ چالیس پینتالیس برس کے انسپکٹر نواز قد قاٹھ میں جواد اور ملنگ بابے دونوں سے ہی زیادہ تھے۔ انہوں نے باری باری دونوں کی بات سنی اور ملنگ سائیں کو مسجد کی سیڑھیوں کے پاس چل کر بیٹھنے کو کہا تھا بابا ایسے چل دیا جیسے کوئی بچہ ڈانٹ سن کر چل دیا ہو۔۔۔ وہ بار بار خود ہی خود سے ہنستا جاتا اور سیڑھیوں کی جانب چلتا جاتا تھا۔
انسپکٹر: مولوی جی کیا آپ بھی ان اللّه لوگوں سے بحث میں لگ جاتے ہیں۔۔۔ جائیے گھر جائیے۔۔۔ کندھا تھپکتے انسپکٹر نواز اپنی پولیس پارٹی کی جانب چلے گئے
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
لیاقت کے گھر والوں کو نہ جانے اس ملنگ سے کیوں دلی لگاؤ سا ہو گیا تھا اور وہ لوگ دن کی دو وقت کی روٹی بھی اسے دینے لگے تھے۔ جواد کے علاوہ سب ہی رزامند تھے اس سب کے لیے۔۔ جواد کو کس بات کا اعتراض تھا یہ بات گھر والے نہیں جانتے تھے۔۔۔ آج جواد صبح کی ٹرین سے کراچی چلا گیا تھا پندرہ روز کے لیے۔۔۔ نسیمہ نے دن کی روٹیاں ڈال دی تھیں، وہ اس ملنگ بابا کو روٹی دینے جانے ہی والی تھی کہ اچانک فون کی گھنٹی بجنے لگی۔
نسیمہ: صفا باہر یہ روٹی تو دے آو بابے کو۔۔۔ نسیمہ نے آواز دی اور فون کانوں سے لگا کر بات کرنے لگی۔
صفا نے بے دلی سے روٹی اور سالن کی پلیٹ پکڑی اور دروازے کی جانب بڑھی۔وہ اونچا اونچا بولے چلے جا رہی تھی۔اپنی پھوپھی سے قدرے دھیمی مگر اس قدر صاف شفاف کہ کوئی بھی سن لے۔ ایک تو اتنے دن بعد مرغی پکی تھی اور اس میں سے بھی یہ اللّه لوگ سائیں بابا میری پسند والی بوٹی کھا جائے گا۔۔۔ صفا نے درواشہ کھولا ہی تھا کہ اس کے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔۔۔۔۔ موٹی موٹی لال سرخ آنکھیں لیے وہ ملنگ دروازے کو گھور رہا تھا جہاں سے صفا نے باہر نکلنا تھا۔۔۔۔ صفا اپنی ہی دھن میں بولتی چلی آئی تھی فقیر کو ایسے سامنے کھڑا دیکھ کر وہ بوکھلاہٹ میں پلیٹوں کو گرا دیتی اگر ملنگ بابا اس کے ہاتھوں سے پلیٹ نہ چھین لیتا۔۔۔۔ "بچہ قربان کرنا سیکھ وہ ملے گا جس کی تجھے چاہت ہے"۔ رٹا رٹایا جملہ ادا کر کے وہ فقیر اپنی بچھائی ہوئی چٹائی اور کمبل پہ جا بیٹھا۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
اس ملک کے حالات اتنے برے ہوتے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی کاروبار میں بھی بس خسارہ ہی ہوا جا رہا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کریں کدھر جائیں ہم۔۔۔ زوار کے چہرے سے لگ رہا تھا وہ آج سچ مچ پریشان ہے۔ وہ اپنے بابا کے کمرے میں سر جھکائے بیٹھا تھا۔ آج کے دن میں زوار کو دو بری خبریں ملی تھیں۔ پہلی زمین کے سلسلے میں چلنے والے برسوں پرانے مقدمہ میں أج جج نے فیصلہ خلاف دے دیا تھا۔۔۔ اس زمین کا اتنا مالی نقصان تو نہیں تھا جس قدر اس کے چھن جانے سے اس خاندان کی ساکھ خراب ہوئی تھی۔۔۔ دوسرا مسئلہ سنگین نوعیت کا تھا۔ جس کی وجہ سے آنے والے وقت میں پورا خاندان مشکلات کا شکار ہو سکتا تھا۔۔ چند دن پہلے نوکری سے نکالے جانے والے اکاؤنٹنٹ کو آج پولیس نے خفیہ اداروں کی مدد سے گرفتار کر لیا تھا۔ پولیس نے اس پہ یہ الزام لگایا تھا کہ وہ کالعدم قرار دی گئی تنظیموں کو مالی امداد دیا کرتا تھا، اور اس میں دیا جانے والا پیسہ انکے کاروبار سے ہی نکالا جاتا تھا۔۔۔ زوار کنسٹرکشن ہو یا عقیل سنز کی امپورٹ ایکسپورٹ۔۔۔ اکاؤنٹنٹ شکیل دونوں ہی جگہ پہ ہیڈ اکاؤنٹنٹ تھا۔۔
بات اگر مالی خرد برد کی ہی ہوتی تو اس نقصان کو پورا کیا جا سکتا تھا، مگر یہاں تو معاملہ اس قدر الجھ گیا تھا کہ زوار جیسا بزنس مائنڈ بھی الجھ کر رہ گیا تھا۔۔
بابا کے جتنے بھی جاننے والے رٹائرڈ بیوروکریٹ، پولیس افسران سے رابطے تھے ان سب کو بھی کال کی جا چکی تھی۔۔۔ مشکل کی اس گھڑی میں مدد کے لیے کوئی ہاتھ آگے نہیں بڑھ رہا تھا مگر انگلیاں سب اٹھا رہے تھے۔۔
زوار: بابا اس سے بہتر بنگلادیش یا سری لنکا چلے جاتے ہیں اس قدر خواری سے بہتر یہاں رہیں ہی نہیں۔۔۔ بل آخر زوار کے دل کی بات لبوں تک آہی گئی۔۔۔ وہ اس معاملے میں سنجیدہ ہے یہ بات پروفیسر عقیل اچھے سے جانتے تھے۔
پروفیسر عقیل: تمہیں جانا ہے تو تم چلے جاؤ، مجھے ایسا مشورہ آئندہ مت دینا زوار!۔۔۔۔ بابا کے لہجے میں غصہ تو تھا ہی مگر ساتھ میں ایک عجیب سا دکھ بھی تھا۔ انہیں اپنے بیٹے کی کہی ہوئی بات اچھی نہیں لگی تھی۔ اس ملک کو چھوڑ کر چلے جانے کی بات کرنا تو دور وہ اسے ذہن میں لانا بھی جرم خیال کرتے تھے۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
زوار: بابا اس وقت ملک بھر کے حالات ایسے ہیں ہم کوٹھی سے کوٹھڑی میں آجائیں گے۔۔ وقت ایک سا کب رہا ہے۔ حجرت کرنا پڑتی ہے بہتری کے لیے۔۔۔ زوار کی باتیں ملک میں اور ملک سے باہر رہنے والے بزنس کے ٹائیکونز کو تو موٹیویشن دے سکتی تھیں۔ مگر یہ باتیں اس کے بابا کے سامنے اپنا کوئی اثر نہیں رکھتی تھیں۔ یہ بات خود زوار بھی جانتا تھا کہ اس کی باتوں کے پیچھے مضبوط دلائل کی کمی ہے۔ مگر وہ اپنے خاندانی وقار کو یوں مٹی میں ملتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔
دہشتگردوں کو مالی معاونت بھلے ہی اکاؤنٹنٹ نے کی تھی مگر ادارہ تو انکا ہی تھا۔ اگر اس الزام میں عدالت تک بات گئی تو زمین جاگیرداری کے تمام فیصلوں پہ اس بات کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔۔۔
پروفیسر عقیل راجپوت نام ہے میرا۔۔۔ یہ جو نام کے ساتھ راجپوت لکھتا ہوں نا بیٹے یہ اس لیے کہ مجھ میں اس مٹی سے جُڑے رہنے کا اس کی فضاؤں میں سانس لینے کا جنون ہے۔۔۔۔ ہم مسلمان کب ہوئے یہ بات میں نہیں جانتا، کہ یہ مجھ سے بہت سی نسلوں پہلے کی بات ہے۔ پروفیسر عقیل نے بیٹے کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور ایک ہاتھ کی مدد سے سگار کو جلانے کی کوشش کرنے لگے۔۔۔۔۔۔۔ زوار نے مدد کرنے کی نیت سے بابا کو دیکھا مگر اپنے اس ارادے سے باز ہی رہا۔
ہم لوگ اس مٹی سے جنم لینے والے لوگ ہیں۔ ہمارے آباؤاجداد اس مٹی کے لیے لڑتے تھے۔۔۔۔۔۔ اور اب جب کہ ہم مسلمان ہیں۔۔۔ تو یقین جانو بیٹا اس دھرتی سے جو پیار اور عشق ہے وہ مزید بڑھ گیا ہے۔۔۔
مشکل حالات کو دیکھ کر راہ فرار اختیار کرنا بہت آسان ہے۔ مگر ان حالات میں رہ کر مقابلہ کرنا اور سرخرو ہونا بے حد مشکل۔ میں تمہیں نہیں روکتا کہ تم یہاں کے معاملات کو دیکھو، تم پڑھاتے ہو تم جاو۔۔۔ مگر مجھے یہیں رہنے دو۔۔۔۔
بابا کی بات سن کر زوار کو شرم آرہی تھی اپنی اس بات پہ۔۔۔وہ کیسے بزدلی کا مظاہرہ کر گیا تھا۔
پروفیسر عقیل نے بیٹے کا جھکا ہوا سر دیکھا تو کہا،
بابا:"چٹانوں کا کٹ جانا، دریا کی طاقت کی وجہ سے نہیں بلکہ دریا کی روانی اور استقامت کی وجہ سے ہوتا ہے" تم اب جاؤ کسی ملازم کو اندر بھیج دینا۔۔۔
بابا کی بات کے آگے زوار کی جرات نہیں تھی کہ وہ کسی نوکر کے بجائے خود انکے کام کو کر دے۔ بابا چاہتے تو خود سے ہی کہ دیتے۔۔۔ حکم دیتے! زوار سر جھکائے کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔۔ اپنے بیٹے کو یوں شکست خوردہ دیکھ کر عقیل راجپوت آج پہلی بار دور کہیں اندر سے ہل کر رہ گئے تھے۔۔۔ انکی نسل میں کوئی بھی ان کے جیسا ڈٹ جانے والا نہیں تھا۔۔۔ آج انہیں اپنے بھائی نبیل کی یاد آئی تھی۔۔۔ جو ایسی صورت حال میں ہمیشہ ڈٹ جاتا اور جیت کر ہی دم لیتا۔۔۔۔ "جیت گیا مجھ سے آخر"۔۔۔۔ یہ جملہ ان کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا تھا۔۔۔۔
ملازم کی آواز نے انہیں واپس لانے میں مدد کی ان کی گہری سوچوں سے۔۔۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
زوار آپ کو جانا ہے لیکچر دینے۔ مجھے وہاں کوئی کام نہیں ہے۔ میں نہیں جانا چاہتی ابھی پلیز! امبر کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ زوار سے ناراض سی ہے۔۔ مگر اس بات کا اظہار چاہتے ہوئے بھی نہیں کرنا چاہتی۔
زوار نے امبر کو ایک نظر دیکھا اور پھر سے واپس فائلز کی دنیا میں گم ہوگیا۔۔ اپنے تمام پیپرز جو سفر میں ضروری تھے۔ انکو ایک سائیڈ کر کے دیگر کاغزات کو ترتیب سے رکھنے لگا۔۔۔۔ گھر میں اس قدر خاموشی تھی کہ ملازمین کے قدموں کی چاپ بھی دور سے صاف سنائی دے رہی تھی۔ گھر میں آج رونق نہیں تھی۔۔۔ کل رات کی بات کے بعد سے پروفیسر عقیل اپنے کمرے سے باہر نہیں آئے تھے، اور ماں نے بھی چپ سادھ لی اور اپنے بیٹے کی بات پہ کوئی رائے نہیں دی تھی انہوں نے۔۔۔
خاموشی ایسی وحشت ناک تھی کہ عصاب تناؤ کا شکار ہو رہے تھے۔ امبر نے بابا کے پاس جانے کی ان سے بات کرنے کی کوشش کی تھی مگر اسے تائی جی نے منع کر دیا تھا کہ وہ ایسا کچھ نہ کرے۔ انکے غصہ سے کون واقف نہیں تھا۔۔۔۔
سوچوں میں ڈوبی امبر زوار کے پکارنے پہ چونک اٹھی اور ایسے خالی نگاہوں سے دیکھنے لگی جیسے اسے معلوم ہی نہیں کہ وہ کہاں ہے، اور یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔۔۔ ٹوٹے ہوئے الفاظ میں امبر نے بمشکل اتنا ہی کہا، "مت۔۔۔۔ جائیں ایسے!"
آنسوؤں سے لبریز آنکھیں لیے امبر اپنے شوہر کی منت کرتے ہوئے بولی۔۔
زوار کے پاس الفاظ کی کمی تھی۔ وہ اپنی بات سمجھانے سے قاصر تھا۔ وہ کھیل شروع ہونے سے پہلے ہی ہار گیا تھا۔ آگے چل کر اسکا یوں چلے جانے کے بارے میں ۔۔۔۔ وقت سے پہلے کون کچھ کہ سکتا تھا۔۔۔۔۔
۔
۔
۔
بابا سے ملنے آیا ہوں امی! آپ بھی مجھے ہی غلط سمجھ رہی ہیں کیا؟
زوار کے لہجے میں دکھ تھا جس کا اندازہ ماں سے بہتر شاید ہی کوئی کر سکے۔۔
ماں: نہیں بیٹا بابا نے تمھارے سختی سے منع کر رکھا ہے وہ ابھی سوئے ہیں۔ زوار تم بھی اپنی جگہ ٹھیک ہو
مگر تمھارے بابا بھی غلط نہیں کہ رہے۔ تم خیر سے جاو اپنا کام نبٹا کر جلدی لوٹ آنا۔ ماں نے بیٹے کو گلے سے لگا کر پیشانی کو چوم کر بیٹے کو رخصت کیا ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ۔۔
زوار گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ بیٹھا تھا۔۔۔ اس نے پلٹ کر ماں کو دیکھا تھا، تب اچانک ہی اس کے اداس چہرے پہ ایک مغموم سی مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔۔۔ چھت پہ کھڑی امبر ہاتھ ہلا ہلا کر الوداع کر رہی تھی۔۔۔ دور کہیں بادل گرجا تھا اور آسمان سے پانی کی بوندیں برسنے لگی تھیں۔۔۔ آنسوں کی مانند جو ایک ماں اور ایک بیوی اس آسمان کے نیچے ان جدائی کے لمحوں میں رو رہیں تھی۔۔۔۔۔ گاڑی اب امبر کی نگاہوں سے بھی دور جا چکی تھی۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
ابا یہ ملنگ لوگ کتنے عجیب ہوتے ہیں نا۔۔۔۔ بارش سے بچتی ہوئی تیز قدم اٹھاتی ہوئی صفا نے اپنے ابا سے سوال کیا جو ابھی ابھی کام سے لوٹ کر آیا تھا اور جوتے اتارنے میں مصروف تھا۔۔
بیٹی کے سوال پہ مسکراہٹ لبوں پہ آجانا قدرتی بات تھی۔
پانی تو پلا دے ملنگنی بیٹی! لیاقت نے صفا کو دیکھا اور ہنستے ہوئے بولا۔۔۔ نسیمہ نے سلام پھیرا اور جھٹ سے بولی،
نسیمہ: بھائی جی پتہ نہیں کیا ہوگیا ہے آج اسے، صبح سے تین بار یہی سوال پوچھ چکی ہے۔ تسبیح پڑھتے پڑھتے نسیمہ نے گھورتے ہوئے دیکھا صفا کو ناگواری سے۔۔ صفا کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ ابا کا چہرہ دیکھ کر اس بات سے باز رہی۔۔۔۔۔۔ بارش تیز ہوتی جا رہی تھی اور گلی میں بچوں کا شور بھی تیز ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔ غریبوں کے بچوں کو یہی موقع ملتا ہے انجوائے کرنے کا۔ یہی انکا واٹر پارک یہی بارش ان کا ائیر کنڈیشنر۔۔۔۔ بچوں کی مانوس آوازوں کے ساتھ آج ایک اور آواز کا بھی اضافہ تھا۔ نہایت سریلی سی آواز، جو نغمہ گنگنا رہی تھی۔۔۔۔ جنید جمشید کا مشہور زمانہ گیت، " تیرا کرم مولا"۔۔۔۔
آواز سن کر صفا کا چہرہ کھِل اٹھا اور وہ ابا کو تیزی سے پانی دے کر دروازے کی جانب بھاگی تا کہ دیکھ سکے کہ یہ آواز کس کی ہے۔۔۔ وہ جلدی جلدی میں چھتری لانا نہیں بھولی تھی۔۔۔ پھوپھی نسیمہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا جو انہوں نے ڈانٹنے کے لیے کھولا تھا کہ اگر وہ بارش میں گئی تو اسے اچھی خاصی باتیں سنائیں گی۔۔۔
آواز اتنی پیاری تھی کہ وہ دروازہ کھول کر باہر دیکھنے لگی۔ پڑوسیوں کا بچہ ہاشم جو دروازے کے عین سامنے کھڑا تھا اس سے پوچھنے پہ پتہ لگا کہ یہ آواز اس ملنگ نما مخلوق کی ہے جو یہاں گزشتہ چند دنوں سے بیٹھنے لگا ہے آکر۔۔۔
حیرت زدہ مبہوت ہوئے کھڑی ہوئی صفا کو اپنی سماعت پہ یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ سچ مچ اس عجیب سی مخلوق کی آواز ہے۔ وہ گم سم نغمہ سننے میں مصروف تھی کہ ہاشم نےصفا آپی کا ہاتھ پکڑ کر انہیں سپنی جانب کھینچ لیا اور تیزی سے گلی میں لے گیا۔ اس اچانک افتاد سے صفا بوکھالا گئی۔ اور ایسی بوکھلائی کہ جلد بازی میں اس کے ہاتھ سے چھتری چھوٹ گئی۔ بارش کی تیزی کے باعث وہ پل بھر میں بھیگ کر رہ گئی۔۔ وہ پل بھر کو بھول ہی گئی تھی کہ وہ کہاں ہے کوئی اسے دیکھ رہا ہے یا نہیں۔ وہ ان گلیِ میں کھیلتے ہوئے بچوں کے ساتھ بچہ بن گئی تھی۔۔۔ نسیمہ نے جب بھتیجی کو یوں ایک دم سے غائب دیکھا تو ٹھٹک کر رہ گئی اور دروازے کی جانب دوڑی۔
پھوپی کو آتا دیکھ کر ہاشم چیخ کر بولا، " صفا آپا نسیمہ پھوپھی آگئی بھاگو۔۔۔۔۔۔"
اس سے پہلے کہ صفا بھاگتی ہاشم جوتے بغل میں دبائے بھاگ کھڑا ہوا۔۔۔ صفا نے پھوپھی کو دیکھا تو تیزی سے اندر کی جانب بھاگی۔۔۔۔ اس دوران میں وہ ملنگ مسلسل اپنا رخ دوسری جانب کیے گنگناتا رہا۔۔۔ اس نے صفا کو بھیگتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
پھوپھی کی آنکھیں شعلے برسا رہی تھیں انہیں صفا سے اس نادانی کی امید بلکل بھی نہیں تھی۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
عرشمان تم گاؤں سے واپس کب تک آو گے۔۔۔ بابا کے یہ الفاظ عرشمان کے دماغ میں بار بار کسی الارم کی طرح بج رہے تھے۔ وہ اپنے گرد آلود ہاتھوں کو دیکھنے میں منہمک تھا اسے اپنے قرب و جوار کی کچھ خبر نہیں تھی۔۔۔ وہ اپنے آپ سے جنگ لڑ رہا تھا۔ ایک ایسی جنگ جس میں اس کی ہار نہ جانے کس کس کو ہرا دے گی۔ اس کے جیتنے سے کتنے لوگ جیت جائیں گے۔۔۔ اپنے آپ کے ساتھ ہی جنگ۔ کس قدر اذیت ناک ہوا کرتی ہے۔
بابا مجھے کیوں بلا رہے ہیں۔۔۔۔ اتنا کوئج خاص میں ہوں نہیں جو انکو یاد ستانے لگی ہے میری۔۔۔۔ پھر کیا ہے ایسا جو میری نظروں سے اوجھل ہے۔۔۔۔ جھکے سر کو اٹھا کر عرشمان نے اوپر دیکھا تو سڑک کے دوسری جانب اسے کچھ عجیب سی ہلچل محسوس ہوئی، وہ ترچھی نگاہوں سے اس جانب دیکھنے لگا۔۔۔۔ صبح کا وقت اور ایسی ہلچل غیر معمولی تھی۔۔۔ وہ بھی ایسی جگہ جہاں وہ اس وقت بیٹھا ہوا تھا۔۔۔
وہ بابا کی بات کو ایک لمحے کے لیے بھول گیا تھا۔ وہ لمحہ موجود میں لوٹ آیا تھا۔ وہ آہستہ سے اٹھا اور اس زاویے سے چلنے لگا جس سے وہ جگہ آنکھوں کے سامنے رہے۔۔۔ یہ ایک تو پہچانا گیا، دوسرا شخص کون ہے؟ ہمارے علاقے کا تو نہیں۔۔۔ عرشمان نے اپنی جیب کو چھو کر اطمینان کیا کہ وہ کہیں خالی ہاتھ تو نہیں۔۔۔ کمر سے لگے پستول پہ ہاتھ کا لگنا دل میں سکون کی لہر دوڑا گیا۔۔۔۔ اجنبی شخص جس جانب دیکھ رہا تھا عرشمان نے بھی اسی جانب دیکھا مگر وہاں تو سب خالی جگہ تھی۔۔۔۔ عرشمان کے دیکھنے کے دوران وہ اجنبی اچانک سے واپس پلٹ کر اسی طرف چل دیا جدھر اس کی پشت تھی۔۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
تم اتنے پیسے کہاں سے لاتے ہو جواد؟ ماں نے پیسوں کی گڈی کو ہاتھوں میں لیے حیرت سے بیٹے کی جانب دیکھا۔ بیٹے کے سوال کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ماں نے اپنا سوال سامنے رکھا تھا۔۔۔۔ بمشکل دسویں پاس ایک لڑکا ہر ماہ اتنے روپے لاتا کہاں سے ہے آخر۔
جواد آج کچھ جلدی میں تھا وہ ماں سے کچھ اور کہنے کو آیا تھا۔ مگر ماں نے تو اسے کسی دوسرے معاملہ میں ہی الجھا دیا تھا۔
ماں ہیں نا لوگ جو دین کی خدمت کا صلہ اس دنیا میں یہ نظرانہ پیش کرتے ہدایہ دیتے ہیں نا۔۔۔
نہ تو ہدیے لے لے کر عمر گزارے گا؟ ایسے تو نہیں نا جیا جاتا جواد تو باؤلا ہوگیا ہے۔۔۔ ماں نے بیٹے کو ناگواری سے دیکھا۔۔۔۔ تجھے پتہ ہے تیرے ماموں سوال کریں گے کہ کمائے گا کہاں سے تب کہا کہوں گی میں۔۔۔ ماں نے الماری میں پیسے رکھتے ہوئے جواد سے سوال کیا۔ جو مسواک دانتوں میں دبائے بیچینی کے عالم میں کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا جہاں بچے کھیل رہے تھے۔ ۔ ۔
جواد کا ہاتھ ماں کی بات سن کر رک گیا تھا اسکی آنکھوں میں چمک سی آگئی تھی۔۔۔
اماں تو کیا ہوا میں نا دکان رکھ لوں گا۔ ویسے بھی یہ نیا پلازہ بن رہا ہے ادھر کپڑے کی دکان رکھوں گا۔۔۔ ہاں یہ سہی ہے کپڑے کی۔۔۔۔۔ وہ جیسے خودکلامی کر رہا ہے۔۔۔
ماں نے پلٹ کر دیکھنے کے بجائے اب کی بار سوال سرمائے کے متعلق پوچھا۔۔۔ جس کے جواب میں جواد نے شہادت کی انگلی کھڑی کی اور جھوم کر کہا "اللّٰه" دے گا۔۔۔ ماں پھر تیرا بیٹا بھی وہ سامنے والی کوٹھی کی طرح کوٹھی بنائے گا۔۔۔جواد اپنی بات مکمل کر کے کمرے سے باہر چلا گیا۔۔۔ مگر ماں کے دل کو نہ جانے کیوں اندیشوں نے آن گھیرا تھا۔ وہ کس منہ سے بھائی سے یہ بست کرے۔ یہ سب کچھ اتنا آسان تو نہیں۔۔۔ سو باتیں ہوتی ایسے معاملات میں۔۔ اور یہ ضد میدے بچے کی۔۔ یا مولا مدد کریں۔۔۔۔ نسیمہ نے کھڑکی کے پٹ بند کیے اور سوچوں میں ڈوبی ہوئی باہر آگئی۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
صفا کے آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھا گیا تھا۔ اسے اپنے بدل سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئی تھی۔ وہ بابا اور پھوپھی دونوں کے درمیان سے اٹھ کر چلی آئی تھی۔ کانوں میں وہی جملے گونج رہے تھے اور پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہونے لگے تھے۔۔۔ وہ اس بارے میں سوچ بھی کیسے سکتی تھی۔ اس کے خوابوں کے گلشن کو اجاڑنے کی تیاری کر لی گئی تھی جیسے۔۔۔۔ سب کچھ ٹھیک تھا کہ اچانک یہ بات۔۔۔ صفا نے نم ہوتی آنکھیں صاف کی اور اپنی چارپائی کے پاس زمیں پہ بیٹھ گئی۔۔۔ صفا اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ رہی تھی۔ اس کی خوشیوں کی لکیر آخر کون سی ہے۔۔۔ وہ کیوں نہیں نمودار ہوتی۔ کیوں ہر خواہش ہر چاہت نامکمل ادھوری رہ جاتی ہے۔۔
اس موقع پر ماں کا یاد آنا ہر لڑکی کے لیے عام سی بات تھی۔۔۔ مگر محبت کی اجازت تو شاید ماں بھی نہ دیتی اپنی بیٹی کو۔۔۔ "محبت سچ مچ نرالی شے ہے، ہیرے جواہرات سے مہنگی کئی بیش قیمت زمرد بھی اس کے سامنے ہیچ دیکھائی دیتے ہیں۔۔۔۔ کاش وہ بازار سے خریدی جا سکتی۔" مگر ایک نوخیز لڑکی، ایک غریب گھر کی لڑکی کو یہ سب کرنے کی یہ معاشرہ اجازت نہیں دیتا۔۔۔۔۔ صفا کی آنکھوں سے آنسوں جاری تھے۔۔۔
وہ جو خوابوں کے محل بنائے بیٹھی تھی ان کی بنیادیں تک ہل گئی تھی اور عمارت زمین بوس ہو گئی تھی۔۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
سر میں یہ کام ٹھیک سے نہیں کر سکوں گا۔۔۔ میرے والد صاحب کافی پریشان ہیں کچھ کاروباری معاملات کی وجہ سے۔ میں ان کی مدد کرنا چاہتا ہوں۔ کرسی کی دوسری جانب بیٹھے ہوئے آدمی نے بات مکمل سکون سے سنی اور ہلکا سا مسکرا دیا۔۔۔ گھبرا گئے اپنے بابا کو پریشان دیکھ کر۔۔۔۔ سوال نے عرشمان کو چونکا دیا تھا۔ وہ اس بات کے جواب میں کیا کہے۔۔۔۔
عرشمان: سر! میرے والد کو میری ضرورت ہے۔۔۔ عرشمان نے نظریں جھکائے ہوئے جواب دیا۔ وہ خوش نہیں تھا، اس کی خود اعتمادی کہیں کھو سی گئی تھی۔۔۔۔
آس پاس موجود لوگوں کی باتیں مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح سنائی دے رہی تھیں وہ اس ماحول میں گھٹن محسوس کرنے لگا تھا۔۔۔
تمھارے بابا کو تمھاری ضرورت نہیں ہے، ان کے پاس دوسرا بیٹا موجود ہے۔ تمھاری ضرورت ہمیں ہے اس مشن کے لیے۔ یہ ٹاسک بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ اور تم اسے ادھورا چھوڑ نہیں سکتے۔۔۔
عرشمان: سر اگر میں مکمل توجہ سے کام نہیں کر سکوں گا تو یہ بھی غداری ہو گی۔ عرشمان احتجاج کرنا چاہتا تھا۔۔۔ مگر اس سب کا وقت گزر چکا تھا۔۔۔
سامنے کی کرسی پہ بیٹھے اس ٹرک ڈرائیور کی طرف دیکھتے ہوئے عرشمان کو یوں لگا تھا جیسے وہ ایک ایسی تنگ گلی میں داخل ہو چکا ہے جہاں سے واپسی کی کوئی بھی راہ اسے وہاں نہیں لے جا سکتی جہاں سے اس نے اس سفر کی شروعات کی تھیں۔۔۔۔
تمھارے بابا پہ جو کیس بنائے جا رہے ہم روکوا دیں گے۔ بس تمہیں اس کام کو مکمل کرنا ہے۔۔۔ اب میں چلتا ہوں مال پہنچانے میں دیر ہوئے مالک لوگ گالیاں دیتے ہیں۔۔۔ چادر کندھوں پہ ڈالے وہ شخص ایسی لا پرواہی سے پلٹ گیا جیسے اس کے سامنے بیٹھا ہوا شخص وہاں موجود ہی نہ ہو۔۔۔
وہ کیس سچ مچ ختم کروا دے گا، وہ اپنی بات کا پکا آدمی ہے۔ اس کی پہنچ بھی تو بہت ہے۔۔۔ عرشمان نے اپنے آپ کو تسلی دی۔ اور خود ہی مسکرا دیا۔۔۔ مجھے بابا سے مل لینا چاہیے آج۔۔ وہ اٹھا تو اسے چکر سا آگیا۔۔۔ وہ کل سے بھوکے پیٹ تھا اس نے ایک نوالہ بھی نہیں کھایا تھا۔۔۔ وہ پھر کرسی پہ ڈھیر ہوگیا۔۔۔ ناشتہ لانے کا اشارہ کر کے وہ آنکھوں کو بند کر کے کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا تھا۔۔۔۔
"رومان بابا کی اتنی چاپلوسی کیوں کرتے ہو تم؟" یہ تمھارا انداز بلکل اچھا نہیں لگتا مجھے۔۔۔۔۔ اور رومان نے سر میں چپت لگائی تھی اور قدرے غصہ سے عرشمان کی جانب دیکھا تھا۔ " والدین کی فرمانبرداری کی جاتی ہے چاپلوسی نہیں".... فرمانبرداری!!! میں بھی تو یہی چاہتا ہوں۔۔۔ وہ بے اختیار بول اٹھا۔
کیا چاہتا ہے صاحب؟؟ پاس کی میز صاف کرتے ہوئے لڑکے نے اچانک سے پوچھا تو عرشمان چونک گیا اس نے لڑکے کی جانب دیکھا جو اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ ہاتھ میں چائے کے خالی کپ لیے وہ عرشمان کی جانب دیکھ رہا تھا۔۔۔ کک کچھ نہیں میرا ناشتہ! عرشمان نے خود کو روکا اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔۔۔
وہ ارد گرد کے ماحول میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہا تھا۔ وہ اپنے بابا کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا۔۔۔ اسکی وجہ سے ابا ہمیشہ ہی پریشان رہے۔ آج جب ان کے لیے کچھ کرنے کا وقت آیا تو وہ کچھ بھی نہیں کر پا رہا۔۔۔ وہ ایک ایسی بند گلی میں داخل ہوگیا تھا جس میں واپسی کا راستہ نہیں تھا۔ اس گلی کو عبور کرنا عرشمان کی مجبوری بھی تھی۔۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
کالج کی کلاس میں صفا سر جھکائے اپنی ہتھیلی پہ پھول بنا رہی تھی۔ وہ کانٹوں بھری زندگی میں پھولوں کو فقت ہاتھوں پہ ہی بنا سکتی تھی۔ ساتھ کی کرسی پہ بیٹھی نازیہ نے صفا کو پین کی نِب کو ٹیکے کی طرح مارتے ہوئے اسے واپس لانے کی کوشش کی خیالوں سے۔۔۔ مگر ذہنی اذیت کا شکار صفا کو نازیہ کا یہ عمل بھی درد نہ دے سکا۔۔۔ وہ اپنی سوچوں میں غرق تھی۔۔۔۔۔
"خواہش کے اندر یہ بڑی راز کی بات ہے کہ،
خواہش چلتے چلتے ایک قسم کا معبود بن جاتی ہے"۔ وہ خواہش صفا کی معبود بن گئی تھی۔۔۔ وہ ایک انسان اس کے عصاب پہ سوار رہنے والا شخص کہاں تھا۔۔۔کہاں رہ گیا تھا۔۔۔۔۔۔
سوچوں میں گم صفا اپنی کرسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔
میڈم: جی صفا؟ کوئی سوال کرنا ہے؟؟؟ صفا کو ایسے کھڑے دیکھ کر میڈم نے سوال کیا!!!
صفا: میڈم وہ خواہشات کیا لا حاصل رہ جاتی ہیں جو معبود بن جاتی ہیں۔۔۔۔ صفا کے سوال پہ سب کی نظریں صفا کی جانب اٹھ گئیں۔۔۔۔ وہ اکنامکس کی کلاس میں کیسا سوال پوچھ بیٹھی ہے۔۔۔۔ نازیہ نے اس کے ہاتھ کو جھٹکا دیا تو جیسے وہ نیند سے بیدار ہوگئی تھی۔۔۔
بیٹا آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے نا؟؟ میڈم نے صفا کو حیرانگی سے دیکھا، کلاس کی سب سے الرٹ رہنے والی لڑکی آج کیسے سوال کر رہی ہے۔۔۔۔!
صفا نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔ اور کلاس سے باہر جانے کی اجازت لے کر باہر چلی آئی تھی۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے کلاس روم کی سب لڑکیاں اسے دیکھ کر مسکرا رہی ہیں اور مزاق بنا رہی ہیں۔۔۔ صفا کے دل کی دھڑکنیں مدھم ہونے لگیں تھی۔۔۔ وہ زور زور سے چیخنا چاہتی تھی۔۔۔۔ وہ اپنا حال کس سے بیان کرے کون اسکی بات کو سنے۔۔۔۔ کوئی بھی تو نہیں تھا جو اس کے دل کی بات سنتا۔۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
موسم لاکھ اچھا ہو مگر جب تک انسان کے اندر گھٹن موجود ہو باہر کے موسم کا لطف بھی نہیں اٹھایا جا سکتا۔۔۔۔ ایسا ہی کچھ امبر کے ساتھ بھی ہو رہا تھا۔ جو اپنے شوہر کے چلے جانے کی وجہ سے اداس تو تھی ہی مگر آج عدالت میں پیشی کی وجہ سے گھر کا ماحول بہت ہی گھٹن زدہ تھا۔۔۔۔ ملکی سلامتی کے لیے کوشش کرنے والے تمام ہی ادارے ان دنوں نہایت الرٹ تھے۔۔۔ چھوٹی سے چھوٹی بات کی بھی کھال اتارنے کے لیے سب لوگ ہی تیار رہتے تھے۔۔۔۔ عدالتی کاروائی میں پروفیسر عقیل خود پیش ہوئے تھے۔ ان کے وکیل ان کے کالج کے دور کے دوست ایڈووکیٹ شرافت تھے۔۔۔۔ جنہوں نے اس کیس کی تیاری بہت اچھے سے کی ہوئی تھی۔۔۔۔ اس کیس سے نکلنے کے لیے تو شاید زیادہ مشکلات کا سامنا تو نہ کرنا پڑتا۔۔۔ مگر جو نقصان کاروبار کی ساکھ کو پہنچا تھا اس کی تلافیِ کرنے میں نہ جانے کتنے سال لگ جائیں گے۔۔۔
امبر اپنی چوڑیوں کو دیکھ رہی تھی اور اس انتہائی خاموشی سے برسنے والی بارش کو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ زوار نے کس قدر جلد بازی کی۔۔۔۔۔ کاش وہ یہاں ہوتے!!!
زوار کی بزدلی نے امبر کو شرمسار کر دیا تھا۔۔ وہ اپنے تایا تائی کا سامنا کرنے سے کترانے لگی تھی۔ تائی جان تو پہلے ہی امبر کو اپنی بہو بنانے کے لیے تیار نہیں تھیں، اس پہ اب زوار کی یہ حرکت۔۔۔۔ اس کے پیچھے بھی انہیں یہ وجہ لگ رہی تھی کہ یہ سب بھی امبر کے کہنے پر ہوا ہے۔۔۔۔۔ امبر نے آسمان کی جانب دیکھا جہاں کالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھی، بادل اس قدر کالے تھے کہ رات کا سماں لگ رہا تھا۔۔۔یہ اندھیرا اب امبر کی زندگی میں داخل ہونے لگا تھا۔۔ یہ گھر جو کبھی لوگوں کی موجودگی سے بھرا رہتا تھا، جب یہاں ہر وقت قہقہے لگتے تھے اور ہمیشہ رونق لگی رہا کرتی تھی، آج ویران تھا ۔۔ ایسے بارش کے موسم میں اکثر عرشمان باہر نکل جاتا تھا اور اس کی آنکھوں میں شرارت ہوا کرتی تھی، وہ گھر والوں کو زِچ کرنے والے ہر کام میں شامل رہتا تھا۔ جبکہ دوسری جانب امبر کا بھائی جو بلکل ہی الگ مزاج کا تھا، ایسے موقع پہ بس اس لیے بھیگ کر بیمار ہو جایا کرتا تھا کہ وہ عرشمان کو باہر جانے سے روکتا تھا۔۔۔
رومان کی موت کی یاد آتے ہی امبر کی آنکھوں کے بند ٹوٹ گئے اور اشکوں کا سیلاب رواں ہو گیا۔۔۔ زندگی کیوں بدل جاتی ہے۔ ہمیشہ ایک سی کیوں نہیں رہتی۔۔۔۔ "آخر کیوں" یہ جملہ بےساختہ امبر کے منہ سے ادا ہوگیا تھا۔۔۔ اس کے علاوہ کوئی نہیں تھا جو اس کیوں کو سنتا۔۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
جواد صحن میں کھڑی اپنی نئی نویلی موٹر سائیکل کو چمکانے میں مصروف تھا جب صفا کو اس نے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا۔ وہ کمرے سے نکل کر سیدھی باورچی خانے میں چلی گئی تھی۔ اسے اپنے ابا سے کالج جانے کے لیے بس کا کرایہ لینا تھا۔۔۔
وہ اس متعلق ابا سے بات کر رہی تھی کہ اچانک جواد اندر داخل ہوا۔ اس کے داخل ہونے اور اس قدر قریب کھڑے ہونے سے نہ جانے کیوں صفا کو اجنبیت محسوس ہو رہی تھی اسکا دم گھٹ رہا تھا۔۔ کرایہ کی بات کے جواب میں ابا سے پہلے جواد بول اٹھا۔۔۔ "میں چھوڑ آتا ہوں کالج" اسکی آواز اس قدر بھاری تھی صفا کانپ اٹھی۔ صفا نے سر نفی میں ہلا کر انکار کیا تو ابا اور پھوپھی نے بھی اس بات پہ جواد کی طرفداری کی کہ اس میں کوئی غلط بات بھی نہیں ہے۔۔۔ صفا جو پہلے سے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تھی وہ اب اپنے اوپر کالج نہ جانے کی پابندی لگوانا نہیں چاہتی تھی۔ وہ بے بسی سے شانے اچکا کر باہر آگئی۔ اس کی یہ صبح بھی اداسی بھری تھی۔۔۔ زندگی اگر اپنی سوچی ہوئی پسند کے مطابق اگر گزرا کرتی تو کتنا اچھا ہوتا۔۔ صفا اپنی سوچوں میں گم نہ جانے خود کو کن محلوں کی شہزادی تصور کر رہی تھی جب جواد کی گرجدار آواز سن کر صفا کانپ اٹھی اور اس کے خوابوں کے محل اور ایک شہزادے کے بجائے ایک جلاد نما انسان اسکے سامنے موجود تھا۔۔۔ جواد نے گلی میں موجود اس ملنگ کو اس قدر زور سے ڈانٹا تھا کہ آس پاس موجود لوگوں نے پلٹ کر ان دونوں کی جانب دیکھا تھا۔۔۔ صفا کا کلیجہ دھک سے رہ گیا تھا۔۔۔۔ درختوں پہ بیٹھی چڑیا تک اس آواز سے اڑ گئی تھی۔۔۔۔ اگر اس بات سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا تھا تو وہ تھا وہی ملنگ جسے جواد نے غصہ سے جھڑکا تھا۔ وہ اسی انداز میں پیلے دانت نکالے ہنسے جا رہا تھا۔ صفا کو نہ جانے کیوں اس کی یہ ہنسی آج اچھی لگنے لگی تھی۔ وہ کتنا پرسکون تھا، اور ہنس ہنس کے مزاق اڑا رہا تھا جواد کا۔ ایک صفا تھی جو احتجاج کی خاطر رو بھی نہیں سکتی تھی۔۔۔ اسے یوں گم سم کھڑے اور مسلسل منلگ کی جانب دیکھتے ہوئے جواد کو شدید غصہ آیا اور وہ ایک بار پھر سے آپنی آواز کو نیچا رکھتے ہوئے مگر غصہ سے بھرپور انداز میں دانت نکوستے ہوئے صفا کی جانب متوجہ ہوا۔۔۔ صفا نے نظریں جھکا لیں اور اس کے ساتھ اپنا سر بھی۔ جواد کا یہ روپ صفا کو اچھا نہیں لگا تھا۔
صفا کچھ کہنا چاہتی تھی کہ اس سے پہلے اس ملنگ اس فقیر کی آواز سنائی دی۔۔۔۔ "مرد بن مولوی مرد" یہ الفاظ سنتے ہی جیسے جواد کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور اس نے غصہ میں آکر اپنا ہاتھ ہوا میں بلند کیا تا کہ عجیب سے ملنگ کو مار سکے۔۔۔۔ مگر وہ ہاتھ ہوا میں ہی معلق رہ گیا۔۔۔ اسکے ہاتھ کو ملنگ نے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔۔۔ اب اس ملنگ کی آنکھوں میں شدید غصہ تھا اور ہاتھ کی گرفت اس قدر مضبوط تھی کہ جواد جیسے انسان کے حلق سے درد کے مارے ہلکی سی چیخ نکل گئی تھی۔۔۔ اس کو اپنی کلائی میں درد کی اک لہر سی اٹھتی محسوس ہوئی ایسا لگ رہا تھا جیسے ہاتھ کسی آہنی شکنجے میں پھنس گیا ہے۔ ملنگ نے ہاتھ جھٹکتے ہوئے کہا "عورت جانور نہیں ہوتی مولوی"۔۔۔ ملنگ اتنی سی بات کہ کر واپس اپنی جگہ پہ بیٹھنے کو چلا گیا مگر صفا کے دل میں ایک اس مشکل کے وقت میں امید کا چراغ روشن کر گیا تھا۔۔۔ صفا کو ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ملنگ اس کے جذبات کو الفاظ دے گیا ہے۔۔ وہ چپ چاپ سٹاپ کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔ بس کا کرایہ آج کے دن کے لیے کافی تھا۔۔۔ بشرطیکہ وہ کالج میں بھوکی رہتی۔۔۔ اور بھوکا رہنے کی صفا کو عادت سی ہو گئی تھی۔۔۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
"دور کا کوئی مقام ایسا نہیں ہے جو قریب نہ آسکے"۔ اور ہماری کامیابی بھی ہم سے دور ضرور ہے لیکن وہ بھی قریب آجائے گی۔ تم کیوں فکر کرتی ہو بیٹی۔۔۔ پروفیسر عقیل نے امبر کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے اس کی بات کاجواب دیا۔۔۔۔ امبر بابا کے لیے چائے لے کر آئی تھی۔۔۔ بابا اس موقع پر زوار یہاں ہوتے تو آپ کو ایسے بیماری کی حالت میں اتنے کام نہ کرنے پڑتے۔۔۔ امبر اس لمحے گھٹن محسوس کر رہی تھی۔ ایک ایسی بات پہ اسے ندامت ہو رہی تھی جس میں اسکا کچھ قصور نہیں تھا۔۔ زوار نے جو کیا اپنی مرضی سے کیا تھا۔
بابا: گھبراؤ نہیں بیٹی، تمھاری تائی جی کو تو بس ایسے ہی بولنے کی عادت ہے نا، دیہاتی عورت ہے بس غصہ نکالتی ہے پھر ٹھیک ہو جاتی ہے۔۔۔ کیس کی فائل کو پڑھتے پڑھتے وہ رک گئے اور امبر کی جانب دیکھنے لگے۔۔۔۔ امبر اپنی کلائی میں پہنے ہوئے اس خاندانی کنگن کو گھوما رہی تھی۔ اسکا سر جھکا ہوا تھا۔۔
بابا میں بنا کسی بات کے یہ سب کچھ کیوں برداشت کروں۔۔۔ میرا شوہر مجھ سے بات نہیں کرتا ہے۔ مجھے میری ساس طعنے دئیے جاتی ہیں۔۔ اب کی بار امبر کا لہجہ قدرے سخت تھا۔۔۔ وہ جذبات کی شددت سے کانپ رہی تھی۔ اسے روتا ہوا دیکھ کر پروفیسر صاحب بھی گھبرا گئے تھے۔۔۔۔ انہوں نے ملازمہ کو آواز دی کہ پانی لایا جائے۔۔۔ باوجود اس کہ کے وہ بیمار مگر ان کی آواز پورے گھر میں گونج گئی تھی۔۔۔ گھر کے سبھی ملازم کام کاج چھوڑ کر یہاں چلے آئے تھے۔۔۔ پانی دے کر ملازمہ نے وہیں رکنا چاہا تو پروفیسر صاحب نے اسے وہاں سے چلے جانے کا اشارہ کیا۔۔۔ جب وہ چلی گئی تو انہوں نے امبر کی جانب دیکھا۔۔۔ وہ اپنے سامنے موجود اپنی بھتیجی کے بہتے ہوئے آنسوؤں کو دیکھ رہے تھے۔۔۔
وہ کیا تب بھی ایسے ہی روتی اگر اسکے والد زندہ ہوتے اگر۔۔۔ زوار کی نالائقی باعث شرمندگی تھی انکے لیے۔۔۔
امبر نے اپنی آنکھوں کو رگڑ رگڑ کر صاف کیا اور زبردستی کی مسکراہٹ لبوں پہ سجائے وہ بڑے بابا کے پاس سے اٹھ کر اپنے کمرے کی جانب چل دی۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
ملکی سلامتی کے لیے ہم سب کو اپنا فرض ایمانداری سے نبھانا ہو گا۔ تب ہی اس ملک میں امن آئے گا۔۔۔ یہی وہ الفاظ تھے جو ہر بم دھماکے کے بعد وزیروں سے لے کر اعلیٰ عہدوں پر فائض لوگ کہتے سنائی دیتے تھے۔۔۔ آج بھی جو دھماکہ ہوا تھا اس وقت سے لے کر رات دیر تک لیاقت اور اسکی بہن نسیمہ دونوں کی جان سولی پہ لٹکی ہوئی تھی۔۔۔ جواد صبح سے گھر نہیں آیا تھا اور اسکا فون بھی بند جا رہا تھا۔۔۔ محلے کے دو چار گھروں کے لڑکے بھی لاپتہ تھے۔۔۔ جن میں سے ایک کی تو شاید موت کی اطلاع کو جان بوجھ کر چھپانے کی کوشش کی جارہی تھی۔۔۔ اسکی ماں دل کی مریض تھی ایسے میں اچانک ملنے والی خبر جان لیوا ہو سکتی تھی۔۔۔ کچھ لوگوں کا تو یہ بھی خیال تھا کہ مرنے والا لڑکا وہ تھا جس نے دھماکہ کیا ہے۔۔۔۔ صفا کے دل میں بھی اندیشے پیدا ہو رہے تھے۔۔۔ جیسا بھی ہے وہ اسکی پھوپی کا بیٹا ہے۔ وہ ایک ہی پل میں پھوپھی کی خدمتیں کس طرح سے فراموش کی جاسکتی تھی۔ صفا اپنے بابا کے نمبر سے کال کر کر کے تھک گئی تھی نگر جواد کا نمبر بند مل رہا تھا۔ وہ کبھی نمبر ڈائل کرتی تو کبھی اپنی پھوپھی کو حوصلہ دیتی۔ گلی میں اس قدر سناٹا چھایا ہوا تھا کہ ذرا سی آہٹ بھی گونجنے لگتی تھی۔ گھر کے سامنے موجود اس ملنگ کے ہاتھ میں اٹھائی ہوئی لاٹھی کے ساتھ بندھی ہوئی چھوٹی چھوٹی سی گھنٹیاں ہلکی سی جنبش پہ پورے محلے میں باآسانی سنائی دینے لگتیں۔۔۔ صفا کو اس لمحے وہ ملنگ اور اسکی یہ گھنٹیاں زہر لگ رہیں تھی۔ وہ اپنے ابا کی موجودگی کے باعث خاموشی سے یہ سب برداشت کر رہی تھی ورنہ کب کی وہ اس ملنگ کے ساتھ لڑائی کر چکی ہوتی۔۔
موسم بھی حبس زدہ تھا اور اس پر یہ سوگوار سا ماحول۔ جیسے قیامت اسی محلے اس شہر میں برپا ہوچکی تھی۔۔۔ اچانک سے گھنٹیوں کی آواز آنا شروع ہوئی اور آہستہ آہستہ آوازیں بلند ہونے لگیں اس کے ساتھ محلے کو لوگوں کا شور بھی بلند ہونے لگا۔۔۔ لیاقت بھی ننگے پاؤں ہی باہر کی جانب چل دیا، صفا نے رُکنے اور جوتے لانے کا کہا بھی مگر وہ کہاں رکنے والے تھے۔۔ نسیمہ بھی دوڑ کر دروازے سے جا لگی۔۔۔ اور چند ہی لمحوں بعد دیوانہ وار بھاگتی ہوئی باہر چلی گئی اس بات کی پرواہ کیے بغیر کے انکے سر پر دوپٹہ ہے بھی یا نہیں وہ جوتا پہنے ہوئے ہیں یا یوں ہی ننگے پاؤں چلی آئی ہیں۔
وہ جواد کی جھلک دیکھتے ہی پہچان گئی تھیں اور اگلے ہی لمحے وہ اپنے بیٹے سے لپٹ کر رو رہی تھیں۔ انکی زندگی کی واہد امید انکا سہارا انکا اکلوتا بیٹا۔ جس کو کھونے کا تصور بھی نہیں کر سکتیں تھی وہ ان کے سامنے موجود تھا۔۔ ماں بیٹا دونوں ہی رو رہے تھے۔ جواد کو پولیس والے مشتبہ افراد کی فہرست میں شامل کر کے تھانے لے گئے تھے۔۔۔ اور رات کو چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ لوگ بے قصور ہیں۔۔۔۔ جواد کے ساتھ محلے کے دوسرے دو لڑکے جو صبح سے گھر سے غائب تھے ان میں سے ظریف کی واپسی بھی جواد کے ساتھ ہوئی تھی۔ مگر حیات واپس لوٹ کے نہ آسکا۔۔۔۔ اس کی کسی کو کچھ خبر نہیں تھی۔۔ دروازے سے لگ کہ کھڑی صفا جواد اور نسیمہ پھوپھی کو روتے دیکھ کر خود بھی رونے لگی۔۔ وہاں پہ موجود محلے کے مرد اور عورتیں سب ہی خوش تھے اور وہیں پہ حیات کے لیے فکرمند بھی۔ ایک ملنگ تھا جو سب سے بے پرواہ ہو کر اب زمین پہ لیٹ چکا تھا۔۔۔ اور صفا کو روتے دیکھ رہا تھا۔ اس عجیب سی لڑکی کو جو کبھی تو اس مولوی سے چڑنے لگتی ہے اور کبھی اس کے لیے رونے لگتی ہے۔۔ احمق لڑکی۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
عرشمان میرا بیٹا۔۔۔ تم کب آئے ماں صدقے جائے۔۔ عرشمان کی امی جو کچن سے ملازمہ کو دن کے کھانے کے متعلق ہدایات دے کر نکلی تھیں بیٹے کو اپنے سامنے کھڑا ہوا دیکھ کر جیسے کِھل اٹھیں اور بے اختیار اپنے بیٹے سے لپٹ گئیں۔ عرشمان بھی اپنی امی کی آغوش میں یوں چھپ گیا جیسے وہ کوئی چھوٹا سا بچہ ہو۔
ماں بیٹے کی یہ ملاقات کافی دنوں کے بعد ہو رہی تھی۔ عرشمان پہلے سے بہت کمزور دکھائی دے رہا تھا۔ اسکی آنکھیں بھی جیسے بے خوابی کی وجہ سے اندر کو دھنسی ہوئی تھی۔
بیٹے تم ٹھیک تو ہو نا۔ ماں بار بار یہی سوال کیے جا رہی تھی اور عرشمان ہر بار چہرے پہ مسکراہٹ سجائے یہی کہ رہا تھا کہ وہ بلکل ٹھیک ہے۔۔۔ وہ ماں کے سامنے تازہ دم دیکھائی دینے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا۔ اسکی آواز سن کر امبر جو کے اپنے کمرے میں بند ہو کر بیٹھی ہوئی تھی بھاگتی ہوئی باہر آگئ، مگر اپنی تائی جی کو دیکھتے ہی امبر کے پاؤں جیسے منجمند ہو کر رہ گئے تھے وہ بت بنی ماں بیٹے کو دیکھے جا رہی تھی۔ عرشمان نے بھابھی کو دیکھ لیا تھا، مگر اس کی جانب سے گرمجوشی کا اظہار نہیں کیا گیا تھا۔ وہ اپنی امی کے سامنے بلکل انکے ہی رنگ میں رنگا ہوا دیکھائی دے رہا تھا۔ امبر کی آنکھوں میں آنسوں تیرنے لگے۔ وہ اس گھر میں خود کو ایک پل میں اجنبی محسوس کرنے لگی تھی۔ سامنے کھڑا عرشمان ایسے بے نیاز کھڑا تھا جیسے وہ جانتا تک نہیں۔۔۔ جن عورتوں کے شوہر ہی انکی قدر نہ کریں کوئی دوسرا ان کے لیے کیا کر سکتا ہے۔۔
اپنی آنسوؤں سے رندھی ہوئی آواز کو قابو کرنے کی کوشش کرتے ہوئے امبر نے چہرے پہ مسکان سجاتے ہوئے عرشمان کو خوش آمدید کہا۔ جس کے جواب میں پہلی بار عرشمان نے بھی مسکرا کر اپنی بھابی کو دیکھا۔ اور ہلکی سی سر کو جنبش دے دی۔۔۔
تم جا کر تایا جی کو بتاؤ عرشمان آیا ہے، باہر آئیں گے وہ یا عرشمان اندر آکر مل لے۔۔۔ تائی جی کا لہجہ ایسا تھا جیسے وہ اپنی بہو سے نہیں گھر کی کسی ملازمہ سے بات کر رہی ہیں۔۔۔
امبر نے خاموشی سے یہ حکم سنا اور اپنے تایا جی کے کمرے کی جانب چل دی۔ وہ رونا چاہتی تھی۔ اسے دکھ ہو رہا تھا اس بات کا کہ وہ زوار کے ساتھ چلی کیوں نہیں گئی۔۔۔۔
•----------°----------°•----------°----------°•----------°---------•
پولیس لے گئی ہے صبح صبح آکر اسے۔ بہت تنگ کر رکھا تھا اس نے مجھے بھی۔۔۔ جواد نے گھر کے اندر داخل ہوتے ہی یہ بات شروع کر دی تھی۔ اور وہ مسلسل صفا کی جانب دیکھ رہا تھا نہ جانے اس کی نگاہوں میں ایسا کیا تھا کہ صفا کو بے چینی سی محسوس ہونے لگی۔ صفا کے چہرے پہ کوئی تاثرات نہ پا کر جواد نے ماموں کی جانب دیکھا جو اخبار پڑھنا چھوڑ کر جواد کو ہی دیکھ رہے تھے۔۔۔ "ایسا کیسے ہو سکتا ہے"؟ ایک ہی لمحے میں یک زبان ہو کر ماں اور ماموں نے سوال پوچھا۔۔۔ جواد کو ایسے سوال کی امید صفا سے تھی مگر وہ تو مٹی کا مادھو بنی اپنی کتاب کے مطالعہ میں مصروف تھی۔ یہ الگ بات کہ وہ پڑھ ہی رہی تھی اسے سمجھ کچھ بھی نہیں آرہا تھا۔ جواد کی موجودگی اسے الجھا دیتی تھی۔۔۔
ایسا ہی ہوتا ہے یہ دہشتگرد لوگ بہت سیانے ہوگئے ہیں۔ جاسوس بٹھائے رکھتے ہیں۔ نسیمہ نے بیٹے کی بات سنی تو اسکی ہاں میں ہسں ملائی۔۔۔ مگر لیاقت کے دماغ کو اس جواب سے تسلی نہیں ہوئی تھی۔
جواد تو تجھے کیوں لے گئی تھی پولیس؟؟
لیاقت نے جواد سے سوال کیا۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ جواد کوئی جواب دیتا نسیمہ بول اٹھی۔۔۔ ہائے ہائے بھائی جی کیا مطلب ہے میرا بیٹا دہشتگرد ہے؟؟ نسیمہ کی اچانک سے اس "ہائے ہائے" پہ لیاقت جہاں حیران تھا وہیں پہ صفا کی ہنسی چھوٹ گئی تھی۔۔
لیاقت: آہ بھلی لوک بات تو کرنے دے مجھے۔۔۔ کب کہ رہا تیرا بیٹا دہشتگرد ہے۔۔۔۔
جواد نے بھی ماموں کی بات کی تائید کرتے ہوئے یہی کہا کہ اماں ماموں تو بس پوچھ رہے ہیں۔۔۔۔ "ماموں یہ یہ ہے وجہ" جواد نے داڑھی پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا۔ ہم مسلمان ہو کر بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی طرزِ حکومت نہیں بنا سکے۔۔۔ یہ گورے کے پتر ہمیں بھی دہشت گردوں میں شمار کرتے ہیں۔۔۔۔
طالبان سے جان جاتی ہے انکی۔۔۔
"ملک کے اندر یوں طاقت سے اسلام نافذ کرنا، اپنے ہی لوگوں کو مار دینا اسلام یہ بھی تو نہیں سکھاتا"
صفا جو بہت دیر سے خاموش بیٹھی تھی بول پڑی۔۔ یہ پہلی بار تھا کہ صفا نے براہ راست جواد کی بات کا جواب دیا ہو۔۔۔۔
"گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے انگلی ٹیڑھی کرنا پرتی ہے"۔۔۔ جواد نے ماموں کے قریب بیٹھتے ہوئے جواب دیا۔
"اس ملک میں قانون ہے، اور اس کے ہوتے ہوئے انگلی ٹیڑھی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بس انگلیوں کو یکجا کر کے ایک بند مٹھی بنے کی ضرورت ہے"
صفا نے بھی اب کتاب بند کر دی تھی۔ وہ جواد سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے جھجک محسوس نہیں کر رہی تھی۔۔۔۔ لیاقت اور نسیمہ تو جیسے ان کی باتیں سن کر اپنے کام کاج بھول ہی گئے تھے۔۔۔۔
جواد: قانون! کون سا؟؟؟ کہاں کا؟؟ قانون بس قرآن کا ہے اور حکم اللّٰه تعالیٰ کا۔۔۔۔ جواد نے فوراً سے پیشتر جواب دیا۔
صفا: "اللّٰه کی کتاب میں زور زبردستی کا حکم نہیں کسی کی جان لینے کا تو نہیں کہتا اسلام۔ یہ تو بہت امن و محبت والا دین ہے"۔۔۔ صفا نے اطمینان سے جواب دیا۔ لیکن اب جواد کا نرم لہجہ کرخت ہونے لگا تھا۔۔۔
اس کے چہرے پہ موجود ناگواری کے تاثرات چھپائے نہیں چھپتے تھے۔
صفا بی بی اندر چل کے ہانڈی رکھو، یہ سیاسی باتیں بعد میں کرنا۔۔۔جواد توں تا ایسے غصہ کرتا ہے جیسے دھماکے میں تیرا ہاتھ ہے۔ چھوڑ طبلانا کو۔۔۔۔
ماں نے بیٹے کو ایسے گھورتے دیکھا تو کہا۔۔۔۔
لیاقت نے بھی بہن کی ہاں میں ہاں ملائی اور جواد کو ساتھ لے کر باہر نکل گیا کہ وہ دکان دیکھ آئیں جسے لینے کا جواد نے ارادہ کر رکھا ہے۔۔۔۔
•----------°-------------°•----------°---------
جاری ہے

Comments