از"مونیثہ فاطمہ"
(Part 3)
وہ مووی دیکھ کر باہر آئی تو اس کی توقع کے عین مطابق وہ تینوں جا چکے تھے تو وہ آگے بڑھی اور خود سے بولی ۔
" ہو بزدل لوگ اک زمبئی کو نہیں دیکھ سکتے ،پتا نہیں کیا کریں گے زندگی میں " مگر اس نے یہ نہیں سوچا کہ زمبئی بھی ہر کسی کو پسند نہیں ہوتے، جیسے اسے باقی سب موویز بری لگتی ہیں باقی کو بھی اس کی پسند کچھ خاص پسند نہ تھی مگر وہ سوچے تب نہ اور پھر اس نے گاڑی سٹارٹ کی اور اپنے گھر کی سمت ڈال دی …………
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ ہال سے باہر نکلا تو اسے لگا کہ اسے ابھی قے آجائے گی مگر بچت ہو گئی پیچھے سے حماد آیا اور بولا۔
"اف مجھے نہیں پتا تھا کہ لڑکیاں ایسی چیزیں بھی دیکھتی ہیں واہیات آخ تھو "
اسی وقت مہرو آئی اور بولی ۔
" گلزا آپ ٹھیک ہو ؟"
تبھی گلزار بولا۔
" ہاں میں ٹھیک ہو ں مگر تم گل کو بلا لاؤ میں اب اندر نہیں جا سکتا پھر اس کو لے کے چلتے ہیں "
مگر مہرو فوراً بولی ۔
" وہ کہہ چکی ہے کہ وہ ہماری خاطر اپنی فیورٹ مووی قربان نہیں کر سکتی ۔"
" اف یہ بھی کوئی فیورٹ مووی ہے لوگ اس میں ایسے ہیں جیسے کوئی انسانی غبارے میں ہوا بھر دے اور وہ ادھر سے ادھر ڈولتے رہیں، یہ لڑکی تو کہیں سے بھی اپنے نام جیسی نہیں لگتی، گل بہار واہ پتا نہیں کیا سوچ کر نام رکھا گیا تھا اس کا " حماد نے تقریر کرنا ضروری سمجھا مگر گلزار تو کہیں اور تھا وہ بس یہی سوچ رہا تھا کہ" گلزار بیٹا اس کو امپرس کرنے کے لیے تو تجھے آدم خور بھیڑیوں سے دوستی کرنی پڑے گی" اسی دوران حماد بولا۔
"یار ڈیر توتو ہار گیا اب آگے کا سوچ مگر گھر جا کر کیونکہ ھم دونوں یہاں ٹھہر کر اس کا انتظار نہیں کرنے والے۔"
ان کا ارادہ جان کر وہ بھی ساتھ چل گیا کیونکہ وہ یہاں رہ کر پھر سے اندر کے مناظر یاد نہیں کرنا چاہتا تھا وہ گھر پہنچا تو حمیرہ اسی کا انتظار کر رہی تھی، اس کے آ تے ہی وہ کھانا لگانے لگی کیونکہ وہ خود کو اس گھر کے کام کا عادی بنا رہی تھی مگر سعود صاحب واپس چلے گئے تھے کیونکہ وہ جانا کی ضرورت تھی ورنہ بزنس کا کیا ہوتا …………
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ یونی پہنچی تو اس کا سامنا گلزار سے ہوا اسے کل والا واقعہ یاد آیا تو وہ اس کے سامنے ہنستی چلی گئی تو گلزار بولا ۔
" چڑیل کل کی کوئی بات مت کرنا ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔"
تو گل فوراً بولی ۔" ٹھیک ہے مگر تم ہار گئے ہو اس لیے میری 2 باتیں مانو گے" تو ادھر سے بھی جواب آیا ۔
" مانوں گا مگر ابھی لیکچر لینے کا ارادہ رکھتا ہو ں بعد میں یاد دلانا ۔"
تو گل فوراً بولی "ٹھیک ہے چلو۔"
وہ کلاس میں آئے تو حماد اور مہرو پہلے ہی کسی بات پر بحث کر رہے تھے گل کو دیکھ کر ان کا منہ بنا کہ وہ گل کو کچھ کہنے ہی والے تھے مگر سر بلال کی آمد نے ان کے ارادے پورے نہ ہونے دئیے اور کلاس شروع ہو گئی پھر تھوڑی دیر بعد گل کو مہرو نے اک کاغذ تھمایا تو گل کے پوچھنے پرمہرو نے بتایا کہ یہ گلزار نے دیا ہے اس نے کاغذ کھولا تو اس کے بلکل وسط میں لکھا تھا ۔
*****************
یہ آرزو ہے کہ گل کو گل کے روبرو کرتے
پھر بلبل اور میں بےتاب گفتگو کرتے
-------------
پہلے اپنا نام دیکھ کر اسے ہنسی آئی مگر جب مفہوم سمجھ میں آ یا تو اس کی تیوری چڑھی اور خود کلامی میں بولی ۔
" یہ بہن جی کچھ زیادہ فری نہیں ہو رہااور اس نے فوراً لکھا ۔
****************
دل توکرتا ہےکہ تمھاری یہ خواہش پوری کردوں
اور الٹے ہاتھ کا تھپڑ تمھارے گال پر جڑ دوں
-------------
اور اس نے جواب مہرو کو تھما دیا اس نے حماد کو دیا اور حماد نے گلزار کو گلزار جیسے جیسے پڑھتا گیا اس کی مسکراہٹ گہری ہوتی گئی اور اس نے لکھا۔
****************
اف تیرے اندازِ بیاں پہ مجھے
جنگلی بلیوں کا گماں ہوتا ہے
--------------
اور پھر سے یہ رقعہ گل کے پاس پہنچا تو اس نے فوراً ہی جواب دیا۔
******************
صلاحتوں کو ان کی ازبر کر لیں زراآپ بھی
منہ نوچنے کی اہلیت بڑی شاندار رکھتی ہیں وہ
--------------
اور جواب پہنچا گلزار کے پاس تو وہ فوراً لکھنے لگا ۔
*******************
ہے یہ آرزو رہی میری حسرت بن کر
تیرا غصہ خاک کر سکوں میں کبھی
---------------
اس نے حماد کو دیا اور حماد مہرو کو دینے ہی لگا تھا کہ سر نے دیکھ لیا اور سر کا مارکر حماد کے سر پر ٹھاکر کے لگا ۔
"آؤئی" حماد چیخا تبھی لیکچر کا ٹائم ختم ہوا اور سر حماد کو لے کر آفس میں چل دیے اور اب وہ اپنے دوست کی خط و کتابت کی سزا بھگت رہا تھا ……………
وہ تینوں باہر اس کا انتظار کر رہے تھے جبھی حماد آتا دکھائی دیا تو گلزار اس کی طرف بھاگا وہ دونوں بھی اس کے پیچھے آئی تو گلزار بولا۔
" حماد کیا کہا سر نے زیادہ ڈانٹا تو نہیں نا؟ "
تبھی حماد نے سر اٹھایا اور بولا۔
" سر نے کہا کہ میں مہرو کو چھیڑ رہا تھا۔"
مہرو چیخی " واٹ؟ مگر تم نے سر کو یہ نہیں کہا کہ اگر میں ایسا کرتا تو مہرو مجھے جان سے مار دیتی ۔"
تو گل بولی " ریلیکس مہرو وہ پریشان ہے تھوڑا آرام سے۔" اس کا اشارہ اس کے لہجے کی طرف تھا تو وہ چپ ہو گئی مگر گلزار بولا۔
" چل کوئی بات نہیں، ہوتا رہتا ہے ایسا، تو ٹنشن نہ لے، چل کہیں چلتے ہیں۔ " اور وہ سب اٹھ کھڑے ہوئے اور گراونڈ کی طرف چل پڑے……………
پہلے تو حماد غم میں تھا تو کچھ نہیں بولا مگر اب اس کا غم غصے میں بدلا تو وہ فوراً اپنے موڈ میں آتے ہی بولا۔
"تجھے کیا ضرورت تھی یہ خط وکتابت کی ؟مرزا غالب کی اولاد نا ہو تو۔"
مگر گلزار نے جھٹ سے دونوں لڑکیوں دیکھا جو کنٹین سے کچھ لینے گئی ہوئی تھی تبھی بولا۔
" دیکھ اللہ کا واسطہ کیوں مروائے گا مجھے، اس چڑیل کو کچھ پتا چلا تو زندہ گاڑھ دے گی اور تو مہرو کے چکر میں میری کشتی مت ڈبو دینا تو اسے امپرس کرنے کو سب بتا دے اور میں ادھر ڈیپرس ہوتا رہوں ۔" گل جو کہ حماد کو سب بتا چکا تھا فوراً ہی اپنا ڈر ظاہر کرنے کے ساتھ نصیحت بھی کر دی اور پھر حماد بولا۔
"دل تو میرا بھی بہت کرتا ہے کہ تیرا بھانڈا پھوڑوں مگر کیا کرو دوستی آڑے آتی ہے۔ "
جبھی گلزار اٹھا اور اسے گلے لگایا اور بولا۔
" او میرا پیارابھائی ہمیشہ ایسے دوستی آڑے رکھنا۔"
تو حماد فوراً بولا ۔
"چلو پڑے ہٹو لڑکیاں آرہی ہیں انہوں نے پوچھا تو میں سب کچھ بتا دوں گا " گلزار نے فوراً ان کو دیکھا اور حماد کی کمر پہ اک دھپ لگائی اور بولا۔
"اب تو میری کمزوری کا فائدہ اٹھائے گا؟"
تو حماد بھی اسی کے انداز میں بولا۔
" ہا ں اٹھاؤں گا کیونکہ دوستی میں سب جائز ہے۔ "
تبھی لڑکیاں آگئیں اور دونوں کو چپ ہونا پڑا مگر گلزار نے حماد کو ایک گھوری دی جیسے کہہ رہا ہو "تو مل مجھے اکیلے پھر پوچھتا ہوں" مگر حماد مسکرا کر اس کی بات کو نظر انداز کر کے مہرو سے بات کرنے لگا…………
وہ واپس آئی تو وہ دونوں ابھی تک باتیں کر رہے تھے ان کے آنے پر مہرو اور حماد آپس میں باتیں کرنے لگے مگر گل گلزار کو گھورتی رہی ،تبھی گلزار بولا۔
" ایسے کیا دیکھ رہی ہو میرے سر پر سینگ پیدا ہو گئےہیں کیا؟ " اس نے ساتھ ہی سر پر ہاتھ بھی مارا کہ چیک کر لے سچ میں کہیں سینگ آتو نہیں گئے؟ تبھی گل کی غصہ ور آواز آئی۔
"یہ بہن جی آج کل آپ کے تیور کچھ کچھ بدلے نظر آرہے ہیں خیر ہے؟ "
اتنے صاف انکشاف پہ گلزار گڑبڑایا ۔
"انکشاف بھی کس نے کیا گل نے واہ گلزار تمہارے کیا کہنے تمہیں تو اظہار کی زحمت ہی نہیں پڑنے والی، تیری حرکتیں سب ظاہر کرتی ہیں۔" ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ گل کی دوبارہ آواز آئی۔
"بولو ،چپ کیوں ہو ؟"
تو گلزار کو کو ناچار بولناہی پڑا ۔
"نہیں تو میں نے تو صرف آج مذاق کیا ہے اور اس میں حماد بھی شامل تھا مجھے تو شاعری آتی بھی نہیں اور یہ سب حماد کا ہی پلان تھا ،کیوں حماد؟" اس نے حماد سے تصدیق چاہی وہ اس کے سارے جھوٹ کو سن کر ہونقوں کی شکل بنائے بیٹھا تھا نہ انکار کر سکتا اور نہ اقرار اور پھر اس نے دوستی کو ترجیح دی گل جو ابھی تک اس کے جواب کی منتظر تھی وہ اس سے بولا۔
"گل تم نے ہر موڑ پر ہمیں کتنا تنگ کیا ہے، اس لیے ہم نے تمہیں تنگ کر لیا تو ایسے برا تو نہ مانو۔ "
تو گل بھی صاف گوئی سے بولی ۔
"اس بہن جی کا سارا ملبہ اپنے سر مت لو، انہیں تو میں دیکھ لو ں گی اور میں نے کبھی تمہیں تنگ نہیں کیا، میری دشمنی صرف گلزار تک رہی ہے ،اس لیے اس بہن جی کو میں بعد میں پوچھوں گی کہ اس نے مجھے اشعار لکھے کس لیے؟" اور پھر وہ غصے سےمہرو کو بلاتے ہوئے چلی گئی اور وہ دونوں پیچھے سے اکیلے بیٹھے رہے تو حماد بولا۔
"اچھا دوست ہے تو ،ایک لڑکی کے سامنے بےعزت کروانے سے بھی باز نہیں آیا " تو گل بولا۔
" مجھے یہ سمجھ نہیں آئی کہ وہ غصہ کیوں کر کے گئی ہے؟"
"واہ گل تجھے پتا ہے وہ آدم خور ٹائپ لڑکی ہے، اس دن مووی نہیں دیکھی تھی تو نے ،اسے امپرس کرنے کے لیے تو لڑکیوں والے طریقے پر نہ چل، کیونکہ وہ لڑکی کے روپ میں چڑیل ہے سچ میں۔"
گل نے اسے گھورا ۔
"چل پرے ہو میرے سامنے اس کی برائی مت کیا کر۔ "
حماد مصنوعی دکھ سے بولا۔
"یاد کر وہ لمحہ جب ہم ساتھ ہوا کرتے تھے تو اپنی دوستی بھول رہا ہے۔"
تو گلزار فوراً بولا ۔
"نہیں پگلے میں تو مذاق کر رہا ہو ں میں تمہاری دوستی کیسے بھول سکتا ہو ں،چل اب موڈ ٹھیک کر اور یہ پانی پی۔" اس نے حماد کو ایسے پچکارا جیسے وہ چھوٹا بچہ ہو اور اے کہا جائے او میرا پیارا بچہ چپ کر جا اب .....اور پھر وہ دونوں گل اور مہرو کی چیزوں سے جو کہ وہ کنٹین سے لائی تھی انصاف کرنے لگے…………………………………
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ گھر پہنچی تو وہ پریشان تھی وہ آج کی باتوں کو مذاق میں اڑا دیتی مگر وہ کچھ دنوں سے گلزار میں تبدیلی محسوس کر رہی تھی، وہ اس سے زیادہ بات کرنے کی کوشش کرتا اور وہ بات بے بات بہت ہنسنے لگتا جیسے اسے کوئی ان چاہی خوشی ملی ہو، اور وہ کوئی بچی نہیں تھی جو اس کی نظروں کے مفہوم کو نہ سمجھتی اور ویسے بھی لڑکیوں سے بہتر نظروں کی باتیں کون سمجھ سکتا ہے کیونکہ انہیں آنکھوں کا علم الہامی طور پر ملتا ہے ،اس لیے آج اسے ڈھکے چھپے انداز میں سمجھا بھی دیا کہ وہ اس کی حرکتوں کو جان چکی ہے مگر وہ پریشان نہیں تھی کیونکہ اسے یقین تھا کہ گلزار اتنا عقل مند تو ہے کہ دوبارہ اسے کوئی موقع نہیں دے گا، ورنہ وہ بھی گل ہے دیکھ لے گی اسے، ابھی وہ یہ سب سوچ رہی تھی کہ گلاب کی آواز آئی۔
"بہار" اس نے چونک کر دیکھا سوچوں کا سلسلہ ٹوٹا اور حیرانی نے آن گھیرا کیونکہ گلاب اسے بہار تب بلاتی تھی جب وہ پریشان ہوتی یا اسے کوئی ضروری کام ہوتا مگر اس وقت وہ نروس تھی۔
"کیا ہوا ہے ایسی شکل کیوں بنا رکھی ہے ؟" گل نے جواب دیا تو گلاب بولی،
"تمہیں امی کچن میں بلا رہی ہیں۔"
گل حیران ہوئی ۔
"تمہارے ہوتے ہوئے مجھے کیوں بلایا ہے ؟"
"جاؤ تم زیادہ سوال مت کیا کرو۔" گلاب اکتائی ہوئی بولی اور وہ اٹھ کر چلی گئی وہ کچن میں پہنچی تو چکرا کر رہی گئی اور بولی۔
"یہ سب بکھیڑا کس لیے؟ "
زرمینہ اس کی آواز پر پلٹی اور بولی۔
" مہمان آرہے ہیں اس لیے، گلاب کو دیکھو اسے ذرا تیار ہونے میں مدد کر دو۔ "
تو گل حیران ہو کے بولی ۔
" مہمان آرہے ہیں تو گلابو کیوں تیار ہو بھلا ؟اگر وہ تیار ہو رہی ہے تو مجھے بھی ہونا چایئے ،ویسے کوئی خاص مہمان آرہے ہیں کیا؟ "
زرمینہ نے اسے افسوس سے دیکھا اور اس کی عقل پر ماتم کیا اور بولی۔
" گلاب کو دیکھنے آرہے ہیں رشتے والے۔"
تبھی گل نے ایک زور دار چیخ ماری اور بولی۔
"واٹ؟" اس کی چیخ سے زرمینہ کے ہاتھ سے چمچ چھوٹکر فرش پر گرا اور انہوں نے تاسف سے اپنی پاگل بیٹی کو دیکھا تو فوراً گل ماں کا چہرا دیکھتے ہی فوراً بولی۔
"امی خوشی کی چیخ تھی خوشی کی۔ " اور وہ فوراً گلاب کے پاس گئی اور وہ ابھی تک اسی پوزیشن میں بیٹھی تھی تو اس نے اسے جھنجھوڑ ڈالا اور بولی ۔
"گلابو تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں، کون ہے، کہاں سے ہے اور یہ کیسے ہوا گلابو؟" وہ جیسے سارے سوال ابھی پوچھنا چاہ رہی ہو اور گلاب وہ ہونقوں کی طرح اسے دیکھنے لگی کہ یہ کیا کہہ رہی ہے مگر وہ تو جیسے جواب کی منتظر کھڑی تھی تو گلاب آرام سے بولی ۔
"وہ تمہیں انکل ارسلان تو یاد ہو ں گے نا، ان کے بیٹے کا پرپوزل آیا تھا ،تو آج وہ لوگ دیکھنے آرہے ہیں مجھے ۔"
"ہیں وہ زمبئی تو نہیں نا ؟"
اور اس کی بات پہ گلاب نے کشن اٹھا کے اسے دے مارا اور بولی۔
" نہیں زبیر بھائی نہیں بلکہ ان کا چھوٹا بھائی عمیر۔"
تو گل نے اطمینان کی سانس لی اور وہ بولی ۔
" ہاں وہ کباڑیہ بھی اتنا برا نہیں ہے۔ "
اس کی بات پر گلاب ہنس پڑی کیونکہ اس کی یہ پاگل بہن کسی کو اس کے نام سے بلا لے مشکل کیا بلکہ ناممکن بات تھی ………………
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ لوگ شام کو آگئے تو گھر میں معمول سے زیادہ چہل پہل ہو گئی تھی اور عمیر بھی ان کے ساتھ تھا ،تبھی گلاب لوازمات سے بھری ٹرالی لے کے آئی اور اس کے آتے ہی گل نے اسے اپنے اور اس کی فیوچر ساس کے درمیان جگہ دے دی، کیونکہ وہ پہلے ہی سے مسز ارسلان کو اپنی چرب زبانی کے نرغے میں پھنسائے بیٹھی تھی۔ گلاب کچھ دیر وہاں بیٹھنے کے بعد اندر چلی گئی اور باقی بڑے بھی آہستہ آہستہ اٹھ گئے تو پیچھے ارحم ،گل اور عمیر اکیلے رہ گئے، عمیر چائے کے گھونٹ ایسے بھر رہا تھا ،جیسے مروت نبھا رہا ہو، تبھی گل کی سنجیدہ آواز آئی ۔
"کیا کرتے ہیں آپ؟ " عمیر حیران ہوا اور گڑبڑا کے اسے دیکھا کیونکہ وہ فیملی فرینڈ تھے ،یہ الگ بات تھی کہ بزنس الگ کرنے کے بعد کچھ سالوں سے ان کی ملاقاتیں صرف باہر تک ہو گئی تھیں مگر اسے یقین تھا کہ وہ ان کو بھولے نہیں ہو گئے مگر وہ صرف اتنا بولا۔
"بابا کے ساتھ بزنس سنبھالتا ہو ں"
تو گل بھرپور سنجیدگی سے بولی ۔
"شادی کے بعد کہاں رہیں گے مطلب اپنے پیرٹس کے ساتھ یا پھر……؟"اس نے بات ادھوری چھوڑدی تبھی ارحم کے ہاتھ سے چائے کا پیالا گرتے گرتے بچا اور وہ سوچ کر رہ گیا۔
" یہ گل ایسی باتیں کیوں کر رہی ہے؟"
تبھی گل نے اسے حیران ہو کے دیکھا پر وہ بولا۔
" گل تمہیں امی کی کچن میں سے آواز نہیں آرہی؟ "
مگر گل ڈھٹائی سے بولی۔
" نہیں مجھے تو بالکل بھی نہیں آرہی۔ "
تبھی عمیر حیران ہو کر بولا ۔
" گل بہار ہیں نا آپ؟ "
مگر گل نے اسے اچنبھے سے اسے دیکھا جیسے پوچھ رہی ہو کیوں کوئی اور دکھتی ہوں کیا میں تو عمیر فوراً بولا ۔
"وہی جنہوں نے نام بگاڑنے میں 16 سال کی عمر میں ہی PHD کر لی تھی؟ "
گل نے اسے غصے سے دیکھا اور بولی۔
" ہاں ہاں وہی ہوں اور تم ابھی تک کباڑیہ ہو کیا؟"
مگر عمیر ہنسی دباتے ہوئے بولا۔
"نہیں اب پیشہ تبدیل کر لیا ہے میں نے ۔"
اور تبھی ارحم اٹھا اور بولا ۔
تم گل بہار نہیں گلِ بےکار ہو اور میں یہ سب باتیں امی کو بتاؤں گا کہ تم عمیر بھائی سے یہ کیسی کیسی باتیں کر رہی ہو،"اور پھر وہ اندر کی طرف بھاگا کیونکہ گل اس کے پیچھے آ رہی تھی کیونکہ امی کو بتانے کا مطلب تھا کہ سر پر آفت آگئی بس اور پیچھے عمیر کھکھلا کر ہنس پڑا اور بولا۔
" یہ کبھی نہیں بدلے گی پاگل لڑکی۔"
اسے آج بھی یاد تھا جب وہ ماسٹر کر رہا تھا تو اسے پرانی چیزیں جمع کرنے کا خبط ہو گیا تھا اور اس خبط نے اسے اچھاخاصا مشہور کر دیا تھا اس وقت ہر کوئی اسے اپنی پرانی چیزیں دے دیتا تھا اس وقت گل 16 سال کی تھی اور وہ میٹرک کر رہی تھی اسے جب یہ سب پتا چلا تو وہ بس یہی کہتی پھرتی ۔
"میرے ابو کے دوست کا بیٹا کباڑیہ ہے" اور وہ اس کے بڑے بھائی کو اس کے نام کے مطابق زمبئی بلاتی تھی کیونکہ اس کا نام زبیر تھا مگر اب وہ 4 سال پہلے والی نہیں رہی تھی، قد بڑھ گیا تھا اور چہرہ بھی پہلے سے زیادہ جاذب نظر ہو گیا تھا ایسا کہ وہ پہلے سے زیادہ پیاری ہو گئی تھی مگر اس کی حرکتیں ویسے کی ویسے تھیں، ہر وقت کی اوٹ پاٹنگ اور آج اسے یقین ہو گیا کہ کچھ لوگ وقت کے ساتھ نہیں بدلتے وہ کباڑیہ سے بزنس مین بن گیا تھا مگر گل آج بھی گل ہی تھی ہنستی مسکراتی۔ ………………………
گلاب کا رشتہ طے ہو گیا تھا اور اس کی دو ہفتے بعد منگنی تھی اور اس کے ٹھیک دو دن بعد اس کے پیپرز شروع تھے اور اب اس کا سارا وقت لائبریری میں گزرتا اور وہ سوچتی بہت غلط کیا جو پہلے سے نہیں پڑھا اگلی بار سے یہ غلطی نہیں کروں گی ہر وہ وعدے خود سے کر چکی تھی جو پیپرز آتے ہی ہر سٹوڈنٹ کرتا ہے مگر بعد میں ایک بھی یاد نہیں رہتا اور الگ سے گلاب کی منگنی وہ جھنجھلا جاتی کہ یہ سب چیزیں ایک ساتھ کیوں ہو رہی ہے اور اسی وجہ سے وہ ان تینوں سے کٹ کر رہ گئی تھی ابھی بھی وہ لائبریری میں کتاب میں سر دیے بیٹھی تھی تو مہرو آئی اور آتے ہی خفگی سے پوچھا۔
" کہاں رہتی ہو آج کل؟ کلاس ختم ہوتے ہی ایسی غائب ہوتی ہو کہ پھر ملنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ "
گل نے خاموشی سے اس کا تبصرہ سنا اور بولی ۔
" یہ EXAM نامی بلا گزر جائے پھر مل جاؤ ں گی تمہیں۔ " اور پھر سے اس نے کتاب میں سر دے دیا تو مہرو نے اس سے کتاب چھین کر سائڈ پر رکھی اور بولی۔
" گل تم بہت بور انسان ہو ،چلو میرے ساتھ ورنہ میں لائبریری کا سکون برباد کرنے میں اک منٹ بھی نہیں لگاؤ ں گی اورپھر لائبریرین ہمیں خود ہی نکال دے گی۔"
گل نے اسے دیکھا بھی نہیں اور کتاب اٹھا کر کتاب پر جھکی رہی پھر اس نے اپنے پاس ایک زور دار آواز سنی اس نے چونک کر دیکھا باقی سٹوڈنٹ بھی انہیں دیکھ رہے تھے کیونکہ مہرو نے میز پر رکھے میگزین کو اٹھا کر زور سے واپس پٹخا تھا ۔ خاموشی ٹوٹی تھی گل اٹھ کھڑی ہوئی اگر نہ اٹھتی تو لائبریرین نکال دیتی اور مہرو بھی اس کے ساتھ مسکراتے ہوئے چل دی، گل باہر آئی تو اس نے خفگی سے کہا ۔
" یہ کیا بدتمیزی تھی؟ "
تو مہرو بھی آرام سے بولی ۔
" تم سے سیکھا ہے سب۔ "
گل نے پہلے حیرت سے اسے دیکھا اور گہرا سانس لے کے بولی ۔
" اچھا سیکھ رہی ہے، جلد ہی یونی سے نکلواؤ گی مجھے اور خود بھی نکلو گی ۔"
وہ کیفے آگئیں، انہیں آئے ابھی تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ حماد اور گلزار بھی آگئے اسے دیکھتے ہی گلزار بولا۔
" چڑیل تم تو عید کا چاند ہو گئی ہو ۔"
گل نے اسے دیکھا روشن انکھیں مسکراتا چہرہ جہاں سکون ہی سکون تھا اور پھر وہ اس کی سامنے والی چئیر پر آکے براجمان ہوا تو گل کو پچھلی بات یاد آئی اس نے فوراً منہ پھیر لیا مگر گلزار کو جیسے یہ بات دل پر چبھی تو کیا وہ ابھی تک اسی بات پر اس سے ناراض تھی ..
گلزار نے حماد کو اشارہ کیا اور وہ مہرو کو لے کے چلا گیا گل بھی ساتھ اٹھنے لگی مگر گلزار نے اسے روک لیا اور بولا ۔
"گل وہ بس مذاق تھا تم ابھی تک اس کو سیریس لیے ہوئی ہو "
مگر گل فوراً بولی" نہیں میں سیریس نہیں ہو ں وہ تو بس زراسی مصروف ہوں " گل نے بس یہی سوچا گلزار سمجھ چکا ہے اور وہ دوبارہ ایسی حرکت نہیں کرے گا کیونکہ سمجھدار کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے اور گلزار ایک سمجھدار انسان تھا اور اس لیے وہ اب اس سے آرام سے بات کر رہی تھی اس کی بات کے جواب میں گلزار بولا۔ " تو یہ کیوں منہ بنا ہوا ہے؟ " گل نے فوراً اسے دیکھا اور تیز لہجے میں بولی ۔
" بہن جی ہر کوئی آپ کی طرح فارغ نہیں ہوتا جو ہر وقت بس مسکراتا رہے ۔" اس کے بہن جی بولنے پر اسے تھوڑی تسلی ہوئی چلو معاملہ سیٹ ہو رہا تھا مگر جب بولا تو شرارت کا عنصر نمایاں تھا۔
" اچھا تو کیا مصروفیات ہیں آپ کی ؟"
گل نے ازحد معصومیت طاری کرتے ہوئے کہا ۔
" میری بہن کی منگنی ہے پیپرز سے 2 دن پہلے۔"
تبھی گل بولا۔
"اس لیے پریشان ہو تم ایسے ٹینشن نہ لو سب سیٹ رہے گا انشااللہ" اور پھر وہ دونوں وہاں سے اٹھ گئے……………………
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گلاب گل کے کمرے میں آئی وہ سر دونوں ہاتھوں میں تھامے بیٹھی تھی جبھی گلاب بولی۔
" گل بچہ ہے غلطی ہو گئی اس سے معاف کر دو اسے۔"
تو گل تیز لہجے میں بولی۔
" نہیں گلابو وہ بچہ نہیں ہے انٹر کے پیپرز ہونے والے ہیں اس کے اور عقل ابھی تک گھٹنوں میں ہے، ایسے ھی کسی کو میرا نمبر کیوں دیا اس نے۔"وہ غصے سے پھنکاری تو گلاب بھی فوراً بولی ۔
"ریلکس گل وہ منگیتر ہے تمہارا ۔"اور یہ بات اس کے دل کو لگی ۔
"ہاں منگیتر ہی تو ہے میرا،ساری زندگی گزارنی ہے میں نے اس کے ساتھ ،اور اب 2 منٹ بات نہیں کر سکتی، ساری زندگی کیسے رہ لو ں گی اور اسی سوچ میں وہ گلاب کی طرف دیکھے بغیر ہی بولی۔
"ہاں منگیتر ہی تو ہے"
اور پھر گلاب نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر چپت لگائی۔
"پاگل لڑکی چھوٹی چھوٹی بات پر غصہ ہو جاتی ہو ۔"اور وہ وہاں سے چلی گئی اور گل وہ تو جیسے جہاں کی تہاں رہ گئی وہ امتحان کی تیاری میں تھے مگر یہ تو سوچا ہی نہ تھا کہ امتحان کیسا ہو گا صبر آزمایا جا رہا تھا اور گل تو جیسے بےجان ہوتی گڑیا تھی جو ایک ٹھوکر کھا کر سنبھلتی اور اٹھنے ہی لگتی کہ دوسری چوٹ اسے آن نصیب ہوتی اور وہ پھر سے ڈھے جاتی ابھی وہ یہ سب سوچ ہی رہی تھی موبائل بج اٹھا اس نے بیٹھے ہوئے نظریں گھمائیں،وہی نمبر تھا مگر اس نے کال اٹنڈ کرنے کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا وہ خود ہی بجتے بجتے بند ہو گیا اب کی بار مروت نہیں نبھائی کیونکہ اگلا امتحان پچھلے امتحان سے زیادہ کھٹن لگ رہا تھا۔
………………………
اگلے دن یونی کے پلاٹ میں وہ اکیلی بیٹھی تھی مہرو آج نہیں آئی تھی تھوڑی دور گلزار اورحماد کسی بات پر ہنس رہے تھے، اس نے ہنسی کی آواز پر چہراموڑا ،وہ گلزار تھا اپنے پرانے انداز میں ہنستا ،منہ پر ہاتھ رکھے اور گردن پیچھے ڈالے وہ کس قدر مکمل انسان لگتا تھا اور گل وہ کیا تھی وہ تو آج بھی ادھوری تھی ،آج بھی وہ اسی پارٹی میں کھڑی تھی جہاں گلزار کو بےعزت کیا تھا، آہ وقت بھی کتنا ظالم تھا جو اسے جمود کا شکار کر گیا تھا نہ آگے بڑھ سکتی تھی نہ پیچھے ،اس نے زور سے آنکھیں میچیں، سر کو تھوڑا اوپر آسمان کی طرف کیا ،جیسے آنسو کی سمت تبدیل کر رہی ہو اور اسی وقت اس نے اپنے سارے آنسو سارے دکھ ساری تکالیف اندر اتاری اور دل سے فقط ایک ہی آواز نکلی ۔"صبر صبر صبر" اس نے جھٹ سے سر نیچے کیا انکھیں کھولی اور اسی وقت اس کی پتھرائی آنکھیں ان پریشان آنکھوں سے ٹکرائیں، گلزار کی آنکھوں سے جو نچلا ہونٹ دبائے پریشان سا لگتا تھا اور پھر وہ پلاٹ سے اپنا سامان اٹھانے لگا، گل اسے دیکھتی رہ گئی تو یہ مجھ سے بھاگ رہا ہے چہرے پر تکلیف زدہ ہنسی آئی اور ساتھ میں نرم نرم گالوں کوکوئی انگارہ چیر کر گزرا اس نے جھٹ سے ہاتھوں کی پشت سے گال صاف کیا اور تیزی سے اٹھی اسے گلزار سے پہلے نکلنا تھا وہ اس سے پیچھے رہ گئی تو وہ پتھر کی ہو جائے گی گلزار اس سے دور چلا گیا تھا مگر اب وہ اس جمے ہوئے لمحے سے نکلے گی ہاں اسے سرخرو ہونا ہے اسے زمانے کو دکھانا ہے بیٹیاں حالات کے آگے بے بس ہوتی ہیں تو اپنی مرضی سے سر نگوں کرتی ہیں وہ سب کی خوشیوں کی خاطر اپنا اپ بھی قربان کر دیتی ہیں
وہ اگلی کلاس میں پہنچی تو وہ پڑھ نہیں پائی، آنکھیں بار بار بھیگ رہی تھیں، اسی لیے سرجھکائے بیٹھی تھی تبھی ساتھ بیٹھی لڑکی نے اس کے ہاتھ ایک کاغذ پکڑایا اور بولی۔
"یہ گلزار نے دیا ہے۔"
اس نے حیرانی سے کاغذ دیکھا پھر گلزار پر نظریں گھومی مگر وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھا، اس نے لرزتے ہاتھوں سے کاغذ کھولا اسے یہ سب کرتے بہت کچھ یاد آیا وہ پہلی کاغذی گفتگو، حماد کو ڈانٹ پڑنا اور گل کا غصہ ہونا، اب کچھ بھی تو ویسا نہیں تھا اور نہ ویسا ہو سکتا تھا ،وقت بدل گیا تھا، حالات من چاہے نہ رہے تھے، زندگی میں تو جیسے خلفشار ہی آگیا تھا۔
کاغذ کھلا تو تحریر سامنے تھی ۔
"گل تم مجھے صبر کے قرب میں ڈال کر خود بے یقینی کی راہ پر کیوں چل نکلی ہو؟" اس نے سر اٹھا کر گلزار کو دیکھا مگر وہ اب بھی اپنےکام میں مصروف تھا اس کا دل چاہا لکھ دے۔
"نہیں ہوتا یقین کہ سب کچھ بدل گیا ہے کچھ بھی اب ویسا نہیں رہا ۔" مگر پھر سوچا۔" جب صبر کی انگلی تھام ہی لی ہے تو واپس کیسے مڑے اگر واپس مڑی تو پتھر بن جائے گی نہ آگے بڑھ پائے گی نہ واپسی کی راہ ملے گی۔ " اس لیے اس نے کاغذ ہاتھ میں مڑوڑ لیا مگر جواب نہ دیا جبھی دوسرا کاغذ آیا جس پر لکھا تھ۔
ا" جو صبر کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں ان کا پہلا شیوہ وسیع قلبی ہوتا ہے تاکہ ہم جب چائے اس میں اپنے دکھوں کا قبرستان بنا لیں مگر گل کیا آنسو بہانے ،آنسو تو صبر کی قدر و قیمت ہی ختم کر دیتے ہیں، صبر کا دوسرا نام اللہ کی رضا ہے تو اسے رضا میں راضی ہونا ہے ہمیں ،تم نے خود تو کہا تھا کہ اگرصبر کر لیا تو سرخرو ہو جائے گا مگر تمہاری آنکھیں شکوہ کنا ں کیوں لگتی ہیں، تم صبر کے تقاضوں سے دور کیوں بھاگ رہی ہو، مجھے اس راہ پر ڈال کر تم خود بار بار پیچھے کیوں دیکھ رہی ہو ،خدارا گل صبر کی انگلی مت چھوڑنا ،ورنہ ہم دونوں کی قربانی رائیگاں جائے گی ۔"اس نے نظر اٹھا کے گلزار کو دیکھا وہ اب کچھ اور لکھ رہا تھا مطلب تیسرا کاغذ وہ اسے بھیجنے ہی والا تھا مگر وہ اسے پڑھنا نہیں چاہتی تھی اس لیے وہ فوراً اٹھی اور کلاس سے نکل گئی وہ اس کی باتوں میں آکر اپنے دل کی راہ کو کیسے مرکز عطا کرے وہ تو جس حال میں جی رہی ہے وہی غنیمت ہے، اس سے یہ سب نہیں ہوتا وہ عالی حوصلہ نہیں ہے، وہ تو سب قدرت پر چھوڑ چکی ہے۔ "اس نے کاغذ ڈسٹ بن میں ڈالے اور گھر کی راہ پر چل پڑی۔
رات کو جب وہ سونے کو لیٹی تو حسب معمول عفان کا میسج آیا ہوا تھا ،وہ روزانہ اسے صبح اور رات کا سلام کرتا کبھی کبھی شاعری بھی بھیج دیتا مگر پھر اس نے کال نہیں کی تھی، یہی اچھی بات تھی مگر گل نے کبھی اسے میسج کا جواب نہیں دیا تھا مگر پھر بھی عفان کا معمول نہیں بدلا۔
…………………………
گلاب مایوں بیٹھ چکی تھی اور آج گل کی منگنی بھی ہو گئی تھی ۔سب کچھ نہایت ہی سادگی سے ہوا تھا، گل کو عفان کی امی نے انگوٹھی پہنا دی اور عفان کو سعدی صاحب نے اور اس سادگی کی وجہ عفان تھا جو چاہتا تھا کہ سب کچھ سادگی سے طے ہو اور اس کے اس قدم نے گل کے لیے آسانی پیدا کر دی تھی کیونکہ وہ فلحال افعان کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی اور اب وہ اپنے بیڈ پر اور کمرے میں بکھرے سسرال کی طرف سے آئے سامان کو تکے جا رہی تھی، اسے یاد آیا جب گلاب کی منگنی کے بعد رسم کے طور پر سامان آیا تھا تو وہ اس سے پوچھنے لگی تھی۔
"گلابو تمہیں یہ سب پسند ہے؟ "
تو گلاب بولی ۔
"ہاں پسند ہے کیوں تم کیوں پوچھ رہی ہو؟ "
تو گل فوراً بولی ۔
"تم انتہا کی شریف انسان ہو دیکھناجب میری منگنی ہو گی ہر چیز میں سو سو نقص نکالو ں گی میں۔ "مگر اب اسے تو اس سب میں کوئی دلچسپی ہی محسوس نہیں ہو رہی تھی نقص کیا خاک نکالتی اسی وقت عفان کا میسج آیا۔
"کیسا لگا سب؟" اس کا دل چاہا جواب نہ دی مگر جب اس نے سوچا قربانی دی ہے تو نبھانی تو پڑے گی تو جواب لکھنے لگی۔
"اچھا ہے"
تو فوراً جواب آیا ۔
"مادام کو پسند آیا ہمہیں خراج وصول ہوا ۔"اس نے میسج پڑھا مگر کوئی جواب نہیں دیا تو تھوڑی دیر بعد میسج گڈ نائٹ کا آیا صد شکر کہ وہ باتوں کا غلط رخ نہیں لیتا تھا۔ ورنہ اب تک یہ رشتہ چلتا یہ تو ناممکن بات تھی ۔وہ سامان پر ایک نظر ڈال کر اپنے ہاتھ کی انگوٹھی دیکھنے لگی سادہ سی مگر پرکشش انگوٹھی جس میں موجود سرخ رنگ کا نگینہ اسے اور جازب نظر بناتا تھا اس نے اس سے نظریں ہٹا لی اور آنکھیں موند لی کہ۔
******
ابھی تو موسم کی تپش باقی تھی
ابھی تو آہ و زاری ابھی باقی تھی
******
………………………………
گلاب کی شادی تھی آج اور وہ عمیر کے سر پر سوار تھی کہ کسی طریقے سے اس کا جوتا اتارے مگر وہ تو جیسے جوتا اتارنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا کیونکہ وہ اس کے ارادوں سے واقف تھا اور ساتھ ساتھ گھونگھٹ میں منہ چھپائے گلاب سے بھی بات کر رہی تھی ،تبھی عمیر کے ایک دوست آئے اور وہ اٹھنے ہی لگا تھا کہ گلاب چیخی ۔
"عمیر بھائی بیٹھ جایئے ۔" اس نے اچھنبے سے گل کو دیکھا اور پوچھا ۔
"کیوں؟ " تو گل فوراً رازدرانہ لہجے میں بولی ۔
" گلابو کا لہنگا آپ کے کُھسے میں پھنسا ہوا ہے ۔"اس نے فوراً کھسا اتارا کہ لہنگا نکال سکے مگر گل نے جھٹ سے کھسا اٹھایا عمیر نے اسے حیران ہو کے دیکھا تو وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
"مجھے پتا تھا کباڑیے انتہائی ان رومنٹک ہوتے ہیں، اس لیے تو آپ کو پتہ نہیں ہے کہ کبھی لہنگا کھسے میں نہیں بلکہ دوپٹہ گھڑی میں پھنستا ہے۔ "
عمیر نے حیران ہو کے اسے دیکھا مگر وہ اطمینان سے بولی۔
"دس ہزار نکالیں ورنہ ایک جوتے کے ساتھ دلہن لے جائیں۔ " تو عمیر بھی فوراً بولا۔
" ٹھیک ہے چلو گلاب دس ہزار کون دے اس 50 روپے کے جوتے کے۔"تو گلاب نے ایک نظر جوتے کو دیکھا اور پھر عمیر کو اور بولی۔
"حد ہے کباڑیے کے کباڑیے رہیں گے آپ، یہ جوتا بھی جمع شدہ جوتوں سے لے آئے ہو گے ،چلیں سات ہزار دے دیں۔"تو عمیر فوراً بولا ۔
"نہیں کہو تو دس روپے دے سکتا ہوں "تو مسز ارسلان فوراً آگے بڑھیں اور بیٹے سے بولیں۔
"چلو عمیر سالی ہے تمہاری، سات نہیں تو پانچ دے دو ۔"
پانچ کا نام سن کر گل کا منہ بنا عمیر نے ناچار پانچ ہزار اسے تھمائے اور جوتا لے کے اٹھنے لگا ہی تھا جبھی ارحم کی آواز آئی ۔
"امی عفان بھائی آئے ہیں ۔"گل کے پیسے گنتے ہاتھ تھمے عمیر فوراً بولا۔
"کہاں ہے وہ ؟اس سے تو میں پوچھتا ہو ں اتنی جلدی آنے کی کیا ضرورت تھی بھلا اسے رخصتی کے بعد آجاتا ۔"وہ سب سٹیج سے نیچے اتر گئے جبھی وہ گلاب کے ساتھ آن بیٹھی اور اس سے ہلکی آواز میں باتیں کرنے لگی مگر دل بار بار ڈوب رہا تھا امتحان کا اگلا مرحلہ آن پہنچا تھا، ملاقات کا مرحلہ، تبھی اس کا فون بجا وہ اٹھ کر سامنے ایک جگہ جہاں کوئی نہیں تھا آگئی اور کال اٹنڈ کی سلام کے بعد عفان بولا "اچھی لگ رہی ہو لڑکی۔ "مگر وہ چپ رہی وہ پھر بولا ۔"مجھ سے ملنے ہی آجاتی میں نے تو آپ کو دیکھ لیا ہے اب آپ بھی دیکھ لیجیئے کہیں پھر بعد میں خود کو کوستی نہ رہ جائیں۔ "مگر وہ پھر بھی چپ رہی تو ہ دوبارہ بولا ۔"اگر میں آپ کو دیکھ نہ رہا ہوتا تو آپ کی خاموشی کے سبب کال کاٹ ہی دیتا۔"گل نے جھٹ سے نظریں گھمائیں ادھر ادھر دیکھا بہت سے لوگ تھے کیسے پہنچانتی اور پھر مسکراتے لہجے کی آواز ابھری۔
"نظریں مت گھمائیے ایک تو شکل نہیں دیکھی آپ نے میری اور دوسرا میں آپ سےاوجھل ہوں ۔ "وہ فوراً اس کی بات سن کر جھینپی۔
"ہا شکل تو اس کی دیکھی نہیں تھی۔ "
تو عفان بولا "ویسے میں اب جا رہا ہوں امی ابو تو آئے نہیں اس لیے مجھے آنا پڑا اب میں بھی چلتا ہو ں اللہ حافظ ۔"اور اس نے کال بند کر دی وہ دوبارہ گلاب کے پاس آکر بیٹھ گئی کیونکہ اس کو بس رخصت کرنے ہی والے تھے۔
…………………………
گلاب کے جانے کے بعد گھر سونا سونا ہو گیا تھا مگر اس کے پیپرز تھے وہ اسی میں مگن ہو گئی تھی ۔آج اس کا آخری پیپر تھا اور وہ چاروں ساتھ بیٹھے تھے، مہرو اور حماد کی پیپرز کے بعد شادی تھی تو مہرو نے بھی گل سے پوچھا۔
" منگنی تو ہو گئی ہے تمہاری آگے کا کیا ارادہ ہے؟ "
تو وہ بولی۔
" پتا نہیں شاید پیپرز کے بعد ابو کچھ طے کریں گے۔" اس نے جھکی جھکی نظروں سے کہا کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ گلزار کی طرف دیکھے اور پھر سے سب بکھر جائے اس کی زات کا ہر حصہ جو اس نے تنکا تنکا کر کے جوڑا تھا تو مہرو فوراً بولی ۔ "مطلب پیپرز کے بعد تم بھی پیا دیس سدھار رہی ہو ؟"
تو گل تحمل سے بولی۔
"ہاں شاید "اور پھر سے خاموشی چھا گئی ان کے بیچ جسے حماد نے توڑا ۔
"چلو گلزار ہم چلتے ہیں۔ "اور وہ دونوں اٹھ گئے اور ان کے پیچھے مہرو بھی اٹھ گئی اور پیچھے وہ اکیلی رہ گئی، ہاں وہ اکیلی ہی تو تھی، تنہا ا،پنے آپ سے لڑتے خود کو ہمت دلاتے، خود ہی زخموں پر نمک چھرکتے اور پھر خود ہی ان پر مرہم لگاتے ،وہ اکیلی ہی تھ،ی ہر درد ،ہر سسکی، اپنے خاموش لبوں میں دباتی..
……………………………………………
گل کی تاریخ طے ہوگئی تھی اور چند دن بعد اس کا نکاح تھا اور اب وہ اپنے کمرے میں بیٹھی گم سم کسی سوچ میں بیٹھی تھی کہ اس کا موبائل بجا اس نے موبائل اٹھایا عفان کی کال تھی ہمیشہ کی طرح پہلے اُسی نے سلام کیا گل چپ رہی عفان نے بات شروع کی مگر وہ معمول کے مطابق لب ولہجہ نہ تھا ،اسی لہجے نے گل کو تھوڑا محتاط کیا، دوسری طرف سے حماد بولا۔
"گل تم خوش ہو اس رشتے سے؟ "
گل نے حیرانی سے فون کو دیکھا وہ ایسی باتیں نہیں کرتا تھاپھر آج کیوں مگر پھر بولی۔
"آپ میرے والدین کا انتخاب ہیں اور میں ان کے ہر فیصلے پر خوش ہوں۔ "
تو عفان فوراً بولا ۔
"گل اگر تمہارے والدین مجھے آج ہی ریجیکٹ کر دیں تو ؟"
وہ کچھ دیر کشمکش میں رہی مگر جب بولی تو انداز مضبوط تھا۔
"میں جب تک اپنے والدین کے ساتھ ہوں میں انہیں کی ملکیت ہوں اور وہ جو فیصلہ کریں گے مجھے منظور ہو گا۔"
تو عفان فوراً بولا ۔
"اگر میں تم سے شادی نہ کرو ں تو؟"
گل نے بےیقینی سے فون کو دیکھا یہ کیا کہ رہا ہے وہ مگر عفان تھوڑی دیر بعد بولا۔
"گل تم شادی سے انکار کر دو۔ "
گل فوراً بولی ۔
"کیوں؟ میں کیوں کروں؟""
تو عفان نے جھنجھلائے ہوئے لہجے میں کہا۔
"کیونکہ تم مجھ سے شادی کرنا ہی نہیں چاہتی ۔"
گل ضبط سے بولی۔
"یہ بات آپ کہہ رہے ہیں میں نے نہیں کہی۔"
تو عفان غصے سے بولا ۔
"ہاں ٹھیک ہے میں کہہ رہا ہو مگر انکار تم کرو گی ۔"
تو گل فوراً بولی۔
"کیوں اعتراض آپ کو ہے آپ انکار کریں، میں کیوں سب کی نظروں میں بری بنوں۔"اور پھر اس نے کھٹاک سے فون بند کردیا شدتِ ضبط سے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا ،وہ تکیے میں سر رکھ کر رو دی تھوڑا دل کا غبار نکالنے کے بعد اٹھی تاکہ اپنی امی کو سب کچھ بتا سکے، ہا ں وہ سب بتا دے گی وہ کیوں ساری زندگی عذاب میں گزارے ان چاہی بیوی بن کر، اس کا بھی تو خوشیاں پر پورا حق ہے مگر وہاں پہنچی تو اس کی ہمت ٹوٹ گئی کیونکہ اس کی ماں کسی لڑکی کا ذکر اس کے باپ سے کر رہی تھی جس کی وجہ سے اس کے باپ نے خودکشی کر لی تھی ،وجہ یہ تھی کہ بیٹی ان کی مرضی سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی، اسے لگا شاید وہ بھی وہی کرنے جا رہی ہے، اس کا انکار اس کے گھر والوں پر اثر انداز ہو گا اور نکاح تو چند دن بعد ہے انکار کی وجہ کیا بتاؤ ں گی اگر عفان کا نام لیا تو وہ مکر جائے گا کیونکہ وہ تو مجھ سے انکار کروانا چاہتا تھا ،وہ اپنا نام بیچ میں کبھی نہیں لائے گا اگر عفان کو اعتراض ہو گا تو وہ خود ہی انکار کر دے گا ،اگر نہیں بھی کرے گا تو زندگی میں کچھ مشکلات اور بڑھ جائیں گی کوئی بات نہیں، زندگی اب کونسی آسان ہے، پھر بھی گزر ہی رہی ہے تب بھی گزر ہی جائے گی ۔
اور پھر اگلی صبح عفان کے گھر سے فون آگیا ۔انکار تو نہیں ہوا مگر ان کے فون کے سبب شادی کی تاریخ پہلے رکھ دی گئی تھی مگر وہ عفان احمد کو سمجھ نہیں پائی کہاں وہ انکار کر رہا تھا اور اب اس نے جلدی شادی کی رٹ لگا رکھی تھی، وہ یہی سوچتے سوچتے کب سو گئی اسے پتا ہی نہ چلا۔
……………………………
……………………………
Comments
Post a Comment