از"مونیثہ فاطمہ"
(Last Part)
وہ نکاح کے لیے تیار بیٹھی تھی، مولوی صاحب اس کے سامنے نکاح سے پہلے کی رسومات ادا کر رہے تھے اور وہ گم سم گھونگھٹ ڈالے اپنے آنسو پی رہی تھی مگر ضبط کا بندھن تو جیسے ٹوٹنے کو تیار تھا وہ سوچ رہی تھی ۔
"پتا نہیں کون سا غم ہے اپنائے جانے سے پہلے ٹھکرائے جانے کا یا پھر گلزار کی ہر یاد سے دستبردار ہونے کا ؟"
صبر رنگ کیوں نہیں لایا تھا وہ تو اس کے سارے تقاضے پورے کر رہی تھی مگر وہاں تو دور دور تک غم کی کالی چھایا ہی چھائی ہوئی تھی خوشی کی ایک کرن بھی نظروں کے حصار میں نہیں آتی تھی، تبھی اس نے اپنے کندھے پر دباؤمحسوس کیا اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو ارحم تھا جو اس سے کہہ رہا تھا ۔
"آپی مولوی صاحب کچھ پوچھ رہے ہیں۔ "
اس نے آنسو سے لبریز آنکھیں جھپکائیں اور مولوی صاحب کے پوچھنے پر فقط سر ہلا دیا مگر کان تو جیسے عجب رو پر چل نکلے تھے کچھ بھی سنائی نہ دیتا تھا سب کچھ گڈمڈ ہو رہا تھا زبان پر جیسے قفل لگ گئے تھے کیونکہ بولنے کی سکت تو اس میں باقی ہی نہ تھی اس کے کانوں میں خوشیوں بھرا مبارک باد ٹکرایا مگر ناجانے وہ کون تھا جو اتنا خوش تھا، اس کا باپ یا بھائی اور اسی پل کچھ بہت زور سے اس کے اندر ٹوٹا اور اس ٹوٹنے والی شے کی کرچیوں نے آنکھوں سے باہر نکلنے کی اجازت چاہی اور آنکھیں وہ تو جیسے پہلے سے سب جانتی تھیں فوراً انہیں راستہ دیا مگر وہ گھونگھٹ میں سر جھکائے ہر سسکی کو اپنے اندر ہی دباتے رہی۔
………………………
نکاح کے دو دن بعد رخصتی تھی اور آج وہ ایک گھر سے دوسرے گھر جا رہی تھی، اس کے چہرے کا غم دیکھ کر سبھی کو یہی خیال گزرا کہ ماں باپ سے بچھڑنے کا غم ہے مگر اسے تو جیسے کسی چیز کی پرواہ ہی نہیں تھی، کون آیا کون گیا، گلاب نے اس سے کیا کیا باتیں کیں، وہ اپنے کمرے میں سجی سنوری بیٹھی فقط یہی سوچ رہی تھی۔
"عفان نے اسے انکار کرنے کو کہا تھا نہ جانے وہ کیسا برتاؤ کرے۔"مگر آنکھیں اس کی بے تاثر تھیں ہر جنگ کے لیے تیار ہر لڑائی سے پہلے مدمقابل کے وار سہنے کی ہمت اکٹھی کرتی بے نور آنکھیں۔
……………………………………………
وہ کافی دیر سے سر جھکائے ایک ہی پوزیشن میں بیٹھی تھی اور اسی وجہ سے اس کی کمر تختہ ہو گئی تھی مگر گھونگھٹ چہرے پر ڈال رکھا تھا تبھی دروازہ کھلنے کی آواز آئی، اس کی جھکی نظریں اور زیادہ جھک گئیں مگر اس کی نظروں میں نووارد کے پاؤں ضرور آئے تھے اور وہ پاؤں پہلے بیڈ کی سائڈ پر موجود دراز تک گئے، پھر دراز کھلنے کی آواز آئی، تھوڑی دیر بعد دراز بند ہوا قدم کونے میں رکھی میز تک گئے اور تھوڑی دیر بعد وہی قدم کمرے سے ملحقہ دوسرے کمرے کی طرف بڑھے اور پھر کمرے کا دروازہ کھلا اور دوبارہ بند ہو گیا ،جب کافی دیر بعد بھی کمرے سے کوئی برامد نہ ہوا تو اس نے نظریں اٹھائیں اور لبوں پر ایک تلخ مسکراہٹ سجائے سوچا ۔ "ہو ان چاہی بیوی جو ٹہری۔"اور پھر اس نے سر جھٹک کر ادھر ادھر دیکھا سامنے ہی وہ کمرا تھا جس میں تھوڑی دیر پہلے وہ گیا تھا اور پھر اس نے دائیں طرف نظر دوڑائی وہاں سٹڈی ٹیبل تھی اور اس کے بالکل اوپر ایک فوٹو فریم اس نے فوراً نظریں اٹھا کر دیکھا مگر وہ تصویر تو ......... پہلے وہم لگا مگر پھر بے یقینی آنکھوں میں در آئی یہ کیسے ہوسکتا ہے اس نے تو کبھی سوچا ہی نہیں تھا وہ اس کی دلہن بنے گی اسے لگا یہ اس کا وہم ہے وہ فوراً بیڈ سے اٹھی اور ننگے پاؤں پھولوں سے آراستہ فرش پر چلتے ہوئے اس تصویر تک گئی مگر آنکھوں کے سامنے ہونے کے باوجود یقین کرنا مشکل لگا اور پھر اسے ہاتھ سے چھو کر یقین کرنا چاہا کہ کہیں یہ وہم تو نہیں جبھی پیچھے سے آواز آئی ۔
"گل بہار۔" وہ واپس پلٹی اور بےیقین نظروں سے سامنے بیٹھے شخص کو دیکھا وہ وہی تھا نہیں یہ وہ کیسے ہو سکتا ہے اس کا دماغ شدت غم سے کام کرنا بند کر رہا تھا اسے ہر شخص میں وہ ہی نظر کیوں آ رہا تھا مگر وہ حقیقت بھی تو ہو سکتا ہے ہاں وہ حقیقت ہی تو تھے آج کی حقیقت اس کے صبر کا پھل اس کے آنسو کا انعام اس نے بے یقینی سے لب کھولے پھر بند کئے کچھ دیر حیرت سے اسے دیکھتی رہی اور پھر اس کے لب پھڑپھڑائے ۔
*** گلزار***
…………*……………*……………*…………*……
جب گلزار پیدا ہوا تھا تو اس کی ماما اس کا نام عفان رکھنا چاہتی تھی مگر اس کی دادی گاؤں کی سادہ لوح خاتون تھیں، اس لیے انہیں جو نام پسند آیا وہی رکھ دیا مگر دونوں کے سر نیم ایک ہی تھےتبھی اسے اکثر حمیرا احمد یا پھر عفان بلا لیتی تھی ۔ حمیرا کے آنے کے بعد گلزار کی دادی واپس گاؤں چلی گئی تھی وہ چاہتی تھی کہ وہ عمر کا آخری حصہ اپنی زمین پر گزاریں تو سعود نے بھی انہیں نہیں روکا تھا کہ وہ ماں کی مرضی تھی اور ویسے بھی وہ ان کی وجہ سے بہت عرصہ اپنے وطن سے دور رہی تھی اس لیے انہوں نے انہیں روکا نہیں اور پھر حمیرا کو ہر ماں کی طرح بہو لانے کا جنون سوار ہو گیا وہ ہر روز کسی نہ کسی لڑکی کا زکر چھیڑ لیتی ۔
"عفان پتا ہے حمدانی کی بیٹی نے یونی میں ٹاپ کیا ہے اکبر کی بیٹی تو اتنی پیاری ہے اور حریم کی نند وہ تو سمجھو کوکنگ ماسٹر ہے ۔"
مگر وہ سر جھکائے سنتا رہتا اور ایک دن ایسا آیا کہ گھر میں عمیر جو کہ اس کے دور پرے کا رشتہ دار تھا کی شادی سے لوٹتے اس کی امی ایک ہی لڑکی کی بات کرنے لگیں، صبح شام جب بھی انہیں وقت ملتا ہر وقت اسی کا ذکر ہوتا وہ اکتا جاتا مگر چپ رہا کیونکہ اسے گل سے پہلے بات کرنی تھی اور اپنی ماں سے بعد میں، اسی طرح 2 سال گزر گئے مگر حمیرا کو کسی دوسری لڑکی کا خیال ہی نہ گزرا اور پھر اس نے سوچا کہ وقت ہاتھ سے ہی نہ نکل جائے اس سے پہلے گل سے بات کر لینی چائیے اور اسے پارٹی میں موقع مل گیا مگر وہ اتنا نروس تھا کہ دل کی دھڑکن بار بار بے ترتیب ہو رہی تھی وہ جب سے آیا تھا کئی گلاس پانی کے پی چکا تھا اور پھر حماد نعیم کو لے کر آیا اسے تو یاد بھی نہیں تھا کہ یہ کون ہے حالانکہ وہ ان کے گروپ کا ممبر رہ چکا تھا مگر اس کا دماغ کام کرتا تو وہ کچھ سوچتا جب وہ گل کے سامنے گیا اور اس سے بات کی تو اسے شدید قسم کا جھٹکا لگا اسے اتنے شدید ردعمل کی امید نہیں تھی اور یہی جھٹکا اسے بستر تک لے آیا مگر وہ نا امید نہیں تھا وہ گل کو منا لے گا جلد یا بدیر اور گل کے کمنٹ نے اس کا حوصلہ اور بڑھایا اور وہ اس سے بات کرنے اگلے دن پہنچ گیا مگر گل نے تو اس سے بات ہی نہیں کی مگر گھر پہنچ کر اسے پتا چلا کہ اس کی ماں رشتہ طے کر آئی ہیں اور وہ اسے تصویریں دکھانا چاہتی تھی مگر اس نے ان پر ایک نظر بھی نہیں ڈالی، وہ گل کو منا لے گا تو وہ ماں کو بتا دے گا کہ اسے کوئی اور پسند ہے، وہ ماں تھی مان جائیں گی مگر اگلے دن گل کی تقریر نے اسے اچھا خاصا جھنجھلا دیا تھا وہ سوچ رہا تھا کہ
"یہ کیسی محبت ہے جو یک طرفہ بھی نہیں ہے اور امتحان بھی لے رہی ہے مگر جب وہ گھر پہنچا تو لیپ ٹاپ پر گل کی تصویریں اس کا استقبال کر رہی تھیں اسے یقین نہ آیا کہ یہ وہی ہے جس کا اس کی ماں ہر روز ذکر کرتی ہیں اسی بے یقینی میں اس نے عمیر کو فون کیا کیونکہ ارسلان انکل کے زریعے رشتہ طے ہوا تھا تو عمیر لازمی جانتا ہو گا اور کال ملتے ہی اس نے فوراً پوچھا۔
"امی نے میرا رشتہ کس کے ساتھ طے کیا ہے؟ "
تو عمیر کا جواب آیا۔
"گل سے گلاب کی چھوٹی بہن۔"
تو گلزار نے فوراً پوچھا "کیسی ہے وہ ؟مطلب کس قسم کی ہے؟"
تو عمیر مسکراتے ہوئے بولا۔
"یہ مت پوچھو وہ آفت ہے پوری، اس کے ساتھ رہنا دل گردے کا کام ہے، اللہ تمہیں حوصلہ دے گلزار، تمہاری زندگی زِگ زیگ بننے والی ہے، یہ جو سیدھی سی زندگی گزارتے ہو نا اسے بھول کر اوٹ پٹانگ حرکتیں کرنا شروع کر دو ابھی سے عادت پڑ جائے تو اچھا ہے ۔"
گلزار دل سے مسکرایا اور بولا ۔
"اس کی ایک آدھ تصویر مل سکتی ہے؟"
تو عمیر بولا ۔
"ہاں کیوں نہیں"اور اس نے فون بند کر دیا اور جب اس نے تصویریں دیکھیں تو اس کے دل کو تسلی ہوئی اسے تو صبر سے گزرنا ہی نہیں پڑا تھا مگر نہیں وہ گزرا تھا صبر سے وہ تین سال صبر کا ہی تو وقت تھا اس نے بھی صبر کر لیا تھا مگر اس کا صبر مختلف تھا، اس نے اپنے ڈر سے صبر کیا تھا اس نے گل کے لیے صبر کیا تھا کہ وہ اسے ملے مگر گل گلزار کو کھو کر دوبارہ پانے کے لیے صبر کر رہی تھی صبر تو ہر ایک کے حصے میں آتا ہے مگر اس کی قسمیں مختلف ہوتی ہیں گلزار نے لمبے عرصے کا کم تکلیف دہ صبر سہا تھا مگر گل زیادہ تکلیف کم وقت کے لیے سہہ رہی تھی طریقے مختلف تھے مگر حساب برابر کا تھا اور پھر اس نے صبح ماں کو رضا مندی دےدی جو کہ خوش بھی ہوئی اور وہ سمجھ رہی تھیں کہ یہ تصویروں کا کمال تھا مگر انہیں کون بتائے یہ تو قدرت کا کمال تھا کیونکہ قدرت کے تو کھیل ہی نرالے ہوتے ہیں۔
…………………………
اسے گل کی بیماری کا مہرو سے پتا چلا تھا ،وہ پریشان گھر پہنچا ماں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اب وہ ٹھیک ہے مگر اسے تسلی نہیں ہوئی، اس نے ان کے گھر پر کال کی فون ارحم نے اٹھایا تھا جب اس نے بتایا کہ وہ عفان ہیں تو اس نے نہایت ادب سے بات کی اور بات کرتے کرتے اس نے ارحم سے گل کا نمبر لے لیا اور اس نے بھی جھٹ سے دے دیا اور اس نے گل کو کال کر دی وہ بہت حاضر جوابی سے بات کر رہا تھا وہ اپنے انداز پر خود بھی حیران تھا وہ اتنا خوش تھا اور یہ لہجہ بات بے بات ہنسی اسی خوشی کا ہی ثمر تھی اس صبر کا انعام جو وہ تین سال سے کر رہ تھا مگر یہ تو طے تھا وہ گل کو ابھی نہیں بتائے گا وہ خود ہی جان لے گی جب ان کی منگنی ہو گی
…………………………………
وہ کافی دن سے نوٹ کر رہا تھا گل چپ تھی ،وہ بات نہیں کر رہی تھی، کیا اسے ابھی تک پتہ نہیں تھا یا پھر وہ گلزار کا پاگل بنا رہی تھی، وہ اسی کشمکش میں تھا اور پھر اس نے کلاس میں بیٹھے بیٹھے گل کو میسج کیا مگر گل نے فون دیکھ کر رکھ دیا اس کا مطلب تھا وہ ابھی تک بے خبر ہے، حد ہے اس لڑکی کی بھی، اسے یہ نہیں پتا کہ اس کی منگنی کس سے ہونے والی ہے اور پھر مہرو اسے کیفے لے آئی گلزار اپنی اسائنمنٹ بنا رہا تھا۔ اس نے جانتے ہوئے اسے نظر انداز کیا مگر جب اس نے اپنی منگنی کا بتایا تو ایک منٹ کو اس کے ہاتھ رکے اور آنکھوں میں بے یقینی در آئی کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اسے پتا نہ ہو یا پھر کیا سچ میں اس کی منگنی گل سے ہی ہو رہی تھی نا؟ اسی کشمکش میں وہ فوراً اٹھ گیا مگر اسے گل کی نظروں کی تپش اپنی پشت پر محسوس ہوتی رہی تھی وہ گھر آیا تو ماں نے اسے بتایا کہ گل کے ابو منگنی سے پہلے اس سے ملنا چاہتے ہیں اور اس نے سوچا چلو اچھا ہے اس طرح کنفرم ہو جائے گا کہ واقعی گل سے ہی منگنی ہونی والی تھی اس کی وہ ان سے ملنے ان کے گھر گیا تھا وہ ایک گھنٹے کی گفتگو میں مسلسل ماتھے سے پسینہ پونچھتا رہا تھا اور پھر اس نے گیسٹ روم کی کھڑکی سے گل کو آتے دیکھا، وہ شاید ابھی یونی سے آرہی تھی اسے یقین ہوا کہ واقعی گل سے ہی اس کی منگنی ہو رہی ہے۔ سعدی صاحب نے اس سے مختلف سوال کیے جیسے ہر بیٹی کا باپ کرتا ہے پھر وہ جانے لگا جب اسے ارحم ملا وہ اس سے مل کر جانے ہی لگا تھا کہ اس کے کان میں سعدی صاحب کی آواز پڑی جو ارحم سے کہہ رہے تھے۔
" گل اور گلاب کو بلا لاؤ ۔"اس بات پر اس کا ماتھا ٹھنکا کہ کہیں کچھ غلط نہ ہو جائے اسی لیے وہ گھر پہنچتے ہی گل کو کال کرنے لگا ۔
کافی دیر بعد کال ملی مگر اس کے بولنے سے پہلے گل بول پڑی ،وہ اسے دم بخود سنتا رہا کوئی اس سے پوچھتا کہ وہ گل کے اس روپ کو کس قدر مس کرتا تھا اور جب اس نے بات کرنا بند کی تو اسے بے ختیار ہنسی آئی وہ باتیں ہی ایسی کر رہی تھی مگر اسے اپنا ہنسنا مہنگا پڑا کیونکہ گل نے بدلے میں کال ہی کاٹ دی تھی اس نے دوبارہ کال کی وہ پھر سے اس کی باتیں سننا چاہتا تھا مگر اسے اس کی بات سن کر جھٹکا لگا کہ وہ عفان کو ہی نہیں جانتی ،گل سے منگنی کے بارے میں سوچنا تو دور کی بات تھی اور وہ اس کے سوال سے محظوظ ہوا کہ نمبر کہاں سے لیا مگر اس کے جواب دینے پر وہ چپ ہو گئی ،وہ اس کے بات کرنے کا انتظار کرتا رہا مگر جب وہ نہیں بولی تو اس نے اسے اللہ حافظ کہا مگر وہ ارحم کے بارے میں اشارہ دے گیا تھا ،یہی وجہ تھی کہ ارحم کا تھوڑی دیر بعد فون آیا اور وہ اس سے سخت دلبرداشتہ تھا مگر اسے فلحال اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی، وہ صرف گل کو بتانا چاہتا تھا کہ وہی گلزار ہے مگر بتائے تو کیسے بتائے، پھر اس نے گل کو کال کی مگر اس نے کال اٹنڈ ہی نہیں کی تو اس نے سوچا چلو پھر بات کر لے گا۔
………………………………
اگلے دن حماد کو گلزار کی منگنی کا پتا چلا تو وہ اس سے بہت خفا ہوا مگر جب اسے پتا چلا کہ اس کی منگنی گل سے ہو رہی ہے تو ایک پل کو حماد کچھ بول ہی نہ سکا اس حیرانی سے گلزار سے پوچھا۔
"تو یہ گل ایسے ریکٹ کیوں کر رہی ہے؟"
تو گلزار فوراً بولا ۔
"اسے نہیں پتا یہ سب کہ اس کی منگنی مجھ سے ہو رہی ہے۔ "
اور پھر وہ حماد کو سب کچھ بتانے لگا وہ خوش تھا بہت خوش یہ اس کی کھنکتی آواز بتاتی تھی اور تبھی اس کی نظر گل پر پڑی جو سر اوپر آسمان کی طرف کیے بیٹھی تھی وہ پریشان ہوا، اسی پل گل نے سر نیچے کیا، دونوں کی نظریں ملیں مگر گلزار اپنا سامان سمیٹنے لگا تاکہ وہ سامان حماد کو دے کر خود گل کے پاس آجائے مگر وہ تو اس سے بھی پہلے اٹھ کر چلی گئی تھی مگر کلاس میں اس نے حماد کی باتوں میں آکر اسے کاغذ بھیجے جس کے نتیجے میں وہ کلاس چھوڑ کر چلی گئی مگر حماد نے اسے سختی سے منع کر دیا تھا کہ وہ گل کو نہیں بتائے گا کہ وہی عفان ہے ۔
………………………
اور حماد کی وجہ سے ہی منگنی سادگی سے ہوئی تاکہ گل کو عفان اور گلزار کی حقیقت کا پتہ نہ چلے کیونکہ وہ کہتا تھا کہ گل نے اسے تنگ کیا تھا یہ اسی کا بدلہ ہے، منگنی ہو گئی مگر وہ ہر روز کی طرح اسے میسج کرنا نہیں بھولا تھا مگر وہ ہر روز کی طرح کا سلوک کر رہی تھی اور پھر اس نے ہر روز کی طرح اللہ حافظ کر دیا ۔
………………………
اس کے والدین کو ملک سے باہر جانا پڑا مگر وہ عمیر کی شادی میں آگیا تھا اس نے گل کو دور سے ہی دیکھ لیا تھا ،پنک کلر کے فراک کے ساتھ چوڑی دار پاجامہ وہ محفل کی جان لگ رہی تھی ،کم از کم گلزار کو یہی لگا تھا اور پھر اس نے اسے کال کر رہی ڈالی، اب کی بار بھی وہ ہمیشہ کی طرح چپ رہی تھی مگر وہ بات کر کے عمیر کو اللہ حافظ کہہ کر سیدھا حماد کے گھر آگیا تھا تو حماد اس سے بولا۔
"گل ایک بات بتاؤ ۔"
گلزار نے کہا۔
"پوچھو" تو وہ فوراً بولا ۔
"گل تم سے محبت نہیں کرتی وہ گلزار سے محبت کرتی ہے؟ "گلزار نے اسے حیران ہو کے دیکھا اور بولا۔
"کیا کہہ رہے ہو صاف صاف کہو ۔"تو حماد فورً بولا۔
"گلزار اور عفان دو الگ انسان ہیں گل کے لیے، اگر اسے موقع ملا تو وہ گلزار کی خاطر عفان کو چھوڑ دے گی کیونکہ وہ عفان سے اپنے خاندان کی وجہ سے بندھی ہے تو تب تو کیا کرے گا کیونکہ وہ تو جانتی ہی نہیں کہ تو ہی عفان ہے ۔"اور یہ بات اس کے دل کو لگی مگر اس نے ظاہر نہیں کیا اور ہاتھ جھلا کر کہا۔
"ایسا کچھ نہیں ہو گا۔" مگر اس نے حماد سے زیادہ خود کو تسلی دی تھی۔
…………………………
ان کی یونی کا آخری دن تھا ،وہ چاروں ساتھ بیٹھے تھے تو مہرو نے گل سے اس کی شادی کا پوچھا تو اس نے مکمل لاعلمی ظاہر کی گلزار کا دل چاہا کہ اسے سب بتا دے مگر حماد اس کے ارادے سمجھ کر اسے وہاں سے زبردستی لے گیا ۔
………………………………
گلزار کی شادی کی تاریخ طے ہو گئی تھی اور وہ گل سے بات کرنا چاہتا تھا کہ وہی عفان ہے مگر حماد کی بات جیسے زہن میں اٹک گئی تھی کہ گل گلزار کے لیے عفان کو چھوڑسکتی ہے ،مطلب اسے چھوڑ سکتی ہے، وہ عفان تھا گل کا منگیتر نہ کہ محبوب وہ ہر زاویے سے خود پسند تھا، مرد تھا نا قربانیاں دیکھ سکتا تھا دے نہیں سکتا تھا وہ یہ دیکھ رہا تھا کہ گل نے عفان کے لیے گلزار کو چھوڑ دیا اور وہ یقیناً گلزار کے لیے عفان کو بھی چھوڑ دے گی، اگر عفان اس سے شادی نہیں کرے گا تو تب وہ کیا کرے گی ،وہ جاننا چاہتا تھا تبھی اس نے گل کو کال کی اور وہ جو نہیں سننا چاہتا تھا ،وہی اسے سننا پڑا ۔وہ گلزار کو خاندان کی خاطر چھوڑ آئی تھی اور انہیں کی خاطر وہ عفان کو بھی چھوڑ سکتی تھی اور اسی غصے میں اس نے اسے کہہ دیا کہ وہ شادی سے انکار کر دے مگر وہ تو جیسے بھری بیٹھی تھی، اسی پر ہی الٹ پڑی اور پھر فون بند کر دیا۔ وہ پوری رات اس نے انکھوں میں گزاری اور سوچتا رہا کوئی لڑکی اپنے خاندان کے لیے اپنی خوشیاں قربان کر سکتی ہے؟ کیا اسے گل کی سمجھ نہیں آئی تھی مگر جو جو رات بڑھتی گئی اس کی بے چینی میں اضافہ ہونے لگا۔ اسے اس فکر نے آن گھیرا کہ اگر گل نے سچ میں انکار کر دیا تو اور وہ اس تو کے بعد آگے کچھ سوچ ہی نہ سکا ،تب غصہ غالب تھا عقل واپس آئی تو منظر صاف ہوا۔ اسے اب پچھتاوے نے آن گھیرا تھا۔ صبح ہوئی تو وہ فوراً ماں کے پاس گیا اور انہیں کہا کہ وہ گل کے گھر فون کریں مگر وہ حیران ہوتی ہوئی بولی۔
" کیوں فون کرو ں؟"
تو گلزار نے کہا ۔
"امی حال ہی پوچھ لیں آپ ۔" وہ ماں کے ساتھ ہی بیٹھا رہا مگر جب زرمینہ کی اطمینان میں ڈوبی آواز ابھری تو گلزار کو تھوڑا سکون ملا کہ کچھ غلط نہیں ہوا تھا تبھی حمیرا زرمینہ سے بولی۔
" ویسے تو ہم اب رشتہ دار ہیں ایک دوسرے کی بات سمجھتے ہیں اس لیے کہہ رہی ہو ں کہ ہو سکے تو شادی تھوڑی جلدی کر دی جائے کیونکہ سعود اور میں کچھ ہفتوں بعد ملک سے باہر جا رہے ہیں، بچوں کی زمہ داری پوری کر کے جائیں گے تو سکون رہے گا ان کی طرف سے۔"
زرمینہ نے سعدی سے بات کرنے کو کہا کہ ان سے پوچھ کر بتا دے گی اور جب انہوں نے ہاں کردی تو انہوں نے حمیرا کو بتا دیا اس طرح شادی وقت سے پہلے طے ہو گئی تھی۔
………………………
آج ان کا نکاح ہو گیا تھا مگر گلزار کو پریشانی لاحق تھی کہ وہ کیسے گل کو فیس کرے گا، اسی کشمکش میں دو دن گزر گئے اور گل گلزار کے گھر آگئی ،وہ کمرے میں داخل ہوا تو گل سامنے گھوگھٹ نکالے بیٹھی تھی۔ گلزار دراز کے قریب آیا اور جیب سے انگوٹھی نکال کر رکھی پھر سٹڈی ٹیبل تک گیا مگر اند کی کنفیوژن کم نہ ہوئی تو وہ خود کو کمپوز کرنے کے لیے دوسرے کمرے میں چلا گیا اور اب جو واپس آیا تو گل اس کی تصویر پر حیران نظروں سے ہاتھ پھیر رہی تھی وہ اس کے قریب سے گزرا اور بیڈ پر جا بیٹھا مگر وہ وہیں کھڑی رہی جیسے اس کی آمد سے بےخبر ہو تو اس نے کہا ۔ "گل بہار" اور وہ اس آواز پر فوراً پلٹی مگر اس کی آنکھوں میں بے یقینی کا راج تھا ۔
…………*……………*…………*……*……………
وہ اسے دیکھ کر وہیں کی وہیں رہ گئی تو وہ آگے بڑھا اور بولا۔
"گل۔"مگر وہ تو جیسے شاک میں تھی کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے تو گلزار نے اس کا ہاتھ پکڑا وہ ابھی تک اس پر نظریں گھاڑے ہوئے تھی وہ اسے لے کر بیڈ تک آیا اس نے بیٹھنے کے بعد بھی نظریں گلزار پر ہی رکھیں جیسے وہ نظریں اٹھائے گی اور وہ وہاں سے غائب ہو جائے گا تو گلزار اس سے بولا۔
"گل کچھ تو بولو۔"مگر وہ کافی دیر بعد صرف اتنا ہی بول پائی۔
"تم یہاں کیسے ؟"
تو وہ اس کے سوال پر ہولے سے مسکرایا اور اسے ساری روداد سنانے لگا مگر جوں جو ں وہ سناتا گیا ویسے ویسے گل کے تاثرات بدلتے گئے پہلے شاک تھا ،پھر بےیقینی اور اس کے بعد حیرانی اور سب سے آخر میں غصہ اور اسی غصے کے سبب اس نے گل کا ہاتھ فوراً جھٹکا اور اٹھ کھڑی ہوئی اور بولی۔
"گلزار آپ مذاق کر رہے ہیں نا ایسے کیسے ہو سکتا ہے؟ "تو وہ بھی اس کے ساتھ اٹھا اور اس کے سامنے آیا اور بولا۔
"آئیم سوری گل مجھے تمہیں سب پہلے بتا دینا چائے تھا میں بتا بھی دینا چاہتا تھا مگر وجوہات ہی کچھ ایسی بن گئی تھی کہ میں بتا نہ سکا ۔
"تو گل کو فوراً پچھلی گفتگو یاد آئی اور وہ غصے سے بولی۔
"تم نے مجھے رشتے سے انکار کرنے کا کہا تھا اگر تمہیں یاد ہو تو؟"گل نے اسے التجایا نظروں سے دیکھا اور بولا۔
"کہا تھا غلطی کی تھی، میں تو بس دیکھ رہا تھا کہ ۔۔۔اچھا چھوڑا تم ادھر آؤ بیٹھو یہاں۔ "وہ پھر سے اس کا ہاتھ پکڑتا صوفے تک لے آیا اور وہ ناچاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ چل دی گلزار نے بیٹھتے ہی کہا۔
"گل تم تو کہتی تھی کہ اللہ ہمیں سرخرو کرے گا اگر ہم سچے ہو ں گے اور اگر آج ہم سرخرو ہو چکے ہیں تو تم اس کا شکر کیوں نہیں بجا لاتی۔"
تو گل اسے کچھ دیر بے یقینی سے دیکھتی رہی پھر شکستہ لہجے میں بولی ۔
"گل تم نے مجھے دھوکا دیا ہے۔"
تو گلزار فوراً بولا ۔
"نہیں گل اللہ نے تمہارا امتحان لیا ہے، میں جب بھی تمہیں بتانے لگتا کوئی نہ کوئی سبب بن جاتا تھا اور تمہیں یاد ہے جب تم مجھے دیکھ کر گراؤنڈ سے چلی گئی تو میں تمہیں بتانے آیا تھا مگر بتا نہ سکا ،یہ اللہ کی مرضی تھی کیونکہ اللہ تمہیں سرخرو کرنا چاہتا تھا، تم امتحان کے لیے منتخب کر لی گئی تھی تو تمہارا امتحان ادھورا کیسے رہ جاتا، یہ تو قانون قدرت کے خلاف ہے جو چنے جاتے ہیں وہ انمول ہوتے ہیں اور انمول لوگ دو رنگوں میں کبھی نہیں رنگتے کیونکہ انہیں صرف ایک رنگ اچھا لگتا ہے اللہ کا رنگ، اس کے امتحان کا رنگ ،جو ان لوگوں کو عطا ہوتا ہے جو اپنے امتحان سے سرخرو لوٹتے ہیں۔ " گلزار اسے بہت دھیمے لہجے میں سمجھا رہا تھا وہ دم بخود اسے سن رہی تھی وہ بے شک ایک اچھا مقرر تھا گل کا غصہ کم ہوا مگر چہرے سے اس نے خفگی مٹنے نہیں دی تھی وہ گلزار کو کسی صورت معاف کرنے کے موڈ میں نہیں تھی مگر پھر گلزار شرارت سے بولا ۔
"میں پہلا دولہا ہوں گا جو اپنی دلہن کو دلیلیں دے رہا ہے۔" اس کی بات سن کر گل کی حیا کے مارے آنکھیں ہی جھک گئیں مگر گلزار اسے دیکھتا رہا اور اس نے سوچا۔
"حیا ہاں حیا بے شک یہ عورت کا بہترین زیور ہے" اور اس کی طاقت بھی اسے اپنی گردن اکڑتی محسوس ہوئی کیونکہ اسے حیا دار بیوی ملی تھی جو اپنوں کی خاطر اپنی محبوب چیز بھی قربان کر سکتی تھی بے شک وہ دنیا کے ان خوش نصیب لوگوں میں سے تھی جنہیں کامیابیاں منتخب کر کی دی جاتی ہیں جنہیں نظر میں رکھا جاتا ہے اور یہی نظر ہی باکمال ہوتی ہے جو انسان سے امتحان لے کے اسے آزمائش میں ڈال کر اسے اس کی کامیابی پر دل کھول کر خراج دیتی ہے اور آج گل وہ خراج وصول کر رہی تھی جو اس کے صبر کا نتیجہ تھا اور گلزار کو لگا وہ آج دنیا کا خوش قسمت ترین انسان ہے۔" گلزار نے گلا کھنکارا اور بولا ۔
"گل" گل نے سر اٹھایا اور بولی۔
"بولو گل۔"گلزار نے اسے حیرانی سے دیکھا اور پھر وہ کھکھلا کے ہنسا اور ہنستے ہوئے بولا ۔
"ہمارے نام گل کتنے ملتے ہیں۔"
" ہاں ان کے نام تو ملتے تھے دونوں ہی گل بالکل گلاب جیسے جو سب میں منفرد نظر آئے سرخ گلاب نہیں سفید ہا ں سفید گلاب سکون کی علامت امتحان میں کامیابی کی علامت پاکیزہ علامت اپنے آپ میں انوکھا سب سے منفرد ایک گلزار تو دوسری گل بہار..... بہار نہ ہو تو گل کہاں ہو شاید کہیں بھی نہیں اور اگر گلزار ہی نہ ہو تو بہار کا لطف کہاں سے آئے گلزار اور بہار لازم و ملزوم ہیں ازل سے ایک ساتھ دونوں ایک دوسرے کے بنا ادھورے مگر ایک ساتھ مکمل ہاں مکمل بالکل پرفیکٹ ۔
تبھی گلزار نے اس کا ہاتھ پکڑا اور کہا۔
"چلو میرے ساتھ تمہیں کچھ دکھانا ہے۔"
گل حیران ہو کے بولی۔
"کہاں؟ کیا دکھانا ہے؟ "
مگر وہ اسے ساتھ لے کے اسی کمرے کی طرف لے آیا جس میں تھوڑی دیر پہلے وہ آیا تھا اس نے گل سے کہا کہ وہ دروازہ کھولے گل نے حیرانی سے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا اور دروازہ کھولتے ہیں اس کی آنکھیں دنگ رہ گئی وہ کچھ دیر کمرے کو دیکھتی رہی وہ کمرہ سفید اور آسمانی نیلے رنگ کا تھا اور بالکل سامنے جیک فروسٹ کی تصویر اور اسے دیکھ کر گل نے گردن موڑی اور حیرانی سے پوچھا۔
"یہ سب کیسے؟"
تو گلزار مسکراتے ہوئے بولا ۔
"جس طرح تمہاری پروفائل پر جیک فروسٹ کی تصویروں اور سٹیٹس کی افراط ہے، اسے دیکھ کر مجھے تو ڈر لگتا تھا کہ اگر یہ جیک سچ میں ہوتا تو میرا کیا ہوتا۔"
گل اس کی بات پر ہولے سے مسکرا کر آگے بڑھی اور مبہوت نظروں سے کمرے کو دیکھنے لگی ،سامنے والی دیوار پر جیک کا پوسٹر تھا، ایک ہاتھ جیکٹ کی جیب میں ڈالے اور دوسرے سے چھری سنبھالتے اور اپنے بالوں جیسے سفید دانتوں سے مسکراتے ہوئے وہ گل کو ہمیشہ کی طرح اچھا لگا تھا، اس نے چھت کی طرف دیکھا اوپر کاغذی فانوس تھا، جیسے ٹوکری نما برف کا سفید پھول اور اس کے اوپر نیلا آسمان، ایسے جیسے ابھی سفید برفیلے گالے اس سے نیچے گرنے کو ہو اور پھر اس نے فرش پر نظر دوڑائی بالکل اوپری عکس جیسے شیشے یا برف پر بنتا ہے، کمرے میں رکھے سامان کا رنگ بھی نیلے اور سفید امتزاج سے بنا تھا اور اس پر برف کے پھول جو جیک ہر وقت اپنی چھری سے بنایا کرتا تھا ،گل مسکرائی اسے جیک کی برفیلی دنیا کتنی پسند تھی، جی چاہتا ہمیشہ کے لیے اسی میں جا بسے اسی جادوئی دنیا میں زندگی گزارے اور اب اس کا خواب حقیقت بنا تھا اسے لگا وہ سچ میں جیک کی برفیلی دنیا میں آگئی ہو۔ جبھی گلزار کی کنکھارنے کی آواز پر وہ پلٹی اس کے پلٹتے ہی گلزار نیچے جھکا ایسے کہ ایک گھٹنہ زمین پر اور دوسرا کھڑا کر رکھا تھا اور اس کے ہاتھ میں خوبصورت مختلف پھولوں کا گلدستہ تھا جسے وہ گل کے سامنے کیے ہوئے بولا۔
"گل کیا تم میری زندگی کے کٹھن سفر میں میرا ساتھ دو گی؟"
وہ کچھ دیر حیرانی سے اسے دیکھتی رہی اور پھر مسکرا کر بولی....
"مگر کچھ شرائط ہیں۔"
"کیسی شرائط؟"
"تم مجھے چڑیل کبھی نہیں بلاؤگے۔"
"اچھا سوچو ں گا۔"
"تم مجھے موویز دکھانے لے جاؤ گے میری پسند کی۔"
"قسم سے گل مجھے زمبئی اور جیک بالکل بھی پسند نہیں مگر پھر بھی تمہاری خاطر دل پر پتھر رکھ لوں گا۔"
"تم روزانہ مجھے آئسکریم کھلانے لے جاؤگے"
"گو کہ ابھی بے روز گار ہوں مگر تمہارے لے قرض لے لو ں گا۔"
"اور ہاں مجھے تم اس جگہ لے کے جاؤ گے جہاں ہم پہلی دفعہ ملے تھے۔"
"اف گل تم اتنا بور ہو گی میں نے سوچا نہیں تھا کوئی لڑکی اپنے شوہر سے ایسے وعدے بھی لیتی ہے کیا۔"
"تو تم نہیں لے کے جاؤ گے؟"
"لے جاؤں گا لے جاؤں گا ایسے رونی صورت نہیں بناؤ۔"
"اب سوچا جا سکتا ہے تمہارے بارے میں"
وہ کس شان بے نیازی سے بولی تھی تبھی گلزار اٹھا اور بوکے اس کے ہاتھوں میں تھمایا اور اسی پل اس نے ہاتھ میں لیے ریموٹ کا بٹن دبایا اور گل اور اس پر جیسے پھولوں کی برسات ہوئی، گل نے فوراً اوپر دیکھا وہ کاغذی فانوس ہی تھا جو کھلا ہوا تھا اور پھول اس میں سے گر رہے تھے اور اس نے گلزار کی طرف دیکھا جو اب اسے دیکھے مسکرا رہا تھا ۔وہ بھی پھولوں کے بوکے کو ہاتھ میں پکڑے مسکرا دی۔ زندگی مکمل ہو گئی تھی صبر کا پھل ملا تھا اور کیا شاندار ملا تھا خوشیاں در کی کنیز بنے سر کو جھکائے ادب بجا لا رہی تھیں۔
ہا ں یہی تو تھی خوشی ہر فکر سے آزادی ہر آرزو کے پورا ہونی کی خوشی اپنے آپ کے مکمل ہونے کی خوشی اور یہی خوشی ان دو نفوس کے اندر تھی جو ابھی تک پھولوں کے سائے تلے مسکرا رہے تھے۔
……………………………
گلاب اس کے لیے کھانا لائی تھی اور اب وہ چاروں گلاب. عمیر .گلزار اور گل ساتھ بیٹھے کھانا کھا رہےتھے اور ساتھ ساتھ باتیں بھی کر رہے تھے اور پھر کھانے کے بعد عمیر اور گلاب ٹی وی لاونج میں چلے گئے تو گل گلزار سے بولی۔
"گل مجھے آج کہیں جانا ہے۔"
تو گلزار نے سر اٹھا کے کہا۔
"ولیمے والے دن پارلر کے علاوہ کہاں جانا ہے؟"
تو گل فوراً بولی ۔"سینما جانا ہے آج فیورٹ مووی آئے گی اس لیے۔"
گلزار اس کی شکل دیکھتا رہا اور بولا۔
"ولیمے والے دن بھی خون خرابہ دیکھنا ہے؟"
تو گل فوراً بولی۔
"تقریب شروع ہونے سے ایک گھنٹے پہلے آجائیں گے پلیز گل۔"
تو گل بولا۔
"کل لے جاؤں گا گل ابھی وقت کی کمی ہے۔"
تو گل مصنوعی ناراضگی سے بولی۔
"میں نے ناراض ہو جانا ہے گل ۔"
گلزار مسکرایا اور کہا۔
"واہ بیگم صاحبہ کی دھمکیاں بھی شروع ہو گئیں۔ "
وہ کچھ کہتی اس سے پہلے سعود صاحب آگئے جو صبح ہی کسی کام سے گئے تھے اور اسے ان کی موجودگی میں اسے اپنی زبان بند کرنی پڑی مگر وہ خفا آنکھوں سے گلزار کو دیکھتی رہی تبھی گلاب اسے لے کر چلی گئی کیونکہ بیوٹیشن آگئی تھی۔
……………………
وہ سٹیج پر بھی خفا خفا بیٹھی تھی جبھی گلزار کا فون بجا حماد کی کال تھی، وہ آج نہیں آیا تھا کونکہ اس کی بھی آج ہی شادی تھی اور اگلے دن ولیمہ تھا وہ فون سننے کو اٹھ گیا ۔ اور پیچھے گل ایسی ہی اکیلی بیٹھی رہی تو حمیرا آئی اور اس سے بولی۔
"بیٹا گل کہاں ہے؟ "
تو وہ بولی ۔
"آنٹی فون سننے گئے ہیں۔"
تو وہ بولی۔
"جب آجائے تو اسے یہ لڈو کھِلا دینا اسے بہت پسند ہیں ۔"اس نے لڈو کو ایک نظر دیکھا اور فوراً بولی۔
"میں ابھی انہیں دے کے آتی ہوں۔"
حمیرا مسکرائی اور ٹرے اسے تھما دی گل بھی مسکرا اٹھی ۔
"چلو کتنے عرصے بعد بہن جی کو تنگ کرنے کا موقع ملا تھا"
وہ موبائل پر سے بات کر رہا تھا جب آہٹ پر واپس پلٹا وہ گل تھی ایک ہاتھ سے لہنگا سنبھالے اور دوسرے ہاتھ میں ٹرے پکڑے وہ سیڑھیاں چڑھ رہی تھی وہ آگے بڑھا اور ٹرے اس کے ہاتھ سے لے لی اور بولا۔
" اتنی مہربانی واہ"
مگر وہ سنجیدگی سے بولی۔
"آنٹی نے دیا ہے آپ کے لیے۔"اور وہ واپس پلٹی ہی تھی تو پیچھے سے آواز آئی "اب میں شادی شدہ ہوں تو میری امی کو میری فکر نہیں کرنی چائیے ۔"مگر وہ خاموشی سے سیڑھیاں اترتی رہی اور بڑبڑائی۔
"ناراض ہوں ابھی آپ سے تو فکر کیونکر کرو ں ۔"اور وہ تیزی سے لہنگا سنبھالتی سیڑھیاں اتر گئی کیونکہ ابھی اسے منظر سے ہٹنا تھا اور گلزار نے ٹرے اٹھائی اور بولا "واہ بیگم صاحبہ کی پہلی خدمت ۔"ٹرے میں لڈو تھے اس نے ایک لڈو منہ میں رکھا اور اسے کھانے لگا جبھی اس کی نظر ٹرے کے کونے میں رکھے کاغذ پر پڑی اس نے اسے اٹھایا اور پڑھنے ہی لگا تھا کہ اسے اپنے منہ کا ذائقہ بدلتا محسوس ہوا اور پھر اسے لگا جیسے کسی نے اس کے منہ میں آگ لگا دی ہو اور وہ پانی کے لیے کچن کی طرف بھاگا کیونکہ گل نے لڈو کے درمیان سبز مرچ پیس کر رکھ دی تھی وہ کچن میں گیا پانی پی لیا میٹھا کھا لیا منہ میں برف رکھ لی مگر بے سود اور اب وہ کرسی پر بیٹھ کر لمبے لمبے سانس لے رہا تھا کچھ افاقہ ہوا تو پرچی پر نظر پڑی اس نے کھولی تو لکھا تھا۔
****مرچی زیادہ تو نہیں تھی ****؟
اور وہ فوراً اٹھا اور سٹیج کی طرف چل دیا جہاں گل ہنس کر گلاب سے باتیں کر رہی تھی اسے آتا دیکھ کر گلاب کی ہنسی نکل گئی اور گل بھی اسے دیکھ کر ہنسنے لگی کیونکہ مرچی کی وجہ سے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا مگر راستے میں اسے حمیرا نے روک لیا اور پوچھا۔
"یہ لال لال کیوں ہو رہے ہو؟"
تو گلزار نے تواتر سے کہا۔
" یہ آپ کی بہو کے کمال ہیں۔ "
حمیرا نے گل کی طرف دیکھا گل نے فوراً شرمندگی سے آنکھیں جھکائیں مگر دوسرے پل ان کا قہقہ فضا میں گونجا۔
گلزار نے جہاں ماں کو شکوہ کنا نظروں سے دیکھا وہیں گل کے چہرے کی مسکراہٹ واپس آئی اور گلزار جا کے سٹیج پر بیٹھا مگر رخ گل کے مخالف تھا تو اس کے کانوں میں گل کی آواز آئی ۔
"گل تم پہ سرخ رنگ بہت اچھا لگتا ہے ۔"
گلزار نے فوراً گردن موڑی اور گل کو دیکھا اور اس کی سرخ آنکھیں دیکھ کرگل کی شرارت ایک دم غائب ہو گئی اور وہ پریشانی سے بولی۔
"مرچیں زیادہ تھی کیا؟"
"ہا ں کچھ زیادہ ہی زیادہ تھیں۔"
"کچھ میٹھا لاؤں؟"
"اتنی فکر تھی تو ایسا کیا کیوں ؟"
"سوری"
گل کے کانوں تک جاتے ہاتھ دیکھ کراسے ہنسی آئی تو گل بھی اس کے ساتھ مسکرا دی۔
وہ دونوں ایسے ہی اچھے لگتے تھے۔ ہنستے مسکراتے ،لڑتے جھگڑتے، ایک دوسرے کو تنگ کرتے، ٹام اورجیری کی طرح لڑتے اور پھر خود ہی ایک دوسرے کو مناتے جیسے ایک دوسرے کی خوشی کا سبب بنتے ایک پرفیکٹ کپل
💗 💗 💗💗 💗
صبر:
صبر فقط تین لفظ کیا ہیں
یہ لفظ اللہ کی رضا کا سبب ہے صبر سرخرو ہونے کا اشارہ صبر لوگ کہتے ہیں محبت جرم ہیں ہا محبت جرم ہے ناقابل معافی جرم اگر اس میں صبر نہ ہو
آج کا مسلہ لڑکا لڑکی لو سٹوری ابتدا خوشیوں سے تو انتہا عزاب کیوں کیونکہ وہ صبر کے درد سے نہیں گزرتے اس لیے قدر نہیں کر پاتے پانے کی جیسے جلدی اس سے زیادہ پیچھا چھڑانے کی جلدی نامحرم سے محرم بنانے کا خبط اور پھر کچھ دن کی چاندنی ماند پڑنے پر محرم سے نا محرم بننے کی فکر کیوں کیونکہ صبر رخصت ہو چکا ہو تو ضمیر پر قفل لگتے دیر نہیں لگتی...........
پلکوں کی حد توڑ کر دامن یہ آگرا
ایک آنسو میرے صبر کی توہیں کر گیا
حیا:
عورت کی شان اس کی آراستگی کیا ہے حیا ?
جو لڑکیاں بولڈ ہوتی ہے نہ وہ حیا رکھتی ہیں یہ بولڈ کیا ہوتا ہے
بھلا یہ ناچ گانا یہ کب سے بولڈنس میں آنے لگا پتا نہیں مگر بولڈ ہونے کا مطلب جرات مند ہونا ہے نہ کہ اپنے آپ کو عریاں کرنا جو لڑکیاں بولڈ ہوتی ہیں وہ نامحرم کو ان کے راستے پر رکھنا جانتی ہیں وہ جرات رکھتی ہے اختیار ہیں اپنی سوچ کو اسلام پر ڈھالنے کی اور نامحرم سے فرینکنس بولڈنس نہیں تسکین نفس ہے
کیونکہ اگر وہ بولڈ ہوتی تو ان میں جرات ہوتی اپنے آپ کو سامنے لانے کی ہر کام بے دھڑک کرنے کی مگر آج بولڈ وہ ہے جو اپنے آپ کو زمانے میں ڈھالنا چاہ رہا ہے نفس کی غلامی کر کے حیا کو بیچ کے...............
بنت حوا کو نچاتے ہیں سر محفل ہم
کتنے سنگ دل ہیں کہ رسم حیا یاد نہیں
(اقبال)
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
The End
Comments
Post a Comment