Gul aur gulzar by Munisa Fatima Part 2

Gul aur gulzar novel by Munisa Fatima Complete

ناول"گل اور گلزار"
از"مونیثہ فاطمہ"
(Part 2)

وہ موبائل میں مگن کلاس سے نکلا حماد پہلے ہی جا چکا تھا کیونکہ اسے کوئی ضروری کام تھا وہ چلتا ہوا سیڑھیوں سے اترا تو اس کے کانو ں میں اک جاندار قہقہہ پڑا اس نے سر اٹھایا تو وہ گل تھی اسے دیکھ کر وہ دوبارہ اپنے کام میں مگن ھو گیا اور وہ اس کے پاس چلی آئی اور بولی ۔
" کیسے ھو بہن جی؟"
 وہ رکا اور بولا " پھر مت کہنا "
" اوکے میں نہیں کہوں گی " اس نے ہنستے ھوئے کہا مگر گلزار اسے حیرانی سے دیکھنے لگا اور سوچا ۔
" چڑیل کا دماغ لگتا ھے سٹک گیا ھے یہ اتنا جلدی ھار مان لے گی لگتا نہیں تھا پر مجھے کیا میرا ہی فائدہ ھے اس میں۔ " وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ وہ اس کے قریب سے گزرتے بولی" BEST OF LUCK BHN G
" پھر سے بہن جی؟ مگر یہ مجھےدعا کیوں دے کر گئی ھے؟" وہ سوچتے ھوئے اسے دور جاتے دیکھتا رہا مگ پھر سر جھٹک کر آگے بڑھ گیا اور پھر سے موبائل میں مگن ھو گیا کچھ دیر بعد اسے محسوس ھوا کوئی اسے مسلسل دیکھ رہا ھے تو اس نے سر آٹھایا کچھ لڑکیاں اسے دیکھ رہی تھیں ان کا دیکھنا عام بات تھی مگر ان کی انکھوں اور ہنسی کا انداز عجیب تھا مزاق اڑانے والا مگر اس نے زیادہ توجہ نہ دی اور چل دیا کچھ دور جا کر اسے پھر سے کسی گڑبڑ کا احساس ھوا اس نے دیکھا کچھ دور ٹہرا ایک گروپ اسے دیکھ رہا تھا اور کچھ کی مسکراہٹیں کافی معنی خیز تھی اسے اس بار شدت سے گڑبڑ کا احساس ھوا کچھ بہت غلط تھا مگر کیا وہ سوچ کر رہ  گیا مگر وہ اتنا ضرور سمجھ گیا تھا یہ سب گل کی مہربانی سے ھو رہا ھے ورنہ وہ دعا دینے کی زحمت نہ کرتی مگر اس نے مہربانی کیا کی تھی یہی اسے سمجھ نہیں آرہی تھی تبھی حماد کا فون آیا اور وہ بولا۔
" یہ سب کیا ھے گل ؟"وہ حیران ھوا اور بولا۔
 " کیا کیا ھے؟"
 تو حماد نے اسے واٹس اپ آن کرنے کو کہہ کر فون بند کر دیا اور جب اس نے واٹس اپ آن کیا تو اس کاسر اپنی تصویر کی حالت دیکھ کر چکرا کر رہ  گیا یہ کیا کر دیا چڑیل نے …………………
فولنگ والے دن گھر آکر اس نے FB آن کی یونی کے پیج پر ہی اسے گلزار احمد کی پروفائل مل گئی تھی اس نے اس کا اکاونٹ کھولا اور اس میں موجود اس کی ہر چیز کو کا پی کرنے لگی اس کی تصویریں سٹیٹس بائو ڈیٹا غرض ہر چیز کاپی کرنے کے بعد اس نے ایک فیک اکاونٹ بنایا جو ہو بہو گلزار کے اکاونٹ کے ساتھ میچ کرتا تھا ،اس نے اسے یونی کے پیج پر جا کےایڈ کیا اور اس نے تقریباً ہر انسان کو ریکوسٹ سنڈ کی چائے وہ سینئرز تھے چائیے ٹیچرز تھے، اسے دھرا دھرا ہر گروپ ہر پیج پر ایڈ کرنے کے بعد اس نے اس کی موجودہ DP جس میں وہ ایک کار کے بونٹ پر بیٹھے کسی بات پر بے تحاشہ ہنس رہا تھا اور تصویر شاید اچانک لی گئی تھی یا وہ پوز کر رہا تھا جو بھی تھا وہ اس وقت اسے زہر لگ رہا تھا، اس نے تصویر سیو کرنے کے بعد اس نے اس کے سامانِ توجہ کی طرف دھیان دیتے ھوئے اپنا کام شروع کر دیا اس نے اس تصویر کے بالکل وسط میں JUST CALL ME BHN Gلکھا اور اس طرح کہ گلزار کا ہنستا ھوا چہرا واضع تھا اور اس میں مزید کچھ ایسی ہی چیزوں کا اضافہ کرنے کے بعد اسے ارحم کو واٹس اپ کر دی اور پھر وہ سونے کو لیٹ گئی صبح وہ اٹھی تو اس کا آدھا کام ھو چکا تھا اب وہ بہن جی کو اسی کی زبان میں بتائے گی کہ پنگے کیسے لیتے ہیں مگر جیسے ہی اسے پتا چلا کہ گلزار اس کا کلاس فیلو ہے تو اسے جھٹکا لگا اور اس نے اسی وقت اپنا کام سر انجام دینا ضروری سمجھا، وہ کلاس سے نکل کر فوراً کومن رام میں آئی اور گلزار کا فیک اکاونئٹ کھولا اور اسی اکاونٹ سے اس نےسارے گروپ اور پیجز پر گلزار کی ایڈٹ شدہ تصویریں پوسٹ کیں، اس کے بعد اس نے پوسٹر نکالے اور جگہ جگہ چسپاں کرنے لگی، وہ اپنے کام سے فارغ ہوئی تھی کہ اسے گلزار فون میں مگن نظر آیا ،وہ اس کے ساتھ سے گزرتے اپنے انداز میں پیشن گوئی بھی کر گئی مگر وہ بیچارہ سمجھ ہی نہ سکا…………………
اسے ساری بات سمجھنے میں ایک سیکنڈ لگا وہ فوراً واپس پلٹا اور گل کے پیچھے گیا مگر گل میڈم ندارد مگر پھر بھی وہ اسے ڈھونڈتا رہا ۔
اور پھر اسے وہ اک کلاس روم سے نکلتی نظر آئی تو وہ اس کے پیچھے لپکا اور اس پر دھاڑا ۔
" تم نے کیا ہے یہ سب کچھ؟"
 وہ آرام سے واپس پلٹی ایسے جیسے سب کچھ اس کی توقع کے عین مطابق ھو رہا ھو اور آرام سے بولی۔
" بدلے کا حق اوپر سے لے کے آئی ھوں"
"بدلہ ایسے لیتے ہیں؟ "وہ غصے سے پھنکارا ۔
" اگر میرے بس میں ھوتا تو اس سے زیادہ کر گزرتی مگر پھر بھی جو تم نے کیا ھے اس کا ازالہ نہیں ھونا تھا میری بلا سے کچھ بھی ھو آئی ڈونٹ کیئر۔ "
وہ غصے سے آگے بڑھا قریب تھا کہ اسے ایک تھپڑ جڑ دیتا مگر پیچھے سےاسے کسی نے پکڑ لیا وہ بے اختیار پیچھے ہوئی اسے توقع نہیں تھی کہ وہ یہ بھی کرے گا اس کی آنکھوں میں پہلے حیرت اور پھر غصہ آیا مگر ان دونوں پر بے یقینی غالب تھی وہ ایک دم پیچھے ھوئی اور بھاگنے کے انداز میں وہاں سے چلی گئی اسے پکڑنے والا حماد تھا اور جیسے اسے لگا کہ گلزار سنبھل رہا ھے تو بولا۔
 " لڑکی ھے وہ، کیا لڑکی پر ہاتھ اٹھائے گا تو ؟"
" لڑکی ھے تو لڑکی بن کے رہے، ایسے بھی کوئی کرتا ہے کیا، دیکھ کیاحال کیا ہے اس نے، پوری یونی مجھ پر ہنس رہی ھے۔ " وہ پھر سے دھاڑا تھا مگر حماد اسے یہ نا بتا سکا کہ یہ تصویریں صرف یونی میں نہیں پورے شہر میں پھیل چکی ہیں۔
وہ گھر آیا تو اسے پتا چلا کہ گلزار صاحب آج کی مشہور ہستی ہیں اور اس کے جاننے والے اس سے بات کرنے کو بے تاب ہیں اور اسی غصے میں اس نے موبائل دیوار کے سپرد کرتے ہوئے اسے اوپر پہنچا دیا ،اب آہستہ آہستہ اس کا غصہ کم ہو رہا تھا مگر یہاں مسئلہ ویسے کا ویسا رہا کیونکہ غصے کی جگہ اب ڈپریشن لے رہا تھا اور جب ڈپریشن حد سے بڑھا تو اس نے اس سے چھٹکارے کے لیے نیند کی گولیاں تلاش کرنا شروع کر دیں، اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے کیونکہ وہ خود پر کنٹرول کھو رہا تھا بہت کوشش کے بعد اسے نیند کی گولیاں ملیں اور ان کو کھانے کے بعد وہ بیڈ پر اوندھے منہ ڈھے گیا۔
 " امی کہاں ہیں آپ؟ آپ کا گلزار اکیلا ہو گیا آجائیں نا اب" وہ تکیے میں سر دے کے سسکا تھا ..مرد روتے ہیں بھلا تو یہ کیوں آنسوبہا رہا ھے?....ہاں مرد بھی آنسو بہاتے ہیں کیونکہ ان کے بھی جزبات ہوتے ہیں انہیں بھی تنہایاں ڈستی ہیں جب وہ اکیلے ھوتے ہیں تو ان کے دل بھی دہلتے ہیں کسی کے غم میں کسی بھی درد میں کیوں کیونکہ وہ بھی جزبات رکھتے ہیں ………………
وہ اپنے کمرے میں آئی تو بیگ پھنکنے کے انداز میں ڈالا اور بیڈ پر بیٹھ کر تیز تیز سانس لینے لگی، اسے اب تک یقین نہیں آرہا تھا کہ گلزار اسے تھپڑ مارنے والا تھا وہ ابھی اسی حالت میں بیٹھی تھی کہ اس کے پاس گلاب آئی اور بولی۔
 " کیا ہوا گل خیر ہے اج تم ٹھیک نہیں لگ رہی؟ " وہ بڑی بہن کے ساتھ بدتمیزی نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے ضبط کر کے بولی ۔
"گلابو جاؤ یہاں سے سونا ہے مجھے ،میرا سر بہت دکھ رہا ہے ۔"
 مگر گلاب کو فکر لگ گئی اس کی یہ خیال کیے بغیر کہ دوسری طرف کا پارہ کافی ھائی ہے " کھانا لاؤں  تمہارے لیے اس کے بعد دوائی لے کے سو جانا ۔"
 مگر ادھر سے کافی تیزی اور غصے سے جواب آیا تھا۔
 "گلاب سعدی احمد خان میں نہیں چاہتی کہ میں اپنی بڑی بہن سے بدتمیزی کروں اس لیے پلیز لیو می الون "
اس کا غصہ دیکھ کر گلاب تو اٹھ گئی مگر وہ اس کے لیے پریشان ضرور ہوئی تھی کہ اسے کیا ہوا ہے صبح تو اچھی خاصی خوش گئی تھی ۔"
 وہ دروازہ بند کر کے لیٹ گئی مگر اس کی آنکھوں سے نیند کا فی دور تھی تقریباً رات کے کھانے کا وقت تھا جب دروازے پہ دستک ہوئی آنے والے سعدی تھے جن کے ہاتھ میں کھانے کی ٹرے تھی وہ باپ کو دیکھ کر فوراً اٹھ بیٹھی تو انہوں نے پوچھا کہ
"میں نے سنا ہے کہ آج میرے پھول نے کچھ بھی نہیں کھایا اور غصہ بھی کافی ہائی ہے "
 اسے اپنی بہن پر بہت غصہ آیا پیٹ کی کچی گلابو مجال ہے جو کوئی بات اپنے تک بھی رکھ لے " مگر وہ صرف اتنا بولی ۔
" نہیں ایسی کوئی بات نہیں نیا نیا ماحول ہے نا اس لیے اجسٹ نہیں کر پا رہی یونی میں "
 تو سعدی بولے "بیٹا اجسٹ انسان خود ہوتا ھے خود کو حالات میں ڈھالنا سیکھو ضروری تو نہیں کہ جو ہم سوچیں وہی ھو" ایسی بہت ساری نصحتیں کرنے کے بعد وہ چلے گئے اور وہ گہرا سانس لے کر کھانا کھانے لگی…………………
٭٭٭٭٭٭
اس کے حواس واپس آ رہے تھے اور اسے اپنے ہاتھ پر چبھن کا احساس ہو رہا تھا آس پاس آوازیں آیسی تھی جیسے 2 یا 3 لوگ ایک ساتھ بول رہے ھو ں اور اسے محسوس ہوا کہ وہ انگاروں کے پاس ہے بہت پاس اتنی جلن تھی کہ اسے اپنا آپ بہت جلتا ہوا محسوس ہو رہا تھا اور اس کی آنکھیں اتنی بوجھل تھیں کہ کھولی ہی نہیں جا رہی تھیں اور پھر اس کے واپس آتے حواس بھی جانے لگے اندھیرے گھپ اندھیرے میں وہاں جہاں اسے اپنا آپ بھولتا محسوس ہوا…………………
وہ صبح نا چاہتے ھوئے بھی یونی گئی اس لیے نہیں کہ اسے پڑھنا تھا بلکہ اس لیے کہ کہ گلزار یہ نہ سمجھے کہ وہ ڈر گئی ہے اس کے ہاتھ اٹھانے سے وہ ابھی تھوڑی دور گئی تھی کہ اسے حماد فون کان سے لگائے جھنجھلایا ھوا نظر آیا مگر وہ اسے نظرانداز کرتی وہاں سے جانے لگی تو وہ فوراً پکار اٹھا ۔
"سنو گل " وہ واپس پلٹی اور بیزاری سے بولی ۔
"جی"
 " مجھے نہیں پتا تمہاری اور اس کی کیا لڑائی ہے مگر میں صرف اتنا کہوں  گا کہ اس کی لائف پہلے ہی کافی ٹف ہے اس لیے پلیز اسے بخشوآپ۔ " آخری فقرہ بولتے وہ بھی بیزاری کا مظاہرہ کر گیا تو وہ فوراً بولی ۔
" سنیے مسٹر حماد شروعات انہوں نے کی تھی او رہی ٹف لائف کی بات تو زندگی کسی کی بھی آسان نہیں ہوتی اگر اس کی لائف ٹف ھے تو وہ اکلوتا ایسی لائف نہیں جی رہا ،باقی بھی بہت سے لوگ ٹف لائف جیتے ہیں یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔"انداز ایسے تھا جیسے دنیا جہان کے سب دکھ گل کے نصیب میں لکھ دیے گئے ہوں  مگر حماد کی بات سن کر اس کے گلزار کے معاملے میں خیالات ضرور بدلے تھے۔
 " ہاں سب کی لائف ٹف ہوتی ہے ہر بچہ پیدہ ہونے کے 20 دن بعد ملازمہ کے حوالے کر دیا جاتا ہے تا کہ وہ اسے فیڈ کرائے کیونکہ اس کے ساتھ رہنے سے اس کی والدہ کی روٹین ڈسٹرب ہوتی ہے اور بعد میں ہر بچہ اس کی دادی کے حوالے کر دیا جاتا ہے کیونکہ پیدا کرنے والی ماں کے پاس اس کے لیے وقت نہیں ہوتا اور ہر بچہ روز رات کو کھانے کی میز پر سوتا ہے تا کہ اس کے ماں باپ جس وقت پر بھی آئیں وہ کھانا ان کے ساتھ کھائے اور رزلٹ والے دن ہر وقت نظریں گیٹ پر رکھتا ہے کہ شاید پچھلی بار کی طرح اس بار اس کے ماں باپ اس کا رزلٹ ڈے نا بھولے ہوں، ہر بچہ جب رو کر ماں کو بلاتا ہے تو اسے ماں سامنے نہیں دکھتی کیونکہ اس دنیا میں سب کی لائف ٹف ہے بالکل گلزار جیسی۔ "
 وہ حق دق اس کی باتیں سنتی گئی جیسے اس کے پاس بولنے کو کچھ بھی نہ ہو اور حماد جاتے جاتے واپس پلٹااور بولا ۔
"میرا دوست اس وقت ہاسپٹل میں ہے، دعا کرو وہ جلد ٹھیک ہو جائے ورنہ بدلے کا حق تو اللہ نے ہر انسان کو دیا ہے۔ " وہ کہہ کر رکا نہیں مگر گل کو لگا کہ ہر چیز جیسے جمود کا شکار ہو گئی ہو، اس کا وجود اس کے ارد گرد کے درخت فوارے سے نکلتا پانی رک گیا ہو حتٰی کہ اس کی سانس بھی کیونکہ اسے لگا کہ حماد نے اس کے سر پر بم پھوڑاہے………………
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اب کی بار وہ جلدی ہوش میں آ رہا تھااسے چہرے پر کسی اپنے کا پہلا لمس محسوس ہوا جو بار بار اسے چھوتا جیسے کسی چیز کی یقین دھانی کر رہا ہو مگر پھر ہٹا لیا جاتا مانوس سا پرفیوم جو جانا پہچانا لگتا مگر یاد نہیں کون لگاتا تھا پھر اس پر کسی کی سانس کی پھوانوار پڑی جیسے کوئی دعا دے کر اس پر پھانک رہا ہو زہن پر زرہ زور دینے پر یاد آیا تو صرف اتنا دادی ہاں دادی ایسے کرتی ہے، روزانہ یونی جانے سے پہلے اور ہر وقت جب انہیں موقع ملے ۔آنکھیں ابھی تک بند تھی مگر زہن قطرہ قطرہ واپس آرہا تھا مگر پھر سے وہی لمس ایسے کون کرتا تھا اسے یاد نہ آیا پھر اک جانی پہچانی آواز پہ وہ چونکا۔ الفاظ سمجھ میں نہ آئے مگر لہجہ کسی اپنے کا تھا اس کی یہ نیم بےہوشی شاید دوائی کا اثر تھی تبھی وہ آدھی چیزیں سمجھ رہا تھا مگر یہ بھی تھوڑی دیر تک چھٹتی محسوس ہوئی اس نے آہستہ سے آنکھیں کھولیں تو وہی لمس کسی کا ہاتھ اس کی گا ل کی طرف بڑھ رہا تھا اور وہ زی روح اسے دیکھ کر بولنے لگا مگر گلزار کے جیسے لب اور کان بند ہو گئے۔ کافی دیر بعد جب وہ نہ بولا تو کوئی اس پر جھکا اور بولا ۔
" ماں دیکھیں یہ بول کیوں نہیں رہا" اس نے نظریں پھیر کر اس انسان کو دیکھا مگر اس کا دماغ ایک لفظ پر اٹک گیا ۔
"ماں" اس نے نظریں پھیریں تو یاد آیا سامنے آنسوؤں سے لبریز آنکھیں اس کی ماں کی ہیں۔ اس کے لب پھڑپھڑائے۔
 "ماں " بے شک اس نے دنیا کا خوبصورت ترین لفظ ادا کیا تھا تو دوسری طرف سے فوراً جواب آیا ۔
" جی میرے بچے" اور اسے یاد آیا اس نے ماں کو آخری بار کب دیکھا تھا اپنے انٹر کے پیپرز میں ان کے ایک بزنس ٹور سے پہلے 5 ماہ پہلے مگر اس دن اور آج کے دن میں فرق تھا …………………………
وہ نیند کی گولیوں کے سبب جلد ہی سوگیا مگر اندر کا خلفشار تیزی سے باہر نکلا اور اسے بخار ہو گیا اور سونے پہ سوہاگہ اے سی آن ہونے کی صورت میں اس کی طبیعت اور بگڑتی گئی مگر خبر کسے تھی وہ تو بے سدھ سو رہا تھا ساری رات کی خرابی حالت کے سبب وہ صبح بھی نہ اٹھا تو دادی فکر مندی سے اس کے پاس آئی مگر اس کی حالت دیکھ کر ان کے اوسان بھی خطا ہو گئے۔ اسے ہاسپٹل لانے کے بعد اصل خطرے کا پتا چلا پوری رات کی بے احتیاطی کا نتیجہ شدید قسم کا ٹائفائیڈ نکلا تو دادی کے رہے سہے اوسان بہو بیٹے کو فون کر کے جاتے رہے ،جب سعود اور حمیرہ نے ڈاکٹر سے بات کی تو انہیں بھی پریشانی لاحق ہوئی مگر اس میں اپنے کام کے ادھورا ہونے کا اضطراب بھی تھا مگر حمیرہ کا یہ اضطراب تب ختم ہوا جب وہ گلزار کے ساتھ رات میں رکی ،وہ ان کا بیٹا تھا پریشانی جائز تھی تبھی گلزار کی آواز آئی ۔
"امی" وہ فوراً واپس پلٹی مگر یہ کیا وہ تو نیند میں تھا وہ حیران ہوئی مگر تھوڑی دیر بعد ان کی حیرانی ایک جھٹکے میں بدلی جب گلزار کے منہ سے نکلا۔
" امی واپس آجائیں  نا ،آپ کا گلزار اکیلا ہے وہ آپ کے بغیر...." اس کا جملہ آگے بے ربط ہو گیا مگر ماں کا دل جیسے مٹھی میں آ گیا اور انہیں احساس ہوا کہ جس کے لیے وہ پیسے کما رہے ہیں وہی ان کے بغیر ادھورا ہے اور آج انہیں پتا چلا کہ انہوں نے اسے 20 دن کے علاوہ کبھی غور سے نہیں دیکھا اور آج وہ 20 سال کا ہو چکا تھا، اسے ہوش آیا تو ان کا سر شرمندگی سے جھک گیا کیونکہ ان کے بیٹے کو ابھی تک یقین نہیں آرہاتھا کہ اس کے والدین اس کے ساتھ ہیں ……………
وہ جیسے ہی اٹھا اے حیرت ہوئی کہ اس کی ماں اس کے ساتھ ہیں اور پھر وہ ان کے ہاتھوں میں منہ دے کر رو پڑا اور رات والے الفاظ دھرائے۔
 "امی آپ کا بغیر گلزار ادھورا ہے مجھے آپ کی بہت یاد آتی ہے۔"
اور وہ بولی تو صرف اتنا۔
 "اب آگئی ہے امی اب گلزار بالکل اکیلا نہیں ھو گا کیونکہ ماما کبھی گلزار کو اکیلا نہیں چھوڑے گی۔ " وہ اسے ایسے دلاسہ دے رہی تھی جیسے وہ 20 سال کا نہیں 20 ماہ کا بچہ ہو اس کی سماعتوں سے الفاظ ٹکرائے پھر آنکھیں بے یقینی میں ڈھلیں اور اگلے ہی پل یقین و بے یقینی کے آنسو روا ہوئے اور دکھ کی چھایا چھٹتی محسوس ہوئی ……………
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ 2 ہفتے سے پریشان تھی اسے گل سے معافی مانگنی تھی مگر وہ یونی نہیں آ رہا تھا اور حماد اس سے بات ہی نہیں کر رہا تھاورنہ وہ اس سے گلزار کے متعلق پوچھتی پھر اس نے کچھ سوچ کر مہرو کو حماد کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس کے بارے میں پتہ کرے مگر وہ اس سے براہ راست کچھ پوچھتی تو اسے شک ہو جاتا اس لیے اس نے پہلے حماد سے کچھ اوربات کرنا مناسب سمجھا تاکہ وہ بعد میں دوستی کی آڑ میں اس سے گلزار کا پوچھ سکے مگر یہ دوستی کی آڑ ایسی ثابت ھوئی کہ وہ گلزار کے بارے میں تو کچھ نہ پوچھ سکی مگر گل کے بارے میں سب کچھ بتا دیا اور گل خود کو کوستی رہ گئی کہ اسے بھیجا کیوں مگر اب 2 ہفتے ہو گئے تھے اس گلزار کا کچھ اتاپتا نہ تھا…………
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس کا سر ماں کی گود میں تھا اور نظریں موبائل پر جو اس نے آج نیا لیا تھا کیونکہ پہلے حمیرہ نے اسے بیماری کی وجہ سے لینے نہیں دیا تھا تو اچانک اس کی ماں بولی ۔
"تم مجھ سے ناراض نہیں ہونا گل؟"
تو وہ فوراًسیدھا ہوا اور بولا۔
 "ناراض اور میں؟؟ مگر کس لیے؟"
 تو حمیرہ بولی۔
" میں نے اتنے سال تمہیں خود سے دور رکھا اس لیے۔"
اس بات پر گلزار مسکرایا اور بولا۔
"" آپ کو پتہ ہے امی جن سے ہم محبت کرتے ھیں نا تو ناراض ہونے کا سارا حق اسے سونپ دیتے ہیں۔ تب ہمارے پاس فقط اک امید رہ جاتی ہےکہ خدا کرے کہ ہمارا دیا ہوا حق ہم پر ہی استعمال نہ ہو جائےاور میں آپ سے بہت محبت کرتا ہوں۔" آخری بات کہتے وہ پھر سے ان کی گود میں سر رکھ چکا تھا اور وہ شرارت سے بولی ۔
" اللہ خیر کرے اتنی بڑی باتیں۔ " وہ فوراً اٹھا ۔
"نہیں ایسا کچھ نہیں الٹامت سوچیے آپ" وہ فوراً بولا اور اس کی گھبراہٹ پے وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی تو وہ فوراً بولا ۔
" مجھے صبح یونی جانا ہے میں کمرے میں جا رہا ہوں " تو حمیرہ فوراً اس کے سامنے آئی " 2 ہفتے سے یہ خیال کیوں نہیں آیا تمہیں اور اب اچانک ماں سے منہ چھپا کر بھاگ رہے ہو؟" وہ تھوڑا سنبھل چکا تھا اس لیے فوراً بولا ۔
" اب تو ٹھیک ہو گیا ہوں  اور حماد بھی روزانہ سر کھاتا ہے کہ اب یونی آ جاؤ"
" اچھا جاؤ ،اللہ میرے بچے کو ہمیشہ ایسے ہی خوش رکھے۔" ذومعنی انداز میں دعا سن کر وہ جھنپ گیا اور اپنے روم میں چلا گیا ..روم میں آتے ہی وہ کل کے بارے میں سوچنے لگا اسے حماد کی زبانی گل کا پتا چل چکا تھا کہ وہ اس سے معافی مانگنا چاہتی ھے اور وہ سوچ رہا تھا ۔
" گل اور معافی ہاو انٹرسٹگ………… "
٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ یونی پہنچی تو پہلا سامنا مہرو سے ہوا تو مہرو فوراً بولی۔
" گل بات سنو" مگر وہ ان سنی کر کے چلتی رہی تو ہ بولی۔
" ابھی تک ناراض ہو ؟"
مگر جواب ندارد مگر اس نے پھر بھی اس کا پیچھا نہ چھوڑا تھوڑی دیر چلنے کے بعد مہرو بولی۔
"آج گلزار آیا ہوا ہے" تو وہ فوراًپلٹی اور بولی۔
 " کہاں ہے وہ؟" مہرو کے راستہ بتانے پر وہ تیزی سے گلزار کی طرف بڑھی………
وہ گراؤنڈ میں کسی سے بات کر رہاتھا فارغ ہو کے واپس پلٹا تو سامنے گل آرہی تھی اور وہ بڑبڑیا ۔
"او آ گئی چڑیل مگر اتنا جلدی ؟" وہ قریب آئی تو بولی ۔
" کیسے ہو بہ…سوری گلزار "
 گلزار کو اس کے ادھورے بات چھوڑنے پر ہنسی آئی مگر ضبط کیے رہا ۔
" ٹھیک ہو ں"
گل نے اس کے لہجے میں سنجیدگی دیکھی تو فوراًبولی ۔
" ائیم سوری مجھے نہیں پتا تھا کہ بات اتنی بڑھ جائے گی۔ "
مگر گلزار آرام سے بولا " لیو اٹ " مگر وہ بھی فوراً بولی ۔
" پلیز گلزار سوری" اور آخری بات پر اس کا گلا رندھ گیا گلزار نے چونک کر اسے دیکھا اور اپنے دل کو یقین دہانی کروائی ۔
" ہا ں میں اسے ناراض ہونے کے سارے حق دے چکا ہوں  اور اب میرے پاس صرف امید باقی ہے ۔" مگر یہ حق اسے کب دیا یہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔
وہ زرا سا مسکرایا اور بولا۔
" چلو معاف کیا مگر اک شرط ھے…………"
"شرط کیسی ؟" وہ حیران ہو کے بولی۔
" آج میرا لنچ ٹائم پر پیسے خرچ کرنے کو دل نہیں کر رہا۔" گلزار شرارت سے بولا گل فوراً سمجھ گئی اور بولی۔
" کنجوس انسان تمہارا نام بہن جی غلط رکھا ہے بدلنا پڑے گا، کھلا دو ں  کھانا اب میں ایک انسان کے لیے خیرات تو دے سکتی ہوں  نا، لنچ ٹائم کنٹین میں ملتے ہیں ۔" اور وہ چلی گئی اور آج گل کا اسے بہن جی بلانا بالکل بھی برا نہیں لگا کیونکہ وہ ناراض ہونے کا حق کھو چکا تھا ……………
وہ کنٹین کی طرف آ رہی تھی تبھی اسے گلزار حماد اور مہرو کے ساتھ آتا نظر آیا اس کی تیوری چڑھی اور قریب آتے بولی ۔
"یہ دونوں یہاں ؟" ابرو اچکا کے گلزار سے پوچھا۔" کیوں آئے ہیں تمہارے ساتھ ؟"
تو گلزار فوراً بولا ۔
"چڑیل معافی مانگنے آئے ہیں بیچارے معاف کر دو انہیں۔ " تو حماد بولا ۔
" پلیز گل معاف کر دو مجھے تم نہیں جانتی کہ میں کتنا شرمندہ ہوں۔ "
 گل نے اسے دیکھا پھر مہرو کے التجایہ چہرے کو مگر اتنا بولی ۔
"ہمممم ٹھیک ہے " انداز ایسے تھا جیسے بول رہی ہو " جاؤشہزادی نے معاف کیا کیا یاد کرو گے" اس کے بعد گلزار فوراً بولا۔
" چلو اسی خوشی میں چڑیل ہمیں لنچ کروا رہی ہے" گل نے اسے دیکھا جیسے کہہ ہی ھو کنجوس انسان اپنے پیسوں سے نہیں کھلا سکتے ۔" مگر ضبط کر کے ان سب کے ساتھ کنٹین چل پڑی چلتے ہوئے اس سے گلزار نے پوچھا ۔
"میں تمہیں چڑیل بلا رہا ہو ں تمہیں برا نہیں لگا ؟کوئی ری ایکشن بھی نہیں دے رہی ؟"
 تو گل فوراً بولی " میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر منہ نہیں بناتی " گلزار مسکرایہ مگر کوئی جواب نہ دیا تو گل نے اس کی طرف حیرانی سے دیکھا اس کے منہ کے زاویے بگڑے ہوئے تھے ۔حماد اور مہرو آگے چل رہے تھے اس لیے انہیں کچھ پتا نہ چلا گل نے اس سے پوچھا ۔
"کیا ہوا؟ " تو وہ فوراً بولا ۔
" خون کی بو" جبھی بائیلوجی ڈپارٹمنٹ کے سٹوڈنٹ اپنے تجربے کے لیے سامان لے کے ان کے قریب سے گزرے بو انہی کے سامان سے آرہی تھی وہ جیسے قریب سے گزرے گلزار فوراً سائڈ پے ہوا ۔
"آخ تھو"گلزار کی آواز پر حماد پلٹا بات سمجھنے کے بعد بتانے لگا کہ
" محترم کو خون دکھتے ہی اس کا ذائقہ منہ میں محسوس ہونے لگتا ہے اس لیے یہ سب ہو رہا ہے "
گل گہرا سانس لے کے رہ گئی "یہ بہن جی بھی نا پورا ڈرامہ ہے ڈرامہ " وہ بس سوچ کے رہ گئی اور بولی ۔
" آج اگر لنچ کینسل کیا تو میں دوبارہ قربانی نہیں دو ں گی ۔" مگر گلزار اٹھ کھڑا ہوا اور بولا ۔
" چلو ہم غریب عوام مفت کی چیز کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ " اور وہ کنٹین کی طرف چل دیے مگر کنٹین میں جا کے بھی اس کا موڈ ویسا رہا تو حماد نے اس کا موڈ بدلنے کے لیے کہا ۔
" جب تک کھانا نہیں آتا truth r dareکھیلتے ہیں "
 دونوں لڑکیوں نے رضامندی دے دی مگر گلزار چپ رہا تو سب سے پہلے حماد نے مہرو سے پوچھا تو وہ بولی ۔
"ٹرتھ ' ڈیر میرے بس کی بات نہیں " تو حماد بولا ۔
"آج تک کتنے ہائی سکور کئے میچ میں؟ " تو مہرو فوراً بولی۔
 " دماغ استعمال کریں  پلیزمیں لڑکی ہوں  میچ لڑکے کھیلتے ہیں۔ "
 وہ حماد کو شرمندہ کرنا چاہتی تھی مگر وہ یہ سب جان بوجھ کر گلزار کا موڈ ٹھیک کرنے کے لیے کر رہا تھا تبھی گل مسکراتے ہوئے بولی۔
" حماد تم تو ویسے بھی ٹرتھ لو گے تو یہ بتاؤ اس بہن جی کی طرح تمہیں کس چیز پر آخ تھو کرنے کا شوق ہے تا کہ وہ میں اپنے پاس ہمیشہ رکھوں "
 حما د نے بولنے کے لیے ابھی لب کھولے ہی تھے مگر گلزار فوراًبولا ۔
"گل تم بھی ٹرتھ ہی لے لو اور اتنا بتاؤ کہ اس دنیا میں کون سی ایسی عظیم ہستی ہے جسے تم اس کے سیدھے نام سے بلاتی ہو؟ " گل سوچ میں پڑ گئی مگر پھر آرام سے بولی ۔
"فلحآل تو کوئی بھی نہیں " اور گلزار گہرا سانس لے کے رہ گیا ۔
" اب تو اللہ ہی حافظ ہے " تو گل بولی ۔
تم بھی ٹرتھ لو گے نا ؟" مگر گلزار فوراً بولا ۔
"نہیں مجھے ڈیر چائیے ۔"اب گلزار موڈمیں آچکا تھا پہلے تو گل سوچتی رہی مگر پھر اچانک بولی۔
 "کل 2 بجے تمہیں ڈیر ملے گا مگر جو ہار گیا وہ پھر جیتنے والے کی 2 باتیں مانے گا ۔"۔ تو گلزار فوراً بولا OK DONE ……………………
گل نے ان تینوں کو باہر بلایا جب وہ آگئے تو انہیں اپنی گاڑی میں بیٹھا کر خود ڈرائیونگ کرنے لگی وہ سینما ہال کی طرف بڑھے تو گلزار فوراً بولا ۔
"چڑیل یہ کیا مووی دیکھنے لائی ہو؟ یہ بھی کوئی ڈیر ھے بھلا ،ایسے ڈیر تو میں دن رات کر سکتا ہوں" حماد اور مہرو نے بھی اسی کی تقلید کی مگر گل آرام سے اپنی ہنسی دبائے چلتی رہی وہ ہال میں پہنچے تو لوگ آچکے تھے اور فلم شروع ہونے والی تھی تو گلزار بولا۔
" کون سی مووی دیکھاؤ گی؟"
 تو وہ جھٹ سے بولی )RESIDENT EVIL)final chapter یہ کون سی مووی ھے چلو کچھ تو نیا دیکھنے کو ملے گا مجھے تو لگا تھا کہ وہی پرانی گھسی پٹی سٹوریز دکھانے لائی ہو " گلزار کی بشاش آواز آئی تو وہ فوراً بولی۔
" ہاں ہاں بندے کو کچھ نیا آزمانہ چاہے " تبھی مووی شروع ھو گئی گلزار دیکھتا رہا پہلے اس بڑی سی چیل نما بلا کی موت مگر وہ ضبط کر گیا اور گل کو بولا ۔
"یہ کیا دکھانے لے آئی ھو؟"
 مگر گل آرام سے چپس کھاتے ہوئے بولی ۔
"تم تو ایسے ڈیر دن رات بیٹھ کر کر سکتے ہو چلو یہ بھی کرو۔ "
 اب عزت کا سوال تھا گل سکون سے بیٹھا رہا مگر ضبط آخری حدوں کو چھو رہا تھا مگر عزت کی خاطرچپ رہا اور پھر سب ضبط سے چلتا رہا ولن کا ہاتھ کٹا فوراً اس نے آنکھیں میچیں مگر پھر بھی بیٹھا رہا مگر لفٹ والے سین میں اس کی برداشت ختم ہوئی ،اسے بے اختیار ابکائی آئی، منہ پر ہاتھ رکھ کر وہ دروازے کی سمت بھاگا ۔حماد بے اختیار اس کے پیچھے آیا گل نے اس کی حالت دیکھ کر لوگوں کی پرواہ کیے بغیر بے اختیار نعرہ لگایا YAHOO میں جیت گئی مہرو جو ابھی تک یہ سب برداشت کر رہی تھی بولی۔
" گل تم نہایت ہی واہیات انسان ہو۔ "
 مگر وہ قہقہہ لگاتے پیٹ پر ہاتھ رکھے بولی " ہاں وہ تو میں ہوں"
"اچھا میں جا رہی ہو اس سے اچھا میں سر بلال کا لیکچر تیار کر لو" مہرو جاتے جاتے بولی مگر گل آرام سے بولی ۔
" ہاں جاؤ میں تم لوگوں کی خطر اپنی فیورٹ مووی کی قربانی نہیں دے سکتی۔" اور مہرو جاتے ہوئے بڑبڑائی۔
 "فیورٹ مووی اف صحیح کہتا ہے گلزار پکی چڑیل ہے اس لیے تو ایسی چیزیں دیکھتی ہے آخ تھو"
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


CLICK ON READ MORE TO CONTINUE READING


Comments