از"مونیثہ
فاطمہ"
(Part 1)
وہ بازار میں ایسے چل رہی تھی جیسے وھاں اس کے علاوہ
کوئی بھی نہ ھو اک دو بندوں کو تو وہ ٹانگ بھی مار چکی تھی کہ شاید کوئی گر جا ے
مگر بے سود …پھر اچانک وہ تیز چلتی گئی کیونکہ مٹر گشتی بہت ھو چکی تھی ۔
اور پھر اچانک سے موڑ مڑتے ھوے وہ کسی سے ٹکرائ اور
گرتے گرتے بچی وہ جو بھی تھا جلدی سے مڑا اور کہا ۔
"اندھی ھو کیا دکھتا نہیں ھے"
تو وہ بھی فوراًبولی "ھاں ھو ں مگر تمھاری انکھیں
بھی لگتا ھے کرایے پر گی ھوئ ھے"
"جاھل نہ ھو تو " لڑکے نے غصے سے
کہا
"کیا کہا تم نے ؟"وہ بھی فوراً
بولی مگر لڑکا چپ کر کے اپنا سامان اٹھانے لگا مگر لڑکی غصے سے اسے دیکھتی رہی
تھوڑی دور ٹھہرے لڑکے نے وہیں سے آواز لگائ"اوے
گلزار کتنی دیر لگائے گا ھم لیٹ ھو رھے ہیں "
گلزار
یہ کیسا نام ھے لڑکیوں والا۔" اس نے سوچا مگر وہ تو بدلے کی گھڑی تھی اور یہ
گھڑی گل کیسے گنواتی وہ فوراً بو لی۔
"بہن جی اپ کو ٹکے کی تمیز نہیں ھے
"
وہ فوراً واپس پلٹا ادھر ادھر دیکھا مگر وہ صرف اسے ھی
دیکھ رہی تھی ۔
" یہ بہن جی کس کو بولا؟ "
"اپ کے فرشتوں کو" وہ بھی فوراًبولی ۔
"دکھتا نہیں ھے لڑکا ھو ں میں "اس
بار غصہ غالب تھا ۔
"انسان اپنے نام سے پہچانا جاتا ھے
" وہ بھی فوراً بولی تھی۔
"میرا نام ھے تمہیں کوئ مسلہ ھے کیا ۔
"ھا ھے مسلہ بہن جی "
" کہا نا بہن جی نہ بولو " وہ غصے
سے بولا۔
"بولو گی بولی گی بہن جی بہن جی " وہ
بھی ہٹ دھرمی سے بولی
"رکو اک منٹ میں بتاتا ھو تمھیں"
وہ دو قدم آگے بڑھ کر بولا وہ اس کے ارادے سمجھ کر پیچھے کو بھاگی اور وہی سے آواز
لگائ۔
"بہن جی سچ میں آپ کا نام بہت پیارا ھے
…گلزار … کیا خوب رکھا ھے کسی نے " وہ قہقہہ مار کر وھاں سے غاھّب ھو گی اور
وہ بے بسی اور غصے سے اسےغائب ہوتا دیکھتا رہا جو اس کی زندگی کے گٹار کی اک پرانی
دھن انجانے میں چھیڑ گئی تھی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭………
وہ گھر پہنچی تو شام ھونے والی تھی وہ سیدھی اپنے کمرے
میں گئ کل کے کپڑے نکالے کیونکہ کل اس کا دن مصروف جانے والا تھا وہ کمرے کے باھر
آتے ھی کچن میں چلی گئ اور بولی۔
"اماں آپ کچن کو چھوڑ رہی ھے یا میں آپ کو
اٹھا کے لے جاوں"
"بد تمیز لڑکی اماں کو کوئ ایسے بولتا
ھے " یہ الفاظ گل کی بڑی بہن گلاب کے تھے اور اس بات پرگل کی تیوری چڑھی ۔
"سنو سڑا ھوا گلاب میری اماں اور میرے
معاملے میں مت بولا کرو چلو اماں کچن کو چھوڑو ورنہ میں اٹھا کے باھر چھوڑ او
گی"
اماں
آپ جاے ھم دونو سنبھال لے گے ۔"اب کی بار گلاب بولی اماں جاتے ھوے صرف اتنا
بولی ۔
"امید ھے آج ھمیں خآلی برتن کھانے کو نا
ملیں ۔"
"فکر نا کرے اماں یہ گلاب کا پھول کس
کام اے گا "گل بولی اماں کے جانے کے بعد گلاب بولی۔
"سنو کل کی تیاری کیسی ھے؟"
" پتا نہیں گلابو میرا کیا ھو گا کل
۔"
" تم سیدھے نام نہیں لے سکتی
."گلاب نے مصنوعی غصے سے کہا۔
"نہیں" گل بھی کمال کی ضدی تھی ۔
" کیوں؟" گلاب بولی ۔
"میری مرضی میری زبان ھے جیسے استعمال
کروں" اور یہ بات کہتے ھوے اسے گلزاد کا غصہ یاد ایا اور وہ ھنسنے لگی ۔
"گل تم پاگل ھو اک دم کبھی پٹو گی تم
۔"
" اچھا فلحال اچھا سا کھانا بنا لے خواب
بعد میں دیکھنا " وہ جاتے ھوے بولی۔
"تم کہا ں جا رہی ھو میں اکیلے یہ سب نہیں
کر سکتی "گلاب بولی ۔
"اچھی بیٹیاں نخرے نہیں کرتی چلو کام
کرو میں زرا شیخ سعدی کی اولاد کو دیکھ لو" گل بولی ،
"شرم کرو گل ابو کا نام تو سیدھا لیا
کرو، " گلاب کے بولنے سے تک وہ غاءب بھی ھو چکی تھی ...……………………
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سعدی ھاوس میں کل پانچ فرد تھے اک سعدی احمد دوسری ان
کی بیوی زرمینہ بڑی بیٹی گلاب جو کہ ماسٹرز کر رہی تھی دوسری گل بہار جس کی BSکی
کل پہلی کلاس تھی اور بیٹا ارحم جو کہ میٹرک میں تھا اور گل صاحبہ ان دونوں پر
ایسے رعب رکھتی جیسے ان سے بات کر کے احسان کر رہی ھو ……………………
وہ جیسے ھی ارحم کے روم میں گئی، ارحم نے دیکھتے ھی
کتاب بند کر دی کیونکہ اب تو حساب کی گھڑی تھی ..
" میری پیاری آپی ائی ھے "اارحم
چہکا ..
"چلو چلو مکھن نا لگاؤ پیسے نکالو
.."گل بولی ..
"آپی نہیں ھے میری اب کی بار پیسے نہیں
ھے ۔"ارحم بولا ۔
"نہیں ھو آپی جگرا نہیں ھے تو شرط کیوں
لگائی۔" گل بھی اجرت لینے کو بےتاب تھی ۔
بات یہ تھی کہ 2 دن پہلے ارحم اور گل کی ریس تھی اور گل
میڈم جیت گئی اور اب افت بنی بھائی کے سر پر کھڑی تھی تو اب نا چار ارحم کو اسے
اپنے ھارنے کی اجرت دینے پڑی اور وہ یہ سوچتے اٹھ گئی کہ یونی کے پہلے دن ہی پارٹی
واہ گل تو جیئنس ھے اس نے خود کی تعریف کرتے ھوے اپنے شانے کو تھپکی دی،
وہ سامان اٹھا کر گاڑی میں آیا اور فوراً حماد پر غصہ
نکالا،
"کہاں تھے تم کتنی دیر انتظار کیا میں نے
ایک تو اتنا سامان اور اوپر سے وہ آفت میں گلا دبا دو ں گا اس کا چڑیل بھوتنی جاھل
لڑکی نہ ھو تو۔"
" کیا ھو گیا کس کی بات کر رھا ھے
"حماد بولا۔
"کسی کی نہیں تو چل مجھے گھر جانا ھے
۔"وہ غصے کو قابو میں کرتے ھوے بولا…
گھر
پہنچ کر وہ اپنے کمرے میں جانے کے بجاے خدیجہ کے کمرے میں ایا وہ بیٹے کو دیکھتے
ھی فوراً بولی ۔
"ا گیا میرا شہزادہ " وہ ان کے پاس
آکر بیٹھا اور بولا ۔
"قسم سے دادی آپ میرا یہی نام رکھ دیتی
مگر یہ لڑکیوں والا نام نہ رکھتی ۔"
وہ ھنستے ھوے بولی ۔"پھر کسی نے تنگ کیا ھے
؟" کیونکہ وہ ھر بات صرف دادی سے ھی شئیر کرتا تھا اس لیے وہ پوچھنے لگی اور
بدلے میں اس نے سب کچھ بتا دیا تو وہ ھنستے ھوے بولی۔
"تم کہہ دیتے کہ میں بہار میں پیدا ھوا تھا
اس لیے میرا یہ نام رکھا گیا۔"
" او دادی اپ بہت معصوم ہیں مگر بچپن میں
یہ جواب دے کر بہت تنگ ہوا ہوں مگر اب کچھ اور سوچتا ہوں وہ مجھے ملے تو سہی منہ
توڑ جواب دو ں ا میں اسے"……………
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گلزار کی پیدائش بہار میں ھوئی تھی .وہ اپر کلاس سے
تعلق رکھتا تھا اس لیے جلد ھی ملازمہ کے حوالے کر دیا گیا، وہ اسے جتنا سنبھالتی
مگر ماں جتنا پیار کہاں سے لاتی ..
سعود اور حمیرا تو جیسے بچے کو بھول گئے تھے وہ اس کا
ایسے حال پوچھتے جیسے یہ کسی اور کا بچہ ھو.
خدیجہ کو جیسے بیٹے کا حال معلوم ھوا وہ بھاگی
بھاگی آئی اور پوتے کو سنبھالا اور اس کا نام بھی رکھا مگر بیٹے بہو کے کہنے پر وہ
گلزار کے لیے وہ یہیں رہ گئی اور ان کے بیٹے بہو تو جیسے گھر میں مہمان تھے ،اس
لیے گلزار نے ان کو گھر میں کم ہی دیکھا تھا اس لیے وہ دادی سے اٹیچ تھا جب بچپن میں
اسے بچے گل گل بلاتے تو وہ رو کے دادی کے پاس آتا مگر دادی کہتی ان سے کہو کہ میں
بہار میں پیدا ھوا اس لیے میرا نام گلزار ھے مگر بچے اسے چھیڑتے کہ تو گلزار تو بن
گیا مگر گلاب کب بنے گا اس پل اسے ماں بہت یاد آتی ،وہ سوچتا جیسے حماد کی مما
سکول آ کر حماد کو تنگ کرنے والو ں کو ڈانٹتی ہے اس کی مما بھی آتی اور اسے سینے
سے لگا کر کہتی کہ گلزار مت رو اب مما آ گئی ھیں اب کوئی میرے بچے کو تنگ تو کر کے
دکھائے مگر اس کی حسرت آج بھی حسرت تھی ………
حماد اور وہ بچپن سے ساتھ تھےہمسائے تھے اسی لیے سکول
اک تھا اور کالج بھی اک رکھا اور اب آگے کی پڑھائی بھی ساتھ کر رہے تھے گلزار
فارمل سا بندہ تھا کسی سے زیادہ گھلتا ملتا نہیں تھا نہ ہی زیادہ ہنستا بس حماد کے
ساتھ ہی وہ ھر وقت لگا رہتا کیونکہ وہ دوستی کرنے میں کورا واقع ھوا تھا مگر آج کے
واقعہ کے بعد وہ سوچ چکا تھا وہ اس چڑیل کو نہیں چھوڑے گا اسے جہاں ملی وہیں اسے
سبق سکھائے گا اسے بتائے گا کہ گلزار احمد کیا چیز ہے جس سے اس نے ٹکر لی تھی مگر
وہ ملتی تب حساب پورا ھوتا اور اس کے ملنے کے دور دور تک کوئی چانس نہیں تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ صبح صبح اٹھ گئی تھی تبھی وہ نماز پڑھنے کے بعد اپنے
لیے ناشتہ بنا رہی تھی تو اس کی ماں نے حیران ھو کہ اس کے گال کو چھوا ۔آج گل بی
بی بغیر بلائے یہاں کیسے تو وہ پہچھے ھوئی اور بولی ۔
"اماں نا کرے نا آج فرسٹ ڈے ھے کیا ھو
گا میرا ،آپ کو یاد ھےآپی یونی کے فرسٹ ڈے گھر روتی ھوئی آئی تھی۔ "
اسی وقت سعدی اندر آئے اور بولے ۔
"ھمارے بچے کے پاس کسی مصیبت کا حل نہیں
ھے واہ کیا بات ھے "
وہ اپنے باپ کو دیکھنے لگی جو رف سے جاگنگ سوٹ میں ھنس
رھے تھے انہیں دیکھتے ھی اسے ان کی البم میں لگی ان کی فرسٹ ڈے جاگنگ کی تصویر یاد
آئی جس میں وہ جاگنگ کے لیے بھی باقاعدہ تیار ھو کر گئے تھے اس کے زہن نےفوراً
منصوبہ تیار کیا اور وہ اپنے کمرے کی طرف بھاگی ۔
اوئے کہاں جا رہی ھے اتنی تیزی میں ؟"وہ راستے میں
ارحم سے ٹکراتے ٹکراتے بچی تو وہ بولا مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا……………
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یونی کے گیٹ سے اندر آنے والی لڑکی کا حلیہ باقی لوگوں
سے کافی الگ تھا رف سی شرٹ جینز اور بال کیچر میں بےترتیب باندھے بار بار عینک سیٹ
کرتی ہاتھ میں بکس پکڑے وہ کہیں سے بھی نئی سٹوڈنٹ نہیں لگتی تھی ایسے لگ رہا تھا
جیسے وہ کئی سال سے یونی آرہی ھو اور اس کا چارم اس کے لیے ختم ہو گیا ھو جیسے اسے
پتا ہو اس کے کسی حلیے سےیونی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا وہ اعتماد سے آگے چلتی گئی
اور جب اپنے ڈیپارٹمنٹ کے سامنے گرلز بوائز کی لائن دیکھی تو سمجھ گئی فولنگ شروع
ھو چکی ھےمگر خود کو حوصلہ دیتی وہ اس لائن سے گزر گئی تو سکھ کا سانس لیا تبھی
پیچھے سے کسی نے آواز دی ۔
"گل ادھر آزرا بات سن میری"گل کے
قدم وہیں جم گئے وہ نا چاہتے ھوئے بھی واپس مڑی مگر کوئی اس کی طرف متوجہ نہیں تھا
بس اک لڑکا کہیں اور دیکھ رھا تھا اس نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا تو بے اختیار اس
کے منہ سے نکلا ۔
"یہ دھرتی کا بوجھ یہاں کیا کر رھا
ھے؟" مگر یہ سوچنے کا نہیں بھاگنے کا وقت تھا وہ تیز تیز قدم اٹھاتی اس کے
قریب سے ھوتے ھوئے اپنی عینک اورچہرے پر ھاتھ رکھے جانے لگی تو وہ بولا ۔
"سنو کہاں جا رہی ھو آج فولنگ ڈے ہے
کلاس نہیں ھو گی۔ "مگر وہ بات کرتے کرتے رک گیا اور بولا۔" تمھیں کہیں
دیکھا ھے" کیونکہ اسے اس حلیے میں پھچاننا مشکل تھا ..مگر وہ بولی۔
" سوری میں آپ کو نہیں جانتی "
حلیہ تبدیل تھا مگر آواز وہی تھی وہ فوراً پہچان گیا اور اونچا سا بولا ۔
"تم تم کل والی ھو نا اور تم نے فولنگ
سے بچنے کے لیے یہ حلیہ بنایا ہے چلو لائن میں لگو، ابھی بتاتا ھوں تمھیں چڑیل نا ھو تو" اور وہ لائن میں
ٹھہر کر خود کو کوسنے لگی کہ اس بہن جی سے بات ھی کیوں کی تھی وہ اس کے قریب سے
گزرا تو بولا۔
" ویسے نام کیا ھے تمھارا ؟"
"تمھیں کیوں بتاو ں تم نے فیس پے کرنی ھے
میری ؟" وہ غصے سے بولی اور وہ صرف یہ سوچ کر رہ گیا کہ یہ ھمیشہ ایسے ھی بات
کرتی ھے کیا مگر صرف اتنا بولا "نا بتاو اپنا نقصان کرو گی" اور وہ مڑنے
لگا جب وہ فوراً بولی ۔
"گل" وہ واپس پلٹااور غصے سے بولا
"Call me with my complete name
" گل بہار ۔"
" یہ میرا نام ھے۔" گل نے تصیح کی۔
اس کا غصہ کم ھوتا دیکھ کر وہ فوراً بولی ۔
"قسم سے بہن جی سوری گلزار جی آپ کو
آئندہ آپ کے نام سے بلاؤں گی اب کی بار
معاف کردیں پلیز"
گلزار کو ھنسی آئی اس کا معصوم چہرہ دیکھ کر
"تو یہ چڑیل اخر کار پھنس گئی"وہ سوچنے لگا مگر صرف اتنا بولا
"سوچتا ھو میں کچھ"
وہ کچھ دور ٹھہرے حماد کے پاس گیا اور اسے کچھ بول کر
واپس گل کے پاس آیا اور بولا ۔
"سنو تم زرا لائن سے باھر آجاو" وہ
فوراً آگے کو گئی اور گلزار کی بتائی جگہ پر ٹہر گئی اور خوش بھی ھوئی کہ ایسے ہی
پریشان ھو رہی تھی ..سب کی فولنگ ھو گئی تو وہ گل کے پاس آیا اور اک کاغذ دیتے
ھوئے بولا ۔
"اسے پڑھو گی تم مگر سپیکر میں "
اس نے کاغذ پکڑا اور اسے پڑھنے لگی کہ لکھا کیا ھے مگر جو جو وہ پڑھتی گئی اس کا
چہرہ لال ھوتا گیا اور وہ غصے سے بولی۔
" دماغ خراب ھے تمھارا میں یہ پڑھو ں وہ
بھی سپیکر میں؟"
گلزار محظوظ ھوا اور بولا "اور کوئی آپشن
نہیں ھے سیئنیر ھو ں میں تو تمھیں یہ کرنا پڑے گا۔"
" نہیں کرو گی تو کیا کر لو گے" وہ
بھی غصے سے بولی
"کیا کر لو گا میں یاد رکھو سنئینر ھو ں
اور پورا ایک سال تم پھر سکون سے رہنا بھول جاو" وہ بھی آرام سے بولا ..
اف یہ بہن جی تو سر کا درد بن گیا اب کیا کرو وہ سوچ
رہی تھی تبھی گلزار بولا ۔
" سوچ لیا ھو تو بتا دو ورنہ میں آگے کی
منصوبہ بندی کرو " مگر گل فوراً بولی ۔
" سپیکر دو "
تو گلزاد نے مسکراتے ھوئے سپیکر اس کے حوالے کر دیا
پورے سال سے اچھا اک دن کی مصیبت سہنا تھا تو وہ سٹیج کی طرف بڑھ گئی اور سپیکر
تھامتے ھولی کاغذ کھول کر پڑھنے لگی۔
"میں اک نہایت بد تمیز لڑکی ھوں بلکہ یہ کہنا درست ھو گا کہ مجھ میں self
respect نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی۔ "
وہ مسلسل گلزار کو گھور کر یہ سب کہہ رہی تھی جو سب سے
زیادہ ہنس رھا تھا اور اس کے لیے تالیاں بھی بجا رہا تھا مگر وہ صرف اسے گھور کر
بولے جا رہی تھی " مجھے لوگوں سے ٹکرانے اور اپنی بے عزتی کروانے کا بھی بہت
شوق ھے اس کے علاوہ بھی میرے بہت سے بے ھودہ شوق ھے جو وقت گزرنے پر آپ پر آشکار
ھوتے رہیں گے ..شکریہ ۔"اہانت سے اس
کا چہرہ سرخ ہو رھا تھا اتنا غصہ آیا کہ ابھی ساری یونی کو آگ لگا دے مگر وہ ضبط
کرتی گلزار کے سامنے سے گزرتے بس اتنا بولی۔
"مجھے یہ سب ہمیشہ یاد رھے گا مگر بھولنے
میں تمہیں بھی نہیں دو ں گی" وہ فوراً وہاں سے چلی گئی مگر گلزار کے قہقہہ
دور تک اسے سنائی دیتے رھے ……………
وہ گھر آتے ہی فوراً اپنے کمرے میں گئی اور غصہ کنٹرول
کرنے کے لیے کمرے میں تیز تیز چلنے لگی کچھ دیر بعد وہ موبائل پر ارحم کو ایک فوٹو
واٹس اپ کر رہی تھی "اگر اپنے پیسے واپس چائیے تو کل اس فوٹو کے 150 پوسٹر
تیار ھونے چاہئے اس نے میسج ٹائپ کر کے سنڈ پر کلک کیا اور ارحم کا فوراً جواب آیا
OK
Bahaar اخر کو وہ بھی اک پنگے باز لڑکی کا بھائی
تھا………………
٭٭٭٭٭٭٭
آج کافی عرصے بعد وہ کھل کے ہنسا تھا اور اسے گل کا غصے
بھرا چہرا بار بار یاد آرھا تھا اپنے کمرے میں آتے ہی اس نے فون اٹھایا FBآن
کی اور آج کی فولنگ کے بارے میں یونی کے پیج پر کمنٹ چیک کرنے لگا پھر اس نے بے
اختیار گل بہار کو سرچ کیا تو سب سے اوپر ہی اس کی پروفائل موجود تھی DP میں اک بلی کی تصویر تھی جو اک بلے کو اپنے خونخوار ناخنوں سے غصے
کی شدید حالت میں زخمی کرنے بلکہ اس کا پتہ صاف کرنے کو تیار تھی، اسے بے اختیار
ہنسی آئی کیونکہ اسے لگا وہ بلا گلزار خود ھے مگر پھر اس کی مسکراہٹ اور گہری ھو
گئی جب اس نے گل کے اگلے شوک جو کہ اسے کل ملنا تھا کہ بارے میں تاثرات سوچنے لگا
اور وہ آپنے بستر پر آیا اور سونے ہی لگا تھا کہ حماد کافون آیا اور اس نے سلام
دعا کے بغیر پوچھا "آج یہ سب کیسے؟"
" کیا کیسے؟ "وہ انجان بنا مگر وہ
فوراً بولا۔
" پہلے تم ھمارے فولنگ کرنے پر ناراض تھے
کہ ھم سینئر نہیں کہ ھم اپنے کلاس فیلوز کی فولنگ کریں جبکہ ہم لوگ سینئرز سے
اجازت بھی لے چکے تھے مگر تم پھر بھی راضی نہیں ہوئے مگر پھر تو آپ نے خود انٹری
کی اور ایسی کی کہ اس لڑکی کو اس کے اپنے ہاتھوں بے عزت کیا اور اب انجان بن رہے
ھو ۔" حماد جب بولنے پے آیا تو نان سٹاپ بولتا چلا گیا تو وہ سب سن کر بس
اتنا بولا ۔
"انسان کو زندگی میں تھوڑا انجوائے بھی
کرنا چائیے ہر وقت سڑی ھو ئی شکل میں رہنا اچھی بات تو نہیں نا "
حمادنے فون کو گھورا شاید اس نے کچھ غلط سنا
ہومگر وہ فوراً بولا۔
" تم کل میرے ساتھ بابا جی کے پاس چلنا۔
"
گلزار حیران ھوا اور بولا
"وہ کون ھے اور کیوں چلو ں"
تو
حماد بھرپور سنجیدگی کے ساتھ بولا ۔
" تجھ پے سایہ ھو گیا ھے اب صرف بابا جی
ہی تیرا علاج کر سکتے ھیں ورنہ تو ایسے باتیں نہیں کر سکتا"
گلزارکے قہقہے کی آواز پر حماد کا یقین اور پکا
ھو گیا مگر دوسری طرف گلزار بولا " مجھے بھی یہی لگتا ھے " اور وہ اسے
اللہ حفظ کہ کر سونے لیٹ گیا مگر نیند اس سے کوسوں دور تھی ……………
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ یونی کے لیے تیار ھو رہی تھی جب ارحم ہاتھ میں پوسٹر
لیے حاضر ہوا اور بولا "اک ھاتھ سے دو اک سے لو "اس نے فوراً پیسے ارحم
کو دیے اور پوسٹر دیکھنے لگی" PERFACT"اس کی زبان سے نکلا اور اس نے ارحم کو کچھ اضافی پیسے پکڑائے
جو اس کام کی اجرت تھی تو ارحم بولا۔
" اس بار پھڈا بڑا ڈالا ھے کیا ویسے ہے
کون؟"
" تم اپنے کام سے کام رکھو اور پیسے لے کر
چلتے بنو ورنہ شیخ سعدی کو بڑا افسوس ھو گا کہ ان کا اکلوتا بیٹا بہن سے مار کھا
آیا ۔" گلزار غصہ بھائی پر نکال رہی تھی تو وہ فوراً واپس پلٹا ورنہ اس چڑیل
سے کچھ بعید نہیں ..…
وہ یونی پہنچی تو اسے کلاس کافی مشکل سے ملی دیر ھونے
کے باوجود کلاس میں زیادہ طلبہ نہیں تھے وجہ شاید پہلا دن تھا وہ چلتی ھوئی گئی
اور آخر والی کرسی پر بیگ رکھ کر اسے کھولنے لگی پوسٹر اس کے بیگ میں پڑے تھے
انہیں دیکھتے ہی وہ فوراً بڑبڑائی۔
"
پوری یونی نے تمہیں بہن جی نا بولایا تو میرا نام بھی گل نہیں۔ "کچھ دیر بعد
اک لڑکی اس کے پاس آئی جس کا نام مہرو تھا اور آج اس کا پہلا دن تھا گل نے شکر ادا
کیا کہ صد شکر اسے کل والی فولنگ کا نہیں پتا وہ یہی سوچ رہی تھی جب مہرو بولی you
look totaly change then yesterdayاسے جھٹکا لگا وہ یقیناً
اس کے کل والے حلیے کی بات کر رہی تھی مگر آج وہ اپنی اصلی حالت میں بیٹھی تھی اسے
یہ سب کیسے پتا وہ سوچ رہی تھی جب وہ بولی۔
"آئی نو آپ کیا سوچ رہی ھے دراصل مجھے یونی
کے پیج سے پتا چلا تھا آپ کی تقریر کرتی تصوریں دیکھی تھیں ۔"
اور وہ سوچ کر رہ گئی کہ اس بہن جی کی وجہ سے وہ ایک دن
میں اتنی مشہور ھو گی اس سےپہلے کہ وہ اس کے سوال کا جواب دیتی اک دم کلاس میں
ہلچل ھوئی پھر مہرو بولی۔
"یار یہ وہی ھے نا جنہوں نے کل فولنگ کی
تھی مگر آج یہاں یہ کیا کرنے آیا ھے تبھی گلزار اور حماد ان سے تھوڑا دور کرسی پر
بیٹھ گئے، پہلے تو وہ حیران ھوئی اور پھر اچانک سے اٹھ کر وہ اس کے پاس آئی اور
بولی۔
" کل تمہیں سکون نہیں ملا تھا جو آج بھی
ذلیل کرنے کے لیے وارد ھو گئے ھو؟ " اس کا اشارہ کل کی فولنگ کی طرف تھا مگر
اس طرف تو سکون ہی سکون تھا اور اسی سکون میں جواب آیا ۔
" آپ کیا کہہ رہی ھیں مس؟"
گل
حیرت سے اسے دیکھنے لگی پر فوراً بولی ۔
" اپنی کلاس میں جائیے سیئنر صاحب ھم
جونیئرز کا اتنا ظرف نہیں کہ ھم آپ کے شیانِ شان آپ کی عزت کر سکیں۔ "گل کا
غصے اور طنز سے بھرا جواب آیا مگر گلزار پر کوئی اثر نہ ھوا اور وہ بڑے اطمینان سے
بولا۔
"وہ کیا ھے نا کہ آپ کو کوئی بہت بڑی غلط
فہمی ھوئی ھے کیونکہ میں آپ کا کلاس فیلو ھو ں سینئر نہیں۔"
گل
کو جھٹکا لگا اور وہ غصے سے بولی۔ " کل کے اداکارانہ رویے کی وجہ پوچھ سکتی
ھو کیا ؟"
تو
وہ بھی فوراً بولا۔" مس اگر آپ کو یاد نہ ھو تو میں بتاتا چلو کل فول ڈے تھا
اور میرا اداکارانہ رویہ اسی کا حصہ تھا۔" وہ بہت آرام سے ہنسی ضبط کرتے ھوئے
بولا ..تو وہ کچھ دیر اسے غصے سے دیکھتی رہی اور پھر نیچے کو جھکی اس کی کرسی کے
آگے بنچ پر ھاتھ جماتے ھوئے اس کی آنکھوں میں غصے سے دیکھتے بولا تو صرف اتنا
"کل صبح تک میں تمھارا حساب بھی بے باک
کر دو ں گی"وہ یہ کہتے ہی کلاس سے چلی گئی یہ سوچے بغیر کہ آج اس کی پہلی
کلاس تھی………………
Comments
Post a Comment