"غگ"
از
ماہ وش
عروج
پہلی
قسط
باتور خان پسٹل ہاتھ میں لیے تیز تیز قدم اٹھاتا رحم دین کے
گھر کی طرف بڑھ رہا تھا۔ سرخ آنکھوں سے چنگاریاں پھوٹ رہی تھیں۔ تیور ایسے تھے
جیسے ہر چیز کو آگ لگا ڈالے گا۔ رشید اور اقبال اس کے ساتھ تھے۔وہ دونوں مسلسل اس
کے غصے کو بڑھاوا دے رہے تھے اور راستے میں ملنے والے لوگوں کو بھی اپنے ساتھ
ذبردستی گھسیٹ رہے تھے۔ باتور خان کے رعب و دبدبے سے پورا گاوں تھر تھر کانپتا
تھا۔ کسی کی مجال نہیں تھی کہ اس کے سامنے کسی بات سے انکار کرے۔ وہ جو چاہتا
دھڑلے سے کرتا پھرتا۔ وہ میر سربلند خان کا خاص آدمی تھا۔ جن کی مرضی کے بغیر گاوں
میں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا۔
گاوں کے لوگ جانتے تھے کہ اس کی منزل کون سی ہے اور اسکا
مقصد کیا ہے۔کچھ دن پہلے بھی وہ رحم دین کے گھر کے باہر ایک ہنگامہ برپا کر دیا
تھا جس پہ رحم دین اس کے خلاف تھانے میں رپورٹ درج کروانے گیا تھا۔ لیکن آج اس کے
قدموں کی دھمک ہی ان کے دل لرزا رہی تھی۔ رحم دین جانتا تک نہیں تھا کہ کون سی
قیامت لمحہ بہ لمحہ اس کے گھر کے قریب آتی جا رہی ہے۔ تنگ پگڈنڈی سے گزرتے ہوئے اس
کی نظر تھوڑی ہی دور نظر آتے رحم دین کے کچے مکان پر تھی۔ وہاں بھی کچھ لوگ کھڑے
تھے شاید انھیں بھی خبر ہو چکی تھی۔ بس ایک رحم دین ہی آنے والی قیامت سے بےخبر
تھا۔ پہنچتے ہی اس نے گھر کے دروازے پہ اپنے بھاری جوتے کے نشان چھوڑے اور سامنے
جا کھڑا ہوا۔ رحم دین گھر سے باہر آیا تو گھر کے باہر موجود لوگوں دیکھ کر حیران
ہوا۔
اچانک فضاء میں چار فائر ہوئے۔۔ گاوں میں دہشت ناک آواز
گونج گئی۔
"آج سے
مسکا صرف میری ہے۔۔اگر کوئی بھی اس سے شادی کے خواب دیکھ رہا ہے تو وہ میرا دشمن
ہے اور تم سب گاوں والے جانتے ہو کہ اپنے دشمن کو سوائے موت کے میں کچھ نہیں
دیتا۔"
یہ کہہ کر اس نے رحم دین کو دیکھا۔۔ ایک طنزیہ مسکراہٹ اس
کی طرف اچھال کر پسٹل جیب میں رکھا اور اپنے ساتھیوں کو اشارہ کرتا ، دھول اڑاتا
واپس ہو لیا۔وہاں موجود سبھی لوگوں کی ترحم بھری نظریں اس شخص پر تھیں جو دروازہ
مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھا۔
بوڑھے رحم دین کے قدموں میں جان نہ رہی تھی اور فضاء میں
سیاہ پرندے کا شور بڑھتا جا رہا تھا۔۔🍃
وہ سامنے ہی کھڑی تھی جب رحم دین تھکے ہارے قدموں سے گھر
میں داخل ہوا۔ جھکا سر ، ڈھلکتے کندھے اور بےجان قدم۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ وہ ایک ہی
پل میں اتنے بوڑھے کیوں لگنے لگے ہیں۔۔اس کے بہادر بابا کیوں ڈھلتے سورج جیسے
دکھائی دینے لگے ہیں۔ ان کے قدم کچی مٹی پہ اپنی چھاپ کیوں نہیں بنا رہے ہیں۔ اس
کے چاند کی ٹھنڈی روشنی جیسے بابا۔۔اسے لگا جیسے اسکا دل کسی نے مٹھی میں دبا لیا
ہو اور اس پہ اپنی گرفت کستا ہی جا رہا ہو۔۔
لیکن اس نے خود کو گرنے سے بچانا تھا۔۔خود کو مضبوط بنانا
تھا۔ اپنے بابا کی طاقت بننا تھا۔ اس رسم کے خلاف ایک جنگ لڑنی تھی بلکہ اس جنگ کو
جیتنا بھی تھا۔
رحم دین نے جھکا سر اٹھا کر سامنے دیکھا جہاں ان کی عمر بھر
کی پونجی زمین پہ مضبوط قدم جمائے کھڑی تھی۔ اس کی سیاہ گھور آنکھوں میں چمکتے
خواب روشن تھے۔ سیاہ چادر کے ہالے میں پر نور چہرہ امید کی گلابیاں لئے ان کے
سامنے تھا۔ اس کے بالکل پیچھے ایک اور وجود بھی چادر کا پلو منہ میں دبائے کھڑا
تھا۔ شاید وہ اپنی تکلیف کو آواز نہیں دینا چاہتی تھیں مگر ان کے چہرے پہ چھایا
کرب ایک تکلیف دہ کہانی بیان کر رہا تھا جسکے آخر میں خوشی کی کوئی امید ہی نہیں
تھی۔
ان کے ٹانگوں کی لرزش میں اضافہ ہوا۔
"بابا۔۔۔۔۔!!"
اس سے پہلے کہ وہ گرتے مسکاء نے تیزی سے آگے بڑھ کر ان کے
لڑکھڑاتے وجود کو سنبھالا دیا۔ ذہرہ بی بی بھی فورا آگے آئیں۔ دونوں نے مل کر
انھیں سہارا دیا اور انھیں کمرے میں لے آئیں۔
" مسکاء!
جاو بیٹا پانی لاو اپنے بابا کے لئے۔"
وہ انھیں چارپائی پہ بٹھاتے ہوئے بولیں تو وہ فورا صحن میں
رکھے مٹی کے گھڑوں کی طرف آئی اور مٹی کا پیالہ پانی سے بھر کر واپس کمرے میں آ
گئی۔ذہرہ بی بی نے پیالہ اس کے ہاتھ سے لے کر ان کے منہ سے لگایا۔ ان کی سرخی مائل
گندمی رنگت پھیکی پڑ چکی تھی۔
"آپ سنبھالیں
خود کو۔۔اگر آپ ہی اسطرح سے ہاتھ پاوں چھوڑ دیں گے تو ہم کیسے ان لوہے کی دیواروں
سے اپنی بیٹی کو نکالیں گے۔ اس کے بہتر مستقبل کے لئے ہمیں خود کو مضبوط کرنا ہے۔
اس کی معصومیت کو ہم نے اس بھیانک رسم کے ہتھے نہیں چڑھنے دینا ہے۔"
ذہرہ بی بی اور مسکاء کے پریشان چہرے کو دیکھ کر انھوں نے
خود کو سنبھالا۔ انھوں نے مسکاء کو ہاتھ کے اشارے سے اپنے پاس بلایا۔ وہ قریب آ کر
بیٹھ گئی۔ وہ اپنے ساتھ ہو جانے والی زیادتی کے لئے پریشان نہیں تھی بلکہ وہ ان کو
کمزور پڑتے نہیں دیکھ سکتی تھی۔
"مسکاء! تم
میری طاقت ہو جو مجھے کبھی کمزور پڑنے نہیں دے گی۔ تمھیں دیکھ کر مجھے اپنے اندر
دوڑتے خون کا احساس ہوتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ بیٹوں سے باپ کو قوت ملتی ہے مگر
تمھارے ہوتے ہوئے مجھے کبھی احساس نہیں ہوا کہ میں اس طاقت سے محروم ہوں۔"
انھوں نے اس کے ماتھے پہ بوسہ دیا۔ ذہرہ بی بی کی آنکھوں سے
آنسو جاری تھے جنھیں وہ بار بار اپنی چادر سے پونچھ رہی تھیں۔
"بابا آپ
بھی میری طاقت ہیں۔۔ میری ڈھال ہیں۔" وہ ان کے سینے سے لگی تو انھوں نے اسے
بانہوں میں سمیٹ لیا۔ اسکے آنسو ان کے دل پہ گرنے لگے۔ انھوں نے ذہرہ بی بی کو
اشارہ کیا کہ وہ اسے اس کے کمرے میں چھوڑ آئیں۔ انھوں نے اسے ان سے الگ کیا اور
کمرے سے باہر لے آئیں۔
اور وہ خود آنے والے کڑے وقت کے لیے خود کو تیار کرنے لگے۔
وہ جانتے تھے کہ اس لڑائی میں وہ اکیلے ہیں کوئی بھی ان کا ساتھ نہیں دے گا۔۔۔ان
کا اپنا بھائی بھی نہیں۔ لیکن پھر بھی انھوں نے سوچ لیا تھا وہ ایک مرتبہ اور کرم
دین سے ملیں گے تا کہ اس مسئلے کا حل تلاش کیا جا سکے۔ وہ اپنی بیٹی کو اپنے
ہاتھوں سے جلتی آگ میں نہیں جھونک سکتے تھے۔ ان کا دل پتے کی مانند لرز رہا تھا۔
پانچ مہینے پہلے کا واقعہ انھیں یاد آیا۔ ایک معصوم چہرہ ان
کی نگاہوں میں گھوم گیا۔ یہ چہرہ گلالئی کا تھا۔ پھر اس معصوم چہرے کی جگہ خون سے
لت پت چہرے نے لی۔ وہ دن وہ کیسے بھلا سکتے تھے۔ وہ کیا گاوں کا کوئی بھی شخص وہ
خون آشام شام نہیں بھلا سکتا تھا۔ گلالئی۔۔۔۔۔جسے اسی کے چچا کے بیٹے نے رسم
"غگ" کے ذریعے اپنا پابند کر دیا تھا کیونکہ انھوں نے اسکی بری شہرت کی
وجہ سے رشتہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔
بعد میں اس نے خود بھی اس سے شادی نہ کی اور نہ ہی کسی کو
کرنے دی۔ گلالئی کے گھر والوں نے ان سے چھپ کر اسکا نکاح کرنا چاہا لیکن نجانے اسے
کیسے معلوم ہو گیا اور نکاح کے روز ہی اسے قتل کر دیا گیا۔
آج بھی ان کے گھر ماتم کا سا سماں ہوتا۔۔۔ غفور گل اپنی
لاڈلی بیٹی کے بہیمانہ قتل سے چلتی پھرتی لاش بن گیا تھا۔
رحم دین گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ ساتھ ہی چارپائی پہ لیٹی ذہرہ
بی بی اٹھ کر ان کے پاس آ گئیں۔
"کیا ہوا
مسکاء کے بابا۔۔کوئی برا خواب دیکھ لیا کیا؟؟"
ذہرہ بی بی نے انھیں پانی کا گلاس تھمایا۔
"نیند ہی
نہیں ہے آنکھوں میں۔۔۔" انھوں نے گلاس انھیں دے کر شہادت کی انگلی سے کنپٹی
کو دبایا۔
"صحیح کہہ
رہے ہیں آپ۔۔مسکاء کے لئے تو میں بھی بہت پریشان ہوں۔ ہماری بچی موت کے دہانے پہ
کھڑی ہے۔ باتور خان نے کب سے ہمارا پیچھا لیا ہوا ہے۔ آپ صبح کرم دین بھائی کے پاس
جائیں۔ آخر بھائی ہے آپ کا۔۔اتنا تو ساتھ دے گا آپکا کہ بیٹے کو سمجھائے۔۔بھلا
میری پھولوں سی بچی اور اسکا کیا جوڑ۔۔ پورے پندرہ برس بڑا ہے مسکاء سے۔ چلو عمر
کو چھوڑو کم از کم ایک خوبی بھی ہوتی تو ہم انکار نہ کرتے۔"
وہ جھر جھر بہتے آنسو چادر سے پونچھتے بولیں۔
"ہاں جاوں
گا صبح۔۔اللہ کرے کوئی سبیل نکل آئے۔" وہ چت لیٹے چھت کو دیکھنے لگے پھر اس
امید پر انھوں نے آنکھیں موند لیں کہ کرم دین۔۔۔ان کا ماں جایا۔۔۔ان کی بات ضرور
سنے گا۔🍃
"یہ وقت
مناسب نہیں ہے یہاں آنے کا۔۔تمھاری جان کو خطرہ ہوسکتا ہے۔ یہ کام میں کر لوں گا۔
تم جاو اس وقت یہاں سے۔ میں ڈھونڈ لوں گا۔"
وہ اسے الماری میں پڑی چیزوں کو الٹ پلٹ کرتے دیکھ کر فورا
بولے تھے۔ انھیں ڈر تھا کہ کوئی آ نہ جائے۔ اگر کسی نے دیکھا لیا تو۔۔۔انھیں صرف
اسکی فکر تھی۔ مگر وہ سن ہی نہیں رہا تھا۔ اسکی سانس دھوکنی کی مانند چل رہی تھی۔
ہاتھوں کی تیزی سے لگ رہا تھا جیسے ان میں کسی نے بجلی بھر دی ہو۔ وہ وہاں موجود
ہر چیز کو الٹ پلٹ کر دینا چاہتا تھا۔ اسکا جی چاہ رہا تھا کہ وہاں موجود ہر چیز
کو آگ لگا دے۔ وہی آگ جو اس کے اندر جل رہی تھی۔ جس کے شعلے اسکے پورے وجود کو
اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھے۔
اس نے الماری کو اسی طرح کھلا چھوڑ کر سائیڈ پہ رکھی کرسی
کو ٹھوکر مار کر گرایا۔ زمان بابا نے آگے بڑھ کر کرسی کو ٹھیک کیا اور اسے بازو سے
پکڑ کر اسے بٹھایا۔۔
"بابا! سب
ختم ہو گیا ہے۔۔ مجھے نہیں لگتا میں اس زندان میں کچھ ڈھونڈ پاوں گا۔۔کچھ نہیں ہے
یہاں۔" وہ بالوں میں انگلیاں پھنساتے ہوئے بولا۔
"حوصلہ کرو
بیٹا! ایسے ہمت نہیں ہارتے۔۔تم جاو میں دیکھ لوں گا۔ اگر کچھ ضروری مل گیا تو
تمھیں بتا دوں گا۔۔بڑے خان نے دیکھ لیا تو انھیں تم پہ شک ہو جائے گا اور میں نہیں
چاہتا کہ تم کسی مصیبت میں پھنسو۔"
وہ اسے دلاسا دیتے ہوئے بولے۔۔
"ٹھیک ہے
میں چلتا ہوں۔۔آپ اپنا خیال رکھیے گا اور ہاں آپ اپنی جان خطرے میں مت ڈالیے گا۔
میں آپ کو نہیں کھو سکتا۔ میرے پاس آپ کے سوا ہے ہی کون۔۔۔میں آ جاوں شہر سے پھر
دیکھتے ہیں کیا کرنا ہے۔"
وہ انھیں سینے سے لگا کر باہر نکل گیا۔ انھوں نے اپنی
آنکھیں بند کر اپنے آنسوؤں کو روکا اور الماری کیطرف آئے۔۔ہر چیز دوبارہ ترتیب سے
رکھی اور کمرے سے باہر آ گئے۔۔ ابھی لاونج میں قدم رکھا ہی تھا کہ ماہ گل کچن سے
نکل کر ان کے پاس آئی۔
"زمان
بابا۔۔آپ کو بڑا خان حجرے میں بلا رہا ہے۔ خان بہت غصے میں تھا۔"
ماہ گل نے انھیں بتایا تو بنا کچھ کہے حجرے کیطرف چل دئیے۔
حجرے میں داخل ہوئے تو وہاں گاوں کے کچھ بزرگ بیٹھے ہوئے تھے۔ کسی بات پہ بحث چل
رہی تھی لیکن جیسے ہی سب کی نظر ان پر پڑی تو خاموش ہوگئے۔
"خان جی!
خیریت ہے آپ بہت غصے میں لگ رہے ہیں۔" میر سربلند خان صوفے پہ بیٹھے اسی کی
طرف دیکھ رہے تھے۔
"زمان خان
! میں نے تمھیں ایک کام کا کہا تھا وہ بھی تم سے نہ ہو سکا۔۔ رحم دین کسطرح کا
ملگرے(دوست) ہے تمھارا کہ ایک بات نہیں مان سکتا تمھاری۔۔ او ہمارا نام نہیں لیا
تھا تم نے۔۔اسے بتاتے کہ ہم نے بھیجا تھا تمھیں۔ اب دیکھو! یہ جو گاوں میں خون
خرابا ہو گا اس کا زمہ دار کون ہو گا۔"
ان کی کڑک دار آواز پورے حجرے میں گونج رہی تھی۔ زمان خان
سمجھ گئے کہ وہ کس بارے میں بات کر رہے ہیں۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے ان کے قریب
آئے۔
"خان جی
میں نے تو اسے آپ کا پیغام دے دیا تھا لیکن وہ کہہ رہا تھا کہ اسکی بیٹی اور باتور
خان کی عمر میں بہت فرق ہے اور وہ ابھی اسکی شادی نہیں کرنا چاہتا۔ اب میں ذبردستی
تو کر نہیں سکتا تھا۔اسے حق ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے لیے جو بھی فیصلہ کرے آخر وہ
باپ ہے اسکا۔"
وہ ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ نظریں جھکی ہوئیں
تھیں۔
"یہ جھوٹ
بول رہا ہے خان جی۔"
باتور خان نے حجرے میں قدم رکھا تو سبھی اس کی طرف متوجہ
ہوئے۔ زمان بابا نے بھی مڑ کر دیکھا۔ سفید کڑک دار شلوار سوٹ پہ کالی مردانہ چادر
کندھوں پہ ڈالے وہ میر سربلند خان کے سامنے جا کھڑا ہوا۔وہ زمان بابا کو گھورتے
ہوئے مونچھوں کو سنوارنا نہ بھولا۔
"اوئے
باتور خاناں۔۔۔زمان جھوٹ نہیں بولتا۔ وہ اگر کہہ رہا ہے کہ اس نے بات کی ہے تو کی
ہو گی۔"
وہ کھڑے ہوئے اور باتور خان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
"خان جی۔۔
اگر اس نے بات کی ہوتی تو اسکی مجال تھی کہ آپ کا نام سن کر بھی مجھے انکار
کرتا۔۔لیکن خیر میں تو قصہ ہی ختم کر آیا ہوں۔ اب رکھے اپنی بیٹی کو اپنے پاس۔ایسا
سبق دیا ہے کہ ساری زندگی اپنی بیٹی کو پڑھاتا رہے گا۔"
اس نے چادر کو جھٹکا دے کر کندھے پر ڈالا اور زمان بابا پہ
ایک گہری نظر ڈال کر ہنسا۔
"کیا مطلب
میرے شیر؟؟"
انھوں نے اسے اسطرح ہنستے دیکھ کر پوچھا۔
"وہی جو ہر
نخرے کرنے والے لڑکی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔"
وہ چارپائی پہ بیٹھ کر تکیے سے ٹیک لگا گیا۔ میر سربلند خان
اس کی بات کی تہہ تک پہنچ کر ہنس دیئے۔
"واہ۔۔۔اسی
لئے تو میں تجھے شیر کہتا ہوں۔ اب تو ہوش ٹھکانے آ گئے ہوں گے رحم دین کے۔"
"بالکل
۔۔۔۔میں تو وہاں سے آ گیا تھا۔۔ہاں لیکن اس کی کانپتی ٹانگیں میں نے ضرور دیکھی
تھیں۔"
اسکی بات پر وہاں موجود سبھی لوگ ہنس دئیے سوائے زمان خان
کے۔۔
وہ سست روی سے چلتے حجرے سے باہر آ گئے۔۔ پیچھے سے آتیں
قہقہوں کی آوازیں بلند ہوتی جا رہی تھیں اور ان کے دل کی رفتار مدھم۔۔۔🍃
" مسکاء! آ
کے دروازہ ٹھیک سے بند کر لو میں تمھارے چاچا کیطرف جا رہا ہوں۔"
وہ دروازے کیطرف جاتے ہوئے بولے۔
"تم
بیٹھو۔۔۔میں جاتی ہوں۔" وہ اٹھنے لگی تو ذہرہ بی بی نے اسے منع کر دیا۔ وہ
واپس بیٹھ کر ناشتے کیطرف متوجہ ہوگئی۔ دل تو وہیں بابا کے پاس اٹکا تھا کہ نجانے
کرم دین چاچا ان کے ساتھ کیا سلوک کریں۔
"آرام سے
بات کرنا آپ۔۔اور جلدی آئیے گا۔"
وہ دروازہ کھولنے لگے تو پیچھے سے ذہرہ بی بی بولیں۔ انھوں
نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو آنکھوں میں امید کے آنسو لئے وہ انھیں ہی دیکھ رہیں تھیں۔
انھوں نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور سر ہلاتے ہوئے باہر نکل گئے۔
پگڈنڈی سے گزرتے ہوئے ان کی نظر زمان خان پر پڑی جو وہہیں
بیٹھے ہوئے تھے۔ چہرے سے عیاں ہوتی پریشانی ان کی نظروں سے پوشیدہ نہ رہ سکی۔ وہ
ان کے قریب آئے اور ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے وہہیں ان کے پاس بیٹھ گیا۔
زمان خان نے سر اٹھا کر انھیں دیکھا۔
"میں جو سن
کے آ رہا ہوں کیا وہ سچ ہے؟؟" دکھ ان کے چہرے پہ بول رہا تھا۔ وہی دکھ جو رحم
دین کے چہرے پہ تھا۔
"ہاں۔۔سچ
ہے۔۔ کل باتور خان نے گھر کے قریب آ کر اعلان کیا ہے کہ مسکاء اسکی ہے اور جو کوئی
بھی اس سے شادی کی خواہش کرے گا وہ اسے اپنا دشمن تصور کرے گا۔"
ان کی نظریں دور آسمان پر گول چکر لگاتے پرندوں پر تھیں۔
"یہ ٹھیک
نہیں ہوا۔ تمھیں اسے روکنا چاہیئے تھا۔ وہ اتنی بڑی زیادتی کیسے کر سکتا ہے۔ کسی
کو تو روکنا چاہیئے تھا اسے۔۔پتہ نہیں کیا ہو گیا گاوں والوں کو۔"
انھوں نے ان کی نظروں کی تعاقب میں دیکھا۔
"بس جب
بدنصیبی تعاقب میں ہو تو ہر کوئی راستہ سے ہٹ جاتا ہے۔ سبھی راستہ دے دیتے ہیں
کوئی رکاوٹ نہیں بنتا۔"
انھوں نے زمان خان کیطرف دیکھا۔
"میر آ گیا
شہر سے۔۔؟؟" وہ کھڑے ہوئے۔
"نہیں۔۔ایک
دو دن تک شاید آ جائے۔۔فون کیا تھا اس نے۔۔۔خیر خیریت سے ہے۔۔پوچھ رہا تھا
تمھارا۔"
اس کے ذکر سے ایک دھیمی مسکراہٹ ان کے لبوں پر چھا گئی۔
"اس مرتبہ
کافی دن لگا دئیے ورنہ تو ہفتے کے ہفتے آ جاتا تھا۔۔میرا خیال ہے تیسرا ہفتہ ہونے
کو آیا ہے۔" رحم دین نے ان کی طرف دیکھا۔
"ہاں۔۔اس
ہفتے آئے گا تم کہیں جا رہے ہو؟"
زمان خان نے انھیں کپڑے جھاڑتے دیکھ کر کہا۔
"میں ذرا
کرم دین لالا کی طرف جا رہا ہوں تا کہ اس مسئلے کا کوئی حل نکلے۔ میں اپنی بیٹی کو
اس رسم کی بھینٹ نہیں چڑھنے دے سکتا۔"
وہ ان کیطرف پر عزم نظروں سے دیکھتے ہوئے بولے۔
"چلو میں
بھی ساتھ چلتا ہوں تمھارے۔"
وہ انھیں ساتھ لئے کرم دین کے گھر کی طرف چل دیئے۔
راستے بھر وہ سوچتے رہے کہ کسطرح انھیں منائیں گے۔۔جیسے
جیسے گھر قریب آ رہا تھا ان کے دل کی دھڑکن بڑھتی جا رہی تھی۔ مسکاء کے رشتے سے
انکار کرنے کے بعد سے کرم دین نے ان سے بات کرنا بھی بند کر رکھا تھا۔ راستے میں
ملتے بھی تو منہ پھیر کر آگے بڑھ جاتے۔ ویسے بھی جب سے باتور خان بڑے خان کے بندوں
میں شامل ہوا تھا ان کے دن بدل گئے تھے۔ رشتہ مانگنے سے پہلے بھی وہ ملتے جلتے
نہیں تھے مگر رشتے کے انکار کے بعد سے تو جیسے سب ختم ہو گیا تھا۔
"کیا سوچ
رہے ہو؟؟۔۔پریشان مت ہو۔۔مسکاء میری بھی بیٹی ہے۔ ہم اس کے ساتھ کچھ بھی غلط نہیں
ہونے دیں۔ اگر کرم دین نے کچھ مثبت جواب نہ دیا تو کوئی نہ کوئی حل نکال ہی لیں
گے۔"
وہ انھیں دلاسا دیتے ہوئے بولے۔
"جیسے
حالات ہو گئے ہیں مجھے امید تو نہیں ہے لیکن پھر بھی۔۔بات کر لوں تو اچھا
ہے۔"
وہ دروازے پہ دستک دیتے ہوئے بولے۔۔ کچھ عرصہ پہلے یہ لکڑی
کا ایک بوسیدہ دروازہ تھا جسے کھٹکٹانے کی ضرورت انھوں نے کبھی محسوس نہیں کی تھی
مگر آج لوہے کے بڑے گیٹ سے اندر جانے کی ہمت ان میں نہیں تھی۔
تیسری دستک پہ قریب آتے قدموں کی آواز نے انھیں متوجہ کیا
اور کھٹ سے دروازہ کھلا۔۔ دروازے کے پیچھے سے کرم دین کا چہرہ نمودار ہوا۔ رحم دین
کو دیکھ کر اس نے تیوری چڑھائی۔۔
"السلام و
علیکم!"
رحم دین نے سلام کیا۔۔زمان خان نے بھی سر کے اشارے سے سلام
کیا۔
"وعلیکم
السلام! کس لئے آئے ہو یہاں۔۔اگر میری مدد چاہیئے تو میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر
سکتا اور باتور خان بھی گھر میں نہیں۔ وہ آ جائے تو پھر آ جانا۔"
کرم دین نے سنجیدگی سے کہا۔ وہ دروازے کو پکڑے کھڑا تھا۔ جس
سے صاف ظاہر تھا کہ وہ انھیں اندر آنے سے روکنا چاہتا ہے۔
"تم ایک بار
ہماری بات تو سن لو۔ پھر آگے تمھاری مرضی۔ ہم صلح صفائی سے یہ مسئلہ حل کرنا چاہتے
ہیں۔"
زمان خان آگے آیا۔
"مگر میں
نے کہا نا کہ باتور خان آ جائے تو پھر آ جانا۔" وہ دروازہ بند کرنے لگے۔
"بات سن
لینے میں کیا حرج ہے۔ ہمیں اندر تو آنے دو۔" زمان خان نے اسے دروازہ بند کرتے
دیکھ کر کہا۔
"ٹھیک ہے آ
جاو خیر اندر آ جاو۔"
زمان خان نے صلح صفائی کی بات کی تو کرم دین کو لگا شاید وہ
مان گئے ہیں اور شادی کی بات کرنے آئے ہیں۔ اس لئے وہ چاہتا تھا کہ باتور خان کے
سامنے ہی بات ہو لیکن پھر اسی رخ پہ سوچتے ہوئے اس نے انھیں۔ اندر بلا لیا۔
کرم دین نے ان کو بیٹھک میں بٹھایا اور باہر آ کر بیوی سے
چائے تیار کرنے کا کہہ کر واپس بیٹھک میں آیا۔
"ہاں کہو
کیا بات ہے۔۔۔ہوش ٹھکانے آ گئے تمھارے یا نہیں۔"
کرم دین ان کے سامنے چارپائی پہ بیٹھتے ہوئے بولا۔ آواز میں
طنز نمایاں تھا۔
"ہم دراصل
کل کے واقعہ کے متعلق بات کرنے آئے ہیں۔ باتور خان نے جو طریقہ اپنایا ہے وہ ٹھیک
نہیں۔ اس رسم کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ کسی کی بیٹی کو یوں سب کے سامنے اپنا
پابند کرنا جرم ہے۔ باتور خان سے کہو کہ اپنے الفاظ واپس لے اور مسکاء کو اس
پابندی سے آزاد کرے۔اگر وہ نہ مانا تو ہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
"زمان خان
یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے۔ تم رحم دین کے ساتھ آئے ہو اس لئے تمھیں اندر بلا لیا۔
ورنہ ہمارے خاندانی معاملے میں تمھارا کیا کام۔۔۔تم اپنی رائے اور اپنی دھمکی اپنے
پاس رکھو۔ نہ تو ہمیں تمھاری رائے غورطلب لگ رہی ہے اور نہ ہی ہم تمھاری اس دھمکی
سے ڈرنے والے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ تم خاموش رہو۔"
کرم دین نے زمان خان کو بیچ میں ہی ٹوک دیا۔ رحم دین کو ان
کی پسند نہیں آئی۔ لیکن وہ بات بگاڑنا نہی چاہتے تھے اس لئے انھوں نے آنکھ کے
اشارے سے زمان خان کو روک دیا۔
"میرا بھی
یہی خیال ہے کہ آپ اور باتور خان اپنے فیصلے پر غور کریں۔ مسکاء تمھاری بھی بیٹی
ہے اور اسکے تایا ہونے کی حیثیت سے آپ کو میرا ساتھ دینا چاہئے نہ کہ ایک غلط کام
میں اپنے بیٹے کا ساتھ۔ میں آپ کے پاس بڑی امید لے کر آیا ہوں۔"
رحم دین نے ان کیطرف دیکھا جن کے چہرے کے تاثرات ان کی امید
چھین رہے تھے۔
"تایا ہونے
کی حیثیت سے تو میں اپنے بیٹے کا رشتہ بھی لے کر آیا تھا۔ تم نے اس وقت کیوں نہ
سوچا کہ میں اسکا تایا ہوں اور اب جب پانی سر سے اوپر ہوچکا ہے تو تایا یاد آ گیا۔
واہ بھئی واہ کیا کہنے۔۔۔"
کرم دین کی چبھتی نظریں رحم دین کو اپنے جسم میں چھید کرتی
محسوس ہوئیں۔
"اس وقت تو
بڑی بڑی باتیں کر رہے تھے کہ مسکاء کو تعلیم دلواوں گا اور اس کی شادی کسی پڑھے
لکھے لڑکے سے کراوں گا۔ اب لے آو پڑھا لکھا انسان اور کرو اس کی شادی۔۔ہم بھی تو
دیکھیں۔"
کرم دین کی زبان شعلے اگل رہی تھی۔۔زمان خان کو ان کا انداز
پسند نہ آیا تو کچھ کہنے ہی لگے تھے مگر رحم دین نے روک دیا۔
"بھائی میں
صرف آپ کے پاس یہ درخواست لے کر حاضر ہوا ہوں کہ اللہ کے لئے مجھ پر اور میری بیٹی
پر رحم کیجئے۔ وہ ابھی بہت چھوٹی ہے۔"
وہ منتوں پر اتر آئے تھے مگر سامنے والا بھی باتور خان کا
باپ تھا جو کسی کی نہیں سنتا۔
"میرا بیٹا
بھی گاوں کا سب سے کڑیل جوان ہے۔ اس جیسا نہیں ملنا تھا تمھیں لیکن تم نے خود اس
کے لئے ایندھن خریدا ہے اب جلتے رہو اس آگ میں اور اسے بھی جلاو۔ ساری غلطی تمھاری
ہے اب بھگتو۔ میں تمھاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔"
کرم دین انھیں چبھتی نظروں سے دیکھتے ہوئے باہر نکل گیا۔
رحم دین سر جھکا گیا اور ان کی آنکھوں سے گرم سیال بہنے لگا۔
زمان خان نے رحم دین کے جھکے سر کو دیکھا اور انھیں سہارا
دیئے لے آیا۔
"سچ کہتے
ہیں لوگ اب خون کی تاثیر نہیں رہی۔" گھر سے باہر نکلتے ہوئے رحم دین کو پلٹتے
دیکھ کر زمان خان بولے۔
"سفید جو
ہو گیا ہے۔"
ان کے لہجے میں دکھ بول رہا تھا۔🍃
ٹیکسی ڈرائیور نے اسے ہاسٹل سے کچھ ہی دور اتار دیا کیونکہ
آگے کنسٹرکشن کا کام چل رہا تھا۔ اس نے ڈرائیور کو پیسے پکڑائے اور بیگ اٹھا کر
کندھے پر
لٹکایا۔ چہرے پہ سنجیدگی کا پہرا تھا۔ منہ اتنا سختی سے بند
کر رکھا تھا کہ کنپٹی کی رگ ابھر آئی تھی۔ وہ شروع سے ہی ایسا تھا۔ اپنی ذات تک
محدود رہنے والا۔ اسکے ظاہری رویے کو دیکھتے ہوئے کسی میں بھی اس کے قریب آنے کی
ہمت نہیں تھی مگر پرسنیلیٹی ایسی تھی کہ ہر کوئی کھنچا چلا آتا۔۔اپنے ڈیپارٹمنٹ
میں وہ اپنے روڈ رویے اور ذہانت کی وجہ سے بہت مشہور تھا۔ یونیورسٹی میں صرف ٹیچرز
ہی تھے جن سے وہ بات کرتا یا پھر ارحم سے۔۔۔ارحم شاہ۔۔۔اسکا جگری دوست۔۔ یہ دوستی
بھی ارحم ہی کی پیداوار تھی۔۔ وہی اس کے سخت رویے کے باوجود اس کے قریب اپنی جگہ
بنانے میں کامیاب رہا تھا۔
اور آج وہ اس کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتا تھا۔ ہر جگہ
دونوں ساتھ ساتھ پائے جاتے۔ دونوں کی دوستی کے چرچے پوری یونیورسٹی میں تھے۔
وہ ہاسٹل کے چوکیدار سے ملا تو کچھ ہی دور ارحم کھڑا دکھائی
دیا۔ اپنے آنے کی اطلاع وہ اسے فون پر ہی دے چکا تھا۔ اس کے ساتھ کچھ اور لڑکے بھی
کھڑے تھے۔ ارحم بھی اسے دیکھ چکا تھا اس لئے ان سے ہاتھ ملاتا اسکی طرف بڑھا۔
"کب سے
انتظار کر رہا ہوں میں۔۔ صبح بتایا تھا تم نے کہ بس نکل رہا ہوں۔۔ ٹائم دیکھا ہے
تم نے۔۔"
ارحم اس سے بغلگیر ہوتے ہوئے بولا
"یار بس
ایک کام میں پھنس گیا تھا۔ آج موقع بھی ملا تھا لیکن کچھ ہاتھ نہ آ سکا۔"
اس کے لہجے کی بجھتی آنچ ارحم کو اپنے اردگرد محسوس ہوئی۔
"یار سب
ٹھیک ہو جائے گا۔۔ تم ویسے ہی اتنے پریشان ہوتے ہو۔ اللہ مدد کرنے والا ہے۔ وہ جب
چاہے گا سب کچھ تمھارے سامنے آ جائے گا اور پھر تم کیوں غم کرتے ہو میں اور بابا ہیں
نہ تیرے پاس۔"
وہ اسے کب تکلیف میں دیکھ سکتا تھا۔ ہمیشہ اسکا حوصلہ
بڑھاتا رہتا ورنہ وہ تو اس ایک بات کو لے کر اتنا سینسیٹو ہو جاتا تھا کہ زندگی سے
دور ہوتا جاتا۔ اگر بابا اور ارحم اس کی زندگی میں نہ ہوتے وہ کب کا بکھر چکا
ہوتا۔ ان دونوں نے ہی اسے سنبھال رکھا تھا۔
"تمھاری
اور بابا کی ہی دی ہوئی طاقت ہی تو ہے کہ میں آج یہاں کھڑا ہوں ورنہ تو کب کا بے
سراغ ہو گیا ہوتا ان کی طرح جن کا سراغ مجھے نہیں مل رہا۔"
وہ اس کے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے بولا۔
"سب ٹھیک
ہو جائے گا ضیغم اور بہت جلد تو صرف ضیغم نہیں رہے گا۔"
وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔
ارحم کا مسکراتا چہرہ اسے بھی مسکرانے پر مجبور کر گیا۔۔
"چل یار
بہت بھوک لگی ہے۔ صبح سے تیرے انتظار میں بھوکا بیٹھا ہوں۔۔ کچھ پیٹ پوجا ہو
جائے۔"
ضیغم نے سر ہلاتے ہوئے لاک کھولا اور دونوں آگے پیچھے اندر
داخل ہوئے۔ارحم تو سنگل پلنگ پہ بیٹھ گیا جبکہ وہ منہ ہاتھ دھونے واش روم میں چلا
گیا۔
فریش ہونے کے بعد وہ دونوں لاک لگا کر ہاسٹل سے نکل آئے۔
"بابا کیسے
ہیں؟"
کھانے کا آرڈر دے کر ارحم نے اسکی طرف دیکھا۔ جو حسب معمول
سیاہ شلوار قمیص میں ملبوس تھا۔ ایک مرتبہ ارحم نے اس سے پوچھا تھا کہ کیا کالا
رنگ اس کا پسندیدہ ہے تو اس کا جواب بہت عجیب تھا۔ اس نے کہا تھا کہ اس رنگ کو وہ
بہت پسند ہے۔
"بابا
بالکل ٹھیک ہیں۔ تمھارا پوچھ رہے تھے کہہ رہے تھے کہ اس بار آوں تو تمھیں ساتھ لے
کر آوں لیکن میں نے کہا کہ تم بہت مصروف رہتے ہو اور تمھارے پاس ان سے ملنے کا
ٹائم نہیں ہے۔"
ضیغم مسکراہٹ دباتے ہوئے بولا۔
"میں مان
ہی نہیں سکتا کہ ضیغم خان میرے متعلق ایسا کہہ سکتا ہے۔"
وہ کھانا کھاتے ہوئے بولا۔ اس کے اتنے اعتماد سے کہنے پر وہ
مسکرا دیا۔
"ارے ہاں
یاد آیا۔۔ وہ جو نئے پروفیسر آئے ہیں۔ کیا نام ہے ان کا۔۔ہاں پروفیسر محمد عقیل۔۔۔
وہ تمھارا بار بار پوچھ رہے تھے۔۔ کل صبح ہی ان سے مل لینا۔"
ضیغم ٹشو سے ہاتھ صاف کرتا اٹھ کھڑا ہوا تو ارحم نے بھی اس
کی تقلید کی۔
"ٹھیک ہے۔۔
کل مل لوں گا ان سے۔"
وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا۔۔ دونوں ہوٹل سے باہر آ گئے۔ ارحم
اسے ہاسٹل ڈراپ کر کے چلا گیا تھا۔ وہ دھیمی رفتار سے چلتا اپنے کمرے کی طرف آ
گیا۔ لاک کھول کر اندر داخل ہوا۔ ہاسٹل میں خاموشی کا راج تھا۔ وہ ایک گہری سانس
خارج کرتا۔۔ہر خیال جھٹکتا ٹیبل پہ رکھی بکس کیطرف آ گیا۔۔ ٹیبل لیمپ آن کر کے
کرسی گھسیٹی۔۔ہاتھ بڑھا کر بکس کھولیں اور اردگرد سے بیگانہ ہو گیا۔
اسے اپنی منزل تک پہنچنا تھا۔۔اپنی پہچان بنانی تھی۔۔ اپنا
نام مکمل کرنا تھا۔۔🌺
تھکاوٹ سے چور ہونے کے باوجود وہ کام میں لگے تھے۔۔چلچلاتی
دھوپ نے ان کی رہی سہی طاقت بھی چھین لی تھی۔ حالات نے جو رخ اختیار کیا تھا وہ
سنبھال نہیں پا رہے تھے۔ کیا کیا سوچا تھا انھوں نے اپنی لاڈلی بیٹی کے لئے۔۔سوچا
تھا کہ اسکی تعلیم مکمل کروائیں گے اور پھر کسی اچھے اور پڑھے لکھے لڑکے سے اس کی
شادی کروائیں گے۔۔ لیکن اب۔۔۔۔اب پڑھانا تو دور اس کی شادی کے خواب بھی مٹی میں
ملتے دکھائی دے رہے تھے۔ بس لمحہ بہ لمحہ ان کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا تھا۔
کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ گاوں میں کچھ لوگوں سے اس کی شادی کی بات بھی
کی مگر سبھی باتور خان سے اس قدر حراساں تھے کہ کوئی بھی آگے نہیں آ رہا تھا۔
کل تو بڑے خان نے بھی بلا کر کہہ دیا تھا کہ اس مسئلے کا
ایک ہی حل ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی باتور خان سے کر دے ورنہ ساری زندگی اس کو
بٹھانا پڑے گا۔ غگ ہو جانے کی وجہ سے گاوں کا کوئی بھی لڑکا اس سے شادی نہیں کرے
گا اور اگر کوئی تیار ہو بھی گیا تو باتور خان کو وہ روک نہیں پائیں گے۔
ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ مسکاء کو کہیں غائب کر دیں
جہاں اس تک باتور خان تو کیا کوئی بھی نہ پہنچ سکے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ
کسطرح اس معاملے کو حل کریں۔ زمان خان نے انھیں بتایا تھا کہ قانونی طور پہ' غگ'
ایک جرم ہے۔ حکومت نے سزا مقرر کر رکھی ہے اور جرمانا بھی۔ انھوں نے بتایا کہ حکومت
نے کچھ عرصہ پہلے ایک قانون منظور کیا تھا۔ جس کے تحت رسم 'غگ' کے مرتکب کو تین
سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے اور عدالت نے ایک فیصلے
میں 'غگ' کی رسم کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے حکم دیا ہے کہ کسی بھی شخص کو یہ
اختیار حاصل نہیں کہ وہ 'غگ' کی بنیاد پر کسی خاتون کو کسی دوسری جگہ شادی سے روک
دے۔۔اب وہ دور ختم ہو گیا کہ لوگ چپ چاپ یہ ظلم سہتے تھے۔ اب وہ وہ قانون کی مدد
لے سکتے ہیں تا کہ وہ اس رسم یا اس جیسی دوسری رسموں کا بائیکاٹ کر سکیں اور اپنی
بیٹیوں کو اس ظلم سے بچا سکیں۔ زمان خان ان سے کئی بار تھانے جا کر رپورٹ کروانے
کا کہہ چکا تھا لیکن رحم دین جانتا تھا کہ قانون بھی ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔
یہاں کا ایس ایچ او تو خود میر سربلند خان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہتا ہے۔ وہ
تو وہی کرے گا جو بڑے خان اسے کہیں گے اور بڑے خان باتور خان کے خلاف کبھی نہیں
جائیں گے۔ اس سوچ نے تو ان کی کمر توڑ دی تھی۔ آخر کہاں جا کر وہ انصاف کا دروازہ
کھٹکٹائیں۔
تھکاوٹ سے ان کا برا حال ہو گیا تھا۔ تھوڑی دیر سستانے کے
لئے وہ وہہیں بیٹھ گئے۔ پسینے سے سارا جسم شرابور ہو رہا تھا۔ بھیگے کپڑوں سے گرم
ہوا ٹکرا کر ٹھنڈی ٹھنڈی لگ رہی تھی۔ اچانک انھیں احساس ہوا کہ ان کے ٹھیک پیچھے
کوئی بیٹھا ہے۔ انھوں نے مڑ کر دیکھا تو باتور خان مسکراتے ہوئے کھڑا ہوا اور ان
کی طرف بڑھا۔
"سلام
چاچا! کیا حال چال ہے تیرا۔"
وہ داڑھی کھجاتا ان کے قریب آیا۔ جواب میں وہ خاموش ہی رہے۔
"بس اب
اتنا کام مت کیا کر۔۔اب میں ہوں نا گھر بیٹھ کے کھا اور موج کر۔۔اس عمر میں اتنا
کام تیری طبیعت خراب کر دے گا۔"
رحم دین کے ماتھے سے اس نے پسینہ پونچھا۔دھوپ کی تمازت سے
سرخ ہوتے چہرے پہ ناگواری جھلکنے لگی۔ انھوں نے اس کے ہاتھ سے اپنا رومال لیا اور
اپنا چہرہ صاف کر کے رومال کندھے پہ ڈالا۔ بنا کچھ بولے وہ قدم بڑھانے ہی والے تھے
کہ باتور خان نے ان کا ہاتھ تھام کر انہیں روکا۔
"چاچا۔۔۔اتنی
اکڑ کس بات کی دکھا رہا ہے۔ باتور خان کا احسان مان کہ اس نے اپنی بےعزتی بھلا دی
ورنہ تیرے بار بار انکار کرنے کے بعد تو تجھے اور تیری بیٹی کو اب تک اوپر پہنچا
چکا ہوتا۔"
اس نے جھٹکے سے ان کا ہاتھ چھوڑا۔
"باتور خان
اللہ سے ڈرو۔۔اتنا ظلم مت کرو۔۔اس کی لاٹھی بے آواز ہے۔"
وہ شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے بولے۔
"ہاہاہا۔۔۔اوہ
چاچا۔۔" وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر ہنسے جا رہا تھا۔
"مسکاء
میری پابند ہے۔۔مجھ سے شادی نہیں کروائے گا تو اٹھا کر لے جاوں گا اور پھر ساری
عمر اسے دیکھ نہیں پائے گا۔۔۔ اب آگے تیری مرضی۔۔اچھا خاصا سمجھدار لگتا ہے
مجھے۔۔"
وہ ہنسی روک کر بولا۔۔
"باتور
خان! آئیندہ اگر میری بیٹی کا نام تمھاری زبان پر آیا تو زبان گدی سے کھینچ لوں
گا۔"
وہ دھاڑے۔۔۔اس کی بات نے ان کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی۔
"واہ چاچا
واہ۔۔۔کیا بات ہے۔۔مزا آ گیا۔"
وہ ایک بار پھر ہنسنے لگا۔۔ آس پاس کام کرتے لوگ بھی ان کے
اردگرد جمع ہونے لگے۔
"تیار رہنا
بہت جلد اپنی بیوی کو لینے آوں گا اور ہاں خرچے کی فکر مت کرنا۔ سب کچھ میں خود
کروں گا۔ چلتا ہوں خدائے پہ امان۔۔"
اس نے بھیڑ جمع ہوتے دیکھی تو کندھے پہ پڑی چادر جھاڑتا ،
ہاتھ ہلاتا آگے بڑھ گیا۔ رحم دین وہہیں کھڑے اسے جاتا دیکھتے رہے۔ قادر علی نے ان
کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر انھیں تسلی دی۔ آہستہ آہستہ بھیڑ چھٹنے لگی لیکن ان کے دل
میں جو دکھ اور تکلیف کی بھیڑ جمع ہونے لگی تھی وہ کیسے چھٹے گی وہ نہیں جانتے
تھے۔
کام سے جی اچاٹ ہو چکا تھا۔
وہ دھیرے قدم اٹھاتے گھر کی طرف چل دئیے۔ *****
"مسکاء
بیٹا! امتحان کب سے شروع ہو رہے ہیں تمھارے۔"
وہ کتاب میں سر دئیے بیٹھی تھی جب ذہرہ بی بی اس کے پاس آ
کر بیٹھیں تھیں۔ اس نے کتاب ایک طرف رکھی اور ان کے ہاتھ سے چائے کا کپ لے لیا۔
ہاتھ میں پکڑے کپ کے کنارے پہ شہادت کی انگلی پھیرتے ہوئے وہ کسی گہری سوچ میں گم
تھی۔ ذہرہ بی بی بغور اسی کیطرف دیکھ رہی تھیں۔ زیادہ بولنے کی عادت تو پہلے بھی
اسکی نہیں تھی مگر اس واقعے کے بعد سے تو جیسے اسے چپ ہی لگ گئی تھی۔
دودھیا رنگت ماند پڑ گئی تھی۔۔اداس آنکھیں گھنٹوں ایک ہی
نقطے پر مرکوز رہتیں۔۔ شہد رنگ بال اپنی بکھری حالت پہ نوحہ کناں دکھائی
دیتے۔۔ہاتھوں میں پڑی کانچ کی کالی چوڑیاں خاموش تھیں۔۔دو دن سے وہ اس کالے لباس
میں تھی۔ کالا رنگ اسے بہت پسند تھا۔ جو بھی لباس پہنتی تھی یا تو کالا ہوتا یا
پھر اس میں کالا رنگ نمایاں ہوتا۔
ان کا دل بیٹھنے لگا۔
"مسکاء۔۔۔"
انھوں نے پیار سے اس کے بال سنوارے۔
"اگلے
مہینے۔۔" ان کے دوبارہ پکارنے پر وہ اپنے کام میں مگن بولی۔
"میں تو کہتی
ہوں کہ تم شہر چلی جاو۔۔وہاں ہاسٹل میں یکسوئی سے پڑھ تو سکو گی۔ یہاں رہو گی تو
پریشان رہو گی۔ وہاں سہیلیوں کے بیچ دل بہلا رہے گا۔ "
وہ نرمی سے اس کے کھلے بالوں کی چٹیا بناتے ہوئے بولیں۔۔اس
نے چائے کا کپ لبوں سے لگایا۔
"اماں۔۔!
آپکو گلالئی یاد ہے۔"
ان کے چٹیا بناتے ہاتھ تھم گئے۔۔
"ہاں۔۔۔یاد
ہے۔۔بہت پیاری بچی تھی۔" انھوں نے ایک سرد سانس خارج کی۔
"اماں آپ
بابا سے کہیں کہ میں باتور خان سے شادی کرنے کے لئے تیار ہوں۔ مجھے کوئی اعتراض
نہیں۔ آپ اور بابا میری وجہ سے باتور خان سے دشمنی مول نہ لیں۔ کہیں نا کہیں تو
کرنی ہی ہے شادی۔۔۔تو باتور خان سے ہی سہی۔۔"
وہ خالی کپ ٹرے میں رکھتے ہوئے ان کی طرف مڑی جو اس کے بال
سمیٹنے کے لئے اس کے پیچھے آ کھڑی ہوئیں تھیں۔
"یہ کیا
کہہ رہی ہو۔۔غلطی سے بھی اپنے بابا کے سامنے یہ بات مت کہہ دینا۔ وہ بہت خفا ہوں
گے۔ تم جانتی ہی کیا ہو باتور خان کے بارے میں۔۔وہ تمھارے لئے مناسب نہیں ہے۔۔اگر
وہ اچھا انسان ہوتا تو ہم کیوں انکار کرتے۔"
وہ اسکا چہرہ ہاتھوں کے پیالے میں لیتے ہوئے بولیں۔
"مگر
اماں۔۔۔میں۔۔۔"
"بس
چپ۔۔مجھے کچھ نہیں سننا۔۔ تم پریشان نہ ہو ہم دیکھ لیں گے سب۔۔خاموشی سے اپنی
پڑھائی پر توجہ دو۔"
انھوں نے اسے ٹوک دیا اور اسے پڑھنے کی ہدایت کرتی کمرے سے
باہر آ گئیں۔
ان کے جاتے ہی وہ تکیے پہ سر رکھتی لیٹ گئی۔۔اب وہ انھیں
کیسے بتاتی کہ باتور خان کہیں بار اسے راستے میں گھیر کر اسے دھمکیاں دیتا رہا ہے
کہ اگر اس نے اس سے شادی نہ کی تو وہ اس کے ماں باپ کو زندہ نہیں چھوڑے گا یا پھر
اسے اغواء کر لے گا۔ وہ اس سے چھپ کر بھی نکلتی مگر وہ نجانے کہاں سے آ ٹپکتا۔۔ تب
سے اس نے گھر سے نکلنا ہی چھوڑ دیا تھا۔
اس کی چبھتی نظریں ہر وقت اسے اپنا پیچھا کرتی ہوئی محسوس
ہوتی تھیں۔
"مسکاء!"
رحم دین کی آواز پہ وہ خیالوں سے باہر آئی۔وہ باہر آئی تو
وہ صحن میں چارپائی پہ بیٹھے تھے۔ ذہرہ بی بی بھی پانی کا گلاس ہاتھ میں لئے ساتھ
ہی بیٹھی تھیں۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ان کے پاس آئی۔
"جی
بابا۔۔"
اس نے ان کے سرخ چہرے پہ نظر ڈالی۔
"بیٹا۔۔!
ہاسٹل کب جانا ہے؟"
انھوں نے گلاس واپس ذہرہ بی بی کو تھمایا۔
"اگلے
مہینے۔"
وہ ان کیطرف دیکھتے ہوئے بولی۔
"اپنا
سامان تیار کھو۔ ہم فجر کے بعد نکلنے کی کوشش کریں گے۔۔ میں کوئی رسک نہیں لینا
چاہتا۔"
وہ اٹھتے ہوئے بولے۔
"میں بھی
اسے یہی کہہ رہی تھی کہ ہاسٹل چلی جائے حالانکہ ابھی کافی دن ہیں مگر۔۔۔اس کا یہاں
رہنا اب خطرے سے خالی نہیں۔" ذہرہ بی بی نے ان کی بات سے اتفاق کیا جبکہ
مسکاء نے خاموشی سے سر اثبات میں ہلایا۔
"یہاں
حالات کچھ اچھے نہیں ہیں۔ زمان خان نے کہا ہے کہ اگر میر آ جائے تو اس کے ساتھ چلے
جائیں۔اسطرح کسی کو شک بھی نہیں ہوگا۔ اسے بحفاظت چھوڑ آوں تو پھر میں اور زمان
خان تھانے جائیں گے۔ اس کا اب مزید یہاں رہنا ٹھیک نہیں ہے۔"
وہ مسکاء کے سر پر ہاتھ رکھتے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے۔ وہ
سوچ رہے تھے کہ میر آج ہی آ جائے تو اچھا ہوگا کیونکہ وہ مزید ایک بھی دن ضائع
کرنا نہیں چاہتے تھے۔
"جاو بیٹا
تم تیاری کرو میں زرا تمھارے بابا کو کھانا دے دوں۔"
ذہرہ بی بی کچن کی طرف بڑھ گئیں تو وہ صحن میں لگے نل سے
منہ ہاتھ دھونے لگی۔ ٹھنڈے پانی میں آنسووں کی گرمائش بھی شامل ہو رہی تھی۔
اس سے پہلے کہ اسکی ماں متوجہ ہوتی وہ اپنے کمرے میں آ گئی۔
تیاری کیا کرنی تھی ۔الماری سے بیگ نکال کر اس نے اپنے گنتی کے چند جوڑے رکھے۔ زپ
بند کر کے بیگ الماری میں رکھا اور الماری کے پٹ بند کر دئیے۔
ذہرہ بی بی کمرے میں داخل ہوئیں تو وہ کتاب ہاتھ میں لئے
خالی الزہہن چارپائی پر بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے سے اندازہ لگانا آسان تھا کہ وہ روتی
رہی ہے۔ اس نے نظر اٹھا کر انھیں دیکھا۔
"اماں
۔۔۔میں آپ اور بابا کو اسطرح اکیلا چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔ میرے جانے کے بعد حالات
اور خراب ہو جائیں گے۔ وہ آپ لوگوں کے ساتھ نجانے کیا سلوک کریں۔"
وہ ان کے سینے سے لگی تو انھوں نے اسے بانہوں میں سمیٹ لیا۔
"بیٹا تمھارے
بابا کا فیصلہ بالکل ٹھیک ہے۔ تمھارا یہاں نہ ہونا ہی صحیح ہے کیوں کہ تمھارے بابا
کے تھانے جانے کے بعد حالات نجانے کیا رخ اختیار کریں اور پھر باتور خان کا کیا
بھروسہ۔۔کہیں اوچھے ہتکنڈوں پہ نہ اتر آئے۔ تم منظر سے غائب ہو جاو گی تو کم از کم
تمھاری طرف سے تو ہم پرسکون رہیں گے۔"
وہ اسے سینے سے لگائے سمجھا رہی تھیں۔
"مگر
اماں۔۔۔"
"بس کوئی
اگر مگر نہیں۔۔تم پریشان نہ ہو۔۔ہم ہیں نا۔ اب تم آرام کرو صبح جلدی جانا
ہے۔"
وہ اسے آرام کرنے کی ہدایت کرتی کمرے سے نکل آئیں۔ ان کے
جانے کے بعد اس نے نماز ادا کی۔ نیند تو آنکھوں سے کوسوں دور تھی مگر پھر بھی وہ
آرام کی غرض سے لیٹ گئی۔۔
وہ جانتی تھی کہ آج کی رات تو کروٹ بدلتے ہی گزرے گی۔
***************
زمان خان حجرے میں داخل ہوا تو میر سربلند خان نے اسے آتے
دیکھ کر منشی کو اشارہ کیا۔ زمان خان نے منشی کو دیکھا جو بڑے خان کے کان میں کچھ
کہہ رہا تھا۔
"زمان خان
میر آ گیا ہے یا نہیں؟؟" میر سربلند خان نے زمان خان سے پوچھا۔
"آج آ جائے
گا خان۔۔"
وہ دھیرے سے بولے۔
"جب آ جائے
تو اس سے کہو کہ ہم سے ملے۔ ہمیں نہ اسکے آنے کی خبر ہوتی ہے اور نہ جانے کی۔
تھوڑا پڑھ لکھ کیا گیا ہے اوقات بھول گیا ہے اپنی۔۔اگر ہم نے اسے آسمان کے نیچے
کھڑا رہنا سکھایا ہے تو ہم اس کے سر سے یہ آسمان کھینچ بھی سکتے ہیں۔۔۔نمک
حرام۔۔۔۔"
وہ زمان خان کو کڑی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ان کی بات انھیں
کسی تازیانے کیطرح لگی۔ وہ سر جھکائے کھڑے تھے۔ اب وہ ان سے کیا کہتے کہ کسطرح وہ
یہاں تک پہنچا ہے۔ ان کا بس چلتا تو وہ اسے پڑھنے ہی نہ دیتے۔ وہ ساری زندگی ان کی
خدمت گزاری بھی کرتا تو تب بھی اسے یہی پکارا جاتا۔۔۔نمک حرام۔۔۔
"جی
خان۔۔۔وہ جیسے ہی پہنچے گا میں آپ کے پاس بھیج دوں گا۔"
وہ سر جھکائے بولے۔
"زمان
خان۔۔۔۔۔" باتور خان حجرے میں داخل ہوا اور جیسے ہی اس نے زمان خان کو دیکھا
تو تقریبا بھاگتے ہوئے آ کر اسکا گریبان پکڑ لیا۔ اردگرد بیٹھے ہوئے لوگ بھی اٹھ
کر ان کے پاس آ گئے تھے اور زمان خان کو چھڑانے لگے۔
"باتور
خان۔۔ یہ کیا کر رہے ہو۔۔چھوڑو۔۔۔" مولوی صاحب نے اسے ٹوکا۔۔۔وہ مسجد کی تعمیر
کے سلسلے میں میر سر بلند خان سے بات کرنے کی غرض سے آئے۔ یہ نظارہ ان کے لئے نیا
نہیں تھا مگر آج زمان خان کے ساتھ باتور خان کا رویہ انھیں ایک آنکھ نہ بھایا۔
"تمھاری
ہمت کیسے ہوئی میرے گھر میں داخل ہونے کی۔ تم ہوتے کون ہو ہمارے معاملات میں ٹانگ
اڑانے دینے والے۔"
باتور خان نہایت بدتمیزی سے انھیں گریبان سے پکڑ کر جھنجوڑ
رہا تھا۔۔
"باتور
خان۔۔۔۔۔چھوڑ دو زمان خان کو۔"
میر سربلند خان اس تماشے سے اچھے خاصے لطف اندوز ہونے کے
بعد کھڑے ہوئے اور باتور خان کو زمان خان کو چھوڑ دینے کو کہا۔۔جب تک میر ان کی
زندگی میں نہیں تھا زمان خان کی ایک الگ جگہ تھی لیکن جب سے انھوں نے میر سربلند
خان کے منع کرنے کے باوجود میر کو سنبھالنا شروع کیا تو بڑے خان نے بھی انھیں ہر
چیز سے الگ کر دیا۔ انھیں کچھ اور چاہیئے بھی نہیں تھا سوائے میر کے۔۔انھوں نے
اپنی اولاد کی طرح پالا تھا اسے۔۔حالانکہ میر کو بڑے خان نے ہی ان کے حوالے کیا
تھا۔وہ چاہتے تھے کہ میر کی تربیت اس خطوط پہ کی جائے کہ آگے جا کہ وہ ان کے کام آ
سکے مگر زمان خان نے اسے ہتھیلی کا چھالا بنا ڈالا تھا۔بہانے بہانے سے اسے تعلیم
دلوا رہے تھے اور پھر موقع دیکھ کر اسے شہر بھی بھیج دیا تاکہ وہ اپنا خواب پورا
کر سکے۔ جو وہ بچپن سے دیکھتا آ رہا تھا۔
"چھوڑ دے
باتور۔۔۔"
وہ دوبارہ بولے۔۔جس پہ باتور خان نے انھیں جھٹکا دے کر
دروازے کی جانب پھینکا۔
وہ گرتے گرتے بچے تھے۔۔۔وہ کسی کے مضبوط بازو تھے جنھوں نے
انھیں تھام کر انھیں گرنے سے بچایا تھا۔ انھوں نے سر اوپر اٹھا کر تھامنے والے کو
دیکھا۔
"میر۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
وہ آنکھوں میں بیک وقت قہر اور نرمی لئے انھیں دیکھ رہا
تھا۔ اس نے انھیں کھڑا ہونے میں مدد دی اور انھیں ایک طرف کر کے ان کے پھٹے ہوئے
گریبان کو درست کیا۔۔ وہ اس وقت بھی کالے رنگ کا سادہ شلوار سوٹ پہنے ہوئے تھا۔
وہاں موجود سبھی لوگوں کی نظریں اسی پہ ٹکی تھیں۔ چھ فٹ سے نکلتا ہوا قد۔۔گندمی
رنگت میں سرخی لئے وہ باتور خان کی جانب مضبوط قدموں سے بڑھا۔۔ بلاشبہ وہ مردانہ
وجاہہت لئے ایک بھرپور مرد تھا۔
"تمھاری
ہمت کیسے ہوئی میرے بابا کو ہاتھ لگانے کی۔"
اس نے باتور خان کو گریبان سے پکڑا۔ اس کا دایاں ہاتھ اٹھا
اور باتور خان کے چہرے پہ اپنی مکمل چھاپ چھوڑ گیا۔ باتور خان میر سربلند خان کے
قدموں میں جا گرا۔ تھپڑ اتنا زوردار تھا کہ باتور خان کو اپنا چہرہ سن ہوتا محسوس
ہوا اور کانوں میں اس تھپڑ کی گونج اپنا اثر چھوڑ گئی۔ میر سربلند خان کے ساتھ
ساتھ وہاں موجود سبھی لوگوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ وہ حیران نظروں سے میر کو
دیکھ رہے تھے۔ انھیں لگا جیسے ان کے سامنے میر نہیں میر دراب خان کھڑا ہے۔ وہ میر
دراب خان جو دکھتا کڑیل اور اندر سے نرم دل تھا۔
انھیں لگا جیسے ان کا جسم بھربھری مٹی کیطرح ڈھے جائے گا۔
انھوں نے دیکھا کہ میر دراب خان ان کے قریب آتا جا رہا ہے وہ گھبرا کر پیچھے ہوئے۔
کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ آگے بڑھ کر میر کو روکتا۔ زمان خان بھی حیرانی سے
اسے دیکھ رہے تھے۔
"بتا۔۔۔نہیں
تو وہ حشر کروں گا کہ پوری زندگی اپنے قدموں پہ کھڑا نہیں ہو پائے گا۔"
میر نے باتور خان کو ان کے قدموں سے اٹھایا۔ اس سے پہلے کہ
وہ اپنے کہے ہوئے پر عمل کرتا زمان خان نے اس کی طرف بڑھ کر اسے روکا۔
"بس
میر۔۔۔بڑے خان موجود ہیں یہاں۔۔۔بس کرو۔" انھوں نے باتور خان کا گریبان اس کے
ہاتھوں سے چھڑایا اور اسے پیچھے کیا۔
"زمان خان
اپنے بیٹے کو تمیز سکھا۔ تیرا بیٹا ہے اس لئے چھوڑ رہا ہوں ورنہ اس بدتمیزی کا
انجام اچھا نہ ہوتا۔ ہماری بندوق کی ایک گولی ہی کافی تھی۔ ہمارے بندے پہ ہاتھ
اٹھانا اسے بہت مہنگا پڑ سکتا تھا اگر تم نہ ہوتے۔"
میر سربلند خان کے خود کو سنبھالا۔۔
"آئندہ مجھ
سے پچاس گز دور رہنا ورنہ اس سے بھی برا حال کر دوں گا۔"
وہ ان کی بات پر کان دھرے بنا باتور خان کو وارن کرتا زمان
خان کو لئے حجرے سے نکل آیا۔
"رک جاو
باتور خان۔۔۔اب پیٹھ پیچھے سے وار کرنے کا کیا فائدہ۔"
باتور خان اس کے پیچھے جانے لگا تو میر سربلند خان بولے۔
انکی بات نے باتور خان کو آگ لگا دی اور قدم وہہیں جم کر رہ گئے مگر دل میں تہیہ
کر چکا تھا کہ میر سے اپنی بےعزتی کا بدلہ ضرور لے گا۔
"بابا۔۔!
آپ ٹھیک ہیں؟؟"
وہ ان کے کپڑوں پہ لگی مٹی جھاڑے لگا۔۔
"میں ٹھیک
ہوں لیکن تمھیں باتور خان سے منہ ماری نہیں کرنی چاہیے تھی۔ وہ اب آرام سے بیٹھنے
والا نہیں ہے۔"
وہ پریشان نگاہوں سے حجرے کے دروازے کیطرف دیکھ رہے تھے
جہاں سے ابھی باتور خان بہت غصے میں نکل کر گیا تھا۔
"وہ کچھ
نہیں کر سکتا بابا۔۔"
اسں نے ان کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا۔*******
میر سربلندخان کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ وہ میر دراب
خان سے اس قدر مماثلت رکھتا ہو گا۔ اس کی ایک نظر سے ان کے اندر ایک جنگ سی چھڑ
گئی تھی۔ انھیں کب امید تھی کہ ایک دن وہ اسطرح سے ان کے سامنے آ کھڑے ہوں گے۔
حجرے میں وہ مزید رک نہیں سکے تھے اس لئے فورا وہاں سے نکل آئے تھے یہ جانے بغیر
کہ ان کی پریشان صورت دیکھ کر وہاں موجود لوگ حیران تھے۔ سبھی نے ہمیشہ ان کا رعب
و دبدبہ دیکھا تھا۔
گھر میں گونجتی خاموشی پر ان کے اندر کا شور غالب آ گیا۔
دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے پیشانی مسلتے ہوئے وہ کمرے میں داخل ہوئے۔ واسکٹ اتار کر
ایک طرف پھینکی اور بیڈ پر لیٹ کر آنکھیں موند لیں۔ بند آنکھوں کے پیچھے کچھ دیر
پہلے کا دیکھا چہرہ پھر نمودار ہوا۔ پٹ سے آنکھیں کھول کر وہ اٹھ بیٹھے۔ وہی ناک
نقشہ ، قد کاٹھ ، روشن پیشانی ، کھڑی ناک ۔۔۔۔۔۔سب کچھ تو ویسا ہی تھا جیسا پچیس
سال پہلے تھا۔ ان کی آنکھوں کے آگے وہی منظر ایک بار پھر ابھرا تھا۔۔۔میر دراب خان
کے بالکل سامنے وہ کھڑے تھے۔۔۔وہ۔۔۔۔میر سربلند خان۔۔۔جس نے کبھی ہارنا نہیں سیکھا
تھا۔۔ جو صرف اور صرف ہرانا جانتا تھا اور ہرانا بھی چاہتا بھی۔۔جو اپنے باپ کے
سامنے بھی ڈٹ جاتے تو کوئی آندھی طوفان بھی ان کے قدم اکھاڑ نہیں سکتی تھی۔ تو پھر
اپنے بھائی سے کیسے ہار تسلیم کر سکتے تھے اور بھائی بھی سوتیلا۔۔۔بہادر تو میر
دراب خان بھی تھے مگر دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔۔۔ وہ ایک مضبوط
تناور درخت کیطرح تھے جس کی جڑیں زمیں میں دور تک پھیلی ہوئیں تھیں اور جسکا سایہ
وسیع تھا۔ گاوں کے لوگ اس کے سائے میں سستانے آتے تو وہ انھیں سمیٹ لیتا۔ پھر
پریشانیوں کی دھوپ میں جھلستا آدمی کیکر کے پاس تھوڑی نہ جاتا ہے وہ تو اس شجر کی
چھاوں میں آتا ہے جو اسے موسم کی تمازت سے بچائے اور ٹھنڈک مہیا کرے۔۔پھر جہاں
سوتیلے ہونےکی وجہ سے کڑواہٹ ہو وہاں خون کی گرمائش بھی کام نہیں آتی۔۔میر دراب
خان کی سلجھی طبیعت ان کی ایک ایسی خوبی تھی جس سے وہ ہر دلعزیز تھے مگر اپنے
بھائی کے دل میں چبھا ایک ایسا کانٹا تھے جس کی چبھن ہر پل محسوس ہوتی ہے۔ وہ اس
کانٹے کو نکال دینا چاہتے تھے۔ جسکا موقع انھیں جلد ہی مل گیا تھا۔
دروازے پہ ہوئی دستک نے ان کو خیالوں سے نکالا۔ ملازمہ
اجازت طلب کرتی اندر داخل ہوئی اور ٹرے سائیڈ ٹیبل پہ رکھا۔۔ گھر میں ملازموں اور
ان کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ آج ایک ہفتہ ہونے کو آیا تھا گھر والے سب سیروتفریح کے
لئے گئے تھے۔اس لئے وہ زیادہ تر وقت حجرے میں گزارتے تھے۔ شہنیلا کے کالج کی
چھٹیاں تھیں اس لئے ہاسٹل سے آتے ہی اسکی ایک ہی رٹ تھی کہ اسے مری جانا ہے۔ میر
سربلندخان اپنی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی کی کب کوئی بات ٹالتے تھے۔ اس لئے اگلے
دن ہی تمام انتظام مکمل کر کے انھیں بھیج دیا۔
سر جھٹک کر انھوں نے شاہ زیب کا نمبر ملا کر فون کان سے
لگایا۔
اتنے میں ملازمہ چائے رکھ کر جا چکی تھی۔
تیسری بیل پر کال ریسیو کر لی گئی۔
"ہیلو بابا
جان۔۔! کیا حال چال ہیں آپ کے۔۔"
دوسری جانب سے شہنیلا کی چہکتی آواز سنائی دی۔
"بابا کی
جان۔۔! میں ٹھیک ہوں۔ تم سب کیسے ہو۔۔ اور کب تک واپسی ہو گی؟"
اسکی آواز سن کر وہ سب بھول گئے۔
"بس بابا
جان ۔۔۔ہم سب ٹھیک ہیں اور یہاں سب کچھ اتنا اچھا ہے کہ واپس آنے کو جی ہی نہیں
چاہ رہا۔لیکن محض دو دن اور۔۔۔۔۔۔پھر ہم آپ کے پاس ہونگے۔۔"
خوشی اس کے لہجے سے چھلک رہی تھی۔
"شاہ زیب
اور عالمزیب کہاں ہیں؟"
انہوں نے بیٹوں کے متعلق پوچھا۔
"شاہ زیب
لالا اور عالمزیب لالا بچوں کو لے کر نکلے ہیں۔ میں اور مما یہیں ہیں روم میں
۔۔۔مما سو رہی ہیں۔آپ کہیں تو جگا دوں؟؟"
وہ مسکرائی تھی۔
"نہیں۔۔جب
اٹھ جائیں تو پھر سب سے میری بات کروانا۔اپنا خیال رکھو۔۔اللہ حافظ۔"
"جی۔۔آپ
بھی اپنا خیال رکھیں۔۔۔۔اللہ حافظ۔"
انہوں نے موبائل فون سائیڈ ٹیبل پہ رکھ کر چائے کا کپ اٹھا
لیا۔ ایک مرتبہ پھر سے ان کی سوچ کا محور میر دراب خان تھے۔۔۔
میر تھا...☆
وہ تولیے سے بالوں کو رگڑتا واش روم سے نکلا تو زمان خان نے
کھانے کی ٹرے چھوٹی سی ٹیبل پہ رکھی۔ کمرہ نہ بہت کشادہ تھا نہ بہت چھوٹا۔۔کمرے کے
وسط میں ایک پلنگ تھا جس پہ گلابی پھولدار چادر بچھائی گئی تھی۔ پلنگ کے ایک طرف
دو کرسیاں اور ایک چھوٹی ٹیبل رکھی تھی۔ دوسری طرف لکڑی کی الماری رکھی تھی۔
وہ تولیہ بیڈ پر گراتا کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ زمان خان نے
دائیں بائیں سر ہلا کر اسے پیار بھری گھوری سے نوازا۔ جس پہ وہ کندھے اچکاتا مسکرا
دیا۔ میر تھوڑا سا لاابالی تھا۔ چیزیں ادھر سے ادھر کر دیتا اور پھر ڈھونڈتا رہتا۔
یہ زمان خان ہی تھے جو اسکی ہر چیز سنبھال کر رکھتے تھے۔ بےترتیبی انھیں بالکل
پسند نہیں تھی اس لئے اٹھے۔۔تولیے کو اسکی جگہ پہ رکھا اور واپس آ کر چئیر پہ بیٹھ
گئے۔ ان کے آنے تک وہ کھانا اسٹارٹ کر چکا تھا۔ انھوں نے تھوڑا سا سالن اپنی پلیٹ
میں نکالا اور کھانے لگے۔ گاہے بہ گاہے میر پہ بھی نظر ڈال دیتے۔
"بابا۔۔آپ
کچھ کہنا چاہتے ہیں۔۔جب سے گھر آئے ہیں میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ بےچین اور کچھ
پریشان سے ہیں۔۔کیا بات ہے۔۔کیا خان جی نے کچھ کہا ہے آپ سے یا پھر حجرے میں ہوئے
واقعے کو لے کر پریشان ہیں۔"
اس نے ان کی بےچینی دیکھ کر کھانے سے ہاتھ روک دیا۔
"نہیں بیٹا
میں تو رحم دین کے لئے پریشان ہوں۔" وہ اپنی پلیٹ ایک طرف کرتے ہوئے
بولے۔۔پریشانی ان کے چہرے سے ہویدا تھی۔
"کیوں کیا
ہوا رحم دین چاچا کو۔۔؟؟"
اس نے کرسی کو ٹیبل سے مزید قریب کیا۔ اس کے پوچھنے پر
انہوں نے ساری بات اسے بتائی جسے سن کر اس نے افسوس سے سر ہلایا۔ اسے کچھ مہینے
پہلے کا واقعہ یاد آیا جب گلالئی نامی لڑکی کو رشتہ نہ دینے پر اس کی شادی والے دن
ہی اس لڑکے نے اسے قتل کر دیا تھا۔ تب سے گاوں میں اسکا دل نہیں لگ رہا تھا۔ اس
ظلمت کدے میں زبان بند کیے رہنا اس کے لئے بہت مشکل تھا اور زمان خان اسے کسی کے
معاملے میں بولنے نہیں دیتے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ میرسربلند خان کی نظروں
میں آئے لیکن وہ اپنے گاوں کے لئے کچھ کرنا چاہتا تھا اس لئے وہ بہت محنت کر رہا
تھا تاکہ اپنا مقصد پا سکے اور ان ظالموں کو سبق سکھا سکے جنھوں نے اس گاوں کو
اپنی جاگیر سمجھ رکھا تھا اور جو جی میں آتا تھا بے دھڑک کرتے پھرتے تھے۔
"تھانے جا
کر رپورٹ کرتے باتور خان کے خلاف۔"
وہ سر جھٹک کر دوبارہ کھانے کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا۔
"یہاں کا
ایس۔ایچ۔او بھی اس سے ڈرتا ہے۔ بڑے خان کی سرپرستی کی وجہ سے اس کا دل جو کہتا ہے
وہ وہی کرتا ہے اور کسی میں ہمت نہیں کہ اسے کچھ کہہ سکے بلکہ پچھلے مہینے کی بات
ہے کہ اس کے ایک آدمی نے سکول جانے والی ایک لڑکی کے ساتھ چھیڑا چھاڑی کی۔ اس کے
باپ نے تھانے جا کر اس کے خلاف رپورٹ درج کروا دی۔ پولیس اسکے پیچھے آئی تو اس نے
ان کے ساتھ بھی بدتمیزی کی۔ باتور خان کو معلوم ہوا تو اس نے اس لڑکی کے باپ کو
بھی مارا اور جس نے رپورٹ درج کی اسے بھی اتنا مارا کہ وہ بیچارا کہیں دن تک بستر
سے نہیں اٹھ سکا تھا۔"
اسے افسوس ہوا کہ کاش وہ یہاں ہوتا تو وہ اس باتور خان کو
وہ سبق سکھاتا کہ اس کی آئیندہ نسلیں یاد کرتیں۔
"اچھا مجھے
تم سے کام تھا۔ تم رہو گے یا واپس جانا ہے؟"
انھوں نے کچھ سوچتے ہوئے اس سے پوچھا۔
"میرے کچھ
ضروری ڈاکومنٹس یہاں رہ گئے تھے وہی لینے آیا تھا۔ صبح سویرے واپس جاوں گا۔"
وہ ان کیطرف دیکھ رہا تھا جو پھر سے بےچین دکھائی دے رہے
تھے۔
"بابا۔۔آپ
کو جو کہنا ہے کھل کر کہیں۔"
اس نے انھیں شش و پنج میں مبتلا دیکھ کر کہا۔
"وہ دراصل
رحم دین چاہتا ہے کہ کسی طرح اپنی بیٹی کو بحفاظت شہر پہنچا دے اور یہ بھی چاہتا
ہے کہ گاوں میں کسی کو پتہ نہ چلے۔ اس بارے میں وہ بہت پریشان تھا اس لئے میں نے
اسے کہا کہ تمھارے آنے تک رک جائے۔ تمھارے ساتھ جائیں گے تو وہ محفوظ رہیں گے اور
کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور نہ ہی کسی کو شک ہو گا۔"
وہ پر سوچ نظروں سے انھیں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ان کی بات
ختم ہونے پر وہ گہری سانس خارج کرتا کرسی سے پشت لگا گیا۔
"ٹھیک ہے
بابا۔۔۔میں فجر کے بعد روانہ ہوں گا آپ رحم دین چاچا کو بتا دیجیئے کہ وہ تیار
رہیں اور ان سے کہیے گا کہ پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا۔"
یہ کہہ کر اس نے ہاتھ سے گھڑی اتار کر ٹیبل پہ رکھی اور
پلنگ پہ لیٹ کر آنکھیں موند لیں۔
زمان خان بھی خاموشی سے کمرے سے باہر آ گئے۔ وہ رحم دین کو
بتانے اس کے گھر کی طرف چل دئیے۔
جاری ہے۔۔۔
Comments
Post a Comment