"غگ"
از
ماہ وش
عروج
دوسری قسط
باتور خان سرخ چہرے کے ساتھ گھر میں داخل ہوا۔ دھڑام سے
دروازہ بند ہونے کی آواز آئی تو زبیدہ خانم کچن سے باہر آئیں تھیں۔۔ ابھری ہوئی
کنپٹی ، سختی سے بھینچی ہوئی مٹھیاں اسکے شدید غصے میں ہونے کی غماز تھیں۔ غصہ میں
کیوں نہ ہوتا آج سے پہلے کبھی کسی نے اس پہ ہاتھ اٹھایا ہی کب تھا۔
وہ طیش میں آ کر راستے میں پڑی ہر چیز کو ٹھوکر پہ
رکھتا اندر کیطرف بڑھا۔
اسے اتنے غصے میں دیکھ کر انھوں نے اپنا کلیجہ تھام
لیا۔۔
"باتور۔۔۔۔۔سہ چل شوے دے( کیا ہوا
ہے)؟؟"
وہ اس کی طرف بڑھیں تو وہ ان کے قریب سے گزر کر آگے بڑھ
گیا۔ وہ جب غصے میں ہوتا تو کوئی بھی اس کے قریب جانے سے کتراتا تھا۔ غصے میں وہ
کسی کا لحاظ نہیں کرتا تھا۔۔۔ماں باپ کا بھی نہیں۔
مگر وہ ماں تھی اسے اس حالت میں دیکھ کر وہ اس کے پیچھے
کمرے میں آئیں۔
"باتور۔۔۔"
وہ اندر آئیں تو وہ بیڈ پہ آڑا ترچھا لیٹا تھا۔ وہ اس
کے قریب آئیں اور بیڈ پہ بیٹھ کر اسے پکارنے لگیں۔ اس نے اپنا چہرہ بازوں میں چھپا
رکھا تھا۔
"باتور خاناں۔۔۔کیا طبیعت خراب
ہے؟"
ان کے بار بار پوچھنے پر تنگ آ کر اس نے سر اٹھایا۔ سرخ
آنکھیں۔۔سفید چہرے پر پانچ انگلیوں کی چھاپ۔۔وہ حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔ سرخ
آنکھیں انہی پہ گڑیں تھیں۔
"کسی سے لڑ کر آئے ہو۔۔کمبخت نے کتنا
مارا ہے۔۔کون بدبخت تھا جس نے تمھاری یہ حالت کر دی۔"
انھوں نے اس کے چہرے پہ ہاتھ پھیر کر پوچھا۔
"اماں جاو یہاں سے ۔۔۔ہر وقت سر پر سوار
رہتی ہو۔"
وہ ان کے ہاتھ کو اپنے چہرے سے ہٹاتے ہوئے دھاڑا تھا۔
"اس پہ کیوں غصہ ہو رہے ہو۔۔خود میں ہمت
ہوتی تو وہہیں اسکا منہ توڑ دیتے۔ خاموشی سے مار کھا کر آ گئے ہو اور اب عورتوں کی
طرح چھپ کر رو رہے ہو۔"
وہ باہر نکلنے ہی والی تھیں کہ کرم دین کمرے میں داخل
ہوا۔ انھیں حجرے میں ہونے والے واقعہ کے بارے میں پتہ چل گیا تھا وہاں سب میر کی
تعریف میں رطب السان تھے۔ اس کی بہادری کے گن گا رہے تھے کہ کیسے اس نے ایک ہی
جھٹکے میں باتور کو چاروں شانے چت کیا۔ حجرے سے ہوتی ہوئی خبر گاوں میں پھیل گئی
تھی۔ کیونکہ پہلی بار کوئی باتور خان کے سامنے پورے قد سے کھڑا ہوا تھا۔
"میں اسی وقت اسکو باتور خان سے پنگا
لینے کا انجام بتا دیتا مگر خان جی نے روک دیا ورنہ آج تک کوئی ایسا پیدا نہیں ہوا
جو باتور خان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکے۔ میر کی تو ایسی کی تیسی۔
ٹانگیں توڑ کر ہاتھ میں نہ دے دیں تو میرا نام باتور خان نہیں۔
انکی بات نے تو گویا باتور خان کو آگ لگا دی۔ وہ ایک دم
سے اٹھ کر ان کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
"تمھارے منہ پہ اسکی انگلیوں کے نشان
تمھاری بہادری کا ثبوت ہی تو ہیں۔"
وہ استہزایہ ہنسے تھے۔ باتور خان مٹھیاں بھینچے کمرے سے
باہر نکل گیا۔
"آپ نے اسے روکا کیوں نہیں۔۔خود کو کہیں
کوئی نقصان نہ پہنچا لے۔"
زبیدہ خانم ان کے پیچھے آ کھڑی ہوئیں۔
"تم نے اگر لوگوں کی طنزیہ نظریں دیکھی
ہوتی تو دیکھتا کہ تم کیا کرتی۔ کل تک جو لوگ مجھ سے بات کرتے ہوئے گھبراتے تھے آج
مجھ پہ ہنس رہے تھے۔ "
وہ ان کیطرف مڑے۔
"لیکن اس طرح اسے بھیجنا ٹھیک نہیں۔ اب
وہاں جا کر نجانے کیا کرے۔"
وہ اس کے اس قدر غصے میں گھر سے جانے پر پریشان ہو رہی
تھیں۔
"ہاہا۔۔۔۔ارے کچھ نہیں ہوتا۔۔ ذرا زمان
خان کو بھی تو پتہ چلے کہ باتور خان کیا چیز ہے۔ جاوں ذرا زمان خان کی بےعزتی کا
تماشا تو دیکھوں۔"
وہ ہنستے ہوئے باہر نکل گئے۔ وہ انھیں خواہش ہونے کے
باوجود روک نہیں سکیں تھیں۔
وہ گھر سے باہر آئے تو انھیں اقبال اپنی طرف آتا دکھائی
دیا۔ اس کی سانس پھولی ہوئی تھی۔
"کاکا جی۔۔۔وہاں زمان خان کے گھر کے
باہر باتور خان نے تباہی مچا رکھی ہے۔ گاوں کے سارے لوگ وہاں جمع ہیں۔ بڑے خان جی
تک بھی کسی نے بات پہنچا دی ہے۔ رشید بھی وہہیں ہے۔"
وہ ہانپتا ہوا ان کے قریب آ کر بولا۔
"باتور خان میرا بیٹا ہے۔۔۔شیر ہے وہ
شیر۔۔اسے کوئی نہیں روک سکتا سوائے میرے۔۔۔اور میں نے خود تو بھیجا ہے اسے میر کا
دماغ ٹھکانے لگانے۔"
وہ اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے تسلی دیتے ہوئے بولے
اور آگے بڑھ گئے۔
"کاکا جی۔۔۔آپ کو نہیں پتہ کہ میر نے
بڑے خان جی کے حجرے میں باتور خان کا کیا حال کیا تھا۔"
وہ پیچھے سے اونچی آواز میں بولا۔ کرم دین کے قدم وہہیں
جم گئے۔ تیزی سے واپس آئے اور اسے گردن سے دبوچ لیا۔
"شیر کو آج تک کون پچھاڑ سکا ہے۔ چلو تم
آج اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔"
وہ اسے گدی سے پکڑے آگے بڑھے۔
تیز تیز قدم اٹھاتے وہ زمان خان کے گھر کے پاس پہنچے تو
وہاں کافی لوگ موجود تھے۔ کچھ لوگ باتور خان کو سمجھا رہے اور کچھ تماشا دیکھ رہے
تھے۔ باتور خان ہاتھ میں پسٹل لئے بےحد غصے میں دکھائی دے رہا تھا۔ وہ تو سمجھ رہے
تھے کہ اب تک تو وہ میر کا قصہ تمام کر چکا ہوگا مگر میر اور زمان خان انھیں کہیں
نظر نہیں آئے۔
"باہر نکل میر۔۔۔۔اب بل میں چھپ کر بیٹھ
گیا ہے۔ اس وقت تو بڑا ہیرو بن رہا تھا۔ وہاں بڑے خان جی کی وجہ سے تو تو بچ گیا
تھا۔ اب آ باہر تا کہ میں تیری طاقت دیکھوں۔"
باتور خان زمان خان کے گھر کے دروازے پہ لات مارتا
بولا۔
"باتور خان۔۔ لگتا ہے زمان خان اور اسکا
بیٹا ڈر گئے ہیں۔ چل آ جا۔۔کبھی تو اس بل سے نکل ہی آئیں گے۔ کب تک گھر میں چھپے
رہیں گے۔ ہم اپنے دشمن کو یونہی نہیں جانے دیتے۔"
کرم دین نے میر سربلند خان کو آتے دیکھ کر باتور خان کو
روکا۔ باتور خان نے بھی انھیں دیکھ لیا۔ اس لئے رک گیا۔ بڑے خان جی کو دیکھ کر
وہاں موجود سبھی لوگ اپنے اپنے گھروں کا رخ کرنے لگے تھے۔
وہ تیزی سے اس کی طرف آئے۔
"باتور خان۔۔۔یہ سب کیا ہو رہا
ہے۔۔تمھیں میں نے اس وقت بھی کوئی انتہائی قدم اٹھانے سے منع کیا تھا۔ الیکشن سر
پر ہیں۔ اس وقت ہم کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔"
وہ بازو سے پکڑ کر ایک طرف لے گئے۔
"مگر خان جی۔۔۔میرے دل و دماغ میں جو آگ
لگی ہے اسکا کیا کروں۔"
وہ پھولتی سانسوں کو اعتدال پہ لاتے ہوئے بولا۔
"الیکشن ہو جائیں تو پھر۔۔۔۔۔الیکشن کے
بعد جو جی میں آئے کرنا۔۔۔۔ابھی نہیں۔"
وہ اشارہ دیتے ہوئے بولے اور اسے ساتھ لئے آگے بڑھ گئے۔
کرم دین طنزیہ نظروں رحم دین کی طرف دیکھتے ہوئے ان کے پیچھے چل دیا۔ جیسے کہہ رہا
ہو کہ تم بھی سنبھل جاو۔۔
ان کے جانے کے بعد رحم دین نے دروازے پہ دستک دی اور
بلند آواز میں زمان خان کو پکارا۔۔۔******
وہ دونوں کمرے میں بیٹھے آنے والے وقت کے متعلق سوچ رہے
تھے۔
"بابا آپ نے مجھے کیوں روکا تھا۔ آپ نے
جانے نہیں دیا ورنہ اس کا دماغ ٹھکانے لگانا میرے لئے مشکل نہیں تھا۔ باتور خان
جیسے معاشرے کے ناسوروں کو کیسے ٹھیک کیا جاتا ہے میں بہت اچھی طرح جانتا ہوں۔یہی
تو میرا مقصد حیات ہے۔"
وہ مٹھیاں بھینچےغصے میں کمرے میں دائیں سے بائیں چکر
لگا رہا تھا۔ باتور خان جسطرح گھر کے باہر شور مچا کر گیا تھا اس کا بس نہیں چل
رہا تھا نکل کر اس کے ہوش ٹھکانے لگا دے مگر زمان خان اسے جانے نہیں دے رہے تھے۔
"میر ۔۔۔یہ وقت مناسب نہیں تھا۔ وہ کچھ
بھی کرنے سے پہلے سوچتا تھوڑی ہے اگر تمھیں کچھ ہو جاتا تو۔۔۔"
وہ اسے تب سے سمجھا رہے تھے مگر اس کے غصے کا گراف نیچے
نہیں آ رہا تھا۔
"تمھارے بابا بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں
بیٹا۔۔یہ لوگ کسی کو لڑنے کا موقع ہی کب دیتے ہیں اور ذرا سا مزاج کے خلاف بات ہو
جائے تو بندہ مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ گاوں کے حالات تو تمھارے سامنے ہیں کب
کوئی بچ سکا ان سے۔ تم ہی ہماری آخری امید ہو۔ تمھیں نہیں کھو سکتے ہم۔"
رحم دین اٹھ کر اس کے پاس آئے اور اسے بیٹھ جانے کو کہا
جبکہ زمان خان پر سوچ نظروں سے اسے ہی دیکھ رہے۔
"اور ہاں اب تمھارا یہاں رکنا بھی مناسب
نہیں ہے۔ کل صبح سویرے ہی نکل جانا۔ تم بھی جا رہے ہو نہ کل؟؟"
انھوں نے اس سے بات کرتے کرتے رحم دین سے پوچھا۔ جس کے
جواب میں انھوں نے اثبات میں سر ہلایا۔
"مسکاء کے لئے شہر جانا ہی مناسب ہے وہ
یہاں نہیں ہو گی تو ہی ہم کچھ کر سکیں گے۔ اس کے یہاں موجود رہنے سے حالات خطرناک
صورت اختیار نہ کر لیں۔ سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے خان جی بھی اسی کا ساتھ دے رہے
ہیں۔ یہ نہیں کہ اسکو یہ ظلم کرنے سے روکیں وہ اسے اور بڑھاوا دے رہیں۔ کوئی بھی مدد
کے لئے تیار نہیں ہے۔ سب یہی کہہ رہے ہیں کہ باتور کو رشتہ دینے میں ہی عافیت ہے۔
اب تم ہی بتاو کہ میں کیسے اپنی بیٹی کو کنویں میں دھکیل دوں۔"
وہ میر کیطرف دیکھ رہے تھے جو زمین پہ نظریں گاڑھے
نجانے کیا سوچ رہا تھا۔
" میر بیٹا۔۔۔تمھیں تکلیف تو نہیں ہو
گی۔اگر ہم تمھارے ساتھ چلیں۔"
ان کے پوچھنے پر وہ خیالات سے چونکا۔
"ارے نہیں چاچا۔۔۔میں آپ کے ساتھ ہوں
لیکن ایک بات سمجھ نہیں آ رہی کہ آپ اسے وہاں چھوڑ کے آ جائیں گے تو وہ رہے گی کس
کے ساتھ۔۔ کیا وہاں آپ کا کوئی رشتے دار وغیرہ ہیں؟"
میر نے ان کا ہاتھ تھام کر انھیں اپنے ساتھ کا احساس دے
کر پوچھا۔
"نہیں بیٹا رشتہ دار تو کوئی نہیں
ہے۔"
وہ حیرت سے زمان خان کی طرف دیکھنے لگا۔
"وہاں ہاسٹل میں رہے گی۔"
زمان خان اس کی حیرت بھانپ کر بولے۔
"کون سے ہاسٹل؟؟؟ چاچا آجکل ویمنز
ہاسٹلز کی ریپوٹیشن بھی ٹھیک نہیں ہے۔۔ ایسے میں اسے وہاں اکیلا چھوڑنا خطرے سے
خالی نہیں ہوگا۔"
اس نے باری باری دونوں پہ حیرت بھری نظریں ڈالیں۔
"ارے بھئی وہ وہاں کالج میں پڑھ رہی ہے
اور کالج کے ہی گرلز ہاسٹل میں رہتی ہے۔ آجکل ماں باپ سے ملنے آئی تھی کہ یہ مسئلہ
ہو گیا۔"
انھوں نے اس کی پریشانی دور کی۔
"ٹھیک ہے فجر کے بعد نکلیں گے
انشاءاللہ۔"
وہ اٹھتے ہوئے بولا۔
"ٹھیک ہے ہم فجر کے بعد یہیں آ جائیں
گے۔۔تم اب آرام کرو۔ میں چلتا ہوں۔"
رحم دین اور زمان خان اٹھ کر روم سے باہر آ گئے۔
"ویسے میں ایک بات سوچ رہا تھا"
زمان خان پرسوچ انداز میں بولا تو رحم دین نے پلٹ کر انھیں
دیکھا۔
"تم مسکاء کے ساتھ مت جاو۔۔میر اسے
بحفاظت ہاسٹل چھوڑ دے گا۔ کل گاوں میں تمھاری غیر موجودگی انھیں شک میں مبتلا کر
سکتی ہے۔"
زمان خان کی بات ان کے دل کو لگی۔
"مگر۔۔۔۔"
"کل ہم تھانے جا کر باتور خان کے خلاف
رپورٹ درج کرانے کی کوشش کریں۔اس طرح ان کا دھیان بھی بٹا رہے گا اور تھانے جا کر
ہمیں بھی حالات کا اندازہ ہو جائے گا۔"
زمان خان نے انھیں سمجھایا تو انھوں نے سر ہلا کر ان کی
بات سے اتفاق کیا اور بیرونی دروازے سے باہر نکل گئے۔_________
فجر کی نماز ادا کرنے کے فورا بعد رحم دین مسکاء کو لئے
زماں خان کے گھر آیا۔ زمان خان نے گھر آنے کے بعد دروازہ بھی بند نہیں کیا تاکہ
رحم دین کو دروازہ کھٹکھٹانے کی ضرورت محسوس نہ ہو اور خود صحن میں ہی ان کا
انتظار کرنے لگے۔ ان کے بتانے پر کہ رحم دین ان دونوں کے ساتھ نہیں جا رہا اور اسے
رحم دین کی بیٹی کو خود ہاسٹل لے کر جانا ہے تو ناپسندیدگی کے باوجود وہ مان گیا۔
وہ اندر روم میں اپنی چیزیں سمیٹ رہا تھا۔ زمان خان کو
چاہنے کے باوجود وہ انکار نہیں کر سکا تھا۔ اب سارا غصہ بیچارے کپڑوں اور ضرورت کی
دوسری چیزوں پہ نکل رہا تھا جن کو وہ اپنے سفری بیگ میں تقریبا پٹخ رہا تھا۔
لڑکیوں سے وہ شروع سے ہی الرجک تھا۔ یونیورسٹی میں بھی کسی لڑکی سے بات نہیں کرتا
تھا۔
ساری چیزیں سمیٹنے کے بعد وہ ناشتہ کرنے لگا جو زمان
خان اس کے لئے رکھ گئے تھے۔
باہر سے آنے والی آوازوں سے لگ رہا تھا کہ وہ لوگ آ گئے
ہیں۔ اسکے ہاتھوں نے تیزی پکڑی۔ ابھی ناشتہ ختم کیا ہی تھا کہ وہ اسے بلانے آ گئے۔
"میر! گلزم خان آ گیا ہے ٹیکسی لے
کر۔۔وقت پہ نکلو اور ہاں بچی کو ہاسٹل تک پہنچانا ہے یہ نہ ہو کہ باہر ہی اتار کر
خود چلتے بنو۔"
وہ بات کرتے ہوئے بغور اسے دیکھ رہے تھے جو بیڈ پہ پڑا
اپنا سفری بیگ اٹھانے کے لئے پلٹا تھا۔
"سن لیا ہے بابا۔۔۔ہاسٹل تک نہیں بلکہ
روم تک لے جاوں گا اور اگر آپ کہیں تو رات بھی وہہیں گزار لوں گا۔۔کیا خیال ہے
آپکا؟؟"
وہ شرارت سے انھیں دیکھ رہا تھا۔
"اچھا اچھا ٹھیک ہے۔۔بس ہاسٹل تک ہی
کافی ہے۔ چلو نکلو اب۔۔دیر ہو رہی ہے۔ سفر بھی لمبا ہے وقت پر نکلو تا کہ وقت پہ
پہنچ جاو۔"
وہ اسے لیے باہر آ گئے۔ رحم دین اور مسکاء باہر ان کا
انتظار کر رہے تھے۔ انھیں آتا دیکھ کر وہ مسکاء کو اشارہ کرتے اٹھ کھڑے ہوئے۔
میر نے ان کے ساتھ کھڑے سیاہ چادر میں گٹھلی بنے وجود
کو دیکھا۔ وہ سیاہ شلوار اور سیاہ قمیص جس پہ گلابی پھول تھے۔۔۔ پہنے ہوئے تھی۔
چہرہ چادر سے اسطرح ڈھانپ رکھا تھا کہ رحم دین آگے بڑھ کر اس سے بغلگیر ہوئے۔ اس
سے ملتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو تیرتے دکھائی دیا۔ اس نے ان کے کندھے پہ بازو
پھیلا کر انھیں تسلی دی۔ باپ کو روتے دیکھ کر مسکاء کی آنکھیں بھی پانیوں سے بھر گئیں۔
"مسکاء بیٹا روتے نہیں ہیں اللہ سب بہتر
کرے گا۔ تم پریشان نہ ہو۔"
انھوں نے آگے بڑھ کر اس کے آنسو پونچھے۔
"چاچا۔۔۔یہاں بابا بالکل اکیلے ہیں۔ وہ
لوگ اچھے نہیں ہیں۔"
آنسو ایک بار پھر گالوں پہ ڈھلک آئے تھے۔ میر نے آواز
کی سمت نظر اٹھائی۔ زمان خان کے اس کے سر پر ہاتھ رکھنے سے اسکی چادر تھوڑی سرک
گئی تھی۔ میر کو لگا وہ وہاں سے کبھی ہل نہیں پائے گا۔ سیاہ چادر کے ہالے میں چہرہ
چاند کی مانند چمک رہا تھا اور اس پہ ٹھہرے آنسو سفید موتیوں کی طرح لگ رہے
تھے۔سیاہ آنکھیں بار بار پانیوں سے بھر جاتیں۔ وہ سوچ رہا تھا کہ وہ اتنی خوبصورت
ہے یا اسے لگ رہی ہے۔ اس کی نظر نے واپس پلٹنے سے انکار کر دیا۔
"تم پریشان نہ ہو وہ کچھ نہیں کر پائے
گا۔ ہم اسے پتہ نہیں لگنے دیں گے کہ تم گاوں میں نہیں ہو۔ باقی اللہ خیر کرے
گا۔"
بیٹی کو اسطرح روتا دیکھ کر رحم دین نے اسے بانہوں میں
سمیٹا۔ مسکاء ان کے پیچھے چھپ گئی تھی۔ وہ ہوش کی دنیا میں واپس آیا۔
"چلیں۔۔۔" چہرے پہ ایک مرتبہ پھر
سے سختی کا راج تھا۔ وہ زمان خان سے مل کر بیرونی دروازے کی طرف بڑھا۔
زمان خان مسکاء کو لئے اس کے پیچھے ہو لئے۔ رحم دین بھی
مسکاء کا بیگ تھامے ان کے پیچھے تھا۔ وہ باہر آئے تو میر آگے ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ
چکا تھا۔ بار بار اسکی نظر ہاتھ پہ بندھی گھڑی کی جانب اٹھ رہی تھی۔
زمان خان نے چاروں جانب نظر دوڑائی اور اس کے لئے پچھلا
دروازہ کھولا۔ رحم دین کے ہاتھ سے اس کا بیگ لے کر سیٹ پر رکھا جہاں میر کا بیگ
بھی رکھا تھا۔ مسکاء کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اس نے بیٹھنے سے پہلے باپ کی جانب
دیکھا اور دھیرے قدم اٹھاتے ہوئے ان کے سینے سے آ لگی۔۔ ان کے بے آواز آنسو اس کے
سیاہ چادر میں جذب ہو کر اپنی رنگت کھو رہے تھے۔
میر نے اکتا کر ایک بار پھر زمان خان کو اشارہ کیا۔
"بابا دیر ہو رہی۔۔"
وہ اجالا ہونے سے پہلے وہاں سے نکلنا چاہتا تھا اور
تھوڑی دیر میں ہی گاوں میں چہل پہل شروع ہو جانی تھی۔
"بابا اپنا اور اماں کا خیال رکھیے گا۔
"
مسکاء باپ سے الگ ہوئی اور بنا کسی جانب دیکھے گاڑی میں
جا بیٹھی۔ گھر سے نکلنے سے پہلے وہ چہرے کو پہلے کیطرح ڈھانپ چکی تھی۔
"خیال رکھنا اپنا۔۔اور جب تک میں نہ
کہوں گاوں مت آنا۔ اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔۔خدائے پہ امان۔"
گاڑی کا دروازہ بند کر کے وہ پیچھے ہوئے۔ گلزم خان کو
اشارہ ملنے کی دیر تھی تھوڑا آگے ہو کر گاڑی کی سپیڈ بڑھا لی۔۔۔
پچھلی سیٹ پہ بیٹھی مسکاء آنسو بہاتی آنے والے وقت کے
متعلق سوچ رہی تھی۔ اسے لگا جیسے وہ اپنی ذات کا ایک حصہ وہہیں چھوڑے جا رہی ہے
اور وہ ایک ایسے کمرے میں بند ہے جہاں نہ کوئی روزن ہے اور نہ ہی کوئی روشن
امید۔۔۔
اس کا دم گھٹنے لگا اور سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔
اس نے چہرے سے چادر کو تھوڑا سا سرکایا اور سر سیٹ کی
پشت سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔۔
گاڑی کچے راستے سے گزرتی دھول اڑاتی تیزی سے آگے بڑھتی
جا رہی تھی۔
اسے لگا کوئی پکار رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کون۔۔۔۔۔؟؟؟
آواز انجان۔۔۔
لہجہ انجان۔۔۔۔۔
"بابا۔۔۔۔۔۔۔" اس کے ہونٹوں میں
جنبش ہوئی تھی۔
"ہیلو۔۔۔۔اٹھو۔۔۔کیا مصیبت ہے۔۔ایسے
سوئی ہے جیسے شاہی بستر پر استراہت فرما رہی ہو۔۔"
اکتاہٹ سے بھرپور بھاری مردانہ آواز۔۔۔۔۔۔ اس نے جھٹکے
سے آنکھ کھولی۔۔۔
کمر پہ ہاتھ رکھے ، آنکھوں میں غصہ اور اکتاہٹ کے ملے
جلے تاثرات لئے وہ اسے گھور رہا تھا۔ وہ فورا سیدھی ہوئی۔۔۔
"میڈم۔۔۔اگر نیند پوری ہو گئی ہو تو
گاڑی سے باہر قدم مبارک رنجا فرمائیے۔ آپ کا ہاسٹل۔۔۔۔"
اس نے گیٹ کی طرف اشارہ کیا۔ وہ چادر درست کرتی گاڑی سے
نکلی۔۔
آنکھوں میں نیند کا خمار گھلا دکھائی دے رہا تھا۔ وہ
اپنا بیگ اٹھاتی اسکا شکریہ ادا کرتی تیزی سے چلتی ہاسٹل کا گیٹ پار کر گئی۔۔۔۔
وہ وہہیں کھڑا اسے جاتا دیکھتا رہا۔۔
اور پھر وہ سیاہ نقطہ بھی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
"میر بیٹا۔۔۔چلیں؟؟"
گلزم خان گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے اسے پکارا۔ وہ سر ہلا
کر پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔۔******
وہ صحن میں لگے نل سے منہ ہاتھ دھو رہے تھے جب دروازے
پہ دستک ہوئی۔ وہ تولیے سے ہاتھ منہ پونچھتے ہوئے بیرونی دروازے کی طرف بڑھے۔
بےدھیانی میں دروازہ کھولا۔ کرم دین اور زبیدہ خانم کھڑے تھے۔ انھیں دیکھ کر وہ
گھبرا گئے۔ گھر میں مسکاء نہیں ہے اگر اس بارے میں انھیں پتہ چل گیا تو ایک طوفان
کھڑا ہو جائے گا۔
"کیا ہوا رحم دین۔۔۔ ہمیں دیکھ کر تیرا
رنگ کیوں اڑ گیا۔۔ کہیں بھاگ رہا تھا کیا۔ دیکھ ہم تیری طرف آئے ہیں صلح صفائی سے
یہ مسئلہ حل کرنے۔ آخر کو تو میرا چھوٹا بھائی ہے اور وہ تیرا بھتیجا۔۔۔تیرا خون
ہے۔۔۔"
ان کی نظروں نے کرم دین کی نظروں کا تعاقب کیا۔
باتور خان سامنے دیوار پہ پیر ٹکائے کھڑا تھا۔ لبوں پہ
جاندار مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ان کے قریب آیا۔
"سلام چاچا۔۔۔"
ہلکے نسواری رنگ کی شلوار قمیص پہ کالی واسکٹ پہنے اور
کالی چادر کندھوں پہ ڈالے وہ انہی کو دیکھ رہا تھا۔۔۔ اس نے رحم دین کو سلام کیا۔
"واعلیکم السلام۔۔!"
رحم دین نے سلام کا جواب دے کر انھیں اندر آنے کا راستہ
دیا۔ ذہرہ بی بی انھیں اس ٹائم آتا دیکھ کر گھبرا گئ تھیں مگر رحم دین کے اشارہ
کرنے پہ خود کو سنبھالتی ، مسکراتی ہوئی زبیدہ خانم سے ملیں۔ وہ انھیں لئے اندر
کمرے کی طرف بڑھیں۔
"بیٹھیں۔۔۔"
انھوں نے دھڑکتے دل کے ساتھ انھیں بیٹھنے کو کہا۔ باتور
خان چارپائی پہ بیٹھ کر اردگرد کا جائزہ لے رہا۔ اس کی نظریں کمرے میں کم اور باہر
کی جانب زیادہ چکر لگا رہی تھیں۔
آج صبح اٹھتے ہی اسکا دل اس دشمن جاں کو دیکھنے کو
مچلنے لگا۔ حالات کی وجہ سے مسکاء نے گھر سے نکلنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ گھر وہ جاتا
نہیں تھا اس لئے آج اسے دیکھنے کی خاطر وہ ان دونوں کو بھی وہ اپنے ساتھ گھسیٹ
لایا تھا۔ سبھی خاموش تھے۔ جب ہر جانب سے نظر مایوس لوٹ آئی تو اس نے ماں کو اشارہ
کیا۔
"مسکاء بیٹی نظر نہیں آ رہی۔"
زبیدہ خانم نے ذہرہ بی بی کی جانب دیکھا جن کا سانس اٹک
گیا تھا۔
"وہ اپنے کمرے میں سو رہی ہے۔ رات دیر
تک پڑھائی کرتی رہتی ہے تو اس ٹائم تھوڑا آرام کر لیتی ہے۔"
رحم دین فورا بولے۔
"جہ۔۔۔جی۔۔۔ابھی میں گئی ناشتے کا
پوچھنے تو سو رہی تھی اور دروازہ بھی اندر سے بند کر رکھا ہے۔ آپ لوگ کہتے ہیں تو
اٹھا دیتی ہوں۔"
وہ اٹھنے لگیں۔
"ارے نہیں نہیں۔۔۔سونے دو میری بہو
کو۔۔کسی معاملے میں منع نہ کیا کرو۔ پڑھائی کر لے۔۔آگے پڑھنا چاہے گی تو شادی کے
بعد پڑھائیں گے۔ بس آج تو ہم نکاح کی تاریخ لینے آئے ہیں۔ ابھی تو چھٹیاں ہیں نہ
تو میں نے سوچا ہے نکاح کر دیتے ہیں اور پھر رخصتی امتحان کے بعد ہو جائے
گی۔"
رحم دین کو لگا جیسے ان کے جسم سے جان نکل رہی ہو۔ ذہرہ
بی بی بھی گھبرا گئیں۔
"اگلے مہینے کی پندرہ تاریخ رکھ لیتے
ہیں۔ کیا خیال ہے۔"
کرم دین اپنی ہی کہے جا رہے تھے۔ ان کی بات سن کر تو
باتور خان کا جی چاہا اپنے باپ کا منہ چوم لے۔ اسے تو اندازہ نہیں تھا کہ وہ اسطرح
کی بات کریں گے۔ کیونکہ ابھی وہ یہاں آنے کے لئے راضی نہیں تھے اور اب ایک دم سے
یہ فیصلہ۔۔۔
"کرم دین لالا۔۔وہ تو آپکی ٹھیک ہے۔ میں
ذرا زمان خان سے اس بارے میں مشورہ کر لوں پھر آپ کو بتا دوں گا۔ "
وہ انھیں کسی بھی طرح کا شک ہونے نہیں دینا چاہتے تھے۔
اس لیے ایک چھوٹا سا بہانا گڑھا۔۔
"چاچا۔۔۔اس کا ہمارے معاملے میں کیا
کام۔۔ اسے تو آپ اس معاملے سے دور ہی رکھیں۔"
باتور خان ان کی بات سن کر بھڑک اٹھا۔ ان باپ بیٹے کا
ذکر تو آجکل ویسے بھی اس کے اندر لگے آگ کے شعلوں کو بھڑکا دیتا تھا۔
"ہاں رحم دین۔۔۔زمان خان کو دور ہی
رکھو۔۔ مجھے تو ایک آنکھ نہیں بھاتا وہ شخص اور پھر اس کے بیٹے نے کیا حال کیا تھا
باتور خان کا۔۔میرا بس چلے تو دونوں کو گولی سے اڑا دوں۔"
دونوں باپ بیٹا ان کا ذکر بھی سننا نہیں چاہتے تھے۔
"بابا۔۔۔وہ بھگوڑا۔۔۔ڈرپوک کہیں کا۔۔آج
صبح ہی بھاگ گیا شہر۔۔۔خیر۔۔۔۔۔ بکری کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ جیسے ہی ہاتھ آئی
کاٹ ڈالوں گا۔"
باتور خان کی بات سن کر رحم دین کے پیروں تلے سے زمین
نکل گئی۔
"کیا میر چلا گیا۔۔۔اس نے تو کل جانا
تھا۔"
ان کی نظریں زمین پر تھیں۔
"میرے ایک بندے نے اسے آج ہی گلزم خان
کی گاڑی میں گاوں سے نکلتے ہوئے دیکھا۔ مجھے تو لگتا ہے سارا سامان لے کر گیا ہے۔
وہ بتا رہا تھا کہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر کافی سامان رکھا ہوا تھا۔ اتنی ہی اکڑ تھی
تو بھاگا کیوں۔۔یہاں گاوں میں رہ کر مقابلہ کرتا۔"
وہ طنزیہ انداز میں رحم دین کی جانب دیکھ رہا تھا جبکہ
کرم دین بھی بیٹے کی بات پر مسکرا دیا۔ زبیدہ خانم بھی بیٹے کی بلائیں لینے لگی
تھی۔
رحم دین نے سکون بھری سانس خارج کی اور دل ہی دل میں
دونوں میاں بیوی بے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ان کا ساتھ دیا اور باتور خان کے
آدمی نے پیچھے بیٹھی ہوئی مسکاء کو سامان سمجھا۔
"بس تو پھر پندرہ تاریخ رکھ لیتے ہیں
نکاح کے لیے۔"
وہ کھڑے ہوتے ہوئے بولے۔ زبیدہ خانم نے بھی ان کی تقلید
کی۔ جبکہ باتور خان مسکاء کو دیکھے بنا وہاں سے جانا نہیں چاہتا تھا لیکن باپ کے
اشارہ کرنے پر اٹھ کھڑا ہوا۔
"کرم دین لالا مسکاء کا امتحان ہو جاتا
تو۔۔۔۔۔۔۔تب تک رک جاتے ہیں۔"
ان کے لہجے میں التجاء تھی مگر سامنے پتھر کھڑے تھے۔۔جن
سے ٹکرا کر سب کچھ پاش پاش ہو جاتا ہے۔
"بس۔۔۔میں نے کہہ دیا۔۔تیاری پکڑ۔۔پندرہ
تاریخ کو آئیں گے۔ اللہ حافظ۔"
یہ کہہ کر انھوں ان دونوں کو بھی چلنے کا اشارہ کیا اور
خود بھی کمرے سے باہر نکل گئے۔۔
رحم دین اور ذہرہ بی بی وہہیں کھڑے رہ گئے۔ ذہرہ بی بی
نے دیکھا کہ بیرونی دروازے سے نکلتے ہوئے باتور خان نے پلٹ کر مسکاء کے کمرے کی
طرف دیکھا تھا اور پھر مونچھوں کو بل دیتا ، مسکراتا باہر نکل گیا۔۔۔
ان کی آنکھوں سے چشمہ پھوٹ پڑا تھا۔۔********
"میں یہ ظلم ہونے نہیں دوں گا۔۔۔اس رسم
کے خلاف میں کھڑا ہوں گا۔ جب تک میں زندہ ہوں میں گاوں ہونے والی کسی بھی غیر شرعی
اور غیر قانونی رسم میں آپ سب کا ساتھ نہیں دوں گا۔ مجھے یقین ہے اگر بابا بھی
زندہ ہوتے تو وہ بھی اس بےبنیاد رسم کے خلاف میرے ساتھ کھڑے ہوتے۔ آپ سب کو شرم
آنی چاہیئے ایک معصوم لڑکی جو کہ بالکل بےگناہ ہے۔۔۔اسے اس فضول رسم کی بھینٹ چڑھا
رہے ہیں۔"
حجرے میں سب کے بیچ کھڑے وہ بلند آواز میں قہر آلود
نظروں سے اس شخص کو دیکھ رہے تھے جو اس سب کا ذمہ دار تھا۔
جرگے میں موجود لوگ۔۔۔جو ان کی بات سے اتفاق رکھتے
تھے۔۔انھیں نرم نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور جو اس گھٹیا رسم کے حامی تھے ان کی
باتیں انھیں غصہ دلا رہی تھیں۔۔
وہ جانتے تھے یہاں موجود بہت سے لوگ ان کے مخالف ہیں
مگر وہ جیتے جی یہ ظلم ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے۔
"تم بیٹھ جاو میر دراب خان۔۔۔جرگے کہ
بڑے ہیں یہاں وہ جو بھی فیصلہ کریں گے ٹھیک ہی کریں گے۔تم ابھی چھوٹے ہو ان سب
باتوں کی نازکی کو نہیں سمجھتے ہو۔"
میر سربلند خان نے اپنے غصے پہ قابو پایا۔ میر دراب خان
جب سے گاوں آیا تھا۔ انھیں حلق میں کانٹے کیطرح چبھنے لگا تھا۔ ہر معاملے میں
بولنا۔۔ہر کام میں ہاتھ ڈالنا۔۔انھوں نے جیسے اپنا معمول بنا لیا تھا۔ سب سے بڑھ
کر گاوں کا ہر بندہ انھیں پسند کرتا تھا۔ جو بھی مسئلہ ہوتا لوگ ان کے پاس بھاگے
آتے تھے۔ میر سربلند خان کو تو جیسے لوگ بھولتے جا رہے تھے۔پہلے بھی ان کے خشک
رویے کی بنا پر لوگ انھیں کچھ ذیادہ پسند نہیں کرتے تھے اور اب تو جیسے ہر ایک کی
زبان پہ میر دراب خان کا نام تھا۔۔
"لالا۔۔۔آپ کیسے خاموش بیٹھ سکتے
ہیں۔۔یہ ظلم ہے اور ظالم کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہی کہلاتا ہے۔ ہمارے مذہہب نے
عورت جو مان و مرتبہ دیا ہے آپ لوگ اس کے خلاف جا رہے ہیں۔۔اپنے دین کو بھول رہیں
ہیں۔ لیکن معاف کیجئے گا میں اس سب میں آپ لوگوں کا ساتھ نہیں دوں گا۔"
ان کے لہجے کی کڑک وہاں موجود کچھ لوگوں کو متاثر کرنے
لگی۔
"اب تو اس معاملے کا ایک ہی حل ہے کہ
قادر خان اور نور خان کی بیٹی کی شادی کر دی جائے۔ کیونکہ اب غگ کر دی گئی ہے اس
لئے یہ شادی ہو گی اور اگر اب بھی نور خان کو اعتراض ہے تو بے شک ساری زندگی بیٹی
کو گھر بٹھائے رکھے۔ جرگے کا یہی فیصلہ ہے۔ اور برخوردار تم شہر سے آئے ہو۔۔ان سب
کو نہیں سمجھتے ہو۔۔یہ ہمارا گاوں ہے اور یہاں وہی فیصلہ مانا جائے گا جو جرگے کے
بڑے کریں گے۔ کیوں نور خان تمھیں کوئی اعتراض ہے؟؟"
آخر میں اکرم خان نے نور خان کی طرف دیکھا جس کے ڈھلکتے
کندھے میر دراب خان کا دل چیر رہے تھے۔ اس نے جھکا سر اٹھایا اور دراب خان کی طرف
دیکھا۔ انھوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ان کے ساتھ ہونے کا اشارہ دیا تو ان میں
تھوڑی ہمت آئی۔
"میں اس شادی کے لئے راضی نہیں
ہوں۔"
ان کی بات میر دراب خان کے لبوں پہ مسکراہٹ بکھیر گئی۔
جرگے میں سرگوشیاں بلند ہونے لگیں۔۔ سبھی سوچ رہے تھے کہ اب آگے کیا ہو گا۔
"پاگل مت بنو نور خان۔۔۔۔کیا ساری عمر
بیٹی کو بٹھائے رکھو گے۔"
میر سربلند خان نے نور خان کو قہر آلود نظروں سے گھورا۔
"نہیں میں اس کی شادی وہہیں کروں گا
جہاں میری رضا ہو گی۔" وہ اٹھتے ہوئے بولا۔
"ہاہاہا۔۔۔۔کون کرے گا تیری بیٹی سے
شادی۔۔کون مائی کا لال ہے جو میرے سامنے کھڑا ہو گا۔"
قادر خان استہزایہ ہنسا اور اٹھ کر نور خان کے سامنے جا
کھڑا ہوا۔
"میں کروں گا یہ شادی۔"
میر دراب خان کی بارعب آواز حجرے کی دیواروں سے ٹکرائی
تھی۔ سبھی لوگوں کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔
"میں کروں گا نور خان چاچا کی بیٹی سے
شادی۔۔اگر کوئی میرا کچھ بگاڑ سکتا ہے تو آئے۔ میں بھی دیکھوں کہ میرے سامنے کھڑے
ہونے کا دم کس میں ہے۔"
وہ قادر خان کو بازو سے پکڑ کر اپنے سامنے کھڑا کرتے
ہوئے بولے۔
" نہیں خان ۔۔۔۔ہم کہاں اور آپ
کہاں۔۔"
نور خان اداسی سے بولا۔
"میں اس فرق کو نہیں مانتا۔۔۔ نکاح اسی
ہفتے کو ہو گا اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ نکاح میں شامل نہ ہو۔"
وہ نور خان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر انھیں ساتھ لئے
حجرے سے باہر آ گئے۔
میر سربلند خان کو تو جیسے چپ لگ گئی۔ وہ بھی خاموشی سے
وہاں سے اٹھ گئے لیکن وہ جاتے جاتے قادر خان کو اشارہ کرنا نہیں بھولے تھے۔
اب انھیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا تھا۔۔۔۔
میر دراب خان کو اپنے راستے سے ہٹانا تھا۔۔۔*******
"تم کب آئے۔۔۔؟؟"
وہ لائبریری میں اپنے سامنے بکس کھولے مگن تھا جب ارحم
اسکے سامنے آ کر کھڑا ہوا۔ اس پہ ایک نظر ڈالی اور ایک بار پھر سر جھکا لیا۔
"اوئے مسٹر۔۔۔۔میں تمھارے ساتھ ہوں۔ تم
تو پرسوں آنے والے تھے نا۔"
وہ ٹیبل بجا کر بیٹھ گیا۔
"اس میں کون سی اتنی بڑی بات ہو گئی اگر
میں ایک دن پہلے آ گیا ہوں۔"
وہ مصروف رہتے ہوئے بولا۔
"اچھا۔۔۔یہ بتاو تمھارا معاملہ کہاں تک
پہنچا۔۔کوئی پروگریس ہوئی یا وہی دھاک کے تین پاٹ۔۔۔؟؟"
وہ مسکرا کر اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
"ویسے میں سوچ رہا ہوں کہ اگر میں
تمھارے دانت توڑ دوں تو تم بنا دانتوں کے کیسے لگو گے۔ لڑکیاں تو پہلے ہی تمھیں
لفٹ نہیں کرواتیں۔۔بنا دانتوں والے کو کیا پوچھیں گی۔"
وہ کتاب بند کرتے ہوئے بولا۔ لبوں پہ شرارت بھری
مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
"ہاں بھئ ٹھیک ہے۔۔۔اب تو تم یہی کہو
گے۔ لیکن مجھ جیسا دوست چراغ لے کر بھی ڈھونڈو گے نا تو نہیں ملنے والا۔"
وہ ناراضگی شو کرتا اٹھا تھا۔ ضیغم نے فورا اس کا ہاتھ
تھام کر اسے روکا اور اسکے سامنے جا کھڑا ہوا۔
"تمھارے جیسا دوست تو نصیب والوں کو
ملتا ہے اور وہ خوش نصیب۔۔۔۔۔۔۔"وہ مسکراہٹ روکتے ہوئے بولا۔جب کہ ارحم اپنی
تعریف سننے کے لئے ہمتن گوش تھا۔
"وہ خوش نصیب میں نہیں تم ہو۔"
وہ بکس اٹھاتے ہوئے بولا۔
"ضیغم تم میرے ہاتھوں قتل ہو جاو
گے۔"
ارحم نے اسے ہنستے ہوئے مکا دکھایا۔ جسے ضیغم نے
مسکراتے ہوئے تھام لیا۔ دونوں ہنستے ہوئے لائبریری سے باہر آگیا۔
"یاد آیا۔۔۔۔ تم پروفیسر محمد عقیل سے
ملنے گئے تھے یا نہیں۔۔یار وہ بار بار کسی نہ کسی سے تمھارا پوچھتے ہیں۔ پتہ نہیں
کیا بات کرنی ہے ان کو۔"
وہ بکس اس کے ہاتھ سے لیتے ہوئے بولا۔
"نہیں ۔۔۔۔یار وقت ہی نہیں ملتا اور نہ
ہی یاد رہتا ہے۔کل مل لوں گا۔ چلو کچھ کھلاو بہت بھوک لگ رہی ہے۔"
پروفیسر محمد عقیل کے بارے بات کرتے وہ دونوں ڈپارٹمنٹ
سے باہر آ گئے۔۔
وہ سوچ رہا تھا کہ کل سب سے پہلے وہ انہی سے ملے
گا۔*******
"رکو ضیغم۔۔۔بات سنو۔۔"
وہ پروفیسر محمد عقیل کے آفس کی طرف جا رہا تھا جب
پیچھے سے احمد کے پکارنے پہ رک گیا۔ وہ بھاگتا ہوا اسی کی طرف آ رہا تھا۔
"مجھے کچھ ہیلپ چاہئیے تھی تم سے۔۔۔کہاں
جا رہے ہو؟"
اس نے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور ہاتھ میں پکڑے نوٹس اسے
واپس کئے۔
"کہیں نہیں۔۔۔پروفیسر محمد عقیل نے
بلایا ہے۔ وہہیں جا رہا ہوں۔ تم بتاو کیا ہیلپ چاہئیے؟"
اس نے نوٹس لے کر اس سے پوچھا۔
"یار وہ مجھے اسٹڈی میں تمھاری مدد
چاہیئے تھوڑی سی۔"
وہ سر کھجاتے ہوئے بولا تو ضیغم مسکرا دیا۔
"ٹھیک ہے فارغ ہو کر لائبریری میں ملتا
ہوں۔ تم وہہیں آ جانا تھوڑی دیر تک۔۔"
اس کے سر اثبات میں ہلانے پر وہ پروفیسر محمد عقیل کے
آفس آ گیا۔ وہ آفس سے نکل ہی رہے تھے۔ ضیغم کو آتے دیکھ کر واپس اندر چلے گئے۔ ان
کے چہرے کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ کوئی بہت ضروری بات ہے۔ان سے اجازت طلب کرتے
ہوئے وہ اندر داخل ہوا۔ وہ اپنی چئیر کی بجائے سائیڈ پہ موجود ٹرپل سیٹر صوفے پہ
براجمان تھے۔ انھوں نے سر ہلا کر اسے اندر آنے کی اجازت دی اور اشارے سے بیٹھنے کو
کہا۔
ان کے آفس پہ ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے وہ سوچ رہا
تھا کہ اس سے انھیں ایسی کیا بات کرنی ہے۔ پہلے تو وہ سوچ رہا تھا کہ اسٹڈی کے
متعلق ہی پوچھنا ہوگا لیکن بار بار کسی نہ کسی کے ذریعے وہ اس تک پیغام بھجواتے کہ
وہ ان سے آ کر ملے۔ ایگزامز قریب تھے۔ سبھی اسٹوڈنٹس اپنی اسٹڈیز میں بزی تھے۔ وہ
بھی لائبریری سے ہو کر ہاسٹل آ جاتا اور پھر ٹیوشن سینٹر۔۔۔۔۔نئی جاب تھی وہ چھٹی
نہیں کر سکتا تھا اس لئے وہ ان سے ملنے نہیں جا پایا تھا اور پروفیسر محمد عقیل کو
بھی ابھی یونیورسٹی میں بمشکل تین ہفتے ہی ہوئے تھے۔ آج ڈپارٹمنٹ میں داخل ہوتے
ہوئے اس نے انھیں گاڑی پارک کرتے ہوئے دیکھا تو اسے یاد آیا۔
ضیغم کو ان کی آنکھوں میں اپنے لئے ایک عجیب سی چمک
محسوس ہوئی۔ وہ بغور اسے دیکھ رہے تھے۔ بلیک شرٹ اور بلیک جینز میں ملبوس یہ لڑکا
انھیں کسی بہت اپنے کی یاد دلاتا تھا۔۔وہ اپنا جو کہیں کھو گیا تھا۔۔۔جو انھیں بہت
عزیز تھا۔۔وہی ناک ، وہی روشن پیشانی ،چمکتی آنکھیں۔۔کچھ بھی تو مختلف نہیں تھا۔
"سر آپ نے مجھے بلایا تھا۔"
وہ اسطرح خود کا مطالعہ ہوتے دیکھ کر دھیمے سے بولا۔
"برخوردار کافی دنوں سے میں آپ سے ملنے
کی کوشش میں ہوں لیکن آپ ہیں کہ آپ کے پاس ٹائم ہی نہیں۔ یقینا زمانہ بہت بدل گیا
ہے اب ایک استاد کو محترم طالب علم سے ملنے کے لئے اتنا انتظار کرنا پڑتا
ہے۔"
وہ اس کے پوچھنے پر مسکراتے ہوئے بولے۔ ان کی بات سن کر
ضیغم نے شرمندگی سے سر جھکا لیا تھا۔
"میرا مقصد تمھیں شرمندہ کرنا نہیں
تھا۔"
وہ اسے شرمندہ دیکھ کر بولے۔
"آئی ایم ایکسٹریملی سوری سر۔ دئیر از
سم ریزنز بہائینڈ اٹ۔۔"
شرمندگی اس کے ہر انداز سے جھلک رہی تھی۔
"اٹس او کے ینگ مین۔۔۔ہوتا ہے۔"
وہ اپنا فون پاکٹ سے نکال کر ٹیبل پہ رکھتے ہوئے بولے۔
"سر آپ نے بتایا نہیں کیا بات کرنی تھی
آپ کو؟؟"
اس نے ان کے انداز کو نظروں میں رکھتے ہوئے پوچھا۔
"ہاں میں تمھارے بارے میں کچھ جاننا
چاہتا تھا۔ حالانکہ تمھارا
پورا نام جان کر تو میری ساری امیدیں ہی دم توڑ گئی تھیں لیکن میں نے سوچا کیا پتہ
تم اس بارے میں میری کچھ مدد کر پاو۔"
وہ اسے نگاہوں کی ذد میں رکھتے ہوئے بولے۔
"شیور سر۔۔کہیے میں آپ کی کیا مدد کر
سکتا ہوں۔ انفیکٹ میں آپ کے کسی کام آوں یہ بات میرے لئے خوشی کا باعث ہوگی۔"
وہ بہت اعتماد سے ان کے سامنے بیٹھا تھا۔ نجانے کیوں ان
کا دل گواہی دے رہا تھا کہ وہی ان کی مدد کر سکتا ہے۔
" ایکچولی تمھیں یہ تصویر دکھانی تھی۔
کیا تم انھیں جانتے ہو؟؟"
انھوں نے اپنی ڈائری میں سے ایک تصویر نکال کر اس کے
سامنے ٹیبل پہ رکھتے ہوئے پوچھا۔ اس نے وہ تصویر اٹھا لی۔ اسے جھٹکا لگا تصویر میں
موجود شخص کافی حد تک اس سے مماثلت رکھتا تھا بلکہ ایک پل تو اسے لگا کہ وہ اسی کی
تصویر ہے۔ ایک اور شخص بھی اس تصویر سے مماثلت رکھتا تھا اور وہ تھا۔۔۔میرسربلند
خان۔۔۔جوانی میں وہ بھی ایسے ہی دکھتے ہوں گے۔ وہ حیرانی سے کبھی تصویر اور کبھی
سامنے موجود شخص کو دیکھ رہا تھا جو آنکھوں میں امید کے روشن دئیے لئے اسی کی طرف
دیکھ رہا تھا۔
"کون ہے یہ شخص؟؟"اسے اپنی آواز
کسی گہری کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔
"یہ میرا دوست ہے۔۔۔جگری دوست۔۔۔میر
دراب خان۔ لڑکپن سے لے کر
جوانی تک کا وقت ہم نے ساتھ میں گزارا۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد تک تو ٹیلی فونک
رابطہ رہا لیکن پھر معلوم ہوا کہ وہ اپنی فیملی کے ساتھ امریکہ شفٹ ہو گئے ہیں اس
کے بعد سے کچھ اتا پتہ نہیں ہے ان کا۔۔۔۔۔
حالانکہ ہماری دوستی ایسی نہیں تھی کہ وہ امریکہ جا کر
مجھ سے رابطہ نہ کرتا۔ان کا تعلق تمھارے ہی گاوں سے ہے۔تمھاری شکل و صورت ، قد
کاٹھ ان سے بہت ملتا جلتا ہے۔ پہلی نظر میں تو مجھے لگا کہ تم ان کے بیٹے میر ضیغم
خان ہو لیکن تمھارے فادر کا نام جان کر میں خاموش ہو گیا۔ پھر مجھے پتہ چلا کہ
تمھارا تعلق بھی اسی گاوں سے ہے تو بس میں تم سے ان کے بارے میں جاننا چاہتا تھا۔
ضیغم ڈیڑھ سال کا تھا جب میں نے آخری بار اسے دیکھا تھا۔ آر یو او کے
ضیغم؟؟"وہ اس کے چہرے پہ زلزلے کے آثار نمایاں ہوتے دیکھ کر اس کے پاس آئے
تھے اور اسکے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
"جی سر! آئی ایم فائن۔۔"اس نے ان
کے ہاتھ سے پانی کا گلاس لے کر پیا۔۔ اگلے ہی پل وہ خود پہ قابو پا چکا تھا۔ چہرے
پہ اب سنجیدگی دکھائی دینے لگی تھی۔
"سر میں چلتا ہوں۔۔احمد لائبریری میں
میرا انتظار کر رہا ہو گا۔"وہ ان کی طرف دیکھے بنا آگے بڑھ گیا لیکن دروازے
تک پہنچ کر رک گیا۔ جی میں نجانے کیا آیا کہ واپس ان کی طرف آیا۔
"سر ۔۔۔۔اگر آپ اجازت دیں تو کیا میں یہ
تصویر رکھ سکتا ہوں؟"تصویر پہ نظریں جمائے وہ ان سے پوچھ رہا تھا۔
انھوں نے تصویر ٹیبل سے اٹھا کر اس کی طرف
بڑھائی۔ جسے اس نے فورا تھام لیا۔
"تھینک یو سر۔۔۔اللہ حافظ۔"ایک نظر
تصویر کو دیکھ کر اپنی بک میں رکھی اور انھیں سلام کرتا ان کے آفس سے باہر آ گیا۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ڈپارٹمنٹ سے اور پھر یونیورسٹی
سے بھی نکلتا چلا گیا یہ دیکھے بنا کہ احمد اسے پکارتا اس کے پیچھے آ رہا تھا۔
باہر کی آوازوں پہ اس کے اندر کا شور غالب تھا۔۔۔
***************
جاری ہے۔۔۔
Comments
Post a Comment