ناول؛ آخری گناہ
مصنفہ: نورین مسکان سرور
عرضِ ناشر!!
اسلام علیکم ! معزز قارئین و احباب الحمداللہ! آج میرا ناول مکمل ہوا،
یہ میرا پہلا ناول ہے ،اقساط کے لحاظ سے بھی اور ویسے بھی،
میں نہیں جانتی کہ یہ کیسا لکھا گیا ہے،مجھے نہیں خبر کہ اس میں ہزاروں الفاظ میں کوئی
ایک لفظ بھی قابل قبول ہے یا نہیں.....
بس میں جانتی ہوں کہ جب دل کی کرلاہٹیں ،بس سے باہر ہوگئیں،جب
درد نے قوت زباں مقفل کردی ،تب قلم اٹھا، یہ تو محض درد نچوڑے ہیں ،محض کرب کو رقمطراز
کیا ہے ،صفحہ ہستی جس گرد میں اٹی پڑی ہے وہ ہے گناہ، جانے کون کون سے گناہ، کبیرہ
،صغیرہ،چھپ کر کئیے ہوئے ،ظاہرا ًکئیے گئیے ،مگر ایک بات حقیقت ہے ،گناہ چھوٹا ہو یا
بڑا وہ کہلاتا گناہ ہی ہے ۔
ان تمام دوستوں کا بے حد شکریہ جنہوں نے اسے نہایت غور سے پڑھا۔خصوصا آمنہ مہر سسٹر کی شکر گزار ہوں
جنہوں نے ایک جامع تبصرہ بھی کیا ۔ سادھو جٹ بھائی کی بھی ممنون ہوں ۔ جن کی مدد سے
میں مناظر بیان کر سکی ۔اپنی عزیز ازجان دوستوں
تانیہ جہاں،نایہ تبسم،فرح انور،عذرا
فردوس،فائزہ ریاض، صوبیہ اسلم ،سحرش ،مہوش ،بشری کنو ل اورگلشن اسلم کی بے حد شکر گزار ہوں آپ سب کی محبت و چاہت ہمیشہ
مجھے حوصلہ دیتی رہی ۔
پرائم اردو ناولز والوں کے لئیے ڈھیروں دعائیں ایڈیٹر عمران علی بھائی کو اللہ جزائے خیر دے آمین
! احباب من آپ سب کا شکریہ ! ان سب کا بھی
جو نہیں پڑھ سکے ،
ابھی میں طالبعلمی
کے زمانے میں ہوں ،ابھی قلم ٹھیک سے اپنا حق ادا نہیں کر پا رہا ،اغلاط سے بھر پور
،محض صفحات کالے کئیے ہیں ،اسے لکھنے کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد تھا کہ شائد اپنی
تحریر کی لاج رکھ کر میری ذات دلدل گناہ سے نکل آئے ، شائد خود سے خود کا احتساب ممکن
ہو سکے،میں یہ ہر گز نہیں کہونگی کہ شائد میری تحریر پڑھ کر کوئی نیک بن جائے ،کیونکہ
،ابھی مجھے خود ضرورت ہے سنبھلنے کی ،میں ضعیف العمل بھلا کہاں اصلاح کر سکتی ہوں
۔
پھر بھی اللہ پاک
سے دعا گو ہوں کہ
اے رب رحمن میرے مقدر میں یہ سعادت لکھ دے کہ ،میرے قلم
کی نوک کے نیچے کچھ بھی ایسا لکھ جائے کہ کوئی
ایک شخص ،کہیں بھی ،کوئی بھی، تیرا بن جائے
،آمین! آپ کی دعاؤں کی
طلبگار:نورین مسکان سرور
☆☆☆☆☆
پانچویں اور آخری قسط
نہ منزل ہے نہ منزل کا نشاں ہے
کہاں پہ لا کے چھوڑا ہے کسی نے
اس کی ہمت جواب دے رہی تھی۔دوڑتی ہوئی گھر پہ آئی تو گیراج خالی تھا۔
ملازمین کی فوج بھی غائب تھی ۔سارا لان خالی تھا۔ سر سبز
لان میں زمرد جیسے مخملی گھاس پہ پڑے اوس کے
قطرے بھی خاموش سا بین کر رہے تھے۔
وہ اندرونی عمارت کی جانب بھاگی۔اسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا
کہ وہ کدھر جائے ۔
اندر ٹی۔وی ریموٹ سنبھالے ممی نڈھال سی رو رہی تھیں۔ملازمائیں
ارد گرد سے انہیں سنبھال رہی تھیں۔
" بی بی جی سنبھالیئے خود کو نوری بی بی آرہی ہیں ۔" وہ سن چکی تھی۔
" کیا ہوا زارو کو ممی؟" اس
کا دم گھٹنے لگا۔
زمین آسمان گھومنے لگے۔
یادداشت پہ زور بڑھا
وہ ڈھنے
لگی
ہوا تیز تر ہوئی
اندھیرا بڑھا
نیچے بہت ہی نیچے کھائی
اور ادھر ہیولا
ہیولا اس کی آواز پہ پلٹا
اسے دیکھا
اور پھر چلا گیا
وہ غار کے اندر غائب ہو گیا
ہوا نے مضبوط پتھر
اڑا دیا۔
وہ بھی ہوا میں اڑی اور کھائی میں جا گری۔
" نوررررررررری۔" ممی اور ملازمائیں دوڑیں۔مگر وہ دھڑام سے گری تھی۔وہ
ختم ہو رہی تھی۔
وہ شخص کھو گیا تھا۔
گھر پہ گاڑی بھی نہیں تھی۔ممی کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
جانے وہ سب کیا ہورہا تھا۔قیامت پہ قیامت ٹوٹ رہی تھی۔
" ہاشم بیٹا گھر آؤ جلدی۔" انہوں نے ہاشم کو فون کیا ۔
" ممی ابھی تو۔۔"
" آپ آ جاؤ جلدی سے بیٹا ،نوری بے ہوش ہے، ہسپتال جانا ہے۔" آنکھوں
سے گرم سیال ٹپک رہا تھا۔
ہاشم ،ممی اور ایک ملازمہ اسے ہسپتال لےگئے تھے۔ابھی تک زوار کی ڈیڈ باڈی نہیں ملی تھی۔
اس کے والدین کو بھی باخبر کردیا گیا تھا۔کوئی شناخت ہی نہیں رہی تھی ۔ اور شناخت ہو
بھی نہیں سکی تھی ۔
☆☆☆☆☆
تیرا عشق جاڑے کی شام تھا
سو ٹھٹھر گیا،سو بکھر گیا
تیرا عشق وقت غروب تھا
سو وہ ڈھل گیا،سو اتر گیا
موسم خوشگوار تھا۔وہ ہنستی ہوئی چلتی جارہی تھی۔اس کے ساتھ
اس کا دوست ڈیوڈ بھی تھا۔
اس کے سیل نے بپ دی۔میسج تھا۔
" زوار کی ڈیتھ ہوگئی ہے ،فلائٹ میں آگ لگنے سے ۔" وہ دہل گئی ،ڈگمگا
گئی۔
" کیا بکواس کر رہی ہو؟" اس نے بیک میسج لکھا۔ڈیوڈ ابھی بھی کوئی
جوک سناتا جارہا تھا۔
سیل
فون نے ایک بار پھر بپ دی ۔
" Horiya calling" اس نے کال پک کیا۔
" یہ تم کیا کہہ رہی ہو حور؟" ڈیوڈ نے اب غور کیا ۔اس کے چہرے پہ
ہوائیاں سی اڑ رہی تھیں۔
" سوری ڈیوڈ مجھے گھر جانا ہے
۔" وہ تیزی سے آگے بڑھ گئی۔
" مجھے خوشی ہوئی کہ وہ نوری کو نہیں ملا،پر اس کی موت سے دکھ ہوا ہے
۔" وہ کہہ رہی تھی۔ حوریہ نے تاسف سے اسے دیکھا۔
" اسے تو میں اجاڑنا چاہتی تھی۔ پر وہ خود ہی اجڑ گئی۔" کبھی نوری
اور نگہت گہری دوست ہوا کرتی تھیں۔نگہت استہزائیہ سی ہنسی ہنس کر بولی تھی۔
گھر میں آفت سی آگئی ۔انہیں فوراً پاکستان جانا تھا۔
نگہت سب سے پہلے تیار تھی ۔ایک اور تماشا دیکھنے ۔کچھ لوگ
کبھی نہیں سدھرتے ..... انہیں کھلی چھوٹ مل چکی ہوتی ہے ۔نگہت کا شمار بھی ایسے ہی
لوگوں میں تھا۔
☆☆☆☆☆☆
تیرا ہجر ایسی نماز تھا،جسے پڑھ کے
کوئی سنور گیا،سو نکھر گیا
تیرا پیار زہر قدیم تھا،جسے چکھتے ہی
کوئی مر گیا،کوئی اپنی جاں سے گزر گیا
شیشوں کے اس پار وہ بے سدھ اسپتال کے بستر پہ پڑی تھی ۔
ممی اسے بار بار دیکھ کر رو رہی تھیں۔سب پریشان تھے۔
" اے گروہ جن و انس! اگر تم میں طاقت ہے تو زمین و آسمان کے کناروں سے
نکل کے دکھاؤ،اور زور آوری کے سوا تو تم کچھ کر ہی نہیں سکتے۔" (القرآن پ3 )
"کون سے کنارے صرف زمین و آسمان کے ؟؟ نہیں
،آسمان تک کون جائے،اور زمین کا کنارہ ، کہیں سے گول،کہیں ترچھا،کٹا ہوا ،وہاں اہل
ایمان خدا سے ڈر کے رک جاتا ہے ۔اس کا ایمان بڑھ جاتا ہے ۔اور بے ایمان کو شیطان دھکیل
بھی دے تو وہ ہمیشہ کے لئیے فنا ہو جاتا ہے ۔۔
اللہ نے تو ہمیں ایسے ہزاروں کناروں میں لپیٹ دیا ہے۔ کہ
چاہ کر بھی نہ نکل سکیں،سانس کی ڈور کا کنارہ،لاکھ چاہیں توڑ نہیں سکتے،زہر بھی نوش
کرلیں،خود کو ٹکڑوں میں بانٹ لیں،اگر وہ نہ چاہے تو ان ٹکڑوں میں بھی زندگی کی رمق
رہے۔اور اگر اس کا حکم آجائے تو ہزاروں پہروں
کے باوجود موت کا پنجہ ہمیں جکڑ لے۔
رشتوں کی زنجیر، کسی سے لاکھ کنارہ کش ہوجائیں۔ پھر بھی
ہمیں اسی رشتے سے پکارا جائے گا ۔ جس خون کے رشتے میں ہمیں باندھ دیا گیا ہے۔ اسی لئیے اللہ نے پہلے ہم نافرمانوں
کو چیلنج کیا ہے اور پھر ساتھ ہی خود بتا دیا کہ تم کمزور ہو ،سرکش نہ ہوجانا،تم کچھ
نہیں کر پاؤ گے ،مجھے للکارنے مت آجانا اپنا نقصان کر بیٹھو گے ۔
وہ ایک ہفتہ ہسپتال رہ کے گھر آئی تھی۔
اس کی تینوں دوست رودابہ دراج اور ہاجرہ اس کے گھر آئی ہوئی تھیں۔تین دن پہلے نگہت لوگ بھی آگئے تھے۔عفان لوگ
تو اسی شام پہنچ گئے تھے۔
زوار کے والدین اپنے آبائی گاؤں چلے گئے تھے۔اس کی والدہ
جوان بیٹے کی موت پر نیم پاگل سی ہو گئیں تھیں۔
" نوری اللہ جو کرتا ہے۔ بہتر کرتا ہے۔ "
اس کی دوست اسے چہل قدمی کروا رہی تھیں ۔اور وہ خاموشی سے
چل رہی تھی ۔تبھی ہاجرہ کی بات سن کر بدک گئی ۔
" جھوٹ بولتی ہو تم ..... اللہ ہم سے پیار نہیں کرتا ،اگر اللہ کو مجھ
سے پیار ہوتا تو اللہ مجھ سے اسے کبھی نہ چھینتا....." وہ گرجی تھی۔
" تم نے ہمیشہ جھوٹ بولا ،اللہ ہے ہی نہیں ......" ہاجرہ نے گھبرا
کر اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا۔تاکہ وہ ایسا کچھ نہ کہے۔نوری نے اس کا منہ نوچنا شروع
کردیا تھا۔
وہ
ابھی بھی چلا رہی تھی۔مگرہاجرہ نے اس کے منہ پہ سختی سے اپنا ہاتھ رکھا ہوا تھا۔سو
وہ کچھ کہہ نہیں پارہی تھی۔
" ہاجرہ تم دور ہٹ جاؤ ،یہ تمہیں زخمی کر دے گی۔"دراج آگے بڑھی تھی۔
' نہیں
،دراج یہ پھر الٹا سیدھا بولے گی۔ ابھی اسے سدھ بدھ نہیں ہے ۔" ہاجرہ کا سانس
پھول گیا تھا۔
" نوری بہت غلط کہاآپ نے ،اللہ
تو ہمیشہ رہتا ہے ۔وہ دیکھو آسمان ،اسے بنا
ستون اللہ نے سنبھالا ہے اگر اسی وقت جب آپ نےاللہ کی ذات سے انکار کیا تھا۔یہ آسمان ٹوٹ پڑتا تو......" ہاجرہ
نے نرمی سے اسے سمجھایا تھا۔وہ خاموش ہوگئی۔مزاحمت بھی چھوڑدی ۔اور لمبے لمبے سانس
لینے لگی ۔رودابہ نے اشارہ کیا۔تو ہاجرہ نے
اسے چھوڑ دیا۔
,وہ اس کے چنگل سے رہا ہو کر ہواس بحال کرنے لگی۔
ہاجرہ بھی اپنا سانس بحال کر رہی تھی۔
تبھی نوری اس کے سینے سے آلگی۔اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
نہ منزل
ہے نہ منزل کا نشاں ہے
کہاں پہ لا کے چھوڑا ہے کسی نے
اس پر رونے کے دورے ایسے ہی پڑ رہے تھے۔
☆☆☆☆☆☆
زندہ لاش بنی نوری ،یونہی بیٹھے اچانک زوار کو آوازیں دیتی
اور اسقدر آوازیں دیتی کہ وہ پورا گھر گونجنے لگتا۔
ممی اس آواز سے اپنی سماعتوں کو بہت ہی بے خبر رکھنے کی
کوشش کرتیں مگر سب بے سود ہوتا۔
پچھلے تین سالوں سے وہ بالکل چپ تھی ۔بس آوازوں کے علاوہ
کچھ نہیں کہتی تھی۔
اس روز ممی
لان میں بیٹھی تھیں۔ کسی عزیز کا فون تھا ۔ممی اسی کے بارے باتیں کرتی ہوئی رو رہی
تھیں۔
نڈھال سی نوری اجڑے ہوئے حلیے میں وہاں چلی آئی۔اس کے سر
پہ دوپٹہ تھا ،جو اب رفتہ رفتہ اس کے شانوں پہ پھسلتا جا رہا تھا۔اور پھر زمین پہ گھسٹتا
تھا۔
" ممی!" ممی کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ کر گر گیا ۔
نوری نے انہیں پکارا تھا اتنے عرصے کے بعد ،وہ تو ترس گئیں
تھیں۔
سلطان گردیزی کی شیو اسکے غم میں سفید ہو گئی تھی۔اور ہاشم
نے زندگی کی رنگینیوں سے منہ موڑ لیا تھا۔کہیں نہ کہیں اس کی بہن کا ذکر چھڑ جاتا تھا
۔اور لوگ چبھتے ہوئے لہجے میں بہت کچھ کہہ جاتے تھے۔
" بولو ممی کی جان!" ممی نے اسے سینے سے بھینچ لیا۔سلگتی ممتا کو
سکون سا ہوا۔
جیسے ایک اس لفظ نے انہیں ہر غم سے رہائی دے دی ہو۔
" ممی لوگ کہتے ہیں ہاتھ کی لکیریں سچ ہوتی ہیں۔" وہ روانی سے بول
رہی تھی ۔اور ممی جان خوشی سے پاگل ہونے کو تھیں۔
" اور اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ نے انسان کی تقدیر کو پوشیدہ رکھا ہے ۔جو
لوح محفوظ میں چھپی ہوئی ہے ۔ انسان کی تقدیر اللہ کا راز ہے ،غیب کا علم ہے۔ اور بہت
سی جگہ پہ اللہ نے فرمایا کہ ستارے آسمان کی
سجاوٹ کے لئیے اور شیطان کو مارنے کاآلہ ہیں۔ممی
پھر ہم کیوں اس شیطانی جال میں پھنس جاتے ہیں ۔جس. چیز کو اللہ نے شیطان کا ہتھیار بنایا .ہم اسے اپنی تقدیر کہتے ہیں ۔کیا اس سب کو
جھٹلانے کے لئیے اتنا کافی نہیں کہ ان کا تعلق شیطان سے ہے ۔اور ہم کتنے نافرمان ہیں
ممی " اس کی آنکھیں شدت ضبط سے سرخ ہو
چلی تھیں۔اس کے اندر تک زوار منصور کا درد اتر گیا تھا۔
" جانتے بھی ہیں کہ تقدیر اللہ کا راز ہے
اور پھر بھی ان فانی پتلوں کے علم کو حقیقی مان کر گویا خدا کی خدائی کے منکر ٹھہرتے
ہیں ۔"
"آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہو بیٹا۔" اس
بار ممی چونک گئیں ۔
" ایک بار میں نے ایک پامسٹ کو
اپنا ہاتھ دکھایا تھا اس نے مجھے کہا تھا۔ کہ مجھے کسی سے محبت ہوگی اور بے حد ہوگی
۔مگر وہ مجھے ملے گا نہیں ،تب میں نے یقین نہیں کیا ۔مگر جب مجھے واقعی ہی زارو سے
محبت ہو گئی، تب میں اس لئیے ملی کہ شائد وہ اپنا بیان بدل دے۔ مگر اس نے اپنا بیان
نہیں بدلا تھا۔مجھے اس پر یقین ہو گیا۔اور میں ڈر گئی تھی۔اسی لئیے میں نے ہاجرہ سے دوستی کی اس نے مجھے
نماز سکھائی ،میں نے اسے دعاؤں میں مانگا ......" وہ بولتے بولتے چپ ہوگئی۔ممی
کا ارتکاز ٹوٹ گیا۔
" مگر ایک خطا مجھ سے ہمیشہ ہوتی رہی۔ ممی جان کہ میں کبھی اس پامسٹ کو
نہیں بھولی ۔مجھے وہ سجدوں میں بھی یاد رہا۔اور میرے سجدے کھوکھلے ہوتے گئے ۔ممی میں
مطلب کے سجدے کرتی رہی ....." اس نے اپنا سر ممی کی گود میں چھپا لیا اور رو دی
۔ ممی اس کا سر سہلانے لگیں۔ بہت کچھ غلط ہوتا رہا تھا ۔ان کی بیٹی کے ساتھ ۔اور وہ
بے خبر رہیں ۔ایسا تو ہمارے ساتھ بھی ہوتا ہے، واہمے اور وسوسے ہمیں نماز میں ہی آتے
ہیں۔
"' ممی میں نے مطلب کے سجدے کئیے ۔مگر میرے اللہ نے مجھے ناکام نہیں کیا.۔۔
مجھے زارو مل گیا۔ پامسٹ جھوٹا تھا ۔تب مجھے یقین آگیا ۔پھر ....... پھر زارو چلا گیا
۔" ممی کے دل پہ گھونسا پڑا تھا۔
" میں پھر سے پامسٹ کی طرف ہوگئی اور .....اور .... اور اللہ کی ذات سے
منکر......" سب سے بڑا دھچکا تو یہ تھا۔اس سے پہلے تو سب ،کچھ بھی نہیں تھا۔
محبت نے ان کی بیٹی سے امتحانات لئیے تھے ۔مگر سب سے بڑا
امتحان یہ تھا۔
اس سے اس کا ایمان ہی چھین لیا۔اس کے پاس کچھ بچا ہی نہیں
۔اللہ غارت کرے ان دھوکہ باز کاہنوں کو جو معصوم اہل ایمان کا ایمان متزلزل کرتے ہیں
۔جو اللہ کی بنائی گئی حدوں سے کھیلتے ہیں ۔
(تلک
حدود اللہ)اور یہاں سے آگے تباہیاں ہیں ۔ناکامیاں ہیں ،بربادیاں ہیں ،کچھ نہیں ہے سوائے
خلا کے اور وہ بدبخت پامسٹ ان کی بیٹی کو وہاں کھینچ لایا جہاں ہر چیز کی انتہا ہوگئی۔
جہاں دور دور تک اندھیرے ہیں۔
اگر وہ اس پامسٹ سے نہ ملی ہوتی تو بے شک وہ زوار کی موت
سے پاگل ہی کیوں نہ ہو جاتی مگر یہ ضرور کہتی
کہ اللہ کی مرضی ہے۔اور آج تو وہ جانے کون
کون سا کفر بولتی تھی۔
☆☆☆☆☆
کہیں تو کاروان درد کی منزل ٹھہر جائے
کنارے آ لگے عمر رواں یادل ٹھہر جائے
اماں کیسی کہ موج خوں ابھی سر سے نہیں گزری
گزر جائے تو شائد بازوئے قاتل ٹھہر جائے
کمرے میں نیم اندھیرہ تھا۔
ممی جان کمرے میں آئیں۔
لائٹ آن کی تو اس نے آنکھوں پر بازو رکھ لیا۔
" ممی جان پلیز بلب آف کردیں"
" نوری بیٹا کیوں اندھیرے میں رہتی ہو،جانے والوں کا یوں ماتم نہیں کرتے۔
" ممی کی آواز رندھ گئی۔
" اندر کے اندھیرے ختم کرنے ہوں تو اندھیرا لازم ہوتا ہے ممی جی، اور جانے والوں کا سوگ منانا چاہئیے ممی ......
میرا ایمان چلا گیا ۔کہیں سے مل سکتا ہے ؟؟؟؟ " وہ اٹھ کر ان کے پاس آکھڑی ہوئی تھی۔ممی چپ رہ گئیں۔وہ ایک اچھے راستے پر چل نکلی
تھی ۔مگر ممی جان اسے پہلے جیسی ہی دیکھنا چاہتی تھیں۔اس نے بلب آف کردیا۔
اب ایک طویل عرصے سے اس عمارت کی روشنیاں بجھی رہتی تھیں۔
اس نے ان کا ہاتھ پکڑا اور اپنے پاس بٹھا لیا.
"آپ پریشان ہیں؟"
" آپ کی وجہ سے۔" ممی نے اثبات میں سرہلاتے ہوئے کہا۔
" ممی میں نے زارو کی ڈیتھ سے دو تین ہفتہ پہلے ایک خواب دیکھا تھا۔"
وہ انہیں خواب بتا رہی تھی اور وہ ایک خوف میں گھِرتی جا رہی تھیں۔
" اس خواب میں ایک آیت تھی ،کوئی تلاوت کر رہا تھا۔اور باربار بس وہی آیات
دوہرا رہا تھا۔
( وہ رات کو داخل کرتا ہے دن میں اور دن کو داخل
کرتا ہے رات میں ) القرآن پ3
ممی اس وقت مجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ یہ کونسی آیت ہے اور
کیا ہے ،کیونکہ مجھے عربی زبان کی کوئی سمجھ نہیں تھی۔"
" پر پتہ ہے ممی جان
ہم دن اور رات کو محض دن رات ہی مراد لیتے ہیں ۔مگر قرآن
پاک تو حکمت والی کتاب ہے ممی جان ،قرآن اپنے
اندر بہت سے راز لئیے ہوئے ہے ۔
یہاں رات سے مراد وہ رات ہے جو ہنستی کھیلتی زندگی میں مشکلات
لے آتی ہے ،مشکلات ،جب ہم چاہ کر بھی اندھیروں سے نکل نہیں پاتے ،مشکل کا حل تلاش نہیں
کر پاتے،جانتے بھی ہیں کہ ایک دن ضرور ایسا سورج طلوع ہوگا ۔جو سب مشکلات کو ختم کر دے گا مگر پھر بھی جلد
از جلد نکلنے کا سوچتے ہیں ۔یہ ہےاصل رات ممی
۔
اور پھر جب ہم مایوس ہونے لگتے ہیں۔ تھکنے لگتے ہیں۔ تو
وہ اچانک ایک چمکتا ہوا سورج طلوع کر دیتا ہے ۔خوشیوں اور کامرانیوں کا سورج
۔"
اندھیرہ اتنا بڑھ گیا تھا کہ وہ دونوں پاس بیٹھنے کے باوجود
بھی دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ممی کی آنکھوں سے خاموش آنسو بہہ رہے تھے۔
" مجھے آزمایا گیا تھا ۔میرے اللہ نے اپنے بندے کی محبت میرے دل میں ڈال
کر میرا دل پاکیزہ کیا تھا ۔تاکہ وہ اس قابل ہوسکے کہ اس میں اللہ کی محبت آسکے۔ "
نوری سسکیاں بھرنے لگی تھی۔
"میں نے ہاجرہ سے نفرت کی، اللہ
نے مجھے اسی کے سامنے سوالی بنا دیا۔مجھے نماز کی طرف بلایا، میں نے تو سب صرف زارو
کے لئیے کیا تھا ناں، اسے پانے کے لئیے ،میں نے سب عمل اپنا لئیے ،پھر مجھے وہ سونپ
دیا گیا ۔ میں اللہ کو بھول گئی۔ ایسا تو ہم اکثر کرتے ہیں ناں، پھر مجھ سے چھین لیا
گیا ۔تو..... مجھے لگا پامسٹ سچا تھا ۔"
ہاں ایسا اسے لگا تھا ۔لگنا بھی چاہئیے تھا۔ ممی جان کو بھی لگتا تھا ۔کہ وہ سچا تھا۔
" مگر نہیں پامسٹ کی باتیں سب من گھڑت تھیں۔ ممی جان، زارو کی بے پناہ
محبت ملی تھی مجھے ۔ اور اس کی پامسٹ نے کوئی نشاندہی نہیں کی تھی۔اس سے نکاح ہوا تھا
میرا اور پامسٹ نے تو یہ بھی نہیں بتایا تھا۔بلکہ اس نے تو کہا تھا کہ وہ تمہیں نہیں
ملے گا ۔اور نکاح ..... سے بڑا کوئی سچ نہیں ہوتا۔موت تو بر حق ہے۔ ہم دونوں میں سے ایک نے تو پہلے مرنا ہی تھا ناں
...... تو وہ زارو چن لیا گیا۔ " وہ اٹھ
کھڑی ہوئی۔
" اور میں ممی جان ... میں جس نے دعوے کیئے تھے کہ میں اس کے بنا نہیں
جی سکوں گی...... میں زندہ ہوں ۔بنا سوچے سمجھے ہم بہت سے دعوے کر لیتے ہیں ،مگر وہ دعوے میرا آخری گناہ تھے ۔اور ہر گناہ کو اگر
ہم آخری گناہ کر کے چھوڑ دیں تو ہمارا ایمان برباد نہ ہو ،آج میں اصل دعویٰ کرتی ہوں
ممی جان۔" اس نے آگے بڑھ کر لائٹ آن کردی پوراکمرہ دودھیا روشنی میں نہا گیا۔
جیسے ظلمت کے اندھیروں پہ نور کی روشنی چھا جائے ،جیسے ظلمت
کدے میں نور کی صرف ایک کرن پھوٹ پڑے ،ہاں ایسی ہی روشنی ہوتی ہے نور کی ،ایمان کی
،جیسے اچانک سے وہ کمرہ چمکنے لگا تھا۔ ۔اس نے ایک بار پھر بلب آف کیا ،مکمل اندھیرہ
،غاصب تاریکی،ہولناک اندھیرا ، اور پھر آن کیا تو وہی روشنی .......
" اگر ہم بار بار اس بلب کو آن آف کر کے سوچیں تو جانیں کہ ابو جہل اور
میرے نبی( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کیا
فرق تھا۔اہل ایمان اور کافر میں کیا فرق ہے ۔تبھی معلوم ہو کہ اللہ سے دوری ہمیں کتنا
بھٹکا دیتی ہے ،اللہ ہے تو سب کچھ ہے اللہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔...... باقائمی ہوش
و ہواس میں دعوی ٰکرتی ہوں ممی جان کہ ....... میں سب کے بنا رہ سکتی ہوں پر اللہ کے
بنا نہیں رہ سکتی۔ " ممی یک ٹک اسے دیکھے
جارہی تھیں..........
آسمانوں سے پرے یہ فیصلہ کاتب تقدیر نے کیا تھا ۔کسی پامسٹ
نے نہیں ۔
اگر پامسٹ کا علم حقیقی ہوتا تو وہ سب کچھ چھوڑ کر. بس اتنا
کہتا ۔
" بیٹی اللہ تیرا منتظر ہے جا
پلٹ جا ۔"
☆☆☆☆☆☆
"مجھے پتہ تھا نگہت کہ یہ
NEAR
A MISS
ہر روز مجھے تو بھیجتی تھی۔ تا کہ مجھے ہراساں کر سکے۔
پر خیر
جا تجھے معاف کیا.... اللہ کو پانا ہے۔ تو دل تو صاف کرنا ہوگا نگہت ،اللہ تجھ سے ہمیشہ
کے لئیے راضی رہے آمین !" اس نے لیپ ٹاپ شٹ ڈاؤن کیا اور اٹھ کر وضو کرنے چلدی....
۔ سورج
طلوع ہوا تھا
خدا کرےکہ تیری
ارض پاک پہ اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
پوری آب و تاب کے ساتھ
،
" ڈائننگ ٹیبل کے گرد سلطان گردیزی کی فیملی موجود تھی۔
بھر پور خوشی اور طمانیت کے ساتھ،ممی ناشتہ سرو کر رہی تھیں۔ہاشم
یونی ،نور سحر کالج اور بابا آفس جانے کے لئیے
تیار تھے۔
" چلیں بھئ نوری شروع کریں بیٹا۔" بابا نے مسکرا کر اپنی بیٹی کو
دیکھا ۔
" جی۔ " وہ بھی مسکرائی تھی۔
" کبھی میری بھی باری آنے دو چڑیل۔ " ہاشم اس کے کان میں گھسا،نوری
نے اسے گھور کر دیکھا،ممی بابا جانتے تھے وہ کیا کہہ رہا تھا۔
" بہن کو اہمیت دینا بھی نیکی ہے ہاشم۔" بابا نے کہا تھا۔
" جی" وہ دھیما سا بولا. مگر انگلی کے اشارے سے اسے وارن کرنا نہ
بھولا.
" تجھے اللہ پوچھے" اور نوری نے بھی آمین کہہ کہ منہ پہ دونوں ہاتھ پھیر کر بدلہ چکا
دیا۔
"سورج کی قسم اور اس کی روشنی کی
اور دن کی جب اسے چمکا دے
اور رات کی جب اسے ڈھانپ لے
اور آسمان کی اور اس
ذات کی جس نے اسے بنایا
اور زمین کی اور اس کی جس نے اسے پھیلایا
اور انسان کی اور اسکی جس نے اس کے اعضا کو برابر کیا
پھر اس کو بدکاری ( سے بچنے)طاور پرہیزگاری کرنے کی سمجھ دی
کہ جس نے ( اپنے) نفس ( یعنی روح) کو پاک رکھا وہ مراد کو
پہنچا"
حافظہ نور سحر کی ساحرانہ آواز گونج رہی تھی۔
اور حافظ ھاشم گردیزی بیٹھا اسے منہ ہی منہ میں برا بھلا
کہہ رہا تھا ہمیشہ پہل وہی کرتی تھی۔
چڑیل...............
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اختتام پزیر
Comments
Post a Comment