Aakhri gunah by Noreen Muskan Sarwar Episode 4



ناول :  آخری گناہ
مصنفہ:  نورین مسکان سرور
چوتھی قسط
☆☆☆☆☆
والعصر سے والناس کی تفصیر جہاں ہے۔
والفجر کے خوں ناک تسلتسل کا زماں ہے۔
والیل اذا یسر، صبح غم کے کفن پر
مغرب سے نکلتے ہوئے سورج کا گماں ہے۔
احزاب کے باغی ہیں مہاراج و مسیحا
میخانہ ءابلیس ،پس پردہ عیاں ہے۔
انسان لفی خسر ہے آئینہء عالم
توحیدکی گفتار پہ تکرار بُتاں ہے۔
لاحولاولاقوۃ افرنگ کا منشور
شاہوں کا وظیفہ ہے یزیدوں کی اذاں ہے۔
کافر کے لئیے جہد مسلماں ہے قیامت
مسند کی مسلمانی فقط سود و زیاں ہے۔
کیا تاج محل ،بخت سکند کی حقیقت
اک نوحہء تاریخ ہے، اک مرگ جواں ہے
جگنو ہیں ،گل و لالہ ہیں،شبنم ہیں چمن میں
اقبال کا شاہیں ہے نہ بلبل کی فغاں ہے
شکوے پہ میرے فتوی لئیے آئے ہیں واعظ
شرمندہ ءاطوار کوئی شیخ کہاں ہے
مزدور کی بیٹی کا پس مرگ جنازہ
اٹھا تو ملا داج میں تربت کا مکاں ہے
درویش حرارت سے پگھل جائے گا محشر
مصلوب سوئے چشم لئیے تیر کماں ہے
(تخلیق؛ فاروق درویش )
                  ☆☆☆☆☆
   اور رقص..... جانے کب تک جاری رہنا تھا۔رات دھیرے دھیرے. بیت رہی تھی ۔
   اس کا دھیان جانے کے باوجود بھی اس طرف نہیں جارہا تھا ۔جس طرف جانا چاہئیے تھا۔جدھر کوئی اسے پکار رہا تھا۔
وہ جو شخص اس کے سامنے تھا۔ ناں،وہ سمجھتی تھی ، بس وہی سب کچھ تھا۔وہ مل گیا تھا۔اس کی شاندار کامیابی کو سیلیبریٹ کرنے وہ پاکستان آگیا تھا۔ تو اس کے علاوہ اسے اور کسی بھی چیز،کسی بھی بات کی پرواہ نہیں تھی ۔خواہ وہ ھاجرہ کی مسیحائی ہی کیوں نہ ہو
    " نوافل" اس کے کانوں میں مسلمسل آواز کی بازگشت تھی۔ وہ آواز لاؤڈ  وائس انگلش فحش سونگ کی آواز سے بہت کم تھی ۔مگر پھر بھی اس کے دل میں  بے چینی بپا  کر رہی تھی۔اور وہ اس سے سماعتوں کو بے خبر کر رہی تھی۔آواز مسلسل تھی، مگر سنے کون...؟آوازیں تو ہمیں اکثر دی جاتی ہیں۔ مگر ہم سنتے ہی نہی،کبھی نہیں ،اور اگر سنیں تو اس وقت سنتےہیں ۔جب سننے کا فائدہ نہیں ہوتا۔دن میں پانچ بار ہمیں پکارا جاتا ہے۔اور ہم پانچ بار ہی سنی ان سنی کر جاتے ہیں۔
حی اعلی الفلاح   
فلاح و کامرانی کی صدا بلند ہوتی ہے ۔
مگر کیوں ؟ ہم تو فلاح پا چکے ہیں۔ پھر بھی صدا کیوں؟ہم اپنی منزل پہ کھڑے ہیں ،دھن دولت ،اولاد ،مال کیا نہیں ہے ہمارے پاس بھلا ،سب تو کچھ ہے .
آہ کس چیز کو ہم فلاح کہتے  ہیں جسے اللہ نے کہا۔
"مرغوب کر دیا لوگوں کو فریفتہ کر دینے والی چیزوں نے ،مثلا عورتیں ،بیٹے ،سونے اور چاندی کے ڈھیر،جمع کیئے ہوئے،اور گھوڑے ،سدھائے ہوئے ،اور کھیتی اور مویشی ذالک متاع الحیات الدنیا" ( القرآن پ3)
   (،یہ سازو سامان ہے دنیا کی زندگی کا ،)
اللہ نے ایک ایک چیز کا نام لیکر کہا کہ یہ سب تو "متاع" ہے.اور متاع پتہ کسے کہتے ہیں ۔عربی تہذیب میں ،زبان میں برتن دھونے والے کپڑے کو متاع کہا جاتا ہے ۔
اتنا گندہ کپڑا،اتنی گھٹیا چیز سے مراد ہے دنیا،اور ہم اسے منزل مانتے ہیں
بہت سے اور بھی کپلز ان کے ارد گرد آگئے تھے ۔روشنی کا گول دائرہ ان دونوں کے اوپر گول گول گھوم رہا تھا۔ اور وہ مگن سے ڈانس میں گم تھے۔
وہ اچانک زوار کا ہاتھ جھٹک  کر اسٹیج سے نیچے کی جانب بڑھی ۔زوار حیرت زدہ سا اسے دیکھنے لگا۔
   " نوری کہاں جا رہی ہو ،اتنی اچانک ،یوں..." وہ تیزی سے  اس کی ار لپکا اور کلائی تھامی۔
   " مجھے دو نوافل ادا کرنے ہیں زارو..." اندر کے ایمان نے اسے کھینچ ہی لیا تھا۔
    " کیوں" وہ غیر مسلم نہیں تھا،بلکہ بس وہی سوال کیا تھا۔جو ہم اکثر کر جاتے ہیں ۔ جب کوئی عبادت کرنے لگتا ہے خصوصا نوافل ادا کرنے لگے تو،کیوں ادا کرنے ہیں،کیا مراد پوری کروانی ہے،کس منت کی خوشی میں وغیرہ،
   " وہ اس لئیے کہ میں  نے شاندار کامیابی حاصل کی ہے،شکریہ کے لئیے "
   " پلیز نوری پھر کسی دن ادا کر لینا ،ابھی واپس آؤ" شیطان روپ بدل کر آیا،اور........ اور نوری پلٹ آئی،
وہ خدا کو چھوڑ سکتی تھی ،مگر اس شخص کو نہیں،اور اس کے پلٹ آنے سے وہ مسکرایا،نوری کے لب بھی مسکرا اٹھے،شیطان نے قہقہہ بکھیرہ ،ایک بھیانک جلترنگ سے شیطانیت کی دنیا گونج اٹھی۔وہ ریسٹورینٹ بھی اور پرٹیکولرلی وہ اسٹیج بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
               ☆☆☆☆☆
وہ بے سدھ سی پڑی تھی ۔تبھی کوئی اس کے کمرے میں آیا تھا۔
ابھی تو اس کے کمرے سے روشنی ختم ہوئی تھی۔ چاروں ار اندھیرا سا چھا گیا۔وہ شخص ابھی اس کے بے جان جسم میں روح پھونک کر گیا۔ برسوں کی عبادت کا ثمر ملا تھا۔
اور آج نیم مردہ جسم نے کھل کر یوں سانس لیا تھا ۔ جیسے برسوں بعد آکسیجن بحال کی گئی ہو۔
اور وہ کھل کر سانس لے رہی تھی. تبھی پھر سے کوئی کمرے میں داخل ہوا تھا۔
  " یاد رکھنا نوری " کوئی اس پر جھکا۔آکسیجن ایک بار پھر رکنے لگا۔
   " وہ مجھے نہیں ملا تو تمہیں بھی نہیں مل سکے گا " سانس تھم گیا۔وہ تڑپی بے چین ،نیم مردہ  جسم تلملایا مگر بے سود ،اس کے ہاتھوں کا سخت شکنجہ نوری کی گردن پہ تھا۔
اس کی رنگت متغیر ہو نے لگی۔ اور آنکھیں پھیل گئیں۔
   " مجھے چھوڑ دو نگہت پلیز" مگر آواز دبی رہی وہ کچھ بھی نہ بول سکی۔
آسکیجن حقیقی معنوں میں ختم ہونے لگی۔اس کی زبان باہر نکلنے لگی۔اس پر جمی نگہت کی آنکھیں کسی خون آشام درندے کی طرح نظر آرہی تھیں۔" میں اسے قتل کردونگی، جسے وہ ملے گا" مگر وہ بھول گئی تھی کوئی اور بھی یہ سوچ سکتا ہے۔ بلکہ کر بھی سکتا ہے۔ تبھی باہر کھٹکا ہوا،دروازہ ناک ہونے کا،اس نے ایک جھٹکے سے اس کی گردن چھوڑ دی۔
    " میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی" چبا چبا کر کہتے ہوئے وہ سیدھی
کھڑی ہوئی ۔اور اس کے بے بس وجود  کو ہاتھ سے جھٹکا،
    " پتہ نہیں کون تھا باہر ،وہ گھبرا سی گئی" وہ پریشان ہو گئی۔
   " کون ہے پلیز دروازہ کھولو،نوری کو سوپ پلانا ہے"حوریہ کی آواز پر اس کی جان میں جان آئی،دروازہ کھول دیا ۔حوریہ اندر آئی۔
   " اف نگہت تم بھی ناں" وہ رکی ادھر ادھر دیکھا،وہاں اور کوئی نہیں تھا ،بس بیڈ پر نوری لیٹی تھی۔ اس کا جسم لرز رہا تھا۔حوریہ دوڑ کر پاس آئی وہ لمبے لمبے سانس لے رہی تھی۔ اور دروازے کے پاس گھبرائی سی نگہت کھڑی تھی۔
   " کیا کر رہی تھیں تم ہاں" اس نے اسے شانے سے پکڑ کر ہلایا۔اس کی بہن کس رمز کی بے حس لڑکی تھی یہ وہ خوب جانتی تھی۔
   " اس کا انجام ،اس  نے مجھ سے میری محبت چھین لی،میں اسے نہیں چھوڑونگی" اس کے لہجے سے بغاوت ٹپک رہی تھی۔نفرت کا دھواں....
   " اف !!!جاؤ کسی کو بلا کے لاؤ ،دیکھو اسے" حوریہ نے اسے باہر کو دھکا دیا۔
سب کے سب زوار منصور سمیت کمرے میں جمع تھے۔
ممی روئے جا رہی تھیں۔سب پریشان تھے،کہ وہ اتنی سرخ کیوں ہو رہی تھی  ۔آنکھیں ابھی تک ابلی ہوئی سی دکھائی دیتی تھیں۔اور سب سے زیادہ پریشانی کی بات یہ تھی کہ اس کا سانس اکھڑ رہا تھا۔
حوریہ نے اسے گھورا اورنگہت کی پریشانی بڑھ گئی کہ اگر وہ مر گئی اور اس کے گلے پر انگلیوں کے نشان.... اور پھر فنگر پرنٹ.... کیونکہ گلے پہ کون دھیان دے رہا تھاابھی ،جو وہ نشان مٹتے.....
جو کسی اور کے پرنٹس کے نشان بنتے .....
   " اللہ جی یہ زندہ رہے،اللہ اسے زندہ رکھنا... پلیز" وہ رو دی ۔بزدل لڑکی۔سب رو رہے تھے ۔سو اس کے انوکھے غم پہ رونے کو کون پہچانتا،حتی کہ یک ٹک نوری کو دیکھتا زوار منصور تغلق بھی نہیں.....جس کی خاطر اس نے یہ سب کیا تھا۔
   "اسے ہاسپٹل لے چلیں سلطان"

                 ☆☆☆☆☆
اگلا دن بھی ڈھل چلا تھا۔سب لوگ ابھی ہسپتال سے واپس نہیں آئے تھے ۔
   " وہ بچ تو جائے گی ناں حور" نگہت انگلیاں مروڑ رہی تھی۔
   " تم نے  کیا ہی بہت برا ہے۔ وہ پہلے ہی خوف میں ہے۔ اور اب تم نے اسے اور بھی خوفزدہ کردیا ہے۔" وہ یاسیت سے بولی۔
" جب مجھے یاد آتا ہے ناں کہ زوار اس کی زندگی میں آچکا ہے ،تب تو میں جیسے پاگل ہو جاتی ہوں،میرا دل چاہتا ہے میں اس کے ٹکڑے کر دوں"وہ لان میں بیٹھیں تھیں۔تبھی گیٹ سے ایک گاڑی داخل ہوئی ۔اور پورچ میں رکنے کی بجائے روش پہ ہی بیک ٹرن لینے لگی۔
وہ دونوں حیران ہوئیں۔بلیک شیشیوں کے پار کون اتنی عجلت میں تھا۔
   " یہ" نگہت نے اسے آتے ہوئے دیکھ کر حوریہ سے پوچھا۔زوار منصور گاڑی کا ڈور  بند کر کے ان کی طرف ہی آرہا تھا۔
   " میں آپ سے اس ناورا سلوک کی وجہ پوچھنے آیا ہوں میم نگہت" وہ بنا کسی  پس و پیش کے بولا۔بگہت کی رنگت پھیکی پڑ گئ ،حوریہ کو ٹھنڈے پسینے آنے لگے،
   " بولیں مس نگہت صاحبہ،اگر اس گھر کے بڑوں کو پتہ چلے تو آپ سوچ سکتی ہیں اپنا انجام"وہ چبا چبا کر کہہ رہا تھا۔اس کی آنکھیں رات بھر جاگنے کی چغلی کھا رہی تھیں۔سکائی شرٹ پہ جابجا دھبے سے بنے ہوئے تھے۔
   " کیوں کیا ؟کیوں؟" وہ اتنا مجبور ہو گیا تھا کہ دھاڑتے ہوئے اس نے نگہت کی کلائی سختی سے کھینچی کہ وہ گھبرا سی گئی۔
   " کیونکہ  i love you 
زوار منصور "
ساتھ ہی اس نے اس کے لبوں پہ انگلی رکھی۔
   " اب ایک لفظ بھی بولا تو ،میں بھول جاؤں گا کہ آپ ایک لڑکی ذات ہیں،اور مجھے زیب نہیں دیتا ہاتھ اٹھانا ۔" نگہت کی آنکھیں پھیل گئیں۔
   "  امریکہ کے بعد کینیڈا کی سڑکوں پہ بھی  میں نے اپنی زندگی کا اتنا ہی حصہ گزارا ہے ۔جتنا کہ  پاکستان میں،اور مس نگہت میں ایسی لڑکیوں سے محبت تو بہت دور کی بات ہے دوستی بھی نہیں کرسکتا ،جو ایک پاکستانی کی محبت میں اپنی ہی بہن کو قتل کرنے چل دیتی ہیں،اور کینیڈا میں ایک الگ سے بوائے فرینڈ ہوتا ہے" نگہت کا منہ نیم وا ہوا،اور اس لمحے زوار کی آنکھیں ،درندوں جیسی لگ رہی تھیں۔اگر اس کے اندر انسانیت نہ ہوتی تو  نگہت جان پاتی کہ وہ انسان نما سب سے بڑا درندہ تھا۔جو اس کی بوٹی بوٹی نوچ ڈالنا چاہتا تھا۔
   " آئندہ احتیاط کیجئیے  گا،میں ایک حد تک ادب کرتا ہوں " لمبے لمبے ڈگ بھرتا وہ وہاں سے پلٹ گیا۔ گاڑی لے کے واپس چلا گیا تھا۔یقینا ہسپتال... حوریہ اس کے نزدیک آئی،
"بدی کا انجام ،آج دیکھا ہے میں نے ،نگہت وہ بھی اپنی ہی بہن کا "اس کی آنکھیں بھری ہوئی تھیں۔
نگہت خاموش رہی
    " تم نے کبھی محبت نہیں کی نگہت ، حسن دیکھا اور یا دولت دیکھی ،مجھے افسوس ہے تم پر" وہ ہنوز سر جھکائے ہوئے تھی۔
                 ☆☆☆☆☆
اس واقعے کے تین  ہفتے بعد ان کا نکاح ہو گیا تھا۔اور زوار ان سب کو ٹریٹ دے رہا تھا تو نگہت نے شرکت نہیں کی تھی۔ زوار کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
اگلے روز ان کی کینیڈا کی فلائٹ تھی۔
شام کا سنہرا سورج سنہری روشنی پھیلا رہا تھا ۔سورج نوری کے عقب میں تھا ،اس کے بال سنہری تاروں جیسے لگ رہے تھے،جو اس کے حسن کو چار چاند لگا رہے تھے۔
اور سامنے بیٹھے کسی سلطنت کے راجکمار کی سی شان رکھنے والے زوار منصور کے چہرے پہ گولڈن روشنی بکھر رہی تھی۔
وہ کسی بات پر مسکرا رہے تھے ۔ایک مکمل دنیا کے باسی لگ رہے تھے۔جہاں صرف اور صرف سنہری کرنیں تھیں۔لان میں کھلتے پھول بھی نہائے ہوئے تھے،سبز زمرد جیسی گھاس کا فرش  بھی چمک رہا تھا۔
   " سوچنے کی بات ہے یہ دنیا  کا معمولی سا حسن اتنا زیادہ ہے۔ کہ انسان کو پاگل کر دیتا ہے۔ تو جنت کیسی ہوگی۔" نوری نے ہاتھ اٹھا کر ان پر بکھرتی روشنی کو دیکھ کر کہا۔
    " تہماری طرح حسین" زوار کی آنکھوں میں بھی روشنی اتر رہی تھی۔وہ جیسے سچ میں جنت کے کسی کونے میں بیٹھے تھے۔
   " تمہیں نہیں لگتا کہ تم نے غلط الفاظ کا استعمال کیا ہے" نوری نے کہا تھا۔
   " پتہ نہیں،پر میں تم سے زیادہ حسن کا تصور نہیں کر سکتا" زوار کے لہجے سے سچائی ٹپک رہی تھی۔
   " مجھے لگتا ہے تم سے زیادہ کوئی حسین نہیں ہے" وہ کہہ رہا تھا۔جو اسے لگتا تھا ۔وہی سچ کہہ رہا تھا۔
   " تمہیں نہیں لگتا پر مجھ سے زیادہ تم حسین ہو زارو ،اور ہم دونوں سے بھی زیادہ حسین بہت سے لوگ ہیں "وہ بولی۔انکاری ،اپنی بات منوانے اور اس کی  بات کے وثوق کی نفی کی۔
     " ششش !!مجھ سے زیادہ تم اور ہم دونوں سے زیادہ اس وقت کوئی بھی نہیں " نوری کھلکھلا کر ہنس دی۔زوار کے لبوں پر بھی ساحرانہ مسکراہٹ بکھرتی چلی گئی۔
ان دونوں کی بحث تاحال جاری تھی۔کہ اندرونی عمارت سے نگہت تیزی سے ان کی جانب آتی دکھائی دی تھی۔
   زوار نے اسے آتے دیکھا تو وہاں سے اٹھ کر ایک طرف چلا گیا۔نوری وہیں بیٹھی رہی.
     "میں تم سے یہ کہنے آئی ہوں کہ تم نے مجھے زوار کی نظروں سے گرا کر کیا ثابت کر دیا " نگہت کی آنکھوں سے اس کے لئیے نفرت ٹپک رہی تھی۔نوری نے کچھ کہنا چاہا مگر اس نے ہاتھ اٹھا کر خاموش کر دیا
   " فل حال تو تمہارا حسن اور معصومیت کام آگئ،مگر ایک بات یاد رکھنا مس نورسحر سلطان گردیزی صاحبہ  کہ میں تمہاری زندگی میں زہر گھول دونگی۔" اس بار نوری نے کوئی حرکت نہیں کی ،ست اور خاموش رہی۔فائدہ جو نہیں تھا۔
   " اللہ حافظ" وہ چلی گئی ،نوری گھبرا گئی.اس کے پیچھے دوڑی۔
   " ٹھہرو نگہت،اللہ حافظ کیوں ،تم تو کل جاؤ گی ناں ،وہ بھی شام تک تو ابھی ......"
    " ابھی جاؤنگی ،صرف میں " وہ دہاڑی تھی۔
   " مجھے یہاں ایک پل کے لئیے بھی نہیں رکنا "
   " مگر تم گھر والوں کو کیا کہو گی ،اور رات کہاں گزارو گی "
   '؟" ہوٹل میں ،اور گھر والوں کو بتانا میرا مسلہ ہے ،سو تم چپ رہو"
   نوری جوابا چپ ہی رہی تھی۔وہ عجیب ڈھیٹ اور ضدی لڑکی تھی۔کسی صورت قابو ہی نہ آتی تھی ۔
زوار دور کھڑا دانت کچکچا رہا تھا۔اس کا دل چاہ رہا تھا کہ اس لڑکی کو ادھیڑ کر رکھ دے ،جو خود کو اتنا گرا چکی تھی۔جسے اپنی عزت کی چنداں پرواہ نہیں تھی۔
ویسے سوچنے کی بات ہے اس کی محبت  کی کون سی قسم تھی۔
محبت تو یہ ہوتی ہے ناں کہ جہاں محبوب خوش وہاں خوشی،چاہے  رقبابت سے ہی خوش کیوں نہ ہو ،تمیز باقی نہیں رہتی،جو قربان کرنا نہ جانے وہ محبت ہی کیا،جو جھکنا نہ جانے وہ محبت ہی نہیں ،جسے عزت کا پاس نہ ہو وہ محبت ہو  ہی نہیں سکتی۔
تو پھر نگہت کی محبت کس کیٹگری میں آتی تھی۔
وہ کس سلطنت کے قانون کے تحت محبت کرتی تھی۔
محبت تو شکر سکھاتی ہے،محبت تو اپنا حق بھی چھوڑ دینے کا درس دیتی ہے،محبت تو درد کی اتھا گہرائیوں میں بھی یار من کی دھڑکنوں کا رقص سکھاتی ہے۔ کہ جب پاؤں میں چلنے کی بھی سکت نہ ہو ،پھر بھی رقص جاری رہتا ہے ۔شیشوں پہ چلنے کا حوصلہ دیتی ہے
وہ سمجھ ہی نہیں پارہا تھا کہ وہ اس کے اس محبت کے کھیل کو ،حقیقتا کھیل کہے،تماشا،ہوس، خودفریبی یا پھر بےحیائی ،کیا نام دے ،کیسے پکارے،
وہ اب اندرونی عمارت میں داخل ہو رہی تھی۔اور نوری ہنوز اس کی پشت کو تک رہی تھی۔پھر وہ اس پر شکوہ عمارت میں غائب ہو گئ۔تو نوری نے سرعت سے اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں اپنے  سامنے پھیلا لیں۔
اندر کہیں دل میں درد کی پھانس سی چبھ گئ۔کوئی خوف جو طاری ہو گیا،جس چیز سے ہم بچنا چاہیں اکثر وہی ہمارے خیالات اور نظروں کے سامنے گھومتی ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ محبت انسان کو وہمی سا بنا دیتی ہے ۔بے اعتبار سا کہ کہیں ،وہ روٹھ نہ جائے ،کہیں دور نہ چلا جائے،کہیں گم نہ ہوجائے،بہت سے خوف سر اٹھائے محبت کی دیوی کی پوشاک سنبھالے ساتھ ہی آن وارد ہوتے ہیں۔
سنہری روشنی ان سے روٹھ کر اب سیاہی میں تبدیل ہوتی جارہی تھی۔زوار نے چھپتے سورج کو دیکھ کر ٹھنڈا سانس لیا تھا۔
البتہ نوری کا دھیان اب سورج کی طرف نہیں تھا ۔وہ ہنوز  اپنے ہاتھوں کو دیکھتی جارہی تھی۔
   " ان ہاتھوں میں کہیں میں تو گم نہیں ہو گیا" وہ چونک گئ۔
   " کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ ان ہاتھوں میں میری ساری خوشیاں دفن ہو چکی ہیں." اس کے چہرے سے کرب ہویدا تھا۔
   " اور مجھے کبھی کبھی لگتا ہے کہ تمہیں اکثر خاموش رہنا چاہئیے،ابھی تم سمجھ نہیں پاتی کہ کہاں کیا کہنا ہے" وہ مذاق کر رہا تھا۔جانتا تھا
ناں کہ نگہت کا زہر ابھی بھی اس کی دھڑکنوں میں گردش کر رہا تھا۔
   " پر یہ تو سچ ہے کہ ان لکیروں میں ،زوار منصور ہے" اس نے وہ بات کہی تھی جو نوری نے ھاجرہ کے سوا، اپنی زبانی کسی کو بھی نہیں بتائی تھی۔وہ چونکی،سورج کی روشنی نہ ہونے کے باوجود ،آنکھیں چندھیا کر اسے دیکھا۔چھ فٹ قد سے نکلتا کسرتی  جسم کا مالک،گہرے سیاہ بال ،جو ماتھے پر بکھر رہے تھے ،گہری ذہین آنکھیں،جن میں بسا اوقات سرخی سی چھائی  رہتی تھی۔بھرے ہونٹ ،اف دیکھنے میں تو ،بہت خوبصورت،سمجھدار سا لگتا تھا ۔مگر باتیں پاگلوں والی کر رہا تھا۔
   "  تم یقین رکھتے ہو " وہ پوچھ رہی تھی۔جس کے اندر تک واہمے بکھرے پڑے تھے۔
    " ہاں " اس نے سر اثبات میں ہلایا۔اس کی مسکراہٹ گہری تھی ۔شرارت بھری۔
   " میں نے ایک دفعہ ایک پامسٹ کو ہاتھ دکھایا تھا" وہ تو جیسے حوصلہ ملنے کی منتظر تھی۔فورا سے بیشتر بولی۔زوار نے تھوڑا سا سر جھکا کر اس کی بات سسنا شروع کی،نہایت انہماک اور دلچسپی سے۔وہ بتاتی جا رہی تھی اور اس کی دلچسپی بڑھی جا رہی تھی۔
اندھیرا گہرا ہونے لگا تھا۔بیرونی تمام لائیٹس آن کردی گئی تھی۔شہر کی جامع مسجد میں مغرب کی اذان کی گونج بلند ہوئی ۔وہ خاموش ہوگئ۔نگہت گھر سے چلی گئی تھی۔
   " او ہو ....... تم ایویں ہی ڈرتی ہو ،یہ سب تو من گھڑت باتیں ہوتی ہیں۔ان پر یقین  نہیں کرنا چاہیئے،"
  " تم تو کہہ رہے تھے کہ...."قہ بولی۔
  " حی اعلی الاصلو ۃ"پکار مسلسل تھی۔
اس کی حیرت پر سامنے کھڑا وہ مسکرا دیا۔
   "    وہ تو جوکنگلی کہا تھا یار،پر مجھے کیا پتہ تھا کہ میرے ذرا سے مذاق سے تم اتنے بڑے راز سے پردہ اٹھا دو گی،ویسے اچھا ہی ہوا ،تمہں نماز تو پڑھنی آئی اس بہانے"
   "حی اعلی الفلاح"
آؤ کامیابی طرف.......
              ☆☆☆☆☆☆
وہ جانے کون سی سورت تھی۔
"و توالج الیل فی النہار و تو الج النہار فی الیل " ( وہ رات کو داخل کرتا ہے دن میں اور دن کو داخل کرتا ہے رات میں) القرآن پ3
بہت خوبصورت آواز میں کوئی تلاوت کر رہا تھا۔
وہ بہت بلندی پر تھی۔ اس نے مغرب کی طرف سر اٹھا کر دیکھا تو سورج مغرب کی آغوش میں چھپتے ہوئے غائب ہوتا جا رہا تھا۔
  اور وہ منظر بہت ہی اداس کر دینے والا تھا۔اسے لگ رہا تھا جیسے وہ سورج نہیں، بلکہ دنیا غروب ہوتی جارہی ہو،جیسے رفتہ رفتہ سب کچھ ڈھیتا جا رہا تھا۔تمام نقوش مٹتے جا رہے تھے۔
اس نے اس بلند پہاڑی سے نیچے نگاہ ڈالی تو وہاں ایک ہیولا سا دکھائی دیا ،جیسے کوئی شخص سست قدموں سے چلتا جا رہا ہو۔
   " کون ہو تم"  منہ کے گرد  دونوں ہاتھوں کی  دیوار بنا کر آواز دی۔مگر اس شخص نے جیسے سنا ہی کچھ نہیں تھا۔
   " کون ہو یہاں کیا کر رہے ہو" وہ پھر سے چیخی۔
تاریکی بڑھتی جارہی تھی۔اور اب ہوا بھی  چلنے لگی تھی جو بددستور آندھی کی صورت اختیار کرتی جا رہی تھی۔اس ہیولے نے پلٹ کر اسے دیکھا۔اسے تو وہ لاکھوں میں پہچان سکتی تھی۔
   " زارو!!!! تم کہاں جارہے ہو " وہ حلق کے بل چلائی۔مگر وہ پھر سے رخ موڑے چلنے لگا۔سامنے ایک اندھے غار کی طرف چلتا جارہا تھا۔
   " زارو میں یہاں ہوں ،مجھے چھوڑ کر مت جاؤ زارو" مگر اس کی آواز چٹانوں سے ٹکرا کر واپس پلٹ آئی۔
   ہیولا غائب ہو گیا۔
اسے خوف آنے لگا۔
  " میں " وہ گھبرا گئ۔تلاوت کی آواز ابھی بھی آرہی تھی۔
   " میں ہوا سے اس کھائی میں گر جاؤں گی" روتے ہوئے خود سے کہہ کر وہ پیچھے کی جانب ہٹنے لگی۔ہوا اور بھی تیز ہو گئ۔
پھر اتنی تیز کہ اس سے پیچھے کی جانب چلنا محال ہوگیا۔ایک پتھر کو مضبوطی سے پکڑ کر وہ بیٹھ گئی ۔
   " سب لوگ کہاں ہیں،ممی، بابا،ھاشم..... اور زارو... وہ ادھر کیوں گیا ہے" وہ خوف سے تھر تھر کانپ رہی تھی۔
   پھر وہ پتھر جس کا اس نے سہارا لے رکھا تھا ۔وہ بھی اپنی جگہ سے ہلا اور ہوا میں اڑ گیا۔پھر وہ بھی ایک جھٹکے سے آگے کوآئی۔ اور ہوا کے طوفانی جھونکے سے اس گہری کھائی میں گرتی چلی گئی۔
   " ممی" ایک زوردار چیخ سے اس کی آنکھ کھل گئی۔
  " مائی گاڈ، اتنا بھیانک خواب،اف توبہ"وہ پسینے میں شرابور ہو چکی تھی۔
اس نے ایک جھٹکے سے بستر چھوڑ دیا۔
             ☆☆☆☆☆☆
"NEAR A MISS "
بڑے حروف میں لکھا گیا تھا۔کمپیوٹر سکرین پر چمکتے الفاظ ،پتہ نہیں کس نے بھیجے تھے۔
اس کی زندگی  معمول پر تھی۔
زوار منصور تین ماہ پاکستان رہ کر گیا تھا۔
وہ پرانے غم  بھول چکی تھی۔ ۔ھاجرہ اب اس کے لئیے بہت خاص بن گئی تھی۔جس سے دوستی اس نے اپنے مطلب کے لئیے کی تھی ۔اب  اسے حقیقی دوست بنا لیا تھا۔
اس کے پیپرز کے بعد ان کی شادی تھی۔اس دن وہ ایک تجسس میں آکر بیٹھی تھی۔لیپ ٹاپ آن کرتے ہی اسے  ای میل میں وہی الفاظ پھر سے ملے تھے۔
"NEAR A MISA"
آج پھر بہت ہی پیارے انداز میں ان الفاظ کو سجایا گیا تھا۔کوئی ہر روز اسے یہی الفاظ نت نئے انداز سے ڈیکوریٹ کر کے بھیجتا تھا۔
پر کون؟ اور کیوں؟
          ☆☆☆☆☆☆
میں ان شیشہ گروں سے پوچھتا ہوں
کہ ٹوٹا دل بھی جوڑا ہے کسی نے
اس کی رفتار تیز تھی۔دل پہ دھچکہ سا لگا تھا۔
مگر وہ جا کہاں رہی تھی۔
اس کی سمجھ نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا۔
جائے گی کہاں؟
اور کیا پیدل ہی؟.
سوال سر اٹھانے لگے۔
زمین آسمان گویا گردشوں میں تھے۔
   وقت سحر
تنہا اختر صبح آسمان پہ ٹمٹما رہا تھا۔
ننگے پاؤں سڑک پہ دوڑتی وہ ،ایکسرسائز نہیں کر رہی تھی۔
وہ ایک نئے امتحان سے گزر رہی تھی۔
   " وہ تمہیں نہیں ملے گا" برسوں بعد بھی وہ بات زندہ تھی۔باتیں نہیں مرتیں۔بلکہ ہزاروں جنم لیتی ہیں۔
اس کے قدم سست پڑ گئے۔
اسے کیا ہوا ،وہ تو منزلوں کی راہوں  کی ملکہ تھی۔خوشیاں اس کے در پہ خود دستک دیتی تھیں۔
پھر اسے خیال آیا اسے گھر جانا چاہئیے۔گاڑی کی ضرورت تھی ،بنا گاڑی وہ نہیں پہنچ پائے گی۔واپسی کے لئیے قدم بڑھائے۔
وہ محبت ہی کیا جو در در کی خاک نہ چٹا دے،جو زخم زخم نہ کر دے،جو پاگل پن کے کناروں سے نہ ٹکرا دے۔اور .....اور وہ محبت ہی کیا جو بحر اذیت میں کشتئ جسم و جاں کو طوفاں کے حوالے نہ کر دے ۔
صبح4:30 am پر
جدہ سے روانہ ہونے والی فلائٹ میں اچانک آگ لگ گئی تھی۔
آٹھ دن پہلے زوار نے بتایا تھا کہ وہ اپنا سارا بزنس وائنڈ اپ کر کے مستقل طور پر پاکستان آرہا ہے۔سب کچھ وہ کر چکا تھا ۔جو چند ایک کام باقی تھے۔ایک ہفتے تک انہیں بھی ختم کر لے گا۔اگلے ہفتے اس کی فلائٹ تھی۔
اس کا کچھ کام جدہ میں بھی تھا۔ تبھی وہ تین دن پہلے وہاں سٹے کر چکا تھا ۔اور آج وہ پاکستان کے لئیے پرواز کر چکا تھا۔وہ ابھی تک ائیرپورٹ کے لئیے نہیں نکلی تھی  ۔اس سے پہلے ہی وہاں عفان اور اسد پہنچ گئے تھے۔ممی بھی ابھی تک تیار نہیں ہوئیں تھی۔
   " کیا؟"اسے راہداری سے تیز قدموں کے ساتھ ساتھ   بابا کی گھبرائی سی آواز بھی سنائی دی تھی۔ دل تو پہلے ہی خزاں رسیدہ بنا ہوا تھا۔پہلے،پامسٹ،پھر نگہت،پھر وہ خواب اور پھر وہ ای میل ،اس نے سوچ رکھا تھا ۔
وہ زوار کو خواب اور ای میل کے بارے اس کے پاکستان آجانے کے بعد بتائے گی۔
وہ تیزی سے کمرے سے نکلی۔دل کسی انہونی کا اشارہ کر رہا تھا۔  بابا تیز تیز چلتے ہوئے پورچ تک گئے تھے ۔جانے کیوں وہ بھی پیچھے ہی دبے قدموں چلتی رہی تھی۔
   " طیارے کو آگ کیسے لگی ،زوار کہاں ہے وہ ٹھیک تو ہے ناں.... ہاں ہاں بس میں ابھی پہنچا" وہ ساتھ ہی گاڑی میں بیٹھے ۔
   " بابا" وہ چیخی مگر شیشے بند تھے ۔اس کا دل بیٹھنے لگا تھا۔اس کی  چیخنے کی آواز سن کی ممی باہر آئیں۔وہ نڈھال سی زمین پر بیٹھی تھی۔
   " کیا ہوا ہے آپ کو نوری بیٹا،اٹھو یہاں کیوں بیٹھی ہو....."
   " ممی زارو ٹھیک ہے ناں" اس نے ان کے سینے سے سر ٹکا دیا۔ممی نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
   " کیا ہوا ہے زوار کو"
  " ممی جس جیٹ میں زارو تھا۔اس میں آگ....."اس کے ساتھ ساتھ ممی کی بھی سٹی گم ہوگئ۔وہ اسے وہیں چھوڑے اندر کی جانب دوڑیں۔اور جاتے ہی ٹی۔وی آن کیا۔جہاں ایک قیامت خیز خبر ان کی منتظر تھی۔جبکہ نوری بنا کچھ سوچے سمجھے باہر کو بھاگی تھی۔
قفس کی تتلیاں رنگین کیوں ہیں
یہاں پہ سر کو پھوڑا ہے کسی نے
*********************
جاری ہے


Comments