سورج ڈھل رہا تھا۔ اور نوری اپنے کمرے کی کھڑکی میں، کھڑی
ڈوبتے سورج کو دیکھ رہی تھی۔اس کے کمرے کی ایک کھڑکی مشرق میں کھلتی تھی۔ اور دوسری مغرب میں،
صبح کے وقت وہ مشرق سے ابھرتے سورج کو دیکھتی تھی۔ اور مغرب
کے وقت رفتہ رفتہ تاریک ہوتے آفتاب کا نظارہ کرنا ، اس کا من پسند مشغلہ تھا۔
" محبت مت کرنا" ابھی چند منٹ پہلے اس پر انکشاف ہوا تھا۔ اور اب
اس کا دماغ لرز لرز جا رہا تھا۔ بارہا اسے وارن کر رہا تھا۔مگر وہ مسلسل اسکی نفی کر
رہی تھی۔
" تمہیں محبت......." اسے کہا گیا تھا ۔اور اس نے بات ہنسی میں اڑا
دی ۔ اسے اور محبت....؟ امپاسبل تھا۔کبھی ایسا نہیں ہوسکتا ۔اسے بہت مان تھا خود پہ
،اور آج انکشاف کا دن تھا ۔آج اسے پتہ چلا تھا کہ اسے محبت ہو نہیں سکتی تھی ۔بلکہ ہو گئی تھی۔
" وہ تمہیں ملے گا نہیں۔"
یہ بات بھی تو اسی وارننگ کا حصہ تھی۔
" تو وہ نگہت کا مقدر ہے .... وہ اسے ملے گا۔ کیونکہ میرے مقدر میں تو
صرف محبت کرنالکھا ہے ۔"اپنے دونوں ہاتھ اپنے سامنے پھیلائے ، وہ سوچ میں ڈوب گئی ۔لکیروں کا انجانا سا جال تھا۔اور
تمام لکیریں باہم الجھ رہیں تھیں۔
" ایسا بھی تو ہو سکتا تھا ناں کہ نگہت کے مقدر میں اس سے محبت کرنا ہوتا
اور میری اس پہ ملکیت ہوتی..." آج برسوں بعد (دوسال اور چند دن بعد) اسے وہ آسٹرولوجسٹ یاد آیا تھا۔جو آج سے پہلے کبھی اسے
یاد نہ آیا ۔
" وہ میرا ہے بس .... میں اسے مار دوں گی جسے وہ ملے گا ....." روح
کانپ گئی ۔اس کے اندر جلتا لاوا کچھ ٹھنڈا ہوا۔
" نگہت کو..... اپنی کزن کو
... سگی چچا زاد کو ... اپنے ہی خون کو ....اپنی
ہی بہن کو... کیا میں اسے مار دوں گی ؟" وہ ایسے راستے پر تھی۔ جہاں سے
اسے کچھ دکھائی نہ دیتا تھا۔
" نہیں ... میں اپنی بہن کو قتل نہیں کرسکتی ... محض ایک مرد کی خاطر
.... تف ہے تم پر نوری۔ تم نے سوچا بھی کیسے ،لعنت بھیجو ایسی محبت پر۔" ایک مرد
کی محبت پر بہن کی محبت حاوی ہو گئی۔
اور
اس طرح کی جنگ اس نے بارہا لڑی تھی۔کبھی بہن
کی طرف جھک جاتی۔ تو کبھی زوار منصور کا پلڑا بھاری ہوجاتا۔ دل ٹھہرتا ہی نہ تھا ۔
ایک ماہ سے زیادہ
وہ اس جنگ سے نبرد آزما رہی تھی۔
اور پھر اس دن اس نے دوبارہ پامسٹ کے پاس جانے کا فیصلہ
کیا تھا۔شاید ... وہ اس بار، دو سال بعد، اپنا
بیان بدل دے ... مگر ایسا نہیں ہو سکا تھا۔ اس کے بیان وہی رہے تھے۔اور محبت نے اسقدر بے بس کردیا تھا کہ وہ ھاجرہ سے دعاؤں
کی بھیک مانگ بیٹھی۔اپنی انا کی دھجیاں اڑا
کے رکھ دیں۔سارا طنطنہ جھاگ بن کر بیٹھ گیا۔
اور اس نے کہہ دیا تھا۔.. وو جسے ملے گا وہ اسے قتل کردے
گی . ہاں انجام جو بھی ہو ،مگر وہ نگہت کو اپنی محبت کے لیئے قربان کرنے کے لیئے تیار
تھی۔
☆☆☆☆☆
اسکا دل چاہ رہا تھا وہ کھل کر سوئے ،مگر ہاجرہ نے کہا تھا
باقی کا سب کچھ وہ کل بتائے گی ۔سو اسے جانا
تھا ۔اور ہر صورت جانا تھا۔
" اللہ کے تین طرح کے نام ہیں نوری۔۔۔۔اسمائے جمالی یہ وہ صفاتی نام ہیں جن میں اللہ کی بے پناہ محبت
ظاہر ہوتی ہے یعنی الرحیم(بار بار رحم کرنے والا)،الرحمن (بے حد رحم کرنے
والا )،الودود(پیار کرنے والا)" یہ ان کی دوستی کا
دوسرا دن تھا۔بوڑھے برگد کے درخت کے نیچے بیٹھی وہ ھاجرہ کو حیرت اور محویت سے سن رہی
تھی۔رودابہ اور دراج ذرا فاصلے پہ بیٹھیں تھیں۔
"اور الوھاب(عطا کرنے والا)" اس کا دھیان رک گیا ۔ایمان ٹھہرنے لگا۔ڈٹنے
لگا۔ھاجرہ روانی سے بول رہی تھی۔
"دوسرے اسمائے جلالی ہیں یہ نام اللہ کی طاقت کی پکار پکار کر گواہی دیتے
ہیں ۔الجبار(جبروت والا)،العزیز(مظبوط)،القہار(قہر والا)،المھیمین(نگرانی والا)اور
المنتقم(سزا دینے والا) اس کے بعد اسمائے کمالی ہیں ۔
القیوم(قائم رہنے والا)،العلیم(جاننے والا)،البصیر(دیکھنے
والا)اور الخبیر(باخبر)" ھاجرہ نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا ۔جو گم سم سی بیٹھی
تھی۔
" کہاں کھو گئیں نوری؟"
" اللہ الوھاب ھے اور پامسٹ جھوٹا، کتنا خود غرض ہے انسان اللہ کا کلام
بھی وہیں سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے جہاں اپنے مطلب کی بات ہو ۔"
چند قدم کے فاصلے پہ موجود وہ دونوں بھی مسکرا دیں ۔
" ارے ہاں نوری .... آج نماز پڑھ کر دعا مانگی تھی آپ نے؟ " ھاجرہ
نے بات بدل کر اگلی بات شروع کی ۔
نوری نے اس سے دوستی نہیں کی تھی ۔بس اپنے مطلب ،اپنی مجبوری
کی وجہ سے اس تک آئی تھی۔
" ہاں پڑھی تھی پر........
" اس کی پلکیں لرز گئیں۔
" مجھے ٹھیک سے پڑھنی نہیں آتی۔"دور سے گزرتا لڑکوں کا گروہ انہیں
تمسخر سے دیکھنے لگا۔
دراج اور رودابہ قریب آبیٹھیں ۔نوری کی اضطراب،ہجر ،اور
رت جگے میں آنسوؤں کی مجرم آنکھیں، جھکی ہوئی بھی اپنے راز فاش کر رہی تھیں۔
" تم مجھے نماز سکھا دو ھاجرہ۔" اس نے عاجزی سے کہا۔بے چین اور متورم
آنکھیں اٹھا کر اسے دیکھا۔ کیا نہیں تھا اس وقت اس کی آنکھوں میں....
" کیوں نہیں ،میرے لیئے خوش بختی ہوگی یہ تو نوری ۔" ھاجرہ نے مسکرا
کر کہا تھا۔ہاں تو یہ خوش بختی تھی ۔اس کی مسلمان بہن راہ راست سے بھٹک گئی تھی ۔وہ
واپسی چاہ رہی تھی ۔اس کا مقصد کیا تھا۔ یہ اسے نہیں سوچنا تھا۔اسے اللہ بلا رہا تھا
۔بس یہی سوچنا تھا۔ وہ صراط المستقیم پر آرہی تھی یہ سوچنا تھا۔ نیت اللہ دیکھتا ہے۔
اعمال اپنے لیئے کیئے جاتے ہیں ۔وہ کون تھی
بھلا اس کی نیت کو جانچنے والی۔
" رودابہ کو بھی نہیں آتی نماز ... مطلب کم کم آتی ہے۔ " اسے ایک
بار ایسے ہی باتوں باتوں میں رودابہ نے بتایا تھا۔ تب نوری اپنے بارے چپ رہی تھی۔اسے
کیا ضرورت تھی ۔یہ سب بتانے کی... مگر آج بلا وجہ رودابہ کا راز فاش کر دیا۔
" مم... مجھے تو آتی ہے ... اچھی بھلی آتی ہے.." رودابہ کا تو دماغ
ہی گھوم گیا۔بھلا اس کے بارے بتانے کی کیا تک تھی۔
" اوہ سوری ... ایک بار تم نے کہاتھا ناں، میں نے اس لیئے کہا ہے۔ مجھے
کیا پتہ تم نے یاد کر لی ہے۔" ھاجرہ اور دراج ہنس دیں۔
تین
دنوں میں اس نے نماز سیکھ لی تھی۔
باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہوئے بھی اس کا دل ڈگمگاتا تھا۔بہکتا
تھا۔ڈرتا تھا۔
اس دن وہ
نماز پڑھ رہی تھی ۔جب ممی اس کے کمرے میں چلی آئیں ۔اور اسے نماز پڑھتے دیکھ کر انہیں
دلی خوشی ہی نہیں، دلی سکون بھی ملا تھا۔
" آج آپ نماز پڑھ رہی تھیں ... نوری بیٹا ،مجھے بہت اچھا لگا۔"ممی
ہاتھوں پہ لوشن کا مساج کرتے ہوئے بولیں۔
" تھینکس ممی جان" اس نے
مسکرا کر کہا تھا۔
☆☆☆☆☆
سفید برف کے گالے برس رہے تھے ۔زوار منصور پینٹ کی پاکٹس
میں دونوں ہاتھ چھپائے ۔خاموش سا بیٹھا تھا۔ایک انجانے سے درد میں گھرا اور خیالات
میں اس کا راج تھا۔
☆☆☆☆☆☆
وہ
بہت تیزی سے سیڑھیاں چڑھتی ہوئی اوپر گئی تھی۔
" کیا بات ہے نوری بیٹا طبیعت ٹھیک ہے آپ کی؟ " ممی تیزی سے اس کے
روم میں آئی تھیں۔
" جج.. جی ممی۔ " وہ اس
اچانک افتاد پر گھبرا سی گئی۔ممی اس کے مقابل آکھڑی ہوئیں ۔اور اس کی آنکھوں میں جھانکا۔
" کیا بات ہے؟" ان کے چہرے کی رنگت اڑی ہوئی تھی۔
" وہ میں ٹھیک ہوں ممی ...." وہ تیزی سے واش روم کی جانب دوڑی۔
چند
منٹ بعد باہر آئی تو اس کے مرجھائے ہوئے چہرے سے پانی کے نھنھے قطرے ٹپک رہے تھے۔
" سچ بتاؤ۔" ممی تن کر کھڑی ہوگئیں۔
" tell me Nori"
ان کے لہجے میں غصہ در آیا تھا۔
نوری نے سرخ آنکھیں اور بھیگا چہرہ اٹھا کر ممی کو دیکھا۔جو
غصے سے زیادہ کسی کرب میں گھری ہوئی لگتی تھیں ۔
" کیا چھپا رہی ہو آپ مجھ سے نوری بیٹا؟"ان کا لہجہ رندھ گیا۔ان کی
بیٹی پچھلے کئی ماہ سے نماز باقاعدگی سے ادا
کر رہی تھی۔
انہیں خوشی کے ساتھ ساتھ کچھ غلط بھی لگ رہا تھا۔
" اوہ سوری ممی .... میں نہیں جا سکتی وہاں تو لباس پہ بھی پابندی ہے ہر
چیز ان کی پسند کی ہو ..... " وہ اپنے دودھیالی گاؤں کے کسی بھی فنکشن پر یا ویسے
ہی ملنے جانے پہ بھی رضامند نہیں ہوتی تھی ۔وجہ وہاں کا دیہاتی ماحول تھا۔ اس کا لباس اس پر انگلیاں اٹھواتا تھا۔
" دادی جان زبردستی نماز پڑھواتی ہیں ...." وہ ہمیشہ منہ بسور کر
ممی سے شکایت کرتی تھی۔
" مجھے نماز پڑھنا اچھا نہیں لگتا....اور میری دادی جان زبردستی مصلحے
پر کھڑے کر دیتی ہیں ۔مصلحے پر تو وہ جائیں ناں جن کے پاس کسی چیز کی کمی ہو......"
رودابہ اور دراج اس کی بے تکی تقریر پر ہزار بار ٹوکنا چاہتیں مگر وہ کسی کی نہیں سنتی
تھی۔
" لو جی ایک اور سن لو ... وہ جو نیو اسٹوڈنٹ آئی ہے ناں ھاجرہ بختاور
، اس کا کہنا کہ قرآن پڑھتے ہوئے بہت مزہ آتا ہے ،بہت لطف آتا ہے .... بھلا اس میں
لطف کی کیا بات ہے ؟" اس کے نزدیک کوئی بات قابل اعتراض تھی ہی نہیں۔وہ جو مرضی
کہہ کر چلتی بنتی تھی۔اس نے کبھی الفاظ کو تولہ ہی نہیں۔
اور اب وہ نمازوں کی پابند تھی ۔تو کیوں ......؟
" وہی جو چھپانا چاہیئے ممی ..اور
تب تک جب تک ممکن ہو .. پھر بات ہوگی اللہ حافظ! " کہتے کے ساتھ ہی اس
نے تکبیر کہی اور نماز شروع کر دی ۔کئی ثانیے ممی بیٹھی رہیں پھر وہاں سے اٹھ آئی تھیں۔
" یہ سب کچھ .. یہ نماز.. تسبیح۔۔قرآن
کی تلاوت کرنا ، سننا... اور تو اور یہ دوپٹہ.... مشرقی لباس . جن چیزوں کی انہوں نے
اسے تربیت ہی نہیں دی ان سب کا وقوع پزیر ہونا کیوں .... اور کیا؟" وہ کچن کاؤنٹر
پہ کھڑیں سوچوں میں ڈوبی ہوئیں تھیں ۔
" ممی جان!" وہ جانے کب چلی آئی ۔انہیں خبر ہی نہ ہو سکی۔دو ملازمائیں
اس وقت کچن میں مصروف تھیں۔نوری نے انہیں باہر جانے کا اشارہ کیا۔
" محبت کیا ہوتی ہے ممی" اس کا سوال اس قدر اچانک تھا کہ چند لمحے
تو وہ سوچ میں ڈوب گئیں۔ان کا ماتھا ٹھنکا۔کچھ غلط ہونے جارہا تھا۔
" شائد یہی ناں جو آپ کو وہ سب
بھی کرنے پہ مجبور کر دے جو آپ کبھی بھی نہ
کرنا چاہیں .. ہیں ناں ؟" اس کا لہجہ اور چہرہ دونوں میں تازگی سی لگتی تھی۔
" ممی مجھے زوار منصور چاہیئے۔"
" وہ کون ہے؟ " ان کی رنگت
پھیکی پڑی ۔وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ روایتی ماؤں کی طرح بیٹی کے یوں سر عام اعلان محبت
کے خلاف ہوئی تھیں ۔بلکہ اس لئیے کہ انہیں ڈر لگا تھا۔عجیب سا ڈر .... جان لے لینے
والا ڈر ، ویسا ہی ڈر جس میں کچھ کھو جاتا ہے ... جس میں آکر درد بھی خاموش ہو جاتا
ہے۔
" وہی ہے جس کے لئیے میں نماز پڑھتی ہوں۔ "
ان کی
سمجھ میں آگیا تھا کہ جو تربیت وہ نہ دے سکیں وہ محبت نے دے دی ۔جانے یہ سفر کس طرف
جانے والا تھا۔
☆☆☆☆☆☆
اس
دن بادل ٹوٹ کر برسے تھے اور بحریہ ٹاؤن کو
مزید نکھار گئے تھے۔
" نوری کو پچھلے تین دنوں سے شدید بخار تھا۔
اس
کے سرہانے پڑے موبائل نے بپ دی ۔اس نے ذرا سا سر ہلا کر موبائل کو دیکھا۔
" ہیلو۔" اس کی نقاہت میں ڈوبی آواز ابھری۔
" ہاجرہ .... میرے سجدے بھی اکارت ہی کیوں جا رہے ہیں؟ " وہ رو دی،
دروازے پہ کھڑی ممی جان کی روح تک لرز گئی۔وہ فانی تھی۔اور بقا چھوڑ کر فنا ہی کی متلاشی...
" کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے ہاجرہ کہ ،میری ساری ریاضت بےکار ہی جائے
گی ۔مجھے ڈر لگتا ہے ...." اس کی آواز کی لرزش سے ممی کی روح بھی لرز رہی تھی۔
ہاجرہ نے بے ساختہ
آنکھیں بند کیں اور تصور میں اس کا زخمی دل دیکھا .... ترستا اور ہمکتا دل ... ہجر
کی آگ میں جھلستا دل .... طلب یار کی آس میں بلکتا دل ...
" اللہ بہتر کرے گا نوری ،بس آپ دعا کرو ۔" ان الفاظ کےسوا اور تھا
ہی کیا بھلا کہنے کو ..اسے حوصلہ دینے کو ،اسے سمجھانے کو ۔
" تم کب سے یہی کہہ رہی ہو ..." وہ بکھر گئی ۔
" بکھرے ہوئے جب مزید بکھرتے ہیں تو تمہیں پتہ ہے پھر کیا ہوتا ہے؟
" نوری کے روئیں روئیں میں درد اتر گیا۔
" وہ معراج پا لیتا ہے .... " ہاجرہ بول اٹھی ۔مگر الٹ سراسر الٹ
یوں نہیں ،اسے کہنا چاہیئے تھا ۔وہ فنا ہو جاتا ہے ۔کرچی کرچی ہوجاتا ہے اس کے اتنے
ٹکڑے ہو جاتے ہیں کہ پھر چاہ کر بھی کوئی انہیں جوڑ نہیں پاتا۔مگر وہ ... وہ تو کہہ
رہی تھی ہاں نوری سے کہہ رہی تھی اور غلط کہہ رہی تھی ۔
" تم محض مجھے بہکاتی ہو... بہلاتی ہو۔ " متورم آنکھیں پھر سے بہہ
نکلیں۔
" نہیں نوری ... با خدا ایسا کچھ نہیں ہے ۔میں آپ کو دل سے دعا دیتی ہوں
۔" ہاجرہ اس کے لہجے سے ڈر گئی۔
" نوری بیٹا ،سوپ۔" ممی کی برداشت جواب دے گئی ۔
" بعد میں بات کرنا پہلے...."
" مما میری دعائیں نہیں سنتا اللہ ۔" ممی کی زبان گنگ ،الفاظ مقفل،سوچ
مفلوج ... گویا سب ختم .....
☆☆☆☆☆
وقت اڑا تھا اور اڑتا رہا ... اسے ڈھونڈا گیا ۔ہر جگہ
... نوری کی خاطر ... مگر وہ نہیں ملا ،جانے کہاں چلا گیا۔
اس دن نوری کو ہاشم گھر لایا تو وہ نڈھال ہو چکی تھی۔
" وہ کہاں گیا؟" اس کی کرلاہٹ میں اژدھوں سے زیادہ درد کی پھنکار
تھی۔
اف یہ
تھی محبت ... پر یہ محبت تھی یا کسی گناہ کی
سزا ،جرم کا بدلہ،انتقام کی آگ میں جھلستے
کسی جذبے کا آخری ہربہ ... یا ،آخر کیا تھا وہ سب کچھ ؟؟
سوال اٹھتے تھے اور دھڑام سے گر کر بے دم ہو جاتے تھے۔
اور ایک سال تین ماہ بعد
بستر پہ گرا وجود .....
ہاں
پچھلے ایک سال اور تین ماہ سے بستر پہ ،نیم مردہ وجود ، محبت کی کڑواہٹ کے میٹھے ذائقے
کا ہر لمحہ زہر پیتا وجود ..... اٹھ بیٹھا......
" سرمئی شام کے پردے بکھر گئے تھے۔
" وہ لان میں کھلتی کھڑکی میں کھڑی تھی۔
اور اس کے عقب میں وہ بے جان ہوتا وجود دراز تھا۔بس سانسیں کہتی تھیں کہ وہ زندہ ہے اور .....اور ظاہری صورت کہتی تھی
وہ مردہ اور ناکارہ ہے ۔
" وہ پچھلے تین گھنٹوں سے اس کھڑکی میں کھڑی باہر کی جانب دیکھ رہی تھی۔
اچانک
اس کے پیچھے بیڈ کی سلوٹوں پہ پڑے ،سلوٹ زدہ وجود میں جنبش ہوئی ۔
وہ پلٹی اور دوڑ کر اس کے نزدیک گئی۔اس کا سانس روانی سے چل رہا تھا۔وہ اس کے چہرے پہ جھکی کمرے میں اس کے
سوا اور کوئی نہیں تھا۔
" نوری۔" اسے آواز دی گئی۔
" نوری آنکھیں کھولو۔" آواز پھر اس کے کانوں میں پڑی۔گویا پگھلا ہوا
سیسہ ،
" نوری میں نگہت۔" اور آنکھیں مکمل بیدار ... پھر پھیل گئیں،تحیر سے ،خوف سے ،ہراس سے ،اور اور
رقابت سے ،ہاں نفرت سے بھی .۔۔
وہ پاکستان میں تھی۔نیم بے جان وجود کے چہرے پہ سجی دو آنکھوں
کے ڈھیلے سفید ہوتے چلےگئے۔وہ اٹھ بیٹھی۔
نگہت کی سمجھ سے بالاتر تھا کہ وہ اسے دیکھ کر ڈر کیوں جاتی
تھی۔
☆☆☆☆☆
اس کے دل کی دھڑکنیں
تھمنے لگیں۔کمرے میں سلگتے انگارے ،اور اس کا دل برابر جل رہے تھے۔
کھلی
کھڑکھی سے جھانکتا تاریک آسمان ،اسے وحشت سی ہونے لگی۔وہ دنیا کے رابطوں سے کٹ کر وہاں
بیٹھا تھا۔
وہ اٹھا اور
اپنے بریف کیس سے اپنی پرانی سم نکالی ۔
" ہیلو!اسد میں زوار بات کر رہا ہوں."اور
اسد اپنی جگہ پہ جم سا گیا۔
" زوار" اس کے منہ سے ہلکی سی سرگوشی نکلی اور وہ بھی کسی اعلان کی
طرح لانج میں بیٹھے ہر فرد کو سنائی دی تھی۔نگہت
نے چونک کر دیکھا۔
" ہیلو..... زوار بیٹا آپ پاکستان آسکتے ہو مجھے بہت ضروری بات کرنی ہے۔
" سلطان گردیزی جبڑے بھینچے کہہ رہے تھے۔اور
زوار کو کسی انہونی کی بو آنے لگی۔تبھی وہ
خاموش رہا تھا۔
" میں کسی کے سامنے نہیں جھکا مگر اب میں زوار
منصور کے سامنے جھک جاؤں گا کیونکہ مجھے اپنی بیٹی سے عزیز کچھ بھی نہیں۔ "
ہر فرد نے سلطان کے مشفق چہرے پہ درد کی لہریں دیکھیں تھیں۔
" زوار بولو تو سہی ... یار پاکستان آؤ ...
تمہارا نمبراور تم تک پہنچنے کے تمام ذریعے
تو ہم ڈیڑھ سال سے ڈھونڈ رہے ہیں ۔بہت اہم کام ہے یار ... سمجھ لو کسی کی زندگی کا
سوال ہے۔ " اسد ہکلائے لہجے میں بولا۔
"تمہاری اس کزن کا ۔" بے ساختہ زوار کی زبان پھسلی۔
" جب تمہیں پتہ ہے تو تم چپ کیوں ہو ۔" اسد وہاں سے ہٹ کر بولا۔
" کیونکہ مجھے۔ "
" آگے"۔۔
" کچھ نہیں میں آتا ہوں پاکستان پھر بتاؤں گا۔" اس نے کال کاٹ دی
اور اسد سوچ میں ڈوب گیا۔
انگارے
اس پر الٹ پڑے ۔
☆☆☆☆☆☆
اگلے ہفتے وہ آگیا تھا۔
لاؤنج
میں بیٹھا وہ خوبرو جوان اسے دیکھ کر تو نوری کا پاگل پن واقع ہی سمجھ میں آتا تھا
۔
تھری
پیس میں ملبوس وہ ساحر سچ میں اس قابل تھا کہ اسے اپنے آپ سے بڑھ کر چاہا جاتا۔
" میں جانتا ہوں انکل کہ آپ نے مجھے یہاں کیوں بلایا ہے ،لیکن پلیز پہلے
میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔" سب لاؤنج میں جمع تھے۔ سوائے نوری کے ۔
" بالکل کہو۔" عفان نےا س کا ہاتھ دبایا۔
" مجھے نگہت میں ۔۔" نگہت کی سانسیں تھمیں ۔ ہونٹوں پہ ایک ہلکی مسکراہٹ
رینگ گئی ۔نوری کی محبت یکطرفہ تھی۔اس کے رونے سے کیا ہونا تھا۔جب زواد منصور کو ہی
وہ قبول نہیں تھی .باقی سب کی بھی رنگت متغیر ہوئی۔
" نہیں، بلکہ نوری میں دلچسپی ہے ،میری آپ سے ریکویسٹ ہے پلیز۔۔
" اس کے دونوں ہاتھ باہم پیوست تھے۔
اور وہ سلطان گردیزی کے قدموں آبیٹھا تھا۔سلطان گردیزی کو
جھکنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی ۔
نگہت کے تو گمان میں بھی نہیں تھا یہ سب ...اگر اسے یہ پتہ
ہوتا کہ اس سے اس کی محبت چھن جائے گی تو وہ نوری کو زہر دےدیتی ۔مگر اس کا کیا قصور
جو اس فیصلے سے ہی بے خبر تھی۔
ابھی تو کسی نے کچھ کہا ہی نہیں اور زوار نے سرعام اس کی جانب انگلی کا اشارہ دے کر
اسے ریجیکٹ کیا تھا۔ اس کے اندر آگ کے شعلے دہک رہے تھے۔وہ اس زوار کا نام و نشان مٹا
دینا چاہتی تھی۔
☆☆☆☆☆☆
وہ
سامنے،جس کے لئیے اس نے سجدے کیئے ،دعائیں کیں ،اسے ایک پل دیکھنے کو ترستی رہی اور
آج وہ سامنے تھا۔اتنا سامنے کہ اس کی دھندلی آنکھیں اسکاایک ایک نقش دیکھ سکتی تھیں۔
وہ
ابھی تک زندہ کیسے تھی ۔اسے خوشی سے مر جانا
چاہئے تھا۔
نقاہت
سے وہ اٹھ بیٹھی۔
" کچھ جذبوں کے لئیے الفاظ نہیں ہوتے نورسحر۔ " وہ بول رہا تھا۔مجسمے
میں زبان بھی تھی ،اس کے تخیل سے نکل کر آج
وہ سراپائے مجسم اس کے سامنے تھا۔اسے کچھ کہنا چاہ رہا تھا۔
صرف وہ کمرے میں تھا۔اسے آنے کس نے دیا ... شائد اس نے بتایا
ہو کہ وہ زوار ہے ،پر وہ اسے ملنے کیوں آیا۔۔۔۔شائد نوری کے جذبات کی خبراسے گھر والوں
نے دی ہو ۔
"آپ کہاں تھے زوار .. ؟ میں نے
آپ کو کتنا ڈھونڈا ۔۔۔میرے بابا نے اپنے تمام
اثرورسوخ استعمال کیئے تھے۔مگر آپ کہیں نہیں ملے۔" مرجھائے ہوئے چہرے پہ مسکراہٹ
چھا گئی .زوار یک ٹک اسکا چہرہ دیکھ رہا تھا۔وہ پوری کی پوری محبت کے سمندر میں ڈوب
چکی تھی۔۔
وہ خود کو دنیا کا خوش قسمت ترین لڑکا تصور کر رہا تھا ۔جسے نوری نے چاہا اور
ٹوٹ کے چاہا تھا۔
" میری محبت کی وحشت نے مجھے چھپا دیا تھا
۔اور آپ کی محبت کی کشش نے مجھے ڈھونڈ نکالا... پتہ ہے نوری میں آپ کو ہر پل یاد کیا
کرتا تھا۔میں اکثر سوچتا تھا کہ مجھے خط تو نگہت نے بھیجا تھا پھر خیال کیوں کسی اور
کی طرف ہوتا ہے۔۔۔۔" اس کی نظریں نوری کے چہرے پہ نہیں ٹک رہی تھیں ،محبت کی جنونیت
یہ بھی ہے کہ محبوب کے چہرے پہ نگاہیں ٹھہر
نہیں سکتیں ۔
" ہاجرہ .... ہاجرہ ابھی آؤ میرے گھر ... دیکھو ہاجرہ مجھے زوار مل گیا...
میری دعائیں سن لیں ۔"
ہاجرہ کے دل میں سکون اتر گیا۔نوری کا ایمان بچ گیا تھا۔اللہ
پہ یقین پختہ ہوگیا تھا۔اس نے کلمہ شکر ادا کیا۔
"اللہ نے مجھے عطا کر دیا ،تم نے مجھے بتایا
تھا ناں کہ وہ (الوھاب،عطا کرنے والا) ہے۔ہاں وہ عطا کرنے والا ہے ،وہ اپنے بندوں کو
خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا ،وہ دامن لبریز کردیتا ہے۔
" وہ یوں بول رہی تھی جیسے اسے پہلی بار ایک محدود وقت کے لئیے گویائی
عطا کی گئی ہو اور وہ اپنی ہر بات مکمل کرنا چاہتی ہو۔
(
" تو تم اپنے رب کی کون کون سے نعمت کو جھٹلاؤ گے ، سورۃالرحمن) تم نے
کہا تھا ناں .... ہاں مجھے پتہ چل گیا ہے ۔" اس کا لہجہ کھنک رہا تھا۔تم تینوں
جلدی سے آجاؤ پلیز۔" اس کی باتیں ختم
نہیں ہوئیں تھیں بس خوشی سے الفاظ ہی خاموش ہونے لگے۔
" نوری شکر کے دو نوافل ضرور ادا کرنا ۔" ھاجرہ نے پیار سے اسے تلقین
کی تھی۔
" ہاں کیوں نہیں مجھے اللہ نے
زندگی لوٹا دی۔ میں شکر کیوں نہ کروں۔
" اور اس نے نوافل ادا بھی کئیے تھے۔ہاجرہ
کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔کون کہتا تھا کہ
نوری راہ ہدایت پر چلے گی۔کون کہتا تھا وہ مکمل بدل جائے گی۔
کسی
کے چاہنے سے کبھی کچھ نہیں ہوا ،نہ سوچنے سے، ہمیشہ وہی ہوتا ہے۔ جو اللہ چاہتا ہے
۔اپنا بنانے پہ آئے تو کسی کی کیا مجال کہ اسے اس راہ سے بھٹکا دے اور اندھیروں میں
گرانا چاہے تو کون ہے جو اس پر ذرا سی بھی
ایمان کی روشنی ڈال دے ۔
☆☆☆☆☆☆
تلوار چوک سے ٹرن
لیتی تین گاڑیاں جن میں گردیزی خاندان اور
نوری کی تین دوست موجود تھیں ۔ ایک شخص کی کمی تھی اور وہ تھی نگہت........
" نگہت نہیں آئی ؟" زوار نے حیرت سے ادھرادھر دیکھتے ہوئے نوری سے
پوچھا۔
" نہیں۔" اس نے یک لفظی جواب دیا۔
زوار نے لاپرواہی سے شانے جھٹکے ۔
اس کے آنے نہ آنے سے کسے فرق پڑتا تھا۔کسی کو بھی نہیں
۔
ریسٹورینٹ
کے چار ٹیبلز کے گرد بیٹھے وہ زوار اور نوری سے نکاح کی خوشی میں ٹریٹ اڑا رہے تھے۔
ہاجرہ اس کھلے ڈلے ماحول میں ان کمفرٹیبل فیل کر رہی تھی۔تبھی
وہ نوری کے پاس آئی۔
" نوری پلیز اب اجازت دو ،میں یہاں ایڈجسٹ نہیں کرپا رہی پلیز ....
" نوری نے گھور کر اسے دیکھا۔
" اسطرح تو نہیں ناں پلیز "
" نہیں نوری دراصل میں ایسے ماحول سے گھبرا جاتی ہوں کبھی پہلے واسطہ ہی
نہیں پڑا "
" او کے" آخرکار اس نے اجازت دے ہی دی ۔اور خود اٹھ کر اس کے ساتھ
پارکنگ تک آئی تھی۔
" دیکھو کتنا بڑا جھوٹ بولا تھا اس پامسٹ نے ۔" نوری نے کھلکھلا کر
ہنس کر کہا ۔
" اس نے جھوٹ نہیں بولا بس وہی سب بتایا جو اس کا علم کہتا تھا۔"
" ہاں یہ بھی ہوسکتا ہے۔ "
وہ ہاجرہ کی شکرگزار تھی۔جس نےقدم قدم اس کا ساتھ دیا تھا۔اسے
سنبھالا تھا۔ وہ چاہتی تو اپنا بدلہ لے سکتی تھی مگر نہیں لیا تھا۔
معاف کردیا تھا۔نوری نے دور تک اس کی گاڑی کو دیکھا تھا۔اور
اسے ڈھیروں دعائیں دے ڈالیں۔
☆☆☆☆☆☆☆
ایک ہفتے بعد زوار واپس امریکہ چلا گیا تھا۔اسے بزنس سنبھالنا
تھا۔نوری نے پھر سے کالج جوائن کرلیا تھا۔
" واؤ نوری " اس دن وہ کالج گئی تو ٹاپ اور سلیولیس میں ملبوس تھی۔ہاجرہ
کو دھچکہ لگا تھا۔مگر وہ خاموش رہی ۔رودابہ اور دراج نے اسے ایک عرصے بعد اس روپ میں
دیکھا۔ تو سراہے بنا نہ رہ سکیں۔
محبت
پا لینے کی خوشی نے اسے اور بھی زیادہ حسین بنا دیا تھا۔
وہ دھیرے
دھیرے واپس اپنے انداز زندگی اپنانے لگی تھی۔
ہاجرہ یاسیت میں گھر گئی۔
" نوری آؤ نماز پڑھ لیں" اس دن ہاجرہ نے کہا ۔کیونکہ نوری بے پرواہ
سی بیٹھی تھی۔
" پلیز !ہاجرہ،آج میرا موڈ نہیں ہے " اس کی بات پہ ہاجرہ کی آنکھیں
پھیل گئیں ۔وہ نماز بھی چھوڑ رہی تھی . رفتہ
رفتہ وہ دور ہٹتی جارہی تھی۔
پھر سے اسی راہ کی جانب آرہی تھی۔
اور پھر وہ مکمل طور پر اس راہ سے پلٹ آئی۔
☆☆☆☆☆
اس کا رزلٹ آیا تھا ۔ اور وہ سیکنڈ تھی۔شاندار کامیابی کی
پہلی فرصت میں اس نے زوار کو خبر دی تھی۔
" زارو .... تم آؤ ابھی او کے۔ " اس نے حکم سنا دیا تھا ۔اور زوار
ارجنٹ ٹکٹس لے کر پاکستان آگیا تھا۔نوری کی خوشی سے قیمتی کچھ بھی نہیں تھا۔نہ اس کا
وقت اور نہ اس کی جاب.....
اسے مہنگے ترین ریسٹورینٹ میں دعوت دی تھی۔
" نوری نوافل ضرور ادا کرنا۔" اس بار بھی ھاجرہ نے کہا تھا۔
" کیوں نہیں ھاجرہ ، مجھے اتنی بڑی خوشی ملی ہے۔" اس نے ھاجرہ کو
گلے سے لگاتے ہوئے کہا تھا۔
اور تین دنوں تک بھی اس نے نوافل نہیں پڑھے تھے۔
" ریسٹورینٹ کا پر فسوں ماحول ... اسٹیج پر روشنی رقص کر رہی تھی اور ان
روشنی کی لہروں کے درمیان محو رقص نوری اور زوار منصور تغلق تھے۔
" نوری !" اس کے کانوں میں آواز پڑی۔
" نوافل۔" دوسرا لفظ بھی سماعتوں سے ٹکرایا۔اور اس نے جھٹک دیا۔
خوشی کو انجوائے کیا جاتا ہے ناکہ سجدوں میں رویا جائے۔سجدے
تو تب کیئے جاتے ہیں ۔جب کچھ مانگنا ہو ،اور اب اسے سب کچھ مل گیا تھا۔زوار بھی اور
کامیابی بھی.... رقص جاری رہا تھا۔
***********
Comments
Post a Comment