Aakhri gunah by Noreen Muskan Sarwar Episode 2




ناول:    "آخری گناہ"

رائٹر:   "نورین مسکان سرور"

قسط 2


         
 مانا کہ مل کے خاک میں بے آبرو ہوا
لیکن کسی کی آنکھ کا تارا رہا ہوں میں
    " تمہارے نزدیک محبت کیا ہے؟" لڑکے نے استہزایہ سے انداز میں پوچھا۔شاید اسے لگتا تھا وہ جواب نہیں دے پائے گی۔
   "زندگی۔" وہ جھٹ سے بولی۔ اس لڑکے کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔
وہ پچھلے دو گھنٹوں سے گھر سے نکلے تھے۔
اب وہ اپنےدوستوں کو چھوڑ چکے تھے ۔بھول گئے تھے۔ اب کچھ یاد ہی نہیں رہتا تھا۔
تلوار چوک کو کراس کرتے ہوئے انہوں نے گھر جانے کی بجائے ایک بار پھر ٹرن لیا ۔
لڑکی نے نا سمجھی سے اسے دیکھا۔
   

" آئس کریم؟" لڑکا مسکرایا۔
اس محبت کا یہ انجام تو ان دونوں نے بھی کبھی نہیں سوچا تھا۔
   " جب میں نے کہا تھا تب۔" لڑکی نے غصے سے کہا۔
   " اوہ !!! تب .... تب تو میرا موڈ نہیں تھا۔"جلایا۔
   " تو اب میرا نہیں ہے۔ " اور وہ جل گئی ۔
    "تم لڑکیوں کے اتنے نخرے کیوں ہوتے ہیں ؟ ؟
    " اور تم لڑکے ....؟" محض ایک سیکنڈ لگا تھا۔اسے آگ بگولا ہونے میں ۔لڑکے نے بظاہر سرد آہ بھرتے ہوئے ۔باہر کی جانب دیکھا اور دوسری طرف منہ کرتے ہی مسکرا دیا۔اس لڑکی کو ستانے کا بھی اپنا ہی مزہ تھا۔
   " خیر سے آج برش کر آئے ہو۔" اس کی چوری پکڑ کر  وہ جل بھن کر بولی۔
   " ہیں...... ہاں۔ " اچانک وار تھا وہ ڈگمگا گیا۔" ہر روز کرتا ہوں سمجھی۔" بہت دیر لگا دی اس نے اپنا دفاع کرنے میں ۔
   وہ تلوار چوک میں تلواروں کے گرد زیادہ گھومتے تھے۔
    " زیادہ زبان مت چلاؤ،ہتھیار میرے پاس ہی ہے ۔" وہ اس کی آنکھوں جھانک کر کہتا تھا۔
   " تم بھی بچ کر رہو ورنہ.." اسے ڈرنا نہیں آتا تھا۔دوبدو کہتی اور پھر وہ دونوں کھلکھلا کرہنس دیتے۔
    " کہاں گئے وہ سب دن  .....کہاں ہو تم....... واپس آجاؤ پلیز۔  " وہ اچانک ہال میں لوٹ آئی ۔وہ کہیں دور دور تک بھی نہیں تھا۔ بے ساختہ وہ رو دی ۔
یہ خیال اسے جینے ہی نہیں دیتے تھے۔
اس نے محبت کا دعویٰ کیا تھا۔پھر کیوں مکر گیا.کیوں چلا گیا۔اسے ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔ یہ بری بات ہے.......
اسے چاہنے کا دعوےدار کیا جانے کہ جسے کبھی وہ چاہتا تھا ۔آج اس لڑکی پر زمانہ ہنستا تھا۔
لوگ اسے پاگل کہتے تھے ۔.........
             ☆☆☆☆☆  
        رات کٹتی رہی،چاند ڈھلتا رہا
        کوئی بے چین کروٹ بدلتا رہا
رات بھر چاندنی گنگناتی رہی
رات بھر کوئی تنہا سسکتا رہا
       آس  و امید کی شمع روشن رہی
       گھر کی دہلیز       کوئی تکتا رہا  
( شاعر: نامعلوم) 
            ☆☆☆☆☆
وہ کالج سے  واپس گھر  آئی تو اسے دیکھ کے ممی پریشان ہوگئیں۔وہ دن بدن نڈھال ہوتی جا رہی تھی۔
    " کیا ہوا؟ طبیعت تو ٹھیک ہے آپ کی بیٹا؟" انہوں نے تشویش ناک لہجے میں پوچھا۔
وہ سامنے مجرموں کی طرح سر جھکائے کھڑی تھی۔گردیزی خاندان کا دستور تھا کہ انہیں ہر آزای بخشی جاتی تھی مگر بڑوں کے سامنے کوئی سر نہیں اٹھاتا تھا ۔وہ اپنےگھر کے بڑے ہوں یا کوئی راہگیر .....ان پر احترام لازم تھا۔
    " کچھ نہیں ممی۔ " اسکی لرزتی پلکوں کے پیچھےنمی تھی ۔کئی دن کی سلگتی آگ نے  اسے جھلسا دیا تھا ۔اور حیرت تو اس بات کی تھی کہ اسے خود بھی اس وقت خبر ہوئی ،جب وہ پور پور خاکستر ہو چکی تھی۔
    " تو یہ حالت کیسی ہوئی  پڑی ہے۔ "ان کی فکر مندی کسی صورت جاتی ہی نہ تھی۔
    " ہاہ ہ ہ۔۔۔۔ ممی آپ بھی ناں بس  ذرا سی بات پہ پریشان ہو جاتی ہیں۔  (مسکرانے کی کامیاب کوشش ) .... میں تو بالکل ٹھیک ہوں بس آج بہت زیادہ پڑھا تو ......"" زبان نے ساتھ چھوڑا، الفاظ نے بریک لی،ضمیر بیدار ہوا ۔" دھت جھوٹ اور اپنی ممی سے ،سب سے زیادہ مہربان ہستی سے....." اسے ندامت ہوئی۔خود پہ غصہ آیا ۔
   " میں چینج کر لوں۔ " اس نے وہاں سے نکلنا چاہا۔
   " کر لو چینج ،میں کھانا لگاتی ہوں " ممی نے اجازت دی۔ملازموں کی فوج کو آواز نہیں دی ۔کیونکہ اپنی بیٹی کے لیئے کھانا لگانا ان کا کام تھا ملازموں کا نہیں ۔
   " وہ .....ممی جان آج .."کئی دنوں سے  اس کی حرکتیں بہت عجیب سی تھیں۔ممی غور کر رہی تھیں۔ مگر چپ تھیں ۔
    " وہ کیا ؟" بھنویں چڑھاتے ہوئے پوچھا۔
   " میں کھانا کھا کے آئی ہوں کالج سے  ،اس لیئے بھوک نہیں ہے۔ "
   " تو پھر اتنی سی بات بتاتے ہوئے  گھبرانے کی کیا ضرورت ہے ۔" بے وقوف تھی وہ جسے راز چھپانے بھی  نہیں آتے تھے۔ ممی الجھ گئیں۔ اور الجھا وہ خود رہی تھی۔
   " تھک گئی ہوں، سونا ہے مجھے "۔
   " اوکے جاؤ۔" وہ  فوراً اپنے روم کی جانب دوڑی ۔
   کمرے میں آ کے اس نے کچھ سکون کا سانس  لیا۔
   " اف کون جانے کہ میں کس قیامت سے گزر رہی ہوں ۔کیا ہے یہ محبت کیا سے کیا بنا دیتی ہے۔ کھوکھلے بنجر   ،جھوٹے،بےاعتبار ،کہیں کانہیں چھوڑتی اورجب محبت ہو بھی یکطرفہ تو ہر عذاب سے بڑا عذاب ہوتی ہے ۔" گرم سیال اس کی گود میں ٹپک رہا تھا۔کسےخبرکہ بھوک تو اسی دن اڑ گئی تھی۔ جس دن اس پر انکشاف ہوا تھا۔ بلکہ اس سے بھی پہلے ایک انجانے درد سے ہی۔  
"تمہیں محبت ہوگی .... پر  ملے گی نہیں۔ " اس کی سماعتوں میں پامسٹ کی آواز کی باز گشت تھی۔اور وہ بازگشت اکثر ہی ہوتی تھی۔ وہ آواز کہیں چلی کیوں نہیں جاتی ،مر کیوں نہیں جاتی،آواز کی طاقت ختم کیوں نہیں ہوتی۔ لیکن آواز  نہیں مرتی بلکہ مار دیتی ہے۔اور اس کے  مدائن کی وادی میں کھڑے پہاڑ گواہ ہیں کہ تقریبا ًچھ ہزار سال پہلے وہاں ایک طاقتور قوم آباد تھی۔  قوم ثمود ،جس کی طاقت میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔اس قوم کی تباہی کی وجہ بھی ایک آواز تھی ،چیخ نماآواز ... جس سے ان کے کلیجے پھٹ گئے ۔ پہاڑوں میں دراڑیں آج بھی موجود ہیں۔مقامی لوگ کہتے ہیں وہ بھی اسی آواز کی وجہ سے ہیں۔  
" ایسا نہیں ہو سکتا،وہ میرا ہے بس۔" اس نے گھبرا کر خود ہی نفی کی ، اس کی دائیں بائیں ہلتی گردن  میں ، زنجیروں میں قید قیدیوں ،جیسی بے بسی تھی۔ رات دھیرے دھیرے بیت رہی تھی۔اور اس کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔ نہ ملنے کا خوف اس کے اعصاب پہ بری طرح حاوی تھا۔
اس کی بار بار بھیگتی آنکھیں ،اسے معصوم بنا رہی تھیں ۔
   " ہاجرہ کہتی ہے نماز پڑھ کے دعا کرو اللہ بہتر کرے گا"۔نمکین قطرے اس کے عارض پہ لڑھک گئے ۔
 "مجھےنماز نہیں پڑھنی آتی ،نہیں آتی۔" جھنجلا کر اس نے ہاتھ پاؤں مارے ،بے بسی کی انتہا تھی۔ 
اس نے ٹائم دیکھا ،  am 2:23 کا وقت تھا۔۔دنیا سو رہی تھی تو...
 " ہاجرہ بھی تو ابھی سو رہی ہو گی ۔"
موبائل ہاتھ میں پکڑے اس نے سوچا ،مگر پھر بھی اس کا نمبر ڈائل کر دیا۔ بے کلی چین نہیں لینے دے رہی تھی۔
   " یہ میرا نمبر ہے نوری، آپ کو کبھی بھی میری مدد کی ضرورت ہو تو بلا جھجک کال کرنا ،میں آپ کی ہیلپ کرنا اپنی خوش بختی سمجھوں گی۔" اس نے کتنے پیار سے کہا تھا۔نفرتوں کا نعم البدل سے وہ اسطرح  نوازتی تھی ۔تو محبتیں کس طرح نبھاتی ہوگی۔
بیل جا رہی تھی ۔آپریٹر نے جواب موصول نہ ہونے کا پیغام دیا ۔اسے مایوسی ہوئی ۔چند منٹ بعد اس نے پھر نمبر ڈائل کیا ۔لیکن دوبارہ بھی کسی نے رسیو نہیں کیا۔
    " کہاں ہو ہاجرہ ...." وہ سر دونوں ہاتھوں میں گراتے ہوئے  چیخی۔
چند منٹ ہی گزرے تھے کہ اس کے سیل فون نے بیپ دی ۔سکرین پہ " Hajrah calling" کے الفاظ جگمگا رہے تھے۔لمحے کے ہزارویں حصے میں اس نے کال اٹھائی۔
   "  ہیلو ہاجرہ "!
   "  سوری میں نماز پڑھ رہی تھی ،اسی لیئے آپ کی کال پک نہیں کر سکی۔"
   " کوئی بات نہیں ۔" اس نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا ۔
"کیسی ہیں آپ؟ "
  " ٹھیک ہوں ۔" وہ ایک بار پھر رو دی۔
  " خیریت تو ہے ناں؟" ہاجرہ نے تشویش ناک لہجے میں پوچھا۔ یہ چند دن  اس لڑکی پر کس قدر عذاب بن کر گزر رہے تھے۔
 " ہاجرہ ..... کیا اللہ نماز کے بنا دعائیں نہیں سنتا."  چند ثانیے وہ اس کی بات پہ خاموش رہی۔اب وہ اسے نادان کہتی ،نا سمجھ یا پھر سارا الزام  اس کی آزاد خیال ماں کو دے دیتی ۔ جس نے اسے کچھ بتایا ہی ناں تھا۔کسے پکڑتی کہ اس تباہی کا ذمہ دار کون ہے ،انگریزوں کی اندھی تہذیب ،اس تہذیب کو اپنانے والے یا دولت کی ریل پیل میں سویا  ہوا ضمیر .......
   " اللہ بہت رحیم ہے نوری،اللہ اپنے بندوں سے بہت پیار کرتا ہے ۔دعائیں بھی سنتا ہے ،آہیں بھی سنتا ہے  مگر نماز میں انسان اللہ کے بہت قریب ہو جاتا ہے ،اللہ اپنے نمازی بندے پہ فخر کرتے ہیں،اور اس کی کوئی بھی دعا رائیگاں نہیں جاتی۔"    وہ خاموشی سے سنتی رہی۔
   " نوری! سن رہی ہیں آپ؟ "
   " جی میں سن رہی ہوں ہاجرہ۔ "اس کی آواز میں نڈھال پن تھا۔
   " ایسا نہیں ہوگا ناں ہاجرہ، جو پامسٹ نے کہا "؟
    " دیکھو نوری پامسٹ اپنے علم سے ہو سکتا ہے ٹھیک بتاتا ہو ، یعنی جو اس کا علم کہتا ہے۔مگر ہم اہل اسلام ہیں ۔ہمیں ستاروں کے علم پہ یقین نہیں کرنا چاہئے ۔ کیونکہ تقدیر  اللہ کا راز ہے ۔اور اللہ کے زار میں دخل اندازی کا نام ہے۔علم آسٹرولوجی ،سو ان پہ یقین اللہ کو پسند نہیں۔ "
    " پھر لوگ کیوں جاتے ہیں ان کے پاس؟ " وہ الجھ رہی تھی۔
   " ان کے پاس وہ لوگ جاتے ہیں جن کا اللہ پہ ایمان ناقص ہوتا ہے اور جو اللہ سے خوفزدہ نہیں ہوتے،  تبھی انہیں  علم غیب میں دخل اندازی کی پرواہ نہیں ہوتی۔باقی کی تفصیل میں آپ کو کالج میں بتاؤں گی ان شاءاللہ، اب نماز فجر کا وقت ہو چلا ہے ،نماز کی ضرور کوشش کرنا "۔
    " جی۔ " اس نے دبے دبے سے انداز میں کہا ۔
     " اللہ حافظ"۔
     " اللہ حافظ" ۔
      نماز فجر کی آواز پہ اس نے بوجھل آنکھیں موندے ہوئے، اذان کا ایک ایک لفظ اپنی سماعتوں میں اتارکر سمجھنے کی کوشش  کی مگر سب بے سود رہا ۔
    کبھی بچپن میں قرآن پڑھا ہو تو پتہ نہیں ورنہ کبھی اپنی ہوش میں اس نے نہ قرآن پڑھااور نہ ہی نماز، تو اب کیسے آتی بھلا۔
اپنے گھر میں کسی کو نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا۔بس اس کے  ممی بابا عیدین کی نماز پڑھنے جاتے تھے۔
باقی وہ بھی کبھی نہیں پڑھتے تھے۔ اسے کالج کا کل والا منظر یاد آیا۔
    " مجھے نماز پڑھنی نہیں آتی ہاجرہ......." پورا کالج ایسے چونکا تھا ۔جیسے بھونچال آگیا ہو۔اسے پہلی بار اس بات پہ شرمندگی محسوس ہوئی تھی۔
   " اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے کام آسان کر دیتا ہے۔" (سورۃالتین:4)
رات کی تاریکی دھیرے دھیرے سفید چادر اوڑھنے لگی تھی۔اس نے ساری رات آنکھوں میں گزار دی۔ ابھی بھی اس کی آنکھیں نیند سے بے پرواہ تھی ۔ ہاں بوجھل ضرور تھیں۔ونڈو کے کرٹنز کھینچ کر اس نے لان میں جھانک کر  دیکھا تھا۔
   ابھی تک تو گھر کے ملازم تک سو رہے تھے ۔گارڈ دروازے پہ مستعد تھا۔
اسے لگا اس کے سوا ساری دنیا ابھی بھی محو استراحت ہے۔
    " ہاں ہاجرہ کہتی ہے .... ہاجرہ نے سنائی تھی مجھےیہ آیت ...مگر اس میں .... " اس نے لب باہم بھینچے ۔ سوچ ابھری،الفاظ زبان تک آئے ،اسے ایک آیت یاد آئی ،جو اسے ہاجرہ نے کل سنائی تھی۔
    " عبیدہ کہتی ہے میں کند ذہن ہوں .... پھر یہ آیت کیوں یادرہی ...کیوں رہ گئی." الجھنا تو شائد اس کی عادت تھی یا فطرت .....
    " میں آپ سے ڈرتی ہوں ، آپ میرا کام آسان کر دیں ،آپ نے وعدہ کیا ہے  کہ جو آپ سے ڈرتا ہے آپ اس کے کام آسان کر دیتے ہیں ،اور آپ وعدہ نہیں توڑتے کیونکہ آپ اللہ ہیں ." عجیب دوراہا تھا۔ طغیانیاں سی نظر آتی تھیں ۔مگر کنارہ نظر کہیں دکھائی نہیں دیتا تھا۔
ذہن بار بار پامسٹ پہ جا اٹکتا تھا ۔مگر اس وقت  ،وہ واحد وقت تھا جب اسے لگا کہ وہ جو مانگے گی اسے مل جائے گا ۔کیونکہ وہ دعاؤں سے لکیروں کو مات دے دے گی۔ پامسٹ کو جھٹلا دے گی ۔ وہ اللہ سے ڈرتی ہے اللہ اس کا کام آسان کر دے گا۔اور اسے یہ بھی گمان پہلی بار ہوا کہ وہ مسلم ہے ،جو کبھی نہیں سوچا تھا۔سو اسے منزل مل جائے گی۔ انہی سوچوں کے گرداب میں گھِری وہ واش روم تک گئی ۔وضو کیا اور مصلہ بچھا کر کھڑی ہو گئی۔سورۃ الفاتحہ پر اس کا ضبط ٹوٹ گیا۔قیام کی حالت میں آنسو بہہ نکلے ۔ٹوٹی پوٹی نماز میں آنسو پائیدار تھے۔ سورج نکل رہا تھا ۔اور وہ دو متورم آنکھیں مصلحے پہ ٹکیں تھیں۔دوزانوں بیٹھے وہ کہہ رہی تھی۔ 
   " میں ڈرتی ہوں آپ سے، میرا یقین کریں اللہ۔ " پاگل لڑکی ......
                 ☆☆☆☆
    " ویسے ایک بات بتاؤ ،کہنے کو تم بڑی بولڈ ہو ،ٹاپ پہنے ہوئے تمہاری رعونت ختم نہیں ہوتی اور ایک لڑکے کو میرا پیغام دیتے ہوئے تم روایتی دبو سی لڑکی بن گئی تھی۔"   وہ چند قدم ہی چلی تھی ۔جب کچن سے نگہت نے اس پہ چوٹ کی تھی۔
    " یہ تو خیر میرا مسئلہ ہے کم دبو تو تم بھی نہیں ہو ،کینیڈامیں رہ کر بھی ....." اس نے مسکرا کے کہا تھا۔
     " واقعی ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔" نگہت نے غلطی تسلیم کی تھی۔
    " کیونکہ زوار سے سامنا  ہی زندگی میں پہلی بار ہوا ہے۔اور بارعب شخصیت سے سامنا ہو تو....."
وہ مسکرائی۔" اب تمہیں کیا بتاؤں اسے دیکھ کر تو  میری بھی سٹی گم ہوگئی۔"اس نے دل میں سوچا ۔عجیب سی سوچ تھی اور عجیب سی حالت تھی۔اسے نگہت کی زبانی زوار نامہ بہت برا لگ رہا تھا۔مگر وہ اسے کہہ نہیں پا رہی تھی۔
   " ایسا اپنی فیملی میں نہیں ہوتا ،یوں چھپ کے کسی کو محبت کا پیغام دینا ،جانے ہم نے ایسا کیوں کیا ۔میں گلٹی فیل کر رہی ہوں اب۔ " نگہت نان سٹاپ بول رہی تھی۔اسے واقعی افسوس تھا۔وہ امیر خاندان سے بی لانگ کرتی تھیں۔وہاں محبت اور پسند کا اظہار سر عام کرنا معیوب نہیں سمجھا جاتا تھا۔مگر نگہت کی اس  حرکت کے پیچھے اگر کسی کا ہاتھ تھا تو وہ زوار منصور کی بارعب شخصیت تھی۔ گھر کے کسی بھی فرد  کو باخبر کرنے سے پہلے اسے (زوار منصور کو)  بتانا ضروری تھا۔مبادا کہ وہ سب کے سامنے اپنی سپاٹ عادت کے مطابق اس کی بےعزتی کر کے چلتا بنے ،اور چلتا تو اب بھی بنا تھا۔کوئی جوب دیئے بنا ہی.....ہاں ایک مسکراہٹ ضرور دی تھی۔مگر وہ ایک مسکراہٹ کو جواب نہیں مان سکتی تھی۔
 " چلو خیر کبھی تو جواب آئے گا ہی۔" اس کے تبسم میں گہرائی تھی۔
   " Sure "
نوری کی مسکراہٹ میں ایک انجانے درد کی جھلک ایک بار پھر ابھری تھی۔ جس تک نگہت کی کم فہم نظر نہیں جا سکی تھی۔اور جا بھی نہیں سکتی تھی۔
   " آج میرا ارادہ گیم  کا ہے،کیا خیال ہے؟ " نوری نے ایک نیا پلان اس کے سامنے رکھا۔یہ زوار نامہ سے بچنے کا ،خصوصاً اس کی زبانی ،اسے کوئی اور بہتر طریقہ نہیں ملا تھا۔ 
 "oh yes!  میں تو خود بور ہو گئی ہوں یہاں پہ ،گڈ آئیڈیا یار  ،بیڈ مینٹن ۔کیوں؟" اس نے پر جوش ہو کر کہا۔
  " اوکے"۔
وہ ریکٹ لیئے لان میں چلی آئیں ۔ چند ہی منٹ لگے ہونگے باقی کزنز کو بھی وہاں آنے میں ،سلیو لیس ،ٹاپ ،ٹی شرٹش اور اسی طرح کے بےباکانہ لباس میں ملبوس وہ امیر زادیاں کہیں سے بھی  شریف نہیں دکھتی تھیں ۔اور جب ریکٹ لیئے   دایاں بازواٹھائے اچھلتیں تو شارٹ سی شرٹ ہاف کمر تک اٹھ جاتی۔ اورحیا کا دامن چاک ہو جاتا تھا۔  
کل انہیں بھی اپنے اپنے گھر چلے جانا تھا۔
آج بھی رکنے کی وجہ یہ تھی کہ آج شام کا کھانا عرشیہ (مسز عفان) تیار کر رہی تھی۔ اور وہ ابھی سے ہی کچن میں موجود تھی۔لڑکیاں گاہے بگاہے جھانک کرہیلو ہائے کر جاتی تھیں۔اور اب تو ویسے ہی سکوائش میں مصروف تھیں وہ سب۔
                   ☆☆☆☆ 
اس نے کارڈ چاک کیا تھا۔ جو سکاچ ٹیپ سے جوڑا گیا تھا۔ اسے دیکھتے ہی وہ دھک سے رہ گیا۔
   " Hi mr ,Zawar mansoor ! I wanna say  it to you .. that i am feeling in love to you.....I love you
   I love you
   I love you "  
    " وہاٹ " اس کے ہاتھ میں چھوٹا سا پنک کلر کا کارڈ ،مٹھی میں بھنچنے لگا ،ذرا مڑا ،کچھ اور ،پھر اس سے بھی زیادہ ،سلوٹوں   سے مزین ،الفاظ کا گلہ گھٹنے لگا۔  گردن ٹیڑھی ہوئی،لفظوں نے چیخ کر امان مانگی،ورق نے دہاٰی دی ۔مگر وہ طیش میں تھا۔وہ محبتوں کے اظہار مانگنے نہیں آیا تھا بس شادی attaned   کرنے آیا تھا۔ اور یہاں خصوصا ًاس  لڑکی سے سامنا سراسر کوفت کا انعام تھا۔آج تک کسی لڑکی کی یہ ہمت نہیں ہوئی کہ یوں منہ اٹھا کے اسے پرپوز کردے....... تو اس نے ایسا کس طرح کرلیا ۔کیا وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کوئی عام سا لڑکا نہیں تھا۔اس کی عادت نہیں تھی کہ کسی بھی لڑکی کی ایک مسکراہٹ پہ فدا ہوجاتا..  مم مگر ..... اس کی سوچ کی پرواز نیچے ہوئی اور پھر زمین پہ آگئی۔۔۔۔ مٹھی سختی سے بند ہوئی اور ...اور صفحہ کی آغوش میں الفاظ نے آخری صدا کے بعد خاموشی اختیار کر لی ۔ 
   " مجھے اس دنیا میں صرف ایک چہرہ اچھا لگتا ہے ۔" اس کی آنکھوں  میں چہرے  کی شبیہ ابھری ۔آنکھیں چمکنے لگی ،ایسی چمک جو کسی کسی خاص چہرے کے لیئے ہوتی ہے،ابھی سوچے ہوئے الفاظ سے وہ مکر گیا۔
" مگر محبت کسی سے نہیں۔" یہ منافقت تھی ۔" لیکن مجھے محبت کا مفہوم آتا ہے شائد  پر آپ تو  شائد محبت کا مطلب تک نہیں جانتیں تبھی .....۔محبت کشکول میں نہیں ملتی مس نگہت ، محبت آسمان سے اترتی ہے۔  دلوں میں گھر کرتی ہے اور   روحوں کو ایک کر دیتی ہے ۔" وہ ایک ایک لفظ چبا رہا تھا۔اگر اس وقت اس کے سامنے وہ لڑکی ہوتی تو وہ اس کے ٹکڑے کر دیتا۔
   " اف مجھے ایک لمحہ بھی نہیں ٹھہرنا یہاں مزید۔ " اس کے جبڑے بھنچے ہوئے تھے۔ اگلے دن وہ وہاں سے نکلتےہوئے  اتنا خوش تھا جیسے برسوں بعد جیل سے نکلا ہو ۔
    "  Entertain میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو سوری یار ۔" عفان نے اس کے گلے لگتے ہوئے کہا۔
   " کیسی باتیں کر رہے ہو یار،سب بہت اچھا لگا مجھے( بس آپ کی اس کزن سے عاجز ہوں میں ساری انجوئے منٹ کا بیڑا غرق کر دیا)۔" وہ مسکرا کے بولا۔ جو کہنا چاہتا تھا وہی چھپا گیا۔ لاؤنج میں سب موجود تھے۔ اس نے ایک الوداعی نظر سب کی جانب اٹھائی۔وہ سامنے کھڑی اسے ہی اداس نظروں سے دیکھ رہی تھی۔
زوار نے نفرت سے پھر نظر جھکا لی ۔
   " Good bye"
اس کی آنکھوں میں سوال تھا۔مجھے جواب تو دے دو۔
   " Good bye"
پھیکا سا مسکرا کے اس نے کہا تھا۔کتنا مشکل ہوتا ہے ناں جب ہم مسکرانا نہ چاہیں اور پھر بھی مسکرانا ہماری مجبوری ہو۔
اس کی مسکراہٹ سے نگہت کو حوصلہ ملا تھا۔نادان .......
لیکن چند پل کا صرف ...اور پھر وسوسوں اور اندیشوں کے اژدھے پھنکارنے لگے۔جانے اگلے پل کیا ہو ، اس کی مسکراہٹ اسکی عادت ہو  یا پھر رسمی مسکراہٹ ،الوداعی مسکراہٹ ،ویسے تو اس نے کبھی سلام تک لینا گوارا نہیں کیا تھا۔اتنے دن  وہاں رہا تھا۔ مگر گیسٹ روم تک ہی محدود رہا، کبھی کبھار بااصرار لاؤنج تک آجاتا تھا بس، اور وہاں بھی یوں سر جھکائے بیٹھتا  جیسے گردن بے جان ہو ۔امریکہ میں رہ کے وہ اتنا سلجھا ہوا کیوں تھا ۔ورنہ لڑکے  تو بہت چھچورے ہوتے ہیں۔یہ تو پاکستان کے رہائشیوں کاحال ہے۔ اور اگر بدقسمتی سے کوئی کسی یورپی ملک کی خاک چھان آئے تو بس پھر تو الامان ۔سو.... سچ بھی یہ تھا کہ اس امیر زادی پہ اس کی یہی شریفانہ اور مغرورانہ عادت حملہ آور ہوئی تھی۔
                ☆☆☆☆
میرے دل میں آتش عشق ہے
میری آگ تجھ کو جلا نہ دے
   برف کے گرتے گالے اور ان کی بارش میں بھیگتے ،لطف اندوز ہوتے لوگ....اور لوگوں  نے سردی کی انتہا کی وجہ سے کوٹ کے کالر گردن تک اٹھا رکھے تھے۔مگر وہ یونہی بے پرواہ سا بیٹھا تھا۔ جب اندر آگ کے شعلے بھڑکتے ہوں تو بھلا باہر کی ٹھنڈ کیا کر سکتی ہے۔
ہتھیلی پھیلا کر برف ہاتھ پر گرنےدی ۔چند منٹ بعد اسکےہاتھ پر چھوٹی سی  سفید پہاڑی بن گئی ۔ اسے دیکھ کر وہ مسکرایا۔
   " ایسی ہی ہے وہ۔۔۔برف کی طرح ...." مسکرا کے اس نے اوپر کو نگاہ اٹھائی ،ٹھنڈی برف اس کے منہ پہ گرنے لگی۔اس کی مسکراہٹ گہری ہوئی۔کتنا عجیب سا دن تھا وہ کتنا عجیب... جب اس کی نظروں میں وہ آئی تھی۔
وہ سمجھ نہ پایا تھا کہ وہ واقع ہی خوبصورت تھی یا   پھر اسے ہی لگی تھی۔وقت کے ساتھ اس نے اسے سوچا تھااور بے حد سوچا تھا۔لیکن یہ انکشاف بہت دیر سے ہوا تھاکہ اسے اس سے محبت تھی۔
   " Hi! mt Zawaar Mansoor, I wanna say it to you ...... that .... I am feeling in love to you..... I love you ....." 
  وہ استہزائیہ سا مسکرا دیا ۔ہاں محبت کا اظہار ایسے ہی کیا جاتا ہے۔ اور کیا نہیں جاتا یہ تو ہو جاتا ہے۔ 
وہ محبت کا انکاری تھامگر اب....... اب وہ محبت کا پجاری بن چکا تھا۔
وقت گزرتے ہوئے، شام  میں بدلنے لگا۔ سورج نہیں تھا۔مگر گھڑی وقت بتا رہی تھی۔
اس نے اپنے کوٹ پہ گری برف جھاڑ دی اور اٹھ کھڑا ہوا.... نیویارک کی ہنگامہ خیزیاں کبھی ختم نہیں ہوتی تھیں۔اب بھی پورا شہر مصروف تھا۔
    " مجھے پاکستان جانا چاہیئے بس ایک بار ،اسے دیکھنے،اسے بتانے،اس کے لیئے،اس کی خاطر۔ " حسین سراپا اس کی نگاہوں میں سما گیا تھا۔اس وقت بھی وہ جیسے سامنے کھڑی تھی۔
  " پتہ نہیں اسے یقین آئے یا ناں؟" وسوے تو ہمسفر ہوتے ہیں ناں۔ اسے  روبرو دیکھے بھی تو ایک عرصہ ہو چلا تھا۔اس کی تصاویر کا ایک ڈھیر تھااسکے پاس، ہر وہ تصویر جو اس کے ٹیوٹر  پہ ملتی ،پھر ایسا ہوا تھا کہ اس نے ٹیوٹر کا استعمال ترک کردیا تھا۔ وہ ہر روز تلاش کرتا مگر اس کی کوئی تصویر نہیں ملتی تھی جانے کیا ہواتھا ۔ کہاں مصروف تھی وہ،کدھر غائب ہو گئی تھی۔اور تب سے ہی وہ پاکستان جانے کاسوچ رہا تھا۔مگر اس کے اعتبار نہ کرنے کا ڈر اسے روک دیتا تھا۔
جانے وہ کب جا پائے گا ،جانے کب اس سے سامنا ہو سکے گا ،جانے کب وسوسہ اس کی جان چھوڑے گا۔اور کب وہ فلاح پائے گا۔
                 ☆☆☆☆
  " بے شک ہم نے انسان کو احسن طریقے سے بنایا ہے۔(سورۃالتین:4)
   اس کی سوجی ہوئی آنکھیں ،اسے مزید غمزدہ بنا رہی تھیں ۔وہ پارک میں بیٹھی تھی۔
  بحریہ ٹاؤن کے آسمان پہ ستارے جگمگا رہے تھے ۔ اور پورا بحریہ ٹاؤن روشنیوں میں نہایا ہوا تھا۔اس نے نگاہ اٹھا کر سامنے چمکتے  الافلاح ٹاور کی بدلتی روشنیوں کو دیکھ کر ہاتھ مسلے ،کچھ کھو کر مسلنے کے انداز میں ، مگر اس نے تو ابھی پایا ہی نہیں تھا کھویا کیسے ،آسمان پر جگمگاتے تاروں میں اسے اپناستار نظر نہیں آیا تھا۔
    " میرے نصیب کا ستارا کہاں ہے؟"  اسے محبت نے ستاروں کی پرستار بنا دیا تھا۔جس نے کبھی یقین نہیں کیا تھا ۔وہ اب نا چاہ کر بھی یقین کرنے لگی تھی۔
    " ہاجرہ کہتی ہے ستاروں کا علم من گھڑت باتیں ہیں۔ " خیالات نے اسے چونکا دیا۔رخسار رگڑتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ اب اسے رونے کی وجہ نہیں چاہیئے تھی۔اب تو آنسو اس کے  وفادار تھے ۔ ہر وقت ساتھ رہتے تھے۔
     " یہ کیا ہو گیا ہے مجھے،کہاں گیا رعب ،کہاں گئی شہزادیوں والی شان ،میں کیا سے کیا ہو گئی ۔محبت نے مجھے کیا بنا دیا۔..." اس نے اپنا لباس دیکھا۔ پھیکے سے رنگ کی سادہ کرتا  شلوار ،گلے سے جھولتا سلوٹ زدہ دوپٹہ ،روئی آنکھیں ،خشک ہونٹ اور بکھرے بال ،وہ سراپا تباہی تھی ،خالی ہاتھ اور تہی دست لگتی تھی۔
    " وہ مجھے اب تک نہیں ملا، میں  نےایک سال اور پچیس دن سجدے کیئے ہیں ،رو کے بھی مانگا،مرادوں سے بھی مانگا ،ہر کوشش کر لی ،پر ....." اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو دیکھتے ہوئے  اس نے خود سے کہا تھا۔ اب تو پاگل لگتی تھی ۔ خود سے باتیں کرتی تھی۔  
   " کہاں ہے تو اللہ ،میری بات کیوں نہیں سنتا.... ہاجرہ کہتی ہے اللہ ،
کہ اللہ اپنے بندوں کی دعائیں سنتا ہے ،اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے .... تو مجھ سے بھی محبت کرتا ہے .... کرتا ہے ناں .... ؟" وہ آسمان کی طرف نگاہ اٹھائے رو رہی تھی بلک رہی تھی۔اور ایسے باتیں کر رہی تھی ۔جیسے اللہ سامنے نظر آرہا ہو ۔
   " تو مجھے عطا کیوں نہیں کر دیتا ........میں بھی توتیری بندی ہوں۔"
     " نورییییییییی" اس کی طرف کوئی دوڑتا آ رہا تھا اور مسلسل آوازیں بھی دے رہا تھا۔ اتنے سارے لوگ اس آواز کی سمت دیکھنے لگے۔ پتہ نہیں کون بے وقوف تھا۔
جو میجورٹی پلیسز کے مینر تک نہیں جانتا تھا۔
مہذب امراء کی بیگمات نے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے چہ مگوئیاں کی۔
بے ساختہ وہ بھی  اٹھ کھڑی ہوئی ۔ جانی پہچانی آواز ،کوئی اپنی آواز ،کسی اپنے کی،مگر اس وقت اس کے شعور و لا شعور میں اس آواز کی پہچان نہیں تھی۔ اگر اس وقت اس کے شعور میں کچھ ہوتا تو وہ ان امرء کی بکواس ہوتی. اور وہ ان کی زبان کھینچ  کر پھر انہیں بتاتی کہ وہ کوئی بے وقوف نہیں ایک بے بس بھائی ہے۔ ہاشم گردیزی.... حسین شہزادہ ..... یونیورسٹی ٹاپر.... مہذب ہی نہیں بااخلاق بھی ........  قدموں کی چاپ نزدیک ہوتی جارہی تھی۔وہ نگاہیں جمائے آنے والے کو دیکھنے لگی۔
ہاں سچ وہ تو بہت دیر کی گھر سے نکلی تھی ۔اور موبائل بھی اس کے پاس نہیں تھا۔
ہر شام وہ اس جگہ آکر بیٹھ جاتی تھی۔ آسمان کو گھورنا اس کا مشغلہ تھا۔ہر روز اسے کوئی نہ کوئی لینے آجاتا تھا۔ مگر آج بہت دیر ہو جانے کے باوجود  اسے کوئی  لینے  نہیں آیا ۔
    " تم یہاں ہو نوری ، آؤ گھر چلیں۔ " ہاشم اسے شانوں سے پکڑ کر اٹھاتے ہوئے بولا۔اس کا بھاگنے سے سانس پھول رہا تھا۔ اب نگاہیں ان دونوں پہ جمی تھیں ۔زبانیں  بے لگام تھیں۔
   " اللہ بھی نہیں سنتا۔ " وہ  دردناک انداز میں چلائی ۔درد اس کی نس نس میں سرایت کر گیا تھا۔اور اس درد میں چیختے اسے ایک عرصہ ہو گیا تھا۔
   " اللہ ضرور سنے گا نور، یوں ہمت نہیں ہارتے۔ " وہ اسے تسلی دینے لگا ۔ جانتا تھا وہ کچھ نہیں سنتی ،کچھ نہیں سمجھتی مگر پھر بھی ..... ایک کوشش ہر روز ہوتی تھی۔وہ پڑھائی چھوڑ چکی تھی۔وہ تو خود کو بھی بھول گئی۔
   " تو پھر کہاں گم ہو گیا وہ، سب اسے تلاش کر رہے ہیں ملتا کیوں نہیں ... کہاں چھپ گیا  وہ بھیا؟ " ہاشم نے بے کسی سے سرد آہ بھری ، وہ اسے کیا بتاتا کہ وہ کہاں چلا گیا، وہ خود نہیں جانتا تھا۔ تو بھلا اسے کیا بتاتا۔ محبت یوں گھروں کو تباہ کیوں کر دیتی ہے ۔
ہنستے چہروں کو ناسور  کیوں سونپ دیتی ہے۔
  " مل جائے گا ان شاءاللہ۔"  کاش اس کے پاس اپنی بے بسی بتانے کے لیئے الفاظ ہوتے تو وہ پتھروں کو رلا دیتا۔اگر اس وقت اس کے لہجے کی بےبسی میں چیختی بے یقینی کسی کو سنائی دے جاتی تو، لفظ"یقین"  مر جاتا۔
   " ممی بابا بہت پریشان ہی نوری۔ "وہ بات بدل کر بولا۔اور اس نے متورم آنکھیں اٹھا کے اپنے بھائی کو دیکھا۔
اب دنیا بدلی بدلی سی لگتی تھی ۔
                ☆☆☆☆
اسلام آباد کو وہ کل خیر باد کہہ آئی تھی۔
مگر اس کا دل بہت اداس تھا۔جانے کیا بات تھی ۔وہ جیسے کچھ بھول آئی تھی۔بہت قیمتی چیز ،بیش قیمت ،ایسی  چیز جس کا کوئی مول نہ دے پائے ۔مگر کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
  اس نے بہت سوچا تھا اس بارے مگر کچھ یاد نہ آسکا۔ اس کادل اپنی دوستوں سے ملنے کا بھی نہیں تھا۔نہ کالج جانے کی کوئی خوشی تھی۔
   " نوری کھانا کھاؤ۔۔۔کہاں گم ہو؟" وہ چاولوں کی پلیٹ اپنے سامنے رکھے بیٹھی تھی۔اور جانے کن سوچوں میں گم تھی ۔تبھی ممی نے اسے ٹوکا تھا۔
   " جج جی ممی۔" وہ فورا اپنی پلیٹ کی جانب متوجہ ہوئی ۔
   " کوئی پروبلم ہے کیا؟ "
    " نہیں تو ممی "۔
   " بیٹا جو مسئلہ ہے کھل کر بتاؤ۔" بابا نے پیار سے کہا تھا۔اس کے چہرے پہ ہوائیاں سی اڑنے لگیں ۔جس پریشانی سے وہ خود آگاہ نہیں تھی ۔تو پھر انہیں  کیا بتاتی۔
   " نہیں بابا کچھ نہیں ، عفان بھائی کی شادی کے  ہنگامے ابھی تک آنکھوں میں ہیں ۔بھلائے ہی نہیں جارہے۔ " اس نے مسکرا کر کہا تھا۔اس کی بات پر ممی بابا اور ہاشم بھائی بھی مسکرا دیئے ۔
   " ہاں بھئی وہاں تو سب سکھیاں تھیں ناں۔ " بابا نے اثبات میں  سر ہلاتے ہوئے کہا۔
  " ہاں سچ یاد آیا آج نسیم آپا کا فون تھا۔عرشیہ سے بھی بات ہوئی تھی میری۔" ممی نے بتا یا
   "اچھا کیسے ہیں وہاں پہ سب "؟
" سب ٹھیک ہیں۔میں سوچ رہی تھی عفان اور عرشیہ کو انوائٹ کر لیتے ہیں کسی دن"۔
  " ہاں ٹھیک ہے بنا لو کسی دن کا پروگرام۔"
  ممی بابا کا دھیان اس پر سے ہٹ کر اسلام آباد والوں پہ جا رکا تھا ۔اور ہاشم اپنے موبائل پہ مصروف تھا۔وہ خاموشی سے وہاں سے اٹھ آئی ۔بالکل بھی بھوک نہیں تھی۔
اسی طرح کی سچوایشن میں اسے ایک ماہ سے بھی اوپر ہو گیا تھا۔مگر وہ اپنی اداسی کی وجہ  تلاش نہیں کر پائی۔
رفتہ رفتہ وہ انجانے غم سے نڈھال سی ہوتی جا رہی تھی۔
اس دن وہ کالج سے گھر لوٹی تو کافی تھکی ہوئی سی دکھائی دے رہی تھی۔
ممی اپنے کمرے میں تھیں ۔وہ سیدھا اپنے کمرے میں جانے لگی تو قدموں کی چاپ سن کر ممی باہر آئیں ۔
   " نوری بیٹا!ادھر آؤ۔" وہ گھبرا سی گئی ۔یونہی بلا وجہ ،دل میں چور ہو جیسے۔مگر تھا تو کچھ ہے نہیں، جانے وہ کیوں خوفزدہ سی رہتی تھی۔
  " جی"۔
   " ایسے کیا دیکھ رہی ہو ،کیسی حرکتیں کرنے لگی ہو آپ نوری، ادھر آؤ ۔۔۔ نگہت کی کال ہے آؤ کب سے کہہ رہی ہے بات کرنی ہے۔ " اور نگہت کا نام  سنتے ہی اس کی رنگت پھیکی پڑی ۔گویا طوفان کا نام سن لیا۔کینیڈا کی بلا......!
   " نوری!" ممی حقیقتاً پریشان ہو گئیں۔
    " جی ممی !میں.... ؟" اس نے خود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں پوچھا جیسے وہ نگہت کو جانتی ہی نہ ہو۔
   " ارے ہاں آپ نوری  بیٹا۔"  ممی کو اس کے چہرے پہ بہت کچھ نظر آیا ۔ماں تھیں ناں ۔
   " کس کا فون ہے ممی؟" اسے جیسے سنائی ہی نہیں دیا تھا۔
   " نگہت کا ۔" ممی نے اس کا ہاتھ پکڑے اندر کی جانب لے جاتے ہوئے کہا ۔
    ممی اس کے لیئے چائے لینے چلی گیئں ۔اور وہ نگہت کو دیکھتے ہی چیخی۔ممی کچن سے دوڑیں ادھر سکرین سے جھانکتی نگہت نے بے ساختہ ہاتھ منہ پہ رکھا۔
  " کیا ہوا نوری، بولو نوری بیٹا۔" ممی اسے بانہوں میں لیتے ہوئے بولیں ۔
   " نوری۔" نگہت نے بھی اسے پکارا۔
   کچھ نہیں ممی ." وہ سنبھلتے ہوئے بولی ۔لیکن ممی پر پریشانی حملہ آور ہو چکی تھی ۔وجہ انہیں پتہ نہیں تھی۔  نگہت سے چند باتیِں کر کے وہ طبیعت خرابی کا بہانہ کر کے اپنے روم میں چلی گئی ۔
   " زوار منصور۔ " تکیے کے نیچے منہ دیئے اس نے آج پہلی بار اس کا نام پکارا تھا۔زوار منصور پہ فریفتہ نگہت اور.........." وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی ۔
    پریشانی ،درد غم انجانا کرب اور اس سب کی  .... وجہ ..... وجہ زوار منصور تغلق ،آج اس کے نام نے اس کی الجھنیں سلجھا دیں۔مطلع کھل چکا تھا ۔
وہ شخص جسے وہ کبھی بھلا نہ سکی،جس کا نام اسے نگہت کی زبانی برا لگتا تھا۔  اور خود وہ اس نام کو ادا کرنے سے ڈرتی رہی ۔وہ وہی زوار منصور تھا،اس کی پریشانی کی وجہ ۔
" تمہیں محبت ہوگی۔" پامسٹ کی اواز اسے دوسال بعد یاد آئی تھی۔اس  آواز میں چھپے اس جملے پہ وہ ہنسی تھی ،اور آج اسے اس جملے پہ رونا آیا۔
   " محبت ہوتی کیا چیز ہے۔ " وہ خود سے سوال کیئے جا رہی تھی۔
    " پتہ نہیں شائد  ،وہی جو نگہت کو زوار سے ہے اور مجھے۔" وہ رکی زبان لڑکھڑائی۔
    " مم....... مجھے نہیں کسی سے بھی ۔۔" پرزور نفی ۔
   " پھر میں اسے یاد کیوں کرتی ہوں ،مجھے نگہت کی زبانی اس کا نام دکھ کیوں دیتا ہے،اور آج مجھے کیا ہوا تھا،میں نے نگہت کو دیکھ کر ایسا ری ایکٹ کیوں کیا۔"
   " مجھے ..... "ہوا کی سر سراہٹ تھمی۔" مجھے محبت ہے،ہاں زوار منصور تغلق سے۔۔" ہوا نے  اس کی کھڑکی پہ دستک دی ۔اری نادان لڑکی محبت سے انکاری ہوجا،دل سے بغاوت کر،منکر ہوجا،مت پوجنا اس محبت کو، ورنہ برباد کر دے گی تجھے۔
   " نہیں، اب مجھے کسی کی بات نہیں سننی "

٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے

Comments