Aakhri gunah by Noreen Muskan Sarwar Episode 1


ناول:    "آخری گناہ"

رائٹر:   "نورین مسکان سرور"

قسط 1
       

ہے اور نہیں کا آئینہ،مجھ کو تھما دیا گیا
یعنی میرے وجود کو ،کھیل بنا دیا گیا
میرا سوال تھا،میں کون ہوں اور جواب میں
مجھ کو ہنسا دیا گیا ،مجھ کو رلا دیا گیا
میرے جنوں  کو بھی بہت،خواہش سیر و جستجو
مجھ کو مجھ سے ہی باندھ کر ،مجھ میں بٹھا دیا گیا
میں نے کہا زندگی ،درد دیا گیا مجھے
میں نے کہا آگہی،زہر پلا دیا گیا
خواب تھا میرا عشق بھی،خواب تھا میرا حسن بھی
خواب میں یعنی ایک اور خواب دکھا دیا گیا۔
شاعر:(نوید احمد)
☆☆☆☆☆
دو سال پہلے.............




وہ پامسٹ کے سامنے بیٹھی تھی۔اور اس کے لبوں پے کھیلتی مسکراہٹ بتاتی تھی کہ وہ اسے آزمانے آئی ہے۔اس کے عقب میں اس کی دوست رودابہ اور  دراج بیٹھیں ہونٹ بھینچے اپنی ہنسی کو روکنے کی کوشش میں ہلکان تھیں ۔
" بیٹا کیوں ہنس رہی ہو اس طرح بے ادبی ہوتی ہے۔ " ان کے ساتھ بیٹھی ایک عورت نے انہیں گھرکا تھا ۔اس وقت تو وہ خاموش ہوگئیں ۔لیکن بعد میں جو ہنسنا شروع ہوئیں تو اللہ کی پناہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" یہ پکی مریدنی ھے ۔۔ایک آدھ سچ ثابت ہو چکا ھے یقیناً۔ " دراج نے رودابہ کے کان میں گھس کر کہا ۔وہ منہ پہ ہاتھ رکھے کھی کھی کرنے لگی۔
 " بیٹا بہت درد لکھے ہیں تمہاری  زندگی میں ....." پامسٹ نے اس کے ہاتھ اپنے سامنے پھیلا رکھے تھے وہاں پر موجود تمام نظریں اس کی جانب اٹھیں ۔ان تمام نظروں میں ترحم  اترا، اتنی پیاری اور معصوم لڑکی کی زندگی میں درد ،مگر اس کے اپنے چہرے پہ کوئی فکر و تردد  نہیں تھا۔
    " مگر میرے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ھے۔" اس نے پر سکون ہو کر کہا ۔
    "بہت امیر باپ کی بیٹی ہو ؟" پامسٹ نے اس سے سوال کیا ۔
   " جی۔" اس نے یک لفظی جواب دے کر اپنی دوستوں کو دیکھا اور زیر لب مسکرائی ۔
" ایک بھائی اور ایک ہی بہن ہو؟"
  " جی"۔
" مگر دولت ہی ہر سکون کا نام تو نہیں ہے ناں۔ " پامسٹ اس سے الجھ رہا تھا یا سب سے الجھتا تھا ۔اسے سمجھ نہ آسکا ۔"محبت ہرا دے گی تمہیں .... بے بس کر دے گی ۔ توڑ دے گی .... اور پھر تم سے کھو جائے گی ۔۔۔محبت نہیں ملے گی ." پامسٹ نے آہستہ آہستہ اپنی بات مکمل کی تھی۔اور مسلسل اس کے چہرے کابغور جائزہ لیا تھا۔ جیسے اس کے  چہرے کے رنگوں کا نظارہ کرنا چاہا ہو۔ مگر اسے مایوسی ہوئی ۔وہ اس سے متاثر نہیں ہوئی تھی۔وہ پر سکون تھی ۔
اس کے چہرے پر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی ۔
اس کے لبوں پہ طنزیہ مسکراہٹ تھی۔محبت ۔۔۔۔۔۔۔، وہ کیا کہہ رہا تھا ۔بھلا محبت بھی کسی حقیقت کا نام ھے ۔جس چیز کو حقیقت ہی ناں سمجھاجائے اس پر یقین۔۔۔؟؟ اس کے نزدیک تو یہ سوچ بھی مضحکہ خیز تھی ۔
" محبت ؟؟؟ جس کا وجود ہی نہ ہو بلکہ تصور بھی کھوکھلا سا ہو تو ۔۔۔۔میں کیسے  یقین  کر سکتی ہوں ۔مجھے محبت نہیں ہو سکتی۔"اس نے بڑے دعوے سے کہا تھا ۔ہر چہرہ حیرت میں ڈوب گیا ۔سوائے رودابہ اور دراج کے ،پامسٹ کی آنکھیں پھیلیں ۔مگر جلد ہی وہ اپنی حیرت پہ قابو پاگیا ۔وہ ہلکے سے مسکرا دیا۔مگر مزید وضاحت نہیں کی تھی۔
اور یہ تو دوسال پہلے کی بات تھی دوسال میں کیا کیا ہوا کسے خبر ....
وہ ایک سرد ترین دن تھا۔وہ تینوں کینٹین میں بیٹھیں تھیں ۔
" تمہیں یاد ھے نوری وہ دن ،جب ہم اس پامسٹ سے ملے تھے؟" رودابہ کو  یاد آیا تھا ۔۔ وہ بھی دو سال بعد۔۔
"ہنہ" اس نے پزا چباتے ہوئے کہا تھا ۔نظریں جھکی رہیں ۔دل کی دھڑکنیں ایک دم جیسے بے قابو ہو گئیں ۔
" بہت سچا تھا۔ وہ پامسٹ محبت حقیقت کا نام ہے۔ " اس نے کہنا چاہا مگر چپ رہی۔
   " اوہ نو یار کیا لمبی لمبی ہانکتا تھا وہ بڈھا بھی۔۔۔۔ہاہاہاہا۔" دراج نے زوردار قہقہہ لگایا۔
"جو جو اس نے بتایا ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔۔۔۔" دراج نے عادت کے مطابق پھر قہقہہ لگایا ۔نوری کو کوفت ہوئی تھی۔
" ارے اس نے تو یہ بھی کہا تھا ناں نوری کہ تمہیں محبت ہوگی۔درد ہیں زندگی میں اور...... "  رودابہ سوچنے لگی " جانے کیا کیا کہا تھا ۔"
" اور وہ عورت ہاہاہاہا " دراج نے زوردار قہقہہ لگایا۔" چپ کرو بیٹا اس طرح بے ادبی ہوتی ھے ،ہاہاہاہا۔ " اس بار وہ تینوں ہنسی تھیں ۔
" وہ جیسے مسجد میں بیٹھی تھی ۔یہ مرید بھی ناں یار بس مت پوچھو کبھی کبھی تو ایسی باتیں کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔" دراج نان اسٹاپ بولی۔
" کیا خیال ھے اگر ....." نوری کچھ کہتے کہتے رکی ۔اس کی نگاہیں کینٹین کے باہر ٹکی ہوئیں تھیں ۔اوراسی وقت اس کے الفاظ رک گئے۔
" افففففف " اس نے بد مزہ ہوتے ہوئے پزا ادھورہ چھوڑ دیا اور اٹھ کھڑی ہوئی ، رودابہ اور دراج اس کے بنا بتائے بھی سمجھ گئیں تھیں کہ سامنے کون سی ہستی ہے جسے دیکھ کر اس نے اپنی بات بھی ادھوری چھوڑ دی۔
" اٹھو ۔۔۔۔۔ابھی" نوری اچانک طیش میں بولی۔
" مجھے نفرت ھے اس سے ۔۔۔۔ i don,t like her اٹھو پلیز ۔" وہ بھڑک ہی تواٹھی تھی ۔
سامنے سے ہاجرہ بختاور چلتی ہوئی آ رہی تھی۔اور اسے ہی دیکھ کر اس کا پارہ ہائی ہوا تھا ۔حالانکہ اس نے کونسا ان کے پاس آ کے بیٹھنا تھا۔مگر نوری کو اس کے شرعی پردے سے شدید نفرت تھی۔کوفت سے وہ ایسے ہی ری ایکٹ کرتی تھی۔اور اس کا تبلیغ کرنا بھی اسے ناپسند تھا ۔
" لیکن  نوری" دراج نے کچھ کہنا چاہا ۔مگر اس نے ہاتھ اٹھا کر اسے کچھ بھی کہنے سے منع کر دیا ۔اور خاموشی سے کینٹین سے باہر نکل گئی۔
                 ☆☆☆☆☆
خلوص رشتوں کی لاج رکھ لو، عقابی پرواز کرنے والو
بلندیوں پہ پہنچ کے تم ،پھر زمیں کی جانب سفر کرو گے
(نورین مسکان سرور)
سردی اپنے عروج پر تھی ۔وہ تینوں  کالج کی آخری دیوار کے برابر ،جھکے سفیدوں سے ٹپکتی اوس سے بچتے ہوئے چہل قدمی کر رہی تھیں ۔کہر سے ہاتھ سے ہاتھ سجھائی نہ دیتا تھا۔
  " رودابہ اسلامیات کے نوٹس بنا لیئے کیا۔" دراج نے کہا تھا ۔
  " نہیں یار " رودابہ نے انکار کیا
" میں سوچ رہی تھی ہاجرہ سے لے لیتے ہیں " رودابہ نے مشکل حل کی تھی ۔انہیں اس ہفتے میں ہر صورت نوٹس تیار کرنا تھےمگر ان کی سمجھ میں کچھ آہی نہیں رہا تھا۔
" کیا ضرورت ہے اس سے لینے کی ہم خود بنا لیں گے ۔وہ پھر تبلیغ شروع کر دے گی۔ اور ہم یوں شرمندہ ہونگے گویا دین اسلام کو پہلی بار سن رہے ہوں ۔دوسروں کو جا نے وہ نان مسلم سمجھتی ہے۔" نوری حسب معمول شروع ہو گئی تھی۔
" It,s okey یار نہیں لیں گے اس سے۔ "
ایک چکر مکمل کر کے وہ واپس پلٹیں تھیں ۔کلاس کا وقت ہو گیا تھا۔
اس دن وہ تینوں کاریڈور میں کھڑیں تھیں ۔تب ہی وہاں ہاجرہ اور عبیدہ چلی آئیں تھیں۔
" اسلام علیکم! ان دونوں نے یک بیک کہا ۔اور اپنی باتوں میں مگن ان تینوں نے پلٹ کر دیکھا۔
" وعلیکم سلام!" رودابہ اور دراج مسکرائیں ۔البتہ نوری کے چہرے پر حقارت کے سائے اتر آئے۔اور اس نے لب باہم پیوست کیئے اسے دیکھا۔
" رودابہ ہم اکنامکس کے نوٹس لینا چاہتے ہیں کل واپس لوٹا دیں گے ۔ان شاء اللہ ، دراصل ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کسطرح نوٹس بنائیں۔" ہاجرہ نے جھجکتے ہوئے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تھا۔
" یہ لو اور اب گیٹ لاسٹ۔" بدقسمتی سے وہ نوٹس نوری کے ہاتھ میں ہی تھے ۔اس نے اس پر تقریباً پھینک کر کہا تھا ۔اگر اس کے پاس ناں  بھی ہوتے وہ پھر بھی اسی انداز میں دیتی۔
ہاجرہ اور عبیدہ ہق دق رہ گئیں ۔اس کی نفرت خود ہاجرہ پر پہلی بار کھلی تھی۔اسے اتنا تو پتہ تھا کہ نوری اسے نا پسند کرتی ھے۔ مگر اس حد تک، وہ اب تک بے خبر تھی۔
اس کی آنکھیں بھر آئیں ۔عبیدہ نے مضبوطی سےہاجرہ  کا ہاتھ تھام لیا۔     " Mind your
 language  نوری " عبیدہ  نے غصے سے کہا ۔
" او ۔کے تھنکس ، اب جاؤ۔" اس نے حقارت آمیز انداز میں کہا تھا۔ 
" آؤ ہاجرہ  ،اس امیر زادی کو کچھ زیادہ ہی گھمنڈ ہے ،خود پر  ،اپنی دولت پر ،اور اپنے حسن پر۔ " عبیدہ نے اسی کے انداز میں جواب دے کر بدلہ چکایا تھا۔"سمجھتی کیا ہو خود کو ہاں .. کس بات پہ اتنا غرور ھے۔ بلکہ ہے ہی کیا تمہارے پاس ذہانت سے تم پیچھے ہو،حوصلے سے تم مجبور ہو ،وقت کی پابندی تمہیں نہیں اور بات کرنے کی عقل تک نہیں...." اس نے   اس کی اچھی خاصی بے عزتی کر کے رکھ دی تھی۔
نوری میں اس کی باتوں کا جواب دینے کی ہمت ہی نہ رہی تھی۔وہ بس ٹکرٹکر اس کی شکل دیکھتی رہ گئی۔ ایک دم سردی کی جگہ گرمی نے لے لی،پسینے کے ننھے ننھے قطرے اس کی پیشانی پہ چمکنے لگے۔
" کر لی اپنی تقریر تو جاؤ اب، پلیز۔" نہایت اطمینان سے جواب دے کر اس نے عبیدہ کو لا جواب کر دیا تھا۔  اس کے پاس  وہ سب کچھ  نہ سہی، مگر پر سکون ایک جواب ضرور ہوتا تھا  ۔اور یہی اس کا ٹیلنٹ تھا۔
" رکنا بھی کون چاہتا ھے ایسی بد تمیز کے پاس ،یہ لو پکڑو اپنی عنایت ۔" اس کے نوٹس اس کے منہ پہ مارتے ہوئے  وہ ہاجرہ کا ہاتھ پکڑے وہاں سے پلٹ گئی ۔ہاجرہ کی آنکھیں ابھی تک بہہ رہی تھیں ۔
  " تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا نوری ۔" رودابہ نے افسوس سے کہا ۔
" اور کیا کرتی ہاں،مجھے نہیں اچھی لگتی وہ ،نہ اس کا عبایا ،اتنی پردے کی پابند تھی تو اپنے گھر رہے  یہاں کیوں فضول میں دوسروں کو دعوت اسلام دیتی پھرتی ھے۔" وہ بھڑک اٹھی۔
اسلام کی دعوت دینے والا ایسے ہی بے عزتی کا شکار ہوتا ھے۔کم ظرف لوگ ایسے انسان کے کردار کو کھنگالنے بیٹھ جاتے ہیں ۔نقطہ چینیاں کرنا ان کا معمول بن جاتا ھے۔وہ یہ بات نہیں سمجھتے کہ جو بتایا جا رہا ھے اس پر عمل کریں بلکہ وہ الٹا مقابل پہ کیچڑ اچھالتے ھیں ۔
" میں نے جب اسے پہلی بار  دیکھا تھا۔ مجھے تبھی اس سے نفرت ہو گئی تھی ۔ایسے کردار مجھے قطعاً پسند نہیں۔ " وہ ابھی تک اپنی نفرت کا اظہار کر رہی تھی۔
" اور اس عبیدہ کی جراءت دیکھی تھی ۔کتنی باتیں سنا گئی ،ہنہ... آئی بڑی ،کس بات کا گھمنڈ ھے ہنہ ۔" وہ دھیرے سے مسکرا دی طنزیہ مسکراہٹ ...."میں گارمنٹس اونر کی بیٹی ہوں ۔دولت میرے قدموں میں  کھیلتی ھے ۔میری ایک نظر پر ہزاروں لڑکے اپنی جان دینے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔اس کالج کے گیٹ سے میری گاڑی کے علاوہ کوئی برانڈڈ گاڑی نہیں گزرتی۔ " وہ تکبر سے کہہ رہی تھی ۔ یہ اس کا معمول نہیں تھا مگر آج اس نے یہ سب غصے میں کہا تھا ۔ہاں البتہ غرور اس میں ضرور تھا۔
" ان دونوں کو اب میں بتاؤں گی کہ مجھے کس بات کا گھمنڈ ھے ۔ان کا میں ایسا حشر کر دوں گی کہ یہ آئندہ توبہ کر لیں گی مجھ جیسی لڑکی سے بات کرتے ہوئے بھی ڈریں گی ۔اور یہ ہاجرہ ہ ہ ہ ہ ہ..."  وہ دانت پیستے ہوئے بولی ۔اس کے لہجے میں چٹانوں جیسی سختی تھی۔رودابہ اور دراج نے چونک کر اسے دیکھا تھا ۔
اس کا عزم مضبوط تھا۔
کون جانے کہ آئندہ کیا ہونے والا تھا ۔نوری بھی نہیں اورہاجرہ بھی نہیں ........
                 ☆☆☆☆☆
رات کے اس پہر جب  آدھا شہر تھک ہار کر  سو چکا تھا ۔صرف کاروبار اور ٹریفک جاگ رہی تھی ۔ روشنیاں چمک رہیں تھیں مگر دھند نے انہیں بے بس کر دیا تھا ۔
 دھندکی دبیز چادر نے سب کچھ چھپا لیا تھا سوائے سڑکوں پہ دوڑتی گاڑیوں کے شور کے ۔
 اس وقت  " سلطان گردیزی ولا "  کی تیسری منزل  کے ایک کمرے کی گلاس ونڈو کے اس پار  وہ کھڑی تھی۔سلیولیس پہنے وہ سردی کے احساس سے بے پرواہ لگتی تھی۔مٹھیاں سختی سے بھینچے ، دانت پر دانت جمائے ،اس کی آنکھیں بڑی خوفناک سے دِکھتی تھیں۔ جن میں انتقام اور نفرت کی لپٹیں تھیں۔
اسکے  خیالات  پر ہاجرہ بختاور چھائی ہوئی تھی ۔آج کی بے عزتی وہ کسی صورت نہیں بھول سکتی تھی۔
وہ ہاجرہ کو اس کا بدلہ چکانا چاہتی تھی ۔مگر  کوئی سزا  اسے اس قابل نہیں لگ رہی تھی ۔جس سے اس کے دل کو خوشی ہوتی ،وہ اپنے انتقام کی آگ کی جلن سے آزاد ہو پاتی ۔
ساری رات اس نے انتقام کی آگ میں جھلستے ہوئے گزاری تھی۔
اگلے دن وہ تھکی تھکی سی کالج پہنچی تھی۔
" طبیعت ٹھیک ھے تمہاری؟" رودابہ اور دراج نے اس کے سوجے ہوئے پپوٹوں کو دیکھ کر پوچھا تھا۔
" ہنہ ٹھیک ھے ۔"  اس کا موڈ بگڑا ہوا تھا۔
    تیسرا پیریڈ شروع ہوا تو وہ کلاس سے نکل آئی۔اس کا بالکل بھی موڈ نہیں تھا کلاس لینے کا ۔
    لائبریری کی طرف جاتے ہوئے وہ نظر آگئی تھی ۔جس کی اسے تلاش تھی ۔اس نے تیزی سے اس کی جانب قدم بڑھائے۔
" تو تم کیا سمجھتی ہو خود کو ہاں؟ " اس کے عین سامنے کھڑے ہو کر، دونوں ہاتھ سینے پہ باندھے اس نے کہا تھا۔اس کی آنکھوں سے رعونت جھانکتی تھی۔لہجے سے حقارت ٹپکتی تھی ۔اور چہرے پہ تکبر براجمان تھا ۔ہاں  آنکھوں میں ڈولتی سرخی رت جگے کی گواہ تھی۔ہاجرہ نے جھکا سر اٹھا کر ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
میرا آپ سے جھگڑا کیا ھے نوری؟ " ہاجرہ نے دکھی دل سے کہا تھا ۔
مضبوط سے مضبوط شخص کو بھی  نفرت کے تیر ،ایسے ہی بے بس سا بنا دیتے ہیں ۔توڑ سا دیتے ہیں ۔جس کے حصے میں نفرت آجائے وہ گویا برباد ہو جاتا ھے۔
" ہنہ میری تم سے جنگ یہ ہےکہ مجھے تم دین کی تبلیغ مت کیا کرو ۔"
 ایک دو دفعہ اس نے اسے نماز کی تلقین کی تھی مگر اس کے جارحانہ ردعمل پر وہ خاموش ہو گئی تھی۔ حسد کی پہلی نشانی یہی ہوتی ھے کہ کسی شخص کی خوبی سے انکار کر دیا جائے ،وہ خوبی،علم ہو،حسن ہو یا عمل ہو۔
 " ٹھیک ھے۔ " ہاجرہ نے تہ دل سے کہا ۔ دل میں ہزار خنجر کیوں نہ لگے ہوں پر وہ اس کی شرط مان گئی تھی۔
اور  ویسے بھی اس پر تو صرف  دین پھیلانا ہی  فرض تھا۔اب سمجھنا نہ سمجھنا تو سننے والوں کا مسئلہ تھا۔
" اور تم میرے سامنے بھی کم سے کم آؤ گی ۔" وہ اسے کچھ یوں حکم جاری کر رہی تھی ۔گویا اس کی زندگی پہ اسی کا حق ہو ۔
" اس پورے کالج میں مجھے کہیں نہ کہیں تو آنا جانا ھے ناں ۔" ہاجرہ نے کہا تھا۔
یہ حقیقی بات تھی۔ پہلی بات تو نوری کا حق ہی نہیں تھا کہ وہ اس پر  کوئی پابندی عائید   کرتی ، بالفرض کر بھی دی تھی تو یہ کم از کم انتہائی بے جا ضد پہ کارفرما  پابندی تھی۔
 یہ اس کی دشمنی کی پہلی شرائط تھیں ۔جو تا حال قائم تھیں ۔اور نوری نے ہاجرہ کی بے گناہی  کے لیئے یہی سزا چنی تھی کہ اسے ہر محفل میں دو کوڑی کا کر کے رکھ دیتی تھی۔ تاکہ ایک بار ادھڑنے کی بجائے وہ بار بار ادھڑے،  پچھلے دوسالوں سے ہی اسے ذلیل کرتی آرہی تھی۔
اب تو پورا کالج ان دونوں کی شرائط اور دشمنی  سے بھی آگاہ ہو چکا تھا۔
ہاجرہ سب سمجھ رہی تھی مگرخا موش تھی۔ اس نے شرائط نبھائیں تھیں اور نہایت ایمانداری سے۔مگر کیوں.........
انسانی زندگی کی ایک عجیب حقیقت یہ بھی ھے کہ اس میں "کیوں " کا استعمال بہت ہوتا ھے۔ حالانکہ اکثیریت  میں اس کا جواب نہیں ملتا۔
دیکھو نوری جب ایک انسان ظلم سہہ کر خاموش ہوجائے ناں تو سمجھو اس کا فیصلہ اللہ کی بارگاہ میں پہنچ چکا ھے،سو پلیز تم ہاجرہ سے دوستی مت کرو،اچھا سلوک بھی بے شک نہ کرو پر پلیز سر ِمحفل اس کی ہتک بھی مت کیا کرو،اللہ طاقت ور ھے کیوں بھول رہی ہو ۔" اس کی دونوں دوستوں نے اسے بارہا سمجھایا تھا مگر اس نے دھیان نہیں دیا کبھی.........
                          ☆☆☆☆☆
 
اعتراف
بھولتا کون ھے
وقت کے گھاؤ کو
ہجر کے تند طوفان کی
وصل کے خواب کی ،ڈوبتی ناؤ کو
بھولتا کون ھے
بھولتا کون ھے
اپنے قاتل کے قاتل خدوخال کو
دکھ اٹھاتے دنوں اور مہ ہ سال کو
بھولتا کون ھے 
بھولتا کون ھے
عمر کی شاخ پر کھلنے والی اس اک اولیں شام کو
بے سبب جو لگا ھے اس الزام کو
پھر تیرے نام کو
بھولتا کون ھے
شاعرہ:
نوشی گیلانی
   اس نے پورے ایک ہفتے بعد فیصلہ کیا تھا ۔ اور اس ایک ہفتے میں وہ  آنسوؤں کی برسات،رت جگے،درد ،اذیت،کرب اور جانے جانے کس کس کیفیت سے گزری تھی۔
آج موسم  میں گرمی تھی ۔حبس کا احساس ہو رہا تھا۔ سر پہ کھڑا سورج دھک رہا تھا۔ جاتی سردیاں تھیں۔تبھی دھوپ میں چبھن تھی۔
وہ دوڑتے ہوئے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔ بہت تیزی کے ساتھ، نہایت عجلت میں .....  آج وہ دیر سے کالج آئی تھی۔ رودابہ اور دراج  یقیناً آ چکی تھیں۔  مگر کہیں نظر نہیںآ رہی تھیں ۔
" اف کہاں ہیں یہ ..." کالج میں چاروں اُر نگاہ دوڑاتے ہوئے ،وہ بڑبڑائی۔
اس نے تھکی تھکی سی نگاہیں پورے کالج گراؤنڈ میں بھی  دوڑائیں ۔لیکن  وہاں بھی ان کا کوئی اتا پتا نہیں تھا۔
" سنو تمہیں دراج ......." اس نے ایک لڑکی کو اس کے عقب سے پکارا، جو کمپیوٹرڈیپارٹمنٹ کی طرف جارہی تھی۔ نوری کی آواز پر جیسے ہی اس نے پلٹ کر دیکھا ۔نوری کی بولتی بند ہو گئی۔ سامنے عبیدہ تھی۔جس کی آنکھیں طیش سے گلابی ہو گئیں تھیں ۔نوری کو اچانک  احساس ہوا کہ اس نے فضول کی دشمنی پال لی تھی ۔اور  وہ دشمنی ہر جگہ گلے سے لٹکتی تھی۔پر خیر ،نفرت بھی تو  تھی اسے.... اور نفرت میں دشمنی تو لازم تھی نا ۔اس نے اتنا بھی   برا نہیں کیا تھا ان دو لڑکیوں سے جھگڑ کر ،یہ اس کے اپنے خیالات تھے۔
" سوری !"اس نے لہجہ نرم رکھا البتہ لہجے میں نفرت کی آگ تھی ۔
اس کے اندر پہلے ہی بھانبڑ جل رہے تھے۔ اور اوپر سے اس سے سامنا بلکہ بے عزتی سے بھری نظروں کا دیدار ۔۔
" اٹس او۔کے ،مگر آنکھیں کھلی رکھا کرو ،امیر زادی ۔"اس کی بات سن کر اس کا دل چاہا اپنا آپ پیٹ لے ۔
" اوہ شٹ ،جاؤ تمہیں دیکھنے کا شوق بھی کسے ھے ،دماغ  خراب کر کے رکھ دیا... افف۔" وہ بھی دو بدو بولی۔اور تیزی سے وہاں سے ہٹ گئی۔اس کا مزید اس بیکار لڑکی سے  جھگڑ کر اپنا وقت ضائع کرنے کا قطعا ارادہ نہیں تھا ۔
  اسے ہر جگہ وہی دو لڑکیاں کیوں نظر آتی تھیں ۔عبیدہ  ٹک ٹک کرتی وہاں سے چلی گئی ۔تو نوری نے زور سے  اپنا ماتھا پیٹا ۔
" اف اور یہ دونوں......." اب اسےان دونوں پر طیش آرہا تھا۔جو گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب تھیں ۔ جن کی تلاش میں وہ صبح  ہی صبح بے عزتی کروا بیٹھی تھی۔
  ناچار وہ اکیلی ہی پارکنگ کی جانب بڑھی۔بہر حال اسے جانا تو تھا ناں ۔
" ٹھہرو ! ،نوری ! " رودابہ اور دراج کمپیوٹر ڈیپارٹمنٹ سے نکل رہی تھیں ۔ان کا خیال تھا ابھی تک نوری کالج ہی نہیں آئی ۔کچھ دنوں سے وہ بکھری بکھری بھی دکھائی دے رہی تھی ۔ہو سکتا ہے طبیعت خرابی سے نہ آ سکی ہو۔مگر ان کے تمام خیالات  اس وقت غلط ثابت ہوئے، جب انہوں نے اسے تیزی سے گاڑی کی طرف دوڑتے دیکھا تھا۔وہ بھی اس کے پیچھے دوڑیں مگر تب تک وہ گاڑی میں بیٹھ کے جا چکی تھی۔
 " اسے کیا ہوا  یوں اچانک چلی گئی۔" دراج نے کہا ۔
  " کال کرلیتے ہیں " وہ موبائل فون پر نمبر ڈائل کرنے لگی ۔مگر نمبر پاور آف تھا۔وہ مزید پریشان ہو گئیں۔آخر وجہ کیا تھی۔اس کے چہرے پر  ہوائیاں سی بھی  اڑ رہی تھیں۔
" کافی پریشان بھی لگتی تھی ۔چلو اس کے پیچھے چلیں ۔" وہ بھی گاڑی کی طرف دوڑیں۔اور چند منٹ کے بعد ان کی گاڑی بھی نوری کی گاڑی سے چند گز کے فاصلے پہ دوڑ رہی تھی۔
 اس کا یوں اکیلے کالج سے چلے جانا اتنا حیران کن نہیں تھا جتنا اس کی گاڑی کے رکنے کی جگہ کو دیکھ کر دھچکہ لگا تھا۔
" یہ یہاں....." وہ دونوں ہکا بکا ایک دوسرے کی شکل تک رہی تھیں۔
 صحرا ایک قطرہ پانی مانگتا ھے ۔حالانکہ ایک قطرہ سے اس کی پیاس نہیں بجھتی ،بلکہ صحرا کی پیاس تو کبھی بجھتی ہی نہیں ھے ۔اس میں تو ہر وقت دھول اڑتی رہتی ھے۔
چلیں یہ  تو صحرا کا قصہ تھا پر  وہ کیوں آئی تھی وہاں ،وہاں تو ہمیشہ سے ہی صحرا  اپنی پیاس بجھانے آتے ہیں ۔بنجر لوگ ہی ادھر کا رخ کرتے ہیں ۔
لیکن سوال یہ تھا کہ  وہ کیوں آئی تھی وہاں ........
                  ☆☆☆☆ 
جدوں پہلی ملاقات
ہونی اے
گانے کے سر بکھر کر گونج رہے تھے۔
پورا گھر روشنیوں میں نہایا ہوا تھا۔گھر کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا۔اور وہ  تیاری اس گھر کے مالک کی دھن دولت کی گواہ تھی۔
" خوبصورت  فراکوں میں ملبوس شوخ و چنچل سی  لڑکیاں،اسٹیج پہ  رقص کر رہی تھیں ۔
" آؤ ناں تم بھی ۔" اسٹیج پر موجود نگہت نے سامنے سرخ فراک میں ملبوس نوری  سے کہا تھا ۔جو ساتھ بیٹھی  حوریہ کی طرف دیکھ کر کسی بات پر مسکرا رہی تھی۔
  " نہیں میں اب تھک گئی ہوں۔  "  وہ شائستگی سے انکار کر کے مسکرائی۔
" اتنی جلدی نہیں تھکتیں تم،  آؤ ناں ۔" وہ اصرار کرنے لگی۔ مگر نوری انکاری رہی۔
    پچھلے دو گھنٹوں سے ینگ پارٹی ڈانس میں مصروف تھی۔
" اب لڑکے ڈانس کریں گے۔" چند گرلز نے شور کیا ۔
" ہم کونسا ڈرتے ہیں ،ہم کر لیں گے۔" عفان نے کالر اکڑا کے کہا ۔وہ عفان کی مہندی  کا فنکشن تھا۔ اوروہ خود ہی سب سے زیادہ رقص کر رہا تھا ۔
   تمام لڑکے اسٹیج پر آ گئے تھے۔ جو مہمان تھے وہ بیٹھے رہے ۔
  " زوار آؤ ناں یار۔ " اسد نے ایک لڑکے کو آواز دے کر کہا تھا ۔وہ اجنبی لگتا تھا۔اور خاصا ہینڈسم بھی تھا۔ سامنے کی نشست پر براجمان ہولے ہولے مسکرا رہا تھا۔
" یہ کہاں کا ماڈل ھے پہلے کبھی نہیں دیکھا اپنے ریلیٹیوز میں؟ " حوریہ نے نشاط کے کان میں گھس کر  کہا تھا۔ نوری اس کے پاس سے اٹھ کر نگہت کے پاس جابیٹھی تھی۔ان دونوں کی گاڑھی چھنتی تھی۔
" پتہ نہیں کون ھے ،ویسے کمبخت ھے کتنا کمال .... "  نشاط نے دانت نکالے ۔اور بھی کئی لڑکیاں باتوں میں مشغول تھیں اب خدا جانے وہ باتیں کون سی تھیں ۔
" نہیں یار آپ لوگ کرو ۔" اس نے مسکراتے ہوئے انکار کیا،اس وقت وہ مرکز بصارت تھا۔
  " کچھ نہیں ہوتا آؤ تو سہی۔" عفان بھی بضد ہوا تو چاروناچار اسے اسٹیج پر جانا پڑا تھا۔
" ایکسکیوز می ،ان کا تعارف تو کروا دیں عفان بھائی۔"ڈانس شروع ہونے ہی لگا تھا جب نگہت نے بلند آواز میں کہا۔ باقی لڑکیوں نے بھی اس کی تائید کی تھی۔
" یہ میرا دوست ہے ، زوار منصور تغلق..."نام ہی چھا گیا تھا ۔
محفل میں ہاہاکار مچ گئی۔
" ہم کالج میں اکٹھے پڑھتے تھے ،مگر بی۔ اے کے بعد زوار امریکہ چلا گیا ۔اب پاکستان آیا ہوا تھا۔تو میں نے زبردستی شادی سے پہلے کی تمام رسوم میں شرکت کی ضد کی، بمشکل آمادہ ہوا ھے۔"عفان نے اس کا پورا تعارف کروایا تھا۔  
دوران رقص اس کی نظر اٹھی تھی اور جانے کیسے اسی  چہرے پہ ٹک گئی۔جسے وہ اس وقت سے مسسلسل اگنور کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔جب وہ اپنی سکھیوں کے ساتھ جھوم رہی تھی۔
 لڑکی کو اچانک نظروں کی تپش محسوس ہوئی تھی ۔اور اسے خود کی طرف دیکھتا پا کر وہ ادھر
ادھر دیکھنے لگی۔
نگاہوں کا تصادم تھا۔
اس کے بعد امیر خاندان کی بے باک نوجوان پارٹی نے رات گئے تک  بیباکانہ رقص کیا تھا۔
اور اسی رات کے دورانیے میں زوار منصور تغلق اس خاندان کے افراد کے نزدیک اہم اور جانا پہچانا ہو گیا تھا۔
               ☆☆☆☆  
ہم کو بیکار لیئے پھرتے ہو بازاروں میں
ہم نہ یوسف ہیں نہ یوسف کے خریداروں میں
" بیٹا بہت بد نصیب ہو" ....پامسٹ  نے سرد آہ بھری تھی،آفس میں بہت سے لوگ بیٹھے تھے۔ سب کی نظریں اسی پر تھیں۔ نوری نے تھوک نگلا ،رودابہ اور دراج خاموشی سے  پیچھے کی نشست  پر آبیٹھیں تھیں ۔ ہوائیں تھم گئیں ۔اور دور جنگل میں آگ لگ گئی ۔گویا آس کی دیوی جھلس گئی۔
" محبت ہو گی ، پر ملے گی نہیں...... " دل کی دھڑکنیں تھمیں ،وہ وقت نزع لگتا تھا۔
  " کیوں نہیں ملے گی؟ایسا کیسے ہو سکتا ھے ؟جھوٹ ھے یہ ،غلط بتاتے ھیں آپ۔ "  دو سال پہلے اسی پامسٹ کے سامنے مسکرا کے ہر بات کو اڑا دینے والی الہڑ سی لڑکی، آج  جذباتی  ہوگئی تھی۔
  " کیونکہ تمہاری قسمت میں صرف محبت کرنا ہی لکھا ھے ۔" پامسٹ پریشان سا بولا تھا۔
مجمع ساکت ہو گیا تھا ۔آگ کی لپٹیں بلند ہوئیں تھیں ۔ ہرے بھرے دیو قامت درخت بھی جلنے اور چٹخنے  لگے۔
" میں اسے قتل کردوں گی جسے وہ ملے گا ۔..... مم .....مار دونگی میں اسے...جان سے ختم کر دونگی۔ " انگلی کے اشارے سے وارن کرتی ہوئی وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ خون کی ندی بن کر بہنے لگی۔ دل رسنے لگا ۔محبت نے دھمکی دی۔پامسٹ بھی اٹھ کھڑا ہوا ۔دراج اور رودابہ نے ہاتھ منہ پہ رکھ لیئے۔انکشاف تھا یا دھچکہ...
دوسال پہلے کی ،اسی پامسٹ کی پیشن گوئی سراپائے مثال بنی کھڑی  تھی۔ مجسم حقیقت،کبھی آزمائی گئی بات آج اسے آزمائش  کی زنجیروں میں جکڑ گئی۔
" میری بات سنو بیٹا......." پامسٹ اسے کچھ کہنا چاہتا تھا۔
" نہیں ہر گز بھی نہیں .... کچھ نہیں سننا مجھے اب مزید ..." اس وقت وہ خود سے بھی بےگانی لگ رہی تھی ۔اس کا وہ انوکھا روپ تھا ۔ بال بکھر گئے ۔کاجل بہہ گیا۔یاقوتی لبوں کی سرخی کی رنگت کالی پڑ گئی۔دراج اور رودابہ دنگ تھیں۔دوڑتے ہوئے وہ اس کے آفس سے نکل آئی تھی۔رودابہ اور دراج ایک بار پھر اس کے پیچھے بھاگیں ۔  مگر ان کے قدموں میں وہ پھرتی ،وہ طاقت نہیں تھی ۔ جو اس کامنی سی لڑکی کی دوڑ میں طغیانیاں  تھیں۔
" کاش تم سن لیتیں بیٹا، کسی کو مارنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی ۔" پامسٹ نے اس کو دور تک بھاگتے ہوئے دیکھ کر بڑے کرب سے سوچا تھا۔ حقیقت درد ناک تھی ۔اچھا ہوا وہ بنا سنے چلی گئی۔
" نوری!"  ان دونوں نے یک بیک پکارا۔وہ ٹھہرگئی۔
" وہ میرا ھے بس میرا اور مل جائے گا وہ مجھے  دیکھنا ..." آنسو اس کی آنکھوں کی سرحدیں توڑتے ہوئے نکل رہے تھے۔وہ اتنی تو کبھی نہیں ٹوٹی تھی۔آج تو جیسے اپنا سب کچھ لٹا آئی تھی۔آج تو اس کی کرچیاں ہواؤں میں اڑ رہیں تھیں۔
اور آج تو
واقعہ یہ ھے کہ بدنام ہوئے
بات اتنی تھی کہ آنسو نکلا
" ضرور ملے گا وہ تمہیں ۔"  دراج نے بمشکل کہا تھا۔ وہ دونوں تو آج اس کی دیوانگی پہ حیران تھیں۔ ایسا موڑ اس کی زندگی میں کب آگیا۔انہیں تو خبر تک نہیں ہوئی تھی۔
دونوں گاڑیاں تیزی سے کالج روڈ پہ دوڑ رہی تھیں ۔نوری ان دونوں کے ساتھ تھی ۔اس کی گاڑی میں صرف ڈرائیو ہی تھا۔
 کالج پہنچتے ہی وہ ایک بار پھر انہیں چھوڑ کراندر کی جانب بھاگی ۔جسقدر وہ عجلت میں تھی ،اسے دیکھ کر تو لگتا تھا۔ جیسے اس کے لیئے آج کا دن گویا قیامت تھا ۔یا پھر آخری ۔
" وہ مل جائے گا ناں مجھے ؟" غضب ہو گیا تھا۔  تو کیا نوری کو محبت ہوگئی تھی...... ۔
ہاں اسے محبت ہوگئی تھی۔مگر یہ تو آپ کو پتہ ھے ۔ اس سے بھی حیرت کی بات پتہ کیا ھے ....  وہ یہ ھے کہ ....نوری سراپائے سوال بنی کھڑی تھی.... ہاجرہ  بختاورکے سامنے۔اس کی کلائی کو مضبوطی سے تھامے۔یوں کھڑی تھی جیسے اب ہاجرہ کھو گئی تو پھر کبھی نہیں ملے گی۔
ہاں اسی ہاجرہ کے سامنے، جس سے اسے شدید نفرت تھی۔
"مجھے یقین ھے تم سچ بولتی ہو ۔" وہ اس کا بازو تھامے کہہ رہی تھی اور ہاجرہ تحیر میں گھِری کھڑی تھی۔
ہاجرہ کی آنکھیں بہہ نکلیں اور دل سربسجدہ ہوا ،کلمہ شکر ادا کر رہا تھا۔
" کتنا عظیم ھے میرا اللہ ،اسطرح بھی عزت بخش دیتا ھے کہ نور سحر جیسے لوگ ،جو ساری زندگی صرف نفرتوں کے تحفے ہی دیتے ہوں. وہ یوں ساری دنیا کے سامنے کہتے ہیں،مجھے یقین ھے تم سچ بولتی ہو، واہ میرے اللہ تجھ سے زیادہ بھلا کون عظیم ھو سکتا ھے۔ " نوری کے ساتھ ساتھ اس کے آنسو بھی نہیں تھم رہے تھے۔
" جو اللہ کے لیئے ذلت کو بھی قبول کر لیں انہیں اللہ خود عزت سے نوازتا ھے اور ایسی عزت سے کہ پورا عالم اس کا مداح بن جاتا ھے ۔" یہ اسی کے کالم کی چند لائنیں تھیں ۔جو آج اسی کی زندگی کا حصہ بن گئی تھیں ۔
وہاں سے آتے جاتے تمام اسٹوڈنٹس ورطہ حیرت میں غوطہ زن تھے۔
" نوری اوررررررررر...... ہاجرہ کا بازو تھامے ،عاجزی سے روتی ہوئی.....؟؟؟" ہر کوئی انگشت بدنداں تھا۔
یہ سب کیا تھا اور کیوں ہو گیا ۔کیا نوری بھول گئی تھی کہ دوسال پہلے ....اس نے ہاجرہ سے شرط باندھی تھی۔پر...... اس نے دوسال پہلے ہی تو ،اپنا ہاتھ بھی  اس پامسٹ کو دکھایا تھا ۔اور کہا تھا کہ اب کبھی وہ اس پامسٹ کو ہاتھ نہیں دکھائے گی ۔کیونکہ وہ تو فراڈ تھا۔جھوٹ بول کے پیسے کماتا تھا۔توووووو اب اس نے وعدہ توڑ دیا۔
ہا ہاہا اس نے تمام وعدے اور دعوے دوسال پہلے ہی کیئے تھے۔  اس وقت جن دعوؤں میں جان تھی آج وہی ریزہ ریزہ تھے تو کیوں ۔۔۔۔۔۔ہاں سچ محبت .. نے توڑ دیئے سب دعوے ،سارا غرور ۔۔۔۔۔اوہ تو ہمیں دعوے نہیں کرنے چاہیں،جانے اگلے لمحے میں کیا فیصلہ ہو۔۔۔۔
چلو یہ تو الگ بات ھے محبت ہرا دیتی ھے ،مگر اس کی نفرت کا کیا ہوا،ہاجرہ تو اس کے لیئے ناپسندیدہ تھی۔پھر اسے ہی مسیحا چن لیا۔۔۔۔۔ہاہاہا نادان لڑکی .... وہ تو سزا دینے چلی تھی ناہاجرہ کو۔۔ارے ہاں آپ کو یاد ہو تو جسے وہ سر محفل بے عزت کر دیتی تھی۔آج اسی کے سامنے سوالی تھی۔
وہ کالج کی سیڑھیوں پہ باپردہ لڑکی کے سامنے ،اس کا ہاتھ پکڑے ،سلیو لیس پہنے کمر کو چھوتے بال،روتی آنکھوں سے  ،حجاب سے جھانکتی آنکھوں کو کتنی آس سے دیکھ رہی ھے، وہی ھے نوری ۔۔۔۔۔،نور سحر سلطان گردیزی.........
☆☆☆☆
رات گئے تک رقص کی محفل جاری رہی تھی اور اب دن ڈھل رہا تھا تو سب بیدار ہو رہے تھے۔ بارات کی تیاریاں زور و شور سے جاریں تھیں۔
گردیزی خاندان کے تین بھائی،رحمان گردیزی، اسلام آباد  میں رہائش پزیر تھے۔ان  کے پانچ بچے ، بڑا عفان رحمان گردیزی،اسد رحمان گردیزی،نشاط رحمان گردیزی،سویرا رحمان گردیزی اور سب سے چھوٹاصفی رحمان گردیزی تھا۔، منجھلے سلطان گردیزی لاہور میں رہتے تھے ،ان کے دو بچے ،  ہاشم سلطان گردیزی اور نورسحر سلطان گردیزی تھی۔جبکہ سب سے چھوٹے بھائی آریان گردیزی کینیڈا میں مقیم تھے ان کی تین بیٹیاں حوریہ آریان گردیزی ،نگہت آریان  اور افرح آریان تھیں ۔
اس خاندان کے پہلے لڑکے عفان رحمان کی شادی تھی ۔سو امیر خاندان نے تمام شوق پورے کیئے تھے۔
نگہت اور حوریہ اپنی بھاری بھرکم فراکیں سنبھالتیں ہوئیں ،ہال میں داخل ہو رہی تھیں۔جب ہی وہ کسی سے ٹکرا گئی تھیں ۔
" آوچ "
" آئم سو سوری۔ " زورا منصور نے شرمندگی سے دوچار ہوتے ہوئے کہا ۔
اور اسے سامنے دیکھ کر ان دونوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔
" اٹ ٹس او۔کے " نگہت اس کے صبیح چہرے سے نظریں نہ ہٹا سکی۔اس کی نگاہوں کی تپش سے زوار مزید شرمندہ ہو گیا تھا۔
" اف یہ امیر زادیاں  اور ان کا حسن ۔" وہ کوفت کا شکار ہوا  تھا۔تبھی وہاں سے تیزی سے نکلا۔ 
" سنیے پلیز " نگہت نے آواز دی حوریہ نے حیرت سے بہن کو دیکھا۔
" جی "
"مجھے  آپ کا نام بہت پسند ھے،اور ......"
" تھنکس"  وہ کہتے ہی وہاں سے تقریبا بھاگا تھا
" اف یہ امیر زادیاں،اور ان کی حرکات ۔" وہ دل ہی دل میں لا حولا ولا قوتہ پڑھ رہا تھا۔
اس وقت ہال میں  تمام لڑکیاں بیٹھی ہوئیں تھیں،جب وہاں سے چند قدم کے فاصلے پر ایک بار پھر  وہ گزرتا ہوا نظر آیا تھا۔۔اس کی چال سے پتہ چلتا تھا۔کہ وہ کسی کام سے ہی وہاں سے گزر رہا تھا۔نگہت  اسے دیکھ چکی تھی تبھی اپنی جگہ سے  اٹھی۔
" زوار صاحب! پلیز سنیئے۔" اس کے چلتے قدم رکے۔
" میں اس وقت کہنا چاہتی تھی کہ مجھے آپ بھی بہت  اچھے لگتے ہیں۔ " محفل کو سانپ تو اس کی پکار پر ہی سونگ گیا تھا ۔اس بات پر تو گویا ڈنگ لگا دیا تھا۔
 " جی بہت شکریہ" وہ دھیرے سے مسکرا کے آگے کی طرف بڑھ گیا تھا۔ کلیاں مسکرا دیں .....
☆☆☆         ☆☆☆☆
جس کی قربت کو ترستا تھا زمانہ کل تک
آج    وہ     شخص      اکیلا      سر     بازارملا
" ہر چیز ساکت ہو گئی ۔پورا کالج کان بن گیا۔کیونکہ  انتہائی مغرور ،خودسر ،گھمنڈی اور محبت کو بائیں ہاتھ کا کھیل کہنے والی کہہ رہی تھی۔
" بولو ناں ... تم کچھ بول کیوں نہیں رہیں ،وہ مل جائے گا ناں مجھے،پامسٹ جھوٹ کہہ رہا تھا ناں ... ھے ناں؟ " گتھی کھلی اور ریشم کی طرح فضاؤں میں بکھر گئی۔ ہاجرہ اصل بات سے اب کچھ کچھ آگاہ ہو گئی تھی۔
" بالکل نوری وہ تمہیں ہی ملے گا ،تمہارا ہو جائے گا وہ، ان شاء اللہ!" مسیحا جھک کر کہہ رہی تھی ۔ اس نے تمام اخلاقی ریکارڈ گویا کراس کیئے تھے۔ گالیاں بھی سنیں ،دھکے بھی کھائے ،ذلیل بھی ہوئی ...اور پھر... بھی اسی ظالم کو تھام لیا۔
 " تم تو نیک ہو ہاجرہ ...." الفاظ کی حدیں بھی ٹوٹیں اور اعتراف کی بھی انتہا ہو گئی۔ سزائیں پلٹ گئیں فیصلہ اللہ کے دربار میں تھا۔انجام زمین پہ اترا کھڑا تھا۔
" تم میرے لیئے دعا کردو۔پلیز۔"  بہتی آنکھیں، باہم جڑے ہاتھ ....  معجزوں  کا دن تھا وہ یقینا ً۔ سورج سر پہ کھڑا تھا۔ اپریل کی دوپہر تھی۔    
 " تم بھی نماز پڑھ کے دعا کرنا نوری، اللہ بہتر کرے گا ۔"
آج دوسال اور چند ماہ بعد شرط ٹوٹ گئی،پابندیاں منسوخ ہوگیئں،ہاجرہ نے نماز سامنے رکھ دی،فلاح کے راستے کا پتہ دیا،اس کے جڑے ہاتھ کھل کر اس کے پہلو میں گر گئے۔
" تم مجھے تبلیغ مت کیا کرو سمجھیں  ، مجھے نفرت ھے تم سے، 
I hate you ....just get lost .go go go "
اسے دھکے دینے والی آج خاموش تھی۔۔آج تو زبان مقفل ،آج تو نفرتیں بے بس ، آج تو، آج تو   طاقتیں بے آسرا ۔۔۔۔۔۔نوری کی آنکھوں سے آنسو تیز سے بھی تیز تر ہو گئے۔
"ہاں فیصلہ اللہ کے دربار میں تھا ،تبھی..." نوری کا دل معترف تھا ۔دراج کہتی تھی اور رودابہ بھی۔۔
" مجھے معاف ....." وہ بلک اٹھی۔ سر عام ہاتھ جوڑے اس نے عاجزی کی  انتہا کر دی ۔سجدوں کی راہ دکھاتی ہے معافی،ندامت کے آنسو اور عاجزی........
" پلیز بی ریلیکس نوری۔" ہاجرہ نے اس کے جڑے ہاتھ تھام لیئے۔ رودابہ اور دراج کے ساتھ عبیدہ بھی آکھڑی ہوئی تھی۔
" مجھے نماز پڑھنی نہیں آتی ہاجرہ....." قیامت آ گئی تھی۔
☆☆☆☆☆
شادی کے تیسرے دن دور دراز سے آئے تمام مہمان رخصت ہو رہے تھے۔جن میں زوار منصور بھی شامل تھا ۔ اگلے دن شام چار بجے اس کی امریکہ کی فلائٹ تھی۔
" نگہت تم یہاں کیوں بیٹھی ہو ؟" وہ گھر کے پچھلے لان میں بیٹھی ہوئی تھی ۔تبھی وہاں نوری آگئی تھی۔
" نوری کل  زوارجا رہا ھے۔" وہ نگہت پر حیران ہوئی۔جس کے کہنے کا انداز ایسا تھا جیسے وہ برسوں سے اس کی قربت کی عادی  ہو،یا اس کی محبت میں برسوں بِتائے ہوں ۔
" ہاں تو جانا تو ھے ناں سب نے اپنے گھر۔ " نوری نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر کہا ۔جو اداس تھیں ۔
" سچ بتانا نوری تمہیں کیسا لگتا ھے زوار؟" اس سوال پر نوری گڑ بڑا گئی۔دل اچھل کر حلق میں آگیا۔
" اچھا ھے ،پر تم کیوں زوار نامہ لے بیٹھی ہو سب باتیں ختم ہو گئیں کیا"؟
  " تم تو میری دوست ہو نوری "
" تو"؟
" مجھے محبت ہو گئی ھے زوار سے  سچی میں نے پہلے مرد کو محبت کی نگاہ سے دیکھا ھے ۔"
نوری کا سانس رک گیا ۔پھندہ گلے تک آیا۔
" پلیز تم میرا ایک کام کر دو ..." وہ منت سماجت پہ اتری ،نوری تو عجیب سی کیفیت میں گھری کھڑی تھی۔ اسے بھی وہ اچھا لگا تھا ۔مگر محبت نہیں تھیں ۔لیکن اب جب نگہت نے حقیقت بتائی تو اسکے دل میں پھانس سی گڑ گئی تھی۔
کیا کام"؟
" اس تک میرا پیغام پہنچا دو۔"اور اب پھندہ گلے  میں تنگ ہونے لگا۔جانے کیوں۔
"مم مگر میں ... کیسے کر سکتی ہوں یہ سب ؟" وہ ہکلا گئی۔
" کیسے بھی ،مگر پلیز۔" اس کے ہاتھ تھام کر نگہت سوالی بنی ہوئی تھی۔ اور نوری بے بسی کے جال میں پھنسی کھڑی تھی۔
" نگہت وہ عفان بھائی کا دوست ھے،ہمارے گھر مہمان ھے ،میں نہیں کہہ سکتی ۔" وہ بدک کر دور ہوئی۔نگہت نے بے چارگی سے اسے دیکھا۔
" بس یہی ایک کام کردو پھر کبھی مت کرنا "۔
" تم بس یہ مت کرواؤ باقی جو مرضی کروا لینا۔" نوری کے تو سن کر ہی رونگھٹے کھڑے ہو گئے۔
 " پلیز ۔" اس کی منتوں پر اسے ماننا ہی پڑا تھا۔مگر ڈر لگ رہا تھا۔
طے یہ ہوا تھا کہ نگہت ایک کارڈ اپنا محبت نامہ درج کرے گی ۔اور نوری وہ کارڈ اسے دے آئے گی ۔
" اف یار کیا بکواس محبت ھے یہ ...شٹ۔ " نوری کو غصہ آنے لگا۔
" یہی تو تمہیں نہیں پتہ نوری..."
" مجھے پتہ چاہیئے بھی نہیں۔"
" او۔کے بس یہ پہنچا دو"۔
شام کو وہ چائے سرو کر رہی تھی ۔زوار ور اسد سب سے قدرے فاصلے پر  موبائل پر گیم کھیل رہے تھے۔ ان کو چائے دینے کی باری آئی تو اس کے ہاتھ پاؤں لرزنے لگے۔
" اف یہ نگہت بھی ناں.. بہت بکواس قسم کی لڑکی ھے۔"  دل ہی دل میں اس نے اسے جی بھر کے  گالیں دیں ۔
" اوہ دھیان سے ۔" ان دونوں کے سامنے چائے رکھتے ہوئے اس کے ہاتھ لرز گئے۔ اسد نے فورا ٹرے سنبھالی ۔
" کیا ہوا نوری ؟" اسد نے پریشانی سے پوچھا۔زوار نے  بھی نظر اٹھا کر اسے دیکھا ۔جس کے ہاتھ ابھی تک کپکپا رہے تھے۔
  " کک کچھ نہیں...... اسد بھائی پتہ نہیں کیوں۔۔ " اس نے نہایت دھیمی آواز میں کہا تھا۔
اور وہاں سے تیزی سے نکلی۔
" ہاں ! دے آئی کیا  ؟" وہ کچن میں آتے ہی دھڑام سے کرسی پر گرنے کے انداز میں بیٹھی۔ نگہت دوڑ کر اس کے پاس آئی ۔
" اتنا آسان نہیں ھے ۔یہ لو خود دے دو مجھ سے نہیں ہوتا یہ سب ۔مجھے معاف ہی رکھو۔" اس کے کوٹ کی پاکٹ میں چھوٹا سا کارڈ تھا۔جو نکال کر اس نے نگہت کو واپس تھما دیا۔نگہت نے تاسف سے اسے دیکھا۔
" دیکھ لو تم سے میرا ایک کام بھی نہ ہو سکا۔" وہ روٹھے ہوئے انداز میں بولی۔
" کام ہو تو کروں ناں، یہ تو بکواس ھے۔ " وہ بگڑی۔
" پلیز پلیز نوری اب کردو ،وہ ابھی لان کی طرف گیا ھےاکیلا ،پلیز آخری بار۔"
نوری نے دانت کچکچائے ۔
"وعدہ کرو ٹریٹ دو گی ناں پھر؟ "
" ہاں ٹھیک ھے میری ماں میں جان بھی دے دوں گی ۔" نگہت اسے باہر کو دھکیلتے ہوئے بولی۔
" جان دے دو گی اس سب کی کیا ضرورت ھے مجھے کاہے کو ہلکان کرتی ہو پھر؟" اس نے جاتے جاتے  چوٹ کی۔
" وہ ....یہ " اس کے سامنے کارڈ لہراتے ہوئے وہ کچھ بول ہی نہیں پا رہی تھی۔
اسے وہ لان میں ہی مل گیا تھا۔
" جی کیا ... پلیز بتائیے میں سمجھا نہیں کچھ." زوار حیران تھا اسے اپنے سامنے دیکھ کر اور پھر وہ کارڈ وہ مسکرا دیا مگر وہ کہنا کیا چاہ رہی تھی اسے سمجھ نہیں آئی۔
" یہ نگہت نے دیا ھے آپ کو ۔" بمشکل اس نے اپنی بات پوری کی۔ اور فورا ًپلٹی۔
" کون نگہت؟"
" میری کزن "۔
"اوہ اچھا ،پر یہ ھے کیا " وہ معنی خیزی سے مسکراتے ہوئے   مسلسل سوال کیئے جا رہا تھا۔
" مم مجھے نہیں پتہ ۔" کہتے ہی لمحے کے ہزارویں حصے میں وہ کچن میں پہنچی۔
 " شاباش میرا شیر۔ " نگہت نے اس کے کندھے پہ تھپکی دی۔
" جسٹ شٹ اپ ،پانی دو مجھے۔ " وہ دھاڑی 
" اس نے کچھ کہا تو نہیں ناں؟ "
" نہیں بس مسکرادیا تھا۔" کہتے ہوئے اس کے دل پہ چوٹ لگی ۔مگر ایک بار پھر انجانے درد کو جھٹک کر وہ بھول گئی ۔
" اوہ تھنکس۔" نگہت   اچھلی۔
" ہنہ ...کینیڈا کی بلا ۔" اس نے ہنکارا بھرا اور کچن سے نکل آئی ۔ایک انوکھا درد دل میں چھپائے۔
٭٭٭٭٭٭٭

جاری ہے


Comments