Sanf e nazuk article by Ayesha Munir

آرٹیکل :صِنفِ نازک

تحریر: عائشہ منیر

 

 Sanf e nazuk article by Ayesha Munir

انتساب :

صنفِ نازک کا تاثر صرف کمزوری نہیں بلکہ یہ قوتِ برداشت، حوصلے اور قربانی کی علامت ہے۔ عورت کی اصل طاقت اس کی خاموشی میں پوشیدہ ہے جو دنیا کی ہر مشکل کا مقابلہ کرتی ہے۔

 

 

تعارف:

صنفِ نازک، ایک ایسا لفظ جو ہمیشہ عورت کی نرم، حساس اور کمزور فطرت کو ظاہر کرتا ہے لیکن کیا ہم نے کبھی یہ سوچا کہ یہ لفظ صرف ایک تصور ہے؟ کیا واقعی عورت اتنی نازک ہوتی ہے یا یہ صرف ایک معاشرتی روایت ہے جس میں عورت کو کمزور اور مجبور سمجھا گیا؟ دراصل عورت کی حقیقت کہیں زیادہ گہری اور پیچیدہ ہے۔ وہ نہ صرف اپنے دکھوں کو چپ کر کے سہہ لیتی ہے بلکہ ہر مشکل کا مقابلہ بھی کرتی ہے۔ اس لفظ میں عورت کی خاموش طاقت، اس کا حوصلہ اور اس کی قربانیوں کی داستان چھپی ہوتی ہے جو اکثر نظرانداز کر دی جاتی ہے۔

 

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

”صِنفِ نازک“

 

 یہ نام سنتے ہی ذہن میں ایک دھیمی سی، نازک سی، خاموش سی، مسکراتی سی عورت یا لڑکی کا خاکہ اُبھر آتا ہے لیکن کبھی یہ سوچا ہے کہ عورت کو صِنفِ نازک کہا ہی کیوں جاتا ہے؟ کیا واقعی عورت نازک ہے یا ہم نے اُسے نازک سمجھنے کی عادت اپنا لی ہے؟

 

میری نظر میں عورت سے زیادہ مضبوط کوئی ہستی نہیں۔ وہ بچپن ہی سے "بڑی" ہونے کی مشق میں مصروف رہتی ہے۔ جو بچی ماں کی گود میں گڑیاں کھیلتی ہے، اُسے اچانک بڑا کہہ کر کام کا بوجھ تھما دیا جاتا ہے۔ کوئی اُس سے یہ نہیں پوچھتا کہ وہ کیا چاہتی ہے؟ کھیلنا؟ سونا یا صرف ماں کے پہلو میں کچھ لمحے گزارنا؟

 

لیکن نہیں اُسے "سمجھدار" بننا ہوتا ہے۔ اُسے "ماں جیسی" بننا ہوتا ہے۔ وہ اپنی معصوم ماں کی طرح خاموش رہنا سیکھتی ہے، صبر کی زبان سیکھتی ہے اور جب بولنے کی ہمت کرتی ہے، جب حق و ناحق کا فرق جاننے لگتی ہے تو اُسے چُپ کرا دیا جاتا ہے۔"تم چھوٹی ہو۔۔۔۔" "تم لڑکی ہو۔۔۔۔"

"تمھاری بات کی کوئی اہمیت نہیں۔۔۔" اور یوں وہ خاموشی سیکھ جاتی ہے۔

 

یہی خاموشی اُس کا زیور بن جاتی ہے۔ وہ زیور جو ہر درد کو سہنے کی طاقت دے دیتا ہے۔ ہر ظلم پر آنکھیں بند کروا دیتا ہے۔ ایک ایسی زبان جو بند ہوتی ہے مگر دل کے اندر ایک طوفان ہوتا ہے۔ وہ دل جو روز ٹوٹتا ہے اور ہر بار خود ہی مرہم بھی بن جاتا ہے۔

 

پھر آتا ہے شادی کا وقت اور وہ "سمجھدار بیٹی" ایک اجنبی گھر کی دہلیز پر چھوڑ دی جاتی ہے۔ سب فخر سے کہتے ہیں۔ "ہماری بیٹی بہت صابر ہے، ہر بات مان لیتی ہے، سلیقہ مند ہے۔" لیکن کوئی نہیں پوچھتا کہ۔۔۔ کیا وہ خوش ہے؟

کیا اُسے اُس کے خواب یاد آتے ہیں؟ کیا اُسے اُس کی زندگی اپنی لگتی ہے؟

 

نہیں! کیونکہ اُسے خواب دیکھنے کا حق ہی نہیں دیا گیا۔ اُسے تو صرف دوسروں کو خوش رکھنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے یہی سکھایا گیا۔ اُس کا کوئی فیصلہ، کوئی رائے، کوئی ارمان  کچھ بھی اُس کا نہیں ہوتا۔

 

اور وہ لڑکی۔۔۔ جو کبھی چہکتی تھی، بولتی تھی، ہنستی تھی  آہستہ آہستہ ایک عورت بن جاتی ہے۔ وہ بیوی بنتی ہے، بہو بنتی ہے، ماں بنتی ہے۔ لیکن خود؟ خود کہیں کھو جاتی ہے۔

 

یہی وہ معاشرہ ہے جو بیٹے کو آسمان پر بٹھاتا ہے اور بیٹی کو زمین پر بھی جگہ دینے سے کتراتا ہے۔ اگر بیٹی کو دکھ ہو، اگر وہ شکایت کرے، اگر ناانصافی پر بولے  تو یہی کہا جاتا ہے۔۔۔۔

"صبر کرو ہر عورت سہتی ہے۔"

 

تو کیا عورت صرف سہنے کے لیے پیدا ہوئی؟ کیا اُس کی اپنی ذات کا کوئی درجہ نہیں؟ اُس کے جذبات، اُس کے خواب، اُس کی سوچ کا کوئی مقام نہیں؟ ہر فیصلہ اُس پر کیوں تھوپا جاتا ہے؟ کیوں اُسے کبھی نہیں پوچھا جاتا۔ "بیٹا تمھاری کیا رائے ہے؟"

 

مجھے مردوں سے صرف ایک شکوہ ہے  وہ عورت کو کمزور سمجھتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ عورت نے خود کو کمزور نہیں بنایا اُسے یہ معاشرہ کمزور بناتا ہے۔ جب تم خوش ہوتے ہو، تو اُسے عزت دیتے ہو۔۔۔۔ اور جب غصہ آتا ہے تو اُسی عزت کو روند ڈالتے ہو۔

 

عورت وفادار ہوتی ہے مگر اعتبار ایک بار ہی کرتی ہے۔ اور اگر اعتبار ٹوٹ جائے۔۔۔۔ تو عمر گزر جاتی ہے لیکن دل نہیں جڑتا۔

 

"عورت کی عزت اس لیے نہ کریں کہ وہ عورت ہے بلکہ اس لیے کہ تم ایک مہذب مرد ہو!"

 عورت کو عزت دینا کسی احسان یا رعایت کا نام نہیں بلکہ یہ ایک باشعور اور بااخلاق مرد کی بنیادی پہچان ہے۔ ہم عموماً عورت کی عظمت کو اُس کے رشتوں کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔ کبھی ماں کے روپ میں، کبھی بہن کے طور پر یا پھر بیوی کے رشتے میں مگر حقیقت یہ ہے کہ عورت اِن تمام رشتوں سے ہٹ کر صرف اور صرف "انسان" ہونے کے ناتے عزت کی مکمل حقدار ہے۔

اصل مردانگی تب ظاہر ہوتی ہے جب کوئی مرد۔۔۔ عورت کو کمزور سمجھنے کے بجائے، اُسے برابری کے مقام پر دیکھتا ہے  اُس کے وقار، اُس کی رائے، اُس کی خودداری کو تسلیم کرتا ہے۔ عزت کا تصور صرف رشتوں تک محدود نہیں ہوتا بلکہ وہ اُس شعور سے جنم لیتا ہے جو ہمیں دوسروں کو اُن کے مقام کے ساتھ دیکھنے کا سلیقہ دیتا ہے۔

 

خدارا! بیٹیوں کے دل نازک ہوتے ہیں اُنھیں  خاموشی نہ سونپیں اُنھیں سننا سیکھیں، اُنھیں سمجھنا سیکھیں

اگر بیوی کو عزت نہیں دے سکتے تو شادی مت کرو۔

اگر بیٹی کو پیار نہیں دے سکتے تو اُسے دنیا میں نہ لاؤ

اور اگر عورت کو انسان نہیں سمجھ سکتے تو اپنی سوچ کا جنازہ نکالو کیونکہ عورت محض صِنفِ نازک نہیں بلکہ زندگی کی بنیاد ہے، روح ہے، چراغ ہے، جو ہر اندھیرے میں روشنی دیتا ہے۔

 

ہم نے تمھاری مرضی کے مطابق زندگی گزار لی اب فقط ایک التجا ہے۔

"ہمیں سکون سے جینے دو۔"

ہم جیتے جی مر چکی ہیں اب کم از کم جینے کا حق تو دو۔

 

"ہمیں اتنی آزادی نہ دو کہ ہم سرکشی پر اُتر آئیں لیکن خدارا! ہمیں انسان تو سمجھو۔ ہماری سانسوں میں بھی درد ہے، ہمارے دل میں بھی خواب پلتے ہیں، ہماری آنکھوں میں بھی چمکنے کی خواہش ہے۔ ہمیں صرف ایک رشتہ نبھانے والی، صرف قربانی دینے والی یا خاموشی سے سہنے والی نہ سمجھیں۔ اگر آپ کو ہم سے وفا، صبر اور برداشت کی اُمید ہے تو ہمیں عزت، احساس اور برابری کا حق بھی دو۔ آپ کو ہمیں قابو میں رکھنے کی نہیں، ہمارے ساتھ چلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دیواروں میں قید مت کرو، ہمارے جذبوں کو قید مت کرو کیونکہ ہم بھی خون اور گوشت سے بنے انسان ہیں۔"

 

ہم کوئی کمزور سی مخلوق نہیں جنھیں نازک کہہ کر پکارا جائے۔ ہم وہ بیٹیاں ہیں جو ماں کی گود میں پلتی ہیں، باپ کے سائے میں جوان ہوتی ہیں، بھائی کے ساتھ ہنستی ہیں  اور وقت آنے پر اُنہی سب پر سب سے بڑھ کر قربانی دیتی ہیں۔ ہمیں جُھک کر جینا آتا ہے، سہہ کر مسکرانا آتا ہے لیکن اے مردِ معاشرہ! ہمیں کمزور سمجھنے سے پہلے ہمارا حوصلہ، ہماری برداشت، ہماری بے آواز چیخوں کو سنو۔۔۔۔ اور ایک لمحے کے لیے ہی سہی ہمیں انسان سمجھو۔۔۔۔

جذبات رکھنے والا، خواب رکھنے والا، حق رکھنے والا انسان۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

صنفِ نازک، وہ جو چپ چاپ سہہ لیتی ہے

دُکھوں کو اپنے دل میں چھپاتی ہے

ہنستے ہوئے، سب کچھ برداشت کرتی ہے

پر کوئی نہیں جانتا، وہ اندر سے ٹوٹتی ہے۔

 

خود کو قربان کر کے دوسروں کا خیال رکھتی ہے

پر کبھی کسی نے نہیں پوچھا وہ کیا چاہتی ہے؟

صنفِ نازک ایک پہچان ہے جو دنیا نے بنائی ہے

مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ ہر غم کو چھپاتی ہے۔

 

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ہمیں کمزور نہ سمجھو۔۔۔ ہم تو وہ خاموش طوفان ہیں جو خود پر گزر جائے تب بھی کسی کو ہوا تک نہیں لگنے دیتیں۔

 

*******************

تمت بالخیر۔۔۔

Comments