کچھ اذیتوں کی شاید بس معافی ہوتی ہے
✒️ ازقلم : ابیحہ
نور
ہماری
زندگی بہت سے نشیب و فراز سے بهر پور ہے .
کئی کئی مقامات ایسے بهی آتے ہیں جہاں ہم سمجهنے سے قاصر ہو جاتے ہیں کہ یہاں
رکا جائے یا آگے بڑھ لیا جائے . زندگی ایسے
کئی سوالات آپ کے سامنے لاکر کهڑے کر دیتی ہے جن سے آپ چاہ کر بهی پیچھا نہیں چهڑا
سکتے . اور یہ ایک الگ اذیت ہمارے وجود کو گهیر لیتی ہے . جو اندر ہی اندر ہمیں کهوکهلا
کر دیتی ہے .
اسلام
میں قصاص کا بہت خوبصورت قانون بنایا گیا ہے . جو ہر امیر و غریب ، بڑے چهوٹے ، حاکم
و فقیر ہر کسی کے لیے یکساں اور لازم ہے .
جس میں بنیادی احکام سر کے بدلے سر، کان کے بدلے، ہاتھ کے بدلے اور خون کے بدلے
خون لیا گیا ہے . (سورة المائدة - الآية 45)
تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھ
لیں ، ایسی مثالیں ہر جگہ ملیں گی جو انصاف و تکریم کی اپنی مثال آپ ہوں گی؛ لیکن میں
یہاں ان اذیتوں کی بات کرنا چاہ رہی ہوں جن کی کوئی سزا آج تک کوئی ذی شعور عالم فاضل
مقرر نہیں کر سکا . ہمارے گهر میں ایک بڑا خوبصورت طریقہ رائج ہے کہ روز نماز عشآء
سے قبل ہم تمام بہن بهائی ابو جی کے اردگرد بیٹھ جاتے ہیں . اور ابو جی ہمیں انتہائی
مؤثر لب و لہجہ میں زندگی کے اصول سیکهاتے ہیں جو کہ ذیادہ تر قرآن و حدیث پہ مشتمل
ہوتے ہیں. یقیناً یہی بہترین ضابطۂ حیات ہے
.
ایک
دن بات چلتے چلتے "ذہنی اذیت" پہ آ رکی . سب بہن بهائی کنگ اپنی اپنی سوچ
میں محو تھے اور میں سوالیہ نظروں سے ابو جی کو دیکھ رہی تھی۔ کچھ دیر کی خاموشی کے
بعد ابو گویا ہوئے اور فرمایا: میرے ایک جاننے والے نے مجهے ایک واقعہ سنایا تها، وہ
کچھ یوں ہے کہ :
"قدیم
زمانہ میں یورپین ممالک میں ایک شخص منصبِ منصف پہ قائم ہوا ، اور ایک دن بیٹھا ہر
تکلیف کی جزا و سزا ایک کاغذ پہ درج کرنے لگا ، خون کا بدلہ خون ، کان کے بدلے کان
، ہاتھ کے بدلے ہاتھ لکهنے کے بعد وہ ایک مقام پہ آ کر بالکل منجمد ہو گیا ، کہ اگر
کوئی کسی کو "ذہنی اذیت" دے تو اس کی سزا کیا مقرر کروں.....؟؟؟ کئی کئی
کتابیں چهان ماری، بڑے بڑے عقلاء و فضلاء سے دریافت کیا لیکن وہ شخص "ذہنی اذیت"
کی سزا مقرر نہ کر سکا. .... ذہنی اذیت ایک ایسی تکلیف ہے جس کا اندازہ صرف سہنے والا
ہی کر سکتا ہے کہ وہ کس قدر کرب و الم سے گزر رہا ہے. کہاں کہاں ، کس کس مقام پہ اس
نے آنسوؤں کو پیا اور صاف کیا ہے، یہ بس وہی جان سکتا ہے جس پہ گزر رہی ہو اور دوسرا
وہ جو اس کی شہ رگ سے بهی زیادہ قریب ہے . (ونحن أقرب إليه من حبل الوريد ۔ سورہ ق
۔ الآیۃ: 16)
ابو
جی کی بات پوری ہوتے ہی ہم سب ان کے کہنے پہ سونے کیلیے جا چکے تهے. لیکن میں ابهی
تک یہی سوچ رہی تهی کہ "ذہنی اذیت" کی کیا سزا ہو سکتی ہے؟؟ بالآخر میں اس
نتیجے پہ پہنچی کہ اس کی کوئی سزا نہیں ہو سکتی، کیونکہ آپ موازنہ نہیں کر سکتے کہ
کوئی کس قدر کرب سے گزرا ہے؟ نہ اذیت دینے والا اندازہ کر سکتا ہے اور نہ ہی سہنے والا،
برداشت کی کوئی حد مقرر کر سکتا ہے. بالآخر میں نے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ " کچھ اذیتوں کی شاید بس معافی ہی ہوتی ہے."
بے
ایمانی، دهوکہ ، مان کو توڑ دینا ، اور محبت کو اپنے پیروں تلے روند دینا کسی بهی صورت
قابلِ معافی تکلیفیں نظر نہیں آتیں. لیکن یقین کریں آپ ان تکلیفوں کی سزائیں بهی مقرر
نہیں کر سکتے . کسی کے مان کو توڑ دینا ، اعتبار کا بهرم نہ رکهنا بالکل ایسا ہی ہے
کہ جیسے آپ کسی کی ذات کو اپنی نظروں بے مول اور بے فائدہ سمجھ لیتے ہیں. دهوکہ ، فریب
، بے ایمانی اور ابے اعتباری کسی بهی رشتے
میں ہوں باعث تکلیف ہوتی ہیں . ایسی تکلیف جس کا زخم جسم پہ تو نظر نہیں آتا مگر دل
و دماغ پہ گہری چوٹیں ڈال دیتا ہے جن کا علاج بهی مشکل ہوتا ہے، اور درد کو برداشت
کرنا بهی کانٹوں پہ چلنے جیسا ہے.
اگر
آپ کسی کا اعتبار نہیں سنبهال سکتے ، تو اعتبار کی گرہیں بهی مت باندھیں. اگر آپ کسی
کا مان نہیں رکهنے سے قاصر ہیں تو مان تعمیر ہی نا کریں . اگر آپ کا ظرف اتنا چهوٹا
ہے کہ آپ کسی کی دی ہوئی عزت اور محبت کو نہیں سنبهال سکتے تو خدارا اس راہ میں قدم
ہی نہ رکهیں . رشتوں میں جب "احساس" مٹ جائے ، تو محبت
روٹھ جاتی ہے. اور تکلیف اسی شخص کو ہوتی ہے جو مخلص ہوتا ہے . جن سے اخلاص سے رشتہ
نبهایا ہوتا ہے شدید ذہنی کرب سے بهی وہی گزرتا ہے.
لیکن آج تک کوئی بهی اس ذہنی و قلبی
کرب کی سزا مقرر نہیں کر پایا.....
اسی لیے یہ وہی اذیتیں ہیں شاید جن کی بس معافی ہی ہوتی ہے.
کیونکہ
مومن کی پہچان ہی یہی ہے:
کہ
معاف کر دیتا ہے ، اللہ کیلیے ، اللہ کی خاطر اس کی محبت میں ہر تکلیف کو معاف کر دیتا
ہے.
کیا
آپ جانتے ہیں کہ انسانیت کی معراج کیا ہے ؟!
جو
دکھ، جو تکلیف ، جو کرب آپ کو ملا ہے، جن کانٹوں
پہ آپ نے سفر کیا ہے، اس متعلق آپ کا یہ سوچنا کہ وہ تکلیف کسی دشمن کو بهی نہ ملے!!
یہ ہے انسانیت اور یہی ہے انسانیت کی معراج
!!
اسی
اخلاقیات کی وجہ سے اسے "اشرف المخلوقات " کہا گیا ہے.
لیکن
اس تکلیف کا اندازہ سوائے رب کے کوئی تیسرا نہیں کر سکتا: کیونکہ وہ کہتا ہے ؛
نحن
اقرب من حبل الوريد
"اور
ہم اس کی شہ رگ سے بهی زیادہ قریب ہیں"
لہذا
بولنے والوں سے نہیں خاموشی سے سہنے والوں سے ڈریں کیونکہ ان کے خاموش آنسو سیدها عرش
سے ٹکراتے ہیں . اور اگر سہنے والے نے اپنا کیس بارگاہِ الہی میں پیش کر دیا تو تکلیف
دینے والے کے پلے کچھ نہیں رہنا. پیاری کتاب قرآن پاک کہتا ہے :
ان
بطش ربك لشديد
"بے
شک تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے"
قصاص
کے قانون میں ذہنی اذیت کی سزا مقرر نہیں ہوئی ، اگر سہنے والا معاف نہیں کرتا تو سزا
رب دیتا ہے. قلم خاموش ہونے سے انکاری ہے لیکن اس بات کے ساتھ اپنی بات مکمل کرنا چاہوں
گی "رشتوں کے تقدس کو پامال کرنے سے بچیں، محبت سے زیادہ اس میں اعتبار کا رنگ
بنائے رکهیں ، یاد رکهیں کہ تقدس چند لمحوں اور دنوں کا نہیں ہوتا تقدس کا تعلق دل
سے ہے اور یہ ہمیشہ کا ہوتا ہے."
اور
اپنے اندر معاف کر دینے والی عظیم صفت پیدا کریں. اس میں نہ صرف آپ کا سکون چهپا ہے بلکہ رب کی رضا کا بہترین زریعہ بهی ہے .
ان
لوگوں کو تو بے حساب اجر ملتا ہی ہے جو ، معافی
مانگنے پہ معاف کر دیتے ہیں.
لیکن
سلف الصالحين کے نزدیک ان لوگوں کے اجر کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا جو کسی کو بنا
معافی مانگے ہی معاف کر دیتے ہیں . اور یہ اللہ کے قرب کا قریب ترین زریعہ ہے.
-----🏵️-----
Comments
Post a Comment