Sanfi adam musawat (ek samaji aur islami tanazar) Article by M A Hanjrah

Sanfi adam musawat (ek samaji aur islami tanazar) Article by M A Hanjrah

صنفی عدم مساوات: ایک سماجی اور اسلامی تناظر

مقالہ نگار:ایم اے ہنجراہ

 

اگرچہ دنیا بھر میں سماجی ترقی اور انسانی حقوق کے حوالے سے بے شمار اقدامات کیے گئے ہیں، لیکن صنفی عدم مساوات آج بھی ایک سنگین چیلنج ہے۔ یہ مسئلہ صرف ترقی پذیر ممالک تک محدود نہیں بلکہ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی مختلف صورتوں میں موجود ہے۔ صنفی عدم مساوات سے مراد مرد اور عورت کے درمیان مواقع، حقوق اور وسائل کی غیر مساوی تقسیم ہے، جو کہ معاشرتی زندگی کے ہر شعبے میں، خواہ وہ معیشت، تعلیم، سیاست یا سماجی تعلقات ہوں، نمایاں ہے۔

 

تعلیم: ایک بنیادی حق مگر کس کے لیے؟

 

تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے، مگر آج بھی دنیا کے کئی حصوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو ثانوی حیثیت دی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے کچھ پسماندہ علاقوں میں لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کے اسکول جانے کی شرح اب بھی کم ہے (UNESCO, 2023)۔ پاکستان میں بھی دیہی علاقوں میں لڑکیوں کی تعلیمی شرح شہروں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔ اسلام نے تعلیم کے حق کو نہ صرف مرد بلکہ عورت کے لیے بھی فرض قرار دیا ہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: "علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے" (ابن ماجہ، حدیث 224)۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام تعلیم کے معاملے میں صنفی تفریق کو رد کرتا ہے۔

 

تنخواہ کا فرق: کیا محنت کا صلہ برابر ہے؟

 

مردوں کے مقابلے میں خواتین کی آمدنی میں فرق تقریباً عالمی سطح پر موجود ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کی Global Gender Gap Report 2024 کے مطابق خواتین کو یکساں کام کے عوض مردوں کے مقابلے میں کم اجرت دی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت صرف تقریباً 21 فیصد ہے (Pakistan Bureau of Statistics, 2023) جو کہ ایک تشویشناک حقیقت ہے۔ اسلام نے محنت کے عوض برابری کا اصول دیا ہے، جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے: "مرد کے لیے وہ ہے جو اس نے کمایا اور عورت کے لیے وہ ہے جو اس نے کمایا" (سورۃ النساء: 32)۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اسلام میں اجرت اور انعام کی بنیاد جنس نہیں بلکہ عمل ہے۔

 

سیاسی نمائندگی میں فرق

 

خواتین کی سیاسی نمائندگی بھی صنفی مساوات کے لیے اہم ہے، مگر بیشتر ممالک میں پارلیمان میں خواتین کی نشستیں اب بھی مردوں کے مقابلے میں کم ہیں۔ پاکستان میں خواتین کی مخصوص نشستوں کے باوجود فیصلہ سازی کے کلیدی عہدوں پر ان کی تعداد محدود ہے (Election Commission of Pakistan, 2023)۔ اسلام نے خواتین کو مشاورت اور رائے دینے کا حق دیا ہے۔ نبی ﷺ کے زمانے میں خواتین سیاسی اور سماجی معاملات میں رائے دیتی تھیں، جیسے کہ بیعتِ عقبہ اور بیعتِ رضوان میں خواتین کی شمولیت۔

 

سماجی و ثقافتی رکاوٹیں

 

صنفی عدم مساوات کے فروغ میں سب سے بڑا کردار سماجی رویوں اور روایتی سوچ کا ہے۔ کئی معاشروں میں اب بھی یہ خیال عام ہے کہ مرد گھر کا کفیل اور عورت صرف گھر کی ذمہ دار ہے۔ یہی سوچ عورتوں کے روزگار، تعلیم اور آزادی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتی ہے۔ حالانکہ قرآن واضح کرتا ہے کہ "میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کرتا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت" (سورۃ آل عمران: 195)۔ یہ آیت اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ کے نزدیک عزت و کامیابی کا معیار جنس نہیں بلکہ تقویٰ اور عمل ہے۔

 

حل کی سمت

 

صنفی مساوات کے لیے سب سے پہلے تعلیمی میدان میں لڑکیوں کو برابر مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو ایسے قوانین بنانے اور نافذ کرنے چاہئیں جو خواتین کی ملازمتوں میں اجرت کی برابری اور ہراسانی کے خاتمے کو یقینی بنائیں۔ میڈیا اور تعلیمی ادارے مثبت سوچ اور رویے کو فروغ دے کر معاشرتی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بھی یہ لازم ہے کہ عورتوں کو وہی عزت، حق اور مواقع دیے جائیں جو قرآن و سنت نے عطا کیے ہیں۔

 

خلاصہ

 

یہ آرٹیکل واضح کرتا ہے کہ صنفی عدم مساوات صرف خواتین کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کی ترقی کا مسئلہ ہے۔ اسلام نے مرد و عورت دونوں کے لیے تعلیم، محنت کے صلے، اور عزتِ نفس کے یکساں اصول فراہم کیے ہیں۔ مرد اور عورت دونوں کو مساوی مواقع دینا نہ صرف انصاف قائم کرنے کی بات ہے بلکہ پائیدار ترقی (Sustainable Development) اور اسلامی معاشرت کے حقیقی تقاضوں کی تکمیل بھی ہے۔

*******************

 

Comments