Larki aur moashra article by Syeda Kiran Fatima
صنف:
کالم
عنوان:
لڑکی اور معاشرہ
کالم نگار: سیدہ کرن فاطمہ
لڑکی،
جسے قدرت نے نرمی، محبت اور احساس کا پیکر بنا کر بھیجا ہے، وہی صدیوں سے معاشرتی رویوں،
رسم و رواج اور ناانصافیوں کا بوجھ اٹھائے چلی آ رہی ہے۔ کبھی اسے غیرت کے نام پر قربان
کیا گیا، کبھی رسموں کی بھینٹ چڑھا دیا گیا، اور کبھی محض اس لیے کم تر سمجھا گیا کہ
وہ “لڑکی” ہے۔
آج
کے جدید دور میں بھی جب تعلیم، شعور اور مساوات کے نعرے لگ رہے ہیں، تب بھی لڑکی کو
قدم قدم پر اپنے وجود کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔ اس کے لباس پر تبصرے، اس کے خوابوں پر
پابندیاں، اس کی رائے پر طنز، سب کچھ اس بات کا ثبوت ہیں کہ معاشرہ ابھی تک مکمل طور
پر آزاد نہیں ہوا۔
اگر
لڑکی پڑھنا چاہے تو اسے کہا جاتا ہے "اتنی تعلیم کا کیا فائدہ، آخر کار تو گھر
ہی سنبھالنا ہے"، اور اگر وہ کام کرے تو سننے کو ملتا ہے "گھر کی عورتوں
کو باہر نہیں نکلنا چاہیے"۔ گویا لڑکی کے ہر قدم پر معاشرتی فتوے تیار بیٹھے ہیں۔
لیکن
حقیقت یہ ہے کہ لڑکی ہی گھر کی روشنی، خاندان کی بنیاد اور قوم کی تربیت گاہ ہے۔ ایک
پڑھی لکھی، باوقار اور باشعور لڑکی ایک مضبوط معاشرے کی ضمانت ہے۔ اگر ہم اسے موقع
دیں، اس پر اعتماد کریں، اور اس کے خوابوں کو پروان چڑھنے دیں، تو یہی لڑکی آنے والی
نسلوں کی قسمت بدل سکتی ہے۔
وقت
آ گیا ہے کہ معاشرہ اپنے رویے بدلے، لڑکی کو بوجھ نہیں، نعمت سمجھے۔ کیونکہ جب لڑکی
بااختیار ہوتی ہے تو پورا معاشرہ ترقی کرتا ہے۔
اختتام:
لڑکی
کو کمزور نہیں، مضبوط سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ وہ صرف ایک فرد نہیں، بلکہ وہی معاشرے
کی بنیاد ہے۔
*******
Comments
Post a Comment