Kya Pakistan mein koi insaf pasand baqi nahi raha article by Qamar Un Nisa Qamar

Kya Pakistan mein koi insaf pasand baqi nahi raha article by Qamar Un Nisa Qamar

قمرالنساء قمر

--------------------

*کیا پاکستان میں کوئی انصاف پسند باقی نہیں رہا*

 

اسلام کے نام پر بننے والے ملک پاکستان میں 8 اکتوبر سے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ یہ مظلوم مسلمان اہلِ غزہ سے یکجہتی کرنے نکلے تھے، جیسا کہ پوری دنیا میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ نکل رہے ہیں۔ لیکن *پاکستان میں آخر ایسا کیا ہوا ہے کہ ان پر اتنا ظلم کیا جا رہا ہے۔* یہ جاننے سے پہلے کچھ حقائق پر نظر ڈال لیتے ہیں۔

 

مصدقہ اطلاعات کے مطابق دینی و سیاسی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان نے 3 اکتوبر، بروزِ جمعہ المبارک، فلسطینی بھائیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے "لبیک یا اقصیٰ مارچ" فیض آباد سے اسلام آباد تک کرنے کا اعلان کیا۔ مارچ کی تاریخ 10 اکتوبر تھی، جس کی باقاعدہ حکومت سے اجازت لی گئی۔ اس کے باوجود حکومت نے آٹھ اکتوبر، شام چار بجے، پورے پاکستان میں کریک ڈاؤن کیا، تحریک کے ہزاروں کارکن گرفتار کر لیے گئے۔ آٹھ اکتوبر کو ہی، رات کے اندھیرے میں، مرکزِ تحریکِ لبیک پر حملہ کیا گیا، اور دو لوگ شہید کر دیئے گئے۔ نو اکتوبر کو ٹرمپ امن معاہدے پر سائن ہو گئے، ہو سکتا تھا کہ تحریک مارچ کو کینسل کر دیتی، لیکن تب تک حکومت سات حملے مرکزِ تحریکِ لبیک پر کر چکی تھی، اس کے بعد مزید دو افراد شہید کر دیے گئے۔

 

دس اکتوبر، جمعہ المبارک، پھر حملہ کیا گیا، سینکڑوں لوگ شدید زخمی ہو گئے۔ اب دو گھنٹے کا، یعنی فیض آباد سے اسلام آباد تک والا مارچ، لاہور سے اسلام آباد مارچ میں بدل گیا۔ 10 اکتوبر سے 13 اکتوبر تک یہ قافلہ گولیوں کی برسات میں بھی چلتا رہا۔ مصدقہ اطلاعات کے مطابق، دس اکتوبر سے 12 اکتوبر کی رات تک تقریباً 12 شہادتیں اور 130 افراد شدید زخمی تھے۔ تحریکِ لبیک کے سربراہ کے گھر چھاپا مارا گیا، ان کی والدہ، بہنیں، بیوی، دو معصوم بچیوں سمیت خواتین کو گھر سے اٹھا لیا گیا (بقول وزیرِ اعلیٰ پنجاب، خواتین ان کی ریڈ لائن تھیں)، مسجد کی بے حرمتی کی گئی، کئی مدارس کو بند کر دیا گیا، تحریک کے دفاتر بند کر دیے گئے، کچھ کارکنوں کے گھر مسمار کر دیے گئے۔

 

پھر 13 اکتوبر، صبحِ فجر کی اذانوں کے وقت، خون کی جو ہولی کھیلی گئی، پاکستانی تاریخ میں اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اطلاعات کے مطابق "لبیک یا اقصیٰ مارچ" کو چاروں طرف سے گھیر کر ہیلی کاپٹرز، بکتر بند گاڑیاں، مشین گنوں سے فائرنگ کی گئی، اور مرکزی کنٹینرز کو نشانہ بنایا گیا۔ اور آخر میں مرکزی کنٹینرز پر ہینڈ گرینڈ بم مارے گئے، جس کے بعد ایک قیامت برپا ہے۔

 

غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق پہلے کریک ڈاؤن میں شہداء کی تعداد 280 اور زخمیوں کی تعداد 1900 سے زائد بتائی گئی۔ بتایا جا رہا ہے کہ 70 لاشوں پر بکتر بند گاڑیاں چڑھا دی گئی ہیں، 12 لاشوں کو جلا دیا گیا ہے۔ لاشوں کو اٹھانے کے لیے جانے والوں کو بھی گولیاں ماری جا رہی ہیں، یہاں تک کہ لاشوں کو نہر میں پھینکا گیا ہے۔ جبکہ اب شہداء کی تعداد 300 سے 700 تک بتائی جا رہی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر پابندی ہے۔ تحریک کی قیادت کی کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے، ذرائع کے مطابق تحریک کے سربراہ حافظ سعد حسین رضوی کو بھی 1 یا 3 گولیاں لگی ہیں، انس حسین رضوی بھی زخمی ہیں۔ تاہم حالات سنگین ترین صورتحال اختیار کر چکے ہیں۔ ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سڑکوں پر زخمی بے یار و مددگار پڑے ہیں۔ لا پتہ افراد کو ان کے لواحقین کی جانب سے ڈھونڈا جا رہا ہے۔ شہداء کی لاشوں تک کو اغواء کیا گیا ہے۔ جو شواہد، ویڈیوز اور دیگر ذرائع سے مل رہے ہیں وہ قابلِ بیان نہیں ہیں۔

 

 *سوال یہ ہے کہ اس ملک کا آئین تو احتجاج کا حق دیتا ہے، اسے تحفظ فراہم کرتا ہے* ، آخر *کس قانون کے تحت نہتے پاکستانی شہریوں پر، اور الیکشن کمیشن پاکستان سے رجسٹرڈ پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت کے کارکنوں پر ظلم کی انتہا کر دی گئی۔کیا فلسطین سے یکجہتی اتنا بڑا جرم بن گیا ہے کہ اس کی بنیاد پر کسی کو بھی قتل کر دیا جائے گا۔*  یا پھر اس سنگین ترین صورتحال کے پیچھے کچھ بڑی وجوہات ہیں؟

 

پاکستان میں پہلے بھی مختلف جماعتوں کی طرف سے فلسطین کے حق میں احتجاج ہوئے، اور اگر تحریکِ لبیک کی ہی بات کی جائے تو اس سے پہلے بھی تحریک کی جانب سے 13 اکتوبر 2023، 5 نومبر 2023، 21 نومبر 2023، 6 جون 2024، 13 جولائی 2024، 22 مارچ 2025 کو بھی فلسطین کے حق میں مارچ یا دھرنے ہوئے ہیں۔

 

لیکن *آخر اب ایسا کیا ہوا ہے کہ یکجہتیِ فلسطین مارچ پر بدترین تشدد کیا جا رہا ہے؟* ظلم و بربریت کی وہ تاریخ رقم کی گئی ہے کہ اس سے پہلے پاکستانی تاریخ میں بھی ایسی مثال نہیں ملتی۔ رانا ثنا اللہ نے خود یہ بیان دیا ہے کہ اس مارچ کا کوئی مطالبہ نہیں تھا، وہ مارچ جس کا خود حکومت کے مطابق کوئی مطالبہ بھی نہیں تھا، اس کے ساتھ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

 

عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو پیس معاہدے کے بعد بھی مختلف ممالک کے لوگ نکلے، صرف برطانیہ میں دو لاکھ لوگ نکلے۔ 12 اکتوبر 2025 کی ہی بات کی جائے تو دنیا کے مختلف ممالک میں لاکھوں افراد نے فلسطین کے حق میں آواز بلند کی۔ لندن میں دس ہزاروں افراد، برلن میں پانچ ہزار سے زائد، اور ویانا میں ہزاروں مظاہرین نے فلسطینیوں کے حق میں ریلیاں نکالیں۔ ناروے میں اسرائیل اور ناروے کے فٹبال میچ کے دوران عوام نے فلسطین کے حق میں احتجاج کیا۔ سوئٹزرلینڈ کے شہر برن میں بھی ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے، جبکہ آسٹریلیا میں 40,000 سے زائد لوگوں نے سڈنی کے مرکزی بزنس ڈسٹرکٹ میں مظاہرہ کیا۔ پورے ملک میں 27 شہروں — بشمول میلبرن، کینبرا، پرتھ، ایڈیلیڈ اور کیرنس — میں فلسطین کے حق میں مظاہرے ہوئے۔ 13 اکتوبر کو ساوتھ افریقہ میں احتجاج ہوا۔

 

الغرض، سوال یہ ہے کہ پیس معاہدے سے پہلے یا اس کے بعد کسی بھی ملک میں احتجاج کرنے والوں کو سیکورٹی دی گئی، غیر مسلم ممالک، یہاں تک کہ امریکہ اور تل ابیب میں بھی احتجاج کیے گئے، مگر کہیں کسی ملک میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ کوئی ایک قتل بھی کیا گیا ہو۔ قتل تو دور کی بات، کسی ایک ملک میں بھی گولی نہیں چلی۔

 

پھر آخر اس ظلم کا کیا جواز ہے؟ حالات بتا رہے ہیں کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے، یہ ظلم بے سبب نہیں ہے۔ جبکہ تحریک کی طرف سے بار بار " *گولی چلانے کی وجہ*" پوچھی گئی اور مذاکرات کی دعوت دی گئی، اس کے باوجود نہ گولی روکی گئی نہ مذاکرات کیے گئے۔

 

تاہم ایسا لگتا ہے کہ یہ سب سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا۔ ٹرمپ "پیس پلان" پر دستخط تو پہلے ہی،چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور ابراہم اکارڈ میں شمولیت کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ تحریکِ لبیک اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کے حق میں پاکستان کی ایک طاقتور آواز ہے، اس لیے لگتا ہے کہ اس آواز کو دبانا ضروری سمجھا گیا ہے۔ کچھ نامور صحافیوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ تحریک کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ خیر، یہ تو وقت بتائے گا کہ کون کس کو ختم کرے گا۔ لیکن *اس ظلمِ عظیم پر حکومتِ وقت کے ساتھ ظلم پر خاموشی اختیار کرنے والے بھی شریکِ جرم ہیں۔*

 

نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: " *کسی مومن کو (بے گناہ) قتل کرنے میں اگر زمین و آسمان والے شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ ان سب کو جہنم میں دھکیل دے۔* " (ترمذی)

 

قرآنِ عظیم میں اللہ عزوجل فرماتا ہے: " *جس نے کسی ایک انسان کو قتل کیا تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا* ۔" نبیِ رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا: " *اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کا ختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیادہ سہل ہے۔* " (ترمذی)

 

اگر کوئی انصاف پسند باقی ہے تو ان حقائق اور قرآن و حدیث کی روشنی میں ہر فرد، خواہ وہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتا ہو، خود فیصلہ کر لے۔

 

ظلم کے سامنے جو لب نہ کھولے وہ بھی ظالم ہے

اے دنیا دکھ ہے مجھ کو تیرے بے زبان ہونے پر

*************

Comments