Jehad (ek soch, ek safar, ek qurbani) article by Umm e Habiba

Jehad (ek soch, ek safar, ek qurbani) article by Umm e Habiba

جہاد: ایک سوچ، ایک سفر، ایک قربانی

 

میرے پہلے آرٹیکل کے بعد بہت سے لوگوں نے حوصلہ افزائی کی، اور کچھ نے دل سے نکلے سوالات بھی بھیجے۔ ان سب میں ایک سوال نے میرے قلم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔۔

 "جہاد کیا ہے؟ اور کیا ہر کوئی مجاہد بن سکتا ہے؟"

یہ سوال عام سا لگتا ہے، مگر حقیقت میں بہت وزنی ہے۔

 

جہاد، صرف میدانِ جنگ میں تلوار اٹھانے کا نام نہیں۔۔۔۔ بلکہ یہ ایک ایسی راہ ہے جس پر چلنے والا اپنا سکون، اپنی خواہشات، حتیٰ کہ اپنی جان تک قربان کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ مجاہد صرف ہتھیار نہیں اٹھاتا، وہ اپنے ایمان کو ہتھیار بناتا ہے۔ اس کا دل اخلاص سے لبریز، اور سینہ پہاڑ جیسا مضبوط ہوتا ہے۔ وہ شکست سے نہیں ڈرتا، وہ شہادت کا مشتاق ہوتا ہے۔

 

لیکن کیا صرف جان دینا ہی جہاد ہے؟ 

نہیں! جہاد کئی شکلوں میں ہے، اور ہر مسلمان کسی نہ کسی جہاد میں شامل ہو سکتا ہے۔

 

جہاد بالنفس : یہ سب سے پہلا اور سب سے مشکل جہاد ہے۔ 

یہ وہ جہاد ہے جو انسان اپنی خواہشات، گناہوں، نفس، اور شیطان کے خلاف کرتا ہے۔ نفس کے خلاف لڑنا، اپنی برائیوں کو چھوڑنا اور نیکی کی طرف آنا ایک مسلسل جنگ ہے۔ یہی جنگ اصل مجاہد بناتی ہے۔ وہ جو خاموشی سے برائیوں سے تائب ہو کر اللہ کی رضا کے لیے جیتا ہے، وہ درحقیقت ایک عظیم مجاہد ہے۔

 

جہاد بالعلم و الدعوۃ : یہ قلم، زبان، اور دعوت کا جہاد ہے۔

 

جو لوگ علمِ دین سیکھ کر دوسروں تک پہنچاتے ہیں، وہ بھی جہاد میں شریک ہیں۔ آج کے دور میں موبائل، سوشل میڈیا، ہر پلیٹ فارم دعوت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ آپ کی ایک پوسٹ، ایک جملہ، کسی کی زندگی بدل سکتا ہے۔

 

اور میرا فلحال کا جہاد ہے… قلم۔

جی ہاں! میرا ہتھیار ہے میرا قلم، جو لفظوں کو تلوار بنا دیتا ہے۔ آپ بھی اپنے الفاظ کی دھار سے ظالموں کے چہرے بے نقاب کر سکتے ہیں ۔ یہ تحریریں صرف الفاظ نہیں، یہ درد ہیں، سچائی ہیں، اور انقلاب کی چنگاریاں ہیں۔ 

قلم سے کیا گیا جہاد دلوں کو جھنجھوڑ دیتا ہے، ذہنوں کو بیدار کرتا ہے اور ظلم کے نظام میں دراڑ ڈال دیتا ہے۔

 

جہاد بالمال و العمل: اگر آپ طبیب ہیں تو زخمی مجاہد کا علاج کرنا بھی جہاد ہے۔ اگر آپ صاحبِ حیثیت ہیں تو مجاہدین کی مدد کرنا بھی جہاد ہے۔ جو بھی اپنی صلاحیت، وقت، علم یا مال اللہ کی راہ میں لگاتا ہے، وہ اللہ کے نزدیک مجاہد ہے۔

 

اور پھر آتی ہے… آخری حد.. جہاد بالسّلاح:

جہاد بالسّلاح، یعنی ہتھیار اٹھا کر اللہ کے دشمنوں سے مقابلہ کرنا۔ 

یہ وہ مرحلہ ہے جب ظلم اپنی آخری حد کو چھو جائے، جب فریادیں چیخوں میں بدل جائیں، جب بچوں کے لاشے، ماؤں کی آہیں، اور معصوموں کی خاک میں لپٹی امیدیں دنیا کے انصاف کو جھنجھوڑ دیں... تب ایک مجاہد اپنے خون کی قسم کھا کر نکلتا ہے۔ 

وہ جانتا ہے کہ اب واپسی نہیں، اب جان دینا عبادت ہے۔ اب شہادت کامیابی ہے۔

 

یہ وہ جہاد ہے جس میں تلوار سے پہلے دل کی نیت صاف ہونا شرط ہے۔ 

یہ وہ جہاد ہے جو صرف مظلوموں کو بچانے نہیں، بلکہ انسانیت کو زندہ رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ 

یہ وہ جہاد ہے جس کی ایک ضرب فرشتوں کو بھی فخر دلا دیتی ہے۔

 

لیکن سنو… 

اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ مسلمان ختم ہو چکے، اگر تم یہ مان بیٹھے ہو کہ امت جاگ نہیں سکتی، 

تو تم غلط ہو! 

مسلمانوں میں زوال آیا ہے، لیکن اندھیرا مکمل نہیں ہوا۔ 

ابھی بھی کچھ چراغ جل رہے ہیں… 

کہیں وہ چراغ علم کے ہیں، کہیں قلم کے، 

کہیں نفس کے خلاف جنگ ہے، تو کہیں باطل نظام سے ٹکرا جانے والے دل ہیں۔

 

ہاں، کچھ اپنے عقائد بھول بیٹھے ہیں، 

لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو روز اپنی خواہشات کا گلا گھونٹ کر اللہ کی رضا کے لیے جیتے ہیں، 

جو سوشل میڈیا کے میدان میں حق کی آواز بلند کر رہے ہیں،

جو قلم سے لڑائی لڑ رہے ہیں، 

جو مال سے مدد کر رہے ہیں ،

اور کچھ ایسے بھی ہیں جو جانوں سے قربانیاں دے رہے ہیں۔

 

اور یاد رکھو… 

اللّٰهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

"اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔"

 

ہو سکتا ہے جو تم معمولی سمجھتے ہو، وہی اللہ کے نزدیک سب سے بڑا مجاہد ہو۔

 

اٹھو! 

اپنے دل سے سوال کرو۔۔۔ 

تم کس جہاد کے لیے تیار ہو؟ 

اور جواب دو… دل سے، نیت سے، عمل سے۔

 

امت کو تمہارے حصے کے جہاد کا انتظار ہے۔

 

 

تو اے نوجوانو! اے اہلِ درد! 

یہ مت سمجھو کہ تم صرف میدان میں جا کر ہی مجاہد بن سکتے ہو۔ 

تمہاری نیت، تمہارا قلم، تمہاری زبان، تمہارا علم، تمہاری توبہ — سب کچھ اللہ کی راہ میں ہو سکتا ہے، اگر تم سچے دل سے جہاد کا ارادہ کرو۔

 

یہ وقت صرف بولنے کا نہیں… اب عمل کا وقت ہے۔

 

اٹھو! اپنے حصے کا جہاد شروع کرو۔

از قلم: اُمِّ حبیبہ

*********************

Comments