Haq any wala hai aur batal mitny wala hai Article by Umme Habiba
"حق آنے والا ہے اور باطل مٹنے والا ہے ۔"
از قلم: اُمِ حبیبہ
کبھی
تم نے اندھیرے میں کسی بچے کی چیخ سنی ہے؟ کبھی کسی ماں کی وہ آہ جو سینے سے نکل کر
عرش تک جاتی ہے؟ مجھے یہ سب خوابوں میں دکھائی دیتا ہے۔ خواب نہیں، جیسے میری روح فلسطین
کی گلیوں میں بھٹک رہی ہو، جہاں ایک ایک پتھر خون سے تر ہے، جہاں لاشوں پر آذانیں ہو
رہی ہیں، اور آسمان بھی لرزتا ہے، پر دنیا خاموش ہے۔
مجھے
وہ ننھے بچے نظر آتے ہیں جن کے ہاتھوں میں کھلونے نہیں، پتھر ہیں… جن کی آنکھوں میں
خواب نہیں، صرف سوال ہیں: "کہاں ہیں وہ لوگ جو امت کہلاتے ہیں؟"
میری
نیند اُڑ جاتی ہے، میرا دل کٹنے لگتا ہے، میرے ہاتھ کانپتے ہیں کہ یااللہ! مجھے وہ
طاقت دے کہ میں اس جہاد میں تنہا ہی کیوں نہ ہوں، تیرے دین کا عَلَم بلند کر سکوں۔
ہمارے
حکمران، ہمارے جرنیل، بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں… مگر عمل؟ صرف خاموشی۔
کیا
ہم وہ قوم نہیں جس نے حال ہی میں بھارت کو للکارا؟ افغانستان کو جواب دیا۔۔۔کیا ہماری
فوج کو دنیا کی سب سے بہادر فوج نہیں کہا جاتا؟ تو پھر فلسطین کے بچے، ماں، بیٹیاں
ہمارے نہیں؟ کیا وہ انسان نہیں؟ کیا وہ مسلمان نہیں ؟ کیا ان کا خون اتنا سستا ہے کہ
صرف مذمتی بیانات اور پوسٹرز کافی ہیں؟
مجھے
اب صرف اک لفظ یاد آتا ہے: غیرت۔
یہ
غیرت کہاں چلی گئی؟ کیا ہم صرف تب اٹھیں گے جب ظلم ہمارے دروازے پر آئے گا؟
نہیں!
اگر آج ہم خاموش رہے، تو کل ہمارے لیے بھی کوئی آواز نہ اُٹھائے گا۔
اللہ
کی قسم! اگر میرے ہاتھ میں کبھی اختیار آیا تو میں ظلم کے ہر قلعے کو گرا دوں گی۔ میں
امت کی بیٹیوں کی ڈھال بنوں گی۔ مجھے نہ کسی کرسی کا خوف ہے، نہ کسی گولی کا ڈر…
مجھے
ڈر ہے تو بس اُس دن کا، جب رب پوچھے گا:
"جب
میرے بندے پکار رہے تھے، تُو کہاں تھی؟"
اور
میں چاہتی ہوں، اُس دن سر بلند کر کے کہوں:
"یا
رب! میں نے آواز اُٹھائی، میں تیرے دین کی خاطر لڑی، میں تیری رضا کے لیے چپ نہ رہی۔"
ہاں،
مجھے یاد ہے کہ میں اُس نبی کی امّت ہوں جنہوں نے فرمایا:
"اگر
ساری دنیا تمہیں فائدہ پہنچانا چاہے، تو نہیں پہنچا سکتی جب تک میرا رب نہ چاہے،
اور
اگر ساری دنیا تمہیں نقصان دینا چاہے، تو وہ بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتی جب تک میرا رب
نہ چاہے۔"
یہ
جملے میرے دل کی ڈھال ہیں، میرے جذبے کی آنچ ہیں۔
میرے
رب کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے،
اس
نے مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑا،
وہ
میری خاموش آہوں کو بھی سنتا ہے،
میرے
سجدوں کے آنسو بھی گنتا ہے،
میرے
دل کے زخم بھی جانتا ہے۔
اور
اب جب زمین پر ظلم بے لگام ہو چکا ہے،
جب
مظلوموں کی چیخیں آسمان چیر رہی ہیں،
جب
یتیم بچے اپنے خون میں لپٹے سسک رہے ہیں،
جب
بیٹیاں بے پردہ ہو کر دشمن کے سامنے گریہ کر رہی ہیں،
تو
بتاؤ! کیا میں چپ رہوں؟
نہیں!
میں
نکلوں گی،
رب
کی رضا کے لیے،
ظالموں
کے سامنے دیوار بن کر،
مظلوموں
کی ڈھال بن کر،
کفر
کے ایوانوں کو لرزا دینے،
اور
ان کے غرور کو مٹی میں ملانے۔
میرے
ہاتھ خالی ہوں،
لیکن
دل میں ایمان ہے۔
میری
زبان کمزور ہو سکتی ہے،
لیکن
جذبہ پہاڑ جیسا ہے۔
اور
اگر میرے ہاتھ میں صرف دعا ہو،
تو
جان لو، میں دعا سے بھی انقلاب لا سکتی ہوں۔
لا
الہ الا اللہ ۔۔۔
یہ
میرا پیغام ہے،
میرا
اعلان ہے،
میرا
اسلحہ ہے،
میری
خواہش ہے کہ ایک دن فتحِ حق کے بعد میں مسجد اقصیٰ کے صحن میں سجدہ ریز ہوں، اپنے رب
کے حضور اپنی ساری تھکن، آنسو، اور دعا کی صدائیں پیش کر دوں۔
پھر
بیت المقدس کی ہر گلی سے صدا بلند ہو:
"حق
آ گیا اور باطل مٹ گیا!"
وہ
سرزمین جس کا ذکر قرآن میں آیا، جو انبیاء کی مقدس وادی ہے، وہاں اب صرف امن، اذان
اور قرآن کی روشنی ہو۔
یہ
زمین مسلمانوں کی ہے، اور رہے گی، ان شاء اللہ۔
حق
آنے والا ہے اور باطل مٹنے والا ہے ۔۔۔
از
قلم اُمِ حبیبہ
*******************
Comments
Post a Comment